؍ اکتوبر ۱۹۴۷ء سے مقبوضہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان بنیادی مسئلہ ہے۔ پاکستان کا مستقل موقف ہے کہ ’’تنازعہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (UNSC) کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہیے‘‘۔ اپنے اصولی موقف کو برقرار رکھتے ہوئے، اسلام آباد نے نئی دہلی کو تنازعے کے پُرامن حل کے لیے قائل کرنے کے لیے مختلف طریقے آزمائے ہیں۔
پاکستان نے تقریباً تمام عالمی سطح پر تسلیم شدہ تنازعات کے حل کے طریقوں کو اپنانے کی کوشش کی ہے۔ پاکستان نے ’شملہ معاہدے‘ کے ذریعے دو طرفہ نقطۂ نظر جیسے کئی سفارتی ذرائع آزمائے۔ اسی طرح پاکستان نے تیسرے ملک کو بطور ثالث استعمال کرنے کی کوشش کی، لیکن سب بے سود۔ صدر ضیاءالحق اور وزیراعظم راجیو گاندھی کے زمانۂ حکومت میں اسلام آباد نے نسبتاً چھوٹے تنازعات پر مذاکرات (battom-up approach) کا راستہ اختیار کرنے کی کوشش کی جس میں کم پیچیدہ سیاسی مسائل جیسے سیاچن، سر کریک، ویزا نظام سے متعلق مسائل اور عوام سے عوام کے رابطوں میں بہتری پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔ امید تھی کہ مذاکرات کے لیے سازگار ماحول بھارت کو مسئلہ کشمیر کے حل پر مجبور کر دے گا۔
انڈین وزرائے اعظم آئی کے گجرال سے لے کر منموہن سنگھ تک ۱۹۹۰ء اور ۲۰۰۰ء کے عشروں کے دوران، پاکستان کی اعلیٰ سول اور فوجی قیادت نے کشمیر پر بھارت کی مغرورانہ ذہنیت کو تبدیل کرنے کی حکمت عملی کے طور پر اعتماد سازی کے اقدامات (CBMs) اور ’جامع مذاکرات‘ کا راستہ اپنانے کی کوشش کی۔ مگر اس دوران میں انڈیا میں برسرِاقتدار آنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت کے دورِ حکومت میں تنازع میں مزید پیچیدگیوں کی پرتیں شامل ہو گئیں۔ اس کے نتیجے میں، ۲۰۱۹ءکے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان تنائو بڑھ گیا ہے۔
اسلام آباد میں حال ہی میں دو مسائل پر بات چیت جاری ہے: مقبوضہ کشمیر اور پاک بھارت تعلقات کا مستقبل۔ پاک بھارت تعلقات کے مختلف پہلوؤں اور تنازعہ کشمیر کو سمجھنے کے لیے اس طرح کے مذاکرات اہم ہیں۔ تاہم، کشمیر پر ایک طویل المدتی، متحرک اور مضبوط حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ معاشی اور سیاسی طور پر اس مشکل وقت میں مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان کی حکمت عملی چار اصولوں پر مبنی ہونی چاہیے: اندرونی استحکام، اسٹرے ٹیجک برداشت، عالمی شراکت داری کو فروغ دینا، اور ایک ’مربوط کشمیر حکمت عملی‘ تیار کرنا۔
پاکستانی سول اور فوجی قیادت پر قوم کو سیاسی طور پر استحکام اور معاشی طور پر بحال کرنے کے لیے ’اندرونی استحکام‘ کے لیے ایک واضح روڈ میپ کا خاکہ تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں وہ تمام جوہری اجزا موجود ہیں، جو ایک جدوجہد کرنے والی قوم کو سیاسی اور اسٹرے ٹیجک طور پر دنیا کی ایک بااثر ریاست میں تبدیل کر سکتے ہیں۔ ایک اہم جیو اسٹرے ٹیجک محل وقوع، اہم بندرگاہوں، مضبوط افواج، نوجوانوں کی افرادی قوت، بھرپور ورثہ اور ثقافت، سافٹ پاور اور متحرک سول سوسائٹی کے ساتھ، پاکستان دنیا کی ترقی پذیر اقوام کی دوڑ میں شامل ہونے کی بخوبی صلاحیت رکھتا ہے۔
اس مقصد کے لیے ۱۰، ۱۵ سال کے دوران میں اندرونی استحکام کے ایک واضح روڈ میپ کی ضرورت ہے، جہاں پاکستان کو کئی گمبھیر مسائل سے باہر آنے کی ضرورت ہے۔ ادائیگیوں کے توازن کے بحران، قومی قرضوں، تجارتی خسارے اور توانائی کے شعبے میں گردشی قرض، بہتر برآمدی صلاحیت، چین پاکستان اقتصادی راہداری کی کامیاب تکمیل اور براہِ راست غیرملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے سے اقتصادی بحالی ممکن ہے۔
دوسرا یہ کہ مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے آزاد کشمیر میں ریاستی اداروں اور عوامی سطح پر، تزویراتی برداشت کی ضرورت ہے۔ قومی سطح پر محض و قتی اصلاحات کی ذہنیت کی حوصلہ شکنی اور ٹھوس اصلاحات کی ضرورت ہے۔ قدرتی طور پر، اندرونی استحکام کے دور میں، ساختی اصلاحات کا ایک تکلیف دہ عمل لوگوں کی حوصلہ شکنی کر سکتا ہے۔ سیاسی قیادت کا فرض ہے کہ وہ اندرونی استحکام کے وقت عوام کو متحد اور بلند حوصلہ رکھے۔ اسی طرح، ریاستی اداروں ’ سول اور ملٹری‘ کی جانب سے بھی نئی دہلی کو یک طرفہ مراعات سے متعلق پیش کشوں سے گریز کرنا چاہیے۔ درحقیقت، نئی دہلی، اسلام آباد کے مثبت اشاروں سے حوصلہ افزائی پاتے ہوئے کشمیر کے بارے میں پاکستان کے نقطۂ نظر کی غلط تشریح کرتا ہے۔
تیسرا، بین الاقوامی برادری کے ساتھ شراکت داری کو فروغ دینا ایک عملی حل لگتا ہے۔ چھوٹی جنوبی ایشیائی ریاستوں سے لے کر دنیا کے اہم دارالحکومتوں تک، پاکستان کو بین الاقوامی سیاست میں تزویراتی طور پر فعال کردار ادا کرنے کے لیے مضبوط تعاون پر مبنی اور متحرک تعلقات استوار کرنے ہوں گے۔ چھوٹی جنوبی ایشیائی ریاستوں جیسے مالدیپ، سری لنکا اور نیپال کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے کو ترجیح دی جانی چاہیے۔ دفاعی تعاون، عوام کے درمیان روابط اور دوطرفہ تجارت کو بڑھانا جنوبی ایشیا کی چھوٹی ریاستوں کے لیے پاکستان کی خارجہ پالیسی کی بنیادی خصوصیات ہونی چاہیے۔ اسی طرح خلیجی ممالک اور ویٹو کلب ریاستوں کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کو مضبوط بنانا بھی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ اس سے نہ صرف پاکستان کو مسئلہ کشمیر پر حمایت حاصل کرنے میں مدد ملے گی بلکہ پاکستان کو تنہا کرنے کی انڈین حکمت عملی کو بھی شکست ہوگی۔
آخر میں، قومی سطح پر ایک طویل المدتی 'مربوط کشمیر حکمت عملی (IKS: انٹیگریٹڈ کشمیر اسٹرے ٹیجی) کی ضرورت ہے۔ معذرت خواہ ہوئے بغیر، پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر تعلیمی اداروں، سفارتی ذرائع اور میڈیا کو بین الاقوامی آگاہی کے لیے ایک مؤثر ذریعے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اپنے موقف کا دفاع کرنا چاہیے۔
اسی طرح اسلام آباد کو مقبوضہ کشمیر میں انڈین سفارتی اور فوجی اقدامات کا جواب دینے کے لیے تمام ریاستی اداروں ’سول اور ملٹری‘ پر مشتمل ایک جامع حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ آزاد جموں و کشمیر کے حوالے سے انڈین قیادت کی طرف سے درپردہ اور براہِ راست دھمکیوں پر سنجیدگی سے غور کیا جانا چاہیے اور سیاسی اور حکمت عملی کی سطح پر یکساں برابر جارحانہ لہجے کے ساتھ جواب دینا چاہیے۔ معا ملات کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے، اسلام آباد کے لیے لازم ہے کہ 'خطرے کا فہم رکھنے والی 'صلاحیت پر مبنی پالیسیوں میں تسلسل اور وسعت لائے، جن میں پاکستان کا معاشی اثر و رسوخ، اسٹرے ٹیجک مطابقت، سفارتی قبولیت اور کشمیر پرمتفقہ اور اصولی موقف کو وزن حاصل ہو۔