’اشتراکیت‘ تہذیب ِمغرب کا خانہ زاد نظریہ ہے، اور بقول کارل مارکس یورپ کو اس ’آسیب‘ (Specter) کے لپٹنے کا مدتوں دھڑکا لگا رہا۔ سرمایہ داری سے یورپ ایک ایسا ’عفریت‘ (Monster) بن چکا تھا کہ ’آسیب‘ بھی اس سے پناہ مانگتے تھے۔ اس ’عفریت‘ سے پیدا ہونے والا یہ ’آسیب‘ جہاں جہاں اترا ہے، اسے دیکھ کر انسان سوچتا ہے کہ کہیں اشتراکیت، سرمایہ داری نظام کا ہراول ہی تو نہیں؟
اس میں کچھ شک نہیں کہ مارکسی فکر ہم عصر دنیا کے نفسی، سماجی اور سیاسی علوم میں بہت گہرائی تک سرایت کر چکی ہے۔ سرمایہ داری نظام پر گہرا اور ثقہ علمی نقد اور فکری ردعمل اشتراکیت ہی کی صورت میں سامنے آیا تھا۔ گذشتہ ڈیڑھ صدی کی طرح، موجودہ تاریخی صورت حال میں بھی سرمایہ دارانہ نظام کی درست علمی تفہیم، اور اس کے خلاف فکری اور عملی مزاحمت اشتراکی فکر کے بغیر سامنے نہیں لائی جا سکتی۔
یہ بھی درست ہے کہ دنیا کے بڑے مذاہب کی علمی روایت کے بیش تر علَم برداروں کے قلم سے موجودہ عہد میں کوئی ایسی توجہ کھینچ لینے والی چیز سامنے نہیں آسکی، جو سرمایہ دارانہ نظام کی تفہیم اور اس کے زبردست محاکمے پر مشتمل ہو۔ اگر کسی مذہبی آدمی کو یہ غلط فہمی ہے کہ وہ سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے اور اپنے مذہب کی قرارِ واقعی وضاحت کرتے ہوئے سرمایہ داری کو چیلنج کرسکتا ہے، تو اسے تھوڑی دیر کے لیے اس دنیا کو اپنی حسرت کے بجائے شعور کی آنکھ سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ بہرحال، سرمایہ داری نظام کے عالم گیر جبر و استحصال کے خلاف انسانی ضمیر کی اب بھی نمایندگی باقی ماندہ اشتراکی فکر ہی کر رہی ہے۔
ہمیں یاد ہے کہ اقبال نے اشتراکیت کی بجائے اسلام کو سرمایہ داری کے لیے خطرہ قرار دیا تھا۔ اقبال کا یہ ایقانی مشاہدہ ایک تہذیبی امکان کی بنیاد پر تھا، جسے ’عصر حاضر کے خلاف اعلان جنگ‘ کو ایک تہذیبی مزاحمت کے طور پر ہی بروئے کار لایا جا سکتا تھا۔ مسلم ذہن ابھی الوہی ہدایت کی مکتبی تفہیم میں غلطاں ہے، اور اسلام کے تہذیبی امکانات اس کے ذہن میں غالب نہیں آرہے۔ ہم ایسی کوئی فکر سامنے لانے میں کامیاب نہیں ہو سکے جو کسی مزاحمانہ تہذیبی عمل کی بنیاد بن سکے، اور جو ہماری دینی اقدار سے ہم آہنگ بھی ہو۔
گزری ہوئی جہانبانی کے ناسٹیلجیا (پرانی یادوں کے سرور) اور موجود دنیا کے جبر نے ہمارے اعصاب کو اس قدر مضمحل کر دیا ہے کہ دُنیا کے معاملات، تضادات اور تقاضوں کو دیکھنے کی استعداد بہم نہ ہو سکی۔ اس وقت علم اور عمل میں مسلمانوں کے جو تہذیبی مظاہر دنیا کے سامنے ہیں، ان پر صرف افسوس کا اظہار ہی کیا جا سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اقدارِ ہدایت کے علمی اور عملی مظاہر دنیا کے سامنے پیش کریں، جو الحق اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی رحمت العالمینی کا مظہر ہوں۔ جدیدیت کے اثرات اس قدر گہرے ہیں کہ مسلمان اہل دانش نے چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے اپنی دینی اقدار کو سرمایہ دارانہ نظام کو مسلسل جواز دینے کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ چونکہ اشتراکیت نے بڑے پُرزور انداز سے سرمایہ داریت کو چیلنج کیا تھا، اس لیے اس اشتراکیت کے زوال وانہدام کے بعد اس کو اَزسرنو دیکھنے کی کوشش ضروری ہے۔
سرمایہ داری نظام اور اشتراکیت دونوں مغرب کی تاریخی اور علمی روایت کا ثمر ہیں۔ ان کی فکری رگوں میں تنویری منصوبے (The Enlightenment Project) کے ’کارخانے‘ میں سفید و سفاک لہو یکساں گردش کر رہا ہے۔ سرمایہ داری نظام اور اشتراکیت کی وجودیات (Ontology) ایک ہے۔ ان کی وجودی سطح وجود ایک اور مادی ہے۔ دونوں ایک ایسے تہذیبی شعور کا حاصل ہیں جس میں ماورا کے سارے روشندان بند کر دیے گئے ہیں۔ یہ ایک ایسی تاریخ کا ثمر ہیں جس کے ماورائی دروازے میخیں ٹھونک کر بند کر دیے گئے ہیں۔ دونوں کا تصورِ کائنات ایک ہے، ان کا تصورِ انسان ایک ہے، ان کا تصورِ اخلاق ایک ہے۔ ان دونوں کا انسان کے بنیادی سوالات کی بابت جواب ایک ہے۔ انسانی زندگی کی بنیادوں پر اگر سرمایہ داری نظام اور اشتراکیت کا جواب ایک ہے تو یہ کوئی حیرت کی بات نہیں، کیونکہ ان دونوں نے یہ جوابات اپنے مشترک تصورِ حیات (World View) ’جدیدیت‘ (Modernity)سے ورثے میں پائے ہیں۔
ان کا اختلاف معاشرے کی معاشی تشکیل اور ریاست کے فرائض اور سرمائے کے انتظام پر ہے۔ جدیدیت، شعور و عمل کی ایک مربوط روایت ہے۔ یہ فکر میں انکار اور عمل میں بغاوت ہے۔ سرمایہ داری نظام میں انکار پہلے ہے، اور بغاوت اس کے جلو میں ہے۔ اشتراکیت اپنی رومانوی نہاد کے باعث انکار اور بغاوت کو بیک وقت سامنے لاتی ہے۔
سرمایہ داری نظام اور اشتراکیت کے تاریخی مظاہر میں ایک مماثلت ایسی ہے، جس پر بہت کم گفتگو ہوئی ہے، اور وہ ہے دونوں کا استعماری (Imperialistic) ذوق، مزاج اور عمل کا حامل ہونا۔ سوویت اشتراکیت نے زارِ روس کے نظامِ قوت اور معیشت کو بالکل منہدم کر دیا، لیکن اس کے زیرقبضہ مسلم علاقوں کو نہ صرف جبری قبضے تلے جوں کا توں رکھا بلکہ ان کے روایتی مذہبی اور سماجی ڈھانچے کو بھی فنا کر دیا۔ باقی دنیا میں استعماری مقبوضات تو جنگ عظیم دوم کے بعد آزاد ہونا شروع ہوئے، لیکن وسطی ایشیا کے مسلم محکوم خطوں پر اشتراکی جبر اور ظلم کی طویل رات نوّے کے عشرے کے اوائل تک باقی رہی، اور اشتراکی روس کے انہدام کے ساتھ وہ علاقہ جات بھی نام کی آزادی حاصل کر پائے۔ یہی حال اشتراکی روس کے ہاتھوں مشرقی یورپ کا رہا۔ اشتراکیت کے فکری نسب اور تاریخی مظاہر کی بنیاد پر یہ کہنا ممکن نہیں کہ دنیا کی مقہور و محکوم اقوام کے لیے اشتراکیت سیاسی اور تہذیبی امید کا کوئی پہلو رکھتی تھی۔
اصلاحات، انقلاب اور ریاست، سرمایہ داری نظام کے پیدا کردہ تاریخی مظاہر ہیں۔ برطانوی تاریخ میں سیاسی عمل اصلاحات کی شکل میں آگے بڑھا، جب کہ فرانس کے قومی سیاسی عمل میں انقلاب کو مرکزیت حاصل ہو گئی۔ دونوں کا مقصد ریاستی مداخلت سے سرمایہ دارانہ مقاصد کو آگے بڑھانا تھا۔ اشتراکیت، ان اصلاحات پر یقین نہیں رکھتی، اور اس نے انقلاب اور ریاست کو اپنے سیاسی اور معاشی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا۔ جدید ریاست چونکہ سرمایہ داری کے سانچے پر وجود میں آئی تھی، اس لیے مارکس اس کے ازخود تحلیل ہو جانے کی رومانوی اور افسانوی آرزومندی پر یقین رکھتا تھا۔
جدیدیت کے اصل ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں اشتراکیت نے سرمایہ داری نظام سے کہیں زیادہ جوش اور ولولہ دکھایا۔ جو کام جدیدیت نے سرمایہ دارانہ معاشروں میں صدیاں لگا کے کیا تھا، وہ اشتراکیت نے یورپ اور یورپ سے باہر کے معاشروں میں چند عشروں کے دوران میں حاصل کر دکھایا۔ اور یہ مقصد روایت اور مذاہب کی بنیاد پر بنے ہوئے معاشروں کے اسٹرکچر کو توڑ کر فرد کو سرمائے کے قانونی اور معاشی اسٹرکچر میں لانا تھا۔ ابھی ہم اس بحث میں نہیں آتے کہ مذہب ضروری ہے یا نہیں، بلکہ ہمارا مسئلہ اس سے زیادہ گہرا ہے۔
سرمایہ داری نظام کو جو معاشی انسان درکار تھا اور ہے، اس کی کچھ اساسی خصوصیات ہیں، مثلاً یہ کہ وہ بیگانگی اور اپنی ذات کے لطف و سکون سے عبارت ہو، تاکہ انسانی معاشرت کا مکمل خاتمہ ہو سکے۔ جو اپنی ذات کے صرف جسمانی تقاضوں یعنی روٹی اور جنس کی تسکین ہی کو زندگی کا منتہائے مقصود سمجھتا ہو۔ یہی ’مسخ شدہ انسان‘ صنعتی معاشرے کا آئیڈیل ہے، کیونکہ سرمایہ داری اور اشتراکی معاشرے کی سطحِ وجود ایک ہے اور دونوں میں انسان کا آدرش انفرادی غرض مندی ہے۔ ایسا فرد جو اپنی ذات اور انسانی معاشرت سے منقطع ہو چکا ہو اور مکمل طور پر ریاستی نظام قانون اور معاش کا متوسل ہو، سرمائے کی ارتکازی حرکیات میں ایک زبردست کل پُرزہ بن جاتا ہے۔
روایتی معاشرت کے مکمل خاتمے اور معاشی انسان کی تیاری اور پیداوار میں اشتراکیت نے زیادہ مستعدی اورسُرعت کا مظاہرہ کیا ہے۔ سرمایہ داری نظام نے یہ مقاصد زیادہ تر قانون سازی، تعلیم اور کلچر کے ذریعے ایک طویل تاریخی سفر میں حاصل کیے تھے اور براہ راست ریاستی جبر کو بوقت ضرورت استعمال کیا تھا۔ اس کے برعکس اشتراکیت نے یہی مقاصد براہ راست ریاستی جبر سے حاصل کیے۔
’اشتراکیت‘ کو ’سرمایہ داری نظام کا ہراول‘ کہتے ہوئے چند بنیادی مقدمات کا ذکر ضروری ہے:
۱- سرمایہ داری کے اساسی ایجنڈے میں مذہبی تصورِ زندگی کا جبری انخلا، مذہبی معاشرت کی فنا، خاندان کی تشکیلِ نو، انسانی زندگی کی نئی تقویم، ایک خالص معاشی انسان کی ایجاد اور اس کی واقعاتی تیاری، تاریخ سے اقدار کی جلاوطنی، سرمایہ داری نظام سے مزاحم ہر تصور، سماجی ہیئت اور نفسی بناوٹ کی ٹوٹ پھوٹ سرفہرست ہیں۔ یہ سرمایہ داری نظام کے وہ تاریخی مقاصد ہیں، جن کے حصول میں سرمایہ داری نظام کو اپنے تمام تر علمی، ثقافتی اور اقتداری وسائل کے باوجود سخت دشواریاں پیش آتی رہی ہیں۔
اشتراکیت نے اپنی سیاسی جدوجہد اور سیاسی عروج میں سرمایہ داری نظام کے ان دُور رس اور طویل المیعاد تاریخی مقاصد کو حاصل کرنے میں ہمہ گیر، زبردست اور فوری کامیابی حاصل کرکے اس کو معاونت فراہم کی ہے۔ جن انسانی معاشروں سے اشتراکیت کا بلڈوزر گزر جائے، وہ سرمایہ داری نظام کے لیے مقناطیسی کشش پیدا کر لیتے ہیں، اور آخرکار اس کی گود میں آ گرتے ہیں۔ روس اور چین اس کی بڑی روشن مثالیں ہیں۔
۲- سرمایہ داری نظام کا ورلڈ ویو یا تصورِ حیات، ’جدیدیت‘ ہے۔ ’تنویری منصوبہ‘ اور ’خردمندی کی پرستش‘ اس کی رسمی اور سیاسی تشکیل تھی، اور رومانویت اس کے خلاف ایک ردعمل۔ ’تنویری منصوبے‘ کی اساس عقل انسانی پر رکھی گئی تھی، جب کہ رومانویت انسانی مزاج کے انفجار (explosion) کا مظہر تھی۔ تنویری منصوبے اور رومانویت نے مغرب کے سیاسی عمل کو بالکل نئے سرے سے مرتب کیا ہے۔ اوّل الذکر کے سیاسی ایجنڈے میں ’اصلاحات‘ (reforms) کو بنیادی حیثیت حاصل تھی،جب کہ سیاسی رومانویت کا بنیادی ایجنڈا ’انقلاب‘ (revolution) رہا ہے۔
’رومانوی آدرش پرستی‘ (Romantic Idealism) اصلاً تحریکِ تنویر اور ثقافتی رومانویت کے امتزاج سے سامنے آئی، اور مغرب کی سیاسی تاریخ میں اس کا رول غیرمعمولی رہا ہے۔ رومانوی آدرش پرستی ایک سیاسی تصور ہے، جو مذہبی معاشروں میں معاش اور سماج کے روایتی اسٹرکچر کو ایک لمحے کے لیے برداشت کرنے کو تیار نہیں ہوتا، اور اصلاحات کو لغو خیال کرتا ہے۔ مذہبی معاشروں کی روایتی ساختوں کو توڑنے کے لیے رومانویت آدرش پرستی ’انقلاب‘ کو بروئے کار لاتی ہے۔ اس کے برعکس سرمایہ داری نظام روایتی معاشروں کو ’اصلاحات‘ کے طویل عمل سے گزار کر جدید بنانا چاہتا تھا، تاکہ جدیدیت کے ورلڈ ویو کو تاریخی حقیقت بنایا جا سکے، جب کہ ’رومانویت آدرش پرستی‘ عین یہی مقاصد ایک ہی ہلے میں حاصل کرنا چاہتی ہے۔
’اصلاحات‘ اور ’انقلاب‘ جدیدیت کے دو بڑے اور بنیادی سیاسی ہتھیار ہیں جو سرمایہ پرور سیاست اپنے مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ اشتراکیت چونکہ جدید سیاست کی ’رومانوی آدرش پرستی‘ کا زیادہ شفاف (crystallized) سیاسی اظہار ہے، اس لیے انقلاب اس کے لیے کہیں زیادہ لبھاؤ رکھتا ہے۔ اگر اشتراکیت نے انقلاب کو اپنی سیاسی اور معاشی پیش قدمی کے لیے استعمال کیا ہے تو اس کا فائدہ آخر کار اور حتمی طور پر سرمایہ داری نظام ہی کو پہنچا ہے۔ سرمایہ داری نظام، منہدم اشتراکی انقلابوں کا ملبہ سمیٹنے میں بہت طاق اور ہوشیار واقع ہوا ہے۔
۳- اشتراکیت اپنے ’سائنسی‘ تجزیے اور ’تاریخی‘ دعوے کے قطعی برعکس جن جن معاشروں میں اقتدار پر متمکن ہوئی، وہ بنیادی طور پر زرعی، روایتی اور مذہبی معاشرے تھے۔ یہ ’آسیب‘ ڈراوے تو صنعتی یورپ کو دیتا رہا، لیکن چمٹا بے خبر بے چارے ہل چلانے والوں کو جا کے۔ انسانی معاشروں کی تبدیلی اور ان کی تشکیلِ نو میں اشتراکیت کا ایجنڈا زیادہ انقلابی تھا۔ اشتراکیت نے جدیدیت کے اساسی ایجنڈے کے مطابق، جس میں یہ سرمایہ داری نظام کے عین مشابہ ہے، ان معاشروں کو ایک ثقافتی اور سماجی، بلکہ درست تر معنوں میں ایک تہذیبی ریگزار بنا کر اور ایک سسکتے، کراہتے صنعتی نظام میں جکڑ باندھ کر، سرمایہ دارانہ نظام کے لیے تیار کیا اور پھر اس کے سپرد کر دیا۔ اشتراکیت نے سرمایہ داری نظام کے ہراول دستے کا کام کرتے ہوئے زرعی یا نیم زرعی معاشروں کی روایتی ساخت کو مکمل طور پر توڑ دیا، اور شناختوں پر کالک پھیر دی۔ روایتی کلچر کو مکمل طور پر فنا کر دیا اور سرمایہ دارانہ نظام کے لیے زیادہ کھلا اور زیادہ صاف راستہ ہموار کیا۔
سرمایہ دارانہ نظام کے بے پایاں جبر اور استحصال کے سامنے روایتی معاشروں کی ساخت جو مزاحمت کھڑی کرتی ہے، اشتراکیت نے اسے یک قلم صاف کر دیا اور سرمایہ داری نظام کی آمد کا اسٹیج تیار کیا۔ چین، روس اور کسی حد تک بھارت میں سرمایہ داری نظام کی فتح اگر غور کیا جائے تو اپنے گہرے پن اور وسعت میں انقلابِ فرانس کو پیچھے چھوڑ چکی ہے، کیونکہ اب تک تو انقلابِ فرانس ہی سرمایہ داری نظام اور ’رومانویت آدرش پرستی‘ کی سب سے بڑی فتح خیال کیا جاتا رہا ہے۔
سرمایہ داری نظام کو اپنی تاریخ میں دو بڑی اور طویل مزاحمتوں کا سامنا ہوا: ایک وجودی اور سماجی تھی اور دوسری فکری اور سیاسی۔ پہلے زمرے میں دنیا کے تمام مذاہب آتے ہیں، اور دوسرے زمرے میں اشتراکیت ہے۔ ایک طرح سے مذہب کی مزاحمت ’خارجی‘ اور اشتراکی مزاحمت ’داخلی‘ تھی۔ بدقسمتی سے دونوں کو سرمایہ داری کے مقابلے میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اب چونکہ دونوں کا دنیا کا دیکھنے کا انداز غالب طور پر نظریاتی ہے، یعنی وہ حالات کو تبدیل کرنے کے لیے دیکھتے ہیں، سبق حاصل کرنے کے لیے نہیں، اس لیے دونوں ایک ’رومانوی انکار‘ (self-denial ) کی سی حالت میں ہیں، اور اپنے اوپر آنے والے تاریخی فیصلے کو تسلیم کرنے اور اس کے مضمرات کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اب عالمی منظرنامے کو دیکھیں تو مذہب تقریباً صرف انفرادی اور سماجی سطح پر زندہ ہیں، اور اشتراکیت صرف سماجی اور سیاسی فکر کی سطح پر۔ اجتماعی سطح پر اقتدار، سرمایے اور میڈیا پر مذہب اور اشتراکیت کا اظہار تو کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے مگر اختیار ختم ہو چکا ہے۔
تاہم، سرمایہ داری نظام کے سامنے اشتراکیت اور مذہب دونوں کی شکست میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ اشتراکیت ایک سیاسی نظریے اور آدرش کے ساتھ ساتھ جدید دُنیا کی حرکیات کو مکمل طور پر بیان کرنے والا علم بھی رکھتی ہے۔ مذاہب صرف سیاسی آدرش رکھتے ہیں، اور جدید دنیا کو سمجھنے والے مقدمات کا جواب دینے میں حیرانگی کا شکار ہیں۔ یعنی مذہبی علوم موجودہ تاریخی صورت حال سے کوئی متوازیت نہیں رکھتے۔ اسی فرق کا نتیجہ ہے اشتراکیت اپنی سیاسی شکست میں سرمایہ داری نظام کا آلۂ کار نہیں بنی، جب کہ مذاہب کے بیش تر رہنما جدیدیت اور سرمایہ داری کے سامنے اپنی تہذیبی شکست کے بعد دامے، درمے، سخنے سرمایہ داری نظام کے بڑے آلۂ کار بننے سے نہ بچ سکے۔
عیسائیت اور یہودیت کی تقدیر تو ہمارے سامنے ہے، اب یہی امر اسلام کے ساتھ بھی دہرایا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوئی کہ مذاہب اپنی روحانی صداقتوں، اخلاقی مسلّمات اور تہذیبی اقدار کو ایسے علم کی صورت دینے میں ناکام رہے ہیں، جس کے پیچھے چلتے چلتے جدید آدمی ان بیان کردہ حقائق تک رسائی پا سکے، اگر وہ ان کی تفہیم کی کوئی طلب اپنے اندر پاتا ہو۔ مذہبی حقائق کو صرف لامتناہی طورپر دُہراتے چلے جانے سے اب کام بننے کا نہیں۔ روایتی معاشروں میں انسان ان حقائق کے براہ راست روحانی اور اخلاقی انجذاب کی صلاحیت رکھتا تھا، لیکن سرمایہ داری نظام کی میکانکی معاشرت اور مالی سیاست میں رہتے رہتے جدید انسان میں ایسی ذہنی اور نفسی تبدیلیاں دَر آئی ہیں کہ وہ الوہی حقائق کی فطری قبولیت کی صلاحیت باقی نہیں رکھ سکا۔
اہل نظر واقف ہیں کہ کارل مارکس نے جس Primitive Accumulation کا ذکر کیا ہے، وہ سرمایہ داری کے ایام طفولیت تھے، اور اس عہد میں جدید ریاست نے سرمایہ داری کی دستگیری کے لیے زبردست کمک اور رسد کا بندوبست کیا تھا۔ تفصیلی بحث کو مؤخر کرتے ہوئے جدید ریاست کے بارے میں ایک بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ یہ سرمایہ داری نظام کے سانچے پر بنائی گئی ہے۔ جدید ریاست نے سرمایے کے ارتکاز کے قانونی راستے بنائے اور علم سے ان کی یاوری کی، اور معاشی ارتکاز کے بے پایاں جبر کو مستقل سیاسی جواز فراہم کیا۔ یہ جدید ریاست کا فوری مقصد تھا۔
ابتدائی دور میں جدید ریاست کی فراواں قانون سازی کا دوسرا اور دور رس مقصد یورپی معاشروں میں مذہبی معاشرت کو تحلیل کر کے فرد اور کنبے کی پرولتار سازی تھی۔ اس کا مقصد انسانی اجتماع کو، معاشرتی اساس کے بجائے سیاسی اساس بنانا تھا، یعنی انسانی رشتے کی سماجی جہتوں کو ختم کر کے انھیں مکمل طور پر قانونی اور معاشی بنانا تھا۔ معاشرت میں گُندھا ہوا انسان سرمایہ داری نظام میں کام کے قابل نہیں ہوتا، اور روایتی مذہبی معاشرت کی دُنیا اور پرولتار سازی سے افراد کو ’لیبرمارکیٹ‘ میں لانا ممکن ہو جاتا ہے۔ جدید ریاست کے پاس سرمائے کے ارتکاز کو قانونی کمک فراہم کرنے کا واحد راستہ جبر تھا۔ اس ابھرتے ہوئے نظام کے سامنے سیاسی مزاحمت بھی ہوئی جسے ریاست نے آن کی آن میں بے دردی سے کچل کر رکھ دیا۔ لیکن سب سے بڑی مزاحمت وہ طرزِ حیات تھا، وہ معاشرت تھی، زندگی کا وہ انداز تھا جو مذہب نے تشکیل دیا تھا اور فرد اس معاشرت میں ’ گندھا‘ ہوا تھا۔ یہیں پر جدید ریاست کا نظامِ کار سب سے زیادہ معاون ثابت ہوا۔
سرمایہ داری نظام نے علم کی قلمرو سے باہر مذہب پر براہِ راست سیاسی حملے اور اسے بالجبر ختم کرنے سے گریز کیا ہے۔ مذہبی معاشرت کو تحلیل کرنے، انسانوں کی نفسی اور بدنی زندگی پر اپنی حکومت قائم کرنے اور سرمایہ داری نظام کو ’لنڈورا‘ فرد (پرولتار) مہیا کرنے کے لیے جدید ریاست نے قانون سازی کو استعمال کیا۔ اس قانون سازی کا مقصد اس طرزِ معاشرت کو فنا کرنا تھا، جو پرولتار سازی میں مزاحم تھا، اور جو معاشرت ابھرتے ہوئے سرمایہ داری نظام کے تحت پروان چڑھ رہی تھی۔ جدیدیت نے مذہب کی اساس کو نئے علم سے، اور مذہب کے تابع معاشرت کو جدید ریاست نے پارلیمانی اور عدالتی اور بین الاقوامی قانون سازی سے نابود کیا۔ نئے نظام کو جو نیا انسان چاہیے تھا، وہ فراہم کرنا چونکہ ریاست کی ذمہ داری تھی، لہٰذا اس نے تعلیم اور قانون سازی کے ذریعے یہ کام سرانجام دیا۔ جدید ریاست نے اس پیش رفت میں غیرمعمولی احتیاط اور فراست و تحمل کا مظاہرہ کیا۔ معاشرے میں مذہب اور مذہب سے پیدا ہونے والی معاشرت کو جبری طور پر تبدیل کرنےکے لیے براہ راست ریاستی طاقت کو استعمال کرنے سے بڑی حد تک گریز کیا۔ سوائے ان مواقع کے، جب مجبور و مقہور عوام نے ننگے اور وحشی استحصال کے خلاف راست اقدام کی کوشش کی۔
یہاں اس امر کو سامنے رکھنا اشد ضروری ہے کہ جدید ریاست میں طاقت کا ارتکاز اور مسلسل نمو، اور سرمایہ داری نظام میں سرمائے کا ارتکاز اور مسلسل نمو تاریخ میں بالکل متوازی ہیں۔ اس پالیسی میں جدیدیت کی غیرمعمولی فراست کو دخل ہے کہ اس نے ان دونوں اداروں، یعنی ریاست اور سرمایہ دارانہ نظامِ معیشت کو ایک تہذیبی شبہے یا دھوکے کی خاطر الگ الگ رکھا۔ دوسری طرف اشتراکیت نے اپنے انقلابی جوش میں طاقت اور سرمائے کو ایک ہی ادارے میں جمع کرنے کی کوشش کی اور تاریخ کی عدالت میں اس کی پیشی ہوئی۔ علمی طور پر انکار اور عملی طور پر التباس جدیدیت کی دو دھاری تلوار ہے، جس کا استعمال سیکھنے سے پہلے اشتراکیت نے اسے ہتھیانے کی نامراد کوشش کی۔ اگر مذہبی پیرائے میں بات کی جائے تو اشتراکی، مذہب ِجدیدیت کے خوارج ہیں۔
یہاں اس امر کا اعادہ بھی ضروری ہے کہ سرمایہ داری نظام اور اس کا اساسی تصورِ حیات، یعنی مذہب جدیدیت، روایتی مذہب کی مطلق ضد ہے۔ جدیدیت اور مذہب کی پیکار اس وقت تک جاری رہتی ہے جب تک مذہب اپنے اساسی بیانات پر مداہنت اور معاشرت پر اثراندازی سے دست بردار نہ ہوجائے۔ ان آثار کے پیدا ہوتے ہی جدیدیت، مذہب سے جنگ بندی کا اعلان ہی نہیں کرتی، بلکہ سراپا شیر و شکر ہو جاتی ہے اور اسے فوراً اپنی نوکری میں بھرتی کر لیتی ہے۔
کیا یہ بات ہماری نظروں سے اوجھل ہے کہ جدیدیت کی پہلی جنگ عیسائیت سے ہوئی؟ اور یہ کہ جب اس جنگ میں عیسائیت نے جدیدیت کی تمام شرائط تسلیم کرلیں، تو یہی مذہب مشنری تحریک بن کر استعمار میں بھرتی ہو گیا؟ اور یہ کہ استعمار کے لیے سب سے زیادہ جواز سازی بھی اسی تحریک نے مہیا کی ہے؟ افسوس کہ چنگیز کو یہ سہولت میسر نہ آئی۔ بھرتی سرمایہ داری نظام کا آفاقی طریقہ ہے۔ یہاں ہر نوع کے، ہر رنگ کے، ہر نسل کے، ہر علم کے، ہر ہنر کے، ہر مذہب کے، ہرنظریے کے، ہر زبان کے، ہر کلچر کے آدمی کو نوکری مل جاتی ہے، اگر وہ چند بنیادی شرائط پوری کردے۔ اور وہ شرائط عالم میں مشتہر ہیں، یہاں تک کہ اب مسلمانوں کو بھی اس کا پتہ چل گیا ہے اور وہ دین کی نئی نئی تعبیرات کے تمغے سینے پر سجاکر جناب سرسیّد کے پیچھے صف بندی کرتے نظر آرہے ہیں، جیسے ابھی نوکریوں کی دستار بندی ہونے والی ہے۔
جدید تاریخ میں انقلاب کی ’کیمیا گری‘ کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ سرمایہ داری نظام خود میں ایک تاریخی اور سماجی صورت حال ہے، اور اس کی فکری اساس جدیدیت ہے۔ سرمایہ داری نظام ایک صورت حال کے طور پر تیز تر سماجی تبدیلی کا تاریخی اسٹیج سجاتا ہے، جو اپنی جگہ ایک مشینی سسٹم ہے۔ انسانی معاشرہ اس سسٹم میں لپٹا ہوا ہے۔ انسانی معاشرے کو اس سسٹم میں جو چیز ٹھونسے اور جکڑے رکھتی ہے، اس کا نام ریاست ہے۔ معاشرے کو اس نظام کے مطابق بنائے رکھنے کا کام ریاست کی ذمہ داری ہے، اور وہ یہ کام قانون سازی، تعلیم اور ثقافتِ زر سے کرتی ہے، اور یہ سارے کام ’اصلاحات‘ کے نام سے سامنے لاتی ہے۔
سرمایہ داری نظام میں تبدیلی کی رفتار چونکہ فطری سے زیادہ میکانکی ہوتی ہے، اس لیے فرد اپنی نفسی حالت میں اور انسانی معاشرہ اپنی اجتماعی حالت میں اس کا ہم قدم نہیں ہو سکتا۔ لیکن یہی ہم قدمی پیداواری سرمایے کی اولین ضرورت ہے، اور اس کے بغیر سرمایہ داری نظام زندہ نہیں رہ سکتا۔ انسانی معاشرت بھلے وہ مذہبی بنیادوں پر استوار کی گئی ہو، یا الحاد کی بنیادوں پر قائم کی گئی ہو، تیزتر تبدیلی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوتی ہے۔ لہٰذا، اس کے بتدریج خاتمے کے لیے ریاست ’اصلاحات‘ کے نام پر تعلیمی تبدیلیاں اور قانونی طومار سازی کا کام نہایت تیزی سے کرتی ہے۔ جس طرح قیدیوں کے قافلے کے سُست گام افراد کو چلانے کے لیے کوڑے برسائےجاتے ہیں اور اس ’محنت‘ میں اُن بے چاروں کی کھال تک ادھڑ جاتی ہے، اسی طرح ’اصلاحات‘ کے سرمایہ دارانہ کوڑے ریاستی قانون بنا کر عام، بے بس اور نادار لوگوں کی پشت پر اس کثرت اور تسلسل سے برسائے جاتے ہیں کہ معاشرت کی چادر تار تار ہو جاتی ہے۔
’اصلاحات‘ کے باوجود اگر معاشرے میں تبدیلی کی رفتار سرمایہ دارانہ نظام کے تقاضوں اور ضرورت کے مطابق نہ ہو، تو تبدیلی کے لیے تاریخی دباؤ بڑھنا شروع ہو جاتا ہے۔ اس تاریخی دباؤ کا معاشرے کی سیاسی اور معاشی کایاکلپ میں ظاہر ہو جانا انقلاب ہے۔ ایسا انقلاب، انسانی معاشرے کو سرمائے کی ترجیحات کے مطابق رکھنے کے لیے ایک راست اقدام ہے، جس کی بڑی مثال فرانسیسی انقلاب ہے۔ اس تناظر میں ہمارے خیال میں انقلابِ فرانس، سرمایہ داری نظام کی آج تک کی سب سے بڑی فتح ہے، اور یہ ایسے تاریخی حالات میں برپا ہوا، جب فرانسیسی معاشرے کے سیاسی حالات اور معاشی حقائق میں ایک زبردست عدم توازن پیدا ہو چکا تھا اور روایتی سیاسی اور سماجی اسٹرکچر نئی معاشی قوتوں کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ معاشی اور سیاسی حالات میں تضاد اور عدم توازن انقلاب جیسی بڑی تبدیلی کو ناگزیر بنا دیتے ہیں۔ اشتراکیت نے انقلاب کو اپنی سیاسی پالیسی کے طور پر اپنایا، اور متحدہ پرولتار کے جنگ جویانہ (violent) سیاسی عمل سے سرمائے اور سیاسی طاقت کے وسائل پر قبضے کے راستے تلاش کیے۔
کارل مارکس نے تاریخ کی حرکت کو ’مادی جدلیات‘ کے قانون میں دریافت کیا۔ معاشرے کی معاشی طبقہ بندی اور معاشی وسائل کے لیے کشاکش تاریخ کا اصولِ حرکت ہے۔ کسی بھی معاشرے میں دو طبقات معاشی وسائل کے حصول اور ان پر قبضے کے لیے باہم پیکار میں ہیں، اور تاریخ مسلسل حالتِ جنگ کا نام ہے۔ تاریخ کی اصل حقیقت یہی جدلیات ہے، اور رسمیات، تصورات، نظریات، اخلاقیات، اقدار بھی اسی جنگ کا ایندھن ہیں۔ ہر مرحلۂ جنگ اپنے اختتام پر نئے تصورات، نئی رسمیات، نئی اخلاقیات، نئے نظریات ازخود پیدا کرتا ہے، جو دراصل ایک نئے مرحلۂ جنگ کا ایندھن بن جاتے ہیں، اور ترقی بھی اسی سفر کا نام ہے۔
کارل مارکس، سرمایہ داریت پر مبنی معاشرے کے ایک خاص لمحے میں تاریخ کی واقعیت اور حرکت کے تجزیاتی عمل کو ایک مخصوص زاویے سے دیکھتا ہے۔ وہ اس میں کسی آرزو، کسی آدرش، کسی تمنا، کسی قدر، کسی وہم، کسی مروت، کسی رعایت، کسی اعزاز، کسی رسم، کسی روایت، کسی تعلق، کسی خوف، کسی مفاد، کسی نظریے، کسی مابعدالطبیعیات، کسی عینیت، کسی وجدانیت، کسی موضوعیت، کسی رومانویت، کسی مذہبیت، کسی علاقائیت، کسی نسلیت، کسی لسانیت، کسی نسبیت کو ذرا بھر گنجائش دینے کے لیے بھی قطعی تیار نہیں۔ اس لیے کہ وہ تاریخی صو رتِ حال (situation) کو ممکنہ انسانی حد تک، اسی کے فراہم کردہ حقائق ( facts)کے مطابق سمجھنا چاہتا ہے۔ اس کے لیے وہ اپنے ہم عصر معاشرے کے تمام علمی، فکری اور تجزیاتی لٹریچر تک رسائی کو لازم قرار دیتا ہے۔
کارل مارکس، انسانی شعور میں کسی ترجیح اور انسانی معاشرے میں کسی ماضی کی روایت کو سرے سے تسلیم نہیں کرتا۔ اُس کا خیال ہے کہ اسی معروضی اور ’سائنسی‘ تجزیے سے نئی سیاسی اقدار اور نیا نظریہ پیدا ہوگا، جو ایک نئے اور مکمل سیاسی عمل کی درست بنیاد فراہم کرے گا۔ وہ اپنے غیرمعمولی عقلی اور بے رحمانہ (ruthless ) فکری تجزیے کے حاصلات کو درست تو خیال کرتا ہی ہے، لیکن اس میں انسانی آرزؤں کا کوئی سامان نہیں پاتا۔ اپنے تجزیے کو لبھاؤ دینے کے لیے ایک نہایت غیر عقلی، تصوراتی اور رومانوی بات کرتا ہے۔
کارل مارکس کے بقول ’مادی جدلیات‘ کا عمل ایک دن ازخود ختم ہو جائے گا، اور تاریخ کا عمل، امتزاج (synthesis ) کی صورت میں اپنی منزلِ مراد پر پہنچ جائے گا۔ گویا کہ انسانی عقل جب تجزیے کی منزل پر پہنچ جاتی ہے تو انسانی آرزؤں کے آگے سپر انداز ہو جاتی ہے۔ ’مادی جدلیات‘ کے قرار پکڑنے، اور ریاست کے ازخود ختم ہو جانے کی آرزو وہ حتمی امتزاج ہے، جو ارضی جنت کی صورت میں ظاہر ہو گی اور اشتراکیت انقلاب کے ذریعے اسی کی طرف لپکتی ہے۔
سرمایہ دارانہ فکر نے بھی ’تاریخ کی انتہا‘ ( End of History )سے اسی ’جنت ارضی‘ کے قیام کی خبر دی ہے، اور اس کا اختتامِ تاریخ بھی یہی ’امتزاج‘ ہے۔ ایسی جنت ارضی، یورپ کے بگڑے اور باغی انسان کی وجودی منزل ہے، خیر سے وہ اشتراکی ہو یا بھلے سرمایہ دار۔
اشتراکیت کے ’آسیب‘ اور سرمایہ داری کے ’عفریت‘ کی تشکیل کردہ جدید دنیا میں ہمیں اپنے ورلڈ ویو کی تہذیبی معنویت کو ازسرنو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اوّل سوال یہ ہے کہ ’’کیا ہمیں اس ذمہ داری کا ادراک ہے؟‘‘ دوسرا سوال یہ ہے کہ ’’کیا ہم اس ذمہ داری کو ادا کرنے کے لیے تیار ہیں؟‘‘