ڈاکٹر محمد ذکی کرمانی


قرآن کریم امت مسلمہ میں ایک ایسے مستقل گروہ کے قیام کی ضرورت پر زور دیتا ہے، جو ’معروف‘ کا حکم دیتا اور ’منکر‘ سے لوگوں کو روکتا ہو۔ اس گروہ کا دائرہ جب امت تک محدود ہوتو اس کام کی نوعیت ’اصلاحی‘ ہوگی۔ جب اور جہاں یہ دائرہ تمام انسانوں تک وسیع ہوجائے گا تو یہ ’دعوتی‘ عمل ہوگا۔ ’معروف‘ ہو یا ’منکر‘ ان کا دائرہ بہت وسیع ہے اور وقت کے ساتھ وسیع تر بھی ہوتا رہتا ہے۔

 اسلامی لٹریچر میں ’معروف و منکر‘ کی جو تعریف ملتی ہے، وہ بظاہر تو ان روایتی شکلوں تک محدود ہے، جو رسولؐ اللہ کے عہد میں پائی جاتی تھیں۔ لیکن یہ روایتی شکلیں کچھ اصول متعین کرنے میں مددگار ہیں، جن کی بنیاد پر ہم فی زمانہ معروف اور منکر کی نشان دہی کرسکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری فکری تاریخ میں ایسا ہوتا رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کی ضرورت، وقت اور حالات میں تبدیلی کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ دو عوامل کی نشاندہی اس بحث کو آگے بڑھانے میں معاون ہوسکتی ہے:

اوّل یہ کہ جب غیر اقوام اور گروہوں سے تعامل (Interaction)ہوتا ہے تو روایتی شکلوں سے ماخوذ اصولوں کی تطبیق کی ضرورت ہوتی ہے، جس کے نتیجے میں معروفات کی فہرست میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور منکرات کی نئی شکلیں بھی سامنے آتی ہیں اور مسلم معاشروں کی حرکیات کو متاثر کرنے لگتی ہیں۔ اسلام نے مختلف تہذیبوں کو اسی عمل(process) کی روشنی میں ضم کیا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ اس تہذیبی تعامل یا انضمام کے نتیجے میں تہذیبی سطح پر اسلام متمول ہوتا رہا ہے۔

 دوسرے عامل کا گہرا تعلق انسان اور کائنات کے باہمی تعلق کے تعین اور تسخیری قوتوں کے استعمال کے نتائج سے ہے۔ کیونکہ اس زمین پر انسانی زندگی کی بقا اور ارتقا کا انحصار کائنات کے ساتھ انسانی تعامل پر ہے، اس لیے اس تعلق کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ قرآن کریم نے کائنات اور اس کے مظاہر کو آیات الٰہی کہہ کر ایک طرف اس تعلق کو تقدس دیا ہے، تو دوسری طرف تسخیر کے تصور سے انسان اور کائنات کے باہمی تعامل کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ واضح رہنا چاہیے کہ اس تعلق اور تسخیر سے پیدا شدہ انسانی رویہ ہمیشہ سے انسانی شعور کا حصہ بن کر اس کے عمل کی تشکیل کرتے رہے ہیں۔ قرآن کریم کے نزول سے قبل کی تاریخ میں بھی یہی تعلق غیر شعوری طور پرکار فرمارہا اور بعد از نزولِ قرآن یہ شعور کا حصہ بن گیا ۔ لیکن سولھویں صدی کے بعد اس تعلق میں تبدیلی آئی، جس کابنیادی محرّک یہ تھا کہ انسان کو عطا ہوئی قوتِ تسخیر ’کیا ہورہا ہے؟‘ اور ’کیسے ہورہا ہے؟‘ کے جان لینے تک وسیع ہونے لگی۔ اس طرح کائناتی مظاہر میں کارفرما اصولوں اور ضابطوں کو جان لینے اور ان کے انطباق کے نتیجے میں آگہی اور ارتقا کے نئے نئے عظیم الشان دروازے کھل گئے، جو آج بھی وسعت پذیر ہیں۔

یہ کامیابیاں انسانی کاوشوں کا نتیجہ تھیں، جن پر نہ صرف نتائج کے استعمال بلکہ خود نتائج تک پہنچنے میں بھی انسان ہی متحرک تھا، اس لیے اس نئے علم پر مالکانہ حقوق بھی اسی کو حاصل رہے، جن کا استعمال وہ اپنے اقتدار کے حصول، اُسے باقی رکھنے اور مزید گہرا کرنے کے لیے استعمال کرنے لگا۔ یہ علم اور اس کی کامیابیاں معروفات کے پہلو بھی رکھتی ہیں اور منکرات کے بھی ۔مکمل طور پر ان سے اجتناب مسلمانوں کے عزّت اور وقار یا شدیدبے عزتی کا باعث ہے، جب کہ  مکمل طور پر اس کی حمایت اس میں مضمر ظلم کا کارندہ بن جانے کے مترادف ہے۔

اس کا دوسرا انتہائی اہم پہلو یہ ہے، کیونکہ مسلمان بطور گروہ اس علم کے حصول اور ارتقاء میں برابر کے شریک نہیں رہے۔ اس لیے اس میں موجود معروف اور منکر کی پہچان کرنا بھی مشکل ہے، اس کے منکر کو پہچان پانا بھی آسان نہیں ہے اور اسے ظلم و استحصال سے روک پانا بھی ناممکن ہے۔ بے آگہی کے اس مقام پر ہونے کے نتیجے میں اپنے عہد کی اس بڑی حقیقت سے ہم ناواقف رہ کر کوئی ایساکام کرہی نہیں سکتے، جو تبدیلی لاسکے۔ اپنی خلقی صلاحیت کے اعتبار سے اسلام کی آفاقیت بجا لیکن ہم اسے جس طرح پیش کررہے ہیں، اس سے نہ صرف اسلام کی آفاقیت ثابت نہیں ہوتی بلکہ ہماری سرگرمیاں محض مسلمانوں کی اصلاح تک محدود ہوجاتی ہیں یا پھر عہد جدید کے انتہائی معذور اور اپاہج قسم کے تجزیے تک۔

ہم کو یہ سمجھنا چاہیے کہ موجودہ تحریکاتِ اسلامی جو امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے قرآنی حکم کے پس منظر میں قائم ہوئیں، وہ بجا طور پر یہ سمجھتی ہیں کہ مسلم دُنیا کی اس صورتِ حال کو بحال کرنے کی کوشش کرنا، جس پر وہ چند صدیاں قبل فائز تھی، ان کی اساسی ذمہ داری کے ساتھ دینی غیرت کا تقاضا بھی ہے۔ ان کے لیے آج کی اس دنیا میں تبدیلی کی غالب حرکیات سے واقفیت اور اس کے لیے حکمت عملی، جس کی شکلیں آج بھی تیزی سے تبدیل ہورہی ہیں،وضع کرنا بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس ضرورت کی اہمیت کا اندازہ ایک سرسری مشاہدے اورمطالعے سے بھی ہوجاتا ہے۔

اس سلسلے میں دونکات کی طرف ابتدا ہی سے توجہ رہی ہے۔ ایک یہ کہ قرآن کریم اور سنت رسولؐ جو ہماری فکر کی اساس ہے، ان سے براہ راست رہنمائی کے رجحان کو عام کیا جائے۔ دوسرا یہ کہ وہ ادارے جو انفرادی ذہنوں اور معاشروں کو کنٹرول کرنے کی حدتک مؤثرہیں مثلاً سیاسی مقتدرہ وغیرہ انھیں اپنے ہاتھ میں لینے کی ممکنہ کوشش کی جائے۔ گذشتہ ایک صدی سے مختلف مقامات پر تحریکات اسلامی ان دو نکات پر مشتمل حکمت عملی کے تحت کام کررہی ہیں۔ ان کی کامیابیوںو ناکامیوں کے ملے جلے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ یہی بڑھتا ہوا احساس توجہ دلاتا ہے کہ ہم عصرِ حاضر میں احیائے اسلام کی کوششوں اور درپیش چیلنجوں کا ادراک کریں اور جاری حکمت عملی کا ناقدانہ جائزہ لیتے ہوئے اس میں ضروری حذف و اضافہ کریں۔

موضوع کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے اس میں شامل دو اصطلاحوں یعنی ’عصرِ حاضر‘ اور ’احیائے اسلام‘ کی ممکنہ سطحوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

عصرِ حاضر

 اس ضمن میں ’عصرِ حاضر‘ سے مراد وہ وقت اور حالات ہیں، جن میں اسلام کو پیش کرنے اور معاشرے کی اصلاح کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ ذرابھی اختلافی مسئلہ نہیں ہے کہ خود اللہ نے دین کو انسانوں تک پہنچانے میں عصر کا خیال رکھا ہے۔ گو کہ اساسی تعلیمات ایک ہی رہی ہیں، لیکن شکلوں اور تطبیق میں فی زمانہ تبدیلی آتی رہی ہے۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اسلام کی طرف دعوت دی، تو وہ عصری اعتبار سے کوئی اجنبی دعوت نہ تھی بلکہ اُس عہد کے تقاضوں کے پیش نظر ایک دعوت تھی۔ اس دعوت میں عصری عزائم، محرکات اور وسائل کا استعمال آپؐ نے کیا۔   دعوت پہنچانے کے لیے جو طریقے رائج تھے، آپؐ نے انھی کو استعمال کیا۔ مدینے پہنچنے کے بعد بچوں کو خواندہ بنانے کی خواہش اور کوشش ہم عصر رہنے کی کوشش تھی۔ جب یہودیوں سے سابقہ پڑا تو تجارتی معاملات میں آگے رہنے کی کوشش کی، جس کا استعمال یہودی یا دوسرے گرو ہ کرتے تھے۔

اُبھرتے ہوئے مسلم معاشرے میں یہودیوں کی شریعت کے عالم خود مسلمانوں ہی میں موجود تھے۔ پھر جب دشمنوں سے مقابلہ ہوا تو عسکری صلاحیتوں، جنگی ہتھیاروں کے استعمال اور عسکری حکمتوں کی مہارت میں دشمنوں کے ہم پلّہ افراد آپ کے پاس موجود تھے۔ اور جب مقابلہ آرائی میں اللہ نے کم تعداد کو بڑی تعداد پر غالب آ جانے کا مژدہ سنایا، تو وہ یہ نہ تھا کہ صلاحیتوں اور وسائل کے بغیر بھی انھیں کامیابی ملے گی۔ بلکہ یہ تھا کہ ان سب کے ہوتے ہوئے محض افراد کی کمی کو اللہ اپنی مددِ خاص سے پورا کر دے گا۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہ اشارہ بھی نہیں ملتا کہ عصری صلاحیتوں کے نہ ہوتے ہوئے بھی جدوجہد میں اللہ اپنی مددِ خاص سے کامیابی عطا فرمائے گا۔ قرآنی حکم اور سنت رسول یہی ہے کہ ہم جس عصر میں دعوت ، اصلاح یا تعارف کا کام انجام دے رہے ہوں، اس عصر سے نہ صرف واقف ہوں بلکہ اسے استعمال کرنے اور ممکنہ چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیتوں سے بھی آراستہ ہوں۔ آج کے دور میں عسکری کے ساتھ، فکری، علمی اور ٹیکنالوجیکل صلاحیتوں کا اضافہ ہو گیا ہے اورہم ان میدانوں میں پچھڑے ہوئے ہیں۔ اس پچھڑے پن کی طرف اس تحریر کی ابتدا میں بھی اشارہ کیا گیا ہے۔

مذکورہ بالا صلاحیتیں ماضی میں بالکل مفقود نہ تھیں، لیکن وہ محض نقطۂ نظر اور انفرادی روّیوں کی تشکیل کرتی تھیں۔ لیکن آج یہ’ کیا‘ کوجاننے کی صلاحیتیں آگے بڑھ کر’ کیسے‘ کے مرحلے میں داخل ہو کر ہر میدان میں پیداوار کا وسیلہ بن گئی ہیں۔ اس طرح دو گروہ: ایک وہ جو نالج پیدا کرتا ہے اور دوسرا وہ جو نالج جذب (consume) کرتا ہے، واضح نظر آتے ہیں ۔علم پیدا کرنے والے اور اس علم کو قابلِ صرف پیداوار میں تبدیل کرنے والے بالعموم مغربی معاشروں میں ہی پائے جاتے ہیں، جب کہ انھیں استعمال کرنے والوں کی کثیر تعداد ایشیا اور افریقا میں پائی جاتی ہے۔ اُمت مسلمہ بالعموم ’صارفین‘ کے دائرے میں آتی ہے اور اب قابلِ صرف پیداوار میں معلومات (ڈیٹا) اور اس سے ماخوذ نتائج اور ’مصنوعی ذہانت‘(AI) بھی شامل ہو گئی ہے، جس پر مغرب کے بعض گروہوں کی اجارہ داری ہونے کی بنا پر انفرادی آزادیاںبتدریج ختم ہوتی جارہی ہیں۔

اب نسلوں کی تربیت کا معاملہ ہو، غذائی ترجیحات ہوں یا ہمارا خانگی ماحول، ہم اپنی نجی ترجیحات طے کرنے میںبھی دوسروں پر منحصر ہوگئے ہیں۔ زراعت، ماحولیات، صحت، تغذیہ اور تفریحات جیسے تمام میدانوں میںآ ج کے انسانوں کی عظیم اکثریت مکمل طور پر آزاد نہیں ہے۔ دوسروں کی آواز یا پیغام ہم تک اور ہماری آواز دوسروں تک اس کرۂ ارضی کے کسی بھی مقام تک محض چند سیکنڈ میں پہنچ جاتی ہے اور حالات سے ہمیں باخبر کر دیتی ہے اور متاثر بھی کرتی ہے۔ معاشی سرگرمیوںمیں ہم بالکل بھی آزاد نہیں بلکہ ’سودی کاروبار‘ میں شامل ہوئے بغیر ہم معاشی ارتقا کی جدوجہد میں شامل ہی نہیں ہو سکتے۔ زمین اور فضاکی صحت آج شد ت سے زہریلی ہو چکی ہے۔

ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ آج اکیسویں صدی کے نصف اوّل میں عام انسان جس ماحول میں رہ رہا ہے وہ اس ماحول سے بہت حد تک مختلف ہو چکا ہے جس میں اللہ کے رسولؐ نے دعوت دی تھی۔ یہ عظیم تبدیلی جن قوتوں کے بروئے کار ہونے سے پیدا ہوئی ہے، ان پر ہمارا بالکل بھی کنٹرول نہیں ہے۔ چنانچہ مسلمان محض اثر پذیر گروہ ہے، ان کے اثر انداز ہو پانے کا مستقل قریب میں دور دور تک امکان نظر نہیں آتا۔ چنانچہ وہ گروہ جو معاشرے میں انصاف کے قیام اور تبدیلی کا خواہاں ہے، وہ اس صورت حال کا باعث بنی ہوئی قوتوں سے صرفِ نظر نہیں کر سکتا۔ یہ واضح ہے کہ ان تبدیلیوں کو پلٹا نہیں جاسکتا، البتہ ان کے اثرات کو سمجھا جا سکتا ہے اور پھر ان کا تدارک کیا جاسکتا ہے۔ لیکن ان قوتوں کو تخلیقی انداز میں سمجھنا اور پھر ان کو اعلیٰ تر مثبت مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی صلاحیت پیدا کرنا اس سے زیادہ ضروری ہے۔ اسی مقام پر ہم رسول ؐاللہ کی درپیش عصر سے مماثلت سمجھ اور بیان کر کے اس مقام پر فائز ہو سکیں گے، جس پر پہنچنے والوں کو اللہ نے کم تعداد میںہونے کے باوجودکامیابیوںکا یقین دلایا تھا۔

اسلام کے احیاء میں موجودہ عصر کی اہمیت کی بحث کو یہاں وقتی طور پر ختم کرتے ہوئے اسلام کے احیاء کی تشریح اور آج کے تقاضوں پر ایک مختصر اظہارِ خیال کرتے ہیں:

اسلام کا احیاء

 دراصل عصر کی تفہیم ہی سے اسلام کے احیاء کی شکلیں اور تقاضے ابھرتے ہیں۔ احیاء کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح اسلام، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے لے کر کئی صدیوں بعد تک زندگی کی انفرادی اور اجتماعی سطحوں پر فکر و عمل کی تمام سطحوں پر مؤثر اور رہنما تھا،اسی طرح آج پھر زندہ و متحرک ہوجائے۔ عصری تبدیلیوں اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والے چیلنجوں کا ایک تعلق اساسیات سے ہے اور دوسرا پہلو عصری تبدیلیوں کی تفہیم اور ان پر قابو حاصل کرنے سے متعلق ہے۔

اساسیات عملی اور فکری جہتوں پر مشتمل ہے۔ مثلاً ’عملی جہت‘ میں صلوٰۃ، روزہ، زکوٰۃ اورحج شامل ہیں۔ جن کے لیے معاشرہ، عوامی دلچسپی، اور اس میں کمال کے حصول کی کوششیں، اسلام کے احیاء کے ایک تقاضا کو پورا کریں گی۔ ایسی کوششیں بہت بڑے پیمانے پر خاصے مؤثر انداز میں جاری ہیں۔

البتہ ’اساسی احیاء‘ کا دوسرا پہلو عقائد یعنی ’فکریات‘ سے ہے۔ مثلاً توحید، آخرت اور رسالت یہ وہ عقائد ہیں، جو ہماری فکری اساس ہیں۔ احیائے اسلام کی عصری کوششوں میں پوری توجہ ان عقائد کو جدید انداز میں سمجھنے کی کوششیں ہیں تاکہ نہ صرف امت مسلمہ میں جدید عقلیات کے پروردہ ذہنوں کے لیے یہ قابلِ فہم ہو جائیں بلکہ غیر مسلم ذہنوں کو بھی عقلی طور پر ان عقائد کو سمجھنے میں آسانی ہو۔ عقائد کی تفہیمِ نو کے باب میں یہ اپروچ بڑی اہم ہے، لیکن اس کے بعض پہلو بہت کمزور ہیں۔ مثلاً توحید کو قابلِ فہم ہونے کے لیے بہت سے خداؤں کے مقابلے میں خدائے واحد کا پس منظر اور اس کے انسانی ذات اور اس کے رویوں اور معاشرے پر پڑنے والے اثرات کی مدد سے بیان کیا جاتا ہے۔

فی زمانہ بتوں کی پوجا کا معاملہ کوئی بہت زیادہ قابلِ توجہ رویّہ نہیں رہا۔ اسی طرح الحاد بھی ایک دوسری شکل میں ڈھل چکا ہے۔ آج کا ’جدید‘ ذہن ایک خدا کو بطور ایک تصور کے تو تسلیم کرتا ہے، مگر ہمہ وقت کائنات سے مربوط خدا کو یہ ’جدید‘ انسان تسلیم نہیں کرتا۔ اسلام کے ابتدائی دور سے ہی توحید کے عقیدے نے ایک زندہ اور ہماری زندگی اور کائنات سے ہمہ وقت ربط میں خدا کا تصور دیا۔ قرآن کریم میں جب اللہ نے یہ فرمایا: میں تمھاری رگِ جاں سے زیادہ قریب ہوں اور میں تمھیں سنتا ہوں، تو اس میں یہی پیغام دیا گیا ہے۔ چنانچہ مخلوقات میں مماثلت ، ہم رشتگی، باہمی انحصار اور باہمی ارتباط، جب جدید ریسرچ و تحقیق کے نتیجے میں منکشف ہوئے، تو یہ در اصل ان جاری اور متحرک رشتوں کا اظہار ہے، جو عقیدۂ توحید کے مظاہر ہیں۔

ان رشتوں کا انکشاف اس وقت ہوا، جب سائنسی اصولوں اور ضابطوں کی دریافت کو پیداوار میں اضافے کے لیے منطبق کیا جانے لگا۔ جس کے نتیجے میں پیداوار میں اضافہ تو ہوا، لیکن فطرت میں موجود توازن اور عمل میں بحران پیدا ہو گیا۔ اضافہ سے آسانیاں پیدا ہوئیں، مگر توازن میں بحران نے زندگی کے لیے مختلف سطحوں پر سنجیدہ مسائل پیدا کردیے۔

 آسانیوں میں مضمر معاشی مفادات نے ایک چھوٹے سے گروہ کو مستفید کیا، لیکن انسانوں کی ایک کثیر تعداد شدید مشکلات کا شکار ہوئی۔ عقیدۂ توحید کو اس پس منظر میں سمجھنا اور سمجھانا عصرِجدید کا تقاضا ہے اور اس صورت حال کی خاطر بہتر پالیسی سازی اسلام کے احیاء کے لیے ضروری ہے، کیوں کہ اس کے بغیر بنیادی انسانی حقوق، عدل و قسط کی حفاظت اور ظلم و استحصال جس کا شکار نہ صرف انسانی زندگی ہے، بلکہ زندگی کی شکلیں متاثر ہوتی ہیں اور کائناتی توازن بگڑ جاتا ہے، اس کا مداوا ممکن نہیں۔ اسی طرح کی بحث عقیدۂ رسالت اور عقیدۂ آخرت کے تعلق سے بھی کی جاسکتی ہے۔

پیش نظر رہے کہ اسلام امن و سلامتی کا پیامبر ہونے کی حیثیت میں دورِ جدید میں علم اور ٹکنالوجی کی بنیادوں پر قائم ترقی یافتہ لیکن ظلم، استحصال، عدمِ عدل اور کائناتی اور نفسیاتی توازن میں بحران سے عبارت زندگی کے بارے میں کیا رائے رکھتا ہے؟ اس سوال کا جواب دیے بغیر نہ تو اسلام کے ساتھ عدل ہوسکتا ہے اور نہ اُن کے ساتھ جنھیں اسلام کا تعارف کرا رہے ہوتے ہیں۔ بلکہ ہمیں یہ بھی بتانا ہوگا کہ اسلام اس صورت حال میں سے کس طرح زندگی کو اَز سرنو صحت مند بنیادوں پر قائم کرے گا؟

عقائد کی عصری تفہیم

سطور بالا میں ہم نے موضوع میں شامل دو اصطلاحوں ’عصرِ حاضر‘ اور ’احیائے اسلام‘ کو سمجھنے اور اس کے تقاضوں کو جاننے کی کوشش کی ہے، جس کے نتیجے میں اسلامی سرگرمیوں کا ایک نقشۂ کار اُبھرتا نظر آتا ہے، جس کی وضاحت ضروری ہے۔ البتہ اس سے قبل اس بحث کے چند اور پہلو بھی ہیں۔

عقیدۂ توحید کی مذکورہ بالا تفہیم در اصل اسم الٰہی،مثلاً ’الخالق‘ کے پس منظر میں ہے، اور اس کے عملی و فکری مضمرات کی مختصر وضاحت ہے۔ اسی طرح عقیدۂ آخرت کے دینیاتی معنیٰ یعنی مرنے کے بعد کی زندگی کے ہیں۔ لیکن انسانی زندگی پر اس کے اثرات میں جواب دہی کا عنصر اہم ترین ہے، جو صرف اللہ کے سامنے ہی نہیں بلکہ اس کائنات سے تعامل کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اثرات کے لیے خود اس دنیا کے سامنے جواب دہی بھی اس میں شامل ہے۔ یعنی کائناتی وسائل، ارتقا اور تحقیق کے نام پر بے لگام استعمال نہیں کیے جاسکتے۔ اسلامی فقہ کی اصطلاح ’ضیاع‘ اس بحث کو ایک رخ عطا کرتی اور ترقی و تحقیق کی حدود متعین کرتی ہے۔

اسی طرح عقیدۂ رسالت انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ بنیادی طور پر علم کے کئی میدان ایسے ہیں، جن کے بارے میں یقینی علم کے مقام کو انسان محض اپنی صلاحیتوں کے ذریعے نہیں پہنچ سکتا۔ یہ اس بات کا اعلان بھی ہے کہ یقینی علم کی ایک سطح وہ ہے جسے انسان اپنے حسّی ذرائع کی مدد سے حاصل کرتا ہے، جو بالعموم ’کیسے‘؟ کا جواب دیتی اور جسے ہم مادّی وجود سے ماخوذ علم سمجھتے ہیں۔

دوسری سطح وہ ہے جس کا تعلق ’کیوں؟‘ کے جواب پر مشتمل ہے، جس میں مقاصد، اخلاقیات، اقدار، اچھے اور برے کی تمیز اور حتمی سوالوں کے جواب مہیا کرتی اور بین الانسانی اور کائنات و انسانی رشتوں کو صحت مندانہ طور پر استوار کرتی ہے۔ بالفاظ دیگر عقیدۂ رسالت در اصل علمیات (Epistemology)سے متعلق ہے۔ عقیدۂ رسالت کی بدولت جو علم حاصل ہوتا ہے اس کی صفت یہ ہے کہ وہ عقلِ خالص کی مدد سے منکشف نہیں ہوتا۔ اس علم کے خلا کو یقینا عقل پُر کرنا چاہتی ہے لیکن تن تنہا پُر نہیں کر سکتی۔ اس تک پہنچنے میں جذبات کا کردار بہت اہم ہے اور ایک بار جذبات کی مدد سے جب یہ دروازہ کھل جاتا ہے، تو منکشف ہونے والا ہر علم عقل کو مطمئن کرتا ہے اور اس کی مدد سے اس کی باریکیاں انسان پر منکشف ہوتی ہیں۔

 علم پر مبنی آج کے معاشرے میں علمیاتی بحث بڑی اہمیت کی حامل ہے اور آج کی دنیا اس مقام سے کہیں آگے بڑھ چکی ہے، جس میں صرف مشاہدہ اور تجربہ ہی معیارِ حق تسلیم کیا گیا تھا۔ اب نئی علمیات کی شکلیں وسعت پذیر ہیں۔ اسلام میں علم کی جو سیکڑوں قسمیں بہت سے اسکالروں نے متعین کی ہیں، وہ در اصل اس وسعت پذیر علمیات کی طرف اشارہ ہیں۔ اسمائے الٰہی جن کا تعلق علم سے ہے، وہ بھی اللہ کی اس کائنات اور انسان سے متعلق متحرک رشتوں اور روابط کی نشاندہی کرتے ہیں۔

ترجیحات

یہ نکتہ کہ ’اسلام چند ستونوں پر قائم ایک بلند و بالا عمارت ہے‘ بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ محض ستونوں کے استحکام یا محض عمارت چاہے، وہ کتنی ہی ہمہ گیر کیوں نہ ہو، اسلام کو قائم نہیں کر سکتی۔ چنانچہ، اسلام کو مستحکم کرنے یا اسے قائم کرنے کے لیے فی زمانہ ہر دوطرح کی سرگرمیوں پر اپنے عصر کے اعتبار سے توجہ دینی ہوگی۔ ستون جنھیں ’ارکان‘ کہا گیا ہے، ان کی اہمیت اور شکل، وقت اور مقام کے ساتھ تبدیل نہیں ہوتی اور ہر مکتب فکر میں اس کی اہمیت واضح ہے اور اس میں کسی قسم کا اختلاف نہیں پایا جاتا۔ البتہ اختلاف، عمارت کی تعمیر یعنی ’عصر ‘کے مطابق احیائے اسلام کی کوششوں میں ہو سکتا ہے، اور ظاہر ہے کہ یہ ایک فطری امر ہے۔ چنانچہ ہم یہاں بحث میں ارکانِ اسلام کو مدِنظر نہیں رکھیں گے، صرف عمارت یعنی نظام کے قیام کی جدید حرکیات کو پیش نظر رکھتے ہوئے، بحث کے پس منظر میں ترجیحات کی وضاحت کریں گے۔

جدید حرکیات جن پر آج کی دنیا زندگی بسر کر رہی ہے، وہ دنیا میں ارتقاء کا باعث بھی ہے اور فساد و بربادی کا ذریعہ بھی۔ انسانی زندگی ’انفرادی ہویا اجتماعی‘ اس میں ایک طرف آسانیوں کی فراوانی ہے تو دوسری طرف شدید بحرانوں کا شکار بھی ہے۔ معلومات اور آگہی کے انتہائی اعلیٰ مقام پر فائز ہوجانے کے باوجود زندگی شدید نفسیاتی، سماجی اور معاشرتی بحرانوں کا شکار ہے۔ یہ در اصل اس ’ورلڈ ویو‘ (تصورِ جہاں) کی بدولت ہے، جو اس دنیا پر گذشتہ چند صدیوں سے حا وی رہا ہے۔ اس ’تصورِجہاں‘ کو سمجھنا اس پر تنقید اور قرآنی بنیادوں پر ایک ایسے ہی متحرک ’تصورِ جہاں‘ کی وضاحت اور تشکیل جو زندگی کے ہرہر پہلو کو محیط ہو، اور قرآنی اقدار کو قائم رکھتے ہوئے زندگی کے ارتقا کو جاری رکھ سکے، یہ دور جدید کی تحریکات ِاسلامی کی ترجیح ہونا چاہیے۔

موجودہ ’تصورِ جہاں‘ کی ناقدانہ تفہیم کے لیے اسلامی ’تصورِجہاں‘ کی وضاحت، انسانی زندگی کو شدت سے متاثر کرنے والی جدید فکر، سائنس کے رُخ اورپالیسیوں، ٹکنا لوجی کے اثرات اور انسان و کائنات کے باہمی رشتوں پر مشتمل اور انھیں متاثر کرنے والے تمام ڈسپلیز کا ناقدانہ جائزہ ضروری ہو گیا ہے۔ اسی کے لیے انفرادی شوق کی حوصلہ افزائی کرنے کے ساتھ ساتھ تحقیق کا ایسا اجتماعی نظم قائم کرنا ہوگا، جہاں نقد، تفہیم اور تشکیل کا کام انجام دیا جاسکے۔

جدید حرکیات کو جاننے کے لیے اس میدان میں اُترنا ضروری ہے۔ اس کے بغیر نہ تو ہم اس کے اثرات کی گہرائی سے واقف ہو سکیں گے اور نہ نئی اسلامی حرکیات کی تشکیل کر سکیںگے۔ چنانچہ نوجوانوں کو اس تعلیمی نظام سے واقف کرانے اور اس کی بنیادوں کو سمجھنے، اسے خلّاقانہ (Innovative) طور پر بدلنے کی صلاحیت سے بہرہ مند ہونے کے لیے ایسے جدید تعلیم کے ادارے خود قائم کرنے کے ساتھ ساتھ ایسے لٹریچر سے استفادے کا ماحول تیار کرنا ازحد ضروری ہے، جو آج کی علمی اور معاشرتی دنیا کا ناقدانہ تعارف کراتے ہوں۔

سیاسی مقتدرہ کا حصول اہم ضرورت ہے، لیکن سیاسی کوششوں کے ساتھ ان تمام متبادل راستوں کی تلاش بھی جاری رکھنی چاہیے، جن کے ذریعے ہم وہ مقاصد حاصل کر سکیں، جو سیاست کے ذریعے پیش نظر ہیں۔

ترجیحات کے اعتبار سے مذکورہ بالا سرگرمیاں اوّلین اہمیت کی حامل ہیں کیوں کہ یہ سرگرمیاں فکری، تحقیقی اور تخلیقی نوعیت کی ہیں۔ ان کی خصوصی ذمہ داری ان افراد ہی کو سونپی جائے، جن کے اندر خصوصی ذوق اور صلاحیتیں موجود ہوں۔ البتہ اس طرح کے مطالعے اور ایسے مطلوب طرزِ زندگی کی تعمیر عوامی نوعیت کی ہوگی اور کوشش کی جائے گی کہ عوامی سطح پر بھی اس ذوق کی پذیرائی ہو۔ دوسری طرح کی سرگرمیاں، اصلاحی، تعمیری اور عوامی بہتری کے لیے ہوں گی۔

اس سلسلے میں آخری بات یہ ہے کہ ایسا مزاج بنانے کی ضرورت ہے، جس میں اسلام کو محض مسلمانوں کے دین کی حیثیت سے نہیں بلکہ عوام الناس کے لیے اور ان کی بہتری کے لیے پیش کیا گیا ہو۔ اس مزاج کا اظہار ہمارے لٹریچر اورگفتگو ؤں وغیرہ سے بھی ہو اور عوامی بھلائی کے کاموں سے بھی۔

 یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ انسان بحیثیت مجموعی سچائی پر قائم رہنا چاہتا ہے اور اچھائی پسند کرتا ہے۔ اسی لیے ہونے والے ترقی کے تمام کاموں، اس کی اختراعات اور تحقیقات میں مثبت پہلو زیادہ نمایاں ہیں۔ چنانچہ، ہمیں جدید ترقیوں اور اس سلسلے میں انسانی کوششیں جو چاہے کسی بھی رنگ و نسل، مذہب اور قوم کے افراد کی ہوں کو تسلیم کرنا چاہیے اور ان کاموں کو اللہ کی نعمت سمجھ کر ان کے ممکنہ غلط استعمال اور اثرات کو سمجھانا چاہیے اور دعوت دینا چاہیے کہ ان کے اثراتِ بد سے انسان محفوظ رہیں۔

موضوع کا آخری نکتہ مسلمانوں کے اکثریت و اقلیت میں ہونے سے وابستہ ہے۔   اصولی طور پر یہ تمام کام ہماری ذمہ داری ہیں اور ایک سطح تک ان سے واقفیت ہر اس فرد کو ہونی چاہیے، جو ہمارے ساتھ اس عظیم جدوجہد میں شامل ہے، لیکن جہاں اکثریت میں ہیں وہاں یہ تمام کام یکساں اہمیت کے حامل ہیں اور جہاں اقلیت میں ہیں وہاں کے وابستگان کی فکری سطح یکساں رکھتے ہوئے مقامی حالات کی بناپر کچھ پہلوؤں پر زیادہ عملی توجہ دی جاسکتی ہے۔

اس بحث میں درج ذیل نکات پر آج کے دور میں خصوصی توجہ کی ضرورت ہے:

            ۱-         رسولؐ اللہ کے دور اور آج کے دور میں موازنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ آج کے حالات میں ایسی تبدیلیاں آچکی ہیں، جنھیں سمجھنے اور متعلقہ صلاحیت اور استطاعت پیدا کیے بغیر اسلام اور اسلام کے پیغام کو کامیابی کے ساتھ عصر جدید میں پیش نہیں کیا جاسکتا۔

            ۲-         اسلام کے تعارف میں عقائد کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ روایتی فہم کے ساتھ جدید عملی ، علمیاتی اور ترقیاتی چیلنجوں کے پس منظر میں انھیں سمجھنا، تاکہ جدید دنیا کے مختلف پہلوؤں پر ناقدانہ تبصرہ کیا جاسکے، اور اس کے ذریعے فرد ، معاشرے اور کائنات کے ساتھ انسانی رشتوں پر ہونے والے ظلم کو سمجھا جاسکے اور عدل و قسط کے قیام کی شکلیں دریافت کی جاسکیں۔ یہ توحید، رسالت اور آخرت کے عقائد کا عملی اظہار ہوگا۔

            ۳-         دور جدید جس علم، ٹکنالوجی، سائنس اور افکار سے عبارت ہے، اسے سمجھنے کی انفرادی اور اداراتی کوششوں کے بغیر ایسے افراد مہیا نہیں ہوسکتے، جو مذکورہ مقاصد کو حاصل کرنے کی استطاعت رکھتے ہوں۔ ان علوم اور افکار کو سمجھنا اور مطلوبہ استطاعت کا حصول تربیتی نظام کا حصہ ہونا چاہیے۔ اس محاذ کو ثانوی نہیں، اساسی و بنیادی درجہ دینا چاہیے۔