اسلام، نظامِ فطرت ہے ۔یہ اللہ ربّ العالمین کا وہ عطیہ ہے، جسے انسان سمجھ لے تو سجدۂ شکر اَزخود بجا لائے۔مگر افسوس کہ ہم نے اس عنایت کو عملاً سمجھا ہی نہیں اور اگر سمجھا ہے تو پھر عملاً ویسے برتا نہیں، جیسا کہ اس کے برتنے کا حق تھا ۔ یہ فطری تقاضاہے کہ شکوہ اپنوں سے پہلے کیا جائے، مخاطبت بھی اپنوں سے پہلے ہو۔ مسلمان امت نے خلفائے راشدین کے بعد ہی سے مادہ پرستی، اقتدار پرستی اور بے عملیوں کا ایسا مظاہرہ کیا اور اسلام کی اصل تصویر کو عملاً پراگندہ کردیا: ع
گنوادی ہم نے جواسلاف سے میراث پائی تھی
’اقامتِ دین‘ کے اصل تصور کو بُھلا کر مسلم امت آگے بڑھی،اور اسلام کی وہ تعبیر اور تشریح کی گئی، جو اپنے اقتدار کے مفاد میں بہتر لگنے لگی ۔ابتدائی سیاسی کشاکش کے بعد سے ہی ہم نے دین کے قیام کی کوشش کو متاثر پایا ۔اللہ روشن کرے ان اکابرین کی قبریں کہ جنھوں نے روئے زمین پر اس تصور اور اس احساس کی چنگاری کو کہیں نہ کہیں باقی رکھا ہے۔ملت اسلامیہ میں سر اُٹھانے والی سیاسی کش مکش نے فسطائیت کو ابھرنے اور نظامِ اسلام کے بالمقابل فلسفے ،نظریات اور نظام در نظام کو ترتیب دینے پر اُکسایا۔ مسلمانوں نے اقامت دین اور اس کی بقا کی دیانت دارانہ اتنی کوشش نہیں کی، جتنی کوشش فسطائی ذہنوں نے اپنے مذموم مقاصد کےلیے کی ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ جیو پالیٹکس کےشکاربرسرِاقتدار مسلم ممالک، قیامِ اسلام کی اصل کوشش کے بجائے اپنے مفادات کے پیش نظر ہر قدم اٹھاتے ہیں۔ استعماریت کے اسیر نہ اپنی ذات اور مفاد سے باہر نکل کر سوچنے کا دم رکھتے ہیں اور نہ عالمی سطح پر ذاتی مفاد سے آزاد ہوکر قیامِ عدل کے لیے سوچتے ہیں۔ اس صورت میں مصر میں اخوان المسلمون اور فلسطین میں حماس کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پھر انسانیت، انسانیت نوازی اور انسانیت کشی میں کوئی تفریق باقی نہیں رہتی ۔
ان حالات میں باشعور طبقہ کچھ اقدامات کرسکتا ہے،جو درج ذیل ہیں:
پہلی ضرورت نظامِ فطرت پر یقین اور اعتماد بحال کرنا ہے۔ جتنا اعتماد اس نظام پر ہمارا ہوگا، اتنےہی اعتماد کے ساتھ ہم عملی زندگی میں اس کے نفاذ کی کوشش کریں گے۔ تذبذب اور ذہنی کش مکش کی کیفیت سے اُمت مسلمہ کو نکالنے کی ضرورت ہے۔ وہ یہ نہ سوچے کہ اسلام کو ماڈرن ازم کے زیراثر ’اَپ ڈیٹ‘ کرنے کی ضرورت ہے، بلکہ اس کے نفاذ ہی کو غلط سمجھا جانے لگا۔ مسلم خواتین کے حقوق کو بطور مثال لیجیے کہ صحابیات اور محدثات اور بعد کی زندگی میں خواتین کو جتنے حقوق حاصل تھے، اسی لحاظ سے اس کانفاذ کیا جاتا تو پوری دنیا کواس نظام کو چیلنج کرنے کے لیے ذرابھی کوئی گنجائش نہ ملتی۔ نسل کا خالص ہونا ایک مرد کے نزدیک ماضی کی طرح آج بھی انتہائی سنگین مسئلہ ہے۔ اسی وجہ سے مغربی دنیا نے ڈی این اے ٹیسٹ کویقینی بنایا ، نسل کی وراثت، اپنی نسل کا نام اور اپنی نسل سے جذباتی لگاؤ ، جیسا حساس موضوع ترقی یافتہ قوموں میں بھی اہم رہا ہے، اور ہر فرد کی نفسیات سے جڑا ہوا ہے۔
انسان کی اسی نفسیات اور ذہنی خلجان کے مد نظر اسلام نے نکاح سے لے کر عدت کی مدت گزارنے تک پورے نظام میں مرد کی اس فطرت کا خیال رکھا ہے۔بیوی کی صالحیت ، وفاشعاری ، اس کے ساتھ حسن سلوک ، استحقاق قائم ہونے کے بعد اس خاتون کے ہاتھ میں نسل کی پرورش اور شوہر کی موت کے بعد اس خاتون کی عدت ، وراثت میں حصہ ، مکمل زندگی کو مرد کے لیے خالص بناتا ہے، وہیں ایک خاتون کی فطرت میں تحفظ کا احساس پایا جانا ہے۔ اسلام کے نظام میں تحفظ کو یقینی بنانے کی ہر صورت موجود ہے۔اس نظام کی اصل روح ایک خاتون کو مستحکم کرنا اور استحقاق کے ساتھ زندگی گزارنے کی صورت پیدا کرنا ہے ۔جدید دور میں بھی اس رشتے میں چاہے جتنے چیلنج ہوں، یہ دو بنیادی نکتے ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے ۔
ہم نے بلاسود نظام اور اس کے انسانی نفسیات پر پڑنے والے عوامل کو اس طرح آج تک واضح نہیں کیا جیسا اور جس شدت کے ساتھ واضح کرنے کا حق ہے ۔کتنی باریکی سے اس نظام میں اللہ نے انسانی نفسیات اور پریشانی ، اس کی پریشانی میں انسانوں سے محتاجی اور اس محتاجی میں ایک قرض دینے والے کا غیراستحصالی نظام کے علی الرغم سپورٹ سسٹم کو آشکارا کرنا ہے۔ اس طرح محتاج اور پریشان حال انسانوں کے درمیان محبت و مودت کا پہلو غالب رکھ کر، ایک دوسرے سے قربتیں پیدا کی ہیں ۔اس کے بالمقابل سرمایہ دار غریب مقروض کو جونک کی طرح نچوڑ لیتا ہے۔ دونوں کے دلوں میں نفرتوں کا طوفان ہے۔ انسان کی اس شرپسندی کےذریعے وجود میں لائے گئے سودکو اللہ نے سرے سے ہی لعنت کہا ہے ۔ تحریک اسلامی نے اسے پورے اعتماد کے ساتھ متعارف کروانے کا مشن ترتیب دیا ہے۔ اس کام کو عملی سطح پر بلاسودی سوسائٹی کی حیثیت سے اور فکری سطح پر زیر گفتگو لاکر اس پر کام ہونا چاہیے۔فکری سطح پر نہ صرف یہ کہ مباحثے ہوں، بلکہ کہانی ،افسانہ، افسانچہ ، تحریر، تقریر، گفتگو ، شارٹ فلم، ہر جگہ ایک ڈسکورس (علمی روایت) بناکر پیش کرنے کی ترغیب دلائی ہے۔
دوسری چیز یہ کہ اُمت مسلمہ اس نظامِ فطرت کو ایک فطری دین کی حیثیت سے پیش کرنے میں ناکام ہے۔دینِ اسلام اور نظامِ عدل صرف مسلمانوں کے لیے تو نہیں ہے ۔یہ انسان کی فطری ضرورت اورفطرت کی آواز ہے۔ یعنی ایک بچے کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے کہ بھوک لگے تو کھانا منہ میں ڈالے یا وہ بچہ کبھی آگ کو نہیں چھوتا،کیوں کہ اس کے وجدان میں آگ کی حدت موجود ہے۔ہمیں اس نظام پر بھی اتنا یقین ہونا چاہیے کہ کرۂ زمین پر بسنے والے ہر شخص میں یہ احساس اور آواز موجود ہے اور یہ طلب موجود ہے ۔
اللہ رب العالمین نےسورۃ الشمس میں چاند، سورج ، سیارے، ستاروں، زمین و آسمان کی قسم کھاکر جو بات ارشاد فرمائی ہے: وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰىہَا۷۠ۙ فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰىہَا۸۠ۙ (الشمس ۹۱: ۷-۸)’’اور نفسِ انسانی کی اور اُس ذات کی قسم جس نے اسے ہموار کیا۔ پھر اُس کی بدی اور اُس کی پرہیزگاری اُس پر الہام کردی‘‘۔
یہاں نفسِ انسانی پر اللہ نے اچھائی برائی کو واضح کردیا۔کسی مسلمان کے ساتھ یہ عمل مشروط نہیں ہے۔ اس نظام فطرت کو جو کہ ان کا اپنا نظام ہے، ہم نے محسوس نہیں کروایا۔ ہم نے اس نظام کو محض ایک قلعے میں محفوظ کرلیا۔ دوسری طرف اس سے نسبت کے نام پر تیر کھارہے ہیں ۔ہمیں اس قلعے کے دَر وا کرنے اور دعوت دے کر انھیں بلانے اور ان کی میزبانی کرنے کی ضرورت ہے۔ تاریخ میں بعض مسلم سلاطین نے فاتح ہونے کے بعد پورے اعتماد کے ساتھ خود اپنے نظام کو پیش کیا، اور مقامی عوام کو سمجھنے کا موقع دیا کہ وہ سراپا خیر ہے اور عدل و انصاف پر مبنی نظام ہے۔
’جدیدیت‘ سے اُمت مسلمہ کی مرعوبیت بھی ایک عجیب منظر پیش کرتی ہے۔ مادی نظام کا مقابلہ روحانی نظام ہی کے ذریعے ممکن ہے ،اور روحانی نظام مادہ پرستی کے مقابل ہر دور میں متعارف کروایا گیا ہے۔ تاہم، اُمت مسلمہ کے نزدیک تمام شعبہ ہائے زندگی میں اسلامی نظام کا قیام پوری اُمت کا ایجنڈا اب تک نہیں بن سکا ہے۔امت کا یہی انحراف ہم دعوت و تحریک سے وابستہ افراد کو تنہا بنادیتا ہے۔ گذشتہ ایک صدی سے کچھ افراد کوشش بھی کررہے ہیں ،ان کوششوں کو تیز تر کرنے کے لیے ہمیں ان نظریات کےداعیوں کے طریق کارپر غور کرنے اور جائزہ لیتے رہنے کی ضرورت ہے، جنھوں نے اس مقصد کی ترویج کے لیے جدید طریقوں کو رُوبہ عمل لانے کے لیے زندگیاں لگادیں۔
جس طرح دعوت کےفریضےکی ادائیگی میں غیر محسوس طریقے سے اسلام کو انسانی ضرورت بناکر پیش کرنا چاہیے، اسی طرح اصلاح معاشرہ کی کوشش بھی ذات پات، مسلک و گروہ سے ہٹ کر انسانی مفاد کے ایجنڈے کو پیش نظر رکھ کر کرنا چاہیے ۔باطل کی یلغار سے زیادہ خطرناک باہمی انتشار ہے، جو مفاد پرستی سے جنم لیتا ہے ۔معاشرہ اور معاشرے کے معمول کا گہرائی و سنجیدگی سے مطالعہ ضروری ہے۔ ہمیں معاشرے کی نوک پلک درست کرنے کے لیے ریسرچ اور ڈویلپمنٹ کی طرف جانا چاہیے، تاکہ ہم اصلاح معاشرہ کی بکھری بکھری کوشش کے بجائےمنظم اور نتیجہ خیز کام کرسکیں۔
جب اپنے ہاتھوں میں مٹی لگی ہوتو بے داغ شفاف چادر کو آپ صاف کیسے کرسکیں گے؟ لازم ہے کہ ہم ان ہاتھوں کو صاف کریں ۔سب سے پہلے اُمت مسلمہ کے درمیان موجود بے عملیوں کا جائزہ لیا جائے ،ان خرافات کی فہرست بنائی جائے اور اصلاح معاشرہ کی ایسی کوشش کی جائے جیسی کوشش کرنے کا حق ہے۔ اصلاح معاشرہ کے عصری تقاضے میں محترم سعادت اللہ حسینی نے بہترین نکات پیش کیے ہیں۔یہ نکات نہ صرف تکثیری معاشرے کے لیے قابلِ عمل ہیں بلکہ دیگر مسلم ممالک اور غیرمسلم ممالک میں بھی ان پر عمل کیا جاسکتا ہے۔ معاشرے میں سوشل انجینئرنگ کیا ہوتی ہے ؟کس طرح انسانی معاشرے کا دماغ اور ضمیر کام کرتا ہے؟ کیسے انسان اپنی روایاتی چیزوں کی بنیا دپر قرآن و حدیث کو کسوٹی بنائے بغیر اپنے گروہ کی پہچان بنالیتا ہے؟ معاشرے میں نقد کرنے اور متوقع تبدیلی کے لیے حوصلہ، ہمت ، بے نیازی، جفاکشی ،جرأت اور یقین درکار ہے۔ اصلاح معاشرہ بالکل ممکن ہے، لیکن اس کے لیےجو استغناء مطلوب ہے وہ افراد میں ہو، اور ایک ہی مشن پر کام کرنے والوں کی اندورنی حالت رحماء بینھم ہونا لازم ہے ۔
ہم انسانی ہمدردی اور انسانیت کا شعور پیدا کریں ،ساتھ ہی اعلیٰ اخلاق کا نمونہ پیش کریں۔ اُمت مسلمہ میں جھوٹ،چغلی اورچوری کرنے جیسی اخلاقی برائی پر تو متوجہ کیا جاتا ہے، لیکن بجلی کی چوری ، ٹیکس ادا نہ کرنے ، اپنے گھر کی تعمیر کو سڑک تک لے آنے، پڑوسی کی زمین کو اپنے استعمال میں لینے ، کوڑا کچرا ایسی جگہ پھینکنے کہ جس سے راہ گیر کو تکلیف ہو، یا ماحولیات کو نقصان پہنچانے جیسے اخلاقی امراض کو یکسر بھلا دیا جاتا ہے ۔ہم اصلاح طلب اُمور کو مثبت رجحان کے ذریعے تبدیل کرنے کا بیانیہ عوام الناس میں پیدا کریں ،اور عملاً اس طرح کی بُرائی کو معیوب سمجھ کر اس کا اظہار بھی کریں۔
استعماریت کا شکنجہ سرمایہ داروں اور سیاست دانوں کے سوا اپنے مفاد کے حصول کے لیے دیگر تمام انسانوں کو صارف اور محنت کش کی حیثیت دیتا ہے ۔ اپنےانجام سے بے خبر ہر شخص اندھوں کی مانند اس کے پیچھے بھاگ رہا ہے اور قاتل کو مسیحا سمجھ رہا ہے ۔اس مرعوبیت کی زد میں تمام انسان اس بات سے بے خبر ہیں کہ کائنات کےسارے وسائل استعماری طاقتوں کے قبضے میں ہیں اور تھوڑی سی چکاچوند کے بدلے وہ ذہنی غلام بنالیے گئے ہیں ۔اس فریب سے اُمت مسلمہ بھی خالی نہیں ہے ۔استعماریت کا سب سے بڑا مذہب صرف مادی حصول ہے۔ مادہ پرستی کا مقابلہ مضبوط روحانی طاقت اور خدائی نظام ہی کے ذریعے ممکن ہے۔
سیاسی نظام اور استعمار کا قلع قمع کرنے کے لیے شفاف ذہن کے کچھ افراد اپنے وقت اور صلاحیت کے ساتھ یکسو ہوں، جو نوجوانوں کو اقدار پر مبنی سیاسی نظام اور عام انسانوں کی حق تلفی پر مستقل توجہ مرکوز کرکے کام کرنے کے لیے تیار کریں۔ مرد و خواتین اپنے اپنے ملک کے نظام کا مطالعہ کریں۔ عام عوام کے مزاج اور ان کے درمیان اقدار پر مبنی موقف کو موضوعِ گفتگو بنایا جائے۔ ذمہ دار اور اصول پسند میڈیا ٹیم کو بڑے پیمانے پر ان مقاصد کی آبیاری کے لیے استعمال کرے۔
ڈیجیٹل دنیا بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ سب سے بڑا چیلنج تیزی سے تبدیل ہوتے عالمی معاشرے میں نسلوں کو اعلیٰ اقدار پر قائم رکھنے کا ہے۔ ڈیجیٹل تبدیلی نے نہ صرف مسلمانوں کو متفکر کیا بلکہ پوری دُنیا میں ہر زیرک ذہن کو یہ سوچنے پر آمادہ کیا ہے کہ اس ڈیجیٹل تبدیلی کے ساتھ نسلوں کو ان کے عقائد ، اقدار ، صالحیت پر کیسے قائم رکھا جاسکتا ہے ؟اس سلسلے میں دیگر ممالک اس نہ رُکنے والے سیلاب پر بند باندھنے کی تدبیر بھی کررہے ہیں۔تعلیمی نظام میں تبدیلی، انسانی تعامل کو باقی رکھنے پر غورو فکر، نسلوں کی بقا کے لیے ان پر سب سے زیادہ سرمایہ کاری کیجیے، کیوں کہ کائنات کا نظام انسان کے وجود سے مسخر ہے۔ ’مصنوعی ذہانت‘ (AI)کی غلامی کے لیے نہیں ہے۔
انسانی بقا دراصل انسان کی دماغی ، جسمانی ، روحانی صحت سے تعبیر ہے۔’’ پیٹ میں گھونپتے جو سونے کا خنجر ہوتا ‘‘یہ کیفیت انسان کو اس کائنات میں معطل بنارہی ہے ۔ہمیں اس حوالے سے بھی غور وفکر اور تدبر کی ضرورت ہے کہ تیزی سےگرتا ہوا Empathy کا گراف انسانوں کو محبت، ہمدردی اور جذباتی لگاؤ سے عاری کردے تو انسان کی ذات میں کچھ باقی نہیں رہے گا ۔لیکن ہم نے نبویؐ طریقے سے سیکھا ہےکہ ہر چیلنج، تدبیر پر آمادہ کرنے کے لیے ہوتا ہے ۔ہم اس پر بھی قابو پاسکتے ہیں، ہمیں اس پر بھی ریسرچ اسکالر تیار کرنے ہوں گے، جو ساری دنیا کی مسیحائی کرسکیں۔
توقع تو یہ تھی کہ گلوبل سطح پر برسرِاقتدار مسلم ممالک اسلام کی تصویر بہتر بنانے کے لیے دین کی صحیح تشریح اور تعبیر کرنے کا بیڑا اپنے میڈیا ہاؤس کے ذریعے اٹھاتے، تاکہ تکثیری معاشرے کے ساتھ پوری دنیا کے سامنے نظام اسلام کو پیش کرنےکی منظم کوشش کی جاتی۔ سب خرابی اور بے حسی کے باوجود ہم مایوس نہیںہیں، نہ خود کو اس حوالے سے کم تر محسوس کرتے ہیں۔ البتہ، اپنے مشن کے لیے اس طرح کا دُوررس کام کرنا چاہتے ہیں، جیسے سپرپاور نے اپنے استحکام کے لیے مسلم ممالک کی نسلوں پر کام کیا ہے، اور اپنی قوت کو مستحکم بنانے کے لیے سعی و جہد کی ہے۔ ہمارا بھی یہی امتحان ہے کہ عالمی سطح پر ہم اصلاح کا کام اسی درجے پر کریں ۔ اپنی رفتار سست سہی، تاہم ماڈر ن ازم سے پراگندہ ہونے سے ہم بچاتے رہیں اور مستقبل سازی کے لیےافراد تیار کریں۔تکثیری معاشرے میں صرف مسلمان ہی اقلیت میں نہیں ہیں، بلکہ فسطائیت کے اس جال میں عالمی سطح پر مثبت تبدیلی، مکمل نظام امن اور خدائی نظام کا خواب دیکھنے والے افراد بھی قلیل ہی ہیں، اس کے باوجود ہمیں یقین ہے :كَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِيْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً كَثِيْرَۃًۢ بِـاِذْنِ اللہِ۰ۭ وَاللہُ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ۲۴۹(البقرہ ۲:۲۴۹)
اس بات پر ہمارا یقین ہے کہ اقلیت اکثریت پر غالب آجاتی ہے، ہمیں تدبیر سے کام لینے کے لیے اللہ مہلتِ عمل دے رہا ہے ۔ایسے مواقع بارہا آئے ہیں اور ہم نے قرآن اور حدیث ہی سے مدد لی ہے۔اس حدیث سے ہم سوچ بچار کا عمل سمجھ سکتے ہیں:
عَنِ الْبَرَاءِ قَالَ کُنَّا أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ نَتَحَدَّثُ أَنَّ عِدَّۃَ أَصْحَابَ بَدْرٍ عَلٰی عِدَّۃِ أَصْحَابِ طَالُوْتَ الَّذِیْنَ جَاوَزُوا النَّھْرَ وَلَمْ یُجَاوِزُوْا مَعَہٗ إِلَّا مُؤْمِنٌ بِضْعَۃَ عَشَرَ وَثَلَاث مائَۃٍ (رواہ البخاری : کتاب المغازی ،باب عدۃ اصحاب بدر) حضرت براء ؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’ہم محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی باہم گفتگو کیا کرتے تھے کہ اصحاب بدر کی تعداد طالوت کے ان ساتھیوں کی تعداد کے برابر تھی، جنھوں نے نہر پار کی تھی اور ان کے ساتھ صرف ۳۱۳ مومن تھے‘‘۔
جب ان کا سامنا جالوت کی فوج کے ساتھ ہوا تو سیر ہو کر پانی پینے والوں نے لڑنے سے انکار کردیا۔ بعض مفسرین نے اسرائیلی روایات کے حوالے سے لکھا ہے کہ سیر ہو کر پانی پینے والوں کے پیٹ پھول گئے۔ جب فوجوں کا آمنا سامنا ہوا تو انھوں نے جہاد سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ ہم میں جالوت کے لشکر کے ساتھ لڑنے کی ہمت نہیں ہے۔ اس صورتِ حال سے عہدہ برآ ہونے اور بزدلوں کو جہاد پر آمادہ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ پر سچا یقین رکھنے والے مجاہدوں نے کم ہمت لوگوں کو بار بار سمجھایا کہ کم ہمتی اور بزدلی نہ دکھاؤ۔ ہمت کرو اور یقین جانو کہ تاریخ میں بار ہا ایسا ہوا کہ قلیل جماعتیں، کثیر جماعتوں پر اللہ کے حکم سے غالب آتی رہی ہیں۔ اس حقیقت پر اسلام کا ماضی گواہ ہے، مسلمان اسلحہ اور افرادی قوت کے اعتبار سے کبھی اپنے دشمن سے زیادہ تو نہیں رہے۔ لیکن جب تک یہ منظم،مستقل مزاج، پُر عزم، صاحب ِکردار، حوصلہ مند اور صابر رہے،تو یہی غالب آتے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مستقل مزاج لوگوں کا ساتھ دیا کرتا ہے۔آج ہمارے سامنے بھی مادیت کا خواب، عام انسانوں کو دکھانے والی فسطائی قوتیں سراب دکھارہی ہیں اور بے خبر عوام نہیں جانتے کہ انھیں دھوکا دیا جارہا ہے۔
اللہ تعالیٰ مختلف طریقوں سے لوگوں کو آزماتا ہے۔ دشمن کے مقابلے سے پہلے اس کی قوت کا اندازہ لگانا اور پھر تربیت حاصل کرنا ضروری ہے،نیز مستقبل سازی کے لیے منصوبےبنانا، بغیر ہچکچاہٹ اور خوف کے ان کو نافذ کرنا لازم ہے۔ آزمائش کے وقت ایک دوسرے کو ثابت قدم رہنے کی تلقین کرنا چاہیے۔اللہ تعالیٰ صبر کرنے اور چیلنج دیتے حالات میں تدبیر ڈھونڈنے والوں کے ساتھ ہے۔
اس وقت باطل کے نشانے پر خواتین ہیں ۔مسلم اُمت کے بیش تر معاشروں نے خواتین کو وہ مقام نہیں دیا جیسا کہ دیا جانا چاہیے تھا۔ اس چیز کا ہمیں کھلے دل سے اعتراف کرنا اور فوراً اپنی صفوں کو درست کرنا چاہیے:
وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُہُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ۰ۘ يَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَيُؤْتُوْنَ الزَّكٰوۃَ وَيُطِيْعُوْنَ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ سَيَرْحَمُہُمُ اللہُ۰ۭ اِنَّ اللہَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ۷۱(التوبہ ۹: ۷۱) مومن مرد اور مومن عورتیں، یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں، بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور بُرائی سے روکتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اُس کے رسولؐ کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی رحمت نازل ہوکر رہے گی، یقینا اللہ سب پر غالب اور حکیم و دانا ہے۔
ہم نے اس آیت کو دنیاکے ہر کام میں خواتین کی شمولیت کو یقینی بنانے کے بجائے، پہلے سے موجود روایتوں کے ساتھ قبول کرلیا اور اسی کا نام اسلام رکھ دیا۔ مساجد سے خواتین کو دور رکھا ، میدانِ عمل سے دُور کرکے چار دیواری تک محدود رکھا ،اسے نہ کسب ِنیکی کا شعور رہا، نہ اصلاح معاشرہ کا،نہ نظام معیشت میں حصہ بننے کا ،نہ معروف ہی کا۔ شادی بیاہ کی خرافات ہوں یا اسلامی قوانین اور حقوق و فرائض کا شعور، وہ سب سے عاری رہی۔ قانون وراثت میں اس کا حصہ رہا، نہ اسے اپنی وراثت اور مال کو اپنے پاس رکھنے کی اجازت رہی۔ اسے دیگر قوموں کی طرح مرد کی تحویل میں ہونے کا اس حد تک احساس دلایا گیا کہ نیکی کماتے ہوئے بھی خود کوشوہر کی اجازت کی محتاج سمجھنے لگی ۔چوں کہ ’معروف‘ کاتصور نہ رہا تو ’معروف‘ میں شوہر کی اطاعت کا بھی کیا شعور ہوتا؟ منکرات میں بھی دیگر قوموں کی خواتین کے مشابہ اطاعت کرنے لگی۔ یوں ایک مسلم خاتون کی تصویر پوری دنیا کے سامنے محکوم و مظلوم بن کر اُبھری اور ’اسلامو فوبک‘ فسطائی ذہن کو اسلام سےمتنفر کرنے کا خوب موقع ملا ۔’فیمی نزم‘ کے نام پر سب سے پہلی زد مسلم خاتون پر ہی پڑی۔
قانونِ وراثت کو من وعن رُوبہ عمل لایا جاتا تو ایک خاتون کو نظام معیشت میں حصہ بننے کا حق ملتا ، تو وہ تمام تر شعبہ ہائے زندگی میں ،مشاورت میں ،عبادات میں ،مساجد اورتعلیم گاہوں میں، خیر اور بھلائی کے کاموںمیں ، بحیثیت تاجرہ ، منتظم میدانِ عمل میں پورے اعتماد کے ساتھ موجود ہوتی۔ اس طرح خواتین کے لیے دل چسپی کا باعث ہوتی۔ قانون طلاق ، خلع ، مہر ، اور وراثت اسے پوری دنیا کے سامنے خود خواتین عملی اور زبانی پیش کرتیں۔ وہ دنیا کی خواتین کو اس راہ کی طرف دعوت دیتیں ۔اوّلین اصلاح کے میدان میں آج بھی خواتین کے ساتھ مسلم مردوں کا رویہ تبدیل ہونا چاہیے۔
اسی کے ساتھ اسلامی معیشت پر ریسرچ کے لیے نوجوانوں کو آمادہ کرنا ، شریعہ قانون اور دیگر قوانین کا تقابلی مطالعہ کرنے والے سنجیدہ نوجوانوں کو میدان میں آگے آنا ہوگا۔ معاشرے کے نظریات اور تبدیلی کا منصوبہ بنانے والوں کی ٹیم تیار کرنی ہوگی ۔ایسے داعی ہمیں چاہییں، جو اپنے مدعو کو میزبانی سونپنے کا فن جانتے ہوں۔ ایسے رضاکار چاہییں کہ خدمت خلق جن کا شیوہ بن جائے۔ ایسے ماہرین تعلیم کی ضرورت ہے کہ جو ہم عصر تحقیقات میں خود حصہ لے سکیں اور بحیثیت ماہرِتعلیم عالمی سطح پر نسلوں کو شعوری علم کے حصول کی جانب راہ نمائی کرسکیں ۔