محمود شام


اسی کشمکش میں گزریں مری زندگی کی راتیں
کبھی سوز و سازِ رومی ، کبھی پیچ و تابِ رازی

ماہ نامہ ترجمان القرآن کے سوال میں ’نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر‘ کا اضطراب ہے۔ خلافت ِ عثمانیہ کی صرف عسکریت پسندی سے آغازپانے والی مسلم بے حسی نے مسلمانوں کو جغرافیائی شکل میں ہی تقسیم نہیں کیا ہے بلکہ فکری طور پر بھی تتر بتر کردیا ہے۔ پچھلی صدیوں میں اور خاص طور پر اکیسویں صدی کے پہلے مغربی استعمار نے مسلمانوں سے ان کی فکری شناخت چھین لی ہے۔ کوئی منزل نہیں ہے، کوئی نصب العین نہیں ہے۔

فروری ۱۹۷۴ء میں لاہور میں منعقدہ دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس ایک سنگ میل ثابت ہوئی۔ اس سے توقعات تھیں کہ مسلم دُنیا ایک سیاسی، سماجی اتحاد کی طرف بڑھے گی۔ پھر اس کے شرکا کا ایک ایک کرکے جسمانی طور پر خاتمہ کردیا گیا۔ یہ نائن الیون کے بعد کا ذکر ہے، جب دسمبر ۲۰۰۱ء میں جنگ گروپ کے زیراہتمام ہم نے سہ روزہ سیمینار منعقد کیا۔ اس سیمینار میں ملائشیا، انڈونیشیا، مصر، سعودی عرب، ترکیہ سے اسکالروں نے شرکت کی۔ لیکن یہ سلسلہ بھی آگے نہیں بڑھ سکا، جب کہ امریکا اور یورپ کے مصنفوں نے اسلام کا تاریخی جغرافیائی مطالعہ کیا۔ مسلم اَدوار پر بہت سی کتابیں شائع ہوئی ہیں۔

عرب دُنیا کے احساسِ برتری نے مسلم ملکوں کے میڈیا کا کوئی اشتراک نہیں ہونے دیا۔ اب جب فلسطینیوں کی نسل کشی ہورہی ہے، اسکولوں میں ہی نہیں، رحمِ مادر میں بھی فلسطینی نسل کو نیست و نابود کیا جارہا ہے۔ عالمی ذرائع ابلاغ پرمسلم مخالف مالکان اور فکری قوتوں کا غلبہ ہے۔ مغرب ایک سوچے سمجھے منصوبے کے طور پر، مشترکہ خاندان کا اسلامی تصور اقتصادی بنیادوں پر ختم کررہا ہے۔ اخبارات، ٹی وی، یوٹیوب، سوشل میڈیا پر اسلامی شناخت پر ایک یلغار ہے۔ ہمارے مسلم سربراہ اور مسلم سپہ سالار، امریکا کے زیراثر ہیں۔ نیٹو کی فوجی طاقت مسلم عسکری قوتوں کو تباہ کررہی ہے، مگر زیادہ تر مسلم ممالک، امریکا کے اتحادی ہیں۔

میری آرزو ہے کہ مسلم ملکوں کے درمیان ابلاغی اور دفاعی معاہدہ ہو۔ ایک میڈیا ہائوس ہو، جس میں تمام مسلم ممالک کے صحافی اور ایڈیٹر اصولی کمیٹی کے ارکان ہوں۔ ہمہ پہلو علوم و فنون کی تدریس و تحقیق کا مرکز ایک اسلامی یونی ورسٹی ہو، جس کے کیمپس ہرمسلم ملک میں ہوں۔ اسلامی یونی ورسٹی سے ملحقہ کالجوں، اسکولوں کے لیے ایک نصاب پہلی سے لے کر گریجوایشن (From KG to PG )تک کا طے کیا جائے۔ اس کے لیے ہرملک کی مادری زبان میں کتابیں مرتب کی جائیں۔ مسلم اسکالروں کی سالانہ کانفرنسیں مختلف ممالک میں باری باری منعقد ہوں۔

ترکیہ، پاکستان ، ملائشیا کے اسکالرز اس کے محرک بن سکتے ہیں۔ مسلم بادشاہتیں اس میں رکاوٹ بنیں گی۔ اس کے لیے کچھ عملی اقدامات حفظ ماتقدم کے طور پر سوچے جائیں۔

اطلاعات یہ ہیں کہ مسلم نوجوانوں میں بہت بے چینی ہے۔ ذہنوں میں کش مکش زوروں پر ہے۔ یہی وقت ہے جب اس اضطراب کو ایک سمت اور ترتیب عطا کی جائے۔ اس احساسِ زیاں کو ایک اثاثہ سمجھ کر اس کو اصلاحِ احوال کا نقطۂ آغاز قرار دیا جائے۔