محمد ابراہیم


قیامِ پاکستان کے بعد ہونے والی پہلی تعلیمی کانفرنس میں قائد اعظمؒ نے اس بات کا عزم کیاتھا کہ ملک کے ہر بچے کو مفت اور لازمی تعلیم فراہم کی جائے گی۔ ۱۹۵۹ء میں نیشنل کمیشن برائے تعلیم نے ۱۰ سال تک کے بچوں کے لیے لازمی اور یکساں تعلیم کا اصولی اعلان کیا، اور ۱۹۷۰ء کی تعلیمی پالیسی نے جماعت دہم تک مفت تعلیم فراہم کرنے کا وعدہ کیا۔۱۹۷۳ء میں، یہ وعدہ پاکستان کے آئین میں آرٹیکل۲۵-اے کی شکل میں ڈھل کر ریاست کی بنیادی ذمہ داری قرار پایا، جو ہرشہری کے لیے معیاری اور مفت تعلیم کی فراہمی کی ضمانت دیتا ہے۔

ہر تعلیمی پالیسی میں بنیادی اور معیاری تعلیم کو ریاست کا فریضہ قرار دیا گیا، اور اس اصول کو برقرار رکھتے ہوئے شہریوں کے تعلیمی حقوق کا تحفظ کرنے کا عزم کیا گیا۔لیکن افسوس کہ یہ وعدہ صرف پالیسیوں اور قوانین کی حد تک محدود رہا، عملی اقدامات کے لحاظ سے ہمیشہ کمی رہی۔ حکومتوں نے آئین کے تقاضے پورے کرنے کی بجائے تعلیمی شعبے کو ترجیحات سے باہر رکھا اور تعلیمی اداروں کی بہتری کے بجائے ان کی نج کاری جیسی فرار کی راہیں اپنائیں۔ نج کاری کا یہ راستہ فوری مسائل کا عارضی حل تو دے سکتا ہے، مگر آنے والے دنوں میں یہ گھمبیر صورت حال کو جنم دے گا۔ اگر آج اس رویے کو روکا نہ گیا، تو ہماری آیندہ نسلیں اس کوتاہی کا خمیازہ بھگتیں گی۔

ترقی یافتہ قومیں تعلیم کو بنیادی حق سمجھ کر اپنے شہریوں کے لیے سہولیات فراہم کرتی ہیں، جب کہ ہماری حکومتیں تعلیم سے کنارہ کشی اختیار کر کے ملک کو مزید تاریکی میں دھکیل رہی ہیں۔ یہ رویہ صرف تعلیمی بحران نہیں، بلکہ ہمارے مستقبل کو تباہی و بربادی کی طرف دھکیلنے کا باعث بنے گا۔

  • نج کاری کا آغاز اور اثرات: ۱۹۷۸ء میں جنرل محمد ضیاء الحق نے تعلیمی نج کاری کا دروازہ کھولا، جسے بڑے پیمانے پر پھیلنے کا راستہ ۱۹۹۱ء میں نواز شریف کے دورِ حکومت کے بعد ملا۔ فیصلہ کیا گیا کہ نج کاری سے حاصل ہونے والے ۹۰فی صد فنڈز ملک کے قرضوں کا بوجھ کم کرنے پر خرچ ہوں گے، جب کہ ۱۰ فی صد غربت کے خاتمے کے لیے استعمال کیے جائیں گے۔ برطانوی وزیراعظم مارگریٹ تھیچر کو مثال بنایا گیا، جنھوں نے قومی اداروں کی نج کاری سے ٹریڈ یونینز کو کمزور کرنے اور سرکاری کنٹرول کو ختم کرنے کا راستہ اپنایا تھا۔ لیکن اس پالیسی کے نتائج تباہ کن ثابت ہوئے اور دس سال میں برطانیہ میں بجلی کے بلوں میں ۱۴۰ فی صد،جب کہ پانی کے بلوں میں ۷۴ فی صد اضافہ ہوا، ریلوے کے کرایوں میں ۲۰۰ فی صد اضافہ ہوا، اور دو لاکھ لوگ بے روزگار ہوگئے۔
  • نج کاری کے عملی نتائج اور ردعمل:جنرل پرویزمشرف دورِ حکومت میں جب شوکت عزیز وزیراعظم تھے تو نج کاری میں مزید تیزی آئی اوربڑی تعدادمیں صنعتیں چند نجی اداروں کے ہاتھوں میں چلی گئیں، جس سے قومی دولت چند لوگوں کے قبضے میں آگئی۔ ۲۰۰۹ء میں پیپلز پارٹی نے نج کاری کا ایک نیا پروگرام پیش کیا، جس میں قادر پور گیس فیلڈ، بجلی اور پانی کے کارخانے، ریلوے اور پوسٹ آفس کی نج کاری کا اعلان کیا گیا، لیکن عوامی دبائو کے سبب یہ منصوبہ ترک کرنا پڑا۔

 ۲۰۱۳ء میں ن لیگ کے دور حکومت میں نج کاری کا عمل پھر تیز ہوا،اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ ۶ء۶؍ بلین ڈالر قرضے کے عوض ملک کی اہم صنعتوں کی نج کاری کی شرط قبول کی گئی۔ اس کے تحت پی آئی اے سمیت کئی سرکاری اداروں کی نج کاری کا منصوبہ عمل میں لایا گیا۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے ۲۰۱۸ء میں اقتدار سنبھالتے ہی نج کاری کی پالیسی کو جاری رکھنے کا اعلان کیا اور آئی ایم ایف سے حاصل کردہ قرض کی شرائط کے تحت مختلف سرکاری اداروں کی نج کاری کا ارادہ ظاہر کیا۔ عمران خان حکومت نے پاکستان اسٹیل ملز، پی آئی اے، اور چند دیگر اداروں کی نج کاری کی کوشش کی۔ حکومت نے نج کاری کے لیے کم از کم ۱۸؍ادارے منتخب کیے اور ان کے لیے مخصوص منصوبے تیار کیے۔تاہم، یہ منصوبہ عملی طور پر کامیاب نہ ہو سکا، کیونکہ سیاسی مخالفت، قانونی پیچیدگیاں اور نجی سرمایہ کاروں کی عدم دلچسپی جیسے عوامل رکاوٹ بنے۔اس کے علاوہ ان اداروں کے ملازمین اور یونینز کی طرف سے بھی شدید مزاحمت کا سامنا رہا۔

پنجاب میں اسکولوں کی نج کاری

  • نج کاری کے حکومتی دعوے:رواں سال حکومت پنجاب نے اسکولوں کی نج کاری کے حوالے سے فیصلہ کیا ہے کہ’’۴۸ ہزار ۵ سو ۱۷ میں سے ۱۳ہزار ۲سو۱۹ ا؍ اسکولوں کو پہلے مرحلے میں نجی شعبے کے حوالے کیا جائے گا‘‘۔حکومت نے سیاسی یا سماجی و تعلیمی دُنیا کی عدم دلچسپی اور عدم مزاحمت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اب تک ۵ہزار ۸سو ۶۳ ؍اسکولوں کی نج کاری مکمل کرلی ہے۔ حکومت پنجاب تعلیمی اداروں کی نجکاری کو معیارِ تعلیم میں بہتری، وسائل کی کمی اور سرکاری اخراجات میں کمی کے جواز کے تحت ضروری قرار دیتی ہے۔ حکومت کا موقف ہے کہ نجی شعبے کے حوالے کرنے سے اداروں کی کارکردگی میں اضافہ ہوگا، انفراسٹرکچر میں بہتری آئے گی اور اساتذہ کو کارکردگی کے اعلیٰ معیار پر پورا اترنے کے لیے متحرک کیا جا سکے گا۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ تعلیمی اداروں کو اس نہج پر پہنچانے میں موجودہ اور ماضی کی حکومتوں کی بدنظمی کا بھی بھرپور کردار ہے، جنھوں نے تعلیمی شعبے کو بنیادی ترجیحات میں شامل کرنے کے بجائے اسے نظرانداز کیا۔
  • تعلیمی بحران کی وجوہ: برسوں تک جاری رہنے والی کمزور پالیسیوں، غیر مؤثر نگرانی، بجٹ کی غیر منصفانہ تقسیم، لُوٹ مار، سہولیات کی کمی، اساتذہ کی کمی، پیشہ ورانہ تربیت کا فقدان اور جدید تعلیمی ٹکنالوجی کو اختیار نہ کرنے جیسے مسائل نے تعلیمی اداروں کی حالت کو خراب کیا۔ اس کے نتیجے میں والدین اور طلبہ کا اعتماد سرکاری تعلیمی اداروں سے اٹھتا گیا ، معاشرے میں تعلیمی معیار کا فرق بڑھتا گیا اورشعبۂ تعلیم سنگین بحران کا شکار ہوا۔
  • تعلیمی بجٹ میں کمی:۲۰۰۹ء کی تعلیمی پالیسی میں وعدہ کیا گیا تھاکہ ۲۰۱۵ء تک تعلیم کے لیے جی ڈی پی کا ۷فی صد مختص ہوگا، بین الاقوامی معیار۴ فی صد کی تجویز دیتا ہے۔ مگر تعلیمی بجٹ میں مسلسل کمی کی گئی اور۲۴-۲۰۲۳ء میں ۱ء۷ فی صد تک محدود رہا۔
  • تعلیمی نظام کی تنزلی:وفاقی وزارت منصوبہ بندی نے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن پرفارمنس انڈیکس ۲۰۲۳ء کی رپورٹ جاری کی ہے، جس میں پاکستان کے ۱۳۴؍ اضلاع کے تعلیمی نظام کے پانچ بنیادی عناصر: انفراسٹرکچر و رسائی، علمی فہم، ٹکنالوجی و مساوی شمولیت، نظم و نسق اور پبلک فنانس کا جائزہ لیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ملک کا مجموعی تعلیمی سکور ۵۳ء۴۶ فی صد ہے، جو کمزور کارکردگی کو ظاہر کرتا ہے۔ انفرادی عناصر میں انفراسٹرکچر و رسائی ۵۸ء۹۵ فی صد، علمی فہم ۴۷ء۵۲ فی صد، ٹکنالوجی و مساوی شمولیت ۵۸ء۶۷  فی صد، نظم و نسق ۵۶ء۱۸فی صد اور پبلک فنانس ۴۲ء۹۴ فی صد پر ہیں۔المیہ یہ ہے کہ ۷۷؍اضلاع انتہائی کم تعلیمی کارکردگی کے زمرے میں آتے ہیں، جب کہ ۵۶؍اضلاع درمیانی کارکردگی میں شمار ہوتے ہیں۔

نج کاری کی حقیقت اور حکومت کی ذمہ داری

  • تعلیمی بحران کا ذمہ دار کون؟: پاکستان میں تعلیمی صورت حال کے اس بحران کا اصل ذمہ دار کون ہے؟،ایک نظریاتی مملکت ہونے کے ناتے کیوں اغیار کی پالیسیوں کو تعلیم کے شعبے میں نافذ کرنے کی اجازت دے رہے ہیں؟ ،بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)کے دبائو میں آکر تعلیمی اداروں کو پرائیویٹ این جی اوز کے حوالے کرنے کی  ضرورت کیوں پیش آئی؟ کیا یہ اقدام ہمارے تعلیمی نظام کے بنیادی ڈھانچے کو مزید کمزور کرنے کی جانب ایک اور قدم نہیں ہے؟ نج کاری سے یہ توقع کرنا کہ تعلیم کے مسائل حل ہوں گے، خودفریبی ہے۔یوں حکومت جو اَب ان اداروں کو نجی شعبے کے حوالے کرنے پر زور دے رہی ہے، دراصل اس بگاڑ کی ذمہ دار بھی ہے۔
  • تعلیمی طبقاتی تفریق اور نجکاری کے اثرات:پاکستان کے تعلیمی نظام میں طبقاتی تقسیم کی ایک واضح تصویر سامنے آتی ہے، جہاں سرکاری اداروں میں ۶۰ فی صد طلبہ تعلیم حاصل کرتے ہیں،جب کہ ۴۰ فی صد نجی تعلیمی اداروں کا انتخاب کرتے ہیں۔ یہ تقسیم محض تعداد کی بات نہیں بلکہ اس کے پیچھے ایک گہری سماجی و اقتصادی حقیقت ہے، جہاں معاشی حیثیت کے مطابق بچوں کی تعلیم کے مواقع میں تفاوت پایا جاتا ہے۔ تعلیمی اداروں کو نجی اداروں کے حوالے کرنا مسائل کا مستقل حل نہیں ہے۔ اگرچہ یہ اقدام چند گنی چنی صورتوں میں بہتر ثابت ہو سکتا ہے، لیکن بنیادی طور پر اس سے نظام تعلیم کی بنیادی اور گھمبیر خامیوں کا ازالہ نہیں ہوتا۔
  • پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کی ناکامی اور خدشات: پاکستان میں پہلے سے جاری پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ (سرکاری اور نجی تعاون منصوبہ) کے تجربات بدترین ناکامی سے دوچار ہو چکے ہیں۔ پچھلے تجربات میں بدعنوانی، غیر معیاری تعلیم، اور عدم شفافیت جیسے مسائل نے عوامی تعلیم کے نظام کو متاثر کیا ہے۔ مثال کے طور پر کئی نجی ادارے عوامی اسکولوں کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے اور طلبہ کو معیاری تعلیم فراہم کرنے میں بھی ناکام رہے۔ یہ صورتِ حال اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ نجی شعبے کے ایک بڑے حصے نے عوامی مفادات کو نقصان پہنچایا ہے اور تعلیم کے شعبے میں حقیقی بہتری لانے میں ناکام رہا ہے۔اگر حکومت ماضی کی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھتی تو یہ نئے تجربات بھی معاشرتی انصاف اور تعلیمی معیار کی فراہمی میں ناکامی کا سبب بنیں گے۔ اس کے نتیجے میں کمزور طبقے کے بچوں کو تعلیم کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جائے گا، اور یہ عمل عوام کا اعتماد مزید متزلزل کرنے کا باعث بنے گا۔
  • تعلیمی معیار پر اثرات:حکومت کا یہ دعویٰ کہ ابتدائی طور پر کم تعداد والے سرکاری اسکولوں کو پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کرنے سے تعلیمی معیار بہتر ہوگا، بنیادی طور پر غلط مفروضہ ہے۔ نجی ادارے اپنے مالی مفادات کو مقدم رکھتے ہیں، جس سے کمزور طبقے کے بچوں کے لیے معیاری تعلیم تک رسائی میں مشکلات پیش آئیں گی۔ مزید برآں، یہ نجی شعبے کو سرکاری اسکولوں کی قیمتی اراضی اور وسائل کا استحصال کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے، جو قومی مفاد کے خلاف ہے اور مستقبل میں نج کاری تعلیمی ترقی اور انصاف کے اہداف کے حصول میں بہت بڑی رکاوٹ بنے گی۔
  • غریب والدین پر اثرات:اگرچہ حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ نجی ادارے فیسیں بڑھائیں گے نہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ نجی ادارے فیس میں اضافے کے لیے آزاد ہوں گے۔ اس سے غریب والدین کے لیے بچوں کو تعلیم دلانا مزید مشکل ہو جائے گا۔
  • اساتذہ کی نوکریوں کا مستقبل:نج کاری کے عمل میں سرکاری اساتذہ کی نوکریوں کو شدید خطرہ لاحق ہوگا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ غیر فعال اساتذہ کو ٹرانسفر کر دیا جائے گا، مگر جب تمام اسکول نجی اداروں کے زیر انتظام ہوں گے تو سرکاری ملازمین کا مستقبل غیر یقینی ہو جائے گا، اساتذہ کی تنخواہیں اوردیگر مراعات میں کمی آئے گی۔ اس کے نتیجے میں اساتذہ کی کارکردگی متاثر ہوگی۔
  • تعلیمی خودمختاری اور اراضی کا استحصال:نج کاری کے عمل کے نتیجے میں جب نجی ادارے یا غیر سرکاری تنظیمیں (این جی اوز) اسکولوں کی ملکیت حاصل کرتی ہیں تو یہ سرکاری تعلیمی اداروں کی خود مختاری اور بنیادی مقاصد کو متاثر کرتی ہیں۔ نجی مالکان اکثر اپنے مالی مفادات کی بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں، جس کے باعث تعلیمی معیار میں کمی، رسائی میں مشکلات، اور معاشرتی انصاف کے اصولوں کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے۔ کئی سرکاری اسکول قیمتی اراضی اور بڑے کمپائونڈز پر قائم ہیں اور ان قیمتی جگہوں کو نجی اداروں کے حوالے کرنا یہ سوال اٹھاتا ہے کہ آیا یہ واقعی تعلیمی بہتری کے لیے ہے، یا قیمتی املاک کو تجارتی مفادات اور اپنے منظورِ نظر سیاسی عناصر کی مالی لُوٹ کھسوٹ کا وسیلہ ہے؟
  • نظریاتی نقصان:اسکولوں میں نصاب اور تدریسی مواد کی نگرانی کو نجی شعبے اور این جی اوز کے سپرد کرنے سے سب سے بڑانقصان نظریاتی سطح پر ہورہا ہے، اور آیندہ بھی ہوگا۔ کئی این جی اوز غیر ملکی فنڈنگ پر انحصار کرتی ہیں، جس کے باعث ان کے نصاب میں غیر ملکی ایجنڈا شامل ہونے کے آثار نمایاں ہیں، جب کہ غیرمعیاری تدریسی کتب کی اشاعت کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ ان کتب سے بچوں کے ذہنوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اسلامی تعلیمات اور پاکستانی تاریخ کی جگہ بیرونی نظریات کو شامل کیا جاتا ہے، جو ہمارے دینی وقومی تشخص کے خلاف ہے۔
  • کمیونٹی شمولیت کا خاتمہ:سرکاری اسکولوں میں کمیونٹی کی شمولیت کا عمل مضبوط ہوتا ہے۔ والدین اور مقامی افراد کی شرکت سے تعلیمی نظام کی بہتری ممکن ہے۔ تاہم، نج کاری کے نتیجے میں یہ شمولیت کمزور پڑے گی۔

تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی کی بنیاد ہے اور اس کی بہتری میں سرکاری اسکولوں کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ مذکورہ صورت حال ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ تعلیم کی نج کاری کے بجائے اس کے معیار اور رسائی میں اضافہ کرے تاکہ ہر بچہ، چاہے وہ کسی بھی سماجی، معاشی یا مذہبی پس منظر سے تعلق رکھتا ہو، معیاری تعلیم حاصل کر سکے۔تعلیم کا شعبہ تمام شعبوں کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے،اسے سرسری نہ لیا جائے، بلکہ اسے ایک قومی ذمہ داری سمجھیں۔ ایک مضبوط اور مستحکم تعلیمی نظام ہی وہ بنیاد ہے جو ہماری آنے والی نسلوں کو روشن مستقبل کی ضمانت فراہم کرے گا۔ اس لیے ہمیں ایک ایسے تعلیمی نظام کی تعمیر میں حصہ ڈالناہے، جو نہ صرف طلبہ کی ذہنی، معاشرتی، اور ثقافتی ترقی کا باعث بنے بلکہ ملک کی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کرے اورہمیں چاہیے کہ مل جل کر اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے کام کریں، تاکہ پاکستان کا مستقبل روشن ہو، اور ہر بچے کو اس کا بنیادی تعلیمی حق مل سکے۔