محمد سوسیلو


آپ نے بہت سی شخصیات کے قبولِ اسلام کے واقعات سنے ہوں گے، مگر یوسف اوک نامی لندن کے رہائشی کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ بہت منفرد واقعہ تھا۔ اُن کے اسلام قبول کرنے کا واقعہ اولڈ ٹریفرڈ میں واقع مانچسٹر یونائیٹڈ سٹیڈیم سے قرآن کے نسخے کی دریافت سے ہوا۔

یہ ۲۰۰۷ء کی بات ہے جب یوسف مانچسٹر فٹ بال یونائیٹڈ کلب کے لیے کام کرتے تھے۔ ایک روز انھیں سٹیڈیم سے قرآن کا ایک نسخہ ملا۔اسلام کو تلاش کرنے کے اپنے سفر کے بارے میں بات کرتے ہوئے پیدائشی کیتھولک نومسلم یوسف نے بتایا کہ’ ’یہ تھوڑا عجیب واقعہ تھا، یعنی اسٹیڈیم سے قرآن کا ملنا۔ جب مجھے وہ قرآن کا نسخہ ملا تو وہ تھوڑا گرد آلود تھا۔ اس نسخے کو دیکھتے ہی میرے اندر ایک احساس پیدا ہوا کہ میں اسے اٹھاؤں اور اسے صاف کروں‘‘۔ نیلی جلد والے قرآن کو صاف ستھرا کرنے کے بعد انھوں نے اسے اپنے کمرے میں رکھ لیا۔ یہ جان کر کہ گھر میں قرآن موجود ہے، یوسف کی بیوی نے اُن سے اختلاف کیا اور اس بات پر ناراض ہو گئیں اور یوسف سے کہا کہ ’’یہ کتاب ہمارے گھر میں نہیں ہونی چاہیے۔ میں اسے کوڑے دان میں پھینک دوں گی‘‘۔

یوسف نے بتایا کہ میں نے جواب دیا کہ اس سے پہلے کہ تم اس قرآن کو پھینکو، میں تمھیں کہیں پھینک دوں گا۔

میرا یہ جواب سُن کر بیوی نے سوال کیا کہ ’’تم مسلمان نہیں ہو تو پھر ایسا کیوں کر رہے ہو؟‘‘ میں نے جواب دیا کہ ’’تم نے اس کتاب کی ایک لائن بھی نہیں پڑھی، پھر بھی تم اسے فوراً پھینک دینا چاہتی ہو‘‘۔میرے بھرپور دفاع کی وجہ سے قرآن کا نسخہ اسی گھر میں موجود رہا۔

اگرچہ اس وقت یوسف نے ابھی تک اسلام قبول نہیں کیا تھا لیکن وہ خود حیرت زدہ تھے کہ ان میں اسلام کا دفاع کرنے کی شدید خواہش کیوں موجود ہے؟ انھوں نے اسے ’فطرت کی طرف واپس آنے کی خواہش‘ کے طور پر بیان کیا ہے۔اور انھیں اپنے اندر چھپی اس خواہش کا احساس اس وقت بھی ہوا جب وہ اور اُن کے دوست سپین کے ایک سیاحتی مقام پر چھٹیاں گزار رہے تھے۔ وہ سیاحتی مقام ایسے نوجوانوں میں کافی مقبول ہے جو پارٹی اور شراب پینے میں وقت گزارنا چاہتے ہوں۔

وہ اور اُن کے دوست ’ایڈن‘ نامی نائٹ کلب کی طرف جا رہے تھے۔ اس نائٹ کلب کا تعمیری نقشہ کسی مسجد سے بہت ملتا جلتا تھا، جس پر سنہری گنبد اور مینار بھی تھے۔ یوسف کے مطابق نائٹ کلب کے سامنے پہنچ کر ایک بار پھر ایک عجیب سا احساس میرے اندر پیدا ہوا اور اس احساس کے تحت میں کلب میں داخل نہیں ہونا چاہتا تھا۔

جب میں نے اپنے دوستوں کو بتایا کہ ’میں آج رات کلب نہیں جاؤں گا‘ تو وہ ناراض ہوگئے۔ ایک دوست نے کہا کہ’ ’تم تو مسلمان نہیں ہو تو پھر تم اس جگہ کیوں نہیں جانا چاہتے؟‘‘ اس موقع پر سخت جملوں کا تبادلہ ہوا ۔ بہرحال میں نائٹ کلب میں داخل نہیں ہوا اور اپنی راہ لی۔

بقول یوسف ان دو واقعات کے بعد اسلام قبول کرنے کی خواہش میرے دل میں روز بروز بڑھتی گئی، لیکن ساتھ ہی وہ اس بات کو بھی یقینی بنانا چاہتا تھا کہ میرا یہ فیصلہ مکمل طور پر درست اور صحیح ہو۔چنانچہ میں نے ایسے بہت سے افراد سے رابطہ کیا جنھوں نے اپنا مذہب چھوڑ کر اسلام قبول کیا تھا۔ پھر مسلم علما سے بھی رابطہ کیا اور سوالات پوچھے۔

یوں اسلام قبول کرنے کا فیصلہ اس وقت اور بھی پختہ ہو گیا جب میں ایک ایسے مسلمان سے ملا جو اسلام کے بارے میں ان کے سوالات کا تسلی بخش جواب دے سکتے تھے اور جب مجھے اسلام کے بارے میں مختلف سوالات کے جوابات ملے تو اسلام قبول کرنے کے اپنے فیصلے کے حوالے سے پُراعتماد ہوگیا۔اور پھر وہ موقع آیا جب میں نے اپنے گھر کے قریب واقع ایک مسجد کی انتظامیہ سے رابطہ کیا اور کلمہ پڑھ لیا۔

یہیں سے یوسف کی ظاہری اور باطنی شخصیت کی مسلمان ہونے کی طرف منتقلی شروع ہوئی، جس کی ابتدا ایسی عادتوں کو ترک کرنے سے ہوئی جو اسلام میں جائز نہیں۔ انھوں نے داڑھی رکھ لی اور ہمیشہ مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کی کوشش کرتے۔ یوسف کہتے ہیں کہ سچ پوچھیں تو تبدیلی کا یہ سفر آسان نہیں ہے۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ جو خواتین اسلام قبول کرنا چاہتی ہیں، ان کے لیے یہ تبدیلی اور بھی زیادہ مشکل ہے۔ میرا مشورہ یہی ہے کہ اس دوران ثابت قدم رہیں۔ جو خواتین اسلام قبول کرنا چاہتی ہیں انھیں مردوں کے مقابلے میں اور زیادہ قوت اور جذبۂ ایمانی کی ضرورت ہوتی ہے۔

برطانیہ میں ۲۰۲۱ء کی مردم شماری کے نتائج کے مطابق ملک میں مسلمانوں کی تعداد مجموعی ملکی آبادی کا۶ء۵ فی صد ہے، جب کہ ۲۰۱۱ء میں ۴ء۹ فی صد تھی۔(بی بی سی لندن، انڈونیشیا سروس)