شمس عرفان


جب انڈیا اور پاکستان اپنی فوجی کامیابیوں کے تذکرے کرتے ہیں تو ان نعرئہ ہائے تحسین  میں کشمیریوں کو سسکنے کے لیے غم کی وادی میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ 

’اوڑی‘ انڈین زیر انتظام کشمیر میں — ۸ مئی کی رات صنم بشیر کے لیے اُلجھے ہوئے منظرنامے کی متحرک تصویر کے طور پر آتی ہے۔ اس کا خاندان تین گاڑیوں میں سوار تھا۔ اس کے بقول: ’’سڑک بہت تاریک تھی، اور گولہ باری کی آواز کانوں کے پردے پھاڑنے والی تھی۔یہ قیامت کی گھڑی لگ رہی تھی‘‘۔ ۲۰سالہ صنم اپنے چارسالہ کزن منیب، اپنی خالہ اور اپنی ماں نرگس بیگم کے ساتھ پچھلی سیٹ پر دبکی ہوئی تھی۔ صنم کو یاد نہیں کہ گاڑی کی چھت کو کس چیز نے چیر ڈالا، لیکن وہ اپنی خالہ کی تیز چیخ یا اپنی ماں کے گلے سے نکلنے والے گرم خون کو نہیں بھول سکتیں۔ جب وہ ہسپتال پہنچے تو نرگس بیگم کی موت و اقع ہو چکی تھی۔ 

انڈیا اور پاکستان کے درمیان چار دن کی لڑائی میں جموں و کشمیر کے بھارتی زیر انتظام علاقے میں کم از کم ۲۷؍ افراد جان سے گئے، جن میں گیارہ سالہ جڑواں بچے بھی شامل تھے، اور ۵۰سے زائد زخمی ہوئے۔ اچانک ہونے والی یہ لڑائی اس خطے میں کئی عشروں میں سب سے بدترین لڑائی تھی۔ جیسا کہ پچھلے تنازعات میں ہوا، شہریوں ہی کو سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا۔ جنگ بندی کے بعد، ہم نے لائن آف کنٹرول سے ۱۵کلومیٹر سے بھی کم فاصلے پر واقع دیہات کا دورہ کیا۔ — یہ وہ غیر رسمی سرحد ہے جو پہاڑوں اور دریاؤں کے پار گزرتی ہے، اور کشمیر کو دوحصوں میں تقسیم کرتی ہے۔  

گذشتہ ماہ کئی برسوں کی نسبتاً خاموشی اس وقت ٹوٹ گئی جب مبینہ طور پر سیاحتی شہر پہلگام کے قریب ۲۶ شہریوں کو گولی مار دی گئی، اور نئی دہلی حکومت نے فوراً کہہ دیا کہ اس حملے کے ذمہ داران کے پاکستان سے روابط تھے۔اسلام آباد نے ایسی کسی بھی شمولیت و سرپرستی سے انکار کیا اور غیرجانب دارانہ تحقیقات کے لیے تعاون کی پیش کش کی۔ خطۂ کشمیر کے لوگوں نے مابعد واقعات کے خوف سے سانس روک لی۔انڈیا نے ۷ مئی کی رات پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے اور خود پاکستان کے چند شہروں پر جوابی حملہ کیا۔ پھر اگلے روز پاکستان کے اندر دُور تک پچاس سے زیادہ حملے کیے، جس میں کم از کم ۲۶؍ افراد جاں بحق ہوئے۔ اگلی تین راتوں تک، ایٹمی ہتھیاروں سے لیس پڑوسی ممالک جنگ کے اور قریب ہوتے گئے۔ — فوجی اہداف پر حملوں کا تبادلہ کرتے ہوئے اور ایک دوسرے کے شہروں میں ڈرونز کی پروازیں بھیجتے رہے۔ ۱۰ مئی کو امریکی ثالثی سے ہونے والی جنگ بندی کے بعد، دونوں ممالک نے اپنی فوجی کامیابیوں کے دعوے کیے، اور اپنے اپنے نقصانات کو کم کر کے پیش کیا۔ 

لائن آف کنٹرول کے ساتھ، جہاں خاندان طویل عرصے سے تنازع کے سائے میں رہتے ہیں، پاکستانی گولہ باری شدید ترین تھی۔ ادھر پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں بھی ایسی ہی رپورٹس تھیں، جہاں بھارتی فائرنگ سے کم از کم ۱۶؍افراد جاں بحق ہوئے۔ اوڑی اور اس کے آس پاس ۴۵۰ سے زائد گھر یا دکانیں تباہ ہوئیں، اور کم از کم ایک تہائی آبادی اپنے گھروں سےنکل جانے پر مجبور ہوئی۔ جنگ بندی کے بعد، لوگ اپنی زندگیوں کے جمع شدہ ملبے کو ٹھکانے لگانے کے لیے واپس لوٹ رہے تھے۔اگرچہ بھارتی فوج نے پاکستان کے ساتھ جنگ بندی کو بڑھانے پر اتفاق کیا ہے، لیکن ان علاقوں میں سول آبادی اور رہائشی اب بھی خوفزدہ ہیں۔  

راجروانی کے گاؤں میں نرگس بیگم کے گھر پر، ان کے پیاروں کو اب بھی صدمہ ہے:’’اگر حکومت نے بنکر [پختہ مورچے] بنائے ہوتے یا صبح ہمیں انخلا کے لیے کہا ہوتا، تو وہ آج ہمارے ساتھ ہوتیں‘‘،ان کے ۲۷ سالہ بیٹے ثاقب بشیر خان نے کہا۔آٹھ افراد کے اس خاندان نے ہمیشہ غربت کا سامنا کیا۔ نرگس بیگم اسکول میں کھانا تیار کر کے ماہانہ ۱۲ ڈالر کماتی تھیں، ان کے شوہر ایک دہاڑی دار مزدور ہیں، جنھیں مستقل کام نہیں ملتا۔ نرگس بیگم کے رشتہ داروں کو مقامی حکومت نے موت کے بدلے ۷ہزار ڈالر معاوضہ دیا ہے، لیکن ان کا کہنا ہے کہ ’’ہمارا نقصان کبھی پورا نہیں ہوسکتا۔ حکومت غریبوں کو زندہ رہنے کی سہولت دینے سے پہلو بچاتی ہے‘‘۔ان کی بھابھی حفیظہ بیگم نے کہا، ’’لیکن اب جب وہ مر چکی ہیں، تو حکومت پیسے دے رہی ہے۔ اب اس دولت کا کیا فائدہ؟‘‘ 

قریبی گاؤں باندی میں، محمد انور شیخ مدد کے انتظار میں ہیں: ’’پہلے بھی فائرنگ ہوتی تھی، لیکن ہمارے گھروں پر کبھی اس طرح گولے نہیں برسے تھے‘‘، ۴۰سالہ شیخ نے کہا، جن کا سادہ تین کمروں کا گھر ایک بھارتی فوجی کیمپ کے قریب ہے۔ ایک گولے نے ان کے مرکزی کمرے کو چیر دیا، کھڑکیاں توڑ دیں، ٹیلی ویژن کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کردیا اور دیوار پر گہرے گڑھے چھوڑ دیے۔ ان کے بیٹے کی نوٹ بک ٹکڑوں میں بکھر چکی تھی۔شیخ انور نے بتایا: ’’انڈین فوجی تین دن پہلے گولوں کے ٹکڑے جمع کرنے آئے تھے اور کہا تھا ہم آپ کی مالی مدد کریں گے۔ جب لڑائی شروع ہوئی تو میں نے اپنی بیوی اور چھ بچوں کو ڈیڑھ گھنٹے کی دوری پر ایک امدادی کیمپ میں بھیج دیا تھا۔ ہم ہررات، اپنے چند پڑوسیوں کے ساتھ ایک عارضی مورچے میں دبک کر پڑے رہتے تھے، جو ہمیں صرف جزوی تحفظ فراہم کرتا تھا۔ مگر ۹ مئی کی صبح سویرے، فائرنگ اور تیز گولہ باری ہو گئی‘‘، شیخ نے کہا۔ 

شیخ کے گھر سے آگے، ایک تنگ ندی کے کنارے سرسبز پہاڑیوں میں واقع لگاما گاؤں ہے۔ ۶۳ سالہ محمد شفیع پٹھان کی جائیداد پر اخروٹ اور ناشپاتی کے کھڑے درخت لہلہا رہے ہیں، لیکن ان کا گھر رہنے کے قابل نہیں رہا۔ یہ ریٹائرڈ فوجی ۹ مئی کی رات کو اپنی بیوی، بیٹے اور تین پوتے پوتیوں کے ساتھ اس وقت جان بچانے کے لیے بھاگا، جب وادی میں دھماکوں کی گونج سنائی دی۔ اگلی صبح سویرے، پولیس نے فون پر شفیع کو بتایا کہ اس کا گھر تباہ ہو گیا ہے۔ یہ سن کر وہ گھر آیا تو ٹین کی چھت اُڑ چکی تھی اور کنکریٹ کا ایک بڑا ٹکڑا ایک جانب پڑا ہوا تھا۔ چاول کے ڈرم راکھ سے ڈھکے ہوئے تھے اور بارود کی بہت تیز بدبُو تھی۔ 

’’ایک بھی چیز نہیں بچی، سب برباد‘‘، پٹھان نے کمبل، کھلونوں، کپڑوں اور چمچوں کے بکھرے ہوئے ڈھیر پر سے گزرتے ہوئے کہا۔ سرحد کے ساتھ زندگی کبھی آسان نہیں ہوتی۔ غربت عام ہے اور تنازعے کا سایہ ہمیشہ سانس کی طرح ساتھ رہتا ہے۔ شہری روزانہ بار بار چیک پوسٹوں پر تلاشی دینے کے لیے انڈین فوج کا سامنا کرتے ہیں، جن کے مسلح قافلے باقاعدگی سے گزرتے اور جگہ جگہ ہیں۔ 

مئی ۲۰۲۵ء کی انڈوپاک لڑائی نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے: ’’کشمیر ایک فلیش پوائنٹ ہے اور اس میں پورے جنوبی ایشیا کو ایک بڑی جنگ میں دھکیلنے کی بھرپور صلاحیت ہے‘‘، سری نگر میں مقیم سیاسی تجزیہ کار شیخ شوکت حسین نے یہ بات کہی۔ حسین نے کہا۔ ’’کشمیری، ایسی صورتِ حال میں پھنسے ہیں جو ان کے کنٹرول سے باہر ہے، اور یہی سب سے زیادہ تکلیف اٹھاتے ہیں۔ بڑی عالمی طاقتوں کا کام ہے کہ وہ کشیدگی کو مستقل طور پر کم کرنے میں مدد کریں‘‘، انھوں نے کہا۔ 

سری نگر میں نئے کافی شاپس اور ہوٹل کھلے ہوئے ہیں، جو نئی دہلی کی جانب سے سیاحتی صنعت کو بحال کرنے کی کئی سالہ کوشش کا حصہ ہے۔ لیکن پاکستان کے بے مثال ڈرون حملوں کے نتیجے میں سری نگر پر ایک اُداسی چھائی ہوئی ہے۔ڈل جھیل پر — جو عظیم الشان پہاڑی چوٹیوں سے گھری ہوئی ہے —، کشتی بان گپ شپ لگا رہے تھے یا مچھلی پکڑ رہے تھے، مگر کوئی بھی چیز سیر کے لیے راغب کرنے والی نہیں تھی۔ سیاح غائب ہوچکے تھے۔ 

سری نگر کے مرکزی لال چوک میں، ۲۱ سالہ مسکان، اپنے بھائی کے ساتھ تصاویر لے رہا تھا۔ انھوں نے کہا:’’پہلگام حملے سے کشمیریوں کو تکلیف پہنچی، لیکن اس کے بعد بھارتی سیکیورٹی کریک ڈاؤن اور انڈیا کے طول و عرض میں زیرتعلیم کشمیری طلبہ پر حملوں کی خبروں نے انھیں اور بھی زیادہ صدمے سے دوچار کیا‘‘۔ انھوں نے کہا:’’ ہمارے لیے اور سیاحوں کے لیے کوئی خوف کی فضا نہیں ہونی چاہیے‘‘۔ 

اوڑی، جو چند دن پہلے تک ایک ویران شہر تھا، دکاندار واپس آ گئے تھے، انڈے، سکارف اور پلاسٹک کا سامان بیچ رہے تھے۔ ساتھ ہی ایک سرکاری دفتر کے احاطے میں پختہ مورچہ بنایا جا رہا ہے۔ لیکن کچھ مقامات پر آنا جانا اب بھی ممنوعہ ہے۔ ایک چیک پوسٹ پر، بھارتی فوجیوں نے ہم کو اسلام آباد گاؤں جانے سے روک دیا، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے بھاری نقصان پہنچا ہے۔ تازہ ترین تنازع نے سب کچھ بدل دیا۔ ریٹائرڈ فوجی شفیع پٹھان نے کہا: ’’ہماری کیا زندگی ہے کہ ہم نہ سکون سے جی سکتے ہیں، اور نہ سکون سے مر سکتے ہیں‘‘۔ [ترجمہ: س م خ]