ماجد جہانگیر


مقبوضہ جموں و کشمیر کے سری نگر میں مسلمانوں کے لیے مقدس درگاہ حضرت بل کے کتبے ’پر اشوک لاٹ‘ کا سرکاری نشان کنندہ کرنے پر تنازع پیدا ہو گیا ہے۔ کچھ مقامی افراد نے ’جموں و کشمیر وقف بورڈ‘ کے خلاف احتجاج کیا ہے،جب کہ پتھر کے کتبے پر مہاراجا اشوک کے نشان کو توڑنے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ یہ واقعہ ۵ستمبر جمعہ کے دن پیش آیا۔ دوسری جانب حکمران جماعت نیشنل کانفرنس (این سی) نے کہا ہے کہ ’ہمارے مزارات ایمان، عاجزی اور اتحاد کی علامت ہیں، ان مقامات کو عبادت گاہ ہی بنے رہنا چاہیے، تقسیم کی جگہ نہیں‘ ۔ 

 کچھ عرصہ قبل درگاہ حضرت بل کی تعمیرِ نو کا کام شروع ہوا تھا۔ اس دوران وہاں سنگ بنیاد پر اشوک کی لاٹ کا نشان بنایا گیا تھا، جس پر لوگوں میں ناراضی کی لہر پھیل گئی۔ مشتعل لوگوں نے اسے توڑنے کی کوشش بھی کی۔ اس واقعے کی کئی ویڈیوز سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ہیں۔ سری نگر کی یہ درگاہ اور مسجد مسلمانوں کے لیے بہت اہم سمجھی جاتی ہے۔ صدیوں پر محیط روایت کے مطابق یہاں محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ’موئے مبارک‘ ہے۔ اس درگاہ کی تعمیرِ نو مسلم اوقاف ٹرسٹ کے شیخ محمد عبداللہ کی نگرانی میں ۱۹۶۸ء میں شروع ہوئی اور کام ۱۹۷۹ء میں ختم ہوا۔  

’موئے مقدس‘ کو پہلی بار سنہ ۱۶۹۹ء میں کشمیر لایا گیا۔ پہلے اسے نقش آباد صاحب میں رکھا گیا اور پھر بعد میں اسے حضرت بل لایا گیا۔ ہر سال شب معراج اور میلاد النبی کے خاص موقعوں پر ریاست بھر اور دُور دراز کے علاقوں سے لوگ اس مسجد میں رکھے ہوئے ’موئے مقدس‘ کی زیارت کے لیے آتے ہیں۔ 

توڑ پھوڑ کے واقعے کے بعد بی جے پی حکومتی اہل کار درخشاں اندرابی نے جمعے کی شام میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اسے افسوس ناک کارروائی قرار دیا اور کہا کہ ’قومی نشان کو توڑنا جرم ہے۔ یہ ایک سیاسی جماعت کے غنڈے ہیں جنھوں نے ایسا کیا ہے‘۔ ان کا اشارہ بظاہر نیشنل کانفرنس کی جانب تھا۔ انھوں نے ایف آئی آر درج کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا: ’قانونی طور پر قومی نشان کو نقصان پہنچانا جرم ہے۔ ایسے لوگوں کی نشاندہی کی جائے گی اور ان پر درگاہ میں داخلے کے لیے تاحیات پابندی عائد کر دی جائے گی ‘‘۔ 

حکمران جماعت نیشنل کانفرنس کے رہنما اور ریاست کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا ہے کہ ’پہلا سوال تو یہ ہے کہ کیا یہ نشان پتھر پر لگانا بھی چاہیے تھا یا نہیں؟‘ انھوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’میں نے کسی مذہبی تقریب یا مذہبی مقام پر ایسا نشان استعمال ہوتے نہیں دیکھا۔ کیا کوئی مجبوری تھی کہ حضرت بل کے اس پتھر پر یہ نشان استعمال کیا گیا؟‘ سوال یہ ہے کہ ’پتھر لگانے کی کیا ضرورت تھی، کیا مرمت کا کام کافی نہیں تھا؟ اگر کام ٹھیک ہوتا تو لوگ خود کام کو پہچان لیتے‘۔ انھوں نے کتبہ لگانے والوں سے معافی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا: ’مندر، مسجد، گرودوارہ، یہ تمام مذہبی مقامات ہیں جہاں قومی نشان کے استعمال کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ان مقامات پر قومی نشان کا استعمال نہیں کیا جاتا ہے۔ سرکاری پروگراموں میں سرکاری نشانات کا استعمال کیا جاتا ہے‘۔ 

 اس سے قبل جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس (جے کے این سی) نے درخشاں اندرابی کے الزام کے جواب میں سوشل میڈیا پر ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا: ’یہ امر انتہائی تشویشناک ہے اور درگاہ حضرت بل کے اندر کسی جاندار (شخص یا جانور) کی تصویر یا علامتی نشانی کا استعمال اسلام کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔ یہ ہزاروں عقیدت مندوں کے لیے ایک محترم مقام ہے اور توحید کے اصول کے مطابق اس طرح کی نشانیوں کا استعمال ممنوع ہے۔ عقیدت مندوں کے لیے یہ معمولی بات نہیں، بلکہ اس کا ان کے مذہبی جذبات سے گہرا تعلق ہے‘۔ مزید یہ بھی کہا گیا کہ ’وقف کوئی نجی ملکیت نہیں ہے، بلکہ یہ ایک ٹرسٹ ہے جو عام مسلمانوں کے تعاون سے چلتا ہے۔ اسے لوگوں کے عقیدے اور روایت کے مطابق ہی چلایا جانا چاہیے‘۔  

نیشنل کانفرنس نے اپنے بیان میں وقف بورڈ کی چیئرپرسن اندرابی کو نشانہ بناتے ہوئے لکھا کہ ’ہم ایسے نمائندوں کو دیکھ رہے ہیں جو منتخب نہیں ہوئے، انھیں جموں و کشمیر کے لوگوں کی حمایت حاصل نہیں ہے، بلکہ انھوں نے از خود اس مقدس مقام پر ایک اعلیٰ عہدہ سنبھالا ہوا ہے۔ یہ نہ صرف اس درگاہ کے تقدس کی توہین ہے، بلکہ احتساب اور خاکساری جیسے بنیادی اصولوں کا مذاق بھی ہے۔ یہ بات پریشان کن ہے کہ لوگوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے پر معافی مانگنے کے بجائے پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتاری کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ دریں اثنا، نیشنل کانفرنس کے چیف ترجمان ایم ایل اے تنویر صادق نے کہا کہ ’درگاہ پر کسی جاندار کی تصویر لگانا اسلام کے خلاف ہے کیونکہ اسلام میں بت پرستی کی ممانعت ہے‘۔کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانا غلط ہے۔ ہم اس کی سخت مذمت کرتے ہیں۔ انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام میں بت پرستی کی سختی سے ممانعت ہے۔ یہ کوئی سرکاری عمارت نہیں ہے، یہ ایک درگاہ ہے‘۔  

پی ڈی پی سربراہ اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے جمعہ کو پیش آنے والے اس واقعہ پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا: ’یہ درگاہ پیغمبر اسلام سے متعلق ہے، لوگ یہاں کسی قسم کی گستاخی برداشت نہیں کریں گے۔ مسلمانوں کے لیے ان سے بڑھ کر کوئی نہیں ہے، وہاں اس قسم کی گستاخی سے لوگوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ لوگ اس نشان کے خلاف نہیں ہیں لیکن اسلام میں بت پرستی کی ممانعت ہے۔ اس لیے لوگ پوچھ رہے ہیں کہ اسے یہاں کیوں نصب کیا گیا؟‘  

انھوں نے کہا: ’یہ کہنا غلط ہے کہ لوگوں کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا جانا چاہیے۔ میرے خیال میں ان کے خلاف ۲۹۵- اے کے تحت مقدمہ درج ہونا چاہیے کیونکہ یہ مسلمانوں کے مذہبی جذبات کی توہین کے مترادف ہے‘۔ انھوں نے وزیراعلیٰ سے ایکشن لینے کی درخواست کرتے ہوئے کہا: ’اس واقعے کا اوقاف ذمہ دار ہے کیونکہ وہاں کے تمام لوگ مسلمان ہیں۔ انھیں معلوم ہونا چاہیے تھا کہ انھوں نے سنگ بنیاد (کے کتبے) میں ایسی چیز کیسے رکھی جسے اسلام میں حرام سمجھا جاتا ہے‘۔ جمعہ کو انڈیا بھر میں عید میلاد النبی منائی گئی لیکن جموں و کشمیر میں اس کے لیے سنیچر کو سرکاری چھٹی دی گئی۔ جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے ایک سابق پوسٹ میں کہا کہ انتظامیہ کا جمعہ کی چھٹی کو سنیچر کی چھٹی میں تبدیل کرنے کا فیصلہ لوگوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے لیے کیا گیا ہے۔ انھوں نے سرکاری پریس کی طرف سے چھپنے والے کیلنڈر کی تصویر شیئر کی جس میں عید میلاد النبیؐ کے چاند کی رویت کی بنیاد پر ۵ستمبر کو چھٹی کا اعلان کیا گیا ہے۔ 

دوسری جانب سوشل میڈیا پر اس نسبت سے مختلف بیانات گردش میں ہیں: ’مسلمان کی وفاداری قوم سے نہیں بلکہ ان کے ایمان سے ہے‘ ۔ بہت سے لوگ مسلمانوں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ اشوک لاٹ کی تین شیر والی علامت کوئی مذہبی علامت نہیں ہے۔  آنند رنگناتھن نے لکھا: ’اشوک کا نشان انڈیا کی نمائندگی کرتا ہے، خدا کی نہیں، یہ ایک آئیڈیل کی تصویر ہے۔ آپ کچھ نہیں کر سکتے۔ ڈاکٹر امبیڈکر نے درست کہا تھا: ’مسلمان کی وفاداری اس کی قوم سے نہیں بلکہ ان کے ایمان سے ہے‘۔ 

 عارف اجاکیا نے لکھا: ’اسلام کو بچانے کے لیے انھوں نے درگاہ سے اشوک کا نشان ہٹادیا ہے لیکن وہ وہی نشان کعبہ اور مدینہ کے دورے کے دوران اپنے سینے کے قریب رکھتے ہیں جو ان کے پاسپورٹ اور بینک نوٹوں پر ہوتا ہے۔ یاد رکھیں آپ اشوک کے نشان کے بغیر حج پر جانے کا سوچ بھی نہیں سکتے‘۔ اس کے جواب میں حسن وانی نامی ایک صارف نے لکھا: ’ہر چیز کو آپس میں نہ ملائیں۔ پہلی بات یہ کہ مسجد کی دیوار پر کوئی تصویر یا نقش و نگار لٹکانا اسلامی شریعت میں قطعی طور پر ناجائز اور حرام ہے، جب کہ اپنی جیب میں پیسے یا پاسپورٹ رکھنا ایک الگ بات ہے۔ جذبات کو بھڑکانے اور سیاسی ماحول کو گرمانے کے لیے اس کا سیاسی مقاصد کے لیے فائدہ اٹھانا، ان دونوں حالات میں زمین آسمان کا فرق ہے اور یہ بات حماقت سے کم نہیں!‘  

بہت سے صارفین نے اسے جہاد کا طرزِ عمل کہا ہے ، جب کہ کئی افراد نے اسے تنگ نظری سے تعبیر کیا ہے اور کچھ نے سوال اُٹھایا ہے کہ اسے دوسرے مذہبی مقامات پر کیوں نہیں لگایا جاتا؟ بہت سے ہندو اس واقعے کو مسلمانوں کی انڈیا سے وفاداری پر سوالیہ نشان کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ فلٹریشن نامی ایک صارف نے لکھا: ’اشوک، بودھ مت کے پیروکار تھے۔ اشوک کی لاٹ مہاتما بودھ کی تعلیمات سے متاثر ہے۔ جنھوں نے مسلمانوں کی عقیدت کے مقام حضرت بل میں اشوک کی علامت کو لگایا وہ مذہبی انتشار کو ہوا دینے کے ذمہ دار ہیں‘۔