قرآنِ کریم اور سنت نبویؐ کے مطالعے سے ہمیں بڑی وضاحت اور تفصیل کے ساتھ یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام بچوں کی صحیح تربیت و تعلیم اور انھیں انسانی معاشرے کا صالح عنصر بنانے کی بڑی تاکید کرتا ہے۔ اسلام اولاد کو اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت قرار دیتا ہے۔ اس نعمت کی تمنا اور خواہش صرف عام انسانوں کو ہی نہیں ہوتی بلکہ انبیا علیہم السلام بھی اس کی تمنا کرتے رہے، اور اس کے حصول کے لیے اپنے رب سے دُعا کرتے رہے، مگر وہ ایسی اولاد کے طالب رہے جو والدین کے لیے فتنہ بننے کے بجاے اُن کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہو اور دُنیا کے اندربدی اور شر میں اضافہ کرنے کے بجاے نیکی اور خیر کے پلڑے میں اپنا بوجھ ڈالنے والی ہو۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ’عبادالرحمٰن‘ (رحمٰن کے بندوں) کی صفات بیان کرتے ہوئے آخر میں فرماتا ہے کہ وہ اپنے رب سے اولاد کی درخواست اس انداز میں کرتے ہیں:
رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا(الفرقان ۲۵:۷۴) اے ہمارے رب، ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اور ہم کو پرہیزگاروں کا امام بنا۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریاعلیہ السلام کے متعلق ارشاد فرمایا کہ:
ھُنَالِکَ دَعَا زَکَرِیَّا رَبَّہٗ ج قَالَ رَبِّ ھَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃً ج اِنَّکَ سَمِیْعُ الدُّعَآئِ (اٰل عمرٰن۳:۳۸) یہ حال دیکھ کر زکریا ؑ نے اپنے رب کو پکارا: ’’پروردگار! اپنی قدرت سے مجھے نیک اولاد عطا کر۔ تو ہی دُعا سننے والا ہے‘‘۔
اس طرح اسلام اولاد کو بلاشبہہ ایک عظیم نعمت اور فطری آرزو قرار دیتا ہے اور ساتھ ہی اولاد کی ہرگونہ حفاظت اور تربیت کا حکم دیتا ہے۔ قرآنِ کریم نے جاہلی دور کے لوگوں کے اس فعل پر سخت تنقید کی وہ بھوک کے خوف سے بچوں کو مار ڈالتے تھے، یا عار اور جھوٹی شرم کی وجہ سے لڑکیوں کو زندہ درگور کردیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ لَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَکُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍ ط نَحْنُ نَرْزُقُکُمْ وَ اِیَّاھُمْ ج (انعام ۶:۱۵۱) ’’اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو۔ ہم تمھیں بھی رزق دیتے ہیں اور ان کو بھی دیں گے‘‘۔
سورئہ بنی اسرائیل میں فقروفاقہ کے محض اندیشے کی بنا پر قتلِ اولاد کی ممانعت فرمائی۔ صحیحین میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ یہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ: ’’یارسولؐ اللہ! کون سا گناہ سب سے زیادہ بڑا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: تو کسی کو اللہ کا شریک ٹھیرائے۔ درآں حالانکہ اللہ تعالیٰ تجھے پیدا کرنے والا ہے۔ میں نے عرض کیا: ’’اس کے بعد کون سا گناہ بڑا شمار ہوتا ہے؟‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’تو اپنے بچے کو اس خوف سے مار ڈالے کہ وہ تیرے ساتھ کھانے میں شریک ہوجائے گا‘‘۔ پھر میں نے عرض کیا: ’’اس کے بعد کون سا گناہ عظیم تر ہے؟‘‘ آپؐ نے جواب میں فرمایا کہ: ’’تیرا اپنے ہمسایے کی بیوی سے ناجائز تعلق قائم کرنا‘‘۔
یہ بات محتاجِ دلیل نہیں ہے کہ اسلام اوائل عمر ہی سے بچوں کو اسلامی اُمور سکھانے کی تاکید کرتا ہے، تاکہ وہ جب بڑے اور باشعور ہوجائیں تو ان کے دلوں میں خدا کا خوف جاگزیں ہوچکا ہو، اور وہ اپنے رب کی عبادت اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا ذوق و شوق دل میں رکھتے ہوں۔ اِسی بنا پر آں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مشہور ارشادِ مبارک ہے کہ:
مُرُوْا اَوْلَادَکُمْ بِـالصَّلَاۃِ وَھُمْ اَبْنَاءُ سَبْعِ سَنِیْنَ ، وَاَضْرِبُوْھُمْ عَلَیْھَا وَھُمْ اَبْنَاءُ عَشْرٍ وَفَرِّقُوْا بَیْنَھُمْ فِی الْمَضَاجِعِ (سنن ابی داؤد، کتاب الصلاۃ، حدیث:۴۲۳) اپنے بچوں کو نماز پڑھنے کا حکم دو، جب کہ وہ سات سال کے ہوجائیں، اور نماز کی خاطر انھیں مارو جب وہ دس سال کے ہوجائیں اور اس عمر میں ان کے بستر بھی الگ الگ کر دو۔
باپ اگر اپنے بچے کی اس طرح تربیت کرتا ہے کہ بچے کے اندر اللہ کی خشیت اور اطاعت کا جذبہ پیدا ہوجاتاہے اور وہ صالح زندگی سے ہمکنار ہوجاتا ہے تو باپ کی یہ نیکی اجروثواب کے لحاظ سے دائمی نیکی بن جاتی ہے۔ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دائمی نیکی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ:
اِذَا مَاتَ الْاِنْسَانُ اِنْقَطَعَ عَمَلُہٗ اِلَّا مِنْ ثَلَاثٍ : صَدَقَۃٍ جَارِیَۃٍ اَوْ عِلْمٍ یُنْتَفَعُ بِہٖ اَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ یَدْعُوْ لَہٗ (صحیح ابن خزیمۃ، کتاب الزکوٰۃ، حدیث: ۲۳۲۳) جب انسان مر جاتا ہے تو اُس کے اعمال کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے مگر اُس کے تین عمل باقی رہتے ہیں: صدقۂ جاریہ ، یا وہ علم جس سے استفادہ کیا جارہا ہو،یا نیک اولاد جو اُس کے حق میں دُعا کرتی ہو۔
جوانی کے زمانے میں جو لڑکے اچھے کام کرتے ہیں اور جن انسانی خوبیوں سے اپنی جوانی کو آراستہ کرتے ہیں دنیا کے اندر بھی وہ اُن کے اچھے نتائج سے بہرہ مند ہوتے ہیں۔ جوانی کے زمانے میں جو نوجوان جیسا رویہ اختیار کرے گا، پیری میں اس کے ساتھ وہی برتائو دوسرے کریں گے ۔ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
مَا اَکْرَمَ شَابٌ شَیْخًا لِسِنِّہٖ اِلَّا قَیَّضَ اللہُ لَہٗ مَنْ یُکْرِمُہٗ عِنْدَ سِنِّہٖ (ترمذی،کتاب الذبائح، ابواب الـبّر والصّلۃ، حدیث: ۱۹۹۵) جو نوجوان کسی بوڑھے کی اُس کے بڑھاپے کی وجہ سے عزت کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اُس نوجوان کے لیے بھی کسی کو مقرر کر دیتا ہے جو اُس کی اُس وقت عزت کرے گا جب وہ سن رسیدہ ہوجائے گا۔
سب سے اہم بات جسے اسلام کم عمری کے اندر بچوں میں پیدا کرنے پر زور دیتا ہے وہ راست گوئی ہے۔ یہ بڑی ناگزیر بات ہے کہ بچے سچ بولنے کی تربیت پائیں، اور اپنے گھر کے اندر، خاندان کے اندر اور دوستوںکے اندر راست گوئی کا چرچا دیکھیں۔اس بارے میں اگر بچے اپنے سامنے اچھا نمونہ نہ پائیں گے تو راست گوئی کے عادی نہ بن سکیں گے۔ حضرت عبداللہ بن عامرؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’ایک روز میری ماں نے مجھے بلایا۔ اُس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی پاس تشریف فرما تھے۔ میری ماں نے مجھے کہا: آئو تجھے کچھ دوں گی۔ رسولؐ اللہ نے یہ سن کر دریافت فرمایا: تم اُسے کیا دینا چاہتی ہو؟ میری ماں نے جواب دیا کہ میں اُسے کھجور دینا چاہتی ہوں۔ آپؐ نے فرمایا: اگر تم اُسے یونہی بہلانا چاہتیں اور کچھ نہ دیتیں تو تمھارے اُوپر ایک جھوٹ کا گناہ لکھ دیا جاتا‘‘ (ابوداؤد)۔ حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أکْرِمُوْا اَوْلَادَکُمْ وَاَحْسِنُوْا اَدَبَھُمْ (ابن ماجہ، کتاب الادب، باب بّرالوالد، حدیث: ۳۶۶۹) ’’اپنی اولاد کی تکریم کرو اور انھیں اچھا ادب سکھائو‘‘۔
اولاد سے محبت اور رحم دلی عین تقاضاے اسلام ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ تربیت و تادیب اور محبت و رحم دلی کے دونوں پہلو متوازن رہیں۔ ترغیب و ترہیب اور محبت و تادیب دونوں کے اثرات الگ الگ ہوتے ہیں اور متوازن اور صحت مندانہ تربیت کے لیے دونوں پہلوئوں کو اختیار کرنا ضروری ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسنؓ کو بوسہ دیا۔ حضرت اقرع بن حابسؓ نے یہ دیکھ کر کہا: میرے دس بچے ہیں مگر میں نے اُن میں سے کسی کو آج تک بوسہ نہیں دیا۔ آں حضوؐر نے فرمایا: مَنْ لَّا یَرْحَمُ لَا یُرْحَمْ (بخاری، کتاب الادب، حدیث:۵۶۵۸)’’جو رحم نہیں کرتا اُس پر رحم نہیں کیا جاتا‘‘۔
بچوں کے اندر جرأت و شجاعت اور مردانگی کی رُوح پھونکنی چاہیے اور جھوٹے قصے کہانیوں اور خرافات سے اُن کے ذہن مسموم نہ کیے جائیں اور نہ انھیں ایسی داستانیں پڑھنے کا موقع دیا جائے جو انھیں زندگی سے متنفر کردیں۔ اُوپر آں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بیان کیا جاچکا ہے کہ ’’بچوں پر پوری توجہ رکھنی چاہیے‘‘۔ لہٰذا، انھیں نوکروں چاکروں اور تربیت بچگان کے اداروں کے سپرد کر نے پر اکتفا نہ کیا جائے۔ بچے اکثر بُرائیاں نوکروں چاکروں سے سیکھتے ہیں اور بسااوقات یہ صورتِ حال اندوہناک حادثات پر منتج ہوجاتی ہے۔
بچیوں کے بارے میں آقاے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصی تعلیمات ملتی ہیں۔ ایک بچی کی صحیح تربیت سے ایک پاکیزہ خاندان کی داغ بیل پڑتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:
مَا مِنْ رَجُلٍ تُدْرِکُ لَہٗ ابْنَتَانِ ، فَیُحْسِنُ اِلَیْھِمَا مَا صَحِبَتَاہُ اِلَّا اَدْخَلَتَاہُ الْجَنَّۃَ (ابن ماجہ، کتاب الادب، باب بّرالوالد، حدیث: ۳۶۶۸) جس شخص کی دوبچیاں ہوں اور جب تک وہ اُس کے پاس رہیں اُن سے حُسنِ سلوک کرتا رہے تو وہ اسے جنّت میں داخل کرا دیں گی۔ (دوسری روایت میں ہے کہ) دو بچیاں ہوں یا دوبہنیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ: ایک مسکین عورت اپنی دو بچیوں کو ساتھ لیے میرے پاس آئی۔ میں نے اُسے تین کھجوریں دیں۔ اُس نے دونوں کو ایک ایک کھجور دے دی اور ایک کھجور اپنے منہ میں ڈالنے لگی تو بچیوں نے وہ بھی اس سے مانگ لی۔ اُس نے کھجور کے دو حصے کیے اور آدھی آدھی دونوں کو دے دی اور خود نہ کھائی۔ مجھے عورت کی یہ خصلت بہت پسند آئی۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا۔ آپؐ نے فرمایا: اِنَّ اللہَ قَدْ اَوْجَبَ لَھَا بِھَا الْجَنَّۃَ اَوْ اَعْتَقَھَا بِھَا مِنَ النَّارِ (البیہقی، شعب الایمان، حدیث: ۱۰۵۴۷) ’’اس ایک کھجور کی بدولت اللہ تعالیٰ نے اُس عورت کے لیے جنت لازم کر دی یا اُسے دوزخ سے رہائی دے دی‘‘۔
والدین کو اولاد کے ساتھ مساوی سلوک کرنا چاہیے۔ لڑکوں کے ساتھ لڑکیوں کے حقوق بھی پورے کرنے چاہییں ۔ وراثت میں لڑکیوں کو وہ حصہ دیا جائے جو اسلام نے ان کے لیے مقرر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ : یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْٓ اَوْلَادِکُمْ ق لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ ج (النساء۴:۱۱) ’’اولاد کے بارے میں اللہ تمھیں نصیحت کرتا ہے۔ مرد کا حصہ دوعورتوں کے حصے کے برابر ہے‘‘۔
عام معاملات میں اولاد کے ساتھ مساوی سلوک کی جو تاکید اسلام کرتا ہے اس کی ایک مثال یہ ہے : حضرت نعمان بن بشیرؓ روایت کرتے ہیں کہ میرے والد بشیر نے مجھے اپنے مال میں سے کچھ عطیہ دیا ۔ میری ماں عمرۃ بنت رواحہ کہنے لگیں: ’’ میں اس عطیے پر اس وقت تک راضی نہ ہوں گی جب تک آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ نہ کر لیا جائے ‘‘۔ میرے والد نے آپ ؐ سے درخواست کی۔ آپ ؐ اس عطیے کے گواہ رہیں۔ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا : ’’ کیا نعمان کے اور بھی بھائی ہیں؟ ‘‘ میرے والد نے جواب دیا: ہاں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : ’’کیاان میں سے ہر ایک کو اتنا عطیہ دیا ہے؟ ‘‘ میرے والد نے نفی میں جواب دیا۔ اس پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’پھر یہ بات درست نہیں ہے۔ اس عطیے کو واپس لو۔ میں صرف حق بات کا گواہ بن سکتا ہوں۔ مجھے ظلم پر گواہ مت بنائو ۔ میرے سوا کسی اور سے ایسی گواہی لو، اللہ سے ڈرو، اور اپنی اولاد کے ساتھ عدل کرو۔ تیری اولاد کا یہ تجھ پر حق ہے کہ تو ان کے مابین عدل وانصاف سے کام لے۔ جیسا کہ ان کا فرض ہے کہ وہ تیرے ساتھ مساوی حسنِ سلوک کریں۔ کیا تجھے یہ بات پسند ہے کہ وہ تیرے ساتھ مساوی حسنِ سلوک کریں‘‘؟ اس نے جواب دیا : ’’بے شک‘‘۔ آپ ؐ نے فرمایا : ’’ تو پھر عطیات میں نا انصافی نہیں چل سکتی ‘‘۔ آپ ؐ نے حکم دیا کہ یہ عطیہ واپس لیا جائے (بخاری اور دوسری احادیث میں یہ روایت الفاظ کے اختلاف کے ساتھ مروی ہے)۔
دوسری طرف اسلام اولاد کو بھی یہ تعلیم دیتا ہے کہ والدین سے حُسنِ سلوک کریں اور ان کے مرتبے اور مقام کا لحاظ کریں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا ط اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ اَحَدُھُمَآ اَوْ کِلٰھُمَا فَلَا تَقُلْ لَّھُمَآ اُفٍّ وَّ لَا تَنْھَرْ ھُمَا وَ قُلْ لَّھُمَا قَوْلًا کَرِیْمًا O وَاخْفِضْ لَھُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًاO (بنی اسرائیل ۱۷:۲۳-۲۴) تیرے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو مگر صرف اس کی۔ والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۔ اگر تمھارے پاس ان میں سے کوئی ایک، یا دونوں، بوڑھے ہو کر رہیں تو انھیں اُف تک نہ کہو۔ نہ انھیں جھڑک کر جواب دو، بلکہ ان سے احترام کے ساتھ بات کرو اور نرمی اور رحم کے ساتھ ان کے سامنے جھک کر رہو اور دعا کرو کہ پرور دگار اُن پر رحم فرما جس طرح انھوں نے رحمت وشفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا۔
ماں چوںکہ بچے کی پیدایش اور تربیت میں نسبتاً زیادہ تکالیف اُٹھاتی ہے اس لیے آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ماں کی خدمت اور دیکھ بھال کی زیادہ تاکید فرمائی ہے۔ یہ روایت سب لوگ جانتے ہیں کہ اَلْجَنَّۃُ تَحْتَ اَقْدَامِ الْاُمَّھَاتِ (مسندالشہاب القضاعی ، حدیث: ۱۱۳) ’’جنت ماں کے پائوں کے نیچے ہے‘‘۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا۔ اور اس نے سوال کیا کہ یا رسولؐ اللہ! (اے اللہ کے رسولؐ ، میری حُسنِ معاشرت کا کون انسان سب سے زیادہ مستحق ہے ؟۔ آپ ؐ نے فرمایا : ’’تیری ماں ۔ اس نے دریافت کیا : پھر ؟ آپ ؐ نے فرمایا : ’ تیری ماں‘ ۔ اس نے پوچھا : پھر ؟ آپ ؐ نے فرمایا: ’تیری ماں‘۔ چوتھی مرتبہ اس نے یہی سوال کیا تو آپ ؐ نے فرمایا: ’تیرا باپ ‘۔
آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشا د ہے کہ ’’خاک آلود ہو اس کی ناک ، خاک آلود ہو اس کی ناک، خاک آلود ہو اس کی ناک جس نے اپنے والدین کو یادونوں میں سے کسی کو بڑھاپے میں پایا اور پھر وہ جنت میں داخل نہ ہو‘‘۔
ایک شخص آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ ؐ سے جہاد میں شرکت کی اجازت مانگی ۔ آپ ؐ نے فرمایا : ’’کیا تمھارے والدین موجود ہیں ؟‘‘ اس نے کہا : جی ہاں۔ آپ ؐ فرمایا: ’’انھی کی خدمت میں رہ کر جہاد کرو ‘‘۔
ایک اور آدمی نے آپ ؐ سے عرض کیا : کیا والدین کی موت کے بعد بھی کوئی نیکی ہے جو ان کے حق میں کر سکتا ہوں ؟ آپ ؐ نے فرمایا : ’’ ہاں، ان کے حق میں دعا کرنا ، ان کے لیے اللہ سے مغفرت طلب کرنا، اور ان کے بعد ان سے کیے ہوئے عہد کو نافذ کرنا ، اور ان کے ذریعے جو صلہ رحمی کی جاتی تھی وہ صلہ رحمی کرنا، اور ان کے دوستوں کی عزت افزائی کرنا‘‘۔
موجودہ دور میں بیٹے اپنے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک اور وسعتِ ظرف سے پیش نہیں آتے ہیں تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ والدین اپنی اولاد کی صحیح تعلیم وتربیت نہیں کرتے۔ چنانچہ ان کے درمیان روحانی اقدار کے بجاے مادّی اقدار کا غلبہ ہو جاتا ہے۔ اور بیٹے کے لیے دولت دنیا اس قدر عزیز ہو جاتی ہے کہ وہ بسا اوقات والدین کے حقوق پامال کر جاتا ہے ،مگر اس سلسلے آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم بالکل مختلف ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ ایک شخص آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور اپنے والد کے بارے میں آ کر جھگڑا کرنے لگا کہ میرے والد کے ذمے میرا قرض ہے مگر وہ اس کو ادا نہیں کر رہا ہے۔ آپ ؐ نے اسے نصیحت فرمائی: اَنْتَ وَمَا لُکَ لِاَ بِیْکَ (ابن ماجۃ، کتاب التجارات، حدیث: ۲۲۸۸)’’تو اور تیرا مال دونوں تیرے باپ کی مِلک ہیں‘‘۔
اس نصیحت میں آپ ؐ نے اس آدمی کو فوراً اس کا یہ مقام یاد دلا دیا کہ تو جس انسان کے بارے میں قرض نہ دینے کی شکایت کر رہا ہے وہ عام انسان نہیں ہے۔ وہ تیرا باپ ہے۔ اس نے تمھیں پالا پوسا اور تمھیں اس قابل بنایا کہ زندگی کے کار زار میں اپنے لیے راستے ہموار کرو۔ اس لیے تمھارا مال جس کی ملکیت کا تم دعویٰ کر رہے ہو بالواسطہ تمھارے باپ کی ملکیت ہے۔ تم اپنے باپ کا ایک جزو ہو اور بالتبع تمھاری ہر چیز تمھارے باپ کے زیر تصرف ہے۔
ایک اور روایت کے اندر آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید واضح فرمایا کہ اولاد کو اپنے والدین کے بارے میں کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے ؟ ابو داو اور ابن ماجہ میں مروی ہے کہ ایک آدمی آں حضوؐر سے آ کر کہنے لگا : میرے پاس کچھ مال ہے اور میرا باپ میرے مال کا بڑا حاجت مند ہے ۔ میں کیا کروں؟ آپ ؐ نے فرمایا : اَنْتَ وَمَالُکَ لِوَالِدِکَ (تو اور تیرا مال دونوں والد کے لیے ہو ) ۔ آپ ؐ نے اسے یہ تلقین کرنے کے بعد والدین کو اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ : اِنَّ اَوْلَادَکُمْ مِنْ اَطْیَبِ کَسْبِکُمْ فَکُلُوْ ا مِنْ کَسْبِ اَوْلَادِ کُمْ (ابوداؤد، کتاب البیوع، حدیث: ۳۰۸۰) ’’تمھاری اولاد تمھاری بہترین کمائی ہے۔ تم اپنی اولاد کی کمائی میں سے کھائو ‘‘۔
یہ تو عام معاملات اور لین دین کی بات تھی ۔ لیکن جس طرح باپ پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اولاد کی صحیح تربیت کرے ، اسے دین کا رسیا اور اخلاق کا کھرا انسان بنائے، اسی طرح بالغ اور باشعور اولاد پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ اگر اس کے والدین دین میں کمزور ہوں تو وہ انھیں دین کا پابند ہونے کی نصیحت کرے۔ اور خوش اسلوبی اور نرم گفتاری سے انھیں دین کی طرف راغب کرے، اور دین کا کام کرنے والوں سے انھیں تعاون کا مشورہ دے۔ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چچا ابو طالب کو آخر وقت تک ایمان کی دعوت دیتے رہے۔
وہ گھرانا بڑا خوش قسمت اور گہوارۂ سعادت ہوتا ہے جہاںوالدین بھی دین کے پابند ہوں اور اولاد بھی ان کے نقشِ قدم پر چل رہی ہو۔ لیکن اگر دونوں میں اختلاف ہو تو زندگی گھریلو سکون سے نا آشنا ہو جاتی ہے۔ اگر والدین دین کی اتباع نہ کریں تو پھر اولاد کا طریقہ یہ ہونا چاہیے کہ دنیا کے معاملات میں اولاد معروف طریقے سے والدین کا ساتھ دیتی رہے، مگر ان کی کسی ایسی بات کو قبول کرنے سے صاف معذرت کر دے جو خدا اور رسول ؐ کے احکام کے خلاف اور دین کے بنیادی تقاضوں کے منافی ہو