اسلام کے پیش نظر جس معاشرے کی تشکیل ہے اس معاشرے میں مساجد کا رول کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ اسلامی معاشرہ مسجد سے گہری وابستگی رکھتا ہے اور اس کی طرف بار بار رجوع ہوتا ہے، رب سے اپنے تعلق کو مضبوط اور خوب مضبوط کرنے کے لیے بھی اور بندوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو درست اور مطلوبہ انداز میں جاری رکھنے کے لیے بھی۔اللہ رب العزت کی بارگاہ میں مساجد کے ساتھ مومنین کا یہ تعلق اور یہ وابستگی بہت ہی پسندیدہ اور مقبول ہوتی ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سات قسم کے لوگوں کو اپنے عرش کے سایے میں جگہ دے گا، جس دن عرشِ الٰہی کے سوا کوئی سایہ نہیں ہوگا، کوئی سہارا نہیں ہوگا۔ اس میں ایک وہ شخص ہوگا جس کا دل مساجد سے مستقل طور پر وابستہ رہتا ہے:
سَبْعَۃٌ یُظِلُّھُمُ اللہُ فِیْ ظِلِّہٖ یَوْمَ لَا ظِلَّ اِلَّا ظِلُّہٗ اِمَامٌ عَادِلٌ، وَشَابٌّ نَشَأَ فِیْ عِبَادَۃِ اللہِ، وَرَجُلٌ قَلْبُہٗ مُعَلَّقٌ بِالْمَسَاجِدِ، وَ رَجُلَانِ تَحَابَّا فِی اللہِ؛ اِجْتَمَعَا عَلَیْہِ وَتَفَرَّقَا عَلَیْہِ، وَرَجُلٌ دَعَتْہُ امْرَأَۃٌ ذَاتُ مَنْصِبٍ وَجَمَالٍ، فَقَالَ اِنِّیْ اَخَافُ اللہِ ، وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ بِصَدَقَۃٍ، فَاَخْفَاھَا حَتَّی لَا تَعْلَمَ شِمَالُہٗ مَاتُنْفِقُ یَمِیْنُہٗ، وَرَجُلٌ ذَکَرَ اللہَ خَالِیًا فَفَاضَتْ عَیْنَاہُ (بخاری، کتاب الاذان، حدیث۶۴۰)
قرآن مجید میں مساجد کی آبادکاری کو ایمان کے ساتھ مربوط کرکے پیش کیا گیا ہے:
مَا کَانَ لِلْمُشْرِکِیْنَ اَنْ یَّعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللّٰہِ شٰھِدِیْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ بِالْکُفْرِط اُولٰٓئِکَ حَبِطَتْ اَعْمَالُھُمْ ج وَ فِی النَّارِھُمْ خٰلِدُوْنَ O اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰہِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ اَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَی الزَّکٰوۃَ وَ لَمْ یَخْشَ اِلَّا اللّٰہَ فَعَسٰٓی اُولٰٓئِکَ اَنْ یَّکُوْنُوْا مِنَ الْمُھْتَدِیْنَ O (التوبہ ۹: ۱۷-۱۸) مشرکوں کو زیبا نہیں کہ اللہ کی مسجدوں کو آباد کریں ، جب کہ وہ اپنے آپ پر کفر کی گواہی دے رہے ہیں، ان لوگوں کے سب اعمال بیکار ہیں اور یہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے۔ اللہ کی مسجدوں کو تو وہ لوگ آباد کرتے ہیں جو اللہ پر اور روزِ قیامت پر ایمان لاتے اور نماز پڑھتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے، یہی لوگ امید ہے کہ ہدایت یافتہ لوگوں میں (داخل) ہوں ۔
یہ خداے ذوالجلال کی جانب سے اُمت مسلمہ کے لیے ایک شان دار انتظام ہے، اپنے رب سے وابستگی کا، اپنے رب کی ہدایات سے وابستگی کا، اور اپنے جیسے دوسرے بندگانِ خدا سے وابستگی کا۔
ربِ کائنات کی جانب سے اس وابستگی کو یقینی بنانے کے لیے انتظام بھی خوب کیا گیا ہے، روزانہ پانچ وقت باجماعت نماز کے لیے لازمی حاضری کی صورت میں بھی اور ہفتہ میں جمعہ کے روز بڑے اجتماع میں لازمی شرکت کی صورت میں بھی۔
پیغمبرآخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی معاشرے میں مساجد کی اہمیت اور معاشرے کی تشکیل میں مساجدکے غیرمعمولی رول کی بہت ہی شان دار اور بہت ہی عملی مثال قائم کی ہے۔ یہ مثال اللہ کے رسولؐ کی پوری زندگی میں اسی آب وتاب کے ساتھ قائم رہی، اور آپؐ کے بعد خلفاے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور میں بھی اسی آب وتاب کے ساتھ جاری رہی۔ دورِ نبویؐ کی مساجد اور ان مساجد کی سرگرمیاں، بالخصوص مسجد نبویؐ کے سلسلے میں وارد روایتوں میں موجود تفصیلات، اسلامی معاشرے میں مساجد کے مطلوبہ رول سے متعلق بہترین رہنمائی پیش کرتی ہیں۔
یہ نبویؐ معاشرے میں مسجد نبویؐ کے غیرمعمولی رول کی چند اہم جھلکیاں ہیں، حالانکہ مسجد نبویؐ کا رول اس سے کہیں زیادہ اہم اور اس سے کہیں زیادہ وسیع اطراف وجوانب کا حامل ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ مسجد نبویؐ ایک آئینہ ہے جس کو سامنے رکھ کر دنیا بھر کی مساجد کا جائزہ لیا جانا چاہیے۔
فی الوقت صورتِ حال یہ ہے کہ اسلامی معاشرے کا یہ اہم ادارہ اپنے کردار سے بڑی حد تک محروم ہوگیا ہے۔ زمانے کی گرد اِس پر کچھ ایسی چڑھی کہ یہ اپنے کردار کی وسعت اور ہمہ گیری سے بھی محروم ہوگیا اور اپنی افادیت اور تاثیر سے بھی۔ دھیرے دھیرے اس سے وابستگی کا دائرہ بھی کافی محدود اور تنگ ہوتا چلا گیا۔
آج کے گئے گزرے حالات میں بھی بحیثیت مجموعی مسلم معاشرہ روحانی اور فکری طور پر مساجد سے بڑی حد تک وابستگی اور تعلق رکھتا ہے، اور یہاں سے اپنی زندگی میں پیش آنے والے مسائل اور مشکلات میں رہنمائی حاصل کرنے کے لیے ذہنی طور پر خود کو آمادہ محسوس کرتا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ مساجد کو دوبارہ اسلامی تبدیلی کا بنیادی مرکز بنایا جائے۔ اس کی افادیت کو نہ تو پنج وقتہ نمازوں اور تاثیر سے محروم خطباتِ جمعہ تک محدود رکھا جائے، اور نہ مکاتب اور حفظ وتجوید کی کلاسوں ہی تک محدود کردیا جائے۔
اسلامی تبدیلی کا بنیادی مرکز پہلے مرحلے میں کم از کم اس طور پر بنایا جائے کہ معاشرہ ہر ہر قدم پر یہاں سے دینی رہنمائی حاصل کرسکے، بالخصوص انسانی زندگی میں پیش آنے والے معاملات سے متعلق صحیح اور بروقت دینی رہنمائی کا یہاں بھرپور انتظام ہو، چاہے یہ معاملات عائلی زندگی سے متعلق ہوں، چاہے کاروباری زندگی سے متعلق ہوں، چاہے زندگی کے دوسرے کسی شعبے سے متعلق ہوں۔
اس کے لیے مسلم معاشرے کو دوبارہ اس مرکزسے وابستہ کرنا ہوگا۔ اس سے وابستگی کے دائرے کو اسی طرح وسیع کرنا ہوگا جس طرح یہ عہد نبویؐ میں تھا۔ مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کو بھی اس سے وابستہ کرنا ہوگا تاکہ وہ اپنی شخصیت کی تزئین اور اپنے گھر کی تعمیر ربانی ہدایات سے واقفیت کی بنیاد پر اور ان کے مطابق کریں۔ بچوں کو بھی اس سے وابستہ کرنا ہوگا تاکہ ان کی اُٹھان مسجد میں آتے جاتے ہوئے اور اسلامی ماحول اور اسلامی رہنمائی سے انسیت اور لگاؤکے ساتھ ہو۔
مساجد میں امام کے منصب پر ایسے فرد کا تقرر کرنا ہوگا: ۱- جو معاشرے کے درمیان رائج زبان میں اور معاشرے کی ذہنی سطح کو ملحوظ رکھتے ہوئے گفتگو کرسکتا ہو۔ ۲- جو دین اور دینی معاملات کا کم ازکم اتنا فہم رکھتا ہو کہ وہ معاشرے میں اٹھنے والے معمول کے مسائل کو سمجھ سکے اور ان کے سلسلے میں دینی رہنمائی کا فریضہ بھی انجام دے سکے۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ایک طرف مساجد اپنے حقیقی کردار اور اپنی حقیقی تاثیر سے محروم ہیں۔ دوسری طرف ان مساجد کا دامن تنگ سے تنگ تر کردیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر خواتین جو ملت کا نصف حصہ ہیں، مساجد میں داخلے اور مساجد کی سرگرمیوں میں شرکت سے یکسر محروم ہیں۔ چنانچہ یہ اسلامی شریعت سے واقفیت بہم پہنچانے والے اور زندگی میں درپیش مختلف امور ومسائل سے متعلق اسلامی تعلیمات سے متعارف کرانے والے، اور بار بار کی تذکیر سے احکامِ الٰہی کو ذہنوں میں جاگزیں کرانے والے ایک اہم اور مستقل ربانی انتظام سے محروم رہ جاتی ہیں۔ بہرحال مساجد کو ان کے حقیقی کردار سے وابستہ کرنا بھی ضروری ہے اور ان کی افادیت کے دائرے کو وسیع سے وسیع تر کرنا بھی ضروری ہے۔ یہی قرآن وسنت کی رہنمائی بھی ہے اور یہی ملت کے موجودہ حالات کا تقاضا بھی۔
یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ مسلم معاشرے کی اس مرکزسے عہدنبویؐ جیسی وابستگی اسی صورت ممکن ہوسکے گی، جب کہ اس کی افادیت اور تاثیر میں مطلوبہ حد تک اضافہ ہو، یہاں تک کہ معاشرہ اس کے اندر خود بخود اپنے لیے کشش اور لگاؤ محسوس کرنے لگے۔ مساجد کے منبر سے ہونے والے عربی زبان کے خطبات جن کو سمجھنے سے سامعین مکمل طور پر قاصر ہوتے ہیں، بیانات کے نام پر کچھ ایسے پندونصائح جن کا سامعین کی عملی زندگی سے دُور دُور تک تعلق نہیں ہوتا، یا پھر دوران تقریر ایسے مطالبات جو نہ تو شریعت میں مطلوب ہیں اور نہ عام معاشرے ہی کے لیے ان مطالبات کو پورا کرنا ممکن ہے، ان خطبات، بیانات اور تقاریر کے اندر سواے حصول ثواب کے ’عنصر‘ کے ایسا کچھ نہیں ہوتا جس کی بنیاد پر وہ مسلم معاشرے کے عام افراد کو اپنی جانب متوجہ کرسکیں۔
اس لیے ضروری ہے کہ خطباتِ جمعہ میں خاص طور پر اس امر کا اہتمام کیا جائے کہ تذکیروتبشیر کے ساتھ ساتھ، مسلم معاشرے اور سامعین کی معاصر زندگی کے حوالے سے دعوت، تلقین اور رہنمائی کی جائے۔