ڈاکٹر احمد ایم صدیقی


مغرب ایک بار پھر افغان بحران کے بارے میں اپنے تجزیہ کاروں اور سیاست دانوں کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کا شکار ہے۔ یہ مضمون ماضی اور حال کی ان غلط فہمیوں کو دُور کرنے کے ساتھ اس بات کی بھی عکاسی کرتا ہے کہ طالبان کی قیادت سے کیا توقعات رکھی جا سکتی ہیں۔

افراتفری کے عالم میں افغانستان سے ہونے والے امریکی فوجی انخلا کی اڑائی گئی دھول اب بہت حد تک بیٹھ چکی ہے۔اس کا آغاز اس ناقص امریکی پیش گوئی سے ہوا کہ وہاں پر اشرف غنی کی حکومت کم ازکم اٹھارہ ماہ تک توطالبان کو کابل میں داخل نہیں ہونے دے گی، اور اختتام اس ڈرون حملے پر ہوا، جس میں دہشت گردی کا الزام لگاتے ہوئے ایک معصوم افغان شہری کو بچوں سمیت ہلاک کیا گیا۔

امریکا اور نیٹو پر طویل عرصے سے گہری نظر رکھنے والے مبصرین کے لیے اس بات میں حیران ہونے کی کوئی وجہ نہیں کہ وہ انخلا کے حوالے سے باربار نئے شیڈول کا اعلان کیوں کرتے رہے اورپھر اپنے ہی دیے ہوئے اوقات میں تبدیلی پر اصرار کیوں کرتے تھے؟ افغانستان کے بارے میں اعداد و شمار و معلومات کا بڑا ذخیرہ جمع کرنے اور وسیع پیمانے پر تجزیہ کاروں ،سہولت کاروں اور ماہرین کی خدمات حاصل کرنے کے باوجود انٹرنیشنل سیکیورٹی اسسٹنس فورس (ISAF) اپنے دشمن کی پیش قدمی کی نوعیت کو سمجھنے میں بُری طرح ناکام رہی۔

القاعدہ کی واپسی

کابل سے امریکی فوجوں کے انخلا کے وقت برطانیہ کے وزیر دفاع بین والیس (Ben Wallace) نے اعلان کیا کہ ’’افغانستان ایک بارپھر خانہ جنگی کی طرف جا رہا ہے۔ افغانستان کی بکھری ہوئی تاریخ اور طالبان کی جنگجویانہ فطرت اس بات کے اشارے دے رہی ہے کہ شاید القاعدہ ایک بار پھر واپس آجائے‘‘۔ سابق امریکی سفیر ریان کروکر(Ryan Crocker)، امریکی ری پبلک پارٹی کے سینیٹر لینسے گراہم (Linsey Graham) اور بہت سے دیگر سیاست دانوں اور تجزیہ کاروں کی زبان سے بھی انھی خیالات کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ڈپٹی ڈائریکٹر   سی آئی اے ڈیوڈ کوہن اورڈائریکٹر ڈیفنس انٹیلی جنس اسکاٹ بیرئیر نے بھی انھی خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’القاعدہ اگلے چند برسوں میں امریکا پر ایک اور حملہ کرنے کی صلاحیت حاصل کر سکتی ہے اور افغانستان میں اس کی نقل و حرکت کے اشارے ملنا شروع ہو گئے ہیں‘‘۔

اس طرح کے پے درپے بیانات افغانستان اور مشرق وسطیٰ کی صورتِ حال کے بارے میں فرسودہ سوچ اور خیالات پر مبنی ہیں۔بنیادی سوال یہ ہے کہ القاعدہ کو صرف افغانستان تک ہی محدود کیوں سمجھا جاتا ہے؟ ۲۰۰۱ء کے بعد القاعدہ کو افغانستان کے علاوہ کئی ممالک میں پروان چڑھنے کے مواقع ملے، خاص طورپر ان ممالک میں جہاں امریکی بمباری اور مہمات کے نتیجے میں حکومتیں ختم ہوئیں اور عوام میں امریکا کے خلاف شدید غم و غصہ پیدا ہوا مثلاً عراق، یمن اور لیبیا وغیرہ۔ ان ممالک میں امریکی موجودگی اوراس کی پُرتشدد کارروائیاں ہی ان تنظیموں کے لیے عوام میں حمایت پیدا کرتی رہیں۔ درایں اثنا، داعش (ISIS) جیسی انتہا پسند تنظیموں نے تو القاعدہ کو امریکی سرزمین پر حملہ کرنے کی اہمیت اور صلاحیت رکھنےکے باوجود بہت پیچھے چھوڑ دیا۔

ان کے برعکس طالبان نے بہت سے مواقع مہیا ہونے کے باوجود افغان سرحدوں سے باہر اپنی جنگ لڑنے کی طرف کوئی جھکائو ظاہر نہیں کیا اور وہ افغانستان میں داعش کے خلاف کارروائیاں کرکے ایک طرح سے امریکی افواج کے ساتھ خاموش تعاون بھی کر رہے تھے۔حقیقت یہ ہے کہ آج کے دور میں دُنیا کی کوئی بھی حکومت اس بات کی ضمانت نہیں دے سکتی کہ اس کا کوئی بھی شہری کبھی کسی دوسرے ملک کے خلاف کسی حملے میں ملوث نہیں پایا جائے گا۔افغانستان میں پُرامن نظم قائم کرنے میں طالبان کی واضح دلچسپی کو سنجیدہ نہ لینے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ کابل ہوائی اڈے پر داعش کا اندوہناک حملہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ طالبان حکومت پراعتماد کرتے ہوئے ان کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ افغانستان میں داعش اور اس نوعیت کی دیگر تنظیموں کے ٹھکانوں کو ختم کریں۔

طالبان میں دھڑے بندی

طالبان کے بارے میں یہ کہنا کہ ’’وہ اندر سے متحد نہیں اور کسی بھی وقت متحارب گروہوں میں تقسیم ہوجائیں گے‘‘ ،غلط فہمی پر مبنی دعویٰ ہے۔ ۱۹۸۰ء کے عشرے میں اشتراکی روس کے قبضے کے خلاف منقسم مجاہدین گروہوں کی شورش اور طالبان جدوجہدکے درمیان مشابہت تلاش کرنا کسی طورپر درست نہیں۔ مغرب اس طرح کے غلط دعوے کئی بار دہراتا رہا ۔خاص طورپر اوباما کی صدارت کے دوران سنجیدہ مذاکرات سے بچنے کے لیے اس دعوے کوبہانے کے طورپر استعمال کیا گیا کہ’’ طالبان قیادت کا اپنے کمانڈروں پر کوئی کنٹرول ہی نہیں تو ہم مذاکرات کس سے کریں؟‘‘ اس طرح کے مفروضوں کی وجہ سے ہی اوباما حکومت کبھی مذاکرات شروع کرتی اور کبھی ختم کرتی اور اس کے ساتھ ساتھ ڈرون حملے بھی جاری رکھتی ۔ اپنے مفروضے کو سچ ثابت کرنے کے لیے امریکی کوششیں اس بات پر مرکوز رہیں کہ کمانڈروں کے درمیان اختلاف اور تقسیم پیدا کرکے انھیں انفرادی طورپر ختم کیا جائے، لیکن اس سلسلے میں انھیں نہ کوئی پائیدار عسکری فائدہ ہوا اور نہ کوئی سیاسی کامیابی حاصل ہو سکی۔

حقیقت یہ ہے کہ طالبان کئی برسوں سے مشاورتی قیادت اور طاقت کے متعدد مراکز کے ساتھ ایک مربوط مزاحمتی تحریک کے طورپر کام کررہے تھے۔بعض اوقات ان کے درمیان کشیدگی اور پُرتشدد کارروائیاں بھی ہوتی رہیں، لیکن مجموعی طورپر طالبان تحریک نے ان تنازعات سے نمٹنے اوراپنے اتحاد کو برقرار رکھنے کی صلاحیت ظاہر کی۔امریکا کے ساتھ امن معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے گذشتہ سال اس ہم آہنگی اور اندرونی نظم و ضبط کا شان دار مظاہرہ کیا گیا۔اپنے عوامی وعدوں کے مطابق انھوں نے افغان حکومت کے ساتھ بھی امن مذاکرات کا آغاز کیا اور ان کی افواج پر حملے بھی جاری رکھے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے افغان فورسز کے ٹھکانوں کو داعش کے حملوں سے بچانے کے لیے سیکورٹی کا ایک حلقہ بھی قائم کیے رکھا۔

اس سال موسم گرما میں طالبان کی انتہائی مربوط فوجی مہمات کا اگر ۱۹۸۹ء میں سویت انخلا کے بعد کی مجاہدین کی مہم سے تقابل کیا جائے تو ان میں ایک بڑا واضح فرق نظر آئے گا۔مجاہدین اپنی انتہائی کوشش کے باوجود جلال آباد پر قبضہ کرنے میں ناکام رہے اور ان کی اس ناکامی نے صدر نجیب اللہ کی غیر مقبول کمیونسٹ حکومت کو اگلےتین سال تک زندہ رہنے کے قابل بنا دیا تھا ۔لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ دوسری انتہا پر جا کر یہ دعویٰ کر دیا جائے کہ طالبان مکمل طور پرایک متحد فورس ہیں۔ تحریک میں ہمیشہ ڈھیلی ڈھالی مرکزیت اور انفرادی کمانڈروں کی ایک حد تک خودمختاری پر انحصار کرنا ہوتا ہے۔ طالبان کے جنگی ضابطۂ اخلاق میں بھی ناہمواری پائی جاتی رہی ہے، لیکن یہ بات عیاں ہے کہ ان کی لیڈرشپ نے تحریک کے لیے ایک واضح سرخ لائن اور اپنی پالیسیوں کے اردگرد ایک اتفاق رائے قائم کررکھا تھا۔ مجموعی طورپر تحریک بڑے پیمانے پران پالیسیوں پر عمل درآمد کرتے ہوئے ان سے تجاوز نہیں کرتی تھی۔

طالبان کی فتح میں غیر ملکی کردار

انٹرنیشنل سیکیورٹی اسسٹنس فورس(ISAF) اور افغان حکومت کئی برسوں کی ناکامیوں کے ساتھ ہمیشہ ’پاکستان کوقربانی کا بکرا بنانے‘ کے بیانیے پر قائم رہے اور یہ الزام عائد کرتے رہے کہ ’پاکستان طالبان کو مدد فراہم کرتا ہے‘۔ بغاوت اور رد بغاوت کی تاریخ کے طالب علموں کو اس بات پر کوئی حیرت نہیں ہوگی کہ حکومتیں اپنی ناکامیوں کا اعتراف کرنے کے بجائے مزاحمت اوربغاوت کرنے والے گروہوں کی کارروائیوں کو باقاعدگی سے غیر قانونی قرار دیتے ہوئے، ان کا تعلق غیر ملکی ایجنسیوں اور پشت پناہوں سے جوڑتی رہتی ہیں ۔

امریکا کی نظر میں ویت نام کے حُریت پسند ’ویت کانگ‘ اشتراکی روس اور شمالی ویت نام کے کٹھ پتلی تھے۔ فرانس کی نظر میں الجزائر کے قوم پرست مصر اور اشتراکی روس کے کٹھ پتلی تھے۔ اشتراکی روس کی نظر میں مجاہدین امریکا اور پاکستان کے کٹھ پتلی تھے اور آج امریکا، مغرب اور بھارت کی نظر میں ’طالبان پاکستان کے کٹھ پتلی ہیں‘۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہرگروہ کو کسی نہ کسی کی حمایت حاصل ہوتی ہے اورطالبان کو صرف پاکستان ہی نہیں خطے کی دیگر طاقتوں مثلاً ایران، چین، روس اور کئی عرب ریاستوں کی حمایت حاصل ہے، جنھوں نے گذشتہ عشروں میں طالبان کے ساتھ تعلقات برقرار رکھے اور اس کے ساتھ امریکا ،اس کے اتحادیوں اور افغان حکومت کی حمایت بھی جاری رکھی۔ ہتھیار اور مالی معاونت، بلیک مارکیٹ میں ہر کسی کو ریاستی یا غیر ریاستی مدد کے ذریعے میسرآجاتے ہیں، لیکن طالبان کے ہتھیاروں اورفوجی سازوسامان کا سب سے بڑا ذریعہ خود افغان سیکورٹی فورسز اور امریکی فورسز کا چھوڑا یا اُن سے لُوٹا اسلحہ ہی رہا ہے۔ نیٹو فورسز کواپنی ناکامی کا ملبہ غیر ملکی ایجنسیوں پر ڈالنے سے قبل اس بات پر غورکرنا چاہیے کہ اگر غیر ملکی حمایت ہی فتح میں فیصلہ کُن کردار ادا کرسکتی، تو پھر افغان حکومت کو فتح سے ہم کنار ہونا چاہیے تھا کیونکہ انھیں طالبان کی نسبت بہت بڑے پیمانے پر بیرونی فوجی اور مالی حمایت حاصل رہی لیکن اس کے باوجود وہ چند روز تک بھی طالبان کے سامنے ٹھیر نہیں سکے۔ بُری طرح شکست کھاکر اپنے انجام کو پہنچے۔

بیرونی حمایت دودھاری تلوار کی مانند ہوتی ہے۔ دوسروں پر انحصار کرنے والی باغی تحریک یا حکومت، نہ صرف اپنی مزاحمتی اور عسکری صلاحیتیں کھو دیتی ہے بلکہ بیرونی امداداسے مقامی قوت کے طورپر غیر اہم بنانے کی بھی بھاری قیمت چکاتی ہے۔ افغان حکومت کو اپنےبجٹ کا چار یا پانچ گنا بیرونی امداد کے ذریعے حاصل ہوتا رہا۔ یہ حکومت طالبان کی نسبت کئی گنا بڑی فوج اوربیوروکریسی چلا رہی تھی، جسے یہ صرف اپنے اوپر انحصار کرکے چلانے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔اس سارے پاور شو کو چلانے والے افسران کی ناکامی نے یہ ثابت کیا کہ وہ طالبان کی نسبت بیرونی امداد پر کہیں زیادہ انحصار کرتے تھے۔

جہاں تک طالبان کا تعلق ہے، اس بات کا صحیح طورپر اندازہ لگانا ممکن نہیں کہ وہ افغانستان میں مقامی طوپر عوام میں کس قدرمقبول ہیں۔ لیکن یہ بات واضح ہے کہ کئی شہروں میں جب وہ داخل ہوئے تو لوگوں نے انھیں خوش آمدید کہا ، افغان فوجی اہل کاروں نے بغیر مزاحمت کے ہتھیار ڈالے اور بہت سےشہر بغیر لڑائی کے فتح ہوگئے اور ابھی ان کی حکومت کو کابل کی سابقہ حکومت پر بھی ترجیح دی جارہی ہے۔ طالبان کے اس بیانیے نے بھی بڑے پیمانے پر مقبولیت حاصل کی کہ غیر ملکی طاقتوں کے بل بوتے پر کابل میں ایک بدعنوان حکومت مسلط تھی۔ ان حکومتی عناصر نے ’غیر ملکی طاقتوں کے ساتھ مل کر پورے ملک میں ایک ایسی جنگ مسلط کی، جس سے افغانستان کی اسلامی اقدار، ثقافت، یکجہتی ،خودمختاری اورسالمیت کو بری طرح نقصان پہنچا۔ طالبان کے بیانیے نے ان لوگوں کے دلوں کو متاثر کیا، جنھوں نے برطانوی حملوں کی تاریخ پڑھی تھی،جو اشتراکی روسی قبضے سے بُری طرح متاثر ہوئے تھے اور جو ۲۰۰۱ء میں نیٹو افواج کے قبضے کے بعد ظلم و ستم کا شکار ہوئے تھے۔ اسی طرح ان لوگوں نے بھی طالبان بیانیے کی حمایت کی، جنھیں خود یا ان کے رشتہ داروں کو نیٹو فضائی حملوں میں نقصان پہنچا، جنھوں نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں یا جوآئے روز سرکاری افسران کی بدعنوانی اور ناانصافی کا شکار ہوتے رہے۔

پچھلے بیس برسوں میں نظر آنے والے بے شمار عسکری گروہوں میں سے طالبان وہ واحد گروہ ہے، جنھوں نے اپنے بیانیے کا قابل اعتماد طریقے سے دفاع کیا اور اس کی خاطر بےشمار قربانیاں پیش کیں۔ یہ بات بھی حیران کن ہے کہ انھیں ذہنی اور مالی کمک فراہم کرنے کے لیے بے شمار ہمدرد میسر آتے رہے اور میدان جنگ میں جانیں قربان کرنے والوں کے خلا کو پر کرنے کے لیے نیا جوان خون بھی میسر آتا رہا۔

جلدبازی اور افراتفری میں امریکی انخلا

افغانستان پر طالبان کے مکمل کنٹرول کے بعد سے امریکی صدر جوبائیڈن کو ری پبلکن پارٹی، جنگ کے حامی ذرائع ابلاغ، امریکی خارجہ پالیسی اور مسلح امریکی افواج اور برطانیہ جیسے اتحادیوں کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا ہے۔بائیڈن حکومت کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ ’انھوں نے فوجی انخلا افراتفری کےماحول میں کیا اوراسے مشروط نہ بنا کر امریکی فوج اور اتحادیوں کی قربانیوں کو ضائع کیاجو قوم کے ساتھ غداری کے مترادف ہے‘۔ لیکن دوسری طرف یہ ناقدین اس بات کا تسلی بخش جواب دینے سے قاصر ہیں کہ آخر یہ انخلا کب انجام پذیر ہونا چاہیے تھا؟اس کا صحیح وقت اور شرائط کیا ہونی چاہیے تھیں؟جس انخلا کو جلد بازی کا نام دیا جا رہا ہے، اس کاآغاز تو ۲۰۱۴ء میں ہوا، جب آئی ایس اےایف کی اکثریت افغانستان سے نکل گئی۔فوجی انخلا کا یہ سلسلہ امریکی صدربارک اوباما کی طرف سے کیے گئے بے مقصد اضافے کے پانچ سال بعد شروع ہوا تھا۔ ۱۰،۱۵ ہزار فوج جو افغانستان میں رہ گئی تھی، اور اس کا مقصد طالبان کے خلاف کوئی بڑے آپریشن کرنا تو نہیں تھا بلکہ اس کا بڑا مقصد تو افغان سیکورٹی فورس کی مدد اور تربیت کرنا تھا، تاکہ اس میں خود اپنا دفاع کرنے کی صلاحیت پیدا ہو۔ لیکن پچھلے سات برسوں میں بھی یہ مقصد حاصل نہیں کیا جا سکا۔

آئی ایس اے ایف مشن پر ہونے والی ایک تحقیق نے اپنا نتیجہ ان الفاظ میں بیان کیا کہ '’اصل تجزیاتی مسئلہ اس بات کی وضاحت ہے کہ ۲۰۰۱ءکے بعد کی کوششیں ایسے راستے پر کیوں قائم رہیں، جو افغان ریاست کو دوسروں پر انحصار کرنے کی طرف لے جارہا تھا …ایک مفروضہ یہ بھی ہے کہ ۲۰۰۱ء کے بعد افغانستان کے حوالے سے جس مشن کا حصول مقصود تھا، بالکل وہی مشن حاصل کر لیا گیا۔ ۲۰۱۲ء میں افغانستان میں مغربی طاقتوں کی سیاست اورسفار ت کاری میں تیزی سے تبدیلی آئی، حالانکہ اس وقت ضرورت اس بات کی تھی کہ افغانستان کی ریاست کو اپنے پائوں پر کھڑا کیا جاتا، مگر اس پر کوئی توجہ نہ دی گئی۔

صدر بائیڈن اپنے اس دعوے میں بالکل درست ہے کہ ’انخلا کے فیصلے میں تاخیر کرنے سے کچھ حاصل نہ ہوتا‘۔ اسی طرح بائیڈن صاحب اپنے کمانڈروں کے مزید فوج اور وقت کے بے مقصد مطالبات کے خلاف مزاحمت کرنے پر بھی کچھ نہ کچھ داد کے مستحق ہیں۔ سب لوگ ان پر یہ تنقید تو کر رہے ہیں کہ افراتفری کے عالم میں انخلا کیا، لیکن اس بات کو کھلے دل سے تسلیم کرنے کو کوئی تیار نہیں کہ اٖمریکا نے افغانستان میں بری طرح شکست کھائی اور اس کا فرض بنتا تھا کہ آخری انخلا سے قبل وہ طالبان کے زیر قیادت نئےسیٹ اپ کو باقاعدہ طورپر اقتدار منتقل کرتا۔

مستقبل کے امکانات

افغانستان میں نیٹو کی طرف سے مسلط کردہ بیس سالہ جنگ بالآخر اختتام کو پہنچی ۔ اس میں  ۲لاکھ۴۳ہزار افراد ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر افغان تھے۔ اس جنگ میں طالبان فاتح قرار پائے۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ یہ فتح کس قسم کی ہوگی؟ اب تک تو کچھ امید افزا علامات دکھائی دیتی ہیں۔ مثال کے طور پر کابل تک کی طالبان نے پیش قدمی کے دوران خواہ مخواہ خون نہیں بہایا۔بہت سے شہروں کی انتظامیہ اور فورسز نے مذاکرات کے نتیجے میں ہتھیار ڈالے۔ سابق افغان صدرحامد کرزئی اور عبد اللہ عبداللہ سمیت کسی مخالف لیڈر کے خلاف کوئی انتقامی کارروائی نہیں کی گئی۔ کابل کی فتح کے بعد پنج شیرمیں ہونے والی بغاوت کو بھی صرف طاقت کے زور پر کچلنے کے بجائے افہام و تفہیم اور مذاکرات کے ذریعے ختم کیا گیا اور صرف چند جگہوں پر ناگزیر فوجی کارروائیاں کی گئیں۔

۱۹۹۴ءمیں جب طالبان تحریک کا آغاز ہوا تو اس میں صرف پختونوں کے مختلف قبائل کے لوگ شامل تھے۔ ۲۰۰۹ءکے اوائل میں طالبان کی ’پشاور شوریٰ ‘نے ایک ایسا محاذ قائم کیا، جو خصوصی طورپر غیر پشتونوں کے لیے مختص تھا۔ حالیہ برسوں میں تاجک،ترکمان،ازبک اورہزارہ قبائل کے لوگ بھی طالبان کی صفوں میں شامل ہوئے۔ اس تحریک میں جزوی طورپران قبائل کی شمولیت کی وجہ سے ہی طالبان اس قابل ہوئے کہ اوباما حکومت کے فوجی اضافے کے خلاف انھوں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔اس حقیقت کو ان کی حالیہ پیش قدمی کے حوالے سے بھی دیکھا جا سکتا ہے جس میں شمالی صوبوں نے تیزی سے ان کے سامنے لڑے بغیر ہتھیار ڈالے۔حالیہ برسوں میں شیعہ ہزارہ برادریوں نے بھی داعش کے حملوں کے خلاف طالبان سے تحفظ مانگا اوران کے تحفظ کے بعد ہی شیعہ برادری کابل میں محرم کے جلوس نکالنے کے قابل ہوئی۔بہرحال، افغانستان میں دیگر حکمرانوں کی طرح طالبان بھی سنی اور پشتون اکثریتی حکمران ہیں اور ان کی اعلان کردہ عبوری حکومت، فاتحین کی حکومت کا تاثر دیتی ہے۔لیکن یہ کھلا سچ ہے کہ یہ فاتحین مبینہ طورپر شکست خوردہ امریکا سے زیادہ کھلے دل کے ہیں اور اپنے تمام مخالفین سے بات چیت کے لیے آمادہ ہیں۔

طالبان کو بہرحال اس بات کی عکاسی کرنے کی ضرورت ہوگی کہ جب تک وہ افغانستان کی اقلیتوں کو حکومت میں شامل نہیں کریں گے، اس وقت تک مقامی اور بین الاقوامی سطح پر انھیں وسیع قانونی جواز کے حصول میں مشکل پیش آتی رہے گی۔ان کی حکومت میں خواتین کی حیثیت نے بھی بجا طورپر خدشات کو جنم دیا ہے۔انھوں نے اسلامی فریم ورک کے اندر یونی ورسٹی کی سطح پر خواتین کے کام کرنے اور تعلیم حاصل کرنے کے حق کی حمایت کی ہے، لیکن ابھی اس میں ابہام باقی ہے۔ابھی تک یہ واضح نہیں کہ اس سے متعلقہ جزئیات کے بارے میں ان کی کیا پالیسی ہوگی؟

تاہم، افغانستان میں خواتین کے مستقبل کے بارے میں کسی بھی ایماندارانہ تجزیے کے لیے درج ذیل قابلیتوں کا نوٹس لینا ہوگا: پچھلے بیس برسوں میں اگر خواتین کے حوالے سے کوئی فوائد حاصل ہوئے ہیں تو وہ صرف افغانستان کے چند بڑے شہروں کی خواتین اور لڑکیوں کی ایک اقلیت ہی کو حاصل ہوئے ہیں، لیکن اگر سفاکانہ جنگ کے منفی اثرات کی بات کی جائے تو خود نیٹو افواج کے ہاتھوں افغان خواتین نے وسیع پیمانے پر اموات، صدمے، چوٹیں ،عدم تحفظ اور معاشی نقصانات برداشت کیے۔دوسری بات یہ ہے کہ مغربی طاقتوں نے جنگ جاری رکھنے کے جواز کے طورپر عورتوں کے حقوق کی وجہ کو نمایاں طورپر استعمال کیا اور اس طرح خواتین کے حقوق کو قبضے کے ساتھ جوڑ کر اس بات کو یقینی بنایا کہ جب لوگ امریکی قبضے کے خلاف اٹھیں تو خواتین کے حقوق کا مسئلہ بھی متنازعہ بنے اوروہ متاثر نظر آئیں، تاکہ اس مسئلے کو مزید اچھالا جا سکے۔ اور تیسری بات یہ ہے کہ افغانستان میں خواتین کے ساتھ قدامت پسندانہ رویہ نہ طالبان کی وجہ سے شروع ہوا اور نہ صرف ان تک محدود ہے۔ بہت سے علاقوں میں ثقافتی معیارقبائلی روایات کے مطابق ہیں اور ان کو تبدیل کرنا آسان نہیں۔ مجموعی طورپر ثقافتی تبدیلی ایک مشکل عمل ہے، جس میں وقت کے ساتھ ساتھ ہی تبدیلی آ سکتی ہے۔

اگر بیانیے کو دیکھا جائے تو بلاشبہہ آج کی طالبان تحریک ماضی سے مختلف نظر آتی ہے۔ اس کی قیادت کی صفوں میں بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ نوے کے عشرے میں انھوں نے جس طرح کی حکومت قائم کی تھی، وہ پایدار خطوط پر استوار نہیں تھی اورموجودہ حکومت کے لیے ضروری ہے کہ اسےبین الاقوامی سطح پر جواز حاصل ہو۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا کہ طالبان ہر لحاظ سے کوئی متحدہ قوت (unitary actor) نہیں۔ اس کے بیانات اور عمل میں ہم آہنگی کا امتحان اس کے طرزِ حکومت سے ہوگا ، جنگ کے دوران اس طرح کی جانچ نہیں ہوسکتی۔اس مرحلے پر بین الاقوامی برادری کو چاہیے کہ وہ افغانستان میں اس غالب طاقت کی حکومت کو تسلیم کرے، افغان ریاست کو منجمد اثاثوں تک رسائی دے، تاکہ وہ معاشی حوالے سے اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکیں۔ ایسا کرتے ہوئے ایک جامع حکومت کے قیام، شہری حقو ق کی ضمانت کے عوامی وعدوں کو پورا کرنے پر زور دیا جا سکتا ہے۔

جو لوگ پابندیوں یا زیادہ جارحانہ مداخلت کی وکالت کرتے ہیں، ان کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں کہ اس عمل سے افغان عوام کی کس طرح مدد ہوگی؟ اس طرح شاید وہ اپنے غصے، غضب اوراَنا کی تسکین کا سامان تو کر سکیں گے، لیکن افغانستان میں گذشتہ چالیس برسوں کی بیرونی مداخلت کی تاریخ اس کے بالکل برعکس حقائق پیش کرتی ہے۔(الجزیرہ، انگریزی، ۱۲ستمبر۲۰۲۱ء)