سلمان آصف صدیقی


جدید معاشروں کی سرگرمیاں پانچ وسائل سے متعین ہوتی ہیں: جدید سائنس، ٹکنالوجی، سرمایہ، انسانی عقل اور خواہشاتِ نفس۔ جدید مغربی تہذیب کے یہی پانچ بڑے خدا ہیں۔ جدید تعلیم یافتہ انسان اپنے ہرمسئلے کے حل کے لیے انھی پانچ خدائوں کی طرف دیکھتا ہے ۔ان کے ہاں کوئی مسئلہ اسی وقت بڑا مسئلہ سمجھا جاتا ہے، جب یہ پانچ خدا اس کا حل دینے میں ناکام ہوجائیں۔ ایسی صورت میں جدید معاشرہ شدید خوف، گھبراہٹ اور مایوسی کاشکار ہوجاتا ہے۔

ایمان لانے والے فردکا معاملہ یہ ہونا چاہیے کہ وہ کسی بھلے مقصد کے لیے ان وسائل کو اپنے ایمانی نقطۂ نظر کے تحت دیکھے اور دین کی شرائط بندگی پر بروئے کارلائے۔ لیکن اس قابل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان پانچ وسائل کی پوشیدہ قباحتوں سے بخوبی واقف ہو اور ان کے امکانی شر سے خود کو محفوظ رکھنے کے لیے اپنے نفس کی نگرانی اورتزکیہ کرتا رہے۔ ایمانی تناظر میں مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے، جب مسلمان کا بھروسا، اعتبار، یقین اور اُمیدیں ان پانچ اسباب پر قائم ہوجائیں اور وہ ان اسباب کے نفسیاتی، معاشرتی اور ماحولیاتی نقصانات سے لاعلم رہتے ہوئے ان کا استعمال کرتا رہے۔

چونکہ جدید مغربی تہذیب کی ترقی کی بنیاد خدائے واحد اور روح کے انکار کو قرار دیا جاتا ہے، لہٰذا اس کا تصورِ مسئلہ بھی مادی ہے اور اس کی تشخیص کے اسباب اور حل کی نوعیت بھی مادی ہے۔ وہ مسائل جو غیرمادی یاروحانی نوعیت کے ہیں،ان کی شناخت جدید سائنس نہیں کرپاتی اور اگر کسی وجہ سے وہ عیاں ہو بھی جائیں تو انھیں توجہ کے لائق نہیں سمجھا جاتا۔ جدید سائنس، مادی دنیا کے حوالے سے اپنی دانست میں جو مفروضے اوراندازے قائم کرتی ہے اور انکشافات اورایجادات ممکن بناتی ہے، وہ عموماً انسان کی مادی خواہشات ہی کا احاطہ کرتے ہیں۔ اس کی زندگی کی معنویت کا نہیں۔زندگی کی معنویت کا تعین کرنے والا نظام، الہامی ہدایت سے استفادہ کرکے ہی ممکن ہے۔

انسان کی زندگی کا بامعنی ہونا، اس کی زندگی میں آسایشوں کے ہونے سے کہیں زیادہ ضروری اوراہم ہے۔ جدید سائنس اور ٹکنالوجی نے کائنات میں فساد پیدا کرنے کے علاوہ انسان کو سرمایہ دارانہ نظام کی غلام گردشوں میں اُلجھا کر رکھ دیا ہے۔ مسلمان کی ذمہ داری یہ تھی (اور یہ ہے) کہ جدید سائنس اور ٹکنالوجی کی بنائی ہوئی دُنیا کااسیر بننے کے بجائے اس فساد کی نشان دہی کرے، جو ہوس کے نتیجے میں سائنس اور ٹکنالوجی نے پیدا کررکھا ہے اور جس سے مغربی دنیا کا عام آدمی ابھی تک ناواقف ہے۔ المیہ یہ ہے کہ آج کا مسلمان اپنے ضعف ِ علم و ایمان کے باعث اس فرق کو نہیں  پہچان پایا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ مسلم معاشرے، غالب مغربی تہذیب کے علمی اورعملی انکارکے بجائے اس کی مرعوبیت اورغلامی کا بُری طرح شکار ہیں اور ترجیحات کی لگ بھگ اُسی ترتیب میں اپنے معاملاتِ زندگی طے کر رہے ہیں، جو خدائے واحد کے انکار کرنےوالوں نے بنائی ہے۔

محض سرمایے کی محبت اور اس میں اضافے کی فکر اور اس سے اپنی توقعات کا وابستہ ہوجانا، مسلمان کے ایمان کے لیے انتہائی مہلک ہے۔مال اسی صورت میں اللہ کا فضل ہے، جب تک مسلمان کا دل اس کی محبت سے خالی ہے۔ بصورتِ دیگر یہ ایک بڑا فتنہ ہے۔ مسلمان کے پاس جتنی بھی دولت آجائے، اس کی اپنے مستقبل سے بے فکری کی بنیاد، سرمایے پر بھروسا یا انحصار نہیں بلکہ اللہ کی رزّاقی پریقین ہونا چاہیے۔ اسی طرح مسلمان کو تنگدستی میں بھی اپنے مسائل کے حل کے لیے سرمایے کی تمنا کرنے کے بجائے اللہ کی مدد پر بھروسا کرتے ہوئے اپنے حصے کی کوششیں کرنی چاہییں۔

عقل اللہ کی دی ہوئی انتہائی اہم نعمتوں میں سے ایک ہے۔ عقل کے تین بڑےامتیازات ہیں: پہلا یہ کہ عقل، حقیقت تک پہنچنے میں انسان کی مدد کرتی ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ کا حقیقت تک پہنچنا اس کی روشن مثال ہے۔ دوسرا یہ کہ عقل ، علم نافع کی روشنی میں نفس کے میلانات اورداعیات کا محاسبہ کرتی ہے۔ تیسرا یہ کہ عقل، معاملاتِ زندگی کو سمجھنے اورمسائل کو حل کرنے میں انسان کی مدد کرتی ہے۔

انسان کی فطرت اسے فوری فائدے کی طرف للچاتی ہے اورعقل یہیں دھوکا کھاجاتی ہے۔ وہ بڑی تمکنت کے ساتھ چندروزہ زندگی کے فائدے کو ہمیشہ کی زندگی کے فائدے پر فوقیت دے کر یہ سمجھتی ہے کہ اس نے بڑا کمال کیا ہے۔ پھر غالب تہذیب کا تصورِ کامیابی اس کے ایمانی تصورِ کامیابی پر غالب آجاتا ہے۔ عقل کا دوسرا بڑا مسئلہ اس کا گھمنڈ اور اپنی استعداد پرناز ہے۔ عقل کی یہ ترنگ اسے وحی سے بے نیاز کردیتی ہے۔ انسان اس صورت میں اس زعم میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ وہ خیر اور حق کا تعین خود کرسکتا ہے۔ اس کا اپنی عقل پر یہ ایمان پیدا ہوجاتا ہےکہ میری عقل ہرمسئلے کا حل دے سکتی ہے۔ مجرد عقل کے ساتھ گمراہ ہونے کی بہت بڑی مثال ابوجہل کی ہے، جس کو اس کی قوم نے عقل میں بلند ہونے کی وجہ سے ابوالحکم کا خطاب دے رکھا تھا۔

ابلیس نے جب آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کیا، تو اس کی بنیاد عقل کی ایک منطق تھی کہ ’’مَیں جو آگ سے بنا ہوں، اس گارے سے بنی مخلوق کے آگے کیوں سر جھکا دوں‘‘۔ ابلیس نے اللہ کی اطاعت کو محض عقل کے تابع کرنے کی کوشش کی۔ دین کے تناظر میں عقل، منصف نہیں ہے۔ بلکہ بندگی کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے وجود کو، جس میں عقل بھی شامل ہے، اللہ کا مطیع بنالے۔ سجدہ اسی بات کا علامتی اعتراف ہے کہ انسان اپنی عقل کو اللہ کے علم، حکمت، دانائی اورقدرت کے سامنے کچھ نہیں سمجھتا۔ اپنی عقل کے بھرپور استعمال کے باوجود اس کا اصل بھروسا اور یقین اللہ کے علم و حکمت پر ہے۔

یہی اس کا تصورِ عقل مندی ہے۔ بندۂ مومن کی عقل، اللہ کی اطاعت کرنے میں حیل وحجت نہیں کرتی۔ درحقیقت اسی عقل کو عقلِ سلیم کہتے ہیں۔ جدید مغربی تہذیب میں عقل کا بہت بڑا مصرف، نفسانی خواہشات کی تکمیل کے راستے تلاش کرنا اور ان پر چلتے رہنا ہے۔ ایمانی مناسبت سے عقل کا ایک بہت اہم مصرف ان خواہشات کا تجزیہ اور محاسبہ ہے۔ انسان کا اگر ہرلمحہ تزکیہ ہوتا رہے اور اسے نفسِ مطمئنہ حاصل ہوجائے تو اس کی خواہشات بہت نفیس اور پاکیزہ ہوجاتی ہیں۔

انسان کی بے پناہ خواہشات اسے نفس کی غلامی میں دھکیل دیتی ہیں۔ انسان کی خواہشات چپکے چپکے اس کا اِلٰہ بن جاتی ہیں۔ جھوٹے ربّ اور جھوٹے الٰہ کا فرق سمجھنا بھی ہمارے لیے بہت اہم ہے۔ اگر انسان غیرمشروط طورپر اپنے دل کی خواہشات کے پیچھے چل رہا ہو یا اس کی پیروی کر رہا ہو تو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ خواہشات اس کا الٰہ ہیں۔ اور اگر وہ یہ سمجھتا ہو کہ اس کی عقل سارے مسائل حل کردے گی تو اس کا مطلب ہے کہ عقل کو ربّ کادرجہ مل گیا ہے۔ ربّ اور الٰہ کے فرق کو سمجھنا ضروری ہے تاکہ مسلمان خود کو جھوٹے خدائوں کے پھندے سے نکال سکے۔ جدید مغربی تہذیب اور سرمایہ دارانہ نظام ان پانچ جھوٹے خدائوں کے گٹھ جوڑ کی کہانی ہے۔ جس نے اللہ کی نشانیوں کو نظر سے اوجھل کرکے سارے عالم کو بُت کدہ نما بنا دیا ہے۔انھی جھوٹے خدائوں نے آج مسلمانوں کو اپنے نرغے میں لے رکھا ہے۔

اس وقت کرونا وائرس کے نتیجے میں جو صورتِ حال پیدا ہوئی ہے اسے دنیا کچھ وقت کے لیے تو سمجھ ہی نہیں پائی کہ یہ مسئلہ کیا ہے اور اس کو کیسے سنبھالنا ہے۔ کچھ سمجھ میں نہ آنے والی کیفیت ، گھبراہٹ اور شدید خوف کا باعث بن گئی۔ ایسا خوف جو انسان کی نفسیاتی اور جسمانی صحت کے لیے مضر ہو،وہ ایمان کی کمی کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے اور پھر ایمان کو مزید کمزور تر کر دیتا ہے۔ خوف کی ایسی صورتِ حال پیداہوجائے تو پھر اللہ کے سوا دنیا کی کوئی طاقت اسے انسان سے نہیں نکال سکتی۔ وہ لوگ جو اللہ پر یقین رکھتے ہیں، انھیں بے خوف اور بے غم رکھنے کے لیے اللہ، فرشتوں کو خصوصی احکامات کے ساتھ نازل کرتا ہے:

جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا ربّ ہے، اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے، یقینا اُن پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور اُن سے کہتے ہیں کہ ’’نہ ڈرو نہ غم کرو ، اور خوش ہوجائو اُس جنّت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ ہم اس دُنیا کی زندگی میں بھی تمھارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی۔ وہاں جو کچھ تم چاہو گے تمھیں ملے گا اور ہرچیز جس کی تم تمنا کرو گے وہ تمھاری ہوگی، یہ ہے سامانِ ضیافت اُس ہستی کی طرف سے جو غفور و رحیم ہے۔(حٰم السجدہ ۴۱: ۳۰-۳۲)

جب انسان ایک اللہ کو چھوڑتا ہے تو اسے بہت سارے خدا بھی کافی نہیں ہوتے۔ مغربی نفسیات میں ’ذہن کا مادّے پر تصرف‘ کے عنوان سے ایک پورا نقطۂ نظر موجود ہے۔ جو بتاتا ہے کہ ’’اگرآپ کو چوٹ لگ جائے لیکن آپ کو ذہنی طور پر اس بات کا یقین دلوا دیا جائے کہ یہ کچھ بھی نہیں ہے تو وہ واقعی کچھ بھی نہیں ہوتا‘‘۔ اسی طرح ’مصنوعی دوا‘(placebo medicine) کے حوالے سے ہونے والی تحقیقات نے بھی یہ ثابت کیا ہے کہ ’’ذہن کی کیفیت اوردل کے یقین کی اہمیت کسی مرض کے علاج میں دوا سے کہیں زیادہ ہے‘‘۔مراد یہ ہے کہ اللہ کے نہ ماننے والے اس نظریے تک پہنچ گئے ہیں۔ اس صورتِ حال میں اللہ کو نہ ماننے والوں کے لیے اللہ کو ماننے کا بہت بڑا امکان پیدا ہوگیا ہے۔

خوف اور گھبراہٹ کا تسلسل اس بات کی علامت ہوتا ہے کہ آپ کسی معاملے، مسئلے یا خطرے کو بہت بڑا جان لیں اور اپنے وجود کی گہرائیوں میں اس کی بڑائی کو محسوس کرنا شروع کردیں۔ خوف کی یہ صورت فرد کی ایمانی اور نفسیاتی صحت کے لیے شدید نقصان دہ ہے۔ ایک بندۂ مومن کو ہرلمحہ اس بات کا احساس اور یقین ہونا چاہیے کہ اللہ ہی سب سے بڑا ہے۔ وہ کارسازضرور میری مشکل حل کر دے گا۔ مومن کے لیے صرف ایک ہی خوف جائز ہے اوروہ ہے روزِ آخرت اپنے عمل کی جواب دہی کا خوف۔ اسلام لانے اور اللہ کو اپنے معبود ہونے کا اقرار کرنے کا مطلب یہی ہے کہ اب دل میں کسی کی ایسی بڑائی اور عظمت قبول نہیں کی جاسکتی، جس سے اللہ کے ساتھ تعلق اور اس کی عظمت پر حرف آئے۔ خوف کا شدت اختیار کرجانا دراصل بندے اور اللہ کے درمیان تعلق کے تعطل کا سبب بن جاتاہے۔ اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اب دل صرف اور صرف اللہ کا ہوگیا ہے۔ اس میں کسی اور کے آنے کی گنجایش اللہ کے دیے ہوئے احکامات کی تعمیل کے حوالے سے ہی ممکن ہوسکتی ہے۔

ایک عالمی ادارے Worldmeters کی رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ انسان ایک دن میں موت کا شکار ہوجاتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ ایک ماہ میں تقریباً ۴۵لاکھ اور تین ماہ میں تقریباً ایک کروڑ ۳۵ لاکھ انسان اس دنیا سے رخصت ہوتے ہیں، جب کہ کرونا وائرس سے گذشتہ آٹھ ماہ، یعنی فروری سے ستمبر۲۰۲۰ء کے دوران تقریباً ۹لاکھ ۴۲ ہزار ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ لاکھوں لوگ روزانہ مر کر کہاں جارہے ہیں؟ ان کا کیا بن رہا ہے؟ بات یہ ہے کہ یہ لوگ زمان و مکان اور جسم و عمر کی قید سے باہر نکل جاتے ہیں اور درحقیقت واپس بلا لیے جاتے ہیں۔

ان لاکھوں مرنے والوں میں سے بہت بڑی تعداد کو اپنی موت سے چند منٹ پہلے تک بھی یہ پتا نہیں تھا کہ یہ ان کے اس دُنیا میں آخری لمحات ہیں۔ عقیدے اور ایمان کے تناظر میں اصل سوال یہ نہیں ہے کہ کسی وائرس یا بیماری سے کیسے بچا جائے؟ بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ اپنی موت کی تیاری کیسے کی جائے؟ جب کہ ربِّ کریم نے موت سے ہمکنار کرنے کا ایک اور ذریعہ بھی انسان کو دکھا دیا ہے۔

اس وقت دُنیا بھر کے سات ارب انسان اپنے آپ کو کورونا وائرس سے اور اس کی اگلی لہر سے بچانے میں مصروف اور خوف زدہ ہیں۔ لیکن اس سے کہیں زیادہ بڑا سوال یہ ہے کہ مرنے کے بعد انسان کا کیا ہوگا؟ کافر اور مومن کی نفسیات میں ایک بنیادی فرق یہی ہے کہ کافر موت سے ڈرتا اورمومن جواب دہی سے۔ کافر موت کا ذکر نہیں سننا چاہتا اور مومن اپنی موت کو یاد رکھنے کے لیے اس کا روزانہ ذکرکرتا ہے۔اس کے لیے کسی بھی جنازے میں شرکت اپنے دل کے زنگ کی صفائی، ایمان کی تجدید، اور جواب دہی کی فکر کے احساس کو تازہ کرنے کا ایک اہم موقع ہوتا ہے۔ اسی لیے جنازوں میں شرکت کی خصوصی تاکید کی گئی ہے۔ اورنمازِ جنازہ کے بعد تدفین کے لیے قبرستان میں موجودگی پراور بھی زیادہ زور دیا گیا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ آج کے مسلمان میں اپنی ایمانی کمزوری کے باعث موت کا خوف طاری ہوگیا ہے۔ اور اس خوف نے زندگی سے تقویٰ اور احساسِ ذمہ داری کو شدید صد مہ پہنچایا ہے۔