ڈاکٹر الطاف احمد مالانی


قرآنِ مجید وہ صحیفۂ ہدایت ہے، جسے اس دُنیا کے خالق و مالک نے اپنے بندوں کی رہنمائی کے لیے سب سے آخر میں نازل فرمایا ہے۔ یہ کتاب انسان کی صلاح و فلاح اور رُشدوہدایت کے لیے ہرپہلو سے کامل و اکمل ہے۔ قیامت تک پیدا ہونے والی ساری انسانیت اس کی مخاطب ہے۔ اس میں انسانی مسائل کا صحیح، اطمینان بخش اور فطری حل موجود ہے، خواہ ان کا تعلق کسی بھی زمانے یا کسی بھی جگہ سے کیوں نہ ہو، جو انسان کی ہدایت و ضلالت سے تعلق رکھتے ہیں۔

اس کے احکامات کی مکمل پیروی جہاں کامیابی کا یقینی ذریعہ ہے، وہیں اس سے ذرا سی بھی بے توجہی یا دُوری کا نتیجہ انتہائی خطرناک اور نوعِ انسانی کے لیے نہایت ناخوش گوار ہوتا ہے۔ نزولِ قرآن کے وقت سے لے کر آج تک کی پوری تاریخ اس پر گواہ ہے۔

قرآنِ مجید کی طرف سے بے توجہی اور اس سے دُوری کے نتیجے میں جو بے شمار فکری اور عملی کوتاہیاں شعوری یا غیرشعوری طور پر مسلمانوں میں پیدا ہوگئی ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انھوں نے اپنے ذہنوں میں عذابِ الٰہی کا ایسا تصور قائم کرلیا ہے، جو کسی بھی طور پر قرآنی تصریحات سے مَیل نہیں کھاتا۔ ان کے نزدیک گویا ضروری ہے کہ عذابِ الٰہی بھی معجزات کی طرح خرقِ عادت کی شکل میں نمودار ہو، اور اس دُنیا میں طبعی اسباب و عوامل کا جو سلسلہ چل رہا ہے، اس کی خلاف ورزی ہو، ورنہ اسے سب کچھ کہا اورسمجھاجاسکتا ہے، لیکن عذابِ الٰہی نہیں۔ لہٰذا ، وہ اس بات کو بعید سمجھتے ہیں کہ وہی اشیا جن سے وہ اپنی روز مرہ کی زندگی میں مستفید ہو رہے ہیں، جن پر ان کی زندگی کا انحصار ہے، اور ان کے بغیر وہ چند لمحے بھی زندہ نہیں رہ سکتے۔ ہدایت الٰہی سے رُوگردانی کے نتیجے میں مشیت الٰہی کے تحت کسی بھی وقت ان کے لیے تازیانۂ عذاب میں تبدیل ہوسکتی ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ آج اُمت مسلمہ ان عذابوں سے بار بار دوچار ہونے کے باوجود، ان پر اس پہلو سے غور کرنے کی ضرورت نہیں سمجھتی کہ کہیں یہ ہمارے اعمالِ بد کی پاداش میں ہمارے لیے عذاب کی کوئی صورت تو نہیں ہے، بلکہ ان کے لیے طبعی اسباب و عوامل تلاش کرکے مطمئن ہورہتی ہے۔ اور اس طرح ان میں اصلاح و تذکیر کا جو پہلو تھا، اس سے غافل رہ جاتی ہے۔ ان کی حالت قرآن کی اس آیت کے مصداق ہے:

اَوَلَا يَرَوْنَ اَنَّھُمْ يُفْتَنُوْنَ فِيْ كُلِّ عَامٍ مَّرَّۃً اَوْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ لَا يَتُوْبُوْنَ وَلَا ھُمْ يَذَّكَّرُوْنَ۝۱۲۶ (التوبہ ۹:۱۲۶) کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں کہ ہرسال ایک دومرتبہ یہ آزمایش میں ڈالے جاتے ہیں؟ مگر اس پر بھی نہ توبہ کرتے ہیں ، اور نہ کوئی سبق لیتے ہیں۔

یا ان لوگوں کی مثال اس اُونٹ سے دی گئی ہے، جس کو اس کا مالک کبھی کھول دیتا ہے اور کبھی باندھ دیتا ہے، لیکن اس کو کچھ پتہ نہیں کہ کیوں اس نے اس کو باندھا اور کیوں کھول دیا۔

قرآنِ مجید کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ عذابِ الٰہی کی ہر زمانے میں نہ تو کوئی متعین شکل رہی ہے اور نہ اس کے لیے طبعی عوامل کی خلاف ورزی ضروری ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ مجرم اور گنہگار قوموں کو اسی ماحول اور انھی حالات میں، انھی اسباب کے ذریعے سے عذاب سے دوچار کرتا ہے، جن سے وہ اپنی عام زندگی میں مستفید ہوتے تھے اور ان کے حاشیۂ خیال میں بھی یہ چیز نہیں آتی کہ یہی اسباب جو آج ہمارے لیے زندگی کا سامان بنے ہوئے ہیں، کبھی ہمارے لیے ہلاکت کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔

دُنیا میں عذابِ الٰہی کی بنیادی طور پر دو قسمیں ہیں: پہلی قسم وہ عذاب ہے جو ایسی قوم پر بھیجا جاتا ہے، جس پر حجت تمام ہوچکی ہو اور اصلاحِ احوال کی اُمید معدوم ہوچکی ہو، اور اب اس میں کسی خیر کے پنپنے کے امکانات پوری طرح ختم ہوچکے ہوں، تو عذاب کے ذریعے پوری قوم کو نیست و نابود کردیا جاتا ہے اور صفحۂ ہستی کو اس کے ناپاک وجود سے پاک کردیا جاتا ہے۔

اس قسم کی جو مثالیں قرآنِ مجید نے بیان کی ہیں، وہ حسب ذیل ہیں:

۱- غرق کرنا: اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو بے شمار نعمتیں عطا فرمائی ہیں، ان میں سے ایک اہم نعمت یہ بھی ہے کہ اس نے سمندروں کو اس کے لیے مسخر کر دیا ہے۔ لکڑی کی ایک معمولی سی کشتی کے ذریعے وہ سمندر کی پشت پر دندناتا پھرتا ہے۔ وہ اپنے رزق کا ایک بڑا حصہ سمندری مخلوقات سے حاصل کرتا رہا ہے۔ اس سے طرح طرح کے قیمتی موتی اور آرایش و زینت کی دیگر اشیا نکالتا ہے۔ دوسری جانب اس کے روح پرور نظارے اور خوب صورت و دل کش مناظر انسانی طبیعت کو سرور، خوشی اور راحت سے ہم کنار کرتے ہیں۔ بہت زیادہ وزنی اشیا کے نقل و حمل کے لیے آج بھی سمندر ہی کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے۔

لیکن جب انسان سرکشی پر اُتر آتا ہے، اور اس کے نتیجے میں مشیت الٰہی کارفرما ہوتی ہے، تو یہی سمندر جو ایک لمحہ قبل تک اس کے لیے نفع بخش تھا، اسے ڈبو دیتا ہے، اور اس کی ہلاکت کا باعث بن جاتا ہے۔ اس الٰہی پکڑ سے اس کو رحمت ِ الٰہی کے علاوہ کوئی اور نجات نہیں دے سکتا :

وَ اِنْ نَّشَاْ نُغْرِقْہُمْ فَلَا صَرِيْخَ لَہُمْ وَلَا ہُمْ يُنْقَذُوْنَ۝۴۳ۙ اِلَّا رَحْمَۃً مِّنَّا (یٰس ۳۶:۴۳-۴۴) ہم چاہیں تو ان کو غرق کر دیں، کوئی اِن کی فریاد سننے والا نہ ہو اور کسی طرح یہ نہ بچائے جاسکیں۔ بس ہماری رحمت ہی ہے جو انھیں پار لگاتی ہے۔

فرعون نے جب سرکشی اختیار کی تو خدائی کا دعوے دار ہوا، اور حضرت موسٰی و ہارون ؑ کی رسالت کو ماننے سے انکار کیا۔ بنی اسرائیل کو آزاد کرنے سے بھی انکار کردیا۔ اور حضرت موسٰی اور بنی اسرائیل کے تعاقب میں نکلا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسٰی اور بنی اسرائیل کو بحرقلزم میں راستہ دے کر پار کرا دیا، اور اسی سمندر میں فرعون اور اس کے ساتھیوں کو غرق کر دیا۔ قرآن نے بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ کی یہ عظیم نعمت یاد دلاتے ہوئے بیان فرمایا ہے:

وَاِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ فَاَنْجَيْنٰكُمْ وَاَغْرَقْنَآ اٰلَ فِرْعَوْنَ وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ۝۵۰  (البقرہ ۲:۵۰)یاد کرو وہ وقت، جب ہم نے سمندر پھاڑ کر تمھارے لیے راستہ بنایا، پھر اس میں سے تمھیں بخیریت گزروا دیا، پھر وہیں تمھاری آنکھوں کے سامنے فرعونیوں کو غرقاب کیا۔

۲- ہَـوا : جن بنیادی اشیا پر انسانی زندگی کا انحصار ہے، ان میں سے ایک ’ہوا‘ بھی ہے۔ ہرجان دار سانس کے ذریعے سے اسے اپنے بدن میں داخل کرتا ہے اور اسی ذریعے سے خارج کرتا ہے۔ اگر سانس کی یہ ڈور کٹ جائے یا سانس لینے کے لیے مناسب ہوا میسر نہ ہو، تو چند لمحوں میں ایک جیتا جاگتا وجود بے جان لاشے میں تبدیل ہوجائے۔ انسانی زندگی کے لیے ہوا، غذا اور پانی سے بھی زیادہ اہم ہے۔

سمندر کی طرح اس کو بھی اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے فائدے کے لیے مسخر کیا ہے۔ ہوا بادلوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ ہانک کر لے جاتی ہے اور بارش کا سبب بنتی ہے۔ خوش گوار موسم میں جب بادِ صبا چلتی ہے، تو انسان پر سُرور و نشاط کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔انجن کی ایجاد سے قبل سمندری سفر اور کشتیوں کی آمدورفت کا مکمل انحصار ہوا پر ہی ہوتا تھا۔ آج بھی سمندری سفر کی خوش گواری اور ناخوش گواری میں ہوا کی سازگاری کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ جدید سائنس نے نباتاتی پہلوسے ہوا کے چلنے کے مختلف فوائد دریافت کیے ہیں۔ یہی ہوا مرطوب بن کر فصلوں کو نشوونما دیتی اور پروان چڑھاتی ہے۔ گرم اور خشک ہو کر ان کو پکاتی اور تیار کرتی ہے۔ حضرت سلیمانؑ اسی ہوا کے ذریعے مہینوں کی مسافت گھنٹوں میں طے کرلیا کرتے تھے۔(سورئہ سبا ۳۴:۱۲)

لیکن یہی ہوا، اگر مشیت الٰہی چاہے تو انسانوں کی ہلاکت کا پیغام لے کر آتی ہے۔ ’قومِ عاد‘ نے جب اپنے نبی حضرت ہودؑ کی بات ماننے سے انکار کر دیا، تو اللہ تعالیٰ نے ان پر ایک تیزوتند ہوا بھیجی، جو مسلسل سات رات اور آٹھ دن ان پر چلتی رہی(الحاقۃ ۶۹:۶)۔ اس کی زد میں جو چیز بھی آتی، وہ ہلاک ہوجاتی تھی (الذاریات۵۱:۴۲ ، الاحقاف۴۶:۲۵)۔ یہاں تک کہ قومِ عاد باوجود اپنے لحیم و شحیم طاقت ور جسموں اور مضبوط اور بلندوبالا ستونوں والے گھروں کے ہلاک ہوگئے اور ان کی لاشیں ایسی بے حس و حرکت پڑی تھیں، جیسے کھجور کے کھوکھلے اور بوسیدہ تنے(الحاقۃ۶۹:۷)۔

اسی لیے جب تیز ہوا چلتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پریشان ہوجاتے اور اللہ سے لَو لگاتے:

عَنْ عَائِشَۃَ   قَالَتْ: کَانَ النَّبِیُّ  صَلَّی اللہُ  عَلَیْہِ وَسَلَّم اِذَا  عَصَفَتِ  الرِّیْحُ ، قَالَ:  اللّٰھُمَّ  اِنِّیْ  اَسْأَلُکَ  خَیْرَھَا وَخَیْرَ  مَا فِیْھَا  وَخَیْرَ  مَا  اُرْسِلَتْ  بِہٖ،   وَاَعُوْذُبِکَ  مِنْ  شَـرِّھَا  وَشَـرِّ  مَا  فِیْھَا  وَشَـرِّمَا اُرْسِلَتْ  بِہٖ  حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ جب کبھی تیز ہوا چلتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ دُعا فرماتے کہ اے اللہ! میں آپ سے اس کی بھلائی، اس میں جو کچھ پنہاں ہے، اس کی بھلائی، اور جس مقصد سے یہ بھیجی گئی ہے، اس کی بھلائی کا طلب گار ہوں، اور اس کی بُرائی اور اس میں جو کچھ پوشیدہ ہے اس کی بُرائی اور جس غرض سے یہ بھیجی گئی ہے اس کی بُرائی سے میں تیری پناہ کا خواستگار ہوں۔

نیز صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی اس بات کا حکم دیا کرتے تھے:

عَنْ   اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ  رَضِیَ  اللہُ  عَنْہُ  قَالَ  سَمِعْتُ  رَسُوْلَ اللہِ  صَلَّی اللہُ  عَلَیْہِ وَسَلَّمْ  یَقُوْلُ الرِّیْـحُ   مِنْ  رَوْحِ اللہِ  تَاْتِیْ   بِالرَّحمَۃ  وَبِالعَذَاب  فَلَا  تَسُبُّوْھَا  وَسَلوا اللہ        مِنْ خَیْرِھَا   وَاسْتَعِیْذُوْا  بِہٖ  مِنْ  شَرِّھَا   حضرت ابوہریرہؓ نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ہوا اللہ تعالیٰ کی رحمت کا مظہر ہے۔ رحمت اور عذاب لے کر آتی ہے۔ لہٰذا تم اُسے بُرا بھلا نہ کہو، بلکہ اللہ سے اس کی بھلائی طلب کرو اور اس کے شر سے پناہ چاہو۔

۳-  آواز: آواز بھی اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے، جو اس نے انسان کوعطا فرمائی ہے۔ جب تک انسان نے لکھنے پڑھنے کافن نہیں سیکھا تھا، اس وقت تک مافی الضمیر کو ادا کرنے اور باہم رابطے کا ذریعہ صرف آواز ہی تھی۔ فنِ کتابت کی ایجاد اور آلاتِ رسل و رسائل اور کتابت میں گوناگوں ترقی کے باوجود آج بھی آواز پیغام رسانی اور لوگوں کے درمیان رابطہ پیدا کرنے میں کتابت سے زیادہ فائدہ مند اور زیادہ استعمال ہوتی ہے۔ آواز کے ذریعے سے انسان نہ صرف مختلف جانوروں کے درمیان تمیز کرتا ہے بلکہ وہ ابنائے انسانی کے مختلف افراد کے درمیان امتیاز کابھی ایک اہم ذریعہ ہے۔ سُریلی، شیریں اور دل کش آواز سے انسان محظوظ ہوتا ہے ، اور وجد میں آجاتا ہے۔ دل کش آوازوں کی پسند کی وجہ سے انسان نے مختلف آلات موسیقی اور اشعار کے لیے اوز ان ایجاد کیے۔

لیکن جب اللہ تعالیٰ چاہتاہے تو یہی آواز انسان کے لیے ہلاکت کا سبب بن جاتی ہے۔ ’قومِ ثمود‘ نے جب حضرت صالح علیہ السلام کی دعوت کو ٹھکرا دیا اور ان کی قوم کے بدبخت عناصر نے اس اُونٹنی کو قتل کر دیا، جو ان کے معجزہ طلب کرنے پر پتھر سے پیدا کی گئی تھی تو اللہ تعالیٰ نے ایک سخت اور ہولناک آواز کے ذریعے پوری قوم کو نیست و نابود کر دیا۔ ان کے وہ مضبوط اور محفوظ گھر جو انھوں نے چٹانوں کو تراش تراش کر بنائے تھے، وہ عذابِ الٰہی کو روک نہ سکے (الحجر ۱۵: ۸۲،۸۴) اور نہ کوئی اور تدبیر ان کے لیے کارگر ثابت ہوسکی (الذاریات۵۶:۱۱)۔ صرف حضرت صالح علیہ السلام اور ان پر ایمان لانے والے افراد اس عذاب سے نجات پاسکے (ھود۱۱:۶۶)۔

موجودہ دور میں، جب کہ ہم دھماکوں اور صوتی آلودگی سے ہونے والے واقعات کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر رہے ہیں، اس عذاب کی نوعیت اور اس کی ہلاکت خیزی کا اندازہ کرنا قطعاً مشکل نہیں۔ ’اصحابِ مدین‘ کے عذاب کی بھی یہی کیفیت تھی  جس کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے:

اَلَا بُعْدًا لِّمَدْيَنَ كَـمَا بَعِدَتْ ثَمُوْدُ۝۹۵ۧ (ھود ۱۱: ۹۵) سو، مدین والے بھی دُور پھینکے گئے، جس طرح ثمود پھینکے گئے تھے۔

۴- سنگ باری : جس طرح ہوا کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی برسانے کا انتظام کیا ہے، جس سے اس دُنیا کی ساری چہل پہل ہے(الانبیاء۲۱: ۳۰)۔ رزق کا بیش تر دارومدار اسی پانی پر ہے، جو بارش کی صورت میں اللہ تعالیٰ ہوا کے ذریعے سے عطا فرماتا ہے۔  پانی کے ساتھ آسمان سے کبھی اولے بھی برسنے لگتے ہیں۔

لیکن جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کو تباہ و برباد کرنے کا فیصلہ فرما لیتا ہے، تو آسمان سے   پتھر برسنے لگتے ہیں۔ جس جگہ پر سنگ باری ہوتی ہے، وہ پوری طرح تہس نہس ہوکے رہ جاتی ہے۔ قومِ لوطؑ کے گناہوں کا پیمانہ جب لبریز ہوگیا اور انھوں نے حضرت لوطؑ کی تعلیمات پر ایمان لانے سے انکار کیا اور اپنی اخلاقی بُرائیوں میں مگن رہے یہاں تک کہ جب عذابِ الٰہی کے فرشتے انسانی شکل میں حضرت لوطؑ کے پاس پہنچے تو انھوں نے ان کے ساتھ بھی وہی کچھ کرنا چاہا، جس کے وہ عادی تھے(ھود۱۱:۷۷،۸۰)۔ اور حضرت لوطؑ کی تمام تر تعلیمات اور ان کی منت سماجت کا بھی ان پر کوئی اثر نہ ہوا (الحجر۱۵:۶۷،۷۲)۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان کی بستیوں کو تلپٹ کرکے رکھ دیا اور ان پر ایسے پتھروں کی بارش برسائی، جس پر نشان لگے ہوئے تھے:

فَلَمَّا جَاۗءَ اَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِيَہَا سَافِلَہَا وَاَمْطَرْنَا عَلَيْہَا حِجَارَۃً مِّنْ سِجِّيْلٍ۝۰ۥۙ مَّنْضُوْدٍ۝۸۲ۙ   مُّسَوَّمَۃً عِنْدَ رَبِّكَ۝۰ۭ (ھود ۱۱:۸۲-۸۳) پھر جب ہمارے فیصلہ کا وقت آپہنچا تو ہم نے اس بستی کو تلپٹ کردیا اور اس پر پکی ہوئی مٹی کے پتھر تابڑ توڑ برسائے جن میں ہرپتھر تیرے ربّ کے ہاں نشان زدہ تھا۔

اس سنگ باری سے صرف حضرت لوطؑ اور ان پر ایمان لانے والے افراد ہی محفوظ رہ سکے (القمر۵۴:۳۴، الشعراء۲۶:۱۷۰)۔ خود حضرت لوطؑ کی بیوی بھی اس عذاب میں ہلاک کردی گئی، کیونکہ اس نے اپنی قوم کی طرف داری کرتے ہوئے حضرت لوطؑ پر ایمان لانے سے انکار کر دیا تھا (الحجر ۱۵:۶۰، التحریم۶۶: ۱۰۰، اعراف ۷:۸۳)۔

کفارِ مکّہ کو بھی قرآنِ مجید نے ان کے کفر اور ناشکری پر اس عذاب کی دھمکی سنائی:

اَفَاَمِنْتُمْ اَنْ يَّخْسِفَ بِكُمْ جَانِبَ الْبَرِّ اَوْ يُرْسِلَ عَلَيْكُمْ حَاصِبًا (بنی اسرائیل ۱۷:۶۸) کیا تم اس بات سے بالکل بے خوف ہو کہ خدا کبھی خشکی پر ہی تم کو زمین میں دھنسا دے، یا تم پر پتھرائو کرنے والی آندھی بھیج دے۔

اَمْ اَمِنْتُمْ مَّنْ فِي السَّمَاۗءِ اَنْ يُّرْسِلَ عَلَيْكُمْ حَاصِبًا۝۰ۭ (الملک ۶۷:۱۷) کیا تم اس  سے بے خوف ہو کہ وہ جو آسمان میں ہے تم پر پتھرائو کرنے والی ہوا بھیج دے؟

۵-  آگ کی بارش : اللہ تعالیٰ کی قدرت کی ایک عظیم نشانی بادل ہے، جو آسمان اور زمین کے درمیان بغیر کسی ظاہری سہارے کے معلق رہتا ہے۔ ہوائیں اسے دھکیل دھکیل کر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچاتی ہیں اور انھیں جوڑ کر اللہ تعالیٰ ان سے پانی برساتا ہے (النور ۲۴:۴۳)۔ اسی بادل کو چھتری کی طرح بناکر اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے لیے ’سینا ‘کے بے آب و گیاہ صحرا میں سایہ کا انتظام کیا تھا(البقرہ ۲:۵۷، اعراف۷: ۱۷۱)، جس کے ذریعے وہ دھوپ کی حدت اور شدت سے محفوظ رہتے تھے۔

لیکن جب ’اصحاب الایکہ‘ نے حضرت شعیب ؑ کو جھٹلایا اور ان سے مطالبہ کیا کہ اگر وہ اپنے دعویٰ میں سچے ہیں تو ہم پر آسمان کا ایک ٹکڑا گرا دیں(الشعراء۲۶:۱۸۷) تو اللہ تعالیٰ نے ان پر بادل کے ذریعے سے آگ کی بارش برسائی:

فَكَذَّبُوْہُ فَاَخَذَہُمْ عَذَابُ يَوْمِ الظُّلَّۃِ ۝۰ۭ اِنَّہٗ كَانَ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيْمٍ۝۱۸۹ (الشعراء  ۲۶:۱۸۹) آخرکار چھتری والے دن کا عذاب ان پر آگیا، اوروہ بڑے ہی خوفناک دن کا عذاب تھا۔

ان آیات کی تفسیر میں ترجمان القرآن حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے ان پر کپکپی اور سخت گرمی طاری کردی، جس سے ان کی جان پر بن آئی (اور دم گھٹنے لگا) لہٰذا، وہ لوگ جنگل کی طرف بھاگے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے ان پر ایک بادل بھیجا، جس کی وجہ سے نہ صرف انھیں دھوپ کی گرمی سے نجات ملی بلکہ اس کے سایے میں انھیں ٹھنڈک اور لذت کا بھی احساس ہوا۔ جب ان لوگوں نے بلا بلا کر اپنی پوری قوم کو بھی اس کے نیچے جمع کرلیا، تو اللہ تعالیٰ نے ان پر آگ بھیج دی۔ اس کے بعد حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا: ذٰلِکَ عَذَابُ یَوْمُ الظُّلَّۃِ، ’’یہی ہے چھتری والے دن کا عذاب‘‘۔

حضرت قتادہؓ نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت کیا ہے: اللہ تعالیٰ نے ان پر سات دن تک دھوپ مسلط کردی ۔ کسی بھی چیز کے ذریعے انھیں اس سے راحت نہیں مل رہی تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے ایک اَبر بھیجا۔ ان میں سے ایک آدمی نے جاکر اس سے سایہ حاصل کیا تو اسے ٹھنڈک اور راحت محسوس ہوئی ۔ اس نے اپنی قوم کو اس بات سے آگاہ کیا اور ساری قوم سایے کی تلاش میں اس کے نیچے چلی گئی۔ اس وقت ان پر آگ برسا دی گئی(حوالہ سابق)۔

جمہور مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں اسی قول کو اختیار کیا ہے، جن میں سے چند نمایاں نام یہ ہیں: ابن جریر طبری، فخرالدین رازی، خازن، زمخشری، بغوی، ابوالسعود، ابن کثیر، قرطبی، قاضی بیضاوی، جلالین، رشید رضا اور شیخ الہند محمودحسن۔

۶- زمین میں دھنسانا :اللہ تعالیٰ نے اس دُنیا میں انسان کے لیے جو سہولیات مہیا کی ہیں، ان میں زمین ایک نمایاں اہمیت کی حامل ہے ۔ اس کو اللہ تعالیٰ نے انسان کے رہنے بسنے کے لائق بنایا۔ زمین پھاڑ کر اس کے لیے رزق کے وسائل فراہم کیے۔ نہ صرف زمین کی پشت پر بلکہ اس کے پیٹ میں بھی انسان کے فائدے کے لیے طرح طرح کی چیزیں رکھیں، تاکہ انسان تلاش و جستجو سے انھیں حاصل کرے اور صحیح مصرف میں استعمال کرے۔

جس طرح زمین کے اُوپر اللہ تعالیٰ نے انسان کی عبرت پذیری کے لیے بہت سی نشانیاں رکھی ہیں، اسی طرح خود زمین کو بھی عبرت کا ایک اہم سامان بنایا۔ جب انسانوں کی خودسری اور سرکشی حد سے گزرجاتی ہے، تو اللہ تعالیٰ ایسے انسانوں کو اس زمین میں دھنسا کر اوروں کے لیے عبرت کا نمونہ بنادیتاہے۔ اس طرح کی ایک مثال قرآن مجید نے بیان کی ہے۔ قارون نے جو حضرت موسٰی کی قوم کا ایک فرد تھا، جسے اللہ تعالیٰ نے بے انتہا مال و دولت سے نوازا تھا۔ جب اس نے اپنی مال داری پر غرور کیا اور اسے اپنی ذاتی لیاقت کا نتیجہ قرار دیا، اور زکوٰۃ ادا کرنے سے انکار کیا، تو اللہ تعالیٰ نے اس کے خزانوں سمیت اسے زمین میں دھنسا دیا:

فَخَسَفْنَا بِہٖ وَبِدَارِہِ الْاَرْضَ  ۝۰ۣ فَمَا كَانَ لَہٗ مِنْ  فِئَۃٍ  يَّنْصُرُوْنَہٗ مِنْ دُوْنِ اللہِ ۝۰ۤ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُنْتَصِرِيْنَ۝۸۱ (القصص ۲۸:۸۱) آخرکار ہم نے اسے اور اس کے گھر کو زمین میں دھنسا دیا۔ پھر کوئی اس کے حامیوں کا گروہ نہ تھا جو اللہ کے مقابلے میں اس کی مدد کو آتا اور نہ وہ خود اپنی مدد آپ کرسکا۔

اسی طرح اللہ تعالیٰ نے کفارِ مکہ کو بھی اس نوع کے عذاب کی دھمکی سنائی:

ءَ اَمِنْتُمْ مَّنْ فِي السَّمَاۗءِ اَنْ يَّخْسِفَ بِكُمُ الْاَرْضَ فَاِذَا ہِيَ تَمُوْرُ۝۱۶ۙ (الملک ۶۷:۱۶) کیا تم اس بات سے بے خوف ہو کہ وہ جو آسمان میں ہے، تمھیں زمین میں دھنسا دے اور یکایک یہ زمین جھکولے کھانے لگے۔

اَفَاَمِنْتُمْ اَنْ يَّخْسِفَ بِكُمْ جَانِبَ الْبَرِّ (بنی اسرائیل ۱۷:۶۷) تو کیا تم اس بات سے بالکل بے خوف ہو کہ خدا کبھی خشکی پر ہی تم کو زمین میں دھنسا دے۔

۷-  پانی کی کثرت  : زمین کی رونق و دل کشی اور اس پر پائے جانے والی جان دا ر اشیا کی زندگی کا دارومدار جن چیزوں پر ہے، ان میں ایک اہم شے ’پانی‘ بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے زبردست انتظام کیا ہے۔ سمندر کا پانی سورج کی گرمی سے بھاپ بن کر اُوپر اُٹھتا ہے۔ فضا کی ٹھنڈک سے بادل کی شکل اختیار کرلیتا ہے اور پھر پانی بن کر اس زمین پر لوٹ آتا ہے۔ انسان اس کا بہت تھوڑا حصہ ہی روک پاتا ہے۔ بیش تر حصہ ندی نالوں کے ذریعے واپس سمندر میں پہنچ جاتا ہے، یا زمین کے نیچے چلا جاتا ہے۔ پھر بوقت ِ ضرورت انسان زمین کھود کر اس کو حاصل کرتا رہتا ہے۔ جہاں پانی کی قلت سے دُنیا کے اُس حصے کی رونق ختم ہوجاتی ہے، وہیں اس کی زیادتی بھی اس دُنیا کے لیے کم نقصان دہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے اندازے کے مطابق اتنا ہی پانی اُتارتا ہے، جتنی ضرورت ہوتی ہے (المومنون ۲۳:۱۸)۔

بعض اوقات اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو اس کی بداعمالیوں کا مزہ اس دُنیا میں چکھانا چاہتا ہے تو جس طرح اس پر پانی کی تنگی کردیتا ہے، اسی طرح بعض قوموں کو اللہ تعالیٰ نے پانی کی کثرت سے بھی ہلاک فرمایا ہے۔

قومِ نوح علیہ السلام کے عذاب کا جو نقشہ قرآن نے بیان فرمایا ہے، اس سے پتا چلتا ہے کہ ان پر آسمان خوب ٹوٹ کر برسا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا گویا پورا آسمان چھلنی ہوگیا ہے، جس سے پانی برس رہا ہے۔ دوسری جانب زمین سے بھی پانی اُبلنا شروع ہوگیا اور پوری سطح زمین ایک چشمۂ آب میں تبدیل ہوگئی۔ پانی کی اتنی کثرت ہوگئی کہ وہ فلک بوس پہاڑوں کی چوٹیوں تک جاپہنچا۔ پوری قوم اس میں ڈبو کر ہلاک کردی گئی۔ نہ تو ان کے بنائے ہوئے گھر ان کے کام آئے، نہ اُونچے اُونچے ٹیلے اور نہ بلندوبالا پہاڑ۔ صرف حضرت نوح ؑ اوران پر ایمان لانے والے ایک کشتی کے ذریعے بہ حکمِ الٰہی اس سے نجات پاسکے:

فَفَتَحْنَآ اَبْوَابَ السَّمَاۗءِ بِمَاۗءٍ مُّنْہَمِرٍ۝۱۱ۡۖ وَّفَـجَّــرْنَا الْاَرْضَ عُيُوْنًا فَالْتَقَى الْمَاۗءُ عَلٰٓي اَمْرٍ قَدْ قُدِرَ۝۱۲ۚ  وَحَمَلْنٰہُ عَلٰي ذَاتِ اَلْوَاحٍ وَّدُسُرٍ۝۱۳ۙ  تَجْرِيْ بِاَعْيُنِنَا۝۰ۚ جَزَاۗءً لِّمَنْ كَانَ كُفِرَ۝۱۴ (القمر۵۴: ۱۱-۱۴) تب ہم نے موسلادھار بارش سے آسمان کے دروازے کھول دیئے اور زمین کو پھاڑ کر چشموں میں تبدیل کر دیا اور یہ سارا پانی اس کام کو پورا کرنے کے لیے مل گیا جو مقدر ہوچکا تھا اور نوح کو ہم نے ایک تختوں اور کیلوں والی (کشتی پر) سوار کرا دیا جو ہماری نگرانی میں چل رہی تھی۔ یہ تھا بدلہ اس شخص کی خاطر جس کی ناقدری کی گئی تھی۔

۸-  پرندوں کے ذریعے سنگ باری :پرندے اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہیں۔ ان کو پرواز کرتا دیکھ کر انسان کے دل میں بھی پرواز کا شوق پیدا ہوا۔ یہ کائناتِ ارضی کی زینت کا بڑا ذریعہ ہیں۔ ان کی سُریلی آوازوں اور خوش نما رنگوں سے انسان محظوظ ہوتا ہے۔ ان سے پیغام رسانی کا کام بھی لیا جاتا تھا۔ ان کے لذیذ گوشت سے انسان اپنے رزق کا ایک بڑا حصہ حاصل کرتا ہے۔ بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے سینا کے بیابان میں ان پرندوں کے ذریعے رزق عطا فرمایا (اعراف ۷:۱۶۰)۔ نباتاتی نقطۂ نظر سے بھی ان کے بے شمار فوائد ہیں۔ اسی طرح بہت سے پرندوں کی کمزوری اور عاجزی بھی نمایاں ہے۔ ان کی بیش تر اقسام اتنی کمزور ہوتی ہیں کہ معمولی کنکر کی چوٹ کی بھی تاب نہیں لاسکتیں اور وہی ان کی موت یا انھیں زخمی اور معذور کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے، اوراتنی چھوٹی ہوتی ہے کہ ان سے ایک آدمی کا پیٹ بھی نہ بھرسکے۔

لیکن جب انسان اپنی حیثیت فراموش کردیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں پر اس کا شکرگزار ہونے کے بجائے ان پر اِترانے لگتا ہے اور بڑائی کا دعویٰ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ انھیں چھوٹے چھوٹے کمزور پرندوں کے ذریعے اس کو اس کی حیثیت یاد دلاتا ہے۔

یمن کے عیسائی حاکم اَبرہہ نے جب کعبۃ اللہ کو مسمار کرنا چاہا، اور اس کے لیے تنومند ہاتھیوں اور فوج کے ساتھ مکہ تک آپہنچا تو اللہ تعالیٰ نے چھوٹی چھوٹی چڑیاں بھیجیں۔ جن کے منہ اور پنجوں میں چھوٹے چھوٹے کنکر تھے۔ وہ چڑیاں ان سنگریزوں کو ان پر برساتی تھیں اور وہ جسے لگ جاتے وہ وہیں ہلاک ہوجاتا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس کی پوری فوج کو ہلاک کرکے داستانِ عبرت بنا دیا۔ قرآنِ مجید نے اس واقعے کو ایک مستقل سورت میں بیان فرمایا ہے:

اَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِاَصْحٰبِ الْفِيْلِ۝۱ۭ اَلَمْ يَجْعَلْ كَيْدَہُمْ فِيْ تَضْلِيْلٍ۝۲ۙ  وَّاَرْسَلَ عَلَيْہِمْ طَيْرًا اَبَابِيْلَ۝۳ۙ  تَرْمِيْہِمْ بِحِـجَارَۃٍ  مِّنْ سِجِّيْلٍ۝۴۠ۙ  فَجَــعَلَہُمْ كَعَصْفٍ مَّاْكُوْلٍ۝۵ۧ (الفیل۱۰۵:۱-۵) تم نےدیکھا نہیں کہ تمھارے ربّ نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا؟ کیا اس نے ان کی تدبیر کو اکارت نہیں کردیا؟ اور ان پر پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیج دیے، جو ان پر پکی ہوئی مٹی کے پتھر پھینک رہے تھے، پھر ان کا یہ حال کر دیا جیسے (جانوروں کا) کھایا ہوا بھوسا۔

۹-  شکلوں کا بدل دیا جانا  : اللہ تعالیٰ نے انسان پر جو عظیم احسانات فرمائے ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اسے بہت خوب صورت سراپا عطا فرمایا۔ اس کی رہنمائی کے لیے رسولوں اور کتابوں کے ساتھ اسے عقل بھی عنایت فرمائی، تاکہ وہ بھلے اور بُرے کے درمیان تمیز کرے اور اس طریقۂ زندگی کو اختیارکرے، جو اس کے مقام و مرتبہ کا تقاضا ہے۔ لیکن جب انسان ان نعمتوں کی ناشکری کرتا ہے۔ عقلِ سلیم کے تقاضوں سے منہ موڑ کر جانوروں کی طرح من مانی کرنے لگتا ہے، اور اس طریقۂ زندگی کو اختیار کرتا ہے، جو اس کے مقام و مرتبے سے فروتر ہو، تو غضب الٰہی جوش میں آجاتا ہے اور اس کے اعمال کی پاداش میں بسااوقات اس کی ظاہری شکل و صورت کو تبدیل کرکے جانوروں کی طرح بنا دیا جاتا ہے۔

جب ’اصحاب السبت ‘نے حکمِ خداوندی سے انحراف کیا اور ’سبت ‘کے دن کی حُرمت کو پامال کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی صورتوں کو مسخ کرکے بندروں کی طرح بنا دیا ہے:

فَلَمَّا عَتَوْا عَنْ مَّا نُہُوْا عَنْہُ قُلْنَا لَہُمْ كُوْنُوْا قِرَدَۃً خٰسِـِٕـيْنَ۝۱۶۶ (اعراف ۷:۱۶۶) پھر جب وہ پوری سرکشی کے ساتھ وہی کام کیے چلے گئے، جس سے انھیں روکا گیا تھا، تو ہم نے کہا بندر ہوجائو ذلیل اور خوار۔

اسی طرح مشرکین مکہ کو ان کی بداعمالیوں پر متنبہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے انھیں چوکنا فرمایا:

وَلَوْ نَشَاۗءُ لَمَسَخْنٰہُمْ عَلٰي مَكَانَـتِہِمْ فَمَا اسْـتَــطَاعُوْا مُضِيًّا وَّلَا يَرْجِعُوْنَ۝۶۷ۧ (یٰس ۳۶:۶۷)ہم چاہیں تو انھیں ان کی جگہ پر ہی اس طرح مسخ کرکے رکھ دیں کہ یہ نہ آگے چل سکیں نہ پیچھے ہٹ سکیں۔

۱۰-  سرکشی سے پہلے چھوٹے عذاب: عذابِ الٰہی کی دوسری قسم وہ ہے، جس سے کسی قوم کا بالکلیہ استیصال مقصود نہ ہو بلکہ وہ عذاب اس لیے بھیجے جاتے ہیں تاکہ ان لوگوں کو جو غفلت کی وجہ سے بداعمالیوں میں مبتلا ہیں، خوابِ غفلت سے چوکنا کردیں۔ عذاب سے وہی لوگ سبق سیکھ سکتے ہیں، جن کے دلوں میں قبولِ حق کی صلاحیت موجود ہو۔ جن کے دلوں کی کھیتی پوری طرح بنجر نہ ہوگئی ہو، بلکہ وہ ان مصیبتوں کو عذابِ الٰہی سمجھ کر اس کے بعد اپنی پچھلی کوتاہیوں کا ازالہ کریں اور مستقبل میں ان سے بچنے کی کوشش کریں۔

البتہ جن لوگوں کے دل سخت ہوجاتے ہیں اور ان میں قبولِ حق کی کوئی صلاحیت نہیں رہ جاتی ہے۔ان کے لیے یہ عذاب ایک ایسے بڑے عذاب کا پیش خیمہ ہوتے ہیں، جو ان کا استیصال کرنے والا ہوتا ہے:

وَلَنُذِيْـقَنَّہُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰى دُوْنَ الْعَذَابِ الْاَكْبَرِ لَعَلَّہُمْ يَرْجِعُوْنَ۝۲۱ (السجدہ ۳۲ :۲۱) اورہم ان کو بڑے عذاب کے سوا قریب کا عذاب بھی چکھائیں گے تاکہ یہ رجوع کریں۔

اس قسم کی درج ذیل مثالیں قرآن کریم نے بیان کی ہیں:

       ۱-    آسمانی بلائیں : جیسے طوفان، قحط سالی اورفصلوں میں کمی۔ (اعراف۷:۱۳۳)

       ۲-    موذی جانوروں کی کثرت (ایضاً)

       ۳-    اشیائے ضروریہ کا ناقابلِ استعمال ہوجانا (ایضاً)

اللہ تعالیٰ نے حضرت موسٰی اور حضرت ہارونؑ کو فرعون اور اس کی قوم کی ہدایت کےلیے بھیجا، لیکن وہ دلائل کے مقابلے میں عاجز ہوگئے۔ معجزات کے ذریعے ان کی بے بسی اور حضرت موسٰی اور حضرت ہارونؑ کی رسالت کی تصدیق ہوگئی۔ اس کے باوجودانھوں نے حضرت موسٰی کی بات  ماننے سے انکار کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو پہلے مختلف چھوٹے چھوٹے عذابوں میں مبتلا کیا، تاکہ اگر ان میں بھلائی کا ذرا سا بھی عنصر ہو تو وہ اپنی اصلاح کرلیں اور ان بداعمالیوں کو ترک کر دیں۔ لیکن جب ان تمام کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا تو غرق کرکے صفحۂ ہستی کو ان سے پاک کر دیا گیا۔

غرق سے پہلے ان پر جو عذاب آئے تھے۔ قرآن نے اس کی تفصیل یوں بیان کی ہے:

وَلَقَدْ اَخَذْنَآ اٰلَ فِرْعَوْنَ بِالسِّـنِيْنَ وَنَقْصٍ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّہُمْ يَذَّكَّـرُوْنَ۝۱۳۰ … وَقَالُوْا مَہْمَا تَاْتِنَا بِہٖ مِنْ اٰيَۃٍ لِّتَسْحَرَنَا بِہَا۝۰ۙ فَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِيْنَ۝۱۳۲ فَاَرْسَلْنَا عَلَيْہِمُ الطُّوْفَانَ وَالْجَرَادَ وَالْقُمَّلَ وَالضَّفَادِعَ وَالدَّمَ اٰيٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ۝۰ۣ فَاسْـتَكْبَرُوْا وَكَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِيْنَ۝۱۳۳ (اعراف ۷: ۱۳۰، ۱۳۲، ۱۳۳) ہم نے فرعون کے لوگوں کو کئی سال تک قحط اور پیداوار کی کمی میں مبتلا رکھا کہ شاید ان کو ہوش آئے…انھوں نے موسٰی سے کہا کہ تو ہمیں مسحور کرنے کے لیے، خواہ کوئی نشانی لے آئے، ہم تو تیری بات ماننے والے نہیں ہیں۔ آخرکار ہم نے ان پر طوفان بھیجا،   ٹڈی دَل چھوڑے، سُرسریاں پھیلائیں، مینڈک نکالے، اور خون برسایا۔ یہ سب نشانیاں الگ الگ کرکے دکھائیں مگر وہ سرکشی کیے چلے گئے اور وہ بڑے ہی مجرم لوگ تھے۔

ان آیات کی تفسیر میں سیّدالتابعین حضرت سعید بن جبیرؒ فرماتے ہیں: جب فرعون نے حضرت موسٰی کے مطالبے (بنی اسرائیل کی آزادی) کو تسلیم نہ کیا، تو حق تعالیٰ نے بارش کا طوفان بھیجا، جس سے کھیتوں وغیرہ کی تباہی کا اندیشہ پیدا ہوگیا۔ آخر گھبرا کر حضرت موسٰی سے دُعا کی درخواست کی کہ تم اپنے خدا سے کہہ کر یہ طوفان دُور کرا دو، ہم بنی اسرائیل کو آزادی دے کر تمھارے ساتھ روانہ کردیں گے۔ حضرت موسٰی کی دُعا سے بارش بند ہوگئی اور بجائے نقصان کے پیداواربہت کثرت سے ہوئی۔ قومِ فرعون عذاب سے بے خوف ہوکر اپنے عہدپر قائم نہ رہی۔ تب اللہ تعالیٰ نے تیار کھیتیوں میں ٹڈی دَل بھیج دیا، جسے دیکھ کر پھر گھبرائے کہ یہ نئی آفت کہاں سے آگئی۔   پھرحضرت موسٰی سے دُعا کی درخواست کی اور پختہ وعدے کیے کہ اگر یہ عذاب ٹل گیا تو ہم بنی اسرائیل کو ضرور آزاد کردیں گے۔ جب یہ عذاب بھی اُٹھا لیا گیا تو وہ پھر مطمئن ہوگئے اور سب وعدے فراموش کردیئے۔ آخر جس وقت غلّہ اُٹھا کر مکانوں میں بھرلیا تو خدا کے حکم سے غلّہ میں گھن لگ گیا۔ پھر حضرت موسٰی سے دُعا کرائی اور بڑے پکے عہدوپیمان کیے، لیکن جیسے ہی وہ حالت ختم ہوئی بدستور سابق سرکشی اور بدعہدی کرنے لگے تو خدا نے ان کا کھانا اور پینا بے لطف کر دیا۔ مینڈک اس قدر کثرت سے پیدا کر دیئے گئے کہ ہرکھانے اور برتن میں مینڈک نظر آتا تھا۔ جب کھانے یا بولنے کے لیے منہ کھولتے تو مینڈک جست لگا کر منہ میں پہنچ جاتا تھا اور ویسے بھی اس جانور کی کثرت نے رہنا سہنا مشکل کر دیا۔ اِدھر پینے کے لیے جو پانی لینا چاہتے تھے، وہی خدا کے حکم سے برتنوں میں یا منہ میں پہنچ کر خون بن جاتا تھا۔ غرض کھانے پینے تک سے عاجز ہورہے تھے۔

اسی قسم کی تفسیر ابن عباس، سدی، قتادہ، اور علما کی ایک بڑی جماعت سے منقول ہے۔

مندرجہ بالا آیات کے اس مختصر مطالعے سے یہ بات پوری طرح واضح ہوکر سامنے آتی ہے کہ یہ دُنیا دارالاسباب ہے۔ یہاں ہر کام اس کے طبعی اسباب و عوامل کے تحت ہی انجام پاتا ہے۔  عذابِ الٰہی کی ہرزمانے اور ہرقوم میں نہ کوئی متعین صورت ہی رہی ہے کہ اس کے علاوہ کسی اور صورت سے عذاب نہیں آسکتا اور نہ اس کے لیے طبعی اسباب و عوامل کی خلاف ورزی ہی ضروری ہے، بلکہ وہی اشیا و اسباب جن سے انسان اس دنیا میں شب و روز فیض پا رہا ہے، جن پر اس کی زندگی کا دارومدار ہے، اور خدا کی وہ بے حدوحساب نعمتیں جو اس پر ہرلمحہ ہورہی ہیں، اگراس کے اعمال میں انحراف پیدا ہوجائے اور وہ ان اشیا کو غلط مقصد کے لیے استعمال کرنے لگے تو وہ اس کے لیے عذابِ الٰہی میں تبدیل ہوسکتی ہیں۔ وہی اشیا جو چند لمحے پیش تر اس کے لیے حیات بخش تھیں اچانک اس کے لیے ہلاکت کا پروانہ ثابت ہوتی ہیں اور نعمتیں نقمتوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔