حیدر آباد دکن سے دینی و علمی ماہنامہ ترجمان القرآن کے مدیر مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ تھے۔ یہ رسالہ مغربی تہذیب و افکار کے پیدا کردہ شکوک و شبہات کا، ایک ایک کرکے ازالہ کر رہا تھا اور اسلامی تعلیمات کو منفرد علمی و تحقیقی انداز میں پیش کر رہا تھا۔ اس ماہنامے میں ’قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں‘ کے نام سے ایک سلسلۂ مضامین شروع ہوا۔ جس میں مولانا مودودیؒ نے اِلٰہ،رب، عبادت اور دین کے مفہومات کو عربی لغت اور قرآنی آیات کی روشنی میں تفصیل سے بیان فرمایا تھا۔ میں اِن دنوں درسِ نظامی کا ایک طالب علم تھا۔ یہ مضامین میری نظر سے بھی گزرے، اندازِ بحث اور طرزِ استدلال میں کچھ نیاپن ضرور تھا، مگر جہاں تک اِن اصطلاحات کے مفہوم کا تعلق تھا، میرے لیے اس میں کوئی نئی یا انوکھی بات نہ تھی۔ میں نے اکابر علماے دیوبند اور علماے ندوہ سے جو دینی فکر پایا تھا، مولانا مودودی کا فکر اُس سے ہم آہنگ تھا۔
اسی دوران میں ترجمان القرآن میں ایک اور سلسلۂ مضامین ’مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش‘ کے عنوان سے شروع ہوا۔ اِس کے پہلے دو حصوں میں مولانا مودودی نے ’انڈین نیشنل کانگریس‘ کی لادینی سیاست پر مدلل اور مفصل تنقید کی تھی۔ اسی طرح متحدہ قومیت کے فتنے کا تجزیہ کرتے ہوئے ’مسئلہ قومیت‘ کے مباحث اُٹھائے، اور اسلام اور مسلمانوں کے سلسلے میں اُس کے مہلک اثرات واضح کیے تھے۔ اور آج تک ایک طویل عرصے میں مسلمانوں نے اُس [متحدہ قومیتی] سیاست کے ہولناک نتائج کو مسلسل بھگتا ہے۔پھر ’مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش‘ کے تیسرے حصے میں مولانا نے مسلم لیگ اور خاکسار تحریک کے مسلم قوم پرستانہ نظریات و اعمال پر مُدلل محاکمہ کیا تھا اور اِن دونوں راہوں سے ہٹ کر ملک و ملّت کو اسلا می نظام کی راہ دکھائی تھی۔
’مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش‘ حصہ سوم کے مضامین کے بنیادی نکات یہ تھے:
۱- اسلام ایک عالم گیر اور بین الاقوامی دین ہے، یہ صرف مسلمانوں کا مذہب نہیں۔
۲- ’اُمت مسلمہ‘ کوئی نسلی یا وطنی قوم نہیں ہے، بلکہ ایک جماعت اور ایک اصولی و بین الاقوامی پارٹی ہے، جو اسلام کی بنیاد پر نوعِ انسانی کی فلاح و بہبود کے لیے تشکیل پائی ہے۔
۳- مسلمانوں کے لیے لادینی وطنی سیاست اور مسلم قوم پرستانہ سیاست، دونوں ہی غلط ہیں۔ مسلمان، حقوق و مفادات کی جنگ کے لیے نہیں، اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے پیدا ہوا ہے۔
۴- انبیا علیہم السلام کی دعوت کا مرکزی نقطہ ’اللہ کی حاکمیت‘ ہے اور اُمت مسلمہ کا نصب العین دُنیا میں اللہ کی حاکمیت کا قیام ہے۔
۵- مغربی تہذیب اِس وقت زوال پذیر ہے اور اسلامی نظام کے قیام کے روشن امکانات ہیں، بشرطیکہ اُس کے لیے جدوجہد کرنے والی کوئی صالح جماعت موجود ہو۔
اس سلسلۂ مضامین سے جہاں نیشنل کانگریس، جمعیۃ العلماے ہند اور مسلم لیگ سے وابستہ کچھ علماے کرام مولانا مودودیؒ کے مخالف ہوگئے، وہیں مولانا مودودیؒ کے ہم فکراصحاب کا، جن میں علماے دین بھی تھے، ایک حلقہ پیدا ہوا۔ مولانا مودودی ؒ کی دعوت پر اُن میں سے اکثر اصحاب ۲۵؍اگست ۱۹۴۱ء کو دفتر ترجمان القرآن، لاہور میں جمع ہوئے اور غوروفکر اور بحث و گفتگو کے بعد جماعت اسلامی کی شکل اختیار کرلی۔ مولانا مودودیؒ اِس جماعت کے امیر منتخب ہوئے۔
جماعت اسلامی کی تشکیل کے بعد نیشنل کانگریس، جمعیۃ العلماے ہند اور مسلم لیگ سے وابستہ کچھ افراد کی جانب سے جماعت اسلامی کی مخالفت کا آغاز ہوگیا۔ یہ مخالفت جماعت کی دعوت کے پھلنے پھولنے کے ساتھ بڑھتی ہی گئی۔ اِس کے محرکات دینی سے زیادہ سیاسی تھے اور اُن میں ذاتی و گروہی محرکات کی آمیزش بھی تھی۔ میں ایک نوعمر طالب علم کی حیثیت سے مختلف گروہوں کے افکار و نظریات اور مولانا مودودیؒ کی اسلامی تحریک کا بہ غور مطالعہ کر رہا تھا کہ ایک کتاب نظر سے گزری۔ یہ مولانا سیّدابوالحسن علی ندوی [۱۹۱۳ء-۱۹۹۹ء]کی تصنیف سیرت سیّد احمد شہیدؒ تھی۔میں اِس کتاب اور حضرت سیّد احمد شہیدؒ [۱۷۴۶ء-۱۸۳۱ء]کی تحریک سے، جس میں برصغیر کے علما و مشائخ اور دین دار رؤساء اور عوام نے اقامت ِ دین کے لیے بے مثال مالی و جانی قربانیاں دی تھیں، بے حد متاثر ہوا۔ میں نے محسوس کیا کہ مولانا مودودیؒ بھی اِسی تحریک کو لے کر اُٹھے ہیں۔ سو، میں بھی اس تحریک کا کارکن بن گیا۔ مولانا سیّد ابوالحسن علی ندوی بھی اِس کاررواں میں شامل ہوگئے، مگر اس کے ساتھ وہ ’تبلیغی جماعت‘ سے بھی وابستہ رہے۔ کچھ مدت کے بعد مولانا مودودیؒ کے اس مشورے پر کہ وہ کسی ایک جماعت کے لیے یکسو ہوجائیں۔وہ تبلیغی جماعت کے لیے یکسو ہوگئے۔
۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان قائم ہوا، اور ۱۵؍اگست ۱۹۴۷ء کو ہندستان آزاد اور تقسیم ہوا، نتیجہ یہ کہ بھارت اور پاکستان کی صورت میں دو مستقل مملکتیں وجود میں آگئیں۔ چند مہینوں ہی میں اندازہ ہوگیا کہ دو مستقل اور آزاد مملکتوں کے وجود میں آجانے کے بعد جماعت اسلامی کی ایک متحدہ تنظیم قابلِ عمل نہیں ہے، چنانچہ ہندستان کی طرح جماعت اسلامی بھی تقسیم ہوگئی۔ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ قرارپائے۔ہندستان میں رہ جانے والے افراد نے اپریل ۱۹۴۸ء میں ’جماعت اسلامی ہند‘ کے نام سے ایک الگ جماعت کی تشکیل کی اور مولانا ابواللیث اصلاحی ندوی [۱۹۱۳ء-۱۹۹۰ء] اُس کے امیرتسلیم کیے گئے۔ یہ دونوں ایک دوسرے سے بالکل الگ اور دو آزاد تنظیمیں تھیں۔ عقیدے اور نصب العین کے اشتراک کے علاوہ ان میں باہم کوئی ربط و تعلق نہ تھا۔ مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ جماعت اسلامی ہند کے نہیں، جماعت اسلامی پاکستان کے امیر تھے اور اُن کے کسی قول و فعل کی ذمہ داری جماعت اسلامی ہند پر نہیں آتی تھی، مگر جماعت اسلامی ہند کے مخالف علما یہ بات ماننے کو تیار نہ تھے۔ ہندستان کے اربابِ اقتدار کا بھی یہی خیال تھا کہ جماعت اسلامی ہند کا، پاکستان اور امیر جماعت اسلامی پاکستان سے تعلق ہے، مگر اُن کے پاس بھی اس بات کا کوئی ثبوت نہ تھا۔ دراصل جماعت کے کچھ مخالفین نے، جن کی نئی دہلی میں اربابِ حکومت تک رسائی تھی، حکومت کو اس غلط فہمی میں مبتلا کردیا تھا۔
جماعت اسلامی ہند اور جماعت اسلامی پاکستان کی تشکیل کے، کچھ ہی مدت بعد دونوں طرف کے اربابِ اقتدار اور دونوں طرف کے کچھ علما، جماعت اسلامی کے خلاف برسرِپیکار ہوگئے اور ایک طویل مدت تک مخالفت کی یہ مہم جاری رکھی۔ علماے کرام کی جانب سے اعتراضات، فتوؤں، بہتان تراشیوں اور وابستگانِ جماعت کے خلاف بائیکاٹ کی روش قائم رہی، اور حکومت کے ذمہ داراور اس کا ہم نوا پریس، دونوں جماعت اسلامی کے خلاف مہم میں مصروف رہے۔
جماعت کےافراد ملازمتوں سے نکالے گئے۔ جیل کے مصائب و آلام کا شکار ہوئے۔ جماعت سے وابستہ کچھ افراد کو شہید کیا گیا۔ دوسری طرف مولانا مودودیؒ پر قاتلانہ حملہ ہوا، حکومتِ پاکستان نے مولانا مودودیؒ کو پھانسی کی سزا سنائی، جس سے وہ اللہ کے فضل و کرم اور عالمِ اسلام کے شدید احتجاج کے نتیجے میں محفوظ رہے۔ جماعت اسلامی ہند پر پابندی لگی، اُس کے دفاتر، مکتبے اور اخبارات ورسائل بند کردیئے گئے۔ اُس کی املاک اور بیت المالوں کو سیل کر دیا گیا اور جماعت کے ذمہ دار اور اکثروبیشتر وابستگان جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند رہے، طرح طرح کی اذیتوں کا نشانہ بنے اور اِن اذیتوں کے نتیجے میں کتنے ہی افراد جیل کے اندر اور باہر جاں بحق ہوئے۔
اسلامی تحریک کے لیے اِس طویل مدت میں علما اور اربابِ اقتدار کی جانب سے جماعت اسلامی کی مخالفت کی جو مہم چلی، اُس میں دونوں کا اشتراک اتفاقیہ تھا یا اُن کے مابین کوئی تعلق تھا؟ اس کے لیے سرسری نہیں، علمی و تحقیقی جائزے کی ضرورت ہے۔
یہ جائزہ کوئی غیر جانب دار اور انصاف پسند مبصر ہی لے سکتا ہے۔وہ جماعت اسلامی ہند کے سلسلے میں، ہندستان کے اربابِ اقتدار کے بیانات و اقدامات، نیز حکومت کے ہم نوا پریس اور رہنمائوں کے، جماعت کے خلاف الزامات اور پروپیگنڈوں کو اور [جماعت اسلامی کے] مخالف علماے کرام کے اعتراضات، بیانات، اقدامات اور فتوئوں کو جمع کرے، ان کا گہرا مطالعہ کرے۔ پھر یہ معلوم کرنے کی کوشش کرے کہ اِن دونوں مہموں کے پیچھے کچھ خفیہ ہاتھ تو نہیں رہے ہیں؟ یہ دیکھے کہ دونوں ممالک میں، اور دونوں قوتوں کی طرف سے یہ مہم کیا ایک ساتھ یا کچھ آگے پیچھے شروع ہوئی ہے اور ان میں کب تیزی آئی ہے؟ یہ معلوم کرے کہ کن کن جماعتوں اور کن علما کا وقت کی حکومت یا برسرِاقتدار پارٹی سے تعلق رہا ہے اور دانستہ یا نادانستہ اُس کے آلۂ کار یا شریکِ کار تو نہیں بنے؟ ایسا تو نہیں ہے کہ اربابِ اقتدار سے خوف کھاکر اپنے آپ کو، اپنی جماعت کویا اپنے دارالعلوم کو حکومت کے عتاب سے بچانے کے لیے انھوں نے جماعت اسلامی کے خلاف کچھ اقدامات کیے ہوں؟ یہ ایک انتہائی اہم اور بنیادی کام ہے، جسے اب تک انجام نہیں دیا گیا ہے اور دین و ملّت کے لیے کسی بھی تعمیری کام کے کرنے کے لیے ضروری ہے کہ تحقیقی جائزہ لیا جائے۔
جیساکہ سب کو معلوم ہے، [اگست ۱۹۴۷ء کے دوران]آزادی کی صبح طلوع ہوتے ہی دہلی، مشرقی پنجاب اور مغربی پنجاب (پاکستان) میں ہولناک اور وسیع و ہمہ گیر فسادات بھڑک اُٹھے تھے۔ خیال تھا کہ یہ ایک ہیجانی دور ہے ، جو جلد ختم ہوجائے گا مگر ایسا نہ ہوا۔ ہندستان اور پاکستان دونوں ممالک میں خون ریز ہندومسلم فسادات کا سلسلہ چلتا رہا۔ تاہم، پاکستانی حکومت نے کچھ مدت کے بعد اپنے آہنی ہاتھوں سے فسادات کے اس سلسلے کو کچل دیا، لیکن ہندستانی حکومت اس میدان میں ناکام رہی۔ حال یہ ہےکہ ان مسلم کُش فسادات کا سلسلہ آج تک جاری ہے اور ان فسادات نے پوری دُنیا میں ہندستان کی ذلّت و رُسوائی کا سامان کیا ہے۔ یہ فسادات اس مدت میں ہزارہا ہوئے، لیکن حکومت کے پیش کردہ اعداد و شمار کےمطابق جو اصل سے ہمیشہ کم ہوتے ہیں ___ اِن فسادات کا اوسط بعض برسوں میں دن میں ایک یا ایک سے زائد فساد کا تھا۔ اِن فسادات سے عظیم ترین مالی و جانی نقصانات ہوئے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انسانیت، اخلاق، مذہب اور باہمی اعتماد، ہرچیز کا خون ہوا اور ملک دُنیا میں ذلیل و رُسوا ہوا۔
فسادات میں ذمہ داری کا تعین کرنے کے لیے تحقیقاتی کمیشنوں کی رپورٹوں، مختلف سیاسی پارٹیوں کے بیانات اور خود برسرِاقتدار پارٹی کے لیڈروں کی تصریحات سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں رہی کہ اِن ’مسلم کُش‘ فسادات میں انتظامیہ، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کردار عموماً جانب دارانہ رہا۔ انھوں نے بساواوقات فسادیوں کی سرپرستی کی بلکہ قتل و غارت گری میں خود بھی حصہ لیا۔ لیکن فساد کے ذمہ داروں کا تعین ہونے کے بعد مرکزی اور ریاستی حکومتوں نے فسادیوں کو کیفرکردار تک نہیں پہنچایا، نہ مجرم حکام اور پولیس افسران کو سزائیں دیں۔ [کانگریسی] حکومت کے ذمہ داران ان فسادات کے لیے مسلسل آر ایس ایس (RSS)کو ذمہ دار تو ٹھیراتے رہے، مگر اُنھوں نے اُس کے شرسے مسلمانوں کو محفوظ رکھنے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا، بلکہ مختلف اوقات میں آرایس ایس سے خود اُس کی سازباز رہی۔ یہی نہیں، بسااوقات بے جاطور پر، خود تباہ و برباد ہونے والے مسلمانوں کو اِن فسادات کا ذمہ دار ٹھیرایا گیا۔ فساد کے مارے ہوئے مظلوم مسلمانوں کو ’پاکستانی ایجنٹ‘ کہا گیا اور باربار حکومت کے ایوانوں اور اس کے ہم نوا پریس سے اعلان ہوا کہ ’’اِن فسادات کے پیچھے پاکستانی ہاتھ ہے‘‘۔
جماعت اسلامی اوّل روزسے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی داعی رہی ہے۔ اس کا پیغام سب انسانوں کے لیے ہے۔ وہ حقوق و مفادات کی انسانیت کش جنگ اور ہندو مسلم کش مکش کو غلط سمجھتی ہے اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں تمام اہلِ ملک کی فلاح و بہبود کے لیے کوشاں ہے۔ جماعت نے ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ واریت کی لہر کو روکنے کے لیے اپنی سی کوشش کی، مگر افرادِکار اور وسائل کی قلّت کے باعث یہ طوفان روکنے میں ناکام رہی۔ البتہ جماعت اسلامی ایک کام پوری تندہی اور کامیابی سے کرتی رہی اور وہ ہے فسادات میں تباہ ہونے والے افراد کی،بلاامتیاز مذہب و ملّت امداد اور اُسے اس معاملے میں ملک و ملّت کا اعتماد حاصل رہا۔ لیکن جماعت اسلامی کی امدادی اور رفاہی کوششیں اور مظلومین کے لیے اس کی صدائے احتجاج، اربابِ اقتدار کو پسند نہ آئی۔ حکومت کے ذمہ داروں اور اُس کے ہم نوا پریس نے فرقہ واریت اور فرقہ وارانہ فسادات کے لیے آر ایس ایس کے ساتھ جماعت اسلامی کو بھی بلاجواز اور بے وجہ متہم کیا۔ یہ سلسلہ مزید آگے بڑھا اور کانگریسی پریس اور کانگریس کے ہم نوا کچھ ہندو اور مسلمان رہنمائوں اور کمیونسٹوں کی جانب سے آر ایس ایس اور جماعت اسلامی دونوں پر پابندی کا مطالبہ کیا جانے لگا۔
انھی دنوں دائیں بازو کی پارٹیوں کے اشتراک و تعاون سے جے پرکاش نارائن [م:۱۹۷۹ء]کی تحریک [مکمل انقلاب] چلی۔ بگڑتے ہوئے حالات سے خائف ہوکر وزیراعظم اندرا گاندھی [م: ۱۹۸۴ء]نے ۲۵ جون ۱۹۷۵ء کی شب میں ایمرجنسی نافذ کردی۔ چند روز کے بعد دوسری جماعتوں کے ساتھ جو تحریک میں شریک تھیں، جماعت اسلامی ہند پر بھی، جس کا اِس تحریک سے کوئی تعلق نہ تھا، پابندی لگا دی گئی۔ پورے ملک سے جماعت کے ذمہ داران اور وابستگان کو بڑے پیمانے پر گرفتار کرلیا گیا، اور جماعت کے دفاتر، بیت المال اور املاک کو سیل اور مکتبوں اور اخبارات و رسائل کو بند کردیا گیا۔
ایمرجنسی کے نفاذ اور جماعتوں پر پابندی کے جواز کو ثابت کرنے کے لیے مسز اندراگاندھی نے کئی سو صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ پیش کی۔ اس میں آر ایس ایس کے ذمہ داروں کی کتابوں اور بیانات کے بہت سے اقتباسات اُس کے خلاف الزماات کے ثبوت میں پیش کیے گئے تھے، مگر جماعت اسلامی کے خلاف اس میں کوئی مواد نہ تھا۔ اسی ایمرجنسی کے دوران وزیراعظم ہند کے خصوصی نمایندے محمد یونس خاں نے عرب ممالک کا دورہ کیا۔ اُن سے ہرجگہ جماعت کے بارے میں سوالات ہوئے، جن کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے اعتراف کیا کہ ’’حکومت کو جماعت سے کوئی شکایت نہیں ہے، محض توازن قائم کرنے کے لیے ہندو جماعتوں کے ساتھ جماعت اسلامی پر بھی پابندی لگادی گئی ہے‘‘۔
جماعت اسلامی پر اس بے وجہ پابندی، اس کے املاک کی ضبطی اور اس سے وابستہ افراد کی مظلومانہ گرفتاریوں کے باعث نہ صرف ہندستان ، نہ صرف عالمِ اسلام بلکہ دُنیا بھر کے مسلمانوں کی ہمدردیاں جماعت کو حاصل ہوئیں۔ جماعت پر پابندی لگنے کے، چند ہفتوں کے اندر وزیراعظم کے آفس میں پوری دُنیا سے مسلمان ذمہ داروں کے ٹیلی گراموں کا انبار لگ گیا، جن میں جماعت پر سے پابندی ہٹانے اور اس کے وابستگان کو رہا کرنے کامطالبہ تھا۔ عربی اخبارات و رسائل میں خصوصیت سے جماعت کے سلسلے میں مقالات و بیانات شائع ہوئے۔ خود ملک کے بہت سے انصاف پسند غیرمسلموں کی ہمدردیاں جماعت کے ساتھ تھیں۔
جماعت اسلامی کی اس بے بسی اور زبان بندی کو ہندستان کے بعض علماے کرام نے جماعت کی بیخ کنی کا سنہری موقع جانا۔ چنانچہ جیل ہی میں [مجھے] شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی صاحب [۱۸۹۸ء-۱۹۸۲ء]کی تصنیف فتنہ مودودیت پڑھنے کو ملی، جسے پڑھ کر دُکھ ہوا۔ اس لیے نہیں کہ اِس سے جماعت کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا، بلکہ اس لیے کہ اِس سے محترم شیخ الحدیث کی شخصیت بُری طرح مجروح ہوئی تھی۔ یہ کتاب مولانا مودودی ؒ کی عبارتوں میں کتربیونت، کانٹ چھانٹ، ان پر بے بنیاد الزامات اور سوء فہم کا عجیب و غریب مرقع تھی۔ پھر جس موقع کو انھوں نے جماعت پر حملے کےلیے چُنا تھا، اس سے شرافت و اخلاق کا خون ہوا تھا۔ کوئی شریف آدمی کسی مجبور و مظلوم شخص پر ہاتھ نہیں ڈالتا۔ یہی وجہ ہے کہ اُس زمانے میں جب زبانیں جماعت اسلامی کی حمایت میں گنگ تھیں، مولانا سعید احمد اکبرآبادیؒ [م: ۱۹۸۵ء]سابق صدر شعبۂ دینیات مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ، رکن مجلس شوریٰ دارالعلوم دیوبند اور مدیر ماہنامہ بُرہان ،دہلی نے اپنے ماہنامے میں اِس پر شدید تنقید کی اور اِسے شرافت و اخلاق سے ٹکراتی ہوئی حرکت قرار دیا۔
بھارتی وزیراعظم مسز اندرا گاندھی کی مسلط کردہ ایمرجنسی اورجماعت پر پابندی کا دور چل رہا تھا کہ ہمیں جیل ہی میں یہ اطلاعات ملنے لگیں کہ ’’محترم مولانا سیّدابوالحسن علی ندوی، جماعت اسلامی کے لٹریچر کے وسیع وعمیق مطالعے میں مصروف ہیں اور جماعت کے سلسلے میں کوئی کتاب لکھنا چاہتے ہیں‘‘۔ اس سوال سے قطع نظر کہ مولانا علی میاں کو اِس وقت اس کی کیا ضرورت پیش آئی، توقع ہوئی کہ مولانا لٹریچر کے وسیع و عمیق مطالعے کے بعد کوئی علمی و تحقیقی کتاب لکھیں گے، جس میں جماعت کے مالہ و ماعلیہ پر کتاب وسنت کی روشنی میں مدلل و مفصل بحث ہوگی۔ لیکن ایمرجنسی کے بعد مولانا علی میاں کی کتاب عصرحاضر میں دین کی تفہیم و تشریح نظر سے گزری تو حیرت و مایوسی کی کوئی انتہا نہ رہی۔
مولانا علی میاں نے اِس کتاب کے آغاز ہی میں باور کرایا ہے کہ ’’کتاب خیرخواہی کے جذبے کے تحت لکھی گئی ہے‘‘ مگر اِس سوال سے قطع نظر کہ کیا اِس دور میں جماعت کی خیرخواہی یہی تھی؟ ہمیں کتاب میں خیرخواہی کا سراغ نہیں ملا، البتہ ذہن میں ایک سوال ضرور اُبھر آیا، اور وہ یہ کہ مولانا مودودیؒ سے، اُن کے پاکستان میں ہونے کے باعث، مولانا کے ربط کے زیادہ مواقع نہ تھے، مگر جماعت اسلامی ہند کے چوٹی کے ذمہ داروں سے تو مولانا علی میاں کے قریبی تعلقات تھے اور مولانا ازراہِ کرم خود بھی مرکز جماعت میں تشریف لاتے رہتے تھے۔ تاہم، مولانا نے اپنی زبان سے کبھی اپنی ’خیرخواہی‘ کا حق ادا نہیں فرمایا۔ہوسکتا تھا کہ جناب علی میاں کی تفہیم و تلقین کے نتیجے میں ہند میں جماعت کے حضرات اپنی ’غلط فکری‘سے باز آجاتے، ورنہ اُن پر اتمامِ حجت تو ہو ہی جاتا اور یہ بھی ممکن تھا کہ خود مولاناعلی میاں کی غلط فہمی دُور ہوجاتی۔
مذکورہ بالا کتاب سے جماعت کے لٹریچر کے وسیع و عمیق مطالعے کا اندازہ بھی نہیں ہوتا۔ کتاب میں دستورِ جماعت، خطبات، تفہیمات اورقرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں کے حوالے ہیں، مگر افسوس، مولانا علی میاں نے اِن کتابوں کا بھی نہ عمیق مطالعہ کیا اور نہ بالاستیعاب۔ اگرمولانا دستورجماعت میں لا الٰہ الا اللہ کی تشریح کا مطالعہ فرما لیتے تو ’اللہ کی حاکمیت‘ پر ضرورت سے زیادہ زور دینے کا، اُن کا اعتراض ختم ہو جاتا، اور ’نصب العین‘ کی تشریح میں ’اقامت ِ دین‘ کا جامع و وسیع مفہوم ملاحظہ فرما لیتے تو جماعت کی طرف اقامت ِ دین کا محدود سیاسی مفہوم منسوب نہ فرماتے، اور خطبات کو بالاستیعاب پڑھ لیتے تو انھیں معلوم ہوجاتا کہ مولانا مودودیؒ عبادات کو دین میں اُس سے بہت زیادہ بلند مقام کا حامل سمجھتے ہیں، جتنا عام علماے کرام قرار دیتے ہیں، اور قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں ازاوّل تا آخر اُن کے مطالعے میں آجاتی تو اِس کتاب کے لکھنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔
اپنی کتاب میں مولانا علی میاں کی تنقید کا اصل ہدف قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں ہے۔ مولانا مودودیؒ نے اِس کتاب میں ’الٰہ، ربّ، عبادت اور دین‘ پر لغوی بحث کرکے پہلے اُن کا لغوی مفہوم واضح کیا ہے، پھر سیکڑوں قرآنی آیات ترجمے کے ساتھ پیش کرکے اُن کا اصطلاحی مفہوم متعین کرنے کی کوشش کی ہے۔ مولانا علی میاں نے مولانا مودودی پر یہ کریہہ الزام لگایا ہے کہ ’’انھوں نے اِن اصطلاحات کے مفہوم میں تحریف کرکے باطل فرقوں کی طرح دین کو بدل ڈالنے کی دانستہ یا نادانستہ کوشش کی ہے‘‘۔ پھر مولانا [علی میاں] کا دعویٰ یہ بھی ہے کہ ان کی یہ کتاب ایک ’علمی و اصولی تبصرہ و جائزہ‘ ہے۔
مولانا مودودیؒ کی اِس علمی و تحقیقی کتاب کے ’علمی و اصولی جائزے‘ کی واحد شکل یہ تھی کہ مولانا [علی میاں] واضح فرماتے کہ مولانا مودودی نے اِن چار الفاظ کے سلسلے میں جو لغوی بحثیں کی ہیں، ان میں یہ اور یہ غلطیاں ہیں۔ پھر قرآنی آیات کا انھوں نے جو ترجمہ کیا ہے اور ان سے جو استدلال کیا ہے، وہ اِس، اِس طرح غلط ہے۔ یوں محترم مولانا [علی میاں] تفاسیر اور اقوالِ علماے سلف سے اپنی بات کو مدلل بیان فرماتے ہوئے بتاتے کہ ان اصطلاحات کا اصل مفہوم یہ ہے، اور مولانا مودودی نے کس طرح علماے سلف کی مسلّمہ تعریفات سے انحراف کیا ہے۔ مگر صدافسوس کہ کتاب اِس علمی و تحقیقی بحث سے بالکل خالی ہے۔
قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیںکا مطالعہ کرکے میں نے محسوس کیا تھا کہ یہ تو وہی فکر ہے، جو ہمیں اسلاف، خصوصاً اکابر علماے دیوبند و ندوہ سے ملا ہے۔ یہ میرا طالب علمی کا دور تھا۔ اس کے بعد سالہا سال قرآنِ مجید پر غوروفکر، تفاسیر اور احادیثِ نبویؐ کے مختلف مجموعوں کے مطالعے، علماے سلف کی تصانیف کو پڑھنے پڑھانے اور قرآنِ مجید کی تفسیر، احادیث کی تشریح اور مختلف اسلامی موضوعات پر تصنیف و تالیف کے مسلسل مواقع ملتے رہے، مگر کبھی یہ احساس تک نہ ہوا کہ مولانا مودودیؒ نے اِس کتاب میں ’’قرآنی اصطلاحات کا مفہوم بدل کر دین میں تحریف کی ہے‘‘۔
میں نے الحمدللہ، کتاب و سنت کی دلیل کے بغیر کبھی کسی کی بات تسلیم نہیں کی ہے۔ اللہ نے مجھے شخصیتوں کی غالی عقیدت سے بھی محفوظ رکھا ہے۔ اگر مولانا علی میاں کتاب و سنت کے دلائل سے ثابت کر دیتے کہ مولانا مودودیؒ کا بنیادی فکر غلط ہے تو میں اِس ’گمراہی‘ سے بچ نکلتا مگر مولانا کی کتاب تو دلائل سے خالی نکلی۔عصرِحاضر کے عظیم قرآنی محقق مولانا حمیدالدین فراہیؒ [۱۸۶۳ء-۱۹۳۰ء] کے نزدیک ’اللہ کی حاکمیت‘ کو صفاتِ الٰہی میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اس سلسلے میں ان کی ایک مختصر اصولی کتاب فِی مَلَکُوْتِ ا للّٰہِ ہے۔
تاہم، کچھ عرصے کے بعد دل میں کھٹک پیدا ہوئی، کہیں میرا مطالعہ تو غلط نہیں ہے۔ کہیں میں نے اسلاف اور خود اپنے اکابر کے علم و فکر کو سمجھنے میں غلطی تو نہیں کی ہے۔ کہیں میرے حافظے نے مجھے دھوکا تو نہیں دیا ہے۔ پھر وقفے وقفے سے یہ کھٹک پیدا ہوتی رہی۔ آخرکار میں نے اِس کھٹک کے آگے ہتھیار ڈال دیئے اور عربی لغات، اہم تفاسیر اور اکابر اہلِ علم کی کتابوں کا مطالعہ شروع کر دیا۔
پیش نظر تازہ اوروسیع مطالعہ کرکے قلب و دماغ کو مطمئن و یکسو کرنا تھا۔ پھر دعوتی و تحریکی مشغولیات سے بہت کم فرصت مل پاتی تھی۔ میری اپنی لائبریری بہت مختصر تھی۔ اِن وجوہ سے میرا مطالعہ انتہائی سُست رفتاری سے آگے بڑھتا رہا۔ اس مطالعے کے دوران وقت کے گزرنے کے ساتھ مطالعے کا شوق بڑھتا گیا۔ غوروفکر کا زیادہ موقع ملتا گیا اور بہت ہی اہم کتابیں یکے بعد دیگرے ملتی گئیں۔ یہ مطالعہ الٰہ، ربّ اور عبادت تک محدود تھا۔
میں جذبۂ شکروسپاس اور عجز و نیازمندی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور سر بہ سجود ہوں کہ اس نے مجھ سے اپنے دین کی کچھ خدمات لی ہیں: رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ