اہلِ دل مدینہ منورہ کو اپنی تمنائوں اور آرزوئوں کا مرجع بنائے رکھنے ہی کو ایمان کی سلامتی کی علامت خیال کرتے ہیں۔ تمام اہلِ ایمان مدینۃ الرسولؐ کی خاک میں دفن ہونے کی آرزو کی تکمیل کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا مورد سمجھتے ہیں۔ اب دنیا بھر کے مسلمان مدینۃ الرسولؐ کی زیارت کے تمنائی ہیں۔ سورۃالاحزاب میں خود اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے: اِنَّ اللّٰہَ وَ مَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ ط یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا صَلُّوْاعَلَیْہِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا o (احزاب۳۳:۵۶) ’’اللہ اور اس کے ملائکہ نبیؐ پر درود بھیجتے ہیں۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو‘‘۔
دنیا کے تمام حاجی، حج سے پہلے یا بعد مسجد نبویؐ تشریف لے جاتے ہیں۔ ان حجاج کرام میں سے بعض نے اپنے اپنے تاثرات بھی قلم بند کیے ہیں۔ ذیل میں چند تاثرات نقل کیے جاتے ہیں:
۲۷ جولائی کو عصر کے بعد ہم لوگ مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہوئے، اور اگلے روز تقریباً مغرب کے وقت وہاں پہنچے… جدّے سے مدینہ طیبہ تک کا راستہ وہ ہے جس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں بہ کثرت غزوات اور سرایا ہوئے۔ آدمی کا جی چاہتا ہے کہ غزوات کے مقامات دیکھے، اور ضرور اس راستے میں وہ سب مقامات ہوں گے، لیکن ہم کسی جگہ بھی ان کی کوئی علامت نہ پاسکے۔ اسی افسوس ناک صورتِ حال کا مشاہدہ مدینہ طیبہ میں بھی ہوا۔ کاش! سعودی حکومت اس معاملے میں اعتدال کی روش اختیار کرے، نہ شرک ہونے دے اور نہ تاریخی آثار کو نذرِ تغافل ہونے دے۔
حج سے فارغ ہوتے ہی مدینہ جانے کے لیے دل میں ایک بے چینی پیدا ہوچکی تھی۔ روانہ ہونے سے مدینہ پہنچنے تک جذبات کا عجیب حال رہا، اور خصوصاً جس مقام سے گنبد ِ خضرا نظر آنا شروع ہوجاتا ہے، وہاں تو جذبات کا وفور اختیار سے باہر ہوجاتا ہے… مدینہ طیبہ کے سفر میں ۲۴گھنٹے سے بھی زیادہ گزر گئے تھے، اور راستے میں غذا اور نیند سے بھی زیادہ تر محرومی ہی رہی تھی۔ دوسرے روز حاضری دی، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور شیخین کے مزارات کی زیارت کی۔
یہاں کی کیفیات نمایاں طور پر مسجد حرام کی کیفیات سے مختلف ہوتی ہیں۔ مسجد حرام میں محبت پر عظمت و ہیبت کے احساس کا شدید غلبہ رہتا ہے۔ اس کے ساتھ آدمی پر کچھ وہ کیفیات سی طاری ہوتی ہیں، جو کسی بھیک مانگنے والے فقیر کی حالت سے ملتی جلتی ہیں۔ لیکن حرمِ نبویؐ میں پہنچ کر تمام دوسرے احساسات پر محبت کا احساس غالب آجاتا ہے، اور یہ وہ محبت ہے جس کو آںحضورؐ نے خود ہی جزوِ ایمان فرمایا ہے۔(حج بیت اللّٰہ اور سفرِعرب، ص ۶۴-۶۷)
آج کی صبح کتنی مبارک صبح ہے۔ آج کے دن زندگی کا سب سے بڑا ارمان پورا ہونے کو ہے۔ آج ذرہ آفتاب بن رہا ہے۔ آج بھاگا ہوا غلام اپنے آقا و مولا کے دربار میں حاضر ہو رہا ہے۔ آج گنہگار اُمتی کو شفیع و شفیق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے آستانے پر سلام کی عزت حاصل ہورہی ہے.... ایک سرگشتہ و دیوانہ، عقل سے دُور، علم سے بیگانہ، نہ گریاں نہ شاداں، نہ اپنی حضوری کی خوش بختی پر خوش اور نہ تباہ کاریوں کی یاد پر مغموم، محض اس اُلجھن میں گرفتار کہ یاالٰہی! یہ خواب ہے یا بیداری! کہاں یہ ارضِ پاک اور کہاں یہ بے مایہ مشت ِخاک! کہاں مدینہ کی سرزمین اور کہاں اس ننگِ خلائق کی جبیں! کہاں سیّدالانبیاؐ کا آستانہ اور کہاں اس روسیاہ کا سروشانہ۔ وہ پاک سرزمین کہ اگر اس پر قدوسیوں کو بھی چلنا نصیب ہو تو ان کے فخروشان کا نصیبا جاگ اُٹھے اور کہاں ایک آوارہ و ناکارہ، بے تکلف اسے پامال کرنے کی جرأت کربیٹھے…(سفرِحجاز، ص ۷۸-۸۰)
مدینہ طیبہ کی حاضری کے سلسلے میں [یہ خیال رہے کہ] راستے ہی سے خوب ذوق و شوق سے حضوؐر پر صلوٰۃ و سلام پڑھیے۔
مسجد شریف میں داخل ہوکر سب سے پہلے اس حصے میں پہنچیں جس کو روضۃ الجنۃ اور ’جنت کی کیاری‘ کہتے ہیں۔ پہلے وہاں دو رکعت تحیۃ المسجد پڑھیں۔ اس کے بعد حضور سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے مواجہہ شریف میں آئیں اور آسان سلام عرض کریں جس کو آپ خود سمجھتے ہوں:
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ، اے اللہ کے رسولؐ! آپؐ پر سلام۔
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَاحَبِیْبَ اللّٰہِ ، اے اللہ کے حبیبؐ! آپؐ پر سلام۔
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَاشَفِیْعَ الْمُذْنِبِیْنَ ، اے گناہگاروں کی شفاعت فرمانے والے! آپؐ پر سلام۔
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَاخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ ، اے خاتم النبیینؐ! آپؐ پر سلام۔
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ وَعَلٰی آلِکَ وَاَصْحَابِکَ اَجْمَعِیْنَ ، سلام آپؐ پر اور آپؐ کی تمام آل اور اصحاب پر۔
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ ، سلام ہو آپ پر اے اللہ کے نبیؐ اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں۔
اس کے بعد حضوؐر سے اپنے لیے اور اپنے والدین کے لیے دعا اور شفاعت کی درخواست کیجیے اور جن لوگوں کے آپ پر خاص احسانات ہوں یا جنھوں نے آپ سے کہہ دیا ہو اور آپ نے ان سے وعدہ کرلیا ہو ان کے لیے بھی دعا اور شفاعت کی درخواست کیجیے۔
مدینۂ رسولؐ کی راہ میں درود کے شغل سے بہتر کوئی شغل نہیں۔
اِنَّ اللّٰہَ وَ مَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ ط یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا صَلُّوْاعَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا o (الاحزاب ۳۳:۵۶) اللہ اور اس کے ملائکہ نبیؐ پر درود بھیجتے ہیں۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو۔
مَنْ صَلَّی عَلَیَّ وَاحِدَۃً صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ عَشْرًا (مسلم)
جس نے مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجا، اللہ تعالیٰ اس پر دس مرتبہ درود بھیجتا ہے۔
اس راستے کو درود و سلام کے ورد ہی میں ختم کرنا چاہیے۔ حب ِ نبویؐ کا تقاضا یہی ہے۔ جب مدینہ منورہ کی دیواروں پر نظر پڑتی ہے تو عاشق کے ذہن میں خیال آتا ہے کہ یہ وہ مقامِ مقدس ہے جہاں آپؐ نے حق تعالیٰ کے فرائض و سنن مشروع فرمائے، اعداے دین سے جہاد کیا اور حق تعالیٰ کے دین کو ظاہر کیا۔
پھر زیارت کی نیت سے نہایت ادب و خشوع کے ساتھ روضۂ پاک کے سامنے حاضر ہوتا ہے، اس کا عقیدہ ہے کہ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے آنے، کھڑے ہونے اور زیارت کرنے کا علم ہوتا ہے اور اس کا درود و سلام آپؐ کی خدمت مبارک میں پہنچتا ہے۔
[ایک مرتبہ درود پڑھنے کی جزا اللہ کی طرف سے دس مرتبہ درود بھیجنے کی] جزا تو صرف زبان سے درود پڑھنے کی ہے، جب وہ خود زیارت کے لیے تمام بدن سے حاضر ہوا ہے تو اس کا بدلہ کس قدر عظیم الشان ہوگا۔
اب وہ اپنے آقاے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سلام عرض کرتا ہے:
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ السَّیِّدُ الْکَرِیْمُ وَالرَّسُوْلُ الْعَظِیْمُ وَالْحَبِیْبُ الرَ ؤُفُ الرَّحِیْمُ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ ، الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَامُحَمَّدُ بْنُ عَبْدَاللّٰہِ بْنِ عَبْدِالْمُطَّلِبِ ابْنِ ہَاشِمٍ یَاطٰہٰ یٰسِیْنُ یَابَشِیْرُ یَاسِرَاجُ یَامُبِیْنُ یَامُقَدِّمَ جَیْشِ الْاَنْبِیَائِ وَالْمُرْسَلِیْنَ
درود و سلام ہو آپؐ پر اے نبی کریمؐ، رسولِ عظیمؐ، حبیب ِؐ خدا، اے رحیم و مہربان، اللہ کی رحمتیں اور برکتیں ہوں آپؐ پر، درود و سلام ہو آپؐ پر، اے محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب ابن ہاشم، اے طٰہٰ و یٰسین، اے بشر، اے سراجِ مبین، اے نبیوں ؑ اور پیغمبروں ؑ کے لشکر کے سردار!(ماہ نامہ الفرقان، لکھنؤ، جلد۱۸، شمارہ ۹-۱۰)
بارگاہِ اقدس میں قصد ہے اور کہاں حاضری کا قصد ہے؟ وہاں کا جہاں کی تمنا اور آرزو نے بزمِ تصور کو سدا آباد رکھا ہے۔ خوشی کی کوئی انتہا نہیں۔ جسم کے روئیں روئیں سے مسرت کی خوشبو سی نکل رہی ہے۔ خوشی کے ساتھ ساتھ دل پر ایک دوسرا عالم بھی طاری ہے۔ یہ چہرہ جس پر گناہوں کی سیاہی پھری ہوئی ہے کیا حضور نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مواجہ شریف میں لے جانے کے قابل ہے۔ اے آلودئہ گناہ! اے غفلت شعار! ان کے حضور جارہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بعد پاکی، تقدیس، عصمت اور عظمت بس اُنھی کو سزاوار ہے۔ کس منہ سے روضۂ اقدس کے سامنے السلام علیک یارسول اللّٰہ کہے گا۔ اس زبان نے [یہاں آنے سے پہلے اپنے ملک میں]کیسی کیسی فحش باتیں بکی ہیں۔ ان لبوں کو کتنی بُری بُری باتوں کے لیے جنبش ہوئی ہے۔ ان آنکھوں نے کیسی کیسی قانون شکنیاں کی ہیں۔ اے نافرمان غلام! اپنے آقا کے دربار میں جانے کی جرأت کس برتے پر کر رہا ہے۔ اُن کی اطاعت سے کس کس طرح سے گریز کیا ہے۔ اُن کے حکم کو کس کس عنوان سے توڑا ہے۔ ان کے اُسوئہ حسنہ سے تیری زندگی کو کوئی دُور کی بھی نسبت نہیں رہی ہے۔
اے رُوسیاہ! تیرے بُرے اعمال حضوؐر کی روحِ مقدس کو اذیت ہی پہنچاتے رہے ہیں۔ یہ تو پاکوں اور نیکوں کی سرزمین ہے۔ یہاں تجھ جیسے گندے آدمی کا کیا کام؟ مگر شرم و ندامت کے اس احساس کے ساتھ معاً یہ خیال بھی آیا کہ میرے آقا رحمۃ للعالمینؐ اور شفیع المذنبین بھی تو ہیں۔ گناہ گاروں اور سیاہ کاروں کی جاے پناہ اور ہے کہاں؟ ان سے شفاعت نہ چاہیں تو اور کس سے چاہیں؟
اسی عالمِ خیال و تصور میں ’باب السلام‘ سے داخل ہوئے اور مسجد نبویؐ میں جاپہنچے۔ [جس کی] ایک ایک چیز آنکھوں میں کھُبی جارہی ہے اور اس ظاہری چمک دمک سے بڑھ کر جمال و رحمت کی فراوانی جیسے مسجد نبویؐ کے دَرودیوار سے رحمت کی خنک شعاعیں نکل رہی ہیں!
تجلیوں کا وہ ہجوم کہ آنکھیں جلوے سمیٹتے سمیٹتے تھکی جارہی ہیں۔ یہاں کے انوار کا کیا پوچھنا.... روشنی ہی روشنی اور نور ہی نور، مگر لطف یہ کہ آنکھیں خیرہ نہیں ہوتیں۔ یہ آنکھوں کا نہیں خود یہاں کی تجلیوں کا کمال ہے۔ صوفیا کا قول ہے کہ ’’تجلّی میں تکرار نہیں‘‘ مگر اس مسئلے پر غور کرنے کی یہاں فرصت کسے ہے!
جب ہم مسجد نبویؐ میں حاضر ہوئے ہیں تو ظہر کی نماز تیار تھی۔ کہاں مسجد نبویؐ اور سجدہ گاہ مصطفوی میں! پیشانی کی اس سے بڑھ کر معراج اور کیا ہوگی!
نماز کے بعد اب روضۂ اقدس کی طرف چلے۔ حاضری کی بے اندازہ مسرت کے ساتھ اپنی تہی دامنی اور بے مایگی کا احساس بھی ہے۔ یہی سبب ہے کہ درود کے لیے آواز بلند ہوتے ہوتے بھنچ بھی جاتی ہے۔ قدم کبھی تیز اُٹھتے ہیں اور کبھی آہستہ ہوجاتے ہیں۔ مواجہ شریف حاضر ہونے سے پہلے قمیص کے گریبان کے بٹن ٹھیک کیے، ٹوپی کو سنبھالا اور پھر ؎
وہ سامنے ہیں، نظامِ حواس برہم ہے
نہ آرزو میں سکت ہے نہ عشق میں دم ہے
زائرین بلند آواز سے درود و سلام عرض کر رہے ہیں اور کتنے تو جالی مبارک کے بالکل قریب جاپہنچے ہیں مگر اس کمینہ غلام کے شوق بے پناہ کی یہ مجال کہاں؟ چند گز دور ہی ستون کے قریب کھڑا ہوگیا۔ ہاتھ باندھے ہوئے مگر نماز کی ہیئت سے مختلف! آہستہ آہستہ صلوٰۃ و سلام عرض کر رہا ہوں کہ حضوؐر کی محفل کے آداب کا یہی تقاضا ہے ، اور یہ آداب خود قرآن نے سکھائے ہیں۔
الصلٰوۃ والسلام علیک یارسول اللّٰہ ، الصلٰوۃ والسلام علیک یاحبیب اللّٰہ ، الصلٰوۃ والسلام علیک یاخیر خلق اللّٰہ ، الصلٰوۃ والسلام علیک یارحمۃ للعالمین
زبان سے یہ لفظ نکلے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے__!
صلوٰۃ و سلام عرض کر رہا ہوں مگر آواز گلوگیر ہوتی جارہی ہے اور الحمدللہ کہ آنکھیں برس رہی ہیں۔ ندامت، مسرت اور عقیدت کے ملے جلے آنسو! نگاہیں روضۂ مبارک کی جالیوں کو چوم رہی ہیں اور دل آنکھوں کو مبارک باد دے رہا ہے، زبانِ حال سے! آنکھوں کی اس سے بڑی خوش قسمتی اور کیا ہوسکتی ہے! (کاروانِ حجاز، ماہنامہ فاران، کراچی ۱۹۶۵ئ)
حرمین میں اللہ و محمدؐ کی دھاک بیٹھی ہوئی ہے، باقی سبھی کچھ عجزوالحاح ہے یا سوزوگداز۔ یہاں کوئی اکڑ نہیں، کوئی تمکنت نہیں، کوئی شاہی نہیں، کوئی دولت نہیں۔ یہاں وہی سب سے زیادہ اکڑ والا ہے جو سب سے زیادہ عاجز ہے، وہی باتمکین ہے جو سب سے زیادہ منکسر ہے۔ وہی شاہ ہے جو گدا ہے اور وہی دولت والا ہے جو اللہ کا بھکاری ہے۔ یہاں کسی دنیوی عزت کو ترجیح نہیں۔ یہاں ترجیح صرف عشق نبویؐ کو ہے۔ کسی کو کسی سے سروکار نہیں۔ سب کو ایک ہی چوکھٹ سے سروکار ہے۔ جو آتا ہے اسی کا ہوکر آتا ہے۔
بیت اللہ میں عقیدہ حاضرہوتا اور جبینیں جھکتی ہیں۔ حرمِ نبویؐ میں عشق لے جاتا اور دل جھکتے ہیں۔ دل میں اللہ و رسولؐ ہیں تو آزما لیجیے۔ یہاں حاضر ہونا بڑا مشکل ہے، نفس پہلا سوال یہ کرتا ہے کہ آستانۂ محمدؐ پر حاضرہونے والے، یہ بوتا کہاں سے آیا ہے، یہاں تو بڑے بڑے رہ جاتے ہیں، محمدؐ کے رُوبرو کھڑا ہونا آسان بات ہے؟ اس کی تاب جانثارانِ محمدؐ میں کہاں تھی۔
اب جو ساتھی آگے بڑھنے لگے تو میں رُک گیا۔ انھیں تو یہاں رہتے ہوئے کئی سال ہوگئے ہیں۔ سال بھر میں کئی کئی حاضریاں دیتے ہیں۔ میں کیا؟ میری بساط کیا؟ ایک مجموعۂ فسق، مجھ میں یہ بال و پَر کہاں سے آگئے کہ اُڑ کے یہاں چلا آیا؟ بہت ہمت کی۔ قدم اُٹھتے ہی نہیں۔ ایک سیاہ کار کا رسولؐ اللہ کے روضۂ اقدس پر حاضر ہونا__ بہت بڑی جسارت ہے!.... دل نے کہا: بڑھ! نالائقوں کے نالائق__ روسیاہ!جب تک اس دَر پر کھڑا نہ ہوگا یہ روسیاہی نہیں دُھلے گی، یہ داغ نہیں مٹیں گے پاگل! اُن سے مایوس ہوتا ہے جو مایوسیوں کو دُور کرنے آئے ہیں۔ لَا تَقْنَطُوْا کا مژدہ کون لایا؟ وہی تو لائے تھے۔ اب نفس نخرہ دکھا رہا ہے۔ یہ ظاہر کر رہا ہے کہ ندامت کا غلبہ ہے۔ ہمت جواب دے گئی ہے۔ نفس کی فریب کاری تابہ کے؟ چشمے پر تشنگی مٹانے پہنچا ہے اور اب لب خشک کیے کھڑا ہے۔ بڑھ آگے اور کھڑا ہو جا اُن کے سامنے جو ہر جہان کے لیے رحمت ہیں۔ ان کا خزانہ کھلا ہے۔ جھولی بھر، دونوں ہاتھوں سے بھر، صبح و شام بھر۔ یہاں سے ہرشخص کو خلعتِ فاخرہ ملتی ہے۔ کوئی روکنے اور ٹوکنے والا نہیں۔ یہ رحمۃ للعالمینؐ کا دربار ہے۔ یہاں سورج کالے گورے پر یکساں چمکتا ہے۔ ہوا گنہ گاروں کے لیے رُک نہیں جاتی۔ وہ سب کے لیے مشامِ جان ہے۔ خوشبو پھیلنے کے لیے ہے۔ چشمے کسی کے لیے اپنے سوتے نہیں موڑتے۔ وہ سب کے لیے رواں دواں ہیں۔ لوگ آتے اور تشنگیاں مٹا کر چلے جاتے ہیں۔ آبِ رواں نے کسی تشنہ لب سے کبھی اس کی ذات پات بھی نہیں پوچھی، ہمیشہ ظروف بھر دیے ہیں۔
آخر وہاں پہنچ گیا جہاں پہنچنے کے لیے آیا تھا__ روضۂ مبارک کے رُوبرو:
الصلٰوۃ والسلام علیک یارسول اللّٰہ ، الصلٰوۃ والسلام علیک یاحبیب اللّٰہ ، الصلٰوۃ والسلام علیک یانبی اللّٰہ
(شب جائے کہ من بودم،ص ۱۴۰-۱۴۲)