مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ (۱۹۰۳ئ- ۱۹۷۹ئ) اپنی مذہبی و فکری کاوشوں سے قبل، اپنے ذوق اور اپنی دل چسپیوں کا اظہار ادب اور تاریخ میں کرتے رہے ہیں۔انھوں نے بچپن ہی میں عربی زبان میں اتنی استعداد پیدا کرلی تھی کہ ۱۳سال کی عمر ہی میں شیخ عبدالعزیز شاویش (۱۸۷۶ئ-۱۹۲۹ئ)کی تصنیف الاسلام و الاصلاح کا اور ساتھ ہی قاسم امین بے (۱۸۶۳ئ- ۱۹۰۸ئ) کی کتاب المراۃ الجدیدہ کاترجمہ اردو میں کرسکیں۔ ۱؎ یہ تراجم اس وقت ان کے ذوق کے اولین مظاہر تھے۔اس ذوق کے ذیل میں ، کہ جب مطالعے کی ابھی ابتدا ہے، کسی ایک موضوع کا تعین نظر نہیں آتا، بلکہ دل چسپیوں کی طرح موضوعات بھی تنوع کے حامل رہے ہیں۔کہیں وہ ’برق یا کہربا‘ کی تصریح و وضاحت کررہے ہیں یا ’انگریزی لغت میں دوستی کے معنی‘ تلاش کررہے ہیں۔ایک جانب وہ ’حالات ِ زندگی آنریبل پنڈت مدن موہن مالویہ آ ف الٰہ آباد‘ لکھ رہے ہیں تو دوسری جانب ’مسٹر آصف علی بیرسٹر کی بے دردیاں، ٹیگور کے ساتھ‘ پر اظہار ِ خیال کررہے ہیں۔ ’قمار خانۂ مونٹی کارلو‘ بھی ان کے قلم کی توجہ سے دور نہ رہا۔خالص ادب اور اس کے قریبی موضوعات بھی ان کی توجہ میں رہے۔ قربان علی بیگ سالک (۱۸۲۴ئ-۱۸۸۰ئ) سے خاندانی قرابت نے ان کی شاعری پر تین چار مضامین ان سے اسی زمانے میں لکھوالیے اور ’ حسن ِ ادا اور ادب‘ کے تعلق سے اسلوبیات بھی ان کے پیش ِ نظر رہے۔ ۲؎
اس طرح کے موضوعات کو اپنی دل چسپی میں شامل کرنے کے ساتھ ساتھ رسائل تاج اور مسلم ۳؎ اور پھر الجمعیۃ ۴؎ کے توسط سے صحافت سے وابستگی نے ان کے قلب و ذہن کو عصری مسائل اور حالات و حوادث ِ زمانہ سے بھی قریب کردیا تھا۔ نوجوانی کے زمانے میں ان کے مضامین: ’سمرنا میں یونانی مظالم‘، ـ’ترکی میں عیسائیوں کی حالت‘ اور ’مصطفی کمال پاشا‘ عالمِ اسلام کے حوادث اورقومی ادبار سے ان کی دل گرفتگی کی علامتیں ہیں۔ ۵؎ غالباً ترکی کی اسی ابتلا و افتاد کی مثال نے انھیں طویل مضمون ’ہندستان کا صنعتی ز وال اور اس کے اسباب پر تاریخی تبصرہ‘ لکھنے پر مجبور کیا۔ ۶؎اسی ضمن میں ان میںتاریخ اور تاریخ نویسی سے دل چسپی کا پیدا ہونا غیر متوقع نہ تھا۔ان کی یہ دل چسپی وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی رہی۔ان کی زیر ادارت شائع ہونے والے رسالوں: تاج، مسلم اور الجمعیۃ میں جو کچھ انھوں نے بحیثیت مدیر لکھا، ان کی تفصیلات معلوم و مرتب نہیں، لیکن خیال ہے کہ حالاتِ حاضرہ کے پس منظرمیں ملکی و عالمی، خصوصاً عالمِ اسلام کے حالات نے انھیں ضرور تاریخی تناظر اپنے پیش ِ نظر رکھنے پر مجبور رکھا ہوگا۔ تاریخ نویسی کے زمرے میں ان کی تصانیف شمار کی جائیں تو ، ان کی تفسیر تفہیم القرآن سے قطع نظر، کہ جس میں قبلِ اسلام کے واقعات کی تحقیق و جستجو میں اور ماضی کی اقوام کی تاریخ و تہذیب کے حوالوں میں اپنے مطالعۂ تاریخ سے انھوں نے بالعموم مدد لی ہے، اور اپنی معروف تصنیف الجہاد فی الاسلام میں تاریخ کے حوالے ان کا سہارا بنتے رہے ہیں۔ تاریخ نویسی میں ان کی مستقل تصانیف : دولتِ آصفیہ اور حکومتِ برطانیہ: سیاسی تعلقات کی تاریخ پر ایک نظر (۱۹۲۸ئ)، سلاجقہ، حصّۂ اول (۱۹۲۹ئ)، تجدید و احیاے دین (۱۹۴۰ئ)، دکن کی سیاسی تاریخ ( ۱۹۴۴ئ)، اور خلافت و ملوکیت (۱۹۶۵ئ) معروف ہیں۔
تاریخ نویسی میں دکن کی تاریخ سے ان کی دل چسپی کئی اسباب کے تحت دیکھی جاسکتی ہے۔اس ضمن میں تصنیف و تالیف کے ابتدائی دور میں انھوں نے یا تو محض عصری تقاضوں کے تحت ترکی کوموضوع بنایا یا دکن اور مملکت ِ آصفیہ حیدرآباد ان کا موضوع بنے۔خلیفۃ المسلمین کی سرزمین ترکی اس وقت ابتلا کا شکار تھی اور اس سے ایک نسبت خاندانی بھی تھی کہ ان کی ننھیال کا تعلق ترکی سے تھا اور اجداد سلسلۂ چشت سے وابستہ تھے اور ہرات (ترکستان)ان کا وطنِ مالوف تھا۔ ۷؎ مملکت ِ آصفیہ حیدر آباد سے ان کا تعلق جذباتی بھی ہوسکتاتھاکہ اس کا ایک علاقۂ محروسہ اورنگ آباد ان کی جاے پیدایش تھا ،جہاں انھوں نے اپنے بچپن کا ایک یادگار وقت گزارا تھا۔اس کی یادیں تاعمر ان کے ساتھ رہیں۔لیکن ان کے قلم کی کاوشوں کے تنوع کو دیکھ کر یہ خاندانی اور جذباتی وابستگیاں محض حسنِ اتفاق بھی ہوسکتی ہیں۔
دکن یا مملکت ِ آصفیہ کی تاریخ نویسی کے ضمن میں ان کی اولین مستقل کاوش، دستیاب معلومات کے مطابق: دولتِ آصفیہ اور حکومتِ برطانیہ: سیاسی تعلقات کی تاریخ پر ایک نظر ۸؎ تھی۔اس کو موضوع بنائے جانے کی صراحت انھوں نے اپنے پیش لفظ میں بیان کردی ہے۔ ان کے لیے یہ حیران کُن تھا کہ ایک ایسی مستحکم مملکت جو ’ پوری برٹش انڈین امپائر کا مرکز ِ ثقل‘ ہو،جسے اپنی ایک کروڑ ۳۰ لاکھ رعایا پر کامل حاکمیت حاصل ہو،جس کا رقبہ یورپ کی عظیم الشان سلطنتوں کے مساوی ہو،اس نے کیوں کر برطانوی سرپرستی کو قبول کرلیا؟اور اپنی خارجی آزادی اوراپنے فوجی استقلال کو اپنے مساوی بلکہ باج گزار حلیف کے سپرد کردیا؟اس حیرت کو رفع کرنے یا ایسے پیدا شدہ سوالات کے جواب تلاش کرنے کے لیے کہ ڈیڑھ صدی کے حلیفانہ روابط میں دونوں مملکتوں کے درمیان کس قسم کے تعلقات رہے ہیں؟اور دونوں نے ایک دوسرے سے دوستی کا حق کیسے ادا کیاہے؟۹؎ یہاں مصنف کا رویہ برطانوی حکومت کے لیے جارحانہ ہوگیاہے۔ان کے خیال میں دولت ِ آصفیہ نے دوستانہ وفاداری کو نباہنے کی کوشش کی ہے، جب کہ حکومت ِ برطانیہ نے اپنے ’یار ِ وفادار‘کو ہمیشہ مایوس کیاہے۔ ۱۰؎
یہ کتاب مولانا مودودی کے الجمعیۃ کے زمانۂ ادارت فروری ۱۹۲۵ء تا مئی ۱۹۲۸ء کے دوران لکھی گئی تھی، جب کہ انھوں نے اس کتاب کی تصنیف سے قبل متعدد مضامین حکومت ِ حیدرآباد اور نظام ِ دکن کی حمایت میں اس رسالے میں تحریر کیے تھے۔ ۱۱؎ ان مضامین میں اور اپنی اس کتاب میں مولانا مودودی نے حکومت ِ حیدرآباد اور نظام کا دفاع کرتے ہوئے ان کی حکمت عملیوں کی بڑی حد تک تائید و حمایت کی ہے لیکن حکومت ِ برطانیہ پرسخت تنقید کرتے ہوئے اسے حکومت ِ حیدرآباد کا مجرم قرار دیاہے۔حیدرآباد میںاس کتاب کے دوسرے ایڈیشن کے شائع ہونے کے بعد ، حکومت ِ حیدرآباد کی سیاسی مجبوریوں اور مصلحتوں کے تحت یہ مسئلہ پیدا ہوگیاکہ آیا حیدرآباد کی حدود میںاس کتاب کو ضبط کرلیا جائے؟ لیکن عمالِ حکومت کی آرا میں اختلاف کے سبب معاملہ رفت و گزشت ہوگیا۔ ۱۲؎ اس واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومتِ برطانیہ کے بارے میں مولانا مودودی کا جو تنقیدی اور جارحانہ نقطۂ نظر تھا، حکومت ِ حیدرآباد کے لیے، مصلحتاً گوارا نہ ہوتے ہوئے بھی قابل ِ قبول تھا۔
اس کتاب کی تصنیف کے لیے مولانا مودودی نے جو جستجو اور محنت کی ہے اس کا اندازہ اس کے حواشی میں درج مآخذ کو دیکھ کر لگایا جاسکتاہے جن میں دکن کی تاریخ سے متعلق ہم عصر اُردو و فارسی مطبوعات ہی نہیں وہ انگریزی کتب بھی شامل ہیں جو اس کتاب کی تصنیف سے ۵۰،۶۰سال پہلے کے عرصے میں شائع ہوئی تھیں۔ ان سے انھوں نے بھرپور استفادہ کرکے مفید مطلب اور ضروری معلومات اخذ کیں اور جہاں جہاں ضروری محسوس کیا وہاں متعلقہ دستاویزات کے حوالے دیے ہیں۔واقعتا ً تاریخ نویسی کا یہ اسلوب اس وقت اردو میں بہت عام نہیں تھا۔ کم ہی مصنّفین نے اس طرح کے مآخذ کی جستجو اور تلاش اور ان سے حقیقی استفادے کا مظاہرہ کیاہے۔
دکن یا مملکت ِ حیدرآباد کی تاریخ پر مولانا مودودی کی دوسری مستقل اور اہم تصنیف دکن کی سیاسی تاریخ ہے۔ ۱۳؎ دولتِ آصفیہ اور مملکت برطانیہ‘‘ تو ایک عصری تناظر میں لکھی گئی تھی اورایک عمومی دل چسپی کا اس میں احاطہ نہ تھا، لیکن خود مملکت ِ آصفیہ کی تاریخ جس میں اس کے قیام کا پس منظر اور عہد بہ عہد حالات و واقعات شامل ہوں ، مولانامودودی کی نظر میں اس کی ضرورت موجود تھی۔ چناں چہ اپنی مذکورہ کتاب کی تصنیف اور اشاعت کے بعد انھوں نے اس ضرورت کے ذیل میںاپنی اِس تصنیف کے لیے جب وہ ۱۹۳۰ء میںبھوپال میں چند ماہ مقیم رہے تو مواد جمع کرنا شروع کیا تھا اور وہاں سے جولائی ۱۹۳۱ء میں حیدر آباد منتقل ہوئے تو وہاںاسی جستجو اور مآخذ کی جمع آوری میں منہمک ہوگئے۔ ان کا ارادہ ایک مفصل تاریخ لکھنے کا تھا جو چار جلدوں پر مشتمل ہوتی۔ انھوں نے اس کا آغاز بھی کردیا کہ ان کے ایک دوست مولوی احمد عارف (م: ۱۹۴۹ئ) نے اس کو دیکھ کر مشورہ دیاکہ ان کا منصوبہ تحقیقی مطالعہ کرنے والوں کے لیے مفید ہوسکتاہے لیکن اس کے ساتھ ہی ایک ایسی کتاب کی ضرورت بھی ہے جو مبتدی طلبہ کے لیے ہو۔یہ مشورہ انھیں پسند آیا چنانچہ انھوں نے بہت آسان اسلوب میں دکن کے عہد قدیم سے قطب شاہی عہد تک کے مختصر حالات لکھ دیے اور خود مولوی احمد عارف نے اس میں شامل کرنے کے لیے مغلیہ عہد اور آصف جاہی عہد کے حالات تحریر کیے۔اس طرح ایک مشترکہ کوشش سے ایک کتاب تاریخ دکن مرتب ہوگئی اورشائع بھی ہوگئی۔ ۱۴؎ کتاب کے سرورق پر اشاعت کا سنہ ۱۳۴۱ھ اور مولانا مودودی کے دیباچے پر ۱۳۵۱ھ درج ہے۔ اس اعتبار سے یہ کتاب ۱۹۳۲ء میں شائع ہوئی تھی۔ یقین کیا جاسکتا ہے کہ یہ وہی کتاب ہے جس کا ذکر خود مولانا مودودی نے اپنی ’خود نوشت‘ میں’مختصر تاریخ دکن‘ کے طور پر کیاہے لیکن اس کا ذکر ان کی دستیاب تصانیف کی کسی فہرست میں نظر نہیں آتا۔ ۱۵؎ احمد عارف صحافت سے منسلک تھے اور ایک بہت مؤثر اخبار صبحِ وطن کے مدیر تھے، جسے انھوں نے ۱۲ربیع الاول ۱۳۴۷ھ (۱۹۲۹ئ) سے جاری کیا تھا۔اس اخبار کو قومی تحریکوں میں قومی امنگوں کی ترجمانی اور حکومت ِ وقت کی تائید و حمایت کی وجہ سے خاصی مقبولیت حاصل تھی۔ حیدرآباد کے اکابر میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ ادب اور فنون لطیفہ سے خاصی دل چسپی تھی۔ ۱۶؎
مولانا مودودی کی یہ غیر معروف ا ور نادر تصنیف اگرچہ طلبہ کے لیے لکھی گئی تھی لیکن اس کے لیے محنت اور اہتمام خاصے کیے گئے تھے۔خود بیان کیا ہے کہ اس کا تاریخی مواد نہایت معتبر و مستند مآخذ سے اخذ کیا گیا ہے اور ایسے واقعات شامل کرنے سے گریز کیاگیاہے جن کی سند مشکوک ہو۔کوشش کی گئی ہے کہ طلبہ کے ذہن میں دکن اور اس کے جغرافی، نسلی، لسانی،تاریخی اور معاشرتی حالات کی ایک صاف اور واضح تصویر نقش ہوجائے۔کوشش کی گئی ہے کہ جو جو قومیں اس علاقے میں وارد ہوئیںاور جو حکومتیں یہاں قائم ہوئیں،ان کے زمانی اور جغرافی حدود اور ان کے پیدا کردہ تغیرات اور ان کے قائم کردہ اثرات کو نمایاں کیا جائے۔اس کا ایک امتیاز یہ ہے کہ تاریخِ دکن کے متعلق جو نظریات قائم کرلیے گئے تھے ان سے صرف ِ نظر کرتے ہوئے وہ نظریات اختیار کیے گئے ہیں جو جدید تحقیقات و مطالعات کا نتیجہ ہیں۔مصنّفین کے اس عمل کے پسِ پشت مزید اہم بات یہی ہے کہ طلبہ کے ذہن میں ابھی سے ایک غیر محسوس طور پر تاریخ کے فلسفیانہ مطالعے کا ذوق پیدا ہوجائے۔ ۱۷؎
چوں کہ یہ کتاب طلبہ کے لیے لکھی گئی تھی اور اس کا مقصد بظاہرانھیں دکن کی تاریخ سے واقف کرانا تھا لیکن ساتھ ہی وہ ان میں تاریخ کے مطالعے کا ذوق و شوق عام کرنے اور ابھی سے ان میںایک ’ غیر محسوس طور پر تاریخ کے فلسفیانہ مطالعے‘ کا ذوق پیداکرنے کے لیے ایسے اہتمام بھی اس کتاب میں کرتے نظر آتے ہیں، جو منفرد ہیں۔مثلاً اس کتاب کو موضوعات اور عہد کے لحاظ سے آٹھ ابواب میںتقسیم کیا گیا، لیکن ہر باب کو بھی ذیلی اسباق میں تقسیم کیا گیا،تاکہ طلبہ ہر عہد کی بھی ذیلی موضوعاتی تفریق و تقسیم کی مصلحت سے واقف ہوسکیں اور تاریخ کو ان کے تناظر میں سمجھ سکیں۔ پھراساتذہ سے بھی ان مصنّفین کو یہ توقع ہے کہ تاریخ پڑھاتے ہوئے وہ پہلے اپنے سبق کاایک عمومی خاکہ طلبہ کے ذہن نشین کریں اور دوسرے مرحلے میں واقعات یاد کرائیں۔ لیکن تفصیلات بیان کرتے ہوئے غیر اہم شخصیات اور سنین کو زیادہ اہمیت نہ دیں۔اساتذہ سے انھیں یہ بھی توقع ہے کہ تاریخ پڑھانے سے پہلے خود غور کریں کہ تاریخ کے کون سے واقعات زیادہ اہم ہیں اور نقشہ بھی اچھی طرح خود ذہن نشین کریں اور طلبہ کوبھی ذہن نشین کرائیں۔ان کے خیال میں ہرتاریخی تغیر اور اہم واقعے کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے نقشوں سے رجوع کرنا ضروری ہے۔ ۱۸؎ اس حکمت کے تحت مصنّفین نے نقشوں کا اہتمام بڑی محنت سے کیاہے اور ان کی مدد سے ہر عہد کی جغرافیائی حد بندیوں کو واضح کیاہے۔نسلوں اور زبانوں کے لحاظ سے بھی نقشے شامل کیے گئے ہیں۔
مولانا مودودی نے اس کتاب کے چھے ابواب : ہمارا ملک اور اس کے باشندے؛دولت ِ آصفیہ کا رقبہ اور آبادی؛ پرانے زمانے کی تاریخ؛ دکن کی آریہ اور دراوڑ ریاستیں؛دکن میں مسلمانوں کی آمد؛ سلطنت ِ بہمنیہ؛دکن کی پانچ ریاستیں، تحریر کیے ہیں۔یہ ابواب کُل ۱۷۱ صفحات پر مشتمل ہیں، جب کہ کتاب کی کُل ضخامت ۲۲۴ صفحات ہے۔اس طرح ۵۳ صفحات مولوی احمد عارف نے تحریر کیے تھے۔
یہ کتاب دکن کی تاریخ نویسی میں مولانا مودودی کی ایک درمیانی کڑی ہے۔اس کی تمہید میں جو باتیں تاریخ کے ضمن میں انھوں نے تحریر کیں، ان سے اور اس کتاب کے خاکے سے تاریخ نویسی کے تعلق سے ان کے نقطۂ نظر کو اخذ کرنا کچھ مشکل نہیں۔
دکن کی تاریخ کے ضمن میں اس تصنیف، یا اولین تصنیف سے قطع نظر، ایک مبسوط تصنیف کی صورت میں ایک بڑا منصوبہ ان کے پیشِ نظر رہا جس کا آغازانھوں نے بڑی دل جمعی اور محنت سے اپنی نسبتا ً ضخیم تصنیف دکن کی سیاسی تاریخ سے کیا جو مارچ ۱۹۴۴ء میں شائع ہوئی ۔ یہ کتاب اگرچہ ایک وسیع تر منصوبے کے تحت لکھی گئی تھی اور مولانا مودودی اسے ۴۰؍ ابواب تک وسعت دینا چاہتے تھے لیکن یہ محض قیام مملکت ِ آصفیہ (۱۷۲۴ئ) کے پس منظر ہی کا احاطہ کرتی ہے اوربانی ِ مملکت نظام الملک آصف جاہ اول (۱۶۶۱ئ-۱۷۴۸ئ) کے دور ِ آخر تک کا بھی احاط نہ کیا جاسکا اور نادر شاہ (م: ۱۷۴۷ء ) کے حملۂ دہلی (۱۷۳۹ئ)پر اس تاریخ کا اختتام ہوجاتا ہے۔جس قدر بھی تاریخی واقعات اور سیاسی حالات اس میں یک جا ہوگئے ہیں وہ مفصل ہیں اوران کے بیان کرنے میں خاصی وضاحت روا رکھی گئی ہے۔
یہ تاریخ تین ابواب میں منقسم ہے۔پہلا باب بانیِ مملکت کے اسلاف اور خاندان کے تذکرے پر مشتمل ہے، جب کہ دوسرا باب اورنگ زیب کی رحلت (۱۷۰۷ئ) کے بعد قیام مملکت ِآصفیہ تک کے عمومی سیاسی واقعات کو تفصیل سے پیش کیاگیاہے۔ تیسرا باب قیام ِ مملکت کے بعد نادرشاہ کے حملے اور اس کے اثرات کے جائزے پر مشتمل ہے۔کوشش کی گئی ہے کہ اس تاریخ کے لکھنے کے لیے جو جو مآخذ ، مطبوعہ و غیر مطبوعہ، ضروری ہوسکتے تھے، انھیں پیش ِ نظر رکھا جائے۔ اس ارادے میں خاصی کامیابی نظر آتی ہے۔کتاب کے آخر میںبڑی محنت سے مملکت کا ایک مکمل نقشہ بھی ترتیب دیا گیاہے جس میں اماکن کے ساتھ ساتھ صوبوں کی قدیم اور حالیہ حدود کو واضح کیاگیاہے۔ پھر مزید یہ کہ نقشے کی تشریح بھی کی گئی ہے اور آمدنی کی تفصیلات بھی درج کی گئی ہیں۔ اس طرح اس کتاب کی تصنیف کے لیے مصنف نے خاصی محنت و جستجو کا ثبوت دیاہے اور وہ مواد و معلومات یک جا کی ہیں جو قدیم و معاصر تاریخوں میں منتشر اور بے ترتیب پھیلی ہوئی تھیں۔اس کے باوجود کہ اس تصنیف میں پیش کردہ دور اور خصوصاً نظام الملک کے حالات اور عہدپر قدیم اور جدید کتابوں کی کمی نہیں لیکن مولانا مودودی کی یہ تصنیف اپنے اسلوب اور معلومات کے لحاظ سے اپنے وقت کے اور آج کے قارئین کے لیے زیادہ پُرکشش اور جاذب ِ توجہ ہے۔
دکن کی تاریخ کے تعلق سے مولانا مودودی کی ان مذکورہ تصانیف کو ان کے اس منصوبے کی جزوی کاوشیں کہاجا سکتاہے ،جو ان کے پیشِ نظر تھا۔ان کا یہ منصوبہ جو ۴۰؍ابواب پر مشتمل تھا، ’تاریخِ دکن کا خاکہ‘ کے عنوان سے دستیاب ہے اورمولانا مودودی سے متعلق دستاویزات و اسناد کے مجموعے: وثائقِ مودودی۱۹؎ میں شامل ہے۔اسے انھوں نے ۱۹۲۸ء میں ترتیب دیا تھا۔ یہ ۴۰؍ابواب پر مشتمل تھا اور اس کے مطابق مولانا مودودی نے اس کے ۳۴؍ ابواب کا مواد جمع کرلیا تھا اور ہر باب کا ایک مختصر خاکہ بھی تحریر کرلیا تھا کہ جس کے مطابق انھیں وہ باب تحریر کرنا تھا۔ لیکن وہ اس منصوبے میں مزید پیش رفت نہ کرسکے، دیگر منصوبوں اور کاموں میں مصروف ہوگئے۔
اپنے اس منصوبے کے تحت وہ فقط اس کے ۱۸؍ ابواب کے موضوعات اپنی تصنیف دکن کی سیاسی تاریخ میں سمیٹ سکے تھے لیکن جو کچھ انھوں نے اس تصنیف (دکن کی سیاسی تاریخ) میں تحریر کیا،اگروہ اس منصوبے کے مطابق ، اور اس کے متعینہ معیار کے مطابق ہوتا تو یہ تصنیف شاید مزید بلند معیار اور اسلوب کی حامل ہوتی۔اس منصوبے کے معیار کا اندازہ ، اس کے متعینہ موضوعات یا ابواب کی فہرست سے تو ہوتا ہی ہے لیکن ہر باب کے تحت جو خاکہ یا اس کے خام عنوانات درج کیے گئے ہیں، ان سے قطع نظر ہر باب کے لیے انھوں نے مآخذ کا ایک تعین بھی کرلیاتھا کہ اس باب کی تصنیف میں ممکنہ طور پران کے لیے کون کون سی کتب مددگار ثابت ہوں گی۔ اس فہرست ِ ابواب اور اس کے لیے ممکنہ مصادر و مآخذ کی فہرست کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے ایک تو بہت محنت و جستجو سے ان تمام اہم تصانیف کے بارے میں معلومات حاصل کرلی تھیں جو کسی انفرادی ابواب کے لیے ناگزیر ہوسکتی ہیں۔ پھر یہ بھی قابل رشک ہے کہ ان کی رسائی یا معلومات میں قدیم و نادر، مطبوعہ و غیر مطبوعہ، فارسی و اردو اور انگریزی، ہر طرح کی کتب شامل تھیں۔یہ بھی حیران کن ہے کہ ان کی نظر میں متعلقہ موضوعات یا عنوانات پر جدید و قدیم ہر طرح کی انگریزی کتب، ، جو بالعموم ہندوستان کی تاریخ کے ہر دور کا احاطہ کرتی ہیں، ان کی فہرستوں میں درج نظر آتی ہیں۔ اس طرح اس خاکے سے ان کے مطالعے کی وسعت، تازگی،اور تاریخ سے ان کی غیر معمولی دل چسپی کابھی ثبوت ملتاہے۔یہ خاکہ یا منصوبہ چوں کہ وثائقِ مودودی میں عکسی شائع ہواہے، اور چوں کہ مولانا مودودی کا دست نوشتہ ہے، اس میں انگریزی کا ان کا خط بھی نہایت پختہ اور جامع ہے جو انگریزی میں ان کے لکھتے رہنے کا ایک مظہر بھی ہے۔
ان تصانیف سے قطع نظر مولانا مودودی نے دکن کی تاریخ پر مستقل کتابوں کی تصنیف کے علاوہ کم از کم ایک مقالہ ایک اہم تاریخی ماخذ: ’فتوحات ِ آصفی‘ مصنفہ: ابوالفیض معنی دہلوی کے مطالعے و تعارف پر لکھاہے جو غیر معروف اور غیر مدون ہے۔یہ حیدرآباد دکن سے نکلنے والے اخبار روزنامہ صبح دکن کے ’سالگرہ نمبر‘ ، ۱۳۵۱ھ ؍۱۹۳۲ء میں صفحات: ۳۸ ۔۴۲ پرشائع ہوا تھا۔اس اخبار کے مدیر مولوی احمد عارف ان کے قریبی دوست تھے جن کے اشتراک سے انھوں نے اپنی کتاب تاریخِ دکن لکھ کر شائع کروائی تھی۔اپنی اس مذکورہ تصنیف کے لیے مولانا مودودی نے تاریخی اورمستند معلومات کے حصول کے لیے معاصر اور تازہ ہر طرح کے مآخذ اپنے پیشِ نظر رکھے تھے۔دکن کی اپنی تاریخ نویسی کا کام انھوں نے ، اپنے مذکورہ منصوبے کے ذیل میں، قیامِ مملکت ِ آصفیہ (۱۷۲۴ئ) کے بعد دارالحکومت دہلی پر نادرشاہ کے حملے (۱۷۳۹ئ) تک ایک لحاظ سے مکمل کرلیا تھا۔اس کے بعد وہ اس کام کو بوجوہ آگے نہ بڑھاسکے لیکن اپنے منصوبے کے تحت مآخذ اور معلومات جمع کرتے رہے۔اس ضمن میں ان کی تصنیف دکن کی سیاسی تاریخ کے مآخذ کی فہرستوںاور کتابیات میں، جو ہر باب کے اختتام پر شامل ہے، دیکھا جاسکتاہے کہ انھوں نے اپنے احاطہ کردہ دور سے متعلق قریب قریب سارے ہی اہم اور بنیادی مآخذ تک رسائی حاصل کرلی تھی۔وہ اپنے مصادر میں فتوحاتِ آصفی اور مآثرِِ نظامی، مصنفہ: لالہ منسا رام کو زیادہ اہم اور قابل ِ اعتماد سمجھتے تھے ۲۰؎ ۔یہ دونوں مؤرخین باہم ہم عصر تھے اور نظام الملک آصف جاہ اول کے بھی معاصر تھے۔ ان کی مذکورہ تصانیف نظام الملک ہی کے حالات و عہد کا احاطہ کرتی ہیں۔ ۲۱؎ یہ دونوں فارسی میں ہیں اورتا حال غیر مطبوعہ ہیں۔ان دونوں میںفرق صرف اسلوب کا تھا کہ فتوحات ِ آصفی منظوم ہے، جب کہ مآثرِِ نظامی نثر میں ہے۔
فتوحاتِ آصفی کی طرح ممکن ہے مولانا مودودی نے مآثرِِ نظامیکو بھی اپنے خصوصی مطالعے یا مقالے کا موضوع بنایا ہو لیکن فتوحاتِ آصفی پر ان کا مقالہ دستیاب ہے۔اسے دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ایک تو مولانا مودودی کا دکن کی تاریخ کا مطالعہ بہت وسیع اور پختہ تھا اور دوسرے انھوں نے فتوحاتِ آصفی کو اپنی تصنیف دکن کی سیاسی تاریخ کے لیے ایک اہم اور بنیادی ماخذ سمجھ کر اس کا مطالعہ بالاستیعاب کرنا پسند کیا تھا۔ چنانچہ نہ صرف انھوں نے اپنی کتاب میںاس سے ضروری استفادہ کرتے ہوئے اس سے جگہ جگہ معلومات اخذ کیں بلکہ ضرورتا ًاس کے اہم اہم اقتباسات بھی درج کیے، جو متعدد مقامات پر دیکھے جاسکتے ہیں۔
فتوحاتِ آصفی چوں کہ تا حال غیر مطبوعہ ہے اور عام نہیں،اس لیے اس تک رسائی، اس کا حصول اور اس سے ضروری استفادہ ایک خاص جستجو اور تلاش کا نتیجہ ہے۔اس کے قلمی نسخے بھی عام نہیں۔ ایک نسخہ کتب خانہ ٔ آصفیہ میں موجود ہے اور دو نسخے مملکت کے دفتر استیفا میں محفوظ ہیں۲۲؎ ، جب کہ ایک نسخہ ’ گورنمنٹ اورینٹل مینوسکرپٹ لائبریری، مدراس‘ میں بھی موجود ہے۔ ۲۳؎ اس کی کمیابی سے اندازہ ہوتاہے کہ مولانا مودودی نے اس سے استفادے کے لیے یقینا ً کافی تگ و دو کی ہوگی۔انھوں نے جس نسخے سے استفادہ کیا اس کا ذکر نہیں کیا کہ وہ کہاں موجود ہے۔چوں کہ کتب خانۂ آصفیہ کا مخزونہ نسخہ آب رسیدہ اور ناقص الطرفین ہے، اس لیے شایداس سے استفادہ نہیں کیا گیا ،ممکن ہے کہ دفتر استیفا کے نسخے ان کے ملاحظے میں رہے ہوں۔۔
ابوالفیض معنی دہلوی کے بارے میں شمس اللہ قادری (م: ۱۹۵۳ء ) نے تحریر کیاہے کہ وہ مرزا عبدالقادر بیدل (۱۶۴۴ئ-۱۷۲۰ئ) کا شاگرد رہاہے۔ابتدا میں شاہجہاں آباد کے محلہ گلاب واڑی کا رہایشی تھا۔آصف جاہی افواج کے ساتھ اورنگ آباد آیا اور نواب شاہنواز خان صمصام الدولہ (م: ۱۷۵۸ئ) کی مصاحبت اختیار کی۔قاضی محمد صادق اختر ( ۱۸۰۷ئ-۱۸۵۸ئ) کے تذکرہ آفتاب عالم تاب‘ میں اس کا احوال ملتا ہے ۲۴؎، جب کہ علی حسن خان (۱۸۶۶ئ-۱۹۳۶ئ) کے تذکرہ صبح گلشن ۲۵؎ ؛اور مظفر حسین صبا (م: ۱۹۲۹ئ) کے تذکرۂ روزِِ روشن۲۶؎ میں بھی اس کا احوال موجودہے۔
شمس اللہ قادری کے مطابق فتوحاتِ آصفی جانشینانِ اورنگ زیب کے عہد کی تاریخ اور نظام الملک آصف جاہ کی مفصل سوانح حیات ہے۔اس کا آغاز اورنگ زیب کی وفات کے بعد سے ہوتاہے اوراس میں محمد شاہ (۱۷۱۹ئ-۱۷۴۸ئ) کے پچیسویں سالِ جلوس ( ۱۷۴۴ئ)تک چھے بادشاہوں اور پانچ دعوے دارانِ سلطنت کا تذکرہ کیاہے۔اس کے ساتھ تاریخ اور عہد کے لحاظ سے آصف جاہ کے حالات ، مختلف صوبہ جات کی حکومت، دربار ِ دہلی کی وزارت، دکن کی فتوحات وغیرہ بیان کی گئی ہیں۔ان واقعات پر کتاب کا دو تہائی حصہ مشتمل ہونے کی وجہ سے مصنف نے اس کا عنوان ’فتوحات ِ آصفی‘ رکھا ہے۔۱۱۵۶ھ؍ ۱۷۴۴ء تک کے واقعات شامل کرنے کے بعدکتاب ختم ہوگئی ہے۔
[مولانا مودودی کے اس مقالے کا مکمل متن ادارہ معارف اسلامی کراچی کے مجلے معارف مجلۂ تحقیق، شمارہ ۹(جنوری-جون ۲۰۱۵ئ) میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ یہاں اس کا اختتامیہ درج کیا جا رہا ہے]:
’’کاش! ہندستان میں بھی یورپ کی طرح ایسے علمی ادارے قائم ہوتے جنھیں قوم کی فیاضی روپے سے بے نیاز کر دیتی اور وہ اس قسم کی کتابوں کو نئے طرز سے مرتب و مہذب کر کے مفید فہرستوں اور انڈکسوں کے ساتھ شائع کرتے، لیکن ایک ایسے ملک میں اس قسم کی تمنا کرنا حماقت سے کم نہیں ہے جہاں غیر ملکوں کی ہر چیز عزیز اور اپنے ملک کی ہر شے حقیر و ناچیز ہے۔ روم و یونان، عراق و ایران اور فرانس و انگلستان کی تاریخ سے تو اعتنا کا یہ عالم ہے کہ ہماری یونی ورسٹی کا سارا نصاب نامہ اس سے بھرا پڑا ہے۔ اور ہندستان کی تاریخ سے یہ بے اعتنائی ہے کہ اس کی تاریخ کو اس نصاب نامے میں بہت تھوڑی جگہ ملی ہے اور اس تھوڑی جگہ کا بھی بیش تر حصہ ان کتابوں نے لے لیا ہے جن میں ہم اپنے آپ کو غیروں کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ تاہم ہندستان کی مجموعی تاریخ پر کچھ نہ کچھ پڑھایا تو جاتا ہے۔ دکن جو خود اپنا گھر ہے اور جس کی تاریخ کا علم، اگر فی الواقع تاریخ کا علم ضروری ہے تو ۔۔۔۔ اس ملک کے ہر بچے کو حاصل ہونا سب سے زیادہ ضروری ہے، اس تھوڑے سے شرف سے بھی محروم رہا۔
ابتدائی تعلیم سے لے کر یونی ورسٹی کی اعلیٰ تعلیم تک پورے نصاب درس پر ایک نظر ڈالی جائے۔ آپ دیکھیں گے کہ صرف ثانوی تعلیم میں ملک کے بچوں کو دکن کی تاریخ سے مجملاً روشناس کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور اس کے بعد دکن کی تاریخ ہندستان کی عام تاریخ کا ایک ضمیمہ بن کر رہ جاتی ہے جس کو پڑھ کر اس خطۂ ملک کے ایک فارغ التحصیل گریجویٹ کو اپنے درنگل، گولکنڈ، گلبرگہ، بیدر، دولت آباد، بیجا پور اور بیجا نگر کے متعلق اس سے زیادہ معلومات حاصل نہیں ہوتیں جتنی وہ اجین، اجمیر، دہلی، قنوج اور پٹنہ کے متعلق رکھتا ہے۔ اور اس ذخیرۂ علم کا موازنہ اس واقفیت سے کیا جائے جو اسے یونان، روم، فرانس اور انگلستان کے متعلق حاصل ہے تو شاید یہ اس کے مقابلے میں بالکل ہی حقیر پایا جائے___ پھر اگر ایسی تعلیمی فضا میں نشو ونما پانے کے بعد وہ اپنے ملک کی زینت، اپنے وطن کے علوم و فنون، اپنی قوم کے عالی قدر فرماں روائوں، سپہ سالاروں اور مدبروں اور اپنی ملّت کے مایہ ناز علما، شعرا، ادبا اور ماہرینِ فنون سے نا آشنا اور ان کی حقیقی عظمت و شان سے بے خبر رہیں اور ان کو ناقابلِ اعتنا سمجھ کر تمام تر دوسرے ملکوں کی تہذیب و تمدن کو خراج تحسین ادا کرنے اور غیر قوموں کے نامورابطال کی ثنا و وصف کے ترانے گانے میں مشغول رہیں، تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے‘‘۔
۱؎ سفیر اختر، ادب اور ادیب، سید مودودی کی نظر میں، دار المعارف، واہ کینٹ، ۱۹۹۸ئ، ص ۱۰
۲؎ ان ابتدائی تحریروں کی طباعتی تفصیلات کے لیے ، ایضا ً ، ص ۱۱، اور ایضا ً، ’ سید مودودی اور ماہنامہ معارف، دارالمعارف، واہ کینٹ، ۱۹۹۹ئ، ص ۷۹
۳؎ ان وابستگیوں کا ذکر، ضروری تفصیلات کے ساتھ سید مودودی کی' خود نوشت 'میں موجود ہے، مشمولہ: سفیر اختر، ادب اور ادیب، سید مودودی کی نظر میں،ص ۹ا-۴۴، خصوصاً، ص ۲۶-۲۸؛ ایضاً، ’سید مودودی اور ماہنامہ معارف‘، ص ۹۱-۹۳
۴؎ ایضاً، ص ۲۸ و نیز محمد رفیع الدین فاروقی، ’مولانا مودودی اور حیدر آباددکن‘ ، مشمولہ:تذکرہ سید مودودی جلد ۳، مرتبہ جمیل احمد رانا، سلیم منصور خالد، ادارۂ معارف اسلامی، لاہور، ۱۹۹۸ئ، ص ۳۱۵
۵؎ اسی ضمن میں مصطفی کامل پاشا کی کتاب مسئلۂ شرقیہ کا اردو ترجمہ بھی شمار کیا جاسکتاہے جو اگرچہ نیاز فتح پوری کے نام سے ’صوفی پرنٹنگ پریس، منڈی بہاالدین سے ۱۹۲۵ء میں شائع ہوا اور اس پر نیاز صاحب کے سہو کی وجہ سے مصنف کا نام ’ مصطفی کمال پاشا‘ چھپ گیا۔اس بارے میں تفصیلات کے لیے: سفیر اختر، ’سید ابوالاعلیٰ مودودی اور ان کا سرمایۂ قلم، بھولی بسری تحریروں کی روشنی میں‘، دارالمعارف، واہ کینٹ، ۲۰۰۴ئ، ص ۱۴، ۲۷۔۲۸
۶؎ ان مضامین کی اشاعتی تفصیلات کے لیے:سفیر اختر، ایضاً، ص ۱۰۔۱۱
۷؎ سید مودودی، ’خودنوشت‘،مشمولہ محولہ بالا، ص ۲۰
۸؎ شائع کردہ: کتب خانہ ٔ رحیمیہ، دہلی، ۱۹۲۸ء
۹؎ دولتِ آصفیہ اور حکومت ِ برطانیہ، اشاعت ِ اول، ص ۱ ۱۰؎ ایضاً، ص ۱۔
۱۱؎ محمد رفیع الدین فاروقی ، تصنیفِ مذکور میں ان ۱۲ مضامین کی فہرست درج ہے۔ ص۳۱۵۔
۱۲؎ تفصیلات کے لیے: ایضاً، ص ۳۱۷؛اس ضمن میں متعلقہ دستاویزات کو سید شکیل احمد’’مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی، چند اسناد و مآثر دکن کی روشنی میں‘‘، مشمولہ: یادگاری مجلہ بموقع چھٹا آل انڈیا اجتماع جماعت اسلامی ہند‘، ۲۰ تا ۲۳ فروری، ۱۹۸۱ئ، بمقام حیدر آباد، ص ص ۲۵۹۔۲۶۳ سے اخذ کرکے آئین کی محولہ بالااشاعت میں صفحات: ۶-۸ پرنقل کردیا گیا ہے۔
۱۳؎ مطبوعہ: دارالاشاعت سیاسیہ، حیدرآباد دکن، ۱۹۴۴ئ؛ بعد میں یہ کتاب اسلامک پبلی کیشنز، لاہور سے اگست ۱۹۶۸ء میں اور پھر جون ۱۹۶۹ء میں شائع ہوئی۔
۱۴؎ مطبع عہد آفریں ، حیدر آباد، ۱۳۵۱ھ
۱۵؎ مشمولہ: ادب اور ادیب، سید مودودی کی نظر میں، ص ۱۹،۴۳۔
۱۶؎ سید محمد جعفری، ’اسٹار ڈائرکٹری‘ اسٹار پریس، الٰہ آباد، سن ندارد،ص ص ۴۴۴۔۴۴۵؛ صبح وطن، ۱۹۲۸ء میں جاری کیاتھا، سید ممتاز مہدی، ’حیدرآباد کے اردو روزناموں کی ادبی خدمات‘، قومی کونسل براے قومی زبان، نئی دہلی، ۱۹۹۸ئ، ص ۴۱؛دار العلوم، حیدرآباد سے فارغ التحصیل تھے۔۱۹۴۸ء میں یہ اخبار بند ہوگیا، طیب انصاری، حیدر آباد میں اردو صحافت۔ ادبی ٹرسٹ حیدرآباد، ۱۹۸۰ئ، ص ۶۰
۱۷؎ دیباچہ، ص ۲ ۱۸؎ ایضا ً۔
۱۹؎ مرتبہ: سلیم منصور خالد، شائع کردہ ’ادارہ ٔ معارف اسلامی‘، لاہور، ۱۹۸۴ئ، ص ص ۲۲۔۵۰
۲۰؎ مولانا مودودی ’فتوحات ِ آصفی‘، مشمولہ: روزنامہ صبح دکن، سالگرہ نمبر، ۱۳۵۱ھ، ص ۳۸
۲۱؎ ان دونوں مؤرخین اور ان کی تصانیف پر شمس اللہ قادری نے اپنی تصنیف مؤرخینِ دکن، میں تعارفی شذرات تحریر کیے ہیں۔مآثرِ نظامی کے لیے: ص ۱۳-۱۵؛ فتوحاتِ آصفی کے لیے: ص۵-۶
۲۲؎ شمس اللہ قادری، تصنیفِ مذکور، ص ۶؛ یہ آب رسیدہ اور ناقص الطرفین ہے۔تفصیلات کے لیے: ’فہرست کتب خانہ سرکار عالی‘، جلد سوم، دارالطبع سرکار عالی، ۱۳۵۵ھ، ص ۹۶۔ یہاں فہرست نگار نے اس کا عنوان ’’تاریخ فتوحات ِ آصفی منظوم (شاہ نامہ ٔ دکن)‘‘ تحریر کیاہے اوراسے سہواً میر محمد احسن المتخلص بہ ایجادکی تصنیف قرار دیاہے۔
۲۳؎ چندر سیکھرن، ٹی، A Catalogue of Persian and Arabic Manuscripts in the Government Oriental Manuscripts Library, Madras مدراس، ۱۹۶۱ئ، ضمیمہ، ص۱۳۔ ان نسخوں میں اس کا عنوان الگ الگ بھی ملتاہے، جیسے: ’تاریخ فتوحاتِ آصفی منظوم‘ اورمثنوی فتوحاتِ آصفی‘۔ سی۔ اے۔ اسٹوری (C.A. Storey) ، Persian Literature, a bio-bibliographical Survey. جلد اول، ص ۶۰۵، ۷۴۸،۱۳۳۱
۲۴؎ شمس اللہ قادری، تصنیف مذکور، ص ۶
۲۵؎ مطبوعہ: مطبع شاہجہانی، ۱۲۹۵ھ، ص ۴۳۱
۲۶؎ مرتبہ: محمد حسین رکن زادہ آدمیت، کتاب خانہ ٔ رازی، تہران، ۱۳۴۳ش، ص ۷۴۸