پروفیسر محمد اشرف زیدی


اسلام نے علم و عمل کے ہر میدان میں بڑی بڑی نابغہ روزگار اور قدآور شخصیتیں پیدا کیں۔ ایسی ہی شخصیات نے اپنے علم و فضل، سیرت و کردار، راہ حق و صفا میں بے مثال جدوجہد، اخلاص اور استقامت و عزیمت سے اس تاریخ کو تشکیل دیا۔ اپنی قربانیوں اور سرفروشیوں سے اس کو تابناکی بخشی۔

حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کا شمار اسلامی تاریخ میں پانچویں خلیفۂ راشد اور مجدد اوّل کی حیثیت سے ہوتا ہے۔ انھیں جو اسلامی مملکت سلیمان بن عبدالملک سے ملی تھی اور جس مسلمان معاشرے کی نگہبانی اور رہنمائی کا کام اُنھیں سونپا گیا، دونوں اخلاقی، دینی اور معاشرتی و سیاسی بگاڑ کا شکار ہوچکے تھے۔ انھوں نے اس بگاڑ کو دُور کرنے کی جدوجہد کی۔

اجتماعی زندگی کے ایک ایک شعبے میں انقلابی ، اصلاحی اقدامات کیے۔ ان کی یہ جدوجہد بارآور ہوئی۔ آپ کی خلافت حکمرانوں کے لیے مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتی ہے جس سے فیض یاب ہوکر وہ اپنی مملکت کو بھی امن و امان کا گہوارا بنا سکتے ہیں اور فلاحِ اُخروی بھی ان کا مقدر بن سکتی ہے۔

آپ کا پورا نام عبدالعزیز بن مروان اور ابوحفص کنیت تھی اور لقب اشجع بن مروان تھا۔ آپ کے والد کا نام عبدالعزیز بن مروان اور آپ کی والدہ حضرت عمرفاروق.ؓ کے بیٹے عاصم کی بیٹی اُمِ عاصم تھیں۔ آپ کی ولادت ۶۱ہجری بمطابق ۷۸۱ء میں مدینہ منورہ میں ہوئی۔

عمر بن عبدالعزیزؒ کی پرورش ثروت اور عیش و تنعم کے گہوارے میں ہوئی، جس کے اثرات خلافت ملنے تک باقی تھے۔ بچپن ہی سے علم و تقویٰ کی طرف میلان رہا۔ چھوٹی عمر میں قرآن کریم حفظ کرلیا۔ باپ نے طبعی میلان دیکھ کر مدینہ منورہ میں مشہور محدث صالح بن کسیان کے پاس بھیج دیا۔ ان کے علاوہ آپ نے دوسرے صلحاے مدینہ حضرت انس بن مالکؒ، سائب بن یزید، یوسف بن عبداللہ بن سلام، عبیداللہ بن عبداللہ بن عمر جیسے جلیل القدر صحابہ و تابعین سے بھی استفادہ کیا۔ اکابر اُمت کی محبت کا یہ نتیجہ ہوا کہ امام احمد بن حنبل کا قول ہے: ’’میں تابعین میں سے بجز عمر بن عبدالعزیز کے کسی کے قول کو حجت نہیں سمجھتا‘‘۔ (تاریخ اسلام، شاہ معین الدین ندوی)

عمر بن عبدالعزیز عبدالمالک کے بھتیجے اور داماد تھے۔ وہ مختلف عہدوں پر فائز رہے۔ اس دور میں بھی ان کی فطری سعادت نے ساتھ نہ چھوڑا اور وہ جہاں جہاں رہے، اپنے حسنِ عمل کی بہترین یادگاریں چھوڑیں۔ ولید نے جب ان کو مدینہ کا گورنر بنانا چاہا تو آپ نے اس شرط پر قبول کیا کہ  وہ دوسرے عمال کی طرح ظلم نہ کریں گے۔ (سیرت عمر بن عبدالعزیز ، ابن جوزی، ص۳۲)

خاندانی جاہ و حشمت کا بھی خلافت سے پہلے آپ پر اثر رہا۔ خلافت سے پہلے خوش لباسی اور نفاست کا یہ عالم تھا کہ جو لباس ایک بار پہن لیتے پھر اسے نہ پہنتے تھے۔ اپنے زمانے کے سب سے زیادہ خوش لباس آدمی مانے جاتے تھے۔ خوشبویات کا بڑا شوق تھا۔ (ایضاً، ص ۱۵۴)

lغیرمعمولی ذھانت:ابوالفرمدینی کا قول ہے کہ میں نے ایک دن سلیمان بن یسار کو عمر بن عبدالعزیز کی قیام گاہ سے نکلتے دیکھا اور ان سے پوچھا کہ کیا آپ انھیں پڑھاتے ہیں؟ سلیمان نے جواب دیا:’’خدا کی قسم وہ تم سب سے زیادہ جانتا ہے‘‘۔امام لیث کہتے ہیں :مجھے اس شخص نے بتایا جو عبداللہ بن عباسؓ اور عبداللہ بن عمرؓ کے حلقۂ درس سے استفادہ کر چکے تھے کہ    ہم نے جس مسئلے کی بھی تحقیق کی عمر بن عبدالعزیز کو اس کے اصول و فروع میں سب سے زیادہ حاوی پایا۔میمون بن مہران کا قول ہے کہ عمر بن عبدالعزیزؒ کے سامنے علماے وقت کی حیثیت شاگردوں کی سی ہے۔ (مطالعہ تاریخ اسلام، ص ۱۲)

lاضطراب کے بہنور میں:آپؒ نے اقتدار کی بھاری ذمہ داریوں کا آغاز مدینہ کی گورنری سے کیا۔ وہاں کے اکابر فقہا کو بلایا اور کہا کہ: میں نے آپ کو ایسے کام کے لیے زحمت دی ہے کہ اس میں میرا ہاتھ بٹانے سے آپ کو عنداللہ اجر ملے گا اور آپ حامی حق قرار پائیں گے۔ میں آپ لوگوں کی راے اور مشورے کے بغیر کوئی کام سرانجام نہ دوں گا۔ جب آپ کسی کو ظلم کرتے ہوئے دیکھیں تو آپ کو خدا کی قسم! مجھے ضرور اس کی خبر کیجیے۔ (ابن سعد، ج۵، ص ۴۴۵)

اس طرح انھوں نے حکومت کا آغاز کیا۔ اچانک ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے آپ کی زندگی میں انقلاب برپا کردیا۔ آپ نے موت کی تلخ حقیقت کو پہچان لیا اور مدینہ کی گورنری سے کنارہ کش ہوگئے۔

آپ نے ولید بن عبدالملک کے حکم پر حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کے صاحب زادے خبیب کو اپنے سامنے اس حال میں کوڑے لگوائے کہ ان کا جسم بخار میں پُھنک رہا تھا۔ سخت سردی کا موسم تھا اور صبح کا وقت، حکم دیا کہ ٹھنڈے یخ پانی سے بھری مشک ان کے سر پر انڈیل دی جائے اور پھر   دن بھر مسجد کے دروازے پر کھڑے رکھا۔ خبیب ان اذیتوں کی تاب نہ لاسکے۔ بے ہوش ہوکر گرپڑے اور ان پر نزع کا عالم طاری ہوگیا اور پھر اسی حال میں انھیں ان کے اہل و عیال کے پاس پہنچا دیا گیا۔ عمر یہ ظلم تو کر بیٹھے مگر پھر آخرت کی بازپُرس کے خوف نے ان کو آلیا۔ انھوں نے   ایک اصفہانی غلام کو یہ دیکھنے کے لیے بھیجا کہ خبیب زندہ ہیں یا نہیں۔ انھیں دیکھ کر عروہ بن زبیر کے صاحبزادے عبداللہ بھڑک اُٹھے اور بولے:کیا تمھارے آقا کو ابھی اس کی موت پر شک ہے۔ پھر اپنے عزیزوں سے جو میت کے پاس بیٹھے تھے، کہا: اسے خبیب کا منہ دکھا دو تاکہ گورنر کو یقین آجائے کہ اس کے ظلم کا شکار اپنے خون کا دعویٰ لیے اپنے رب کے پاس پہنچ چکا ہے۔

 غلام پلٹا تو عمرؒ بے قراری کے عالم میں ٹہل رہے تھے۔جب معلوم ہوا کہ وہ شخص مرچکا ہے، جسم لرزنے لگا، قدم لڑکھڑائے اور گرپڑے۔ پھر سر اُٹھایا اور زبان پر انا للّٰہ وانا الیہ راجعون جاری ہوگیا۔ اپنے کیے پر ندامت اور آخرت میں جواب دہی کا خوف و احساس ، عمر کے اعصاب اور ذہن و قلب پر کچھ اس طرح سے مسلط ہوا کہ گورنری سے استعفا دے دیا اور حکومت اور موروثی سیاست کے جھمیلوں سے کنارہ کش ہوگئے۔ (روشن ستارے، آباد شاہ پوری، ص ۱۴)

lخلافت کا بارِ گراں: عمر بن عبدالعزیزؒ کے ہاتھ پر باقاعدہ خلافت کی بیعت نہیں کی گئی تھی بلکہ حادثاتی طور پر ان کو خلیفہ بنایا گیا۔ خلیفۂ وقت سلیمان وابق کے علاقے میں تھا کہ    مرض الموت میں مبتلا ہوگیا۔ جب حالت زیادہ خراب ہوگئی تو اپنے نابالغ لڑکے ایوب کو ولی عہد نامزد کیا۔ وہاں موجود محدث رجا بن حیواۃ نے کہا: خلیفہ ایسے صالح شخص کو بنانا چاہیے کہ قبر میں  امن حاصل رہے۔ اس لیے رجاء کے کہنے پر سلیمان اس مسئلے پر غور کرنے لگا اور دو دن بعد ولایت نامہ چاک کرڈالا اور رجاء بن حیواۃ سے پوچھا کہ میرے لڑکے دائود کے بارے میں کیا راے ہے؟ انھوں نے کہا کہ وہ اس وقت قسطنطنیہ کی مہم پر ہیں اور یہ بھی نہیں معلوم کہ زندہ بھی ہیں یا مرگئے۔

سلیمان نے کہا: پھر کیا راے دیتے ہو؟

رجاء نے کہا کہ اصل راے تو آپ کی ہے۔ آپ نام بتایئے میں غور کروں گا۔

سلیمان نے پوچھا: عمر بن عبدالعزیز کے بارے میں تمھاری کیا راے ہے؟

رجاء نے عرض کیا: میرے نزدیک وہ نہایت فاضل اور برگزیدہ انسان ہیں۔

سلیمان نے کہا: بخدا! میرا بھی یہی خیال ہے لیکن اگر میں عبدالملک کی اولاد کو بالکل نظرانداز کرکے ان کو خلیفہ بنا دوں تو بڑا فتنہ بپا ہوجائے گا۔ اس لیے عمر بن عبدالعزیز کو خلیفہ اور یزید بن عبدالملک کو ولی عہد نامزد کرتا ہوں۔ رجاء نے اس کی تائید کی اور اسی وقت سلیمان نے خود اپنے قلم سے وصیت نامہ لکھا:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

یہ تحریر خدا کے بندے سلیمان امیرالمومنین کی جانب سے عمر بن عبدالعزیز کے لیے ہے۔ میں نے اپنے بعد تم کو خلیفہ بنایا اور تمھارے بعد یزید بن عبدالملک کو۔

مسلمانو! ان کا کہنا سننا، ان کی اطاعت کرنا، خدا سے ڈرنا، آپس میں اختلافات پیدا نہ کرناکہ دوسرے تم پر حرص و طمع کی نگاہ ڈالیں۔

اس وصیت نامے پر مہر کر کے رجاء کے حوالے کیا اور حکم دیا کہ وہ اہلِ خاندان کو جمع کر کے بغیر نام لیے ہوئے ان سے نامزد کردہ خلیفہ کی بیعت لے لیں۔ (تاریخ اسلام، شاہ معین الدین ندوی)

سلیمان کی وفات کے بعد رجاء بن حیواۃ نے اس خطرے سے کہ موت کی خبر سننے کے بعد مبادا اہلِ خاندان عمر بن عبدالعزیز کی بیعت میں کچھ لیت و لعل کریں، موت کی خبر کو مخفی رکھا۔ اہلِ خاندان کو دوبارہ جمع کر کے ان سے سلیمان کے وصیت نامے پر بیعت لی۔ بیعت کو مستحکم کرنے کے بعد سلیمان کی موت کا اعلان کیا اور وصیت نامہ پڑھ کر سنایا۔ عمر بن عبدالعزیز کا نام سن کر صرف ہشام بن عبدالملک نے ان کی بیعت سے انکار کیا لیکن رجاء نے کہا کہ خاموشی سے بیعت کرلو ورنہ تمھارا سر قلم کردوں گا اور عمر بن عبدالعزیز کا ہاتھ پکڑ کر منبر پر بٹھا دیا۔

خلافت کا بار سر پر آتے ہی عمر بن عبدالعزیز کی زندگی بالکل بدل گئی اور تخت ِ خلافت پر قدم رکھنے کے ساتھ ہی ابوذرغفاریؓ اور ابوہریرہؓ کا قالب اختیار کرلیا۔سلیمان کی تجہیزوتکفین سے فراغت کے بعد حسب معمول جب آپ کے سامنے شاہی سواری پیش کی گئی تو آپ نے اسے واپس کر دیا اور فرمایا: میرے لیے میرا خچر ہی کافی ہے۔(ابن سعد، ج۵، ص ۴۴۷)

گھر آئے تو اس بارِعظیم سے چہرہ پریشان تھا۔ غلام نے پوچھا: خیر ہے آپ اتنے متفکر کیوں ہیں؟ فرمایا: اس سے بڑھ کر فکروتشویش کی بات اور کیا ہوگی کہ مشرق و مغرب میں اُمت محمدیہ کا کوئی ایسا فرد نہیں ہے جس کا مجھ پر حق نہ ہو اور بغیر مطالبے اور اطلاع کے اس کا ادا کرنا مجھ پر فرض نہ ہو۔ (سیرت عمر بن عبدالعزیز،ص ۵۲)

حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کا خلافت کے بارے میں جو نقطۂ نظر تھا، اس کے اعتبار سے  آپ کا انتخاب شوریٰ سے نہ ہوا تھا۔ اس لیے دست برداری کے لیے آمادہ ہوگئے اور مسلمانوں کو جمع کر کے اُن سے کہا: لوگو! میری خواہش ہے اور عام لوگوں کی راے لیے بغیر خلافت کی ذمہ داری  مجھ پر ڈال دی گئی ہے، اس لیے میری بیعت کا جو طوق تمھاری گردن پر ہے میں خود اسے اُتار دیتا ہوں۔ تم جسے چاہو خود اپنا خلیفہ منتخب کرلو‘‘۔

یہ تقریر سن کر مجمع نے شور بلند کیا کہ: ’’ہم نے آپ کو خلیفہ بنایا ہے اور ہم سب آپ کی خلافت پر راضی ہیں۔ آپ خدا کا نام لے کر کام شروع کر دیجیے‘‘۔ جب آپ کو اس بات کا یقین ہوگیا کہ لوگوں کو آپ کی خلافت سے اختلاف نہیں ہے تو اس وقت آپ نے اس بارِعظیم کو قبول فرمایا اور مسلمانوں کے سامنے تقریر کی۔ اس میں تقویٰ و آخرت کی تلقین کے بعد خلیفۂ اسلام کی اصل حیثیت واضح کی، جسے اُموی فرماں روائوں نے بادشاہت میں گم کر دیا تھا:

امابعد! تمھارے نبی ؑ کے بعد دوسرا نبی ؑ آنے والا نہیں ہے اور خدانے اس پر جو کتاب اُتاری ہے، اس کے بعد دوسری کتاب آنے والی نہیں ہے۔ خدا نے جو چیز حلال کردی ہے وہ قیامت تک کے لیے حلال ہے اور جو حرام کر دی ہے وہ قیامت تک کے لیے حرام ہے۔ میں اپنی جانب سے کوئی فیصلہ کرنے والا نہیں ہوں، بلکہ صرف احکامِ الٰہی کو نافذ کرنے والا ہوں۔ خود اپنی طرف سے کوئی نئی بات پیدا کرنے والا نہیں ہوں، بلکہ محض پیرو ہوں۔ کسی کو یہ حق نہیں کہ اللہ کی نافرمانی میں اس کی اطاعت کی جائے۔ میں تم میں سے ممتاز آدمی بھی نہیں ہوں بلکہ معمولی فرد ہوں۔ البتہ تمھارے مقابل میں اللہ نے مجھے زیادہ گراں بار کیا ہے‘‘۔(سیرۃ عمر بن عبدالعزیز، ابن جوزی)

اپنی حیثیت واضح کرنے کے بعد اُمورِ خلافت کی طرف متوجہ ہوئے۔اس بارے میں آپ کا مطمح نظر اپنے پیش روئوں سے بالکل مختلف تھا۔ آپ اموی حکومت کے پورے نظام میں انقلاب پیدا کرنا چاہتے تھے۔

lشخصی خلافت کے اثرات: جب سے اسلامی خلافت نے شخصی سلطنت کا قالب اختیار کیا تھا، اس وقت سے اس میں آمرانہ حکومتوں کی ساری بُرائیاں آگئی تھیں:

۱- مذہب کی طرف رجحان کمزور پڑگیا تھا۔

۲- رعایا مغلوب ہوکر رہ گئی تھی۔

۳-  زکوٰۃ اور ٹیکس کی رقم ذاتی خزانہ بن گئی تھی۔

۴- حکومتی ارکان، خاندان اور امرا کے قبضے میں کروڑوں کی جایدادیں تھیں۔

۵- سرکاری ملازمین اور گورنروں کے افعال و اعمال پر کوئی احتساب و مواخذہ نہ تھا۔

  • اصلاحات: حضرت عمر بن عبدالعزیز کے سامنے اس سلسلے میں سب سے بنیادی فرض رعایا اور زیردستوں کے مال و جایداد کی واپسی تھی، جسے شاہی خاندان کے مختلف ارکان یا اُموی حکام اور دوسرے عمائد نے اپنی اپنی جاگیر بنا لیا تھا۔ یہ ایسا نازک کام تھا جس کو ہاتھ لگانا سارے خاندان کی مخالفت مول لینا تھا۔ لیکن آپ نے اسی سے آغاز کیا۔ خود آپ کے گھر میں بہت بڑی موروثی جاگیر تھی۔بعض خیرخواہوں نے عرض کیا کہ اگر جاگیر واپس کردیں گے تو اولاد کے لیے کیا انتظام کریں گے؟ فرمایا ان کو خدا کے سپرد کرتا ہوں۔ (سیرۃ عمر بن عبدالعزیز، ابن جوزی، ص ۱۱۵)
  • شاھی خاندان کے عمائدین سے خطاب: بنی مروان تم کو دولت اور شرف کا بڑا حصہ ملا ہے، میرا خیال ہے کہ اُمت کا نصف یا دو تہائی مال تمھارے قبضے میں ہے۔ عمائدین کا جواب تھا: خدا کی قسم! جب تک ہمارے سر تن سے جدا نہ ہوجائیں گے، اس وقت تک یہ جایدادیں واپس نہیں ہوسکتیں۔ خدا کی قسم نہ ہم اپنے آباواجداد کو کافر بنا سکتے ہیں اور نہ اپنی اولادوں کو مفلس بنائیں گے۔حضرت عمر کا جواب تھا: خدا کی قسم! اگر اس حق میں تم میری مدد نہ کرو گے تو میں تم کو ذلیل اور رُسوا کرکے چھوڑوں گا۔ (سیرۃ عمر بن عبدالعزیز، ابن جوزی، ص ۲۰۸)
  • عوام الناس سے خطاب: اس کے بعد عام مسلمانوں کو مسجد میں جمع کر کے خطاب فرمایا: ’’ان لوگوں (اُموی خلفا) نے ہم ارکانِ خاندان کو ایسی جاگیریں اور عطیات دیے، خدا کی قسم! جن کے دینے کا نہ ان کو کوئی حق تھا اور نہ ہمیں ان کے لینے کا۔ اب میں سب کو ان کے اصلی    حق داروں کو واپس کرتا ہوں اور اپنی ذات اور اپنے خاندان سے شروع کرتا ہوں‘‘۔
  • اصلاح کا آغاز: ان کا نظامِ عدل اپنی ذات سے شروع ہوتا ہے۔ آپ نے جاگیروں کی اسناد کا ریکارڈ منگوایا۔ ان اسناد کو نکال کر پڑھ پڑھ کر سنایا جاتا اور عمر بن عبدالعزیز ان کو قینچی سے کاٹ کاٹ کر پھینکتے جاتے تھے۔ صبح سے لے کر ظہر تک یہ سلسلہ جاری رہا (ابن سعد، ج۵، ص ۲۵۲)۔اور اپنی اور اپنے پورے خاندان کی ایک ایک جاگیر واپس کردی، حتیٰ کہ اپنے پاس ایک نگینہ تک نہ رہنے دیا۔ (تاریخ الخلفا،ص ۲۲۳)

آپ کی بیوی فاطمہ کو ان کے باپ عبدالملک نے ایک بیش قیمت پتھر دیا تھا۔ عمرؒ نے بیوی سے کہا: ’’اسے بیت المال میں جمع کرو یا مجھے چھوڑنے کے لیے تیار ہوجائو‘‘۔ اطاعت شعار بیوی نے اسی وقت وہ پتھر بیت المال میں جمع کر دیا۔ (تاریخ الاسلام، شاہ معین الدین ندوی، ص ۳۷۸)

  • تنازعۂ فدک کا فیصلہ: باغِ فدک متنازعہ چلا آرہا تھا۔ اس کی آمدنی حضوؐر اپنی اور بنوہاشم کی ضروریات پر صرف فرماتے تھے۔ ایک دفعہ حضرت فاطمہؓ نے اسے آپؐ سے مانگا تھا، لیکن آپؐ نے نہیں دیا۔ اس لیے خلفاے راشدین نے بھی اسے اپنے انتظام میں رکھا اور اس کی آمدنی انھی مصارف میں صرف کرتے رہے، جن میں رسولؐ صرف فرماتے تھے۔ مروان نے اپنے زمانے میں اسے جاگیر بنا لیا تھا۔ اس لیے وہ عمر بن عبدالعزیز کے قبضے میں آیا۔ اسی پر ان کی اور ان کے اہل و عیال کی معاش کا دارومدار تھا۔ چنانچہ اس بارے میں تحقیقات کرکے فدک کو اپنی مِلک سے نکال کر پھر اس کو قدیم مصارف کے لیے مخصوص کر دیا اور آلِ مروان سے کہا کہ: ’’جو چیز رسولؐ اللہ نے فاطمہؓ کو نہیں دی اس پر میرا کوئی حق نہیں ہوسکتا۔اس لیے میں تم کو گواہ بناتا ہوں کہ فدک کی جو صورت رسولؐ اللہ کے زمانے میں تھی میں اس کو اسی حالت میں لوٹاتا ہوں‘‘۔(ابوداؤد)
  • غصب شدہ اموال کی واپسی: اپنی اور اپنے خاندان کی جاگیروں کو واپس کرنے کے بعد عام مغصوبہ اموال کی واپسی کی طرف متوجہ ہوئے اور عمال کے پاس تاکیدی احکام بھیج کر تمام ممالک محروسہ [زیرحفاظت] کے غصب شدہ مال و املاک کوواپس کر دیا۔ عراق میں اس کثرت سے مال واپس کیا گیا کہ وہاں کا خزانہ خالی ہوگیا اور عمر بن عبدالعزیز کو عراق کی حکومت کے اخراجات چلانے کے لیے دارالخلافہ سے روپیہ بھیجنا پڑا۔(ابن سعد، ج۵،ص۲۵۲)

ملکیت کے ثبوت کے لیے بڑی سہولت رکھی گئی تھی۔ معمولی شہادت پر مال واپس مل جاتا تھا(تہذیب الاسمائ،جلداوّل، ص ۲۰)۔ جو لوگ مرچکے تھے ان کے ورثا کو واپس مل جاتا تھا (ابن سعد،ج ۵،ص ۲۵۱)۔ غرض مال و جایداد اور نقد و جنس کی قسم سے جو بھی ناجائز طور پر کسی کے قبضے میں تھا، ایک ایک کر کے ان کے اصلی وارثوں کو واپس کردیا گیا۔(ابن سعد،ج۵،ص ۲۵۲)

  • خاندان بنواُمیہ کی برھمی: عمر بن عبدالعزیز کے اس عدل نے شاہی خانوادوں کو بالکل تہی دست کردیا تھا۔ اس لیے فطری طور پر ان میں بڑی برہمی پیدا ہوئی۔ چنانچہ آل مروان نے ہشام کو اپنا وکیل بنا کر ان سے گفتگو کرنے کے لیے بھیجا۔ ا نھوں نے جاکر کہا: ’’ان امور میں جن کا تعلق آپ کے زمانے سے ہے، آپ جو چاہے کیجیے۔ لیکن گذشتہ خلفا جو کچھ کر گزرے اسے اسی حالت پر رہنے دیجیے‘‘۔ عمر بن عبدالعزیز نے اس کے جواب میں کہا: ’’اگر ایک ہی معاملے کے لیے تمھارے پاس دو دستاویز ہوں۔ ایک امیرمعاویہ کی اور دوسری عبدالملک کی تو تم اس میں سے کس کو قبول کرو گے؟‘‘ ہشام نے کہا: ’’جو پہلے کی ہو‘‘۔ عمر بن عبدالعزیز نے جواب دیا: ’’تو میں نے کتاب اللہ کو سب سے قدیم دستاویز پایا ہے، اس لیے میں ہر اس چیز میں جو میرے اختیار میں ہے، خواہ وہ میرے زمانے کی ہو یا مجھ سے پہلے کی، میں اس دستاویز کے مطابق عمل کروں گا‘‘۔
  • بدعت سیئہ کا خاتمہ:اُموی خلفا نے ایک بُری بدعت یہ جاری کی تھی کہ وہ خود اور ان کے تمام عمال خطبہ میں حضرت علیؓ کی توہین کا ارتکاب کرتے تھے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے اسے بالکل بند کر دیا اور تمام عمال کے نام فرمان جاری کردیا کہ: ’’حضرت علیؓ کے متعلق جو نامناسب الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں وہ بند کردیے جائیں اور اس کی جگہ کلام اللہ کی یہ آیت  اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآیِٔ ذِی الْقُرْبٰی وَ یَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَ الْمُنْکَرِ …  داخل کی جو آج تک جاری ہے۔(تاریخ الخلفائ، ص ۲۴۴، ابن سعد،ص ۲۹۱)
  • اسلام کی توسیع و اشاعت:عمر بن عبدالعزیزؒ نے اسلامی حکومت کی حدود میں توسیع کے بجاے اسلام کی توسیع و اشاعت کو مقصد قرار دیا اور اپنی ساری توجہ اس کی تبلیغ میں صرف کر دی اور اس کے لیے ہر طرح کے مادی و اخلاقی ذرائع استعمال کیے۔ فوجی افسروں کو ہدایت تھی کہ وہ رومیوں کی کسی جماعت سے اس وقت تک جنگ نہ کریں، جب تک ان کو اسلام کی دعوت نہ دیں (ابن سعد)۔تمام عمال کو حکم تھا کہ وہ ذمیوں کو اسلام کی دعوت دیں اور جو ذمّی اسلام قبول کرے اس کا جزیہ معاف کر دیا جائے۔اس سے اسلام کی بہت اشاعت ہوئی۔ تنہا جراح بن عبداللہ حکمی والیِ خراسان کے ہاتھوں ۴ہزار آدمی مسلمان ہوئے (ابن سعد، ج۵،ص ۲۸۵)۔ اسماعیل بن عبداللہ والیِ مغرب کی تبلیغ سے سارے شمالی افریقہ میں اسلام پھیل گیا۔ (فتوح البلدان، ص ۳۵۷)
  • سندھ میں دعوتِ اسلام: سندھ کے حکمرانوں اور زمین داروں کو دعوتِ اسلام کے خطوط لکھے۔ ان میں سے اکثر نے اسلام قبول کیا۔ ان کی جایدادیں اور زمین انھی کے قبضے میں رہنے دی گئیں۔ راجا داھر کا لڑکا جے سنگھ بھی انھی لوگوں میں سے تھا۔ (فتوح البلدان،ص ۴۴۱)
  • رسولؐ اللّٰہ تحصیل دار نھیں تہے: حضرت عمر بن عبدالعزیز کی محنت شاقہ اور تبلیغی سرگرمیوں سے مختلف ملکوں میں اس کثرت سے ذمّی مسلمان ہوئے کہ جزیے کی آمدنی گھٹ گئی۔ بعض عمال نے اس کی شکایت کی۔ آپ نے جواب دیا کہ: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہادی و رہبر بناکر بھیجے گئے تھے، تحصیل دار بنا کر نہیں بھیجے گئے تھے‘‘ (مقریزی،ج۱،ص ۱۲۵)۔میں یہ پسند کرتا ہوں کہ سارے ذمّی مسلمان ہوجائیں اور ہم لوگوں کی حیثیت محض کاشت کار کی رہ جائے کہ اپنے ہاتھ سے کمائیں اور کھائیں‘‘۔ (سیرۃ عمر بن عبدالعزیزؒ،ص ۹۹)

آپ کے محاسن اخلاق اور تبلیغ اسلام سے آپ کا شغف سن کر بعض ملکوں نے جن کا اسلام کی طرف میلان تھا، وفد بھیج کر اپنے یہاں مبلّغین بھیجنے کی درخواست کی۔ چنانچہ تبت کے وفد کے ساتھ آپ نے سلیط بن عبداللہ کو چین روانہ کیا۔(یعقوبی،ج۳،ص ۲۶۲)

  • امن عامہ کے لیے حکمت عملی:خوارج نہ صرف حکومت کے خلاف تھے بلکہ ان کا وجود امن عامہ کے لیے بھی خطرہ تھا۔ کسی کی جان و مال محفوظ نہ تھی۔ اسی لیے گذشتہ خلفا کے زمانوں میں برابر ان سے مقابلہ جاری رہا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے ان کے مقابلے میں  تلوار روک لی اور عبدالحمید والیِ کوفہ کو جو پہلے سے خوارج کے مقابلے پر مامور تھے لکھا کہ جب تک یہ لوگ خون ریزی اور فتنہ و فساد برپا نہ کریں ان سے کوئی تعرض نہ کیا جائے اور ان کی شورش کے تدارک کے لیے کسی دُوراندیش آدمی کو مقرر کیا جائے۔ اس کے ساتھ آپ نے خوارج کو افہام وتفہیم کے ذریعے شورش سے روکنے کی کوشش کی اور خوارج کے سردار بسطام کو لکھا کہ: ’’بہتر یہ ہے کہ   تم میرے پاس آکر بحث و مناظرہ کرو۔ اگر ہم لوگ حق پر ہوں تو تم لوگ عام مسلمانوں کی طرح مطیع ہوجائو، اور اگر تم حق پر ہو تو ہم اپنے متعلق غور کریں‘‘۔(طبری، ۱۳۴۸ اور ابن اثیر، ج۴، ص ۱۸)

اس دعوت پر بسطام نے مناظرے کے لیے دو افراد کو بھیجا۔ فریقین میں مناظرہ ہوا، طبری اور ابن اثیر کا بیان ہے کہ ان میں سے ایک شخص نے حق کا اعتراف کرلیا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اس کا وظیفہ مقرر کیا اور دوسرا واپس لوٹ گیا۔ لیکن ابن سعد کا بیان ہے کہ خارجیوں پر اس مناظرے کا کوئی اثر نہ ہوا اور وہ بدستور اپنی روش پر قائم رہے۔ اس لیے حضرت عمر عبدالعزیز کو مجبور ہوکر ان شرائط کے ساتھ عبدالحمید کو ان کے مقابلے کی اجازت دینی پڑی کہ:

۱- عورت، بچے اور قیدی قتل نہ کیے جائیں، زخمیوں کا تعاقب نہ کیا جائے۔

۲- فتح کے بعد جو مالِ غنیمت ہاتھ آئے وہ خوارج کے اہل و عیال کو واپس کردیا جائے۔

۳- قیدی صرف اس وقت تک قید میں رہیں جب تک راہِ راست پر نہ آجائیں۔

ان پابندیوں کے ساتھ عبدالحمید نے مقابلہ کیا لیکن شکست کھائی۔ ان کے بعد مسلمہ بن عبدالملک بھیجے گئے۔ انھوں نے چند دنوں میں قابو حاصل کرلیا۔

  •  اشاعت دین:علمی لحاظ سے عمر بن عبدالعزیز اپنے وقت کے ممتاز علما میں سے تھے اور اخلاق و کردار میں وہ تابعین کے اس طبقے سے تعلق رکھتے تھے جو اپنے عمل میں صحابہ سے مشابہ تھے۔ سابقہ حکمرانوں کا دربارشاعروں، جگت بازوں اور ادیبوں سے بھرا رہتا تھا، لیکن ان کے دربار میں علما، فقہا، مفسرین اور محدثین نے جگہ لے لی۔ خلافت کے اہم امور میں بھی علما و فقہا سے مشورہ کرتے۔

والیِ حمص کو لکھا جو لوگ علم کے لیے دنیا چھوڑ بیٹھے ہیں ان کا بیت المال سے سوسو دینار وظیفہ مقرر کردیا جائے تاکہ وہ فکرِ معاش سے بے نیاز ہوکر خدمت ِ علم کرسکیں۔ مختلف ممالک میں تعلیم عام کرنے کے لیے علما کو بھیجا۔ فہم دین کے لیے پوری مملکت میں فقہا اور واعظ مقرر کیے۔ مدینہ کے مشہور فقیہہ اور محدث نافع کو جوحضرت عبداللہ بن عمر کے شاگرد تھے، مصر بھیجا۔ عرب کے بدوئوں کی تعلیم کے لیے یزیدابی مالک اور حارث اشعری کو مقرر کیا۔ (ملت اسلامیہ کی مختصر تاریخ، ثروت صولت، حصہ اول، ص ۱۴۹)

  •  تدوین حدیث:تدوین حدیث کا کارِعظیم بغیر مسند ِاقتدار کے ممکن نہ تھا۔ عمر بن عبدالعزیزؒ نے راہِ حق کے متلاشیوں کے لیے یہ موقع فراہم کردیا تھا کہ وہ اپنی زندگیوں کو حدیث کے منتشر خزانے کو جمع کرنے میں صرف کردیں۔ آپ نے قاضی ابوبکر بن حزم والیِ مدینہ کو لکھا کہ: ’’تمام محدثین کے مجموعے اکٹھے کیے جائیں، ان کی نقلیں کرا کے مملکت اسلامیہ کے اہم تعلیمی مراکز میں بھیجی جائیں کیونکہ مجھے علما کے ساتھ علم کے بھی مٹ جانے کا خوف ہے۔ یہ احتیاط ملحوظ رہے کہ صرف رسولؐ اللہ کی احادیث قبول کی جائیں‘‘۔ (فتح الباری،ج۱،ص ۳۸)

اس حکم پر محدثین کے مجموعے مرتب کیے گئے اور تمام ممالک محروسہ میں بھیجے گئے۔سعد بن ابراہیم کا بیان ہے کہ ہم نے عمر کے حکم سے دفتر کے دفتر حدیثیں لکھیں اور انھوں نے اس کا ایک ایک مجموعہ تمام ممالک محروسہ کو بھیجا (تہذیب التہذیب، عاصم بن قتادہ)۔مغازی اور مناقب صحابہ کی جانب اس وقت تک کوئی خاص توجہ نہیں کی گئی تھی۔ عمربن عبدالعزیزؒ نے عاصم بن قتادہ کو جو مغازی اور سیرت کے بڑے عالم تھے، حکم دیا کہ جامع دمشق میں ان دونوں چیزوں کا درس دیا کریں۔

  • حکمرانوں کا احتساب:عمر بن عبدالعزیز نے جس طرح حکومت کا سیاسی ڈھانچا بدلا اور اس کی تجدید کی اور اُمویوں کے مذہبی تساہل سے جو اُمور جادۂ شریعت سے ہٹ گئے تھے، انھیں دوبارہ اس راستے پر لگایا۔

عیش و تنعم کے ساتھ شراب نوشی کا رواج بھی ہوچلا تھا۔ حضرت عمرؒ نے ان کا انسداد کیا اور عمال کو لکھا کہ کوئی غیرمسلم مسلمانوں کے شہروں میں شراب نہ لانے پائے اور شراب کی دکانوں کو حکماً بند کردیا۔ بعض حیلہ ساز جو نبیذ کے بہانے شراب پیتے تھے، ان کے بارے میں عدی بن ارطاۃ کو پیغام بھیجا کہ لوگ شراب پی کر بدمستی میں نہایت بُرے کام کرتے ہیں اور اکثر لوگ کہتے ہیں کہ شراب پینے میں کوئی مضائقہ نہیں، لیکن جو چیز اس قسم کے کام کراتی ہے ، اس کا استعمال سخت نقصان دہ ہے۔ خدا نے اس کے بدلے میں آبِ شیریں، دودھ اور شہد جیسی چیزیں پیدا کی ہیں۔ جو شخص نبیذ بنائے وہ صرف چمڑے کے مشکیزے میں بنائے، جس پر زفت یا روغن نہ ہو کہ رسولؐ اللہ نے اس قسم کے ظروف سے منع فرمایا ہے۔ اس کے بعد بھی اگر کسی نے شراب پی تو اس کو سخت سزا دی جائے گی اور جو چھپ کر پیئے گا اس کو خدا عذاب دینے والا ہے۔ (بخاری،کتاب الولاۃ، ص ۶۸)

عدی بن ارطاۃ کو ایک فرمان لکھا کہ دین جہاں چند فرائض ، چند احکام اور چند سنن کا نام ہے، جس نے ان اجزا کی تکمیل کی، اس نے ایمان کو مکمل کرلیا اور جس نے اس کی تکمیل نہیں کی، اس نے ایمان کی تکمیل نہیں کی۔ اگر مَیں زندہ رہا تو ان کے تمام اجزا کو واضح کردوں گا کہ تم اس پر عمل کرسکو۔ اور اگر مر گیا تو مجھے تمھارے ساتھ رہنے کی حرص بھی نہیں ہے۔ (بخاری، کتاب الایمان )

  • محکمہ مال گزاری میں اصلاحات: حضرت عمر بن الخطابؓ کا وسیع اور جامع نظام مال گزاری اپنے زمانے کی صورت حال کے لیے نہایت موزوں ثابت ہوا تھا لیکن اب وہ  موجودہ زمانے کے تقاضوں کو پورا کرنے سے قاصر تھا۔ غیر عرب باج گزار مسلسل مسلمان ہو رہے تھے۔ اس طرح انھیں خراج کی ادایگی سے مستثنیٰ کردیا جاتا تھا، جس سے بیت المال کو شدید نقصان پہنچ رہا تھا۔ مزیدبرآں بہت سے نومسلم اپنے وطن میں رہنے اور کاشت کاری جاری رکھنے کے بجاے شہروں میں جاکر بس گئے تھے اور اس طرح زراعت کے لیے مطلوبہ کسانوں کی قلت محسوس ہونے لگی تھی۔ اس د شواری پر قابو پانے کے لیے حجاج بن یوسف نے اپنے زمانے میں ان مسلم مالکان زمین پر بھی خراج عائد کردیا تھا جو خراج (ٹیکس) نہیں دیتے تھے بلکہ صرف عُشر ادا کرتے تھے اور لوگوں کو بڑے شہروں میں جابسنے کی بھی ممانعت کردی (تاکہ شہروں میں بے روزگاری کا مسئلہ   نہ ہوجائے)۔ اس سے عام ناراضگی پیدا ہوگئی تھی لیکن حجاج نے اس کی کوئی پروا نہ کی۔

اس کے برعکس عمر بن عبدالعزیز اس اصول پر قائم رہے کہ مسلمانوں پر خراج (ٹیکس) عائد نہیں ہونا چاہیے۔ اسی طرح انھوں نے ایک اور نظریہ یہ پیش کیا کہ سارا مفتوحہ ملک، ملّت کی مشترکہ ملکیت ہے۔ اس لیے نہ تو اس کے ٹکڑے کیے جاسکتے ہیں اور نہ ذاتی جایداد کے طور پر مسلمانوں کے ہاتھوں بِک کر خراج کی ادایگی سے مامون رہ سکتا ہے۔ لہٰذا ۱۰۰ہجری میں انھوں نے مسلمانوں کو ایسی اراضی خریدنے کی ممانعت کردی جس پر خراج عائد تھا۔

انھوں نے خراسان کے موالی کو جنھوں نے کفار سے جنگ میں حصہ لیا تھا، نہ صرف دوسرے مسلمان سپاہیوں کی طرح مال گزاری کی ادایگی سے مستثنیٰ کر دیا، بلکہ انھیں تنخواہ بھی دی۔ اس طرح انھوں نے خلافت کے مختلف عناصر میں وحدت اور یگانگت پیدا کرنے کے کام کو آگے بڑھایا۔ تاہم انھوں نے اپنے زمانے کی مالی بدنظمی کو دُور کرنے کی ہرامکانی کوشش کی۔

  • اقلیتوں سے حُسنِ سلوک:کسی حکمران کے عدل و انصاف اور ظلم و جور کے جانچنے کا سب سے بڑا معیار دوسری ماتحت قوموں اور اہلِ مذہب کے ساتھ اس کا سلوک اور طرزِعمل ہے۔ اس معیار سے حضرت عمر بن عبدالعزیز کا دور سراپا عدل تھا۔ انھوں نے ذمّیوں کے حقوق کی جیسی حفاظت کی اور ان کے ساتھ جو نرمی برتی اس کی مثال عہدفاروقی کے علاوہ تاریخِ اسلام کے کسی دور میں نہیں مل سکتی۔ ذمّیوں اور مسلمانوں کے جان و مال کی حفاظت میں سرمو فرق نہیں کیا۔ ان کے مذہب میں کسی قسم کی دست اندازی نہیں کی۔ جزیہ کی وصولی میں نرمی اور سہولت پیدا کی۔ عمال کو وقتاً فوقتاً ان سے متعلق احکام لکھتے رہے۔ ذمّی کے خون کی قیمت مسلمان کے خون کے برابر قرار دی۔ ایک بار حیرہ کے ایک مسلمان نے ایک ذمّی کو قتل کر دیا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے حیرہ کے حاکم کو لکھا کہ قاتل کو فوراً مقتول کے ورثا کے حوالے کردو۔ وہ چاہیں تو قتل کریں اور چاہیں تو معاف کر دیں۔ چنانچہ اس حکم پر قاتل کو حوالے کر دیا گیا اور مقتول کے ورثا نے اسے قتل کردیا۔(نصب الرّایۃ،ص ۳۶۰)

مالِ مغصوبہ کی واپسی کے سلسلے میں شاہی خاندانوں سے ذمّیوں کی زمینیں بھی واپس دلائیں۔ ایک ذمّی کی زمین عباس بن ولید کے قبضے میں تھی۔ اس نے عمر بن عبدالعزیزؒ کے پاس دعویٰ کیا کہ عباس نے میری زمین پر غاصبانہ قبضہ کرلیا ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے عباس سے پوچھا: تمھارے پاس اس کا کیا جواب ہے؟انھوں نے کہا: والد نے مجھے جاگیر میں دی تھی اور میرے پاس اس کی سند موجود ہے۔حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے فرمایا: خدا کی کتاب ولید کی سند پر مقدم ہے، اور ذمّی کی زمین واپس دلا دی۔(سیرۃ عمر بن عبدالعزیز،ص ۳۶۰)

دمشق کا ایک گرجا ایک عرصے سے مسلمان خاندان کی جاگیر میں چلا آتا تھا۔ عیسائیوں نے حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے پاس دعویٰ کیا۔ انھوں نے واپس دلا دیا۔ اسی طریقے سے ایک مسلمان نے ایک گرجا کی نسبت عذر داری کی کہ وہ اس کی جاگیر میں ہے۔ انھوں نے فرمایا: اگر عیسائیوں کے معاہدے میں ہے تو تم اسے نہیں پاسکتے۔ (فتوح البلدان،ص ۱۳۰)

جزیے کی وصولی کے سلسلے میں عمال ذمّیوں کے اُوپر جو سختیاں کرتے تھے ان کو بالکل بند کر دیا اور جو بدعنوانیاں ہوچکی تھیں حتی الامکان ان کی تلافی کی۔مقدمات میں ذمّیوں اور شاہی خاندان میں کوئی فرق نہ کرتے تھے۔ دونوں کے ساتھ یکساں سلوک ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ ہشام بن عبدالملک نے ایک عیسائی پر مقدمہ درج کردیا۔ عمر بن عبدالعزیز نے دونوں کو برابر کھڑا کیا۔ ہشام کو یہ ناگوار ہوا۔ اس نے تمکنت میں آکر عیسائی کے ساتھ سخت کلامی کی۔ عمر بن عبدالعزیز نے ہشام کو ڈانٹا اور سزا دینے کی دھمکی دی۔ (کتاب العیون والحدائق،ص ۵۲۶)

 حضرت عمر بن عبدالعزیز فرمایا کرتے تھے کہ خدا حجاج پر لعنت کرے، نہ اس کو دین کا سلیقہ تھا اور نہ دنیا کا۔ وہ باوجود اپنے مظالم کے عراق سے ۲ کروڑ ۸۰لاکھ سے زیادہ وصول نہ کرسکا اور زمین کی آبادی کے لیے کاشت کاروں کو ۲۰لاکھ قرض دینے کے بعد کُل ایک کروڑ ۷لاکھ کا اضافہ ہوسکا اور میرے زمانے میں بغیر کسی ظلم و زیادتی کے ۱۲کروڑ ۸۰لاکھ آمدنی ہوگئی۔ اگر میں زندہ رہا تو اس آمدنی میں اور اضافہ ہوگا۔ (فتوح البلدان و ذکر سواد، ص ۵۲۶)

  • بادشاھی میں فقیری:اسلام میں بادشاہت کوئی مرغوب شے نہیں کہ جس کے لیے اپنی تمام طاقتوں اور سرمایے کو وقف کیا جائے، بلکہ یہ ایک ذمّہ داری ہے جو اللہ کی طرف سے اسی کے بندوں پر عائد کی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ ہرلمحے اس احساسِ ذمہ داری میں مبتلا رہے کہ اس کا جواب رب کو دینا ہے۔

خلافت ملنے سے پہلے آپ کی زندگی جس عیش و تنعم میں تھی وہ بے مثال ہے۔ خلافت کے بعد سارے تکلفات سے دست کش ہوگئے اور ابوذر غفاریؓ کا قالب اختیار کرلیا۔ لونڈی،  غلام فرش و فروش، لباس وغیرہ جملہ عیش و تکلف کے سامانوں کو بیچ کر ان کی قیمت بیت المال میں داخل کردی تھی۔ گزارے کے لیے صرف چار سو دینار سالانہ لیتے تھے۔ بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ نہ لیتے تھے۔(ابن سعد،ج۵،ص ۲۹۶)

ایک زمانے میں ۴۰۰ دینار کا کپڑا جسم پر بار معلوم ہوتا تھا اور دن بھر کئی کئی جوڑے بدلے جاتے تھے۔ اب صرف ایک جوڑا رہ گیا تھا۔ اُسی کو دھو دھو کر پہنتے تھے۔مرض الموت میں ایک قمیص کے علاوہ دوسری قمیص نہ تھی کہ بدلوائی جاتی۔ اہلیہ سے کہا گیا کہ لوگ عیادت کو آتے ہیں، دوسری بدل لو، تو بولیں خدا کی قسم! اس کے علاوہ کوئی دوسرا کپڑا نہیں۔(ابن سعد،ج۵،ص ۱۵۴)

 یوں تو آپ کا تقویٰ ہر شعبۂ زندگی میں نمایاں تھا لیکن بیت المال کا جو نمونہ آپ نے پیش کیا اس کی مثال سلاطین و فرماں روائوں کی تاریخ میں مشکل سے ملے گی۔ بیت المال سے معمولی سا فائدہ اُٹھانا بھی گوارا نہ تھا۔ جب تک خلافت کا کام کرتے تھے اس وقت تک بیت المال کی شمع جلاتے تھے۔ اس کے بعد اپنا ذاتی چراغ جلواتے۔ (تاریخ الخلفائ،ابن سعد، ص ۲۳۷، ۲۹۵)

آپ کو لبنان کا شہد بہت مرغوب تھا۔ ایک دفعہ آپ کی بیوی نے لبنان کے حاکم ابن معدی کرب کو لکھ بھیجا۔ انھوں نے بہت سا شہد بھجوا دیا۔ فاطمہ نے اسے عمر بن عبدالعزیز کے سامنے پیش کیا۔ انھوں نے دیکھ کر کہا کہ معلوم ہوتا ہے تم نے ابن معدیکرب کے پاس کہلا بھیجا تھا۔ چنانچہ اس کو چکھا تک نہیں اور اس کو بکوا کر اس کی قیمت بیت المال میں داخل کردی اور ابن معدیکرب کو  لکھ بھیجا کہ خدا کی قسم! گر آیندہ تم نے ایسا کیا تو اپنے عہدے پر نہیں رہ سکتے۔ (سیرۃ عمر بن عبدالعزیز،ص ۱۸۸)

  • اولاد کے لیے ترکہ :حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے موروثی جاگیر اور گھر کاایک ایک تنکا بیت المال میں واپس کر دیا تھا اور آپ کی وفات کے وقت آپ کی اولاد کی معاش کا کوئی سامان نہ رہ گیا تھا۔ اس لیے وفات سے کچھ پہلے آپ کے برادرِ نسبتی مسلمہ بن عبدالملک نے آپ سے عرض کیا کہ ’’امیرالمومنین! آپ نے مال و دولت سے ہمیشہ اپنی اولاد کا منہ خشک رکھا اور انھیں بالکل خالی ہاتھ چھوڑے جاتے ہیں۔ ان کے متعلق مجھے یا خاندان کے کسی فرد کو کچھ وصیت کرتے جایئے۔

عمر بن عبدالعزیزؒ نے اس کے جواب میں کہا: خدا کی قسم! میں نے ان کا کوئی حق تلف نہیں کیا، البتہ جس مال میں ان کا حق نہ تھا وہ ان کو نہیں دیا۔ تم کہتے ہو ان کے متعلق کسی کو وصیت کرتا جائوں تو اس معاملے میں میرا وصی اور ولی میرا خدا ہے، جو صُلحا کا ولی ہوتا ہے۔ میرے لڑکے اگر خدا سے ڈریں گے تو خدا ان کے لیے کوئی سبیل نکال دے گا، اور اگر وہ گناہ میں مبتلا ہوں گے تو وہ مال دے کر ان کو گناہ کے لیے اور قوی نہ بنائوں گا۔ پھر لڑکوں کو بلا کر باچشم پُرنم فرمایا:

میری جان تم پر قربان جن کو میں نے خالی ہاتھ چھوڑا ہے لیکن خدا کا شکر ہے کہ میں نے تم کو اچھی حالت میں چھوڑا۔ بچّو! تم کو کوئی ایسا عرب یا ذمّی نہ ملے گا، جس کا تم پر حق ہو۔ بچّو! دو باتوں میں سے ایک بات تمھارے باپ کے اختیار میں تھی، ایک یہ کہ تم دولت مند ہوجائو اور تمھارا باپ دوزخ میں جائے، دوسرا یہ کہ تم تہی دست رہو اور وہ جنت میں جائے۔ بس خدا حافظ! خدا تم کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔(تاریخ اسلام، شاہ معین الدین ندوی)

  • نیک حکمران سایۂ خداوندی میں:عمر بن عبدالعزیزؒ جیسے حکمرانوں کے لیے ہی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خوش خبری دی تھی کہ قیامت والے دن جس دن انسان لاغر اور مجبور ہوگا، پیاس اور دھوپ میں اس کا کوئی مددگار نہ ہوگا، نیک حکمران اللہ کے عرش کے سایے میں ہوگا۔

انھوں نے اپنی سلطنت کے اندر بہ کثرت سرائیں بنوائیں اور خراسان کے گورنر کو لکھا کہ وہاں کے تمام راستوں میں سرائیں تعمیر کی جائیں اور جو مسلمان ادھر سے گزرے ایک شبانہ یوم اس کی میزبانی کی جائے۔ اس کی سواری کی حفاظت کی جائے۔بیمار مسافر کی دو دن میزبانی کی جائے۔ جس کے پاس گھر پہنچنے کا سامان نہ ہو، اس کا سامان کیا جائے۔ (طبری،ص ۱۳۶۴)

آپ کی اس عوام دوست حکومت کی بدولت آپ کے زمانے میں رعایا بڑی آسودہ حال ہوگئی تھی۔ ملک کے طول و عرض سے غربت و افلاس کا نام و نشان مٹ گیا، اور صدقہ لینے والے نہ ملتے تھے۔ مہاجر بن یزید کا بیان ہے کہ ہم لوگ صدقہ تقسیم کرنے پر مقرر تھے۔ ایک ہی سال میں یہ حال ہوگیا کہ ایک سال پہلے جو لوگ صدقہ لیتے تھے، وہ دوسرے سال دوسروں کو صدقہ دینے کے قابل ہوگئے تھے۔ (سیرۃ عمر بن عبدالعزیز،ص ۹۰)

حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کی صرف اڑھائی سالہ خلافت کی اس مختصر مدت میں یہ حالت ہوگئی تھی کہ لوگ عمال کے پاس صدقے کا مال تقسیم کرانے لے جاتے تھے، اور کوئی لینے والا نہ ملتا تھا، اور وہ لوگ مجبور ہوکر صدقہ واپس لے جاتے تھے۔

  • وقتِ اجل:ابھی عمر بن عبدالعزیزؒ کی اصلاحات کا سلسلہ جاری تھا کہ رجب ۱۰۱ہجری میں آپ کو مرض الموت نے آلیا۔ اس بارے میں دو بیانات ہیں: ایک یہ کہ علالت طبعی تھی۔ دوسرا یہ کہ زہر کا نتیجہ تھا۔ اس کا سبب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ بنی اُمیہ نے جب یہ محسوس کیا کہ اگر مزید  کچھ دنوں تک آپؒ کی خلافت قائم رہی تو پھر بنی اُمیہ کا گذشتہ اقتدار واپس نہ آسکے گا۔ اس لیے انھوں نے آپ کے ایک خادم کو ایک ہزار اشرفی دے کر زہر دلوا دیا۔ آپ کو دوران علالت اس کا    علم ہوگیا۔ لیکن آپ نے اس کا کوئی انتقام نہیں لیا بلکہ اشرفیاں واپس لے کر بیت المال میں جمع کردیں اور غلام کو آزاد کردیا۔ (ابن سعد، تذکرہ عمر بن عبدالعزیزؒ)

اس مرض سے بچنے کی کوئی اُمید نہ تھی اس لیے اپنے بعد ہونے والے خلیفہ یزید بن عبدالملک جسے سلمان بن عبدالملک نامزد کر گیا تھا، یہ وصیت نامہ لکھوایا:

میں تم کو اس حال میں وصیت نامہ لکھ رہا ہوں کہ مرض نے بالکل لاغر کردیا ہے۔ تم کو معلوم ہے کہ خلافت کی ذمہ داریوں کے بارے میں مجھ سے سوال کیا جائے گا اور خدا مجھ سے اس کا محاسبہ کرے گا اور میں اس سے کوئی کام نہ چھپا سکوں گا۔

فَلَنَقُصَّنَّ عَلَیْھِمْ بِعِلْمٍ وَّ مَا کُنَّا غَآئِبِیْنَ(اعراف ۷:۷) ہم ان لوگوں سے اپنے ذاتی علم سے واقعات بیان کرتے ہیں اور ہم غیرحاضر نہ تھے۔

ایسی حالت میں اگر خدا مجھ سے راضی ہوگیا تو میں کامیاب ہوا اور ایک طویل عذاب سے نجات پائی اور اگر ناراض ہوا تو میرے انجام پر افسوس ہے۔ میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ وہ محض اپنی رحمت سے عذاب دوزخ سے نجات دے اور اپنی رضا سے جنت عطا کرے۔ تم کو بھی تقویٰ اختیار کرنا چاہیے کیونکہ میری طرح تم بھی تھوڑے ہی دن زندہ رہو گے۔ تم کو اس سے بچنا چاہیے کہ غفلت میں کوئی ایسی لغزش سرزد نہ ہوجائے جس کی تلافی نہ کرسکو۔ سلیمان بن عبدالملک خدا کا ایک بندہ تھا۔ خدا نے اس کو وفات دی۔ اس نے مجھے خلیفہ بنایا اور میرے بعد تم کو نامزد کیا۔ میں جس حال میں تھا اگر   وہ اس لیے ہوتا کہ بہت سی بیویوں کا انتخاب کرلوں اور مال و دولت جمع کر لوں تو خدا نے مجھے اس سے بہتر سامان دیے تھے جو وہ اپنے کسی بندے کو دے سکتا تھا، لیکن میں سخت اور نازک سوال سے ڈرتا ہوں، بجز اس کے کہ خدا میری مدد فرمائے۔(سیرۃ عمر بن عبدالعزیز،ص ۲۸۰)

  • تاریخی خطبہ:عمر بن عبدالعزیزؒ نے اپنی رعایا کے لیے جو خطبہ چھوڑا وہ یہ تھا:

آپ حضرات کو معلوم ہونا چاہیے کہ آپ فضول پیدا نہیں کیے گئے اور نہ یوں ہی چھوڑ دیے جائیں گے۔ آپ کے لیے ایک جاے بازگشت ہے جہاں اللہ تعالیٰ آپ کا فیصلہ کرنے کے لیے نزول اَجلال فرمائے گا۔ جو شخص کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے جو ہرشے پر حاوی ہے، سے خارج ہوگیا اور اسے جنت الفردوس سے جس کا عرض آسمان اور زمین ہیں محروم کردیا گیا وہ بلاشبہہ گھاٹے اور نقصان میں رہا۔ کل قیامت کے دن صرف اسی کو امان ملے گی جو اللہ سے ڈرا اور جس نے ختم ہونے والی دنیا کو ہمیشہ باقی رہنے والی آخرت کی خاطر، تھوڑی کو بہت سی کے لیے، اور اندیشے کی چیز کو محفوظ شے کے لیے بیچ ڈالا۔ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ آپ ان لوگوں کی اولاد ہیں جو ہلاک ہوگئے۔ اس طرح اور لوگ آکر آپ کے جانشین ہوجائیں گے۔ یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا یہاں تک کہ پھر سب کے سب اس ذات کی طرف غور کریں جو ہرشے کا بہترین وارث ہے۔ روزانہ صبح و شام اللہ کی طرف آپ لوگ چلے جارہے ہیں۔ جو اپنی مقررہ معیارِ زندگی پوری کرلیتا ہے اسے آپ زمین کے شگاف میں دفن کردیتے ہیں۔ نہ اس کے سر کے نیچے تکیہ رکھتے ہیں اور نہ اس کے نیچے فرش بچھاتے ہیں۔ وہ متوفی اپنے دوستوں اور تمام دوسری دنیاوی اشیا سے قطع تعلق کرکے زمین میں بودوباش اختیار کرلیتا ہے اور اپنے اعمال کے حساب کتاب کا سامنا کرتا ہے۔ بس صرف اس کے اعمال اس کے لیے زادِ راہ ہوتے ہیں جو کام اس نے اپنی زندگی میں کرلیے ہیں ان کا وہ محتاج رہتا ہے اور جو مال و متاع پیچھے چھوڑ جاتا ہے اس سے بالکل بے پروا ہوتا ہے۔ اس لیے موت کے آنے سے پہلے اللہ سے ڈرتے رہیے۔ (ایضاً، ۴۵-۴۶)

۲۰ روز علیل رہنے کے بعد ۱۰۱ہجری کے ختم ہونے میں پانچ راتیں باقی تھیں کہ آپ اس دارفانی سے رخصت ہوگئے۔۳۹سال اور چند ماہ عمر پائی، دو سال پانچ ماہ اور چھے روز خلافت پر متمکن رہے اور بئر سمعان میں دفن کیے گئے۔