علامہ محمد اقبالؒ دنیاے اسلام کے ایک عظیم مصلح ہیں۔ اُن کی لافانی فکری و اصلاحی خدمات کی وجہ سے اُن کو عالمِ اسلام میں ایک اعلیٰ مقام حاصل ہے۔ مغربی تہذیب پر ان کی نظر گہری اور وسیع تھی۔ وہ مغربی فلسفۂ حیات اور اجتماعی زندگی کے ہرپہلو پر گہری نظر رکھتے تھے اور مغرب کو ایک جامع انسانی نظریے سے محروم سمجھتے تھے۔ انھیں یقین تھا کہ صرف مسلمانوں کے پاس ایسا نظم ہے جو اجتماعی زندگی کی اصلاح کرسکتا ہے اور تہذیب ِانسانی کو ایک ضابطۂ حیات دے سکتا ہے۔ اُنھوں نے مسلمانوں کو تلقین کی وہ سائنسی اور جدید علوم میں مغرب سے استفادہ کریں مگر یہ بھی نصیحت کی مغربی تہذیب کا شکار ہونے سے بچیں۔
مولانا مودودی کا خیال ہے کہ سب سے اہم کام جو اقبال نے انجام دیا، وہ یہ تھا کہ انھوں نے مغربیت اور مغربی مادہ پرستی پر پوری قوت کے ساتھ ضرب لگائی۔ اگرچہ یہ کام اس وقت علماے دین اور اہلِ مدارس اور خطیب حضرات بھی انجام دے رہے تھے، مگر ان کی باتوں کو یہ کہہ کر نظرانداز کیا جاسکتا تھا اورکیا جاتا تھا کہ یہ لوگ مغربی فلسفے اور مغربی تہذیب و تمدن سے واقفیت نہیں رکھتے۔ لوگ ان اہلِ علم کی بات کو کچھ زیادہ وزن نہیں دیتے تھے جو اگرچہ دین سے تو واقف تھے لیکن مغربی علوم، مغربی تہذیب اور مغربی زندگی سے پوری طرح واقف نہیں تھے۔ ان کے برعکس اقبال وہ شخص تھا کہ وہ ان سے زیادہ مغرب کو جانتا تھا اور ان سے زیادہ مغرب کے فلسفے اور مغربی علوم سے واقف تھا۔ اقبال نے مغربیت، مغربی مادہ پرستی، مغربی فلسفے اور مغربی افکار پر چوٹ لگائی۔ یہ چوٹ اس لیے لگائی کہ مسلم معاشرے بھی مغربی تہذیب اور مغربی مادہ پرستی کی چکاچوند کا شکار ہو رہے تھے۔ اقبال کے فلسفے اور شاعری میں یورپ پر کڑی تنقید دکھائی دیتی ہے اور یورپ کو دنیا پرستی کی علامت کے طور پر نمایاں کیا گیا ہے۔ اس علامت کے ذریعے اقبال اپنے عہد کے مسلم معاشرے کو مخاطب کرتا ہے اور آنے والے زمانوں میں مسلم معاشرے کو خبردار کرتا ہے کہ وہ اس راہ کو اختیار نہ کرے جو دنیا پرستی کا راستہ ہے اور ان رویوں کو اپنانے سے احتراز کرے جو مذہب کے سطحی مظاہر ہی کو صداقتِ کُل گردانتے ہیں۔ یورپ کی ایسی تصویر دکھانے سے اقبال کا مقصد یہی تھا (اور ہے) کہ مسلم معاشرہ اپنی نشوونما کے دوران ان مصائب سے بچ سکے جو یورپی معاشرے کو اپنے ارتقائی عمل میں پیش آئے ہیں۔
کسی تہذیب کی اساس خاندان ہے اور خاندان کا مرکزِ نگاہ عورت ہے۔ چنانچہ علامہ اقبالؒ نے مغربی تہذیب سے اجتناب کے سلسلے میں مسلمان عورت کو مخاطب کر کے اپنی اجتماعیت اور اپنے معاشرے کی حفاظت کا سبق دیا ہے۔
اسرارِ خودی میں انھوں نے مسلمان عورت سے مخاطب ہوکر جو کچھ کہا، اس کا ترجمہ ملاحظہ کیجیے: ہمارے بچے نے جب اپنی زبان کھولنی شروع کی تو سب سے پہلے تجھ سے کلمہ لا الٰہ الا اللہ سیکھا۔ ہماری بجلی چمکی تو اُس نے صحرا اور فلک بوس پہاڑوں سب میں ہمارا پیغام پہنچا دیا۔ تہذیب ِ جدید ہمارے دین پر ڈاکا ڈالنے کے درپے ہے۔ یہ بے باک اور بے پروا تہذیب ہے جو کہ معصوم لوگوں کی گھات میں بیٹھی ہے۔ اِس پُرفریب تہذیب کے گرفتار لوگ اپنے آپ کو آزاد اور اِس کے مارے اور ڈسے ہوئے لوگ اپنے آپ کو زندہ و متحرک سمجھتے ہیں۔ ُتو شریعت ِ محمدیؐ جیسی نعمت کی امین ہے، اور ہماری بکھری ہوئی ملّت کو جمع کرنے والی ہے۔ اپنے آپ کو سود و زیاں سے آزاد کرکے اپنے آبا کے نقشِ قدم سے ایک گام بھی نہ ہٹنا۔ زمانے کے دست برد سے ہوشیار رہ کر اپنی نسل کو محفوظ کرلینا۔ نئی نسل کو جو اپنی تہذیب سے بیگانہ ہو رہی ہے اور اُن کے اندر اپنی اقدار راسخ نہیں ہوئیں، ایسے میں فاطمہؓ کی طرح بن جانااور اپنی نسلوں کی ایسی تربیت کرلینا کہ ہمارے گلزار کو پھر بہار کی نوید مل جائے اور پھر سے ہماری نسلوں میں ایک حسینؓ نمودار ہوجائے۔
پھر وہ ایک پورا باب امومت اور مامتا کے ادارے پر باندھتے ہیں اور فرماتے ہیں: عورت مرد کے ساز کی آواز ہے۔ مرد کی زندگی کا ساز عورت کے بغیر بے آواز ہے۔ مرد کی صلاحیتیں عورت کے ساتھ دوبالا ہوجاتی ہیں۔ عورت کا وجود مرد کے لیے لباس کی حیثیت رکھتا ہے۔ عورت کے دل کو لبھانے والا حُسن اور عورت کی آغوش حقیقی عشق کی پرورش کرنے والی ہے۔ اُس کے خاموش مضراب (زخم) سے زندگی کا ساز نمودار ہوتا ہے۔ اُس ہستیؐ نے جس پر کائنات کو ناز ہے، عورت کا ذکر خوشبو اور نماز کے ساتھ کیا ہے۔ وہ مسلمان جس نے کہا کہ عورت مرد کی پوجا کرنے والی بنے، اُس نے قرآنِ حکیم کی حکمت کے راز کو سمجھا ہی نہیں۔ اگر تم ٹھیک اور صحیح فکر کے مالک ہو تو جان لو کہ ممتا رحمت ہے کیونکہ اُسے نبوت سے معلمی کی نسبت ہے۔ حضوؐر (جو کائنات کی وجہِ مقصود ہیں) نے فرمایا کہ جنت مائوں کے قدموں تلے ہے۔ زندگی کی رفتار ممتا سے رواں دواں ہے۔ امومت کے فیض سے ہمارے چشمے اُبل رہے ہیں۔ ہمارے چشموں کو موجیں اور تیزرفتاری اور ساری حرکت ممتا کی برکت سے ہیں۔
پھر وہ مغربی تہذیب کی دلدادہ عورتوں اور اُمت کی مطلوب عورتوں کا فرق بیان کرتے ہوئے مثال پیش کرتے ہیں: وہ لڑکی جو کسی دہقان کی گنوار، جاہل اور بدصورت بیٹی ہے اور تہذیب ِ جدید کے آداب اور اس کی رنگینیوں سے ناواقف ہے، وہ کوتاہ نظر، کم زبان اور سادہ مزاج ہے مگر ممتا کی تکلیفوں سے اُس نے اپنا دل خون کیا ہے۔ ماں بننے کے دشوار گزار عمل سے اُس کی آنکھوں کے گرد نیلے حلقے پڑ چکے ہیں، مگر اُس کے وجود سے ملّت کو ایک حق پرست انسان میسر آجاتا ہے۔ لہٰذا ہماری ملّت کا وجود اُسی کے مرہونِ منت ہے۔ اُس کی شام کی وجہ سے ہماری سحر فروزاں ہے۔ اِس کے برعکس وہ نازک صورت پیکر جس کی آنکھیں اپنے حُسن کی وجہ سے حشر برپا کیے ہوئے ہیں مگر اس کی آغوش خالی ہے، اُس کی فکر مغربی تہذیب و دانش سے آراستہ ہے۔ ظاہراً وہ عورت ہے مگر دراصل اُس کا باطن نازن ہے۔ ملّت کے مسلمہ اصولوں اور بندھنوں کو اُس نے توڑا ہے اور اُس کی نازو انداز والی فتنہ گر آنکھوں نے اور اُس کی آزادی اور ڈھٹائی نے فتنے اُبھارے ہیں اور حیا سے ناآشنا آزادی نے اور اُس کے علم نے بارِ امومت کے گراں بار فریضے کو ادا کرنے سے باز رکھا ہے اور اُس کی شام پر ایک ستارہ بھی چمکنے نہ پایا۔ ہمارے ملّت کے باغ میں ایسی عورتوں کے پھول نہ ہی کھِلیں تو بہتر ہے۔ اِس کے وجود کے داغ سے ہماری ملّت کا دامن پاک رہے تو زیادہ بہتر ہے۔
اِن اشعار میں آج کی آزاد اور مغربی اقدار کی دل دادہ خواتین کو علامہ نے آئینہ دکھایا ہے۔ وہ حضرت فاطمہ زہراؓ کو مسلمان خواتین کے لیے نمونۂ کامل اور آئیڈیل راہنما خاتون سمجھتے ہیں، لہٰذا ایک پورا باب حضرت فاطمہ زہراؓ کی نذر کیا ہے۔ وہ ملّت و قوم کا سرمایہ، مال و دولت کو نہیں، بلکہ نئی نسل کو سمجھتے ہیں۔ جب تک انسانی وسائل نہ ہوں تو مادی وسائل کسی کام کے نہیں رہتے:
قوم را سرمایہ ای صاحب نظر
نیست از نقد و قماش سیم و زر
مال او فرزند ہاے تندرست
تر دماغ و سخت کوش و چاق و چُست
(اے صاحب ِ نظر نقدی، لباس اور چاندی سونا قوم کا سرمایہ نہیں۔ اس قوم کی دولت تندرست بیٹے ہیں جن کے دماغ روشن ہوں اور وہ محنتی اور چاق و چوبند ہوں۔)
حافظ رمز اخوت مادران
قوت قرآن و ملّت مادران
(اخوت کے راز کی حفاظت مائیں کرتی ہیں۔ مائیں ہی قرآن اور ملّت کے لیے باعث ِ قوت ہیں۔)
سیدۃ النساء فاطمۃ الزہراؓ کو مسلم خواتین کو ایک نمونۂ کاملہ کے طور پر پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت مریمؑ ایک نسبت سے محترم ہیں، سیّدہ فاطمہؓ تین نسبتوں سے محترم ہیں۔ ایک یہ کہ وہ رسولِؐ پاک جو امام اوّلین اور آخرین تھے، کی صاحبزادی ہیں۔ رسولِؐ پاک نے زمانے کے پیکر میں نئی روح پھونک دی اور ایک ایسا دور وجود میں لائے جس کا آئین تازہ و جدید ہے۔ حضرت فاطمہؓ سیدنا علی المرتضیٰؓ کی زوجہ محترمہ تھیں، جو سورئہ دہر(ھل اتٰی سے شروع ہوتی ہے) کی آیت کے مصداق تھے۔ سیدنا علیؓ کا لقب شیرخدا ہے۔وہ بادشاہ تھے مگر حجرہ ان کا محل تھا اور ان کا سارا سامان ایک تلوار اور ایک زرہ پر مشتمل تھا۔ حضرت فاطمہؓ کی تیسری نسبت یہ ہے کہ وہ سیدنا حسینؓ کی والدہ تھیں جو پُرکارِ عشق کے مرکز اور کاروان عشق کے سالار تھے۔ آپؓ سیّدنا حسنؓ کی بھی والدہ تھیں جو شبستانِ حرم کی شمع تھے اور جنھوں نے خیرالامم (اُمت مسلمہ) کے اتحاد کی حفاظت فرمائی۔ مائیں بیٹوں کی سیرت و کردار بناتی ہیں اور انھیں صدق کا جوہر عطا کرتی ہیں۔ سیّدہ فاطمہؓ تسلیم و رضا کی کھیتی کا حاصل اور مائوں کے لیے اسوئہ کاملہ ہیں۔ا یک مسکین کے لیے آپؓ کا دل اس طرح تڑپا کہ اپنی چادر یہودی کے پاس فروخت کر کے اس کی مدد کی۔ نوری اور آتشی سب آپؓ کے فرماں بردار تھے۔ آپؓ نے اپنی رضا کو شوہر کی رضا میں گم کر دیا تھا۔ آپؓ نے صبرورضا کی ادب گاہ میں پرورش پائی تھی۔ ہاتھ چکّی پیستے اور لبوں پر قرآنِ پاک کی تلاوت ہوتی تھی۔ آپؓ کے آنسو تکیے پر کبھی نہ گرے (آپؓ نے تنگیِ حالات پرکبھی آنسو نہ بہائے)۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ علامہ اقبالؒ کا کلام بلاشبہہ قرآن و سنت کی تفسیر ہے۔ وہ اُمت مسلمہ کو اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا دیکھنے کے خواہش مند تھے۔ وہ عورت کو بھی اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرتا دیکھنا چاہتے تھے اور اس کی پاک طینت کو دین کی قوت اور ملّت کی بنیاد قرار دیتے ہیں۔ اسے زندگی کی حرارت کی پاسباں اور اس کی فطرت کو زندگی کے راز ہاے دروں کی لوح کہتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ وہ اسے آبرومندانہ زندگی گزارنے کا قرینہ بھی بتاتے ہیں۔ انھوں نے مسلم عورت کے لیے حضرت خدیجہؓ ، حضرت عائشہؓ اور حضرت فاطمہؓ کو رول ماڈل قرار دیا ہے، جب کہ بطور ماں اسے حضرت فاطمہؓ کے اسوہ سے روشنی حاصل کرنے کی تلقین فرماتے ہیں ؎
بتولے باش و پنہاں شو ازیں عصر
کہ در آغوش شبیرےؓ بگیری
(حضرت فاطمہؓ کی تقلید اختیار کرو اور اس دورِ جدید کے فتنوں سے چھپ جائو تاکہ تمھاری گود حضرت شبیرؓ جیسے فرزند سے بھر جائے۔)
مزید فرماتے ہیں ؎
مزرعِ تسلیم را حاصل بتولؓ
مادراں را اسوئہ کامل بتولؓ
(حضرت فاطمہؓ تسلیم و رضا کی کھیتی کا حاصل اور مائوں کے لیے اسوئہ کامل ہیں۔)
(تدوین: رفیع الدین ھاشمی)