عبدالرشید صدیقیo


  • ’تحریک اسلامی اور فکری چیلنج؟‘ (دسمبر ۲۰۱۵ئ)از سیّد سعادت اللہ حسینی بڑا فکرانگیز مقالہ ہے۔ امید ہے اہلِ دانش ان اُمور کی طرف توجہ فرمائیں گے جن کی نشان دہی کی گئی ہے۔ میرا یہ مقام نہیں کہ میں ان پر کوئی تبصرہ کرسکوں۔ صرف چند اہم مسائل کی طرف توجہ دلانی مقصود ہے جن کی تحریکی لٹریچر میں کمی محسوس ہوتی ہے۔

 دھریت اور تشکیک کا چیلنج:ایک اہم موضوع جس کی طرف توجہ کی ضرورت ہے وہ دہریت (Atheism) اور تشکیک (Agnosticism) ہیں۔ ان نظریات کے رد میں بہت کم لکھا گیا ہے۔ جو چیزیں لٹریچر میں موجود ہیں وہ ناکافی ہیں۔ خاص طور سے نئے چیلنج جو مغربی مفکرین نے بڑی شدومد سے اُٹھائے ہیں اور انھوں نے باقاعدہ دہریت کے پرچار کی تحریک چلائی ہے۔ ان کا مؤثر دلائل سے جواب نہیں دیا گیا ہے۔

دہریت کی ترویج و تبلیغ میں چند شخصیات کاخاصا نمایاں حصہ ہے۔ ان میں سب سے زیادہ پُرزور مبلغ رچرڈڈوکنس (Richard Dawkins)ہے جو اوکسفرڈ یونی ورسٹی میں پروفیسر رہ چکا ہے، اور مذہب کو دنیا کی سب سے بڑی بُرائی تصور کرتا ہے۔ اس کی کتاب The God Delusion  (خدا کا واہمہ) جو ۲۰۰۶ء میں شائع ہوئی اور سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب بن گئی اور نئی دہریت کی تحریک کی محرک بھی ثابت ہوئی۔ رچرڈ ڈوکنس بذاتِ خود اس تحریک کے فروغ میں سرگرم ہے۔ اس نے ۲۰۰۸ء میں لندن میں بسوں پر اشتہارات کے ذریعے دہریت کے پرچار کی مہم شروع کی تھی۔

اس سلسلے میں دوسرا اہم شخص کرسٹوفر ہٹ چنس(Christopher Hitchens) تھا جو اپنے آپ کو atheist (دہریہ) کہنے کے بجاے anti-theism کا مخالف کہتا تھا۔ اس لیے کہ theism (خدا پرستی) کے لیے کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اس کا کہنا تھا:’’جو چیز بغیر ثبوت کے مان لی جائے، وہ بغیر ثبوت کے رد کی جاسکتی ہے‘‘۔ اس کی کتاب God is not Great (خدا بالاتر نہیں ہے) جو ۲۰۰۷ء میں شائع ہوئی تھی کافی مقبول ہوئی جس میں اگرچہ تمام ہی مذاہب کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھالیکن خاص طور پر ابراہیمی مذاہب اس کا ہدف تھے۔ اس کی نظر میں یہ Axis of Evil (بُرائی کا محور) ہیں۔ اُس نے دہریت کے فروغ کے لیے جارحانہ رویہ اختیار کیا اور چیلنج کیا کہ وہ کسی بھی مذہبی اسکالر سے مناظرہ کرنے کے لیے تیار ہے۔ ۲۰۰۶ء میں جب ڈنمارک کے ایک اخبار نے نازیبا خاکے شائع کیے تھے تو اس نے ان کی حمایت میں ریلی نکالی تھی۔

دہریت کا تیسرا حامی مشہور سائنس دان اسٹیفن ہاکنگ(Stephen Hawking) ہے جو پہلے تشکیک کا شکار تھا لیکن اب علانیہ دہریت کو قبول کرلیا ہے۔ اس کی ۲۰۱۰ء میں شائع ہونے والی کتاب The Grand Design(اعلیٰ ڈیزائن) میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ کائنات کی تخلیق کے نظریے میں خدا کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے کیونکہ خدا کا کوئی وجود نہیں ہے اور نہ کائنات کو ہی کسی نے پیدا کیا ہے اور نہ کوئی ہماری تقدیر ہی بنارہا ہے اور مرنے کے بعد کوئی اور زندگی نہیں ہے۔

ان خیالات کی اشاعت کا نتیجہ یہ ہے کہ برطانیہ میں دہریت تیزی سے پھیل رہی ہے۔ اس کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ ۲۰۱۱ء کی مردم شماری میں وہ لوگ جنھوں نے اپنا کوئی مذہب نہیں بتایا ان کی تعداد ۱۰سال میں دگنی ہوگئی ہے۔ اب یہ لوگ ۱۴ملین سے زیادہ ہیں۔ اس طرح کُل آبادی کا ۱ئ۲۵، یعنی چوتھائی سے زیادہ تعداد میں ہیں۔ تقریباً اس طرح کی صورتِ حال دوسرے مغربی ممالک میں بھی ہے، لہٰذا یہ مسئلہ بڑی سنگین صورت اختیار کر رہا ہے۔

یہ مسئلہ اس لیے اور بھی ہمارے لیے قابلِ توجہ ہے کہ خود مسلمان نوجوانوں میں اس کے اثرات تیزی سے پھیل رہے ہیں اور وہ علانیہ یا خفیہ طور پر مرتد ہوکر اسلامی عقائد کے خلاف متحرک ہو رہے ہیں۔ برطانیہ میں چند سال قبل Council of Ex-Muslims (کونسل براے سابق مسلمان) قائم ہوئی تھی۔ اس کی ممبرشپ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ برطانیہ کے اخبارات اور ٹی وی پروگراموں سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمان نوجوان اپنے خاندان کے دبائو کی وجہ سے علی الاعلان دہریت کا اظہار نہیں کر رہے ہیں۔ سائمن کوٹ(Simon Cottee) کی حالیہ کتاب The  Apostates: When Muslims Leave Islam (مرتدین: جب مسلمان اسلام ترک کردیتے ہیں) میں ان مشکلات کا تجزیہ کیا گیا ہے جو انھیں پیش آتی ہیں۔ اس ضمن میں اسلام میں مرتد کی سزا کا مسئلہ بھی زیربحث رہتا ہے۔ کونسل آف ایکس مسلمز کا اثر زیادہ تر یونی ورسٹی کے طلبہ میں ہے اور اب یہ وبا یورپ کے دیگر ممالک میں بھی پھیل رہی ہے، اور بہت سے ملکوں میں اس طرح کی کونسلیں بن گئی ہیں۔ اب ایک متحدہ ادارہ Central Council of Ex-Muslims کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے۔ برطانوی کونسل کا ایک منشور (Manifesto) بھی ہے جس میں ۱۰نکات پر مشتمل اپنے حقوق کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔ ان کا کلمہ یہ ہے: There is no God and Muhammad is not the Messenger of God (کوئی خدا نہیں ہے اور محمد اللہ کے رسول نہیں ہیں)۔ افسوس کہ مسلمان دانش وروں (بشمول تحریکِ اسلامی کے زعما) کی طرف سے ان نظریات پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا اور نہ دہریت کی تردید ہی میں کچھ لکھا گیا ہے اور ارتداد کا مسئلہ بھی اسی طرح نظرانداز کیا جا رہا ہے۔

  •  سیاسی حکمت عملی کا چیلنج:ایک اور ہم مسئلہ جس کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ تحریک نے ہمیشہ صالح قیادت کو برسرِاقتدار لانے کی کوشش کو اپنا ہدف بنایا ہے اور اس کے لیے جمہوری طریقۂ کار سے انقلاب برپا کرنے کی کوشش کی ہے۔اب تک کے نتائج ملے جلے ہیں۔ انڈونیشیا، سوڈان، مراکش اور ترکی کے تجربات میں روشنی کی کرن ہے لیکن دوسرے بیش تر ممالک میں حالات ایک دوسرا ہی نقشہ پیش کر رہے ہیں۔اس طریقۂ کار کے اختیار کرنے سے خاطرخواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔ تاہم مصر میں اخوان نے الیکشن میں اکثریت حاصل کر کے حکومت بنائی جو بمشکل ایک سال قائم رہ سکی اور فوج نے اسے برطرف کر دیا۔ اس سے پہلے الجزائر میں اسلامی قیادت کو کچل دیا گیا تھا۔ مسلم ممالک میں منصفانہ انتخابات ہونا تقریباً ناممکن ہیں ۔ یہ بات متعدد تجربات سے سامنے آئی ہے۔ بالفرض غیرمنصفانہ انتخابات کے باوجود بھی    اگر ایک اسلامی جماعت برسرِاقتدار آبھی جائے تو اسے زیادہ عرصہ ٹکنے نہیں دیا جائے گا۔ خرم مرادؒ کا تجزیہ ہے کہ ’’دنیا میں اسلام کی راہ میں سب سے زیادہ مزاحم بیوروکریسی، فوج اور سرمایہ دار طبقے کا متحدہ محاذ ہے‘‘(مسائل و افکار، ص ۴۹)۔ مولانا مودودیؒ کا بھی یہی نظریہ ہے: ’’اب مسلمان ملکوں کے لیے ان کی فوجیں ایک مصیبت بن چکی ہیں… اب مسلمان ملکوں کی قسمتوں کے فیصلے انتخابات یا پارلیمنٹوں میں نہیں بلکہ فوجی بیرکوں میں ہو رہے ہیں‘‘۔(’دنیاے اسلام کی موجودہ حالت‘، ترجمان القرآن، جون ۱۹۶۳ئ)

یہ سب ہی ادارے بیرونی طاقتوں کے آلۂ کار بنتے رہے ہیں اور مسلم حکمران اپنے اقتدار کے تحفظ کے لیے ان ہی پر انحصار کرتے ہیں۔ حالیہ واقعات سے جو چیز سامنے آئی ہے وہ یہ کہ کم از کم تین عرب ممالک کی حکومتوں نے کھلم کھلا تحریکِ اسلامی کو کچلنے کا التزام کیا ۔ نہ صرف خود اپنے ملکوں میں بلکہ مغربی ممالک میں بھی تحریک کو ختم کرنے کے لیے وہاں کی حکومتوں پر زور ڈالا جس کے نتیجے میں وہاں اسلامی جماعتوں اور اداروں کے لیے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔

اس صورتِ حال میں تحریک کی حکمت عملی کیا ہو؟ ایک اہم سوال ہے۔ یہ بات ظاہرہے کہ سیاست دان اور حکمران ہر جائز اور ناجائز طریقے سے اقتدار پر قابض رہنا چاہتے ہیں اور اگر بعض لوگ اسلام کا نام لیتے بھی ہیں تو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ایسا کرتے ہیں۔ ان حالات میں کیا ساری قوت براہِ راست تبدیلی پر صرف کی جائے یا دوسرے ذرائع کے بارے میں بھی سوچ بچار اور نئے تجربات کی کوشش کی جائے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ براہِ راست ان سے اقتدار کی کش مکش کے بجاے ایسے ذرائع استعمال کیے جائیں جن سے وہ اصلاحات اور نتائج کسی نہ کسی حد تک حاصل کیے جاسکیں جو مطلوب ہیں؟ ان کے مصاحبین اور بااثر اشخاص کے ذریعے ان پر اثرانداز ہوکر وہ تبدیلیاں لائی جاسکیں۔ اصطلاحاً ان کو Hidden Persuders (خفیہ ترغیب دینے والے) کہہ سکتے ہیں جن کو ہم پس پردہ اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے بروے کار لاسکتے ہیں۔ اس طرح کی کامیاب کوشش مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ نے اکبر کے دربار میں بارسوخ افراد کے ذریعے کی تھی جس سے دین الٰہی کا خاتمہ عمل میں آیا۔ اس امر پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ سیاسی تبدیلی کے لیے جس قسم کی تنظیم کار اور مہم جوئی کی ضرورت ہے اسے کہاں تک اسلامی قوتوں نے اختیار کیا ہے۔

ایک اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ دنیا میں مسلمانوں کی تقریباً آدھی سے زیادہ آبادی غیرمسلم ممالک میں آباد ہے۔ ان کی ایک بہت بڑی تعداد ہندستان میں ہے، تاہم وہاں کے مسلمان حکومتوں کے امتیازی اور ناروا رویے اور شدت پسندقوتوں کے جارحانہ اقدامات کے باوجود کچھ بہتر پوزیشن میں ہیں کہ تاریخی طور پر ان کے حقوق کا تحفظ کسی نہ کسی حد تک برطانوی دور سے چلا آرہا ہے اور وہاں مساجد اور دیگر تعلیمی اور سماجی ادارے قائم ہیں۔ افسوس کہ اب انھیں بھی بڑھتی ہوئی ہندو جارحیت کا سامنا درپیش ہے لیکن مغربی ممالک میں آباد مسلمانوں کو جن مشکلات اور مسائل کا سامنا ہے، وہ کہیں زیادہ سنگین ہیں۔ اگرچہ فقہ الاقلیات میں کچھ پیش رفت ہوئی ہے خاص طور سے ہندستان میں اسلامک فقہ اکیڈمی اور یورپ میں Europeon Council for Fatwa & Research جو غیرمسلم معاشرے میں مسلمانوں کے مسائل پر رہنمائی کر رہے ہیں، تاہم تحریکی کام کے لیے ان کی حکمت عملی اور رول ماڈل کیا ہو؟ اس میں کوئی خاص رہنمائی مہیا نہیں کی گئی ہے۔ وہ اب بھی اپنے دیرینہ ملکی مسائل میں دل چسپی لیتے ہیں۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر یوسف القرضاوی کی کتاب Priorities of the Islamic Movement in the Coming Phase(عصرِحاضر میں اسلامی تحریک کی ترجیحات) میں مختصراً کچھ باتوں کا ذکر کیا گیا ہے لیکن کوئی قابلِ عمل تجاویز نہیں پیش کی گئی ہیں۔ اس شعبے میں مزید تحقیق اور راہ نمائی کی ضرورت ہے۔

یہ چند اُمور ہیں جن میں تحریکی لٹریچر کی تشنگی محسوس ہوتی ہے۔ امید ہے ارباب حل و عقد ان کا نوٹس لیں گے اور اپنے مفید مشوروں سے راہ نمائی فرمائیں گے۔

کتابیات

1.            Richard Dawkins: The God Delusion, Boston: Houghton Mifflin, 2006.

2.            Chrostopher Hitchen: God is Great: The Case Against Religion, Atlantic Books, 2007.

3.            Stephen Hawking and Leonard Mlodinow: The Grand Design, Bantam Books, 2010.

4.            Cottee, Simon: The Apostates: When Muslims Leave Islam, London: C. Hurst & Co, 2015.

5.            http://ex-muslim.org.uk/manifesto

.6            خرم مراد، مسائل اور افکار، لاہور، منشورات، لاہور۔

.7            سیّدابوالاعلیٰ مودودی، دنیاے اسلام کی موجودہ حالت، ترجمان القرآن، جون ۱۹۶۳ئ۔

8.            Sheikh Yusuf Al-Qaradawi: Priorities of the Islamic Movement in the Coming Phase, Swansea: Awakening Publications, 2000, pp. 179-185.

بلاشبہہ یہ ایک حقیقت ہے کہ متحدہ ریاست ہاے امریکا ایک سامراجی مملکت ہے۔ سوویت یونین کے سقوط کے بعد جب کمیونسٹ بلاک منتشر ہوگیا تو پھر امریکا تاریخ کا سب سے زیادہ بااثر ملک بن گیا جس کا دبدبہ تمام عالم پر چھا گیا۔ اس کے فوجی اڈے دُنیا کے ۱۴۰ ممالک پر محیط ہیں۔ ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء (نائن الیون) کے حادثے سے پہلے بھی امریکی فوج ۷۰ممالک میں مستقلاً اپنے اڈے قائم کیے ہوئے تھی۔ نائن الیون کے حالات سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اور اپنے مفروضہ خدشات کی بنا پر اس نے اپنی فوجی قوت کو دگنا کر دیا۔ اس کی عسکری طاقت کا اندازہ صرف اس بات سے ہوسکتا ہے کہ اس کی افواج اور ملٹری اخراجات کا بجٹ دیگر بڑی بڑی طاقتوں کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ ہے۔ ظاہر ہے یہ اس کے دفاع اور ملک کی حفاظت سے کہیں زیادہ ہے۔

امریکا نے اس بہانے، کہ وہ دنیا میں امن اور جمہوریت کو فروغ دینا چاہتا ہے، ان وسائل کے حصول کو سند ِ جواز بخشی ہے اور اس زبردست قوت کو مجتمع کیا ہے۔ حالانکہ اگر حقائق پر نظر رکھی جائے تو پچھلے ۵۰برسوں میں امریکا کئی وسیع پیمانے پر ہونے والی جنگوں میں ملوث رہا ہے۔ یہ جنگیں کوریا ، ویت نام، کمبوڈیا، لائوس، صومالیہ، عراق (دو مرتبہ) اور افغانستان میں ہوئی ہیں۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت ساری مختصر فوجی کارروائیاں کیوبا،پاناما اور سربیا میں بھی کی گئی ہیں۔ مزید فوجی انقلاب (coup) جو ایران، گوئٹے مالا، برازیل، انڈونیشیا، نکاراگوا اور چلّی میں برپا ہوئے ان میں امریکا کی پشت پناہی شامل رہی۔ اس پر مستزاد یہ کہ جو عوامی تحریکات یونان، فلپائن اور دیگر جنوبی امریکا کے متعدد ممالک میں ہوئیں ان کو ناکام بنانے اور دبانے میں امریکا کا ہاتھ رہا ہے۔ فرڈینڈ مائونٹ ایک برطانوی مبصر کا تجزیہ ہے کہ ۱۶۸ مختلف فوجی اقدامات میں امریکی افواج کا دخل رہا ہے۔ ان جنگوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد کئی ملین کے قریب ہے۔ اس طرح یہ سامراجی قوت نہایت سفّاک اور بدطینت ہے، بمقابلہ ان قوتوں کے جو پہلے گزر چکی ہیں۔ اس بات کی تائید رچرڈ فالک (Richard Falk) نے اپنی کتاب  Choose and Counter Revolution: After the Arab Spring(انقلاب کا انتخاب اور مقابلہ کیجیے، عرب بہار کے بعد) جو اس سال شائع ہوئی، میں کی ہے۔ انھوں نے ’بہارِعرب‘ کے حوالے سے جو تجزیہ پیش کیا ہے اس میں بڑی وضاحت سے لکھا ہے:

امریکا کی نہایت اہم حکمت عملی اس خطے کے لیے عام طور پر یہی رہی ہے کہ وہ ظالمانہ اور آمرانہ حکومتوں کی پشت پناہی کرے تاوقتیکہ وہاں کی قیادت مغرب کے ساتھ دوستانہ رہے۔ اگر حکومت کے بارے میں یہ تاثر ہو کہ وہ مخالفانہ رویہ رکھتی ہے یا اپنی مملکت کو قابو میں نہیں رکھ سکتی تو اس صورتِ حال میں وہ امریکی فوجی مداخلت کا نشانہ بن جاتی ہے، تاکہ اس کے بجاے کوئی اور دوستانہ، فرماں بردار اور بااثر قیادت کو اقتدار حاصل ہوجائے۔ (ص۱۴)

فوجی کارروائیوں کے علاوہ بھی امریکی استعماری قوت کا مظاہرہ اس کی عالمی، تجارتی اور مالیاتی سرگرمیوں سے ہوتا ہے، جسے coca-colonization کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔ امریکی تجارتی ادارے اپنے مشروبات اور مصنوعات دنیا بھر میں رائج کر کے اپنے کلچر اور ثقافت کو خوب فروغ دے رہے ہیں۔ ہندستانی نژاد راہول مہاجن  اپنی کتاب The New Crusede: American War on Terrorism (نئی صلیبی جنگ: امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ)میں لکھتے ہیں:

ترقی یافتہ ممالک کے تجارتی اداروں کو پس ماندہ ممالک کے تجارتی اداروں کے مقابلے میں بہت زیادہ فوقیت حاصل ہوتی ہے۔ چنانچہ یا تو وہ ان کو ضم کرلیتے ہیں یا بالکل تباہ کردیتے ہیں۔ اس وجہ سے امریکا کے آزادانہ تجارتی معاہدات اصلاً پس ماندہ ممالک کی آزادانہ پالیسی کے لیے پیغامِ موت ہے۔ نئے عالمی نظم (New World Order ) کو بروے کار لانے اور ان ممالک میں اپنا کنٹرول قائم کرنے کے لیے آئی ایم ایف (عالمی مالیاتی فنڈ)، عالمی بنک، عالمی تجارتی ادارہ جو بظاہر بین الاقوامی ادارے ہیں لیکن حقیقتاً یہ سب امریکا کے کنٹرول میں ہیں،اس کے آلۂ کار ہیں۔ (ص ۱۰۲-۱۰۳)

متحدہ ریاست ہاے امریکا اب ایک نئی سامراجی قوت ہے اور اس کی فوجی قوت کے علاوہ چونکہ آئی ایم ایف اور عالمی بنک بھی اس کے دائرۂ اقتدار میں ہیں، اس لیے اس نے ترقی پذیر ممالک کو قرض کے پھندوں میں جکڑ رکھا ہے۔ ان ممالک کو ان بین الاقوامی اداروں کی عائدکردہ پابندیوں کو مجبوراً قبول کرنا ہوتا ہے تاکہ ان کو قرض مل سکے۔ انھیں اپنی برآمدات کو بڑھانے کی خاطر اپنے مزدوروں کی تنخواہوں کو کم کرنا پڑتا ہے۔ وہ بین الاقوامی کمپنیوں کو اپنے ملکوں میں تجارت کرنے کی سہولتیں دینے پر مجبور ہوتے ہیں اور ظاہر ہے کہ مقامی کمپنیاں ان سے مقابلہ نہیں کرسکتیں۔ اس طرح آزادیِ تجارت کے بہانے امریکا اور اس کے تجارتی ادارے بین الاقوامی تجارت پر پوری طرح حاوی ہیں۔ آئی ایم ایف، عالمی بنک اور WTO کی بدولت امریکا کا تسلط ترقی پذیر ممالک پر قائم ہے۔ بظاہر یہ ممالک آزاد اور خودمختار ہیں لیکن حقیقتاً سب امریکا کی غلامی میں پھنسے ہوئے ہیں۔ امریکی قوت اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ ان ممالک میں آمرانہ اور کٹھ پتلی حکمران برسرِاقتدار رہیں تاکہ وہ اپنے آقا کے احکامات کو نافذ کرسکیں۔ انھیں حقوقِ انسانی اور معاشرے کی فلاح و بہبود کی ذرہ برابر بھی پروا نہیں ہوتی اور وہ لوگ جو امریکا کی پالیسیوں سے انحراف کا راستہ اختیار کرنے کی جرأت کرتے ہیں ان کو دست بردار کردیا جاتا ہے اور ان کے بجاے اپنے فرماںبردار لوگوں کو مسلط کردیا جاتا ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ یہ سب ڈراما حقوقِ انسانی اور جمہوریت کے نام پر رچایا جاتا ہے۔ کچھ لوگ اس صورتِ حال کو حقوقِ انسانی کا امپریلزم کہتے ہیں، جو حقوقِ انسانی کی اصطلاح کی توہین ہے اور ناقابلِ قبول تصور ہے۔

عسکری، سیاسی، تجارتی اور مالیاتی ہتھکنڈوں کے ساتھ میڈیا کی قوت ہے جسے سامراجی مقاصد کے لیے بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس بات کو بھی ملحوظ رکھنا چاہیے کہ اب اس نئی سامراجیت کا اصل ہدف اُمت مسلمہ ہے اور خاص طور پر اسلامی تحریکات جو امریکا کے عالمی تسلط کے منصوبے میں مزاحم سمجھی جاتی ہیں۔ مغربی مفکرین برملایہ کہہ رہے ہیں کہ احیاے اسلام کے لیے کوشاں جماعتیں ان کے لیے خطرے کا باعث ہیں۔ فرانسس فوکویاما جو مشہور امریکی دانش ور ہے، اپنے ایک مضمون ’اصلی دشمن‘ (The Real Enemy) میں، جو نیوزویک کے دسمبر۲۰۰۱ء کی خاص اشاعت میں شائع ہوا تھا، ۲۰۰۲ء کے مسائل کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ اسلامی انقلاب پسند کسی طرح بھی اختلافات کو برداشت نہیں کریں گے۔ یہ لوگ ہمارے دور کے فاشسٹ ہیں اور ہمیں ان کے خلاف جنگ کرنا ہوگی۔ اس کا پیغام بالکل واضح ہے۔ اگر مسلمان مغرب کے ساتھ اپنے تعلقات برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو وہ اسلامی آئیڈیالوجی ترک کر دیں کیونکہ یہ نہ صرف مذہبی رسومات تک محدود ہے بلکہ زندگی کے تمام شعبوں پر ، چاہے وہ سماجی ہوں، سیاسی ہوں یا ثقافتی، حاوی ہے۔

سوال یہ ہے کہ یہ جنگ جو ہمارے ایمان اور طرزِحیات پر مسلط کی جارہی ہے اس کے مقابلے کے لیے حکمت عملی کیا ہے؟ ایک نہایت آسان سا راستہ تو یہی ہے کہ ہم یہ سب من و عن قبول کرلیں جو ہم پر تھوپا جا رہا ہے۔ یہ رویہ تو ہمارے بہت سے لیڈر جو مغرب کی طاقت سے بے حد مرعوب ہیں، قبول کرنا چاہتے ہیں۔ وہ محسوس کرتے ہیں کہ ان میں اتنی حکمت نہیں ہے کہ وہ یہ چیلنج قبول کریں لیکن ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ سچائی کی راہ پر چلنا کبھی بھی آسان نہیں ہوتا۔ یہ راہ مشکلات سے گھری ہوئی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ نیکی کی راہ تنگ ہے اور اس پر چلنے والے کم ہی ہوتے ہیں، لیکن بدی کا راستہ کشادہ اور آسان ہوتا ہے اور اس پر چلنے والوں کا ہجوم ہوتا ہے۔ نشیب کی طرف پھسلنا آسان ہوتا ہے لیکن اُونچائی پر چڑھنے کے لیے جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ یہ وہ راستہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے عقبہ(دشوار گزار گھاٹی) سے سورۃ البلد میں موسوم کیا ہے اور فرمایا: وَہَدَیْنٰـہُ النَّجْدَیْنِ o فَلاَ اقْتَحَمَ الْعَقَبَۃَ o (البلد ۹۰:۱۰-۱۱)’’ہم نے دونوں نمایاں راستے دکھا دیے ہیں مگر اس نے دشوار گزار گھاٹی سے گزرنے کی ہمت نہ کی‘‘۔

قرآن میں انبیا علیہم السلام کے متعدد واقعات تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بہت کم لوگوں نے ان کی دعوت کو قبول کیا لیکن وہ بددل نہیں ہوئے بلکہ اپنے مشن پر مسلسل گام زن رہے۔ انھوں نے مصالحت کی آسان راہ نہیں اختیار کی۔ یہی وہ راہ ہے جو ہمیں اختیار کرنی ہے۔ ایک مرتبہ پُریقین ہوکر اگر ہم نے اپنے آپ کو اس کام پر لگا دیا ہے تو پھر کوئی پس و پیش کا سوال ہی نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں مستقل مزاجی سے تمام مشکلات کا مقابلہ کرنا ہوگا۔

درپیش چیلنج اور حکمت عملی

اس صورتِ حال میں مسلمان حکومتوں کی کیا ذمہ داریاں ہیں؟ ایک اہم موضوع ہے جس پر مفصل گفتگو کی ضرورت ہے۔ فی الوقت صرف اُمت مسلمہ کی اور بالخصوص وہ مسلمان جو مغرب میں آباد ہیں ان کی ذمہ داریوں کی نشان دہی مقصود ہے۔ کیوںکہ ان کا سابقہ وہاں کی مقامی آبادی سے رہتا ہے اور ان کی اہم ذمہ داری یہ ہے کہ اسلام کی دعوت کو وہاں عوام تک اس طرح پہنچائیں کہ وہ اسلام کے بارے میں ان بدگمانیوں کو دُور کرسکیں تاکہ خوف کی فضا (Islamphobia) ،   جو بنائی جارہی ہے، وہ دُور ہوسکے۔ خاص طور سے ان حالات میں` جب کہ ہم میں سے کچھ عاقبت نااندیش افراد اور جماعتوں نے جہاد کے نام پر جارحیت اور دہشت گردی کی راہ اختیار کرکے اسلام کو بدنام کیا ہے، اور دعوتِ اسلامی کی کوششوں کو اور مشکل بنا دیا ہے اور اس کی راہ مسدود کی ہے۔ تاہم ان تمام مسائل اور مشکلات کے علی الرغم ہمیں ایک منضبط راہِ عمل اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں پوری اُمت مسلمہ اور خصوصیت سے مغربی ممالک کے مسلمانوں کی خدمت میں کچھ گزارشات غور کرنے کے لیے پیش کی جارہی ہیں۔

۱- سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ ہمارا اللہ تعالیٰ پر پختہ ایمان ہو اور ہم مسلسل اس کی مدد طلب کرتے رہیں۔ اللہ سے اپنے تعلق کو استوار رکھیں۔ وہ نہایت رحیم و شفیق ہے اور اس کا یہ وعدہ ہے کہ وہ ان لوگوں کو تمام مشکلات سے نجات دے گا جو اس پر ایمان رکھتے ہیں:

فَاسْتَجَبْنَا لَہٗ وَ نَجَّیْنٰہُ مِنَ الْغَمِّ ط وَ کَذٰلِکَ  نُنْجِی الْمُؤْمِنِیْنَ o(الانبیاء ۲۱:۸۸) تب ہم نے اس کی(حضرت یونس ؑ) کی دعا قبول کی اور غم سے اس کو نجات بخشی اور اس طرح ہم مومنوں کو بچا لیا کرتے ہیں۔

ہمیں اپنے مقصد کا پورا شعور ہو کہ ہمیں اللہ کی بات اس کے بندوں تک پہنچانی ہے اور اس کے لیے ہرممکنہ جدوجہد کریں تو ضرور اللہ کی مدد ہمارے شاملِ حال ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا وعدہ بھی فرمایا ہے:

وَ مَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَۃَ وَ سَعٰی لَھَا سَعْیَھَا وَ ھُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓئِکَ کَانَ سَعْیُھُمْ مَّشْکُوْرًاo( بنی اسرائیل ۱۷:۱۹) اور جو آخرت کا خواہش مند ہو اور اس کے لیے سعی کرے جیسی کہ اس کے لیے سعی کرنی چاہیے اور ہو وہ مومن تو ایسے ہرشخص کی سعی مشکور ہوگی۔

۲- ہرانسان کی تخلیق اللہ تعالیٰ نے خود ہی کی ہے جیساکہ فرمایا: وَ اِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیْ خَالِقٌم بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ o فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ وَ نَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَہٗ سٰجِدِیْنَo (الحجر ۱۵: ۲۸-۲۹)’’ جب تمھارے رب نے ملائکہ سے کہا کہ میں ایک بشر پیدا کر رہا ہوں، جب میں اسے پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح سے کچھ پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدے میں گر جانا‘‘،  تو پھر ہم کیوں کسی شخص کو اسلام کی نعمت سے محروم رکھیں۔ یہ اُمت مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام انسانوں تک جہاں کہیں بھی ہوں اسلام کی دعوت پہنچائے۔ جو بھی ذرائع ہمیں میسر ہیں ہم اپنے دوستوں، رشتہ داروں، ہمسائیوں چاہے قریب ہوں یا دُور، اللہ تعالیٰ کے پیغامِ رحمت و فضل سے محروم نہ رکھیں۔

۳- ہمیں یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ ہر انسان بدل سکتا ہے۔ برائی کو اچھائی سے بدلا جاسکتا ہے جیسا کہ قرآنِ حکیم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّئَۃُ ط اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَاِِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌo(حم السجدہ ۴۱:۳۴) اور اے نبیؐ، نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔ تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو۔ تم دیکھو گے کہ تمھارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے۔

ہمیںاپنی تاریخ میں اس کی مثالیں ملتی ہیں کہ کس طرح دشمن، جانثار دوست بن گئے۔ تاتاریوں نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی اور خلافت ِ عباسیہ کا قلع قمع کر دیا تھا لیکن پھر یہی تاتاری ایمان لاکر اسلام کے داعی بن گئے۔ اقبال نے اس واقعے کی طرف اشارہ کیا ہے    ؎

ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے

پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

۴- انسان کو متاثر کرنے کی کنجی اس کے دل میں ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے بڑی حکمت کی بات فرمائی ہے:

دلوں کی کچھ خواہشیں اور میلانات ہوتے ہیں اور کبھی کسی وقت وہ بات سنے کے لیے تیار رہتے ہیں اور کسی وقت تیار نہیں رہتے۔ تو لوگوں کے دلوں میں ان میلانات کے اندر سے داخل ہو اور اس وقت اپنی بات کہو جب وہ سننے کے لیے تیار ہوں، اس لیے کہ دل کا حال یہ ہے کہ جب اس کو کسی بات پر مجبور کیا جاتا ہے تو وہ اندھا ہوجاتا ہے۔(کتاب الخراج، ابویوسف بحوالہ راہِ عمل، جلیل احسن ندوی،ص ۳۳۲)

یہ اس بات کی تلقین ہے جو اللہ تعالیٰ نے فرمائی:

اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَ الْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَ جَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ ط (النحل ۱۶: ۱۲۵) اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقے پر جو بہترین ہو۔

۵- بہت کم لوگ کتابیں پڑھ کر اور تقریریں سن کر متاثر ہوتے ہیں۔ عمل اور پاکیزہ اعلیٰ اخلاق کے مظاہر الفاظ سے زیادہ متاثر کرتے ہیں۔ یہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نرم مزاجی اور اعلیٰ اخلاق اور ساتھ ہی طبیعت کی گرم جوشی اور رحم دلانہ برتائو تھا جس نے لوگوں کے دل جیت لیے تھے۔ اس بات کی تصدیق خود قرآن نے کی ہے:

فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْ وَ لَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ (اٰلِ عمرٰن ۳:۱۵۹) یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو۔ ورنہ اگر کہیں تم تُندخو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمھارے گردوپیش سے چھٹ جاتے۔

یہ ہمارے آبا و اجداد ہی کے اخلاق تھے جن سے ساحل ملہار (جنوب مغربی ہندستان)، ملایشیا اور انڈونیشیا میں لوگ مسلمان ہوئے۔ وہاں یہ لوگ بطور تاجر گئے تھے اور وہاں جاکر انھوں نے اسلامی تعلیمات کو پھیلا دیا اور ملک کے ملک مسلمان ہوگئے۔ ان ممالک میں مسلمانوں نے کوئی فوج کشی نہیں کی۔ ہمیں غیرمسلموں کے دل جیتنے ہیں۔ انھیں اسلام کی طرف راغب کرنا ہے، اس لیے بین المذاہب مکالمات اور آپس کے تعلقات کو بحال کرنا ہوگا۔ ممکن ہے کہ ہماری کوشش کے باوجود ہم بہت سارے لوگوں کو اسلام کے دامن میں نہ لاسکیں۔ تاہم یہ بھی ممکن ہے کہ ہم بہت سے لوگوں کے دلوں میں اسلام کے لیے نرم گوشہ پیدا کرسکیں۔اس طرح اگر ہم اپنی دعوت کو عام کرنے کی کوشش کریں تو اللہ سے اُمید ہے کہ یہ نفرت کی فضا جو اسلام کے خلاف پھیلی ہوئی ہے بدل جائے اور اسلام کی صحیح تعلیمات عوام تک پہنچ جائیں اور ہم ان کے دل جیت سکیں۔

۶- تشدد اور جذباتیت کے بجاے اگر ہم حکیمانہ طور سے لوگوں کے دل جیتنے کی کوشش کریں تو اس میں کامیابی ہوسکتی ہے۔ اگر اس طرح کی نعرے بازی کی جائے جو لوگوں کو خوف زدہ کرے تو وہ کیوں ہماری بات سنیں گے۔ لہٰذا بجاے جارحانہ رویے کے اگر ہم حکمت اور دانائی سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرسکیں تو کامیابی ہوسکتی ہے۔ اگر ہم لوگوں کی بھلائی اور ان کے مفاد کے لیے کام کریں تو وہ یقینا اس کو سراہیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ جس طرح مغرب کے لوگوں کا اسلام اور مسلمانوں کا کلچر سمجھنا ضروری ہے، اسی طرح ہمیں بھی مغرب کی ان اقدار جیساکہ منصفانہ رویہ، خیرخواہی کا جذبہ، جمہوری طریقۂ کار اور وقت کی پابندی کی قدر کرنی چاہیے۔

۷- مغربی ممالک میں جمہوری طریقۂ کار رائج ہے۔ اقتدار محض مرکزی حکومت کے پاس نہیں ہوتا۔ اپوزیشن پارٹی کے منتخب نمایندے، لوکل کونسلر، میڈیا کے نمایندے، پریشر گروپ اور خود مرکزی اور لوکل گورنمنٹ کی مشینری، ان سب کا اثر حکومت کی پالیسی بنانے میں شامل ہوتا ہے۔ اگر ان اداروں میں بھی ہماری موجودگی ہو یا ان تک ہماری رسائی ہو تو ہم بھی بااثر ہوسکتے ہیں۔

۸- مسلمان بحیثیت مجموعی علم کے میدان میں بہت پیچھے ہیں۔ علم کے تمام شعبوں میں خاص طور سے سائنس اور ٹکنالوجی میں ہمیں کافی پیش رفت کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک ہم ان علوم میں فوقیت حاصل نہیں کرتے ہم مغرب میں وہ مقام نہیں حاصل کرسکتے کہ دنیا کو درپیش مسائل کا کوئی حل پیش کرسکیں اور اس طرح دنیا کی قیادت کا مقام حاصل کرسکیں۔

مغرب میں اب مسلمان غیرمسلموں کے ہمسایے ہیں۔ وہ یورپ اور امریکا کے کارخانوں، فیکٹریوں، دفتروں، اسکولوں اور کالجوں میں غیرمسلموں کے ساتھ شریک ہیں۔ اس لیے یہ لازمی ہے کہ ان میں باہم اعتماد اور حمیت کی فضا ہو، نہ کہ شک و شبہے کی۔ اس صورت حال میں مسلمانوں کو اسلام کی دعوت غیرمسلموں تک پہنچانے کے بہترین مواقع حاصل ہیں۔ وہ اپنے کردار اور اخلاق کے ذریعے لوگوں کو متاثر کرسکتے ہیں۔

ہمیں سوپر پاور سے خوف زدہ اور مرعوب ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ بقول پروفیسر خورشیداحمد: ’’تاریخ ایک دو نہیں بلکہ درجنوں سوپرپاور کا قبرستان ہے‘‘۔ ہم نے اپنی زندگی میں دیکھ لیا کہ وہ برطانیہ جس کی سلطنت پر سورج کبھی غروب نہیں ہوتا تھا، اس کی یہ شہنشاہیت ختم ہوگئی۔ اسی طرح سوویت یونین جس کا بڑا دبدبہ تھا، شکست و ریخت کا شکار ہوگیا۔ فوکویاما جو The End of History and The Last Man (تاریخ کا اختتام اور آخری انسان)کا مصنف ہے اور اس طرح کے اور لوگ جو سمجھتے ہیں کہ امریکا ہمیشہ کے لیے سوپرپاور رہے گا، انھوں نے تاریخ سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔اس کے برعکس نیل فرگوسن جو اگرچہ امپریلزم کا زبردست حامی ہے اور عراق میں جنگ کے حق میں تھا، اس نے اپنی کتاب Colossus: The Rise and Fall of American Empire(عظیم الجثہ: امریکی ریاست کا عروج و زوال)میں پیش گوئی کی ہے کہ امریکا اپنی سامراجی قوت کو قائم نہیں رکھ سکے گا اور اس کا خاتمہ اور تباہی کا سبب اس کی داخلی قوتیں ہی ہوں گی۔

اگرچہ موجودہ صورت حال میں ہمارا کام مشکل ہے، لیکن اس میں ہمارے لیے بڑا اجر بھی ہے۔ ہمیں صبروثبات اور حکمت و دانش مندی سے تمام علوم اور ہنر حاصل کرتے ہوئے اللہ کے دین کی دعوت اوروں تک پہنچانا ہے۔ بلاشبہہ اُمت مسلمہ اس وقت نہایت نازک دور اور کڑی آزمایش سے گزر رہی ہے لیکن ہمیں پُرامید رہنا چاہیے۔ اگر ہم اپنے ایمان اور دلی وابستگی کے ساتھ اس راہ پر پوری طرح گامزن رہیں تو ان شاء اللہ اس کی مدد ضرور شاملِ حال ہوگی۔