بدقسمتی سے تخفیف آبادی کے مسئلے کا جائزہ بھی ہم مغرب کی دی ہوئی عینک لگا کر ہی لیتے ہیں۔ اس لیے اس کا اصلی رنگ اور حقیقی اہداف ہماری نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔ تخفیف آبادی مہم بھی اسی کوشش کی ایک شکل ہے جسے بڑے مغالطہ کن (deceptive) معاشی نعروں کے ساتھ جنگی بنیادوں پر سر کرنے کے عزائم کا اظہار کیا گیا ہے۔یہ درحقیقت مسلم معاشرے کی بنیاد ’خاندان‘ اور اسلامی اقدارو روایات اور تشخص کو درہم برہم کرنے کی سازش ہے۔ جن معاشی مقاصدکی دہائی دے کر یہ کام کیا جا رہا ہے وہ محض ایک دھوکا اور واہمہ ہیں اور یہ مہم حقیقتاً مغربی اقوام کے باقی دنیا پر سیاسی غلبے اور تہذیبی تسلط کا ایک پروگرام ہے۔ مسئلے کی نوعیت کو جاننے کے لیے اس کا پس منظر جاننا ضروری ہے۔
تھامس مالتھس (۱۷۶۶ئ-۱۸۳۴ئ) نے ۱۷۹۸ء میں اپنے رسالے آبادی پر مقالہ میں آبادی اور زمینی وسائل کے عدم تناسب کا نظریہ پیش کیا اور انگلستان کے گرتے ہوئے معیارِ زندگی کا سبب تین عوامل کو ٹھیرایا تھا: l کثرتِ آبادی l بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے وسائل کی کم یابی lنچلے طبقوں کی غیر ذمہ داری۔
اس نظریے میں اس نے وضاحت کی تھی کہ انسانوں کی آبادی جیومیٹریکل تناسب سے، جب کہ پیداوار کی شرح ریاضیاتی تناسب سے بڑھتی ہے۔ اس کے خیال میں آسمانی آفات اور وبائی بیماریوں سے اموات آبادی کو کنٹرول کرنے کا قدرتی ذریعہ ہیں۔
آیندہ نسلوں کی بقا اور مسائل کا جو حل مالتھس نے پیش کیا وہ علمی اور تحقیقی بحث سے قطع نظر بیسویں صدی کے امریکی اور یورپی پالیسی سازوں کے لیے اپنے استعماری اور نسل پرستانہ عزائم کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کا ایک اہم ذریعہ اور جواز بن گیا۔
ریاست ہاے متحدہ امریکا کو نصف صدی سے زیادہ عرصے سے اس فکر نے پریشان کر رکھا ہے کہ آبادی کے حجم اور تقسیم میں واقع ہونے والے فرق کی وجہ سے وہ بالآخر دنیا کی سوپرطاقت کی حیثیت سے معزول ہوجائے گا۔ لہٰذا کوئی تعجب کی بات نہیں کہ اثرورسوخ کے جو بھی ذرائع میسر ہوں ان سے ایسے اقدامات کیے جائیں جن کا براہِ راست اثر زیادہ بارآور معاشروں کی آبادی کے رجحانات پر ہو۔
جنوری ۱۹۹۳ء میں واشنگٹن پوسٹ نے چارلر کوتھمر کا ایک مضمون شائع کیا جس میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کو روسی امپریلزم سے زیادہ خطرناک قرار دیا، اور کہا کہ اس معرکے میں حصہ لینے والے ہرشخص اور ہرحکومت کی مالی مدد کی جائے اور مسلمانوں کی صفوں میں گھس کر ان کی آبادی کو کم کرنے کے لیے کام کیا جائے، حتیٰ کہ ان کی شرح آبادی میں اضافہ صفر تک پہنچ جائے۔
دوسری طرف امریکا روس کی پسپائی کے بعد ’یونی پولرقوت‘ کے طور پر باقی رہ گیا ہے۔ مادی ترقی کے ثمرات نے جہاں ہرطرح کی آسایشیں بہم پہنچائی ہیں وہیں اس ترقی نے مغربی معاشرے کے خاندانی نظام کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ ۱۹۹۳ء میں امریکی حکومت کے سروے کے مطابق تمام تر احتیاطی تدابیر جن میں کنڈوم کا استعمال سرفہرست ہے، ۶۵ فی صد بچے ناجائز پیدا ہوئے جن کی کفالت حکومت کو کرنا پڑتی ہے اور وہ حکومتی خزانے پر بوجھ ہوتے ہیں، جب کہ ۱۹۷۷ء تا ۱۹۹۹ء جرائم میں ۶۰ فی صد اضافہ ہوا۔ (دی اکانومسٹ، اکتوبر ۱۹۹۴ئ)
۱۹۷۴ء میں اقوامِ متحدہ کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ آبادی کے بارے میں بین الاقوامی پالیسی تشکیل دے اور طے کیا گیا کہ ہر ۱۰ سال بعد آبادی اور ترقی کے بارے میں خصوصی بین الاقوامی کانفرنس ہوگی۔ ۱۹۷۴ء میں پہلی کانفرنس بخارسٹ میں، ۱۹۸۴ء میں دوسری کانفرنس میکسیکو میں، ۱۹۹۴ء میں مشہور قاہرہ کانفرنس جسے ICPP کا نام دیا گیا، اور ۱۹۹۵ء میں بیجنگ کانفرنس، ۲۰۰۰ء میں بیجنگ پلس فائیو کانفرنس منعقد ہوئی۔ دنیا کے رہنمائوں نے ان کانفرنسوں کی سفارشات پر دستخط کیے او ر عمل درآمد کا وعدہ کیا۔ اس وقت اقوام متحدہ کے ۱۷ بڑے ادارے اس مقصد کے لیے سرگرمِ عمل ہیں۔ دنیا بھر میں ۱۳۵ سے زائد بین الاقوامی غیرحکومتی انجمنیں (این جی اوز) اس کام میں لگی ہوئی ہیں۔ ان کا طریقۂ کار یہ ہے کہ پہلے اقوام متحدہ کی آبادی سے متعلق تنظیم کسی بھی ملک کو فنڈ فراہم کرتی ہے اور حکومتیں ان کی من مانی شرائط تسلیم کرتی ہیں۔ جب امریکا اور عالمی ادارے ان ملکوں کی معاشی حالت کا حلیہ بگاڑ لیتے ہیں تو ایک ہی حل پیش کرتے ہیں: ’’گرتی ہوئی معیشت کو سہارا دینے کے لیے اپنی آبادی کو یکسر کم کریں تاکہ ان کے وسائل و ذرائع پر بوجھ کم ہو‘‘۔ امریکی پالیسی سازوں نے اپنی منظم تدریجی پروپیگنڈا مہم کے ذریعے ان ملکوں کی حکومتوں کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیا ہے۔
شروع شروع میں کہیں مزاحمت کی جاتی ہے جیسے اسلامی ملکوں میں انڈونیشیا میں ایک کانفرنس کے شرکا نے آبادی کم کرنے کی پالیسی کی زبردست مخالفت کی، تو حکمت عملی یہ اختیار کی گئی کہ دینی اداروں کے ذریعے تحدید نسل کی پالیسی کو رائج کیا جائے تاکہ مخالف سمتوں سے اُٹھنے والی تحریکوں کا سدباب کیا جاسکے۔ رباط کانفرنس میں عالمِ اسلام کے نمایندوں کو اقوام متحدہ کے تحدید آبادی فنڈ کی طرف سے ایک مراسلہ سنایا گیا کہ وہ ضرورت کا احساس کریں کہ الازہر یونی ورسٹی میں ایک مطالعہ و تحقیق آبادی مرکز قائم ہو۔ چنانچہ اقوام متحدہ کے فنڈ براے آبادی نے ایک اسلامی مرکز کے قیام اور اس کے لیے کئی پروگراموں کی منصوبہ بندی کی جس کا مقصد طلبہ کی عملی تربیت ہو، تاکہ وہ تحدیدنسل کے لیے مخصوص مواد شائع اور تقسیم کرنے کا کام کرسکیں۔ چنانچہ ازہر یونی ورسٹی میں یہ مرکز قائم ہوگیا۔ ۱۹۸۰ء میں اس مرکز نے اعلان کیا کہ مصری عورتوں کی تولیدی صلاحیت کو مصری ذرائع ابلاغ سے منظم پروپیگنڈے کے ذریعے کنٹرول کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ تب امریکا نے اس سینٹر کی سرگرمیوں کے لیے فراخ دلی سے امداد دی۔ چنانچہ استعماری ایجنڈے کو ’فکرِاسلامی‘ کا لیبل لگ گیا۔
الازہر نے پانچ سالہ منصوبہ بنایا۔ ۱۹۹۱ئ-۱۹۹۲ء میں الازہر نے جو تحریریں شائع کیں ان میں کہا گیا کہ عالمِ اسلام کی بڑھتی ہوئی آبادی کی روک تھام کے لیے اس امر کی شدید ضرورت محسوس کی جارہی ہے کہ الازہر کے نصاب میں خاندانی منصوبہ بندی کے بارے میں تعلیمی پروگرام شامل کیے جائیں، تاکہ فارغ التحصیل طلبہ کثرتِ آبادی کے خطرات سے آگاہ ہوجائیں۔ اس مرکز نے اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے لیے ۴ لاکھ ڈالر طلب کیے۔
اقوامِ متحدہ کا فنڈ براے آبادی اپنے منصوبوں کی تکمیل کے لیے متعدد تنظیموں سے مدد لیتا ہے۔ اسی طرح کی ایک تنظیم ’پاتھ فائنڈر ‘ ہے۔ یہ تحدید نسل کی فعال ترین تنظیم ہے۔ سی آئی اے اس کی بھرپور مدد کرتی ہے۔ یہ تنظیم انڈونیشیا کے ۱۲۰ مسلمان علما کو اپنا نشانہ بنانے میں کامیاب ہوچکی ہے۔ اس نے بنگلہ دیش میں تحدید نسل پر ۲۰ کتابیں شائع کی ہیں۔ یہ تنظیم متعلقہ ملک کے عوام کی ذہنی و جذباتی سطح کو مدنظر رکھ کر اپنا پروپیگنڈا مرتب کرتی ہے، مثلاً فلاں فلاں ملک میں کون سا ٹی وی پروگرام پسند کیا جاتا ہے جس میں خاندانی منصوبہ بندی کے اشتہارات دیے جائیں۔ فلسطین میں بچوں کے تعلیمی نصاب میں مانع حمل تعلیمات کے فروغ کے لیے ۷۰۲ ملین ڈالر مختص کیے گئے ہیں۔ ۸۰ ہزار ڈالر ہنگامی حالات کے لیے رکھے گئے۔ لبنان میں ۳۰۱ ملین ڈالر کی رقم مختص کی گئی ہے۔ دوسری طرف اسرائیلی عورتوں کی پیداواری صلاحیت میں اضافے کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں۔ بنگلہ دیش میں نس بندی عام کی گئی۔ پاکستان میں گلی گلی، محلہ محلہ، شہرشہر، گائوں گائوں بہبود آبادی کے دفتر کھل گئے ہیں۔ پاکستان میں صحت کے کُل بجٹ سے زیادہ بجٹ بہبود آبادی کا ہے۔ دوائیاں مفت فراہم کی جاتی ہیں۔ کئی ہزار لیڈی ہیلتھ ورکر (LHW) (جن کے لیے مڈل تک تعلیم شرط ہے) بھرتی کی جاچکی ہیں۔ رات دن الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا اس کی تشہیر کر رہا ہے۔ دوسری طرف اسکولوں کی درسی کتب میں اس طرح کے مضامین شامل کیے گئے ہیں: ’خوش حال گھرانہ‘، ’آبادی کے مسائل‘ وغیرہ۔ یہ پرائمری جماعتوں کے مضامین ہیں۔ یہ وہ سازش ہے جس کے تحت چھوٹی عمرسے ہی ذہن سازی کی جارہی ہے۔
نتیجہ یہ ہے کہ عالمی بنک جب قرض کو ’ترغیب‘ کے طور پر استعمال کرتا ہے اور ترقیاتی فنڈ کو روک کر بہ طور دبائو کام میں لاتا ہے تو وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ سربراہانِ مملکت اور اہم سرکاری وزارتوں کا نیم دلانہ تعاون تحدید آبادی کے ایک باقاعدہ منصوبے کے لیے حاصل کرے۔ اس طرح یہ ممکن ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں شرح آبادی کافی گھٹ جائے اور مغرب کی کمزور پڑتی ہوئی آبادیاتی کیفیت کو سنبھالا مل جائے۔
ادھر اقوام متحدہ کے زیراہتمام خواتین کی عالمی کانفرنسیں کبھی میکسیکو، کبھی قاہرہ، کبھی بیجنگ میں منعقد کی گئیں۔ ان کے واضح اہداف یہ تھے:
o صاحب ِ اولاد ہونے یا نہ ہونے کا معاملہ انسانی حقوق میں سے ایک ہے۔
o عوام کو صاحب ِ اولاد ہونے کے بارے میں معلومات سے جلد از جلد آگاہ کرناچاہیے۔
o دنیا کی حکومتوں سے مطالبہ کہ آبادی کنٹرول کریں اور خاندانی منصوبہ بندی کی حمایت کریں۔
o مردوں اور عورتوں کو مانع حمل ادویات، ذرائع و آلات مہیا کرنا۔
o غریب عورتوں کو بانجھ پن کی ادویات مفت فراہم کرنا۔
o اسکولوں کے لڑکوں اور لڑکیوں کو بچوں کی پیدایش کے بارے میں مکمل معلومات اور لٹریچر کی فراہمی۔
o مردوں کو نس بندی کے لیے قائل کرنا۔
o پبلک مقامات پر مشینوں کے ذریعے منع حمل ادویات و آلات کی وافر فراہمی۔
اس منصوبے پر اکثر ممالک میں ترجیحاً کام ہو رہا ہے اور مطلوبہ نتائج سامنے آرہے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی تحدید نسل کمیٹی نے اعلان کیا ہے کہ عرب اور مسلم ممالک میں بچوں کی تعداد میں قابلِ لحاظ کمی ہوئی ہے۔ الجزائر، تیونس، مصر اور ترکی کی رپورٹیں تسلی بخش ہیں۔ اُردن اور یمن میں بھی مطلوبہ نتائج ملے ہیں۔ فلسطین میں مانع حمل فکر کے فروغ کے لیے ۷۰۲ ملین ڈالر مختص کیے گئے ہیں۔ عراق میں برتھ کنٹرول کے ۶۲ کلینک قائم ہیں۔ لبنان میں دو بچے فی گھرانہ اوسط رہ گیا ہے۔ درج بالا حقائق بیان کرتے ہیں کہ خاندانی منصوبہ بندی مسلمانوں کے خلاف مغرب کی ایک زبردست جنگی سازش ہے۔
بیجنگ کانفرنس میں فیصلہ ہوا تھا کہ ایشیائی ممالک میں فیملی پلاننگ کی وسیع پیمانے پر تشہیری مہم چلائی جائے گی۔ جنسیات کے حوالے سے اسباق کو اسکولوں کے نصاب میں شامل کیا جائے گا۔ آج ٹی وی پر سبز ستارہ، چابی والی گولی، کنڈوم کے بے ہودہ اشتہارات کی بھرمار، بیجنگ اور قاہرہ کے انھی فیصلوں کا بھرپور نفاذ ہیں کہ ان اشیا اور اصطلاحات کو الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے اتنا عام کر دیا جائے کہ نابالغ بچے بھی ذہنی بلوغت کو پہنچ جائیں۔ مغرب کی طرح اسکولوں میں بھی کنڈوم کلچر عام ہوجائے، اور پھر خدانخواستہ مغرب کی طرح اسکولوں کے ساتھ بے باپ کے بچوں کی نرسریاں قائم کی جائیں تاکہ کنواری مائیں سکون سے اسکول کی تعلیم مکمل کرسکیں۔
امریکی مصنفہ الزبتھ لیاگن کی کتاب Excessive force: Power Politics, and Popultion Control ۱۹۹۵ء میں واشنگٹن سے شائع ہوئی ہے۔ اس کا مطالعہ اس باب میں دل چسپی سے خالی نہ ہوگا جس نے قطعاً غیرنظریاتی انداز میں اقوام متحدہ اور امریکا کی ایجنسیوں کی تیارکردہ ہزاروں رپورٹوں اور دستاویزات کی بنیاد پر تخفیف آبادی کی مہنگی مہمات اور پروگراموں کو ایک سوچی سمجھی سیاسی اور جنگی حکمت عملی اور بنیادی انسانی حقوق کی سنگین ترین خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ اس کے خیال میں آبادی کی بہبود اور انسانیت کی بھلائی کے نام پر امریکا اور اقوامِ متحدہ کی طرف سے جو کروڑوں ڈالر پس ماندہ اقوام اور ترقی پذیر ممالک پر خرچ کیے جارہے ہیں ان کا مقصد صرف اور صرف اپنا سیاسی تفوق اور معاشی بالادستی قائم رکھنا ہے۔ لیاگن نے ثابت کیا کہ بیسیویں صدی کے نصف اوّل میں امریکا میں آبادی کی اوسط شرحِ نمو ۳ فی صد سالانہ تھی۔ یہ وہ عرصہ ہے جب امریکا نے پیداواریت اور دنیا میں اپنا مقام و مرتبہ بنانے میں مؤثر اضافہ کیا۔
امریکا اور یورپی اقوام مالتھسی نظریے کے تحت خود اپنی آبادی کی شرح خطرناک حد تک کم کرچکی ہیں۔ چنانچہ مغربی پالیسی سازوں کو اب یہی حل نظر آتا ہے کہ دوسرے خطے کے لوگوں کی آبادیاں بھی اس حد تک کم کردی جائیں کہ کہیں ان کے مقابل آنے کا خطرہ پیدا نہ ہوسکے۔ اسی لیے گذشتہ کئی دہائیوں سے ایک ہمہ پہلو مہم چلائی جارہی ہے اور حکمت عملی یہ ہے کہ براہِ راست اور بالواسطہ عالمی اداروں کے ذریعے ’غربت کے خاتمے‘،’اقتصادی ترقی‘ اور ’ماں اور بچے کی صحت‘ جیسے پروگراموں کے پردے میں تخفیف آبادی کی مہم کو کامیاب بنایا جائے۔ اس ضمن میں اگر ترغیب و تحریص سے کام نہ نکلے تو جنگ و جبراور زبردستی، حتیٰ کہ ایٹمی اور کیمیائی جنگ تک کے لیے تیار رہا جائے۔ الزبتھ لیاگن لکھتی ہیں: ’’بیرونی امداد کا اس سے زیادہ اہم پروگرام کیا ہوسکتا ہے کہ ہربالغ انسان تک مانعات حمل کی رسائی یقینی بنادی جائے۔ امریکی حکومت کا اصرار ہے کہ بنیادی انسانی ضرورتوں (خوراک، علاج، پناہ گاہ یا رہایش) پر تحدید آبادی کے پروگراموں کو فوقیت دی جائے‘‘۔
وہ مزید لکھتی ہیں:کسی نے کہا کہ چونکہ بالآخر ہم سب نے اس دنیا سے رخصت ہونا ہے اس لیے تولید ہی قوموں کے مستقبل کا فیصلہ کرے گی۔ دراصل یہی وجہ ہے کہ مغرب کے پالیسی ساز اس سوال میں اتنی غیرمعمولی دل چسپی لے رہے ہیں۔ اگر تحدید آبادی کے موجودہ پروگرام آج کے جاری جغرافیائی اور سیاسی ارتقائی نمو کو لگام دینے میں ناکام ہوجائیں تو کسی مرحلے میں قتل عام، منظم طور پر ایک حقیقی امکان کی صورت میں سامنے آسکتا ہے۔ یہی آخری چارئہ کار ہے جسے مغربی منصوبہ ساز اختیار کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ موجودہ جغرافیائی صورت حال میں ’دہشت گردی‘ کے نعرے کی آڑ میں امریکا اسی عالمی بالادستی کے خواب کی تعبیر ڈھونڈ رہا ہے۔
اسلامی معاشرے کی بنیاد مسلمان فرد اور خاندان ہے۔ اسلام نے انسانی اجتماعیت کے دونوں بڑے مسائل: (۱) مرد اور عورت کا رشتہ (۲) فرد اور اجتماع کے تعلق کو بڑی خوش اسلوبی سے حل کیا ہے۔ اسلام نے اپنی دعوت کا اوّلین مخاطب فرد کو بنایا ہے اور اس کے قلب و نظر کو ایمان کا گہوارا قرار دیتا ہے۔ فرد کی سیرت سازی اس کا پہلا ہدف ہے۔ فرد کو سنوارنے کے ساتھ ساتھ اسلام اس کا رشتہ معاشر ے سے جوڑتا ہے، اور اس کے لیے ایسے ادارے قائم کرتا ہے جو زندگی میں استحکام پیدا کرسکیں، اور تمام انسانوں کی قوت و صلاحیت کو تعمیرو ترقی کے لیے استعمال کرسکیں۔ خاندان کا نظام محض انسانی تجربے کا حاصل اور ٹھوکریں کھانے کے بعد کسی موہوم معاشی مفاد کے حصول کا ذریعہ نہیں (جیساکہ مارکس اور اینجلزنے اپنے اپنے انداز میں ثابت کیا ہے)، بلکہ یہ پہلا انسانی ادارہ ہے جسے وحی کے تحت قائم کیا گیا اور جس سے انسانی تاریخ کا آغاز ہوتا ہے۔ اسلامی تہذیب و ثقافت کا تناور اور پھل دار درخت اسی بیج کی پیداوار ہے۔ ارشاد ربانی ہے: ’’اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں دنیا میں پھیلا دیے‘‘ (النساء ۴:۱)۔ یہاں زوجی رشتے اور تناسل کے تخلیقی عمل کے تعلق کو واضح کر کے خالق کائنات نے اس ادارے کی ایک ابدی حکمت کی طرف انسان کو متوجہ کیا اور بعدازاں خاندان کے دوسرے وظیفے، یعنی محبت، مودت اور سکینت کو نمایاں کیا۔
اسلام نے خاندان کو جو تقدس عطا کیا وہ منفرد ہے۔ قرآنِ پاک میں جو قانونی احکام ہیں ان کا دو تہائی صرف خاندان کے مسائل کے بارے میں ہے، اور قرآن و سنت کی موجودگی کے بعد خاندان ہی ہمارا اصل قلعہ اور پناہ گاہ ہے جس کے حصار میں اُمت نے بڑے سے بڑے فتنے کے مقابلے میں پناہ لی ہے۔ قرآن نے اس خاندانی نظام کو محفوظ ترین بنانے کے لیے اسے عزت و عظمت کا محافظ بنانے کے لیے اس کی پایداری کے لیے تفصیل سے احکام دیے ہیں اور ہراس معمولی سی دراڑ کو بھی بند کیا ہے جس سے اس محفوظ پناہ گاہ میں فتنہ یا شر داخل ہوسکتا ہے۔
یورپ اور امریکا میں زوجی تعلقات نہایت ضعیف ہوتے چلے جارہے ہیں اور ضبط ِ ولادت کی تحریک کے ساتھ ساتھ طلاق کا رواج اس تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے کہ دراصل وہاں عائلی زندگی اور خاندانی نظام درہم برہم ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ ڈاکٹر ویسٹر مارک اپنی مشہور کتاب: ’’مغربی ممالک میں نکاح کا مستقبل‘‘ میں اس امر کا اعتراف کرتا ہے کہ ’’مانع حمل ذرائع کا علم بغیر نکاح جنسی تعلق کے مواقع کو بھی عام کردیتا ہے جس کا عام چلن خود ہمارے اپنے زمانے میں شادی کے تنگ و تاریک مستقبل کا ایک اور مظہر سمجھا جاتا ہے‘‘۔
نہ صرف یہ بلکہ ضبط ِ ولادت سے بچوں کی اخلاقی تربیت نامکمل رہ جاتی ہے۔ جس بچے کو چھوٹے اور بڑے بہن بھائیوں کے ساتھ کھیلنے کودنے اور معاملات کرنے کا موقع نہیں ملتا وہ بہت سے اعلیٰ اخلاقی خصائص سے محروم رہ جاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ماہرین نفسیات وعمرانیات کا ایک گروہ تو یہ راے بھی رکھتا ہے کہ اس کی وجہ سے بچے کا ذہنی اور نفسی ارتقا متاثر ہوتا ہے۔ اور اگر دو بچوں کے درمیان عمر کا فرق بہت زیادہ ہو تو بڑے بچے میں قریب العمر ساتھی کے نہ ہونے کی وجہ سے ذہنی خلل تک واقع ہوجاتا ہے (دیکھیے: ڈیوڈ ایم لیوی، Maternal over Protection) ۔ پروفیسرکولن کلارک کا روزنامہ ٹائمز،لندن میں مضمون ’چھوٹے خاندان‘ شائع ہوا جس میں وہ لکھتا ہے: ’’اگرچہ ایک بڑے خاندان کو تعلیم دینے کے مسائل بلاشبہہ خاصے گراں بار ہیں لیکن یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ ایک نئے بچے کا اضافہ کر کے ماں باپ اپنے موجود بچوں کے مفاد کو مجروح کرتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اب خود والدین بھی وجدانی طور پر اس حقیقت کو محسوس کرنے لگے ہیں جو فرانس کے Mr. Bresard نے بڑی تحقیق کے بعد دریافت کی ہے۔ موصوف نے اعلیٰ پیشوں والے بے شمار کثیر الاولاد خاندانوں کے نشوونما، ارتقا اور ذرائع معاش کا جائزہ لیا اور وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ کثیر الاولاد خاندانوں کے بچے مختصر خاندانوں والے بچوں کے مقابلے میں آخرکار زندگی کے میدان میں کہیں زیادہ کامیاب رہے ہیں۔
اور تم اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو اور ان کو رزق دینے والے بھی ہم ہیں اور تم کو بھی، ان کو قتل کرنا ایک بڑی خطا ہے‘‘۔(بنی اسرائیل ۱۷:۳۱)
زمین میں چلنے پھرنے والی کوئی چیز ایسی نہیں جس کے رزق کا انتظام خدا کے ذمہ نہ ہو اور وہی زمین میں ان کے ٹھکانے اور ان کے سونپے جانے کی جگہ کو جانتا ہے۔ یہ سب کچھ ایک کتابِ روشن میں لکھا ہوا موجود ہے۔(ھود ۱۱:۶)
پاکستان میں مرکزی حکومت کے استفسار پر دستور کی دفعہ۲۲۷ کے تحت قائم اسلامی نظریاتی کونسل جو تمام مکاتب ِ فکر کے علما، قانونی اور معاشی ماہرین اور خواتین نمایندوں پر مشتمل ہے، اس راے کا اظہار کرتی ہے:’’طلاق کو ، گو جائز قرار دیا گیا ہے لیکن اسے کبھی پسند نہیں کیا گیا، یعنی طلاق جائز ہے لیکن اس کو قومی پیمانے پر رواج دینے کی پالیسی اسلام میں ناپسندیدہ اور معاشرے کے لیے ضرر رسا ں ہے، لہٰذا ممنوع ہے۔ اسی طرح مانع حمل کی تدابیر کو قومی پیمانے پر رواج دینے اور اس طرح فحاشی کو فروغ دینے کی پالیسی اسلام میں ناپسندیدہ اور معاشرے کے لیے ضرررساں ہے، لہٰذا ممنوع ہے۔ البتہ انفرادی سطح پر اگر کسی شادی شدہ عورت کو حمل سے یا بچہ پیدا کرنے سے جان کا خطرہ ہو تو اسے خاص اس کے اپنے حالات کے لیے اجازت دیتا ہے، اس کا تعلق بھی غیرمعمولی انفرادی ضرورت سے ہے۔ تاہم قومی پیمانے پر ملک و ملّت کا کروڑوں روپے کا قیمتی سرمایہ خرچ کرکے مانع حمل تدابیر کو فروغ دینا اور اس طرح براہِ راست فحاشی کو عام کرنا اسلام میں کسی طرح جائز قرار نہیں دیا جاسکتا‘‘۔ (اسلامی نظریاتی کونسل رپورٹ، اسلام آباد، اپریل ۱۹۸۴ئ، ص ۱۰)
اسلام جس خاندان کو تقدس عطا کرتا ہے، یورپ اس خاندان کو اخلاقی بگاڑ کی بناپر کھو کر آج مسلم معاشروں میں خاندانی نظام کا شیرازہ بکھیرنے کے درپے ہے۔ یو این او کے عالمی پروگراموں سے لے کر غیرملکی این جی اوز تک اسی ’مقدس فریضے کی ادایگی‘ میں مصروف ہیں۔
تخفیف آبادی یا مانع حمل ادویات تک ہر خاص و عام کی پہنچ کس طرح اخلاقی بگاڑ، جرائم اور خاندانی نظام کا شیرازہ بکھیرنے کی موجب ہے، اس کا تذکرہ جاپانی نژاد امریکی دانش ور فوکویاما نے اپنی تحقیق میں کیا جو انھوں نے مغربی معاشروں کی اخلاقی تباہی سے متاثر ہوکر لکھی۔ فوکویاما اپنی کتاب The End of Order میں کہتا ہے: ’’ان تبدیلیوں کی ابتدا ۲۰ویں صدی کی ساتویں دہائی میں ہوئی جب مغربی معاشروں میں عورتوں کو جنسی آزادی کے نام پر کھلی چھوٹ دے دی گئی۔ انھیں فراوانی کے ساتھ مانع حمل ادویات ریاست کی طرف سے مفت فراہم کی گئیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شادی کا ادارہ سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ طلاق کی شرح بڑھتی گئی اور بن بیاہے اکٹھے رہنے والے جوڑے خاندان کی جگہ لیتے گئے اور اب مستحکم خاندانوں کے بجاے ٹوٹے پھوٹے گھرانوں سے نکلنے والے بچوں کی ایک فوج محلوں اور گلیوں میں جرائم کرتی پھرتی ہے۔ یہ بچے ریاست کے لیے بوجھ ہیں‘‘۔
حال ہی میں فرانس میں ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے جو عالمی کانفرنس ہوئی اس کا ایک بڑا مقصد ہمارے توانائی کے منصوبوں پر قدغن لگانا بھی ہے، مثلاً کوئلے سے بجلی پیدا کرنے سے فضائی آلودگی پیدا ہوگی، لہٰذا پاکستان نظرثانی کرے۔ بالخصوص اس کا مقصد تیسری دنیا کے ممالک کا گھیرا تنگ کرنا ہے۔ اور پھر قرضوں کے ساتھ یہ شرائط منوائی جائیں گی کہ بڑھتی ہوئی ضروریات کو روکنے اور تخفیف ِ آبادی کے لیے فیملی پلاننگ کی مہم بھرپور انداز میں چلائی جائے۔
حضرت حذیفہؓ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے شر اور فتنوں کے بارے میں سوال کیا کرتے تھے اور اصحابِ رسولؐ ان کے ایمان کو خود سے معتبر سمجھتے تھے کہ وہ فتنوں سے آگاہ ہیں۔ ہمارے لیے بھی اپنے دشمن کے منصوبوں سے آگہی وقت کی ضرورت ہے۔