ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرمo


اللہ جل شانہ کی ہستی جس قدر عظیم اور لا محدود ہے، اسی قدر اس کے حقوق بھی ہیں۔تاہم، قرآن مجید میں کسی ایک مقام پر ان کا مفصل اور جامع تذکرہ نہیں ہے۔اللہ رب العزت نے قرآن عظیم میں اپنی عظمت و جلال کا بار بار ذکر کر کے اپنے بندوںسے یہ تقاضا ضرور کیا ہے کہ وہ یہ غورکریں کہ اب انھیں کس کس کے ساتھ کیا رویہ روا رکھناہے۔ اس کے بندوں کو اپنی عقل و فکر اور شعور و آگہی سے فائدہ اٹھا کر حق دار کو اس کا حق دینا ہے،اور اس غلطی سے بچنا ہے جس کا ارتکاب بہت سی قوموں نے کیا اور قیامت تک انسانوں کے لیے عبرت کا نشان بن گئیں۔صدقِ دل اور طلب ہدایت کے جذبے سے قرآن حکیم کا مطالعہ کرنے والوں کو اللہ کے بے شمار حقوق دکھائی دیں گے۔ ذیل میں اللہ کے حقوق کا اختصار سے تذکرہ پیش ہے:

  •  حقیقی ایمان: اللہ کے حقوق میں سے پہلا حق اللہ پر حقیقی ایمان ہے۔ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اٰمِنُوْا  (النساء ۴:۱۳۶)’’اے اہل ایمان، ایمان لائو‘‘۔ گویا اہل ایمان کانسل در نسل مسلمان ہونا کافی ہے، نہ وجہِ عزت و افتخار، نہ اس کا محض دعویٰ باعثِ نجات ہے۔ اللہ کا حق یہ ہے کہ اس کے ماننے والے پورے فکر و شعور اور آگہی کے ساتھ اس کی ذات و صفات اور تمام تر قوت و اختیار پر یقین کے ساتھ اسے مانیں۔ اقرار با للسان کے ساتھ تصدیق بالقلب بھی مطلوب ہے، جوانسان کے اعمال و کردار کی سمتوں کا تعین کرتی ہے۔ علامہ اقبال کے الفاظ میں    ؎

خرد نے کہہ بھی دیا ’لااِلٰہ‘ تو کیا حاصل

دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں

  •  اِقرارِ توحید: اللہ کا دوسرا حق، اس کی ’توحید‘ کا اقرار اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہے۔ فَاِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ فَلَہٗٓ اَسْلِمُوْا ط (الحج۲۲:۳۴) ’’پس تمھارا اللہ ایک ہی خدا ہے اور اُسی کے تم مطیع فرمان ہو‘‘۔اس کی وحدت و یکتائی ،اس کی ذات و صفات، احوال و افعال ہر حوالے سے اسی کی برتری ہے۔ نہ اسے ہی گوارا ہے، اور نہ عقل و فطرت ہی اس کے مؤید کہ نظام ہستی میں اس کا کوئی شریک ہو اور اس کی بالادستی کو کوئی چیلنج کرے۔ نام تو اُس کا لیا جائے اور آئینِ حیات کسی اور کے حکموں کو مانا جائے۔ یہ اللہ کو کسی طور پسند نہیں۔ اللہ اپنے بندے کا ہر گناہ بخش سکتا ہے۔ اپنے حقوق کی ادایگی میں کوتاہی سے صرفِ نظر کر سکتا ہے مگر شرک تو ’ظلم عظیم‘ ہے اسے وہ ہر گز معاف نہیں کرے گا۔ شرک خواہ خفی ہو یا جلی، معمولی ہو یا بڑا، عمل ہو یا وسوسہ، اللہ کو اپنی یہ حق تلفی ہرگز گوارا نہیں۔ اس کا واضح اعلان ہے کہ لَمْ یَکُنْ لَّـہٗ کُفُوًا اَحَدٌ  ،یعنی اس کے ہم سر و برابر ہونے کا تصور بھی محال ہے۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّٰہِ اَنْدَادًا (البقرہ۲:۲۲) ، یعنی دوسروں کو اللہ کا مدِّمقابل نہ ٹھیرائو۔
  •  حمد وثنا اور تعریف و توصیف:اللہ کا تیسرا حق، الحمدللہ___ صرف تعریف ہی نہیں، سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں۔ وہی خوبی اور کمال کا مرکز، محسنِ کائنات ہے۔ کائنات کا حُسن و جمال اُسی کی ذات کا عکس ہے۔ آسمان و زمین میں حمد و تعریف اُسی کی ہے،  وَلَہُ الْحَمْدُ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ (الروم ۳۰:۱۸)۔ ملک بھی اُسی کا ، اختیار بھی اُسی کا، او ر تعریف بھی اُسی کی۔ اُس کی بھرپور، مکمل، مسلسل اور ہر نوع کی حمد و ثنا اس کے بندوں کی جانب سے اس کی قدرشناسی کا مظہرہے ۔
  •  صراطِ مستقیم کی پیروی: اللہ کا چوتھا حق، اُدْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَـآفَّۃً ص (البقرہ ۲:۲۰۸)ہے، یعنی اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جائو۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے تاقیامت اسلام کو اپنی نعمت قرار دیا اور فرمایا وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ط (المائدہ۵:۳)،یعنی تمھارے لیے دین اسلام کو میںنے پسند کر لیا۔ اس کے علاوہ اور کوئی نظام حیات نہ صرف اسے ناپسند بلکہ ہرگز قابل قبول نہ ہوگا۔ فرمایا: ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا (الانعام۶:۱۵۳) کہ یہی میرا سیدھا راستہ ہے۔ یہی درست نظامِ حیات ہے۔ اسی کی پیروی کرو، کسی اور راستے پر نہ چلنا، ورنہ تم اپنی منزل سے بھٹک جائو گے۔ یہ اللہ کی حق تلفی ہے کہ اس کے دین کا کچھ حصہ تو قبول کر لیا جائے اور کچھ کو شیطان کی مرضی یا خواہشاتِ نفس ،مفادات اور وقتی مصلحتوں کی بھینٹ چڑھا دیا جائے۔
  •  حکم و حکمرانی:اللہ کا پانچواں حق،  اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ ط(الانعام۶:۵۷) ہے، یعنی ملک بھی اسی کا اور حکم بھی اسی کا۔ جب وہی ہر چیز کا خالق و مالک اور مختارِ کل ہے،      لَہُ الْخَلْقُ وَ الْاَمْرُ ط (اعراف ۷:۵۴) اسی کی مخلوق اور اسی کا حکم ہے۔ وہی اَحْکَمُ الْحٰکِمِیْنَ (ھود۱۱:۴۵)، اور وہی مٰلِکَ الْمُلْکِ  (اٰل عمرٰن۳:۲۶) ہے۔ جسے چاہے اختیار دے اورجس سے چاہے چھین لے۔ عزت اور ذلت بھی اسی کے ہاتھ میں ہے،  وَتُعِزُّمَنْ تَشَآئُ وَ تُذِلُّ مَنْ تَشَآئُط (اٰل عمرٰن۳:۲۶)۔ خیر کے سارے سر چشمے اور منابع اسی کے زیر تصرف ہیں، بِیَدِکَ الْخَیْرُ ط (اٰل عمرٰن۳:۲۶)۔ زمین و آسمان پر اس کی بادشاہی ہے، وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ ج (البقرہ۲:۲۵۵) ، مشرق و مغرب اُسی کے زیر تسلط ، لِلّٰہِ الْمَشْرِقُ وَ الْمَغْرِبُ  ط (البقرہ۲:۱۴۲)۔ عظمت و کبریائی بھی اُسی کے لیے ہے، تو اُس کا فطری حق ہے کہ اُس کی کائنات پر حکم بھی اُسی کا چلے۔ اُسی کا سکہ رائج ہو۔ اُسی کا قانون رُوبۂ عمل لایا جائے۔ زندگی کے ہر معاملے میں فیصلے کا اختیار بھی اُسی کو حاصل ہو، اُسی کا جھنڈا لہرائے، وَکَلِمَۃُ اللّٰہِ ھِیَ الْعُلْیَا ط (التوبۃ۹:۴۰)۔ یہی معراج ہے اُس کے اِس حق کی ادایگی کی۔
  •  حقیقی تقویٰ:  اللہ کا چھٹا حق، اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ (اٰل عمرٰن۳:۱۰۲) ہے، یعنی اللہ سے ایسے ڈرا جائے جیساکہ اس سے ڈرنے کا حق ہے۔اللہ کا تقویٰ، چند رسمی مظاہر کا نام ہر گز نہیں۔ اس کا تعلق تو دل سے ہے۔ یہی اس کا مرکز اور منبع ہے۔ اگر دل صنم آشنا ہو، تو لاکھ سجدے اور ماتھے پر پڑی محراب، تقویٰ نہیں کہلا سکتے۔ تقویٰ تو زندگی کے ہر کام میں اللہ کا خوف دامن گیر ہونا، اس کی عظمت کا پاس و لحاظ ہونا اور اس کی توحید خالص پر کار بند ہونا اور گناہوں سے اس طرح بچنا کہ یہ احساس تازہ و بیدار رہے کہ میرا آقا و مولا مجھے وہاں نہ دیکھے جہاں جہاں سے اس نے منع کیا ،یا اسے ناگوار ہے۔ تقویٰ خلاصۂ دین، بہترین زادِ راہ ہے۔ بہترین انجام بھی اہلِ تقویٰ کا ہی ہے۔ اللہ کا یہ حق ادا کرنے والے ہی اس کے محبوب و مقرب ہیں۔

اللہ کاایک حق یہ بھی ہے کہ خَافُونِ (اٰل عمرٰن۳:۱۷۵)،مجھ ہی سے ڈرو۔ جب کائنات میری اور قوت و اختیار کا مالک مَیں، ہر نفع و نقصان پر میری قدرت، تو پھر کسی اور سے کیسا ڈر اور کیسا خوف۔ اُس نے تنبیہہ کی، اگر میرے علاوہ کسی اور سے خوف کھایا تو یاد رکھو وہ نہ تمھارا خوف دُور کر سکتے ہیں ،نہ مدد پر قادر ہیں، مگرتم میری پکڑ سے نہ بچ سکو گے۔ اور قوموں کی عبرت ناک داستانیں گواہ ہیںکہ میری پکڑ شدید ترہے،اِِنَّ بَطْشَ رَبِّکَ لَشَدِیْدٌo (البروج۸۵:۱۲) ’’درحقیقت تمھارے رب کی پکڑ بڑی سخت ہے‘‘۔

  •  ایفاے عھد: اللہ کا ساتواں حق  وَ بِعَھْدِ اللّٰہِ اَوْفُوْا ط (الانعام۶:۱۵۲)، اللہ کے ساتھ کیے ہوئے وعدوں کا ایفا ہے۔ وہ وعدہ جو انسان کی روح نے اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ ط (اعراف ۷:۱۷۲) کے جواب میں کیا، جو اس کے شعور میں بسا ہوا ہے۔ انسان اللہ کی اس کائنات میں تخلیق و پرورش پانے اور بے شمار مفادات اٹھانے کے نتیجے میںاس عہد کی تکمیل کا پابند ہے۔ وہ وعدے بھی جو انسان نے اللہ کے بندوں کے ساتھ اللہ کو گواہ بنا کر کیے ، اور وہ وعدے بھی جو انسان کھلے چھپے اپنے رب سے کرتا ہے۔ دعائو ںمیں، نمازوں میں،تسبیحات اور مناجات میں ہاتھ اٹھا کر، لوگوں کو گواہ بنا کر، کلمہ پڑھ کر، اسلام قبول کر کے___ ان سب کا ایفا اللہ کا حق اور بندگیِ رب کا تقاضا ہے۔

 اللّٰہ کی نعمتوں کا اقرار و اعتراف: اللہ کا آٹھواں حق ہے، وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ   رَبِّکَ فَحَدِّثْo (الضحٰی۹۳:۱۱) ’’اور اپنے رب کی نعمت کا اظہار کرو‘‘۔ اللہ کی نعمتیں بے شمار ، اور ان کا احاطہ نا ممکن ہے، وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْھَا ط(ابراھیم۱۴:۳۴)۔ ان کا تقاضا اور اللہ کا حق ہے کہ بندہ منعمِ حقیقی کی بے پایاں نعمتوں کا زبان سے اقرار اور عمل سے اعتراف کرے۔ ان نعمتوں میں اللہ کے بندوں کو شریک رکھے۔ ان کے حقوق بھی ادا کرے۔ اللہ کی سب سے بڑی نعمت ’ ہدایت‘ ہے۔ کتابِ ہدایت قرآن ہے۔ لوگ باہم دشمن اور آگ کے گڑھے کے کنارے کھڑے تھے، اللہ نے اس قرآن کو اخوت و محبت کا وسیلہ اور حکمت و نصیحت کا صحیفہ بناکر انسانیت کو عطا کیا، اور انسانوں کو ایک جسدِواحد کا روپ دیا۔انسان کے لیے یہ ناممکن ہے کہ اپنے رب کی ہمہ جہت نعمتوں کو جھٹلائے۔ اس کی یہ نعمتیں رب کو ماننے والوں یااس کا کفر کرنے والوںسب ہی کے لیے بے حد و حساب ہیں۔ اس کا ارشاد ہے کہ میری نعمتوں کا شکر ادا کرو گے تو لَاَزِیْدَنَّکُمْ(ابراھیم۱۴:۷)، میں تمھیں اور زیادہ دوں گا۔ تمھاری شکر گزاری کا رویہ مجھے  راضی کرے گا۔ میں تمھیں دنیا میں ترقی اور آخرت میں سر بلندی عطا کروں گا۔ اللہ کی نگاہ میں کفرانِ نعمت جرمِ عظیم ہے۔ قرآن نے یہ حقیقت بھی بتائی کہ اللہ کی شکر گزاری خود تمھارے اپنے مفاد میں ہے، وَمَنْ شَکَرَ فَاِِنَّمَا یَشْکُرُ لِنَفْسِہٖ ج (النمل۲۷:۴۰)۔ اللہ کو نہ تو تمھاری شکرگزاری کی ضرورت ہے، نہ وہ اس کا محتاج ۔ وہ غنی و حمید ہے۔ شکر گزاری کا تقاضا صرف اس لیے ہے کہ وہ منعم تمھیں اپنی بے حد و حساب نعمتوں سے نوازتے رہنا چاہتا ہے۔

  •  اللّٰہ کا ذکر: سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلَیo (الاعلٰی۸۷:۱)___ اللہ کی نعمتوں پر اظہار تشکر کا تقاضا، اس کا حق، اس کی تسبیح، اس کی حمد و ثنا ہے۔ صبح و شام، اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے، ہر دم ہر وقت تسبیح کے دانوں پر ہی نہیں، زبان اور عمل سے بھی۔ اس کے شایان شان، اس کے مقام و مرتبہ سے ہم آہنگ۔ فَاذْکُرُوْنِیْٓ اَذْکُرْکُمْ(البقرہ ۲:۱۵۲) ’’تم میرا ذکر کرو میں تمھارا ذکر کروں گا‘‘۔ عاجزی، انکساری اور سرشاری سے لبریز زبان سے بھی ذکر، اور نماز قائم کر کے عمل سے بھی اظہار ___  ولذ کر اللّٰہ اکبر___ اللہ کا ذکر، اللہ کا یہ حق ہرچیز سے بر تروبالاہے۔
  •  دُعا صرف اُسی سے:فَادْعُوْہُ (اعراف۷:۱۸۰)___اُسی کو پکارو،یہ اللہ کا   نواں حق ہے۔ اللہ اپنے بندوں کی شہ رگ سے قریب، اُن کی دعائیں سننے والا، حال دل جاننے والا، اُن کی بگڑی سنوارنے والا___ اُس کا حق ہے کہ ُاس کے بندے اُسی کو پکاریں۔ جب   کشتی  بھنور میں آ پھنسے اور ساری اُمیدیں دم توڑ دیں، تب تو سب ہی اُسے پکارتے ہیں۔ اُس کے مخلص بندوں پر لازم ہے کہ خوشی، غمی، تنگ دستی و خوش حالی ہرحال میں، ہر چھوٹی بڑی ضرورت کے لیے صرف اُسی کو پکاریں۔ اُس کا اعلان ہے کہ یہ میرا حق ہے کہ میں ہی دعائیں سننے کا اہل ہوں، میں ہی انھیں پورا کرنے پر قادر ہوں، جب بھی مجھے پکارو گے، مجھے اپنی رگ ِجاں سے بھی قریب پائو گے، وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ ط اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِلا (البقرہ۲:۱۸۶)۔
  •  رجوع اور توبہ کا سزاوار:  تُوْبُوْٓا اِِلَی اللّٰہِ (النور۲۴:۳۱)___ اللہ کا ایک حق یہ ہے کہ اس کے بندے خواہ کتنے ہی گناہ کر لیں، کتنی ہی لغزشیں انجانے میں سرزد ہو جائیں، لوٹیں تو اُسی کی طرف۔ جہاں میں کہیں بھی امان نہ ملے اور نہ مل سکے گی، تو اُس کے عفو بندہ نواز میں پلٹیں، اُس کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہوں۔ اِِنَّہٗ کَانَ تَوَّابًاo (النصر۱۱۰:۳)۔ وہ تو خود اپنے بندوں کی مغفرت کے لیے بار بار اعلان کر تاہے۔ شرط یہ ہے کہ یہ توبۃ النصوح ہو۔ سچے دل کے ساتھ ہو۔ پچھلے گناہوں پر ندامت، دکھ اور صدقِ دل سے توبہ اور آیندہ نہ کرنے کا پختہ عزم___ یہی قبولیت توبہ کی شرط ہے۔

 اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ط اِِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًاo (نوح۷۱:۱۰) ’’اپنے رب سے معافی مانگو، بے شک وہ بڑا معاف کرنے والا ہے‘‘۔ معاف کر دینا اُس کی بے پایاں صفت ہے۔ اللہ کا حق ہے کہ اُس کے بندے اُس سے اپنے قصوروں کی معافی طلب کریں۔ غفاری، اس کی نمایاں ترین صفت ہے۔ بندگانِ خدا کو حکم دیا گیا: سَابِقُوْٓا اِِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ (الحدید۵۷:۲۱)، اپنے رب کی مغفرت کی طلب میں ایک دوسرے سے سبقت کرو۔

  •  اللّٰہ سے محبّت:قرآن میں اللہ کا یہ حق بھی بیان کیا گیا ہے کہ اللہ ہی سے محبت کرو۔ وہ اپنے بندوں سے بہت محبت کرنے والا ہے۔ حقیقی اہل ایمان وہی ہیں جو سب سے بڑھ کر    اللہ سے محبت کرتے ہیں، اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ ط (البقرہ۲:۱۶۵)۔ اپنی ہرقیمتی متاع، دنیا کے ساز و سامان، حتیٰ کہ والدین اور اولاد ہر ایک سے بڑھ کر اللہ کو چاہتے ہیں۔ اللہ نے اپنی محبت کا ایک عملی طریقہ اپنے رسولؐ کی زبانی یہ بتایا: اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ  (اٰل عمرٰن ۳:۳۱)، اگر اللہ سے محبت کرتے ہو اور اس کی محبت کے امیدوار ہو تو رسولؐ کی کامل اطاعت کو اپنا لو۔
  •  تدبرو تفکّر: یہ بھی اللہ کا حق ہے کہ اس کے بندے اس کی تخلیق، اس کی کائنات میں غورو فکر کریں۔ مظاہرِ فطرت کا مشاہدہ، اللہ کی عظمت و وجود کا ادراک و احساس کریں۔ کائنات کے توازن اور اسرار و رُموز میں ان کے خالق کو تلاش کریں۔ زمین و آسمان کی وسعتوں،گردشِ لیل و نہار، بارش کے برسنے، ہوائوں کے چلنے، فصلوں کے پکنے اور خود انسان اپنی تخلیق پر غور کرے اور اپنے رب کی قدرتوں کا مشاہدہ اور اعتراف کرے۔
  •  جان و مال سے جھاد: اللہ کا یہ حق ہے کہ کُوْنُوْا اَنْصَارَ اللّٰہِ (الصف۶۱:۱۴) ، اللہ کے مدد گار بن جائو۔ اللہ کے کلمے کی سر بلندی، اس کے دشمنوں کی سر کوبی، اس کی عظمت کا اعلان کرنے کے لیے باہر نکلو۔ اپنی جان و مال سے جہاد کرو، جَاھِدُوْا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِھَادِہٖ ط  (الحج۲۲:۷۸)۔اسلحہ، علم، قلم، وسائل کے ہر ذریعے سے اس کی پکار پر لبیک کہو۔
  •  توکّل و بہروسا: اللہ کا یہ حق بھی ہے کہ اُسی پر بھروسا کر و،  وَعَلَی اللّٰہِ فَتَوَکَّلُوْٓا اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَo(المائدہ ۵:۲۳)’’اللہ پر بھروسا رکھو اگر تم مومن ہو‘‘۔ وہی کارساز، مددگار اور معاون ہے۔ اگر وہ تمھارے ساتھ ہے تو ساری خدائی ایک طرف فَھُوَ حَسْبُہٗ ط(الطلاق ۶۵:۳)، توکل کرنے والوں کے لیے وہ کافی ہے۔ دنیا کی آزمایشوں سے گھبرا کر یا اس کی چکا چوند سے مرعوب ہو کر اس کا دامن نہ چھوڑو۔ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَo (التوبۃ ۹:۱۲۰)، وہ ذرہ برابر بھی کسی عمل کو ضائع ہونے اور محنت اکارت نہیں جانے دے گا۔
  •  دوستی اور دشمنی کی بنیاد:اللہ کا ایک حق یہ بھی ہے کہ اُسی کی خاطر محبت اور اُسی کی خاطر نفرت کی جائے___ الَحُبُّ لِلّٰہِ وَالْبُغْضُ لِلّٰہِ، جو اُسے ناپسند تمھاری اس سے دشمنی، جو اُس کے محبوب وہی تمھارے پیارے ہوں۔ وہ منافقوں، منکروں، شیطانوں ، خائنوںاور کفرانِ نعمت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ مفسدوں، کا فروں اور ظالموں سے اس کی جنگ ہے۔ اس کے رسولوں ؑ کی تکذیب کرنے والے اور زمین پر اکڑ کر چلنے والے اُس کے مبغوض ترین انسان ہیں اور شیطان کے دوست ہیں۔ اللہ کا حق اورہم پر فرض ہے کہ فَقَاتِلُوْٓا اَوْلِیَآئَ الشَّیْطٰنِ ج  (النسائ۴:۷۶)، ان کا ہرقدم پر مقابلہ کرو۔ اللہ کو یہ ہر گز گوارا نہیں کہ اس کے دشمنوں سے دوستی اور محبت کا تعلق بنائو۔ تم ہر شب نماز و تر میں اس سے یہ وعدہ کرتے ہو۔ وَنَخْلَعُ وَ نَتْرَکُ مَنْ یَّفْجُرُکَ ، کہ تیرا انکار کرنے والوں سے علیحدہ رہیں گے۔ لیکن پھر بھی ان سے رشتے ناتے، تعلقات، محبتیں ہوں تو یہ اللہ کی حق تلفی نہیں تو اور کیا ہے؟

 لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ ط (البقرہ۲:۱۶۸)___ جو رحمن کے مقابل آکھڑا ہوا ، اُس کا نافرمان ہوا، اس کے مقابلے میں بغاوت و سر کشی اور تکبر کا دعوے دار ہوا، اپنے رب کے احسانات کو بھلا بیٹھا، اسے اللہ کے مخلص بندے اپنادوست کیسے بنا سکتے ہیں؟حکم ہوا: فَاتَّخِذُوْہُ عَدُوًّا ط (الفاطر۳۵:۶)، تم بھی اسے اپنا دشمن تسلیم کرو، اور اس کی دوستی سے اجتناب کرو۔ اس لیے کہ وہ دوست نہیںبد ترین دشمن ہے۔

  •  کامل بندگی:حقوق اللہ کانکتۂ اول و آخر اس کی کامل بندگی ہے۔ وَاعْبُدْ رَبَّکَ حَتّٰی یَاْتِیَکَ الْیَقِیْنُ (الحجر۱۵:۹۹)، یعنی زندگی کے اولین سانس سے لے کر اس کی طرف واپسی تک اس کی عبادت و بندگی اور غلامی کہ نماز، قربانی، حج، زکوۃ، جینا مرنا،سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے، اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo (الانعام ۶:۱۶۲)۔ اللہ کی عبادت، انسان اور اس کائنات کی تخلیق کا مقصد، وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِِنسَ اِِلَّا لِیَعْبُدُوْنِo (الذّٰریٰت۵۱:۵۶)،اُس کے سوا ہرقسم کے معبودسے بے زاری اور علیحدگی۔ کسی مصلحت، مداہنت کا شکار ہوئے بغیر، کسی کی شرکت کے بغیر، جبینِ نیاز اُسی کے حضور سجدہ ریز،  زندگی اُسی کے تابع، اُسی کے قانون کاچلن، اور اُسی کے حکم کی پاسداری۔ لَآ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَo (الکافرون ۱۰۹:۲) کے اعلان کے ذریعے دنیا کے ہر معبودِ باطل کی خدائی سے انکار، اُسی کو حلال و حرام کے تعین کا اختیار، اُسی کے متعین کردہ حقوق و فرائض کی بجا آوری، اُسی کے اوامر و نواہی پر عمل۔ ہر معاملے میں اُسی کا فیصلہ قابلِ عمل، ہرمسئلے میں اُسی کی رہنمائی، اُسی کی طرف رجوع، اُسی کی رضا مقدم، اُسی کی خوشی پر ہر چیز قربان کرنے کے لیے آمادہ رہنا___ اللہ کا سب سے بڑا حق ہے۔

اہل ایمان پر لازم ہے کہ قر آن کی یہ پکار سنیں: مَا لَکُمْ لَا تَرْجُوْنَ لِلّٰہِ وَقَارًا o (نوح۷۱:۱۳)،یعنی تمھیں کیا ہوا ہے کہ اللہ کے وقار کا خیال نہیں رکھتے۔ اُس کے ساتھ اُس کے مرتبہ و مقام اور حیثیت کے مطابق سلوک نہیں کرتے۔ اپنے حقوق کی جنگ، اپنے مفادات کا تحفظ، اپنی شان و شوکت اور بقا کی لڑائی، اپنے معاملات میں غیرت و حمیّت کا اظہار ،مگر اللہ کے حقوق کی ادایگی نہ تمھارا مطمح نظر ہے، نہ ترجیح، اور نہ ان کے لیے کوئی جدوجہد ہی۔

اللہ کا سب سے بڑا حق یہ ہے کہ اُس کے حقوق کا شعور و ادراک کرتے ہوئے اُس کے شایانِ شان مقام اور اس کے وقار و عظمت کا اعتراف کریں اور اُس کے حقوق اِس طرح ادا کریں، جیسا کہ وہ اُن کا مستحق ہے۔ اس طرح کہ یہ احساس دامن گیر رہے کہ حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔