انصار عباسیo


پاکستان کے ایک اعلیٰ سول افسر اور دانش ور قدرت اللہ شہاب مرحوم اپنی یادداشتوں شہاب نامہ  میں مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل ایوب خان کے ابتدائی دنوں [اکتوبر،نومبر ۱۹۵۸ئ] کے ایک اہم واقعے سے متعلق لکھتے ہیں، جس کا تعلق ہمارے آج سے بہت گہرا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:  اس نئے دور میں کام شروع کرتے ہی اُن کے دل میں یہ بات کھٹکی کہ مارشل لا نافذ ہونے کے بعد اب تک جتنے سرکاری اعلانات، قوانین اور ریگولیشن جاری ہوئے، اُن میں صرف ’حکومت ِ پاکستان‘ کا حوالہ دیا جارہاہے۔ ’حکومت اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ کا کہیں ذکر نہیں آرہا تھا۔ پہلے تو میں نے سوچا کہ شاید ڈرافٹنگ میں غلطی سے ایک آدھ بار یہ فروگزاشت ہوگئی ہوگی، لیکن جب ذرا تفصیل سے جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ جس تواتر سے یہ فروگزاشت دُہرائی جارہی ہے، وہ سہواً کم اور التزاماً زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ اس پر میں نے ایک مختصر نوٹ میں فیلڈمارشل محمد ایوب خان کی خدمت میں تجویز پیش کی کہ اگر وہ اجازت دیں تو وزارتِ قانون اور مارشل لاء ہیڈ کوارٹر کی توجہ اس صورتِ حال کی طرف دلائی جائے اور اُن کو ہدایت کی جائے کہ جاری شدہ تمام اعلانات اور قوانین کی تصحیح کی جائے اور آیندہ اس غلطی کو نہ دُہرایا جائے۔

وہ لکھتے ہیں کہ ایوب خان صاحب کا قاعدہ تھا کہ وہ فائلیں اور دوسرے کاغذات روز کے روز نپٹاکر واپس بھیج دیا کرتے تھے، لیکن معمول کے برعکس یہ نوٹ کئی روز تک واپس نہ آیا۔ ۵نومبر کی شام میں اپنے دفتر میں بیٹھا دیر تک کام کر رہا تھا۔ باہر ٹیرس پر ایوب خان صاحب اپنے چندرفیقوں کے ساتھ کسی معاملے پر بحث کر رہے تھے۔ گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے کے بعد جب سب لوگ چلے گئے تو ایوب صاحب میرے نوٹ کا پرچہ ہاتھ میں لیے کمرے میں آئے اور کہا: ’’تمھیں   غلط فہمی ہوئی ہے۔ ڈرافٹنگ میں کسی نے کوئی غلطی نہیں کی بلکہ ہم نے سوچ سمجھ کر یہی طے کیا ہے کہ ’اسلامک ری پبلک آف پاکستان‘ سے ’اسلامک‘ کا لفظ نکال دیا جائے‘‘۔ شہاب صاحب نے پوچھا: ’’یہ فیصلہ ہوچکا یا ابھی کرنا ہے؟‘‘ ایوب خان نے کسی قدر غصے سے گھورا اور سخت لہجے میں کہا:  ’’ہاں ہاں، فیصلہ ہوگیا ہے۔ کل صبح پہلی چیز مجھے ڈرافٹ ملنا چاہیے۔ اس میں دیر نہ ہو‘‘۔ اتنا کہہ کر وہ تیز تیز قدم کمرے سے نکل گئے…

اگلی صبح قدرت اللہ شہاب نے پریس ریلیز تو تیار نہ کیا، بلکہ اُس کی جگہ ایک نوٹ لکھا، جس کا لب ِ لباب یہ تھا کہ: ’’پاکستان کو اسلام سے فرار ممکن نہیں۔ اس ملک کی تاریخ پرانی، لیکن جغرافیہ نیا ہے۔ ہندستان اور پاکستان کے درمیان ریڈکلف لائن صرف اس وجہ سے کھینچی گئی تھی کہ ہم نے یہ خطۂ ارضِ اسلام کے نام پر حاصل کیا تھا۔ اب اگر پاکستان سے اسلام کا نام الگ کر دیا گیا تو حدبندی کی یہ لائن معدوم ہوجائے گی۔ ہم پاکستانی صرف اس وجہ سے بنے کہ ہم مسلمان تھے۔ افغانستان ، ایران، مصر، عراق اور ترکی اسلام کو خیرباد کہہ دیں تو پھر بھی وہ افغانی، ایرانی، مصری، عراقی اور ترک ہی رہتے ہیں۔ لیکن ہم اسلام کے نام سے راہِ فرار اختیار کریں تو پاکستان کا اپنا الگ کوئی وجود قائم نہیں رہتا۔ اس لیے ہماری طبع نازک کو پسند خاطر ہو نہ ہو ، اسلام ہماری طرزِ زندگی کو راس آئے یا نہ آئے، ذاتی طور پر ہم اسلام کی پابندی کرتے ہوں یا نہ کرتے ہوں، حقیقت بہرحال یہی ہے کہ اگر آخرت کے لیے نہیں تو اسی چند روزہ زندگی میں خودغرضی کے طور پر اپنے وطن کی سلامتی کے لیے ہمیں اسلام کی بات ہرحال میں ڈنکے کی چوٹ کرنا ہی پڑے گی، خواہ اس کی دھمک ہمارے حُسنِ سماعت پر کتنی ہی گراں کیوں نہ گزرے۔ ’جمہوریہ پاکستان‘ کے ساتھ ’اسلامک‘ کا لفظ لگانے سے اگر کسی کا ذہن قرونِ وسطیٰ کی طرف جاتا ہے تو جانے دیں۔ دوسروں کی جہالت کی وجہ سے اپنے آپ کو احساسِ کمتری میں مبتلا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔[شہاب نامہ، ص۷۱۹، ۷۲۰]

پھر قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں: ساتھ ہی میں نے ایک الگ کاغذ پر اپنا استعفا بھی لکھ دیا کہ میرا استعفا منظور کرکے مجھے ریٹائر ہونے کی اجازت دی جائے… (دوسرے روز) میں اپنے آفس وقت سے پہلے پہنچ گیا۔ خیال تھا کہ ایوب خان صاحب کے آنے سے پہلے اپنا نوٹ ٹائپ کروا رکھوں گا، لیکن وہاں دیکھا تو وہ پہلے ہی برآمدے میں ٹہل رہے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی کمرے میں آگئے اور پوچھا: ’ڈرافٹ تیار ہے؟‘ میں نے جواب دیا کہ: ’تیار تو ہے، لیکن ابھی ٹائپ نہیں ہوا‘۔ ’کوئی بات نہیں‘۔ انھوں نے کہا: ’ایسے ہی دکھائو‘۔ وہ سامنے والی کرسی پہ بیٹھ گئے اور میرے ہاتھ کا لکھا ہوا نوٹ پڑھنے لگے۔ چند سطریں پڑھ کر کچھ چونکے اور پھر ازسرِنو شروع سے پڑھنے لگے۔ جب پڑھ چکے تو کچھ دیر خاموش بیٹھے رہے۔ پھر آہستہ سے بولے: Yes, you are right۔   یہ فقرہ انھوں نے دوبارہ دہرایا اور پھر نوٹ ہاتھ میں لیے کمرے سے چلے گئے۔ چند روز کے بعد میں کچھ فائلیں لے کر ایوب صاحب کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ وہ اپنی ڈاک دیکھ رہے تھے۔ ایک خط پڑھ کر بولے: ’’کچھ لوگ مجھے خط لکھتے ہیں، کچھ لوگ ملنے بھی آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دنیا بدل گئی ہے۔ اب ’ماڈرن ازم‘ اور اسلام اکٹھے نہیں چل سکتے۔ میں اُن سے کہتا ہوں: Pakistan has no escape from Islam۔ اس کے بعد انھوں نے پے درپے میرے نوٹ کے کئی فقرے بھی دُہرائے۔ [ص ۷۲۱، ۷۲۲]l

لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ پہلے سے کہیں زیادہ ہمارے سامنے اسلام کے نام پر قائم ہونے والے اس ملک کا مستقبل دھندلا دیا گیا ہے اور دھندلایا جارہا ہے۔ صدر ایوب نے تو ایک غلطی کی جس کو درست کرنے کے سلسلے میں ایک سرکاری افسر نے اپنا فرض ادا کیا، جس پر اللہ تعالیٰ   قدرت اللہ شہاب کو اجرعظیم عطا فرمائے، آمین!۔ لیکن آج پاکستان کو لاالٰہ الا اللہ کے نام پر قائم کرنے والی جماعت مسلم لیگ کے ’وارث‘ وزیراعظم نواز شریف پاکستان کو ’لبرل‘ اور ’ترقی پسند‘ بنانے کے نعرے بلند کررہے ہیں۔ اِس دور کے سرکاری افسروں میں تو کسی قدرت اللہ شہاب کا پیدا ہونا شاید ممکن نہیں لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ ن لیگ کا کوئی لیڈر نواز شریف کو یہ کہنے کی جرأت نہیں رکھتا کہ: ’’وہ لبرل ازم کا نعرہ لگاکر پاکستان کے قیام کے نظریے کی نفی کر رہے ہیں اور اس ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں‘‘۔ ان کے رفقا میں سے کوئی اپنی آخرت کے لیے، اور پاکستان کے مستقبل کے لیے نواز شریف کو یہ نکتہ سمجھا نہیں رہا کہ وہ کیسی آگ سے کھیل رہے ہیں۔ اس معاملے پر پارٹی کے بڑوں کو وزارت کی قربانی بھی دینی پڑے تو گھاٹے کا سودا نہیں۔

حزبِ اختلاف کا تو ویسے ہی کوئی حال نہیں ہے۔ پاکستان کو اسلامی آئین اور جوہری بم دینے والے ذوالفقار علی بھٹو کے وارث بلاول زرداری تو خود بھٹو کے کیے کرائے پر پانی پھیرنے کے لیے پیش پیش اور پاکستان کو سیکولر بنانے کے لیے بے تاب ہیں۔ امریکا و یورپ سے بھی دو ہاتھ آگے جاتے ہوئے پیپلزپارٹی نے سندھ میں ہولی اور دیوالی پر سرکاری چھٹی کا اعلان کیا اور یہی مطالبہ قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا۔ کیا امریکا اور یورپ میں عید کے موقعے پر قومی تعطیل ہوتی ہے؟ وہاں تو مسلمانوں کو عید کی چھٹی نہیں دی جاتی۔ پاکستان میں اقلیتوں کو ان کے مذہبی تہوار منانے کے لیے چھٹی دینا دُرست ہے، لیکن ایسے تہواروں کے لیے قومی تعطیل کی پالیسی سمجھ سے بالاتر ہے۔ اس پالیسی پر ایک اعلیٰ افسر نے مجھے یہ پیغام بھیجا: ’’یومِ اقبال کی چھٹی ختم اور ہولی اور دیوالی کی چھٹی شروع ہوئی، جب کہ پاکستان میں ہندو ۶ئ۱ فی صد سے بھی کم… یہ پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے خلاف اعلانِ جنگ نہیں بلکہ اس بات کا اعلان ہے کہ سرحدیں پامال کی جاچکی ہیں… افسوس اب اس قوم کو محض ایک ہجوم سمجھا اور ہجوم بنایا جارہا ہے‘‘۔

اور کیا واقعی پاکستان کی نظریاتی بنیاد اور پہچان کا معاملہ کوئی چھوٹا مسئلہ ہے؟