برٹرینڈرسل نے حضرت موسٰی ؑ کو تفویض کردہ ’۱۰ خدائی احکامات‘ کے جواب میں جو ’۱۰لبرل احکامات‘ پیش کیے تھے، ان میںساتواں نکتہ یہ بھی تھا کہ: ’’کبھی نہایت مضحکہ خیز خیال کے اظہار سے مت گھبرائو کہ آج جو باتیں معمول بن گئی ہیں، وہ کل مضحک اور ناقابل قبول سمجھی جاتی تھیں‘‘۔ بزرگوار کو علم ہوتا کہ اس کے فکری شاگردوں نے محض اسی ایک نکتے سے خاطر خواہ نتائج حاصل کرلیے ہیں تو وہ خوامخواہ باقی نو نکات کی تشکیل میں سر نہ کھپاتا۔
امریکی اسکالر کارسن ہالووے اپنی کتابThe Way of Life: The Challenge of Liberal Modernity [۲۰۰۹ئ]میں بحث کرتے ہوئے امریکی معاشرے میں بڑھتے ہوئے لبرل ازم اور انحطاط پذیر اخلاقی اقدار کے بارے میں حددرجہ سنجیدہ ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ: لبرل ازم کا سب سے بڑا جھوٹ یہ یقین دہانی ہے کہ اگر آپ اپنی اخلاقیات پہ قائم رہنا چاہتے ہیں تو شوق سے رہیں، کوئی آپ کو نہیں روکے گا۔یہ وہ دھوکا ہے جو لبرل ازم آپ کواس لیے دیتا ہے کہ بظاہر آپ کی اخلاقیات میں کوئی ڈرامائی تبدیلی نظر نہ آئے، لیکن درحقیقت بہت کچھ بدل چکا ہو۔ یہ سارا کھیل گذشتہ صدی کے چھٹے اور ساتویں عشرے میں شروع ہوا تھا جب کچھ خاص مقاصد کے لیے ’صنفی انقلاب‘ برپا کیا گیا۔
اس کے لیے اس جنسی تعلق کو، جو شادی جیسے مقدس ادارے تک محدود تھا،پھیلا کر ’فرد کی آزادی‘ کے نام پر عام کردیا گیا، اور معاشرے کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔یاد رہے یہ وہی صنفی انقلاب ہے، جس کی فکری آبیاری فرائڈ، لارنس اور رائک نے کی۔ جب ایک کلچر کے مقابلے میں متضاد کلچر متعارف کروایا گیا، جس کی بنیاد ہی رائج اخلاقیات کو مسترد کرنے پر تھی۔ تب ہیوہن فر [پ: ۱۹۲۶ئ]نے پلے بوائے جیسے اَخلاق باختہ ماہ نامے کی اشاعت شروع کی، اور شکاگو میں پہلا پلے بوائے کلب کھولا۔ ۱۹۵۹ء میں ڈی ایچ لارنس [م:۱۹۳۰ئ] کا نہایت فحش مواد پہ مشتمل Lady Chatterley's Lover [۱۹۲۸ئ]کا امریکا میں غیر تحریف شدہ ایڈیشن شائع کرنے کی کوشش کی گئی، جس پہ باقاعدہ قانونی کارروائی ہوئی اور یہ اشاعت روکنی پڑی۔اس کے تین سال بعد ہنری ملر [م:۱۹۸۰ئ] کا ناولTropic of Cancer [۱۹۳۴ئ] پیرس میں شائع ہوکر نیویارک اسمگل ہوا، کیوںکہ وہاں اس کی اشاعت پہ پابندی تھی۔ نیویارک میں اس ناول کو فروخت کرنے والے کتب فروشوں کے خلاف قانونی کارروائی ہوئی، حتیٰ کہ امریکی سپریم کورٹ نے مداخلت کی۔ لیکن صرف دوسال بعد ہی حالات یک سر بدل گئے کہ جب جان کلے لینڈ [م:۱۷۸۹ئ] کے ناول Fanny Hill [۱۷۴۹ئ]کی اشاعت پہ پابندی کے خلاف اپیل کی گئی تو [۱۹۶۱ء میں]سپریم کورٹ کا فیصلہ اشاعت کے حق میں آیا۔یہ فیصلہ درحقیقت امریکی معاشرے کی اخلاقی اقدار کے تابوت کی پہلی اور گہری کیل تھی۔ اس کے الفاظ تھے:’’جنس انسانی زندگی کی سب سے بڑی اور پراسرار قوت محرکہ ہے اور ادب میں اس کے اظہار کا حق امریکی آئین دیتا ہے‘‘۔
ان چند مثالوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کس طرح معاشرے میں جنسی انارکی منصوبے کے تحت پھیلائی گئی ۔ہر بار یہی جھوٹ بولا گیا کہ: ’’اس سے کوئی قیامت نہیں آجائے گی، یہ کوئی بڑی تبدیلی تو نہیں محض چند ایک جکڑ بندیاں ڈھیلی کرنا ہی تو ہے‘‘۔ لیکن قیامت آہی گئی اور ہمیں خبر بھی نہ ہوئی۔جنسی آزادی کو فریقین کی باہمی رضامندی سے اس طرح نتھی کیا گیا کہ شادی ایک بے معنی ادارہ بن کے رہ گیا۔ پھر نہ تو ہم جنسیت قبیح رہی اور نہ طوائف گیری کوئی بُری بات سمجھی جانے لگی۔ آج کا امریکا، اخلاقی اقدار کے لحاظ سے ۱۹۶۴ء کے امریکا کے لیے بالکل اجنبی ہے۔
اگر اُس زمانے کے ’لبرل‘ اپنے کیے دھرے کے نتائج کے متعلق جھوٹ نہیں بول رہے تھے تو صریحاً جھوٹ ضرور بول رہے تھے، اُس دکان دار کی طرح، جو اپنے سودے کے نقائص کبھی بیان نہیں کرتا۔ہمارے ساتھ ’لبرل ازم‘ کے نام پہ گذشتہ ۵۰برسوں سے دھوکا ہو رہا ہے اور ابھی تو نتائج پوری طرح منکشف بھی نہیں ہوئے اور نہ ہوں گے، کیونکہ آزادی بھی تو ایک ارتقا پذیر عمل ہے، جو بڑھتی ہی جارہی ہے۔ اس کا انجام کیا ہوگا اور یہ کہاں جا کر رُکے گی؟کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ جنسی لبرل ازم جس پہ کوئی قدغن نہ ہو، اس کا سیدھا سادا مطلب یہ ہے کہ آپ کو علم نہیں کہ آپ کے بچے بڑے ہوکر کس قسم کے افراد بنیں گے اور آنے والی نسل کی اقدار کیسی ہوں گی؟کوئی ذمے دار شخص اس کی حمایت نہیں کرسکتا۔ کارسن ہالووے اپنی اس فکر مندی میں تنہا نہیں ہیں۔ امریکی معاشرے کے سنجیدہ طبقات جو اخلاقی اقدار پہ یقین رکھتے ہیں، اس حوالے سے حددرجہ فکر مند ہیں۔ان میں سے اکثریت اس بات پہ یقین رکھتی ہے کہ یہ اخلاقی انحطاط راتوں رات نہیں آیا، بلکہ غیر محسوس طریقے سے ایک مسلسل اور دھیمے عمل کے ذریعے لایا گیا ہے۔
مشہور امریکی اسکالر ڈینیل لپن [پ:۱۹۴۷ئ] اپنی کتابAmerica's Real War [۱۹۹۸ئ] میں لکھتے ہیں:’’ایک بار مجھ سے کہا گیا کہ مذہبی قوتیں اپنی اقدار ہمارے حلق میں ٹھونسنا چاہتی ہیں‘‘۔میں نے کہا:’’ ٹھیک ہے، لیکن کیا سیکولر قوتیں بھی ایسا ہی نہیں کر رہیں؟جب وہ پبلک اسکولوں میں ۱۰ سالہ بچوں میں جنسی عمل کی تعلیم دے رہی ہیں اور ساتھ ہی محفوظ جنسی عمل کی مصنوعات تقسیم کر رہی ہیں؟کیا تم نے اسے سگریٹ نوشی جتنا ہی عام اور نارمل نہیں بنا دیا؟کیا تم فحاشی اور بے راہ روی کو تفریح بنا کر ہمارے ٹی وی لائونج میں نہیں لے آئے؟ دیانت داری سے فیصلہ کرو کہ کیا تم نے اپنی سیکولر اخلاقیات، ہم مذہبی امریکیوں کے حلق میں نہیں ٹھونس دیں؟میں تسلیم کرتا ہوں کہ تم امریکا کے لیے ہماری مذہبی روایات کی خواہش کو دفاعی پوزیشن پہ لے آئے ہو اور جب تم حملہ آور ہوتے ہو تو دفاع تو کرنا پڑتا ہے۔ پھر اشتعال انگیزی کا الزام کیوں؟ یہ تو ’ذاتی دفاع‘ کا معاملہ ہے۔ تمھیں ڈر ہے کہ مذہبی اقدار تم پہ حاوی ہو جائیں گی اور مجھے ڈر ہے کہ ہم ہار جائیں گے، اور یہ بہت بُرا ہوگا ،کیونکہ یہ صرف ہماری ہار نہیں ہو گی‘‘۔
اسی طرح رچرڈ ایف ایمی بھی ایک فکر مند محقق اور اسکالر ہیں۔ ان کا کہنا ہے: ’’امریکا بے شک دنیا کے رہنما ملکوں میں سے ایک ہے، لیکن افسوس کی بات ہے کہ بے راہ روی اور بداخلاقی میں بھی امریکا ہی سب سے آگے ہے۔عظیم اقوام تو دنیا کے سامنے عظیم مقاصد اور کردار پیش کرتی ہیں، لیکن جب ان کی اقدار اور اخلاقی معیارات انحطاط پذیر ہونے لگیں، تب سمجھ لینا چاہیے کہ ان کے دن گنے جا چکے ہیں۔جب خاندان مضبوط ہوتا ہے اور والدین خدا کے بتائے اصولوں پہ زندگی گزارتے ہیں تو قوم بھی مضبوط ہوتی ہے، لیکن جب معاشرہ اخلاقی اقدار کو چھوڑ دیتا ہے تو قومیں تباہ ہو جاتی ہیں۔ ۸۰ فی صد امریکی خود کو مذہبی سمجھتے ہیں ،مگر پھر بھی اس بات پہ متفق ہیں کہ معاشرہ تیزی سے تباہ ہوچکا ہے‘‘۔
رچرڈ ایمی آگے چل کر کہتے ہیں: ’’کیا وجہ ہے کہ ۸۰ فی صد مذہبی امریکیوں کے ہوتے ہوئے نوبت یہ آگئی ہے، حالانکہ ریاست ہاے متحدہ امریکا کی بنیاد بائبل کی تعلیمات پہ تھی؟مانا کہ امریکا سیاسی طور پہ ایک مذہبی ریاست نہیں رہی، لیکن مذہب اس کی جڑوں میں پانی کی طرح زندگی بنارہا ہے۔اب ہماری قوم ’۱۰ خدائی احکامات‘ کو چھوڑ کر تیزی سے بداخلاقی کی طرف جارہی ہے۔ اکثر امریکیوں کے نزدیک اب شادی کے بغیر صنفی تعلق اور ہم جنسیت سے آگے بڑھ کر کثیر جنسی میں بھی کوئی قباحت نہیں رہی۔ آخر خدا محض فزکس اور کیمسٹری کے اصولوں کا خدا تو نہیں ہے، بلکہ وہ انسانی زندگی کے تمام پہلوئوں کا خدا ہے، جسے نظر انداز کر کے ہم سنگین نتائج بھگت رہے ہیں‘‘۔
تھامس ڈیل ڈیلے سابق ممبر امریکی ایوان نمایندگان اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں دُکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ: ’’ہم امریکیوں نے بحیثیت قوم، خدا کو دیس نکالا دے دیا ہے۔ ہمارے آباواجداد مذہبی لوگ تھے۔ ایک وقت تھا جب ان کا ایک خدا ہوا کرتا تھا اور وہ اپنی رہنمائی کے لیے اسے پکارتے تھے۔ انھیں علم تھا کہ خدا اور انجیل کے پاس ان کے آلام و مصائب کا علاج موجود ہے۔ انھوں نے قدیم مسیحیت کے اصولوں کو قوم کی تشکیل کے لیے استعمال کیا۔ان ہی کی وجہ سے امریکا عظیم ہے لیکن اس عظمت کو ٹھوکر اس لیے لگی کہ ہم نے اپنا رخ خدا سے پھیر لیا‘‘۔ آرکنساس کے سابق گورنر مائیک ہکیبی جو صدارتی امیدوار بھی رہ چکے ہیں، وہ فرماتے ہیں: ’’جب ’۱۰ خدائی احکامات‘ موجود ہیں تو کسی اور قانون کی کیا ضرورت ہے۔ہماری آزادی کسی خلا میں وجود نہیں رکھتی۔ یہ اس وقت ہی برقرار رہ سکتی ہے، جب اخلاقیات اس کی رہنمائی کے لیے موجود ہوں اور اس کام کے لیے ہمارا مذہب کافی ہے‘‘۔
اپنے پاکستانی سیکولر فاشسٹوں کو ان باتوں پر شدید غصہ آتا ہے، اور وہ اسی غصے میں بڑبڑاتے ہیں:’’جانے کہاں سے ڈرانے آجاتے ہیں، کھل کے جینے بھی نہیں دیتے۔دقیانوسی کہیں کے!‘‘