ڈاکٹر محی الدین غازیo


نماز کے مختلف اعمال کا تذکرہ مختلف راویوں نے کیا ہے۔ یہ تذکرے ہم تک حدیث کی کتابوں میں مدون ہوکر راویوں کے الفاظ کی صورت میں پہنچے۔ ان تذکروں کی حیثیت قولی روایت کی ہے۔ قولی روایتوں میں تواتر شاذ ونادر ہی ملتا ہے، زیادہ تر اخبار آحاد ہیں، جن میں کچھ روایتیں صحیح ذریعے سے پہنچی ہیں اور کچھ کمزور ذریعے سے۔ تاہم، جو حقیقت ذہن نشین رہنی چاہیے وہ یہ کہ اُمت نے نماز ادا کرنا ان قولی روایتوں سے نہیں ، بلکہ ان روایتوں سے پہلے اور ان روایتوں کے بغیر سیکھی اور ان متواتر عملی روایتوں کے ذریعے سیکھی، جن کی حیثیت متواتر عملی سنت کی ہے۔ قولی روایتیں تو بسااوقات ایک راوی سے ایک دو راویوں تک پہنچیں، مگر نماز ساری اُمت سے ساری اُمت تک پہنچی۔ گویا اُمت نے نماز راویوں سے نہیں سیکھی بلکہ نمازیوں سے سیکھی جن میں یہ راوی بھی شامل تھے۔

نماز کا طریقہ اور روایاتِ احادیث 

جب ہم نماز کے مختلف اعمال کا جائزہ لیتے ہیں تو مختلف صورتیں سامنے آتی ہیں۔ بعض اعمال وہ ہیں جن کے لیے روایتیں بھی ہیں اور عملی تواتر بھی موجود رہا ہے۔ ساری روایتیں اعلیٰ درجے کی ہیں اور عملی تواتر تو ہے ہی اعلیٰ درجے کی دلیل،جیسے تشہد کی مختلف صورتیں۔ بعض اعمال    وہ ہیں جن کے لیے روایتیں نہیں ہیں، یا ہیں تو بہت ہی ضعیف ہیں ، البتہ عملی تواتر ہے، جیسے رکوع کے بعد کھڑے ہونے پر ہاتھ رکھنے کا مقام اور عورتوں کے سجدے کی شکل ۔ بعض اعمال وہ ہیں   جن کے لیے روایتیں ہیں لیکن ان میں ذرا سی کمزوری ہے، یا وہ خود محدثین کے یہاں معروف نہیں ہیں۔ تاہم، عملی تواتر موجود ہے، جیسے حالت قیام میں ہاتھ باندھنا۔ غرض یہ کہ روایتوں کا درجہ مختلف ہوسکتا ہے۔ کسی عمل کے لیے متواتر روایتیں مل جاتی ہیں، اور کسی عمل کے لیے نہیں ملتی ہیں۔ کسی عمل کے حق میں صحیح روایتیں ملتی ہیں اور کسی عمل کے لیے ضعیف روایتیں ہی ملتی ہیں۔ لیکن یہ حقیقت ہمیشہ پیش نظر رکھنی چاہیے کہ عظیم فقہا نے اپنے زمانے میں اُمت کو نماز کے مختلف اعمال انجام دیتے ہوئے دیکھا، اور ان میں سے جو طریقہ ان کو زیادہ پسندآیا اس کواختیار کیا۔ ان کے زمانے میں اُمت میں جو طریقے رائج تھے، وہ دراصل عملی تواتر کے ساتھ ان کے زمانے تک پہنچے تھے۔

اس حقیقت کوسمجھ لینے کے بعد ہمارا رویہ نماز سے متعلق روایتوں کے بارے میں تبدیل ہونا چاہیے۔ ہم یہ نہ سمجھیں کہ نماز بس وہ ہے جو روایتوں میں مذکور ہے ، بلکہ نماز تو پہلے نمبر پر وہ ہے جو اُمت نے اُمت کے تعامل سے سیکھی، یعنی جو کچھ صحیح روایتوں میں ہے وہ تو درست ہے، مگر اُمت نے اُمت کے تعامل سے جو نماز سیکھی ہے وہ بھی درست ہے۔

صحیح روایتیں سر آنکھوں پر، مگر ان کا حوالہ دے کر اُمت کے تعامل سے آئی ہوئی نماز کو  غلط کہنا صحیح نہیں ہے۔ ہمارا رویہ یہ ہونا چاہیے کہ رفع یدین کرنا (رکوع سے پہلے اور اس کے بعد ہاتھ اٹھانا) بھی تواتر عملی سے ثابت ہے اور رفع یدین نہ کرنا بھی تواتر عملی سے ثابت ہے۔ دونوں عمل سنت کے مطابق ہیں۔ اتفاق سے ایک عمل کے حق میں بہت زیادہ روایتیں ہیں اور ایک کے حق میں کم روایتیں ہیں۔ اگر دونوں میں سے کسی ایک کے حق میں کوئی روایت نہ ہوتی تب بھی یہ نہیں مانا جاسکتا کہ ان کا عمل سنت سے ہٹ کر ہے، کیونکہ ان کی پشت پر عملی تواتر کی دلیل موجود ہے۔

 یاد رہے، ہمارا مقصد عملی تواتر کا حوالہ دے کر احادیث کی اہمیت کو گھٹانا نہیں ہے، بلکہ ایک ایسا راستہ یاد دلانا ہے، جس میں تمام صحیح روایتوں پر عمل ممکن ہو جاتا ہے، نہ کسی کو مرجوح اور قابلِ رد قرار دینا پڑتا ہے، نہ کسی کو منسوخ کہہ کر ناقابلِ التفات بنانا ہوتا ہے۔

نماز کے بعض احکام اور عملی تواتر

یوں تو نماز کے تمام اعمال کی اصل دلیل عملی تواتر ہی ہے، یہ الگ بات ہے کہ ان اعمال کے بارے میں مختلف درجے کی روایتیں بھی موجود ہیں۔ تاہم، بعض اعمال کے حوالے سے تو بہت واضح ہوجاتا ہے کہ ان کی پشت پر صرف عملی تواتر کی دلیل ہے۔ کیونکہ یا تو کوئی روایت اس سلسلے میں ملتی نہیں ہے، یا ملتی ہے تو ضعیف ہوتی ہے، اور اگر کسی درجے میں صحیح یا حسن ہوتی بھی ہے تو اتنی دُور دراز کی ہوتی ہے کہ یہ نہیں باور کیا جاسکتا کہ ساری اُمت نے نماز کا وہ عمل خاص اس روایت سے سیکھا ہوگا، جیسے رکوع اور سجدے کی تسبیحات کا بنا آواز کے پڑھنا ، تشہد اور درود بھی بنا آواز کے پڑھنا، جہری نمازوں میں دو رکعتوں کے بعد والی رکعتوں میں قرأت بنا آواز کے ہوتی ہے، رکوع سے پہلے ہاتھ کہاں باندھے جائیں، رکوع سے پہلے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہونے والے رکوع کے بعد ہاتھ چھوڑ کر کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ سارے اعمال وہ ہیں، جن کے دلائل کو تلاش کرنے نکلیں تو ساری تحقیق اورجستجو کے بعد اطمینان اسی پر ہوتا ہے کہ ان اعمال کی اصل دلیل عملی تواتر ہے۔ اس دلیل کے بغیر اتنی بڑی اُمت یکساں طریقے سے ان اعمال کو انجام نہیں دے سکتی تھی۔

 ائمہ فقہ کی تدوینِ نماز

اُمت کو ائمہ مجتہدین نے نماز کی ادایگی نہیں سکھائی بلکہ اپنے وقت کی اُمت سے سیکھی،  اس یقین کے ساتھ کہ یہی اللہ کے رسول کی نماز ہے، اور اسی طریقے کی تدوین کی۔ ہر امام نے حالتِ شعور میں اپنے شہر کے لوگوں کو نماز پڑھتے ہوئے پایا، اور اس یقین کے ساتھ نماز پڑھتے ہوئے پایا کہ ان کی نماز بالکل درست ہے اور طریقۂ رسول کے عین مطابق ہے۔

کبھی کبھی لوگوں کی گفتگو سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امام ابو حنیفہ، امام مالک اور امام شافعی کے زمانے میں اُمت کو نماز پڑھنی نہیں آتی تھی۔ اس لیے ہر امام نے اپنے پاس موجود دلائل کی روشنی میں نماز کا طریقہ اُمت کے سامنے پیش کیا۔ یہ تصور درست نہیں ہے۔ اماموں کا زمانہ تو بہت بعد کا ہے، اُمت تو ان سے پہلے بھی روزانہ نماز پڑھتی تھی۔ پوری اُمت نماز کے مختلف طریقوں کے بارے میں یہ یقین رکھتی تھی کہ یہ سب طریقے درست ہیں، اور سنتِ رسولؐ کے مطابق ہیں۔     ان کے درمیان نماز کے طریقوں کے بارے میں نہ کوئی بے اطمینانی تھی، نہ کوئی باہمی جھگڑا تھا۔ اس دور کے اماموں اور فقیہوں نے یہ کام ضرور کیا کہ نماز کے رائج طریقوں کو محفوظ کرلیا۔ چونکہ انھوں نے اس فقہ کی تدوین کا بیڑا اٹھایا تھا جو لوگوں کے عمل میں تو تھی لیکن ابھی اس کی باقاعدہ تدوین کا عمل تشنۂ تکمیل تھا۔ یوں نماز کے سارے طریقے بھی تدوین کے عمل میں شامل ہوگئے۔

ائمہ مجتہدین کا کام اُمت کو نماز سکھانا تھا ہی نہیں، ان کا اصل کام تو نئے پیش آمدہ مسائل میں اُمت کی رہنمائی کرنی تھی۔ لوگ ان کے پاس نماز کا طریقہ پوچھنے نہیں جاتے تھے، کیونکہ نماز کا طریقہ سب جانتے تھے۔ امام ابوحنیفہ کا امتیازیہ نہیں ہے کہ انھوں نے کوئی خاص طریقۂ نماز اختیار کیا۔ ان کا امتیاز تو یہ ہے کہ بدلتے ہوئے حالات میں نئے نئے مسائل کے سلسلے میں اُمت کی رہنمائی کی، یہی امتیاز امام مالک ، امام شافعی اور امام احمدبن حنبل اور دیگر مجتہد فقہا کاتھا۔

یوں بھی نماز اجتہاد کا میدان تو ہے نہیں، اسے تو بالکل ویسے ہی پڑھنا ہے جیسے اللہ کے رسولؐ نے پڑھ کر دکھایا تھا، اور اُمت ویسے ہی پڑھتی آئی ہے۔ ہم نے بہت بڑی غلطی کی جب نماز کی کسی خاص شکل کو کسی امام کی طرف منسوب کردیا، اور اس امام کے تمام مقلدین سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے امام صاحب کی طرف منسوب نماز پڑھیں۔

یہ حقیقت واضح رہنی چاہیے کہ جب نماز میں اجتہاد نہیں کرنا ہے تو پھر نماز میں تقلید بھی نہیں کرنی ہے، کیونکہ تقلید تو اجتہادی مسائل میں ہوتی ہے۔ بالفاظ دیگر جو کوئی چاہے اُمت میں موجود کسی بھی طریقے کی نماز پڑھ سکتا ہے، قطع نظر اس سے کہ وہ کس امام یا کس مسلک کا پیرو ہے۔

ہمیں جاننا چاہیے کہ نماز کے جن طریقوں کو ہم چاروں اماموں یا دیگر اماموں میں سے کسی کی طرف منسوب کرتے ہیں، وہ دراصل اس زمانے کی اس اُمت کا عمل ہوتا ہے ، اور امام محض اپنے وقت کی اُمت کا ترجمان ہوتا ہے۔ شاہ ولی اللہ دہلوی چوتھی صدی تک کے مسلمانوں کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’عوام الناس کا معاملہ یہ تھا، کہ اجماعی مسائل، جن میں مسلمانوں یا جمہور مجتہدین کے درمیان اختلاف نہیں ہوتا، ان میں صرف صاحب شریعت کی پیروی کرتے، اور وضو وغسل کی کیفیت، اور نماز و زکوٰۃ وغیرہ کے احکام اپنے آبا اور شہر کے عالموں سے سیکھ لیتے، اور اسی پر چلتے، اور جب کوئی نادر واقعہ پیش آجاتا تو کسی بھی مسلک کا جو مفتی مل جاتا،اس سے پوچھ لیتے‘‘۔

مسلک کی وکالت کا آغاز

پوری اُمت نے نماز اللہ کے رسول سے سیکھ کر عملی تواتر کے ساتھ بعد والی اُمت تک منتقل کی ہے، اس لیے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ نماز کو اس کے سارے باہمی فرق کے ساتھ اپنی نماز سمجھا جاتا۔ لیکن جب غلطی سے یہ مان لیا گیا کہ نماز کی کوئی ایک خاص صورت تو ہماری،ہمارے امام اور ہمارے مسلک کی ہے اور باقی صورتیں دوسروں کی اور دیگر اماموں اور مسلکوں کی ہیں، تو یہیں سے خرابی پیدا ہوئی۔ ہر مسلک کی وکالت کرنے والے لوگ سامنے آگئے۔ ان کا مقصد یہ ہوتا کہ اپنے مسلک کی تائید میں کمزور دلیل کو بھی طاقت ور بناکر پیش کریں ، اور مقابل کی طاقت ور دلیلوں کو بھی کمزور یا منسوخ قرار دیں۔اس میں وہ یہ بھی بھول جاتے کہ ان کی یہ وکالت اللہ کے رسول کی صریح اور صحیح تعلیمات کے مقابلے میں حد ادب سے تجاوز کررہی ہے۔ البتہ ان جانبدار وکیلوں کے مقابلے میں بعض دیانت دار اور غیر جانب دار فقہا کے نام بھی سامنے آتے ہیں ، جن کو مسلک سے زیادہ شریعت کی دلیل کا احترام اور خیال رہتا ہے، اور وہ اعتدال کی راہ کے متلاشی رہتے ہیں۔

اختلاف تنوع کیا ھے؟

اگر کسی عمل کو انجام دینے کے ایک سے زیادہ طریقے ہوں ، اور وہ سب جائز ہوں، تو ان میں اختلاف صرف اس بات کا رہ جاتا ہے کہ کون اپنی پسند یا صواب دید سے کس طریقے کو اختیار کرتا ہے۔ یہ جائز اور ناجائز کا اختلاف نہیں ہوتا بلکہ صرف پسند اور اختیار کا اختلاف ہوتا ہے۔ یہ سب طریقے جائز اور مشروع ہوتے ہیں۔ اس کو اختلاف مباح بھی کہتے ہیں، اور اختلاف تنوع بھی۔

علامہ ابن تیمیہ نے بتایا ہے کہ ایک سے زائد صحیح طریقوں میں ایک فقیہ کسی ایک طریقے کاانتخاب کیوں کرتا ہے؟ وہ صرف اسی ایک طریقے سے واقف ہوتا ہے، یا اس طریقے کا عادی اور اس سے مانوس ہوتا ہے، یا اس کے خیال میں اسے راجح قرار دینے کا کوئی سبب ہوتا ہے۔ اختلاف تنوع میں کبھی کوئی ایک فقیہ دیگر طریقوں پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتا ہے، کیونکہ اس کو لگتا ہے کہ یہ سنت سے ثابت نہیں ہے، لیکن اس سے اس دوسرے فقیہ کا یقین تومجروح نہیں ہوتا جو جانتا ہے کہ یہ بھی سنت ہے۔اس ضمن میں ایک قطعی اصول ہے کہ کسی بھی عمل کے جتنے طریقے اللہ کے   رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہوں وہ سب جائز ہیں، اور اگر لوگ ان میں سے الگ الگ طریقوں کا انتخاب کرتے ہیں ، تو یہ اختلاف تنوع ہے۔

حدیث و سنّت میں فرق

علامہ سید سلیمان ندوی نے سنت اور حدیث کا فرق بتاتے ہوئے عملی تواتر پر بہت   جرأت مندانہ اور بصیرت افروز گفتگو کی ہے، اور بہت زور دے کر یہ بات کہی ہے کہ نماز اُمت کو عظیم عملی تواتر کے ساتھ ملی ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ علامہ ندوی متواتر عملی کیفیت کو ہی سنت قرار دیتے ہیں۔ لکھتے ہیں: ’’آج کل لوگ عام طور سے حدیث وسنت میں فرق نہیں کرتے اور اس کی وجہ سے بڑا مغالطہ پیش آتا ہے۔ حدیث تو ہر اس روایت کا نام ہے جو ذات نبویؐ کے تعلق سے بیان کی جائے، خواہ وہ ایک ہی دفعہ کا واقعہ ہو یا ایک ہی شخص نے بیان کیا ہو، مگر سنت دراصل   عمل متواتر کا نام ہے۔ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود عمل فرمایا، آپ کے بعد صحابہ نے کیا ،   پھر تابعین نے کیا۔ گو یہ زبانی روایت کی حیثیت سے متواتر نہیں ، مگر عملًا متواتر ہے۔ اسی طرح    یہ بالکل ممکن ہے کہ ایک واقعہ روایت کی حیثیت سے مختلف طریقے سے بیان کیا گیا ہو، اس لیے وہ متواتر نہ ہو، مگر اس کی عام عملی کیفیت متواتر ہو۔ اس متواتر عملی کیفیت کا نام سنت ہے۔

فرض کیجیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز کی فرضیت کے بعد تمام عمر پانچ وقت نماز پڑھتے رہے۔ آپ کے بعد تمام صحابہ کا یہی طرز عمل رہا، یہی تابعین کا رہا، اور یہی روے زمین کے تمام مسلمانوں کا رہا، ان کا بھی جو امام بخاری اور امام مسلم کے وجود سے پہلے تھے، اور ان کا بھی جو اس کے بعد پیدا ہوئے۔ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پانچ وقت کی نماز اصطلاحی روایت متواترہ سے ثابت ہو یا نہ ہو لیکن عمل متواترہ سے بلاشک وشبہہ ثابت ہے۔ تیرہ سو برس سے زائد آج تمام دنیا کے مسلمان جن کے عقائد،اعمال ، خیالات، اخلاق ، زبان، تمدن، وطنیت اور   زمانے میں بے حد اختلاف ہے، تاہم اس بات میں سب کا اتفاق ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے اصحاب دن میں پانچ دفعہ نماز پڑھا کرتے تھے، فلاں فلاں اوقات میں اور فلاں فلاں ارکان کے ساتھ پڑھا کرتے تھے۔ یہ تواتر عملی ہے، جس کا انکار مکابرہ [خوا مخواہ کا اعتراض]ہے۔

کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ ان پانچ اوقات کے تعیین اور طریقۂ نماز بخاری یا مسلم یا ابوحنیفہ اور شافعی رحمۃ اللہ علیہم کی وجہ سے مسلمانوں میں رواج پذیر ہے۔ حالانکہ یہ تو وہ عملیت ہے جو اگر امام بخاری یا امام مسلم دنیا میں نہ بھی ہوتے تو بھی وہ اسی طرح عملاً ثابت ہوتی۔ اگر دنیا میں بالفرض احادیث کا ایک صفحہ بھی نہ ہوتا تو وہ اسی طرح جاری رہتی۔ احادیث کی تحریر وتدوین نے اس طرز عمل کی ناقابل انکار تاریخی حیثیت ثبت کردی۔ کیا پھر اس بنا پر کہ اس عملی کیفیت کو دوسری یا تیسری صدی کے کسی محدث نے الفاظ وتحریر میں قلم بند کردیا وہ تواتر حد اعتبار سے گرگیا‘‘۔

عملی تواتر پر ایک جامع تبصرہ

عملی تواتر پر قدیم فقہا میں ایک زبردست اور جامع بیان امام ابن عبدالبر کے یہاں ملتا ہے۔ آپ کا شمار چوٹی کے فقہا میں ہوتا ہے۔ مالکی مسلک کے آپ زبردست ترجمان مانے جاتے ہیں۔

تشہد میں کیا پڑھا جائے؟ اس پر علامہ ابن عبدالبر نے تمام اقوال اور ان کے دلائل پیش کیے، اور اس کے بعد فرمایا: ان شاء اللہ یہ سب اچھے اور خوب ہیں۔وَکُلٌّ حَسَنٌ اِن شَائَ اللّٰہُ۔

اس کے بعد انھوں نے حکمت وبصیرت سے بھرپور ایک شان دار بیان دیا۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ اختلاف تشہد کا ہو، اذان اور اقامت کا ہو، جنازے کی تکبیروں کا ہو، جنازے کی نماز میں کیا پڑھا جائے اور کیا دعا مانگی جائے اس کا ہو، عیدین کی نمازوں میں تکبیروں کی تعداد کا ہو، نماز کے رکوع میں ہاتھ اٹھانے کا ہو، نماز جنازہ کی تکبیر میں ہاتھ اٹھانے کا ہو، نماز کے سلام کا ہو کہ ایک سلام یا دو سلام، نماز میں داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھنے کا اور ہاتھ یونہی چھوڑدینے کا ہو،قنوت پڑھنے اور نہ پڑھنے کا ہو، اور اس طرح کے سارے ہی اختلاف دراصل مباح اختلاف ہیں۔ ویسے ہی جیسے وضو میں ایک ایک بار دودو بار اور تین تین بار اعضا دھونے کا معاملہ ہے۔ تاہم، حجاز اور عراق کے فقہا اور ان کے متبعین جن کے فتووں پر اب لوگوں کا دارومدار ہوگیا ہے، وہ نماز جنازہ میں چارتکبیروں سے زیادہ پر شدت اختیار کرتے ہیں، حالانکہ اس کی کوئی وجہ نہیں ہے، کیونکہ سلف تو سات اور آٹھ، چھے اور پانچ ، چار اور تین تکبیر بھی کہتے تھے۔ ابن مسعود نے تو کہا کہ تمھارا امام جتنی تکبیریں کہے اتنی تکبیریں تم بھی کہو۔یہی راے احمد بن حنبل کی بھی تھی۔یہی لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ وضو میں تین تین بار دھونا، ایک ایک بار اچھی طرح دھونے سے افضل ہے‘‘۔

اس کے بعد علامہ ابن عبدالبر نے عملی تواتر کی زبردست دلیل پر سے پردہ اٹھایا۔ وہ لکھتے ہیں:’’میں نے جن جن مسائل کا تذکرہ کیا ہے،انھیں دراصل تمام بعد والوں نے اگلوں سے نقل کیا ہے، اور نیک تابعین نے اپنے بزرگوں سے نقل کیا ہے، اور اس طرح نقل کیا ہے کہ اس میں کسی غلطی یا بھول چوک کا شائبہ نہیں ہے، کیونکہ یہ ظاہر اور نمایاں چیزیں ہیں، جن پر عالم اسلام کے سارے علاقوں میں عمل رہا ہے۔ یہ عمل زمانہ در زمانہ رہا ہے۔عوام اور علما تمام ہی اس میں یکساں رہے ہیں، اور یہ نبیِ اُمت صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے جاری ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ سب جائز ہیں، اور ان میں وسعت اور رحمت والی گنجایش ہے ، اور حمد اللہ کے لیے ہے‘‘۔

افضل عمل کی بحث میں اعتدال کی ضرورت

عملی تواتر اور دیگر روایات اور آثار سے جب ایک ہی مسئلے میں دوطریقوں کا سنت ہونا ثابت ہوجائے، تو ان میں سے کسی ایک کو افضل قرار دینے میں احتیاط کی بھی ضرورت ہے اور اعتدال کی بھی ۔ ائمہ اربعہ میں سے کوئی نماز کے کسی مسئلے میں ایک سے زیادہ طریقوں میں سے کسی ایک طریقے کو زیادہ پسند کرتا ہے، تو اس کی وجہ عام طور سے یہ ہوتی ہے کہ اس نے بچپن سے اسی عمل کو اپنے بزرگوں اور اساتذہ کو کرتے ہوئے پایا، اپنے علاقے میں اسی عمل کو رائج پایا، اور اس عمل سے اس کو انسیت زیادہ رہی۔ اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، کیونکہ مختلف امام جن مختلف طریقوں کو انسیت کی بنا پر پسند کرتے تھے، وہ عملی تواتر کی روشن اور مضبوط دلیل سے ثابت بھی ہوتے تھے۔ لیکن فقہ کے ان اماموں کو یہ معلوم رہتا تھا کہ دوسرے طریقے بھی سنت کے مطابق ہیں، وہ بھی عملی تواتر سے ثابت ہیں۔ اس لیے وہ بھی قابل احترام ہیں۔

شاہ ولی اللہ دہلوی ائمہ اربعہ کے زمانے کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’کسی مسئلے میں جب صحابہ اور تابعین کے مسلک باہم مختلف ہوتے، تو ہر عالم کا رجحان اس کے علاقے اور اس کے استاذوں کے مسلک کی طرف ہوتا۔ کیونکہ وہ یہ زیادہ جانتا کہ اس کے یہاں رائج اقوال میں کون صحیح ہیں اور کون ضعیف، اور ان کے لیے موزوں اصولوں سے اس کی واقفیت زیادہ ہوتی، اور پھر اس کا دل بھی ان کے علم وفضل سے زیادہ متاثر ہوتا‘‘۔

خود عمل کرنے کے لیے پسند کی یہ بنیاد بھی معقول اور مناسب ہے جس کا ذکر شاہ صاحب نے کیاہے۔ تاہم، بات اس وقت خرابی کا باعث بنتی ہے جب بعد میں آنے والے لوگ اپنے امام کی اس پسند کا اس قدر اشتہار کرتے ہیں، اس پر اس قدر اصرار کرتے ہیں، اور اس کی وکالت میں اتنے دلائل جمع کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ دوسرے موقف کی حرمت وفضیلت مجروح ہونے لگتی ہے۔

حقیقت میں تو دونوں طریقے فضیلت سے متصف ہوتے ہیں، کیونکہ ان کا سرچشمہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہوتی ہے، لیکن ان میں سے ایک کو افضل قرار دینے میں جب حداعتدال سے تجاوز ہوتا ہے، تو دوسرا غیر افضل لگنے لگتا ہے۔یہ دراصل سنت کے قابل احترام سرچشمے کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے، جہاں سے وہ طریقہ اُمت کو ملا ہے۔ اگر ساری توجہ اس پر مرکوز ہوجائے کہ ہمارے امام صاحب نے چند طریقوں میں سے کس طریقے کو پسند کیا تھا، اور آدمی     یہ فراموش کردے کہ وہ سارے طریقے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پسند کیے ہوئے اور  آپ کے بتائے ہوئے تھے، تو یہ رویہ درست نہیں ہوتا، اور اس کے اچھے نتائج برآمد نہیں ہوتے۔

نماز اور اُمت کا اتحاد

نماز کے بارے میں بہت سے اختلافات، اس وجہ سے پیدا ہوئے اور شدت اختیار کرگئے کہ لوگوں نے یہ نظر انداز کردیا کہ نماز اُمت کو غیر معمولی عملی تواتر سے ملی ہے۔ اگر دلائل و شواہد کی روشنی میں تمام مسلمانوں پر یہ حقیقت عیاں ہوجائے، اور انھیں یہ اطمینان ہوجائے کہ ائمہ اربعہ کے زمانے میں نماز کی جتنی شکلیں بیان کی گئی ہیں وہ سب تواتر سے ثابت ہیں اور عین سنت رسولؐ کے مطابق ہیں، تو نماز کی کسی ایک شکل کے بجاے ساری شکلوں سے محبت اور انسیت پیدا ہوجائے گی، اور اس کے نتیجے میں اختلاف وافتراق کا ایک بہت بڑا دروازہ بند ہوجائے گا۔نماز کے سلسلے میں ہمارا مثالی رویہ یہ ہونا چاہیے کہ طریقۂ نماز میں کہیں کہیں کچھ فرق نظر آئے تو اس کی نماز بھی اتنی ہی اچھی لگے جتنی اچھی اپنی نماز لگتی ہے، آمین کچھ زور سے کہنا بھی اچھا لگے اور آمین کچھ دھیرے سے کہنا بھی اچھا لگے کہ یہ سب کچھ اُمت نے پیغمبر اُمت سے سیکھا ہے۔ نماز پڑھنے والوں کی ہر ادا رسول اُمی کی اداہے، اس لیے ہر ادا اچھی لگنا چاہیے۔

اسلام کے دور اول میں نماز کے طریقوں کا تنوع اُمت میں اختلاف کا سبب نہیں بنتا تھا۔ علامہ ابن تیمیہ سے سوال کیا گیا کہ کیا چاروں مسلکوں سے وابستہ لوگوں کی ایک دوسرے کے پیچھے نماز صحیح طور سے ادا ہوجائے گی؟

علامہ ابن تیمیہ نے فرمایا: ’’ان کی ایک دوسرے کے پیچھے نماز جائز ہے، جیسا کہ صحابہ ، تابعین اور ان کے بعد ائمہ اربعہ کا طریقہ تھا، کہ وہ ایک دوسرے کے پیچھے نمازیں پڑھتے تھے، جب کہ ان مذکورہ مسائل میں ان کے درمیان اختلاف بھی تھا، لیکن سلف میں کسی نے یہ نہیں کہا کہ وہ ایک دوسرے کے پیچھے نمازیں نہ پڑھیں۔ اس حقیقت سے جو بھی انکار کرے گا وہ دراصل بدعتی، گمراہ اور کتاب وسنت اورسلف اُمت کے اجماع کا مخالف ہے۔

 صحابہ، تابعین اور ان کے بعد والوں میں کچھ لوگ بسم اللہ پڑھتے تھے، اور کچھ نہیں پڑھتے تھے، کچھ آواز سے پڑھتے تھے، اور کچھ آواز سے نہیں پڑھتے تھے، کچھ فجر میں قنوت پڑھتے تھے، اور کچھ نہیں پڑھتے تھے، کچھ تھے جو حجامہ، نکسیر اور قے کے سبب سے وضو کرتے تھے، اور کچھ ان اسباب سے وضو نہیں کرتے تھے، کچھ شرم گاہ چھونے اور عورت کو شہوت سے چھونے کے سبب سے وضو کرتے تھے، اور کچھ وضو نہیں کرتے تھے ، کچھ نماز میں قہقہہ لگانے کے سبب سے وضو کرتے تھے اور کچھ وضو نہیں کرتے تھے، کچھ اونٹ کا گوشت کھانے کے سبب سے وضو کرتے تھے اور کچھ وضو نہیں کرتے تھے۔ اس سب کے باوجود وہ ایک دوسرے کے پیچھے نمازیں پڑھا کرتے تھے، جیسا کہ امام ابو حنیفہ، اور ان کے شاگردوں کا اور امام شافعی کا اور دیگر لوگوں کا معاملہ تھا۔ وہ مدینہ کے مالکی اماموں کے پیچھے نمازیں پڑھتے تھے،جب کہ وہ لوگ نماز میں بسم اللہ نہ آواز سے پڑھتے تھے نہ بلاآواز کے پڑھتے تھے۔ اسی طرح امام ابویوسف نے ہارون رشید کے پیچھے نماز پڑھی، جب کہ اس نے حجامہ لگوائی تھی، اور امام مالک نے اسے فتوی دیا تھا کہ اسے حجامہ کے بعد وضوکی ضرورت نہیں ہے۔ چنانچہ اس کے پیچھے امام ابویوسف نے نماز پڑھی اورنہیں دوہرائی۔ اسی طرح امام احمد بن حنبل کی راے تھی کہ حجامہ اور نکسیر کے سبب سے وضو کرنا چاہیے۔ ان سے پوچھا گیا کہ اگر امام (کی نکسیر پھوٹ جائے اور) خون نکلے، اور وہ وضو نہ کرے تو کیا آپ اس امام کے پیچھے نماز پڑھیں گے؟ انھوں نے کہا میں سعید بن مسیب اور مالک کے پیچھے نماز کیسے نہیں پڑھوں گا؟۔

اس تاریخی حقیقت کوکم وبیش انھی الفاظ میں شاہ ولی اللہ دہلوی نے حجۃ اللّٰہ البالغہ میں بھی ذکر کیا ہے۔ دراصل سلف صالحین کی تقلید کرنے والوں کے لیے اس تاریخی بیان میں بڑا سبق ہے۔یہ اسی وقت ممکن ہے جب نماز کے مختلف مسائل کے سلسلے میں لوگ اپنا نقطۂ نظر درست کریں، اور خاص طور سے نماز کے حوالے سے اپنے موقف کے ساتھ دوسروں کے موقف کو بھی درست مانیں، اور یہ سمجھیں کہ نماز کے مسائل کے بارے میں سب کا موقف سنت رسولؐ کے مطابق ہے۔(جاری)