ایمان لانے کا ایک قدرتی نتیجہ مسلمانوں کے دلوں میں ایک دوسرے سے محبت کی صورت میں ظاہر ہو تا ہے۔ آج ہم اپنا جائزہ لیں کہ کیا ایسا ہے؟ اور اگر نہیں تو اپنے ایمان کی فکر کریں کہ کہاں کیا نقص رہ گیا ہے۔ آج اُمت اختلاف کا شکارہو گئی ہے اور اس کا ایک بڑا مسئلہ آپس کی مخالفت اور تفرقہ ہے۔ اس کے نتیجے میں اُمت ذہنی اور عملی خلفشار اور معاشرتی انتشار کا شکار ہو گئی ہے۔ اگرچہ اس حالت کی بہت سی وجوہ ہو سکتی ہیں جن میں سے کچھ اپنوں اور کچھ غیروں کی پیدا کردہ ہیں لیکن یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ تفرقے کی یہ بیماری اُمت کے وجود کو گھن کی طرح چاٹ رہی ہے۔
تفرقہ بازی شیطان کا راستہ ہے اور ہمیں اس راستے کو چھوڑ کر رحمٰن کے بتائے ہوئے اتفاق و اتحاد کے سیدھے راستے کی طرف آنا ہو گا جس کا ذکر خود اللہ تعالیٰ نے سورۂ انعام میں فرمایا:
وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِـیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ ج وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ ط ذٰلِکُمْ وَصّٰکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَo (انعام ۶:۱۵۳) اس کی ہدایت یہ ہے کہ یہی میرا سیدھا راستہ ہے، لہٰذا تم اسی پر چلو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ اُس کے راستے سے ہٹا کر تمھیں پراگندا کر دیں گے ۔ یہ ہے وہ ہدایت جو تمھارے رب نے تمھیں کی ہے ، شاید کہ تم کج روی سے بچو۔
بدقسمتی سے آج عملی طور پر مسلمانوں کی حالت یہ ہے کہ وہ اللہ اور رسولؐ کے احکامات کو پسِ پشت ڈال کر ایک ہونے کے بجاے ٹکڑوں میں بٹ گئے ہیں۔ نتیجتاً مسلمان پستی، کمزوری اور ذہنی غلامی کا شکار ہوگئے ہیں۔ قرآنِ مجید میں انتہائی سخت الفاظ میں تفرقہ بازی کرنے والوں پر وعید کی گئی ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَہُمْ وَکَانُوْا شِیَعًا لَّسْتَ مِنْہُمْ فِیْ شَیْ ئٍ ط اِنَّمَآ اَمْرُہُمْ اِلَی اللّٰہِ ثُمَّ یُنَبِّئُہُمْ بِمَا کَانُوْا یَفْعَلُوْنَo (انعام ۶:۱۵۹) جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور گروہ گروہ بن گئے یقیناً ان سے تمھارا کچھ واسطہ نہیں،ان کا معاملہ تو اللہ کے سپرد ہے، وہی ان کو بتائے گا کہ انھوں نے کیا کچھ کیا ہے۔
غور فرما ئیں کہ رسولؐ اللہ کو کہا جا رہا ہے کہ تفرقوں میں پڑنے والے ان لوگوں کی مرضی ہے جدھر چاہیں جائیں، ان کا تم سے کوئی تعلق ہی نہیں (استغفراللہ)۔
وَاَطِیْعُوا اللّٰہَ وَرَسُوْلَـہٗ وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْہَبَ رِیْحُکُمْ وَاصْبِرُوْا ط اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَo (انفال۸:۴۶) اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑو نہیں ورنہ تمھارے اندر کمزوری پیدا ہو جائے گی، اور تمھاری ہوا اکھڑ جائے گی ۔ صبر سے کام لو،یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔
یہ تو اس دنیا میں اختلافات کا نتیجہ ہے جو ہم بھگت رہے ہیں اور اختلافات اور تفرقے کا جو انجام آخرت میں ہو گا وہ کڑے عذاب کا سامنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
وَ لَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا وَ اخْتَلَفُوْا مِنْم بَعْدِ مَا جَآئَ ھُمُ الْبَیِّنٰتُ ط وَاُولٰٓئِکَ لَھُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ o یَّوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْہٌ وَّ تَسْوَدُّ وُجُوْہٌ ج ( ٰالِ عمرٰن ۳ :۱۰۵-۱۰۶)کہیں تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو فرقوں میں بٹ گئے اور کھلی کھلی واضح ہدایات پانے کے بعد پھر اختلافات میں مبتلا ہوئے۔ جنھوں نے یہ روش اختیار کی وہ اس روز سخت سزا پائیں گے، جب کہ کچھ لوگ سرخ رُو ہوں گے اور کچھ لوگوں کا منہ کالا ہوگا۔
مسلمانوں کی اس بیماری کی تشخیص کے لیے کارگر تو بس وہی نسخہ ہے جو اللہ اور اللہ کے رسولؐ کا تجویز کردہ ہے۔
سورئہ آلِ عمران کی آیت وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا ص ( ٰال عمرٰن ۳:۱۰۳) ’’سب مل کر اللہ کی رسّی کو مضبوط پکڑلو اور تفرقے میں نہ پڑو‘‘کی تشریح میں مولانا مودودی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اس رسی کو ’مضبوط پکڑنے‘ کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کی نگاہ میں اصل اہمیت دین کی ہو، اسی سے ان کو دل چسپی ہو، اسی کی اقامت میں وہ کوشاں رہیں اور اسی کی خدمت کے لیے آپس میں تعاون کرتے رہیں ۔ جہاں دین کی اساسی تعلیمات اور اس کی اقامت کے نصب العین سے مسلمان ہٹے اور ان کی توجہات اور دل چسپیاں جزئیات و فروع کی طرف منعطف ہوئیں، پھر ان میں لازماً وہی تفرقہ و اختلاف رونما ہو جائے گا جو اس سے پہلے انبیا علیہم السلام کی امتوں کو ان کے اصل مقصد حیات سے منحرف کر کے دنیا اور آخرت کی رسوائیوں میں مبتلا کر چکا ہے‘‘۔ (تفہیم القرآن، اوّل،ص ۲۷۶-۲۷۷)
مولانا محمود حسن نے فرمایا کہ مسلمانوں کی موجودہ پستی کے دو ہی سبب ہیں:ترکِ قرآن اور باہمی اختلاف۔ اور مولانا مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’مسلمانوں کو تو میں یہی کہتا ہوں کہ ان کے لیے تو صرف یہی لائحہ عمل ہے کہ وہ قرآن پر متفق ہو جائیں اور اگر فہم قرآن اور تفسیرِ قرآن میں اختلاف ہو بھی اور یہ اختلاف حدود کے اندر رہے تو نہ وہ مذموم ہے اور نہ انسان کے لیے مضر___ قرآن پہ تمسک کرنا ہی وہ چیز ہے جس سے بکھری ہوئی قوتیں جمع ہوتی ہیں اور ایک مُردہ قوم حیات تازہ حاصل کرتی ہے۔ پھر سورۂ شوریٰ کی آیت اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا (۴۲:۱۳) کی تشریح میں احادیث کے حوالوں کی روشنی میں اس بات کی مزید وضا حت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اجتماعی اور متفق علیہ احکام میں تفرقہ ڈالنے کی شدید ممانعت ان احادیث ِصحیحہ میں آتی ہے۔ـ(معارف القرآن)
یہ بات یاد رہے کہ ائمہ اربعہ رحمۃ اللہ علیہم نے فقہ کی تدوین کر کے اس اُمت پر بہت بڑا احسان کیا ہے اور اس طرح رسولؐ اللہ کی سنت کے ہر پہلو پر عمل کرنے کو ممکن بنا دیا ہے۔ ’فقہ‘ فی نفسہٖ دین نہیں بلکہ دین پر عمل کرنے کا طریقہ اور ذریعہ ہے۔ یہ ائمہ کرام کا وہ علمی کام ہے جس میں قرآن و سنّت کی روشنی میں عرف، انسانی ذوق اور عصری علوم کی روشنی میں زندگی کے مختلف مسائل کا سنّت کے قریب ترین حل مدوّن کرنے کی کوشش گئی ہے اور انھی اصولوں کے مطابق آج بھی فقہاے کرام زندگی کے مختلف النوع مسائل کا حل تجویز کرتے ہیں۔
اسی طرح ’مسلک‘ بھی بنیادی طور پر وہ عملی نظام ہے جو علما ، فقہا اور ائمہ کرام نے زبردست محنت اور کوشش سے لوگوں کے لیے قرآن، سنت اور فقہ کی روشنی میں اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکام پر عمل کرنے کے لیے مرتب کیا ہے اور مختلف مسائل کے حل کو یک جا کر دیا ہے، تاکہ عام مسلمانوں کے لیے دین کے مطابق زندگی گزارنے میں آسانی پیدا کی جا سکے۔
رسولِ کریمؐ نے اختلاف راے کو نعمت قرار دیا ہے۔ اس اختلاف سے انسان کی علمی اور تخلیقی استعداد کو جِلا ملتی ہے۔ اس کا ایک اور بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ جس صورت پر بھی عمل ہو، انسان شریعت کے دائرے کے اندر ہی ہوتا ہے۔ اور غلطی کے امکان یا شک کا فائدہ اس شخص کو ہی ملتا ہے جو نیک نیتی کی بنیاد پر کوئی بھی راے اختیار کر لیتا ہے۔ فقہی اور مسلکی اختلافات کو مخا لفت میں تبدیل کرنا انصاف کے منافی ہے اور اس صورت میں یہ رحمت نہیں بلکہ زحمت کا باعث بن جاتا ہے۔
کسی بھی فقہی راے کو اختیار کرنے سے کوئی شخص اسلام کے دائرے سے خارج نہیں ہوجاتا، البتہ فقہی اختلافات کی بنا پر یا اس کو بہانہ بنا کر قرآن یا حدیث کا بالواسطہ انکار اور خواہش نفس کی پیروی کرنا دوسری بات ہے۔ یہی حال فتاویٰ کا بھی ہے۔ اگر ایک مسئلے میں ائمہ اربعہ یا فقہاے کرام کی دو مختلف راے موجود ہوں تو ایک کے اختیار کرنے اور دوسری کو چھوڑ دینے کو کفر اور اسلام کا معاملہ نہیں بنایا جاسکتا۔ البتہ کسی بھی راے کے اختیار کرنے کی بنیاد ہواے نفس نہیںبلکہ احکام شریعت پر بہتر طریقے سے عمل کی کوشش ہونی چاہیے۔
قرآن و حدیث کے واضح احکام کے بعد اپنی راے یا مسلک کے لیے تاویلات نہیں ڈھونڈنی چاہییں، مگر یہ بات یاد رہے کہ کسی مسئلے میں راے قائم کرنے کا اختیار ہر شخص کا کام نہیں۔ یہ صرف علماے کرام کا کام ہے اور عام لوگوں کو انھی کی راے کو اختیار کرنا چاہیے۔ جس طرح ہم زندگی کے مختلف شعبوں میں اس شعبے کے اسپیشلسٹ کے پاس جاتے ہیں اور اس کی راے یا ہدایت ہی پر عمل کرتے ہیں اسی طرح شرعی معاملات میں بھی شریعت کے ماہرین (علما و فقہا) کے پاس جانا چاہیے اور ان کی راے اور ہدایات پر عمل کرنا چاہیے۔
قُلْ یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآئٍم بَیْنَنَا وَ بَیْنَکُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰہَ وَ لَا نُشْرِکَ بِہٖ شَیْئًا وَّ لَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ ط فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْھَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ o (الِ عمرٰن ۳:۶۴)کہہ دو کہ اے اہل کتاب جو بات ہمارے اور تمھارے درمیان یکساں (تسلیم کی گئی ہے) اس کی طرف آؤ، وہ یہ کہ خدا کے سوا ہم کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کریں اور ہم میں سے کوئی کسی کو خدا کے سوا کار ساز نہ سمجھے۔ اگر یہ لوگ (اس بات کو) نہ مانیں تو (ان سے) کہہ دو کہ تم گواہ رہو کہ ہم (خدا کے) فرماںبردار ہیں۔
اگرچہ اس آیت میں مسلمانوں کو یہ ہدایت اہلِ کتاب کے بارے میں دی جا رہی ہے مگر قرآن نے اصولی طور پہ ایک قاعدہ بیان کر دیا ہے کہ بات کی ابتدا کیسے کی جائے؟ جب بات نیک نیّتی سے اس طرح شروع کی جائے تو اس بات کا قوی امکان پیدا ہو گا کہ اختلافات ختم ہوجائیں ورنہ کم تو ضرور ہو جائیں گے۔ جہاں کہیں اختلاف کی بات آئے تو تھوڑی دیر کے لیے اس اختلاف کو پس پشت ڈال کر ان امور پر توجہ دیں، جن پر آپ کا اور دوسرے فریق کا اتفاق ہے۔اس طرح خود ہی یہ بات سامنے آّ جائے گی کہ اہم امور کے اکثریتی معاملوں پرتو پہلے سے ہی اتفاق موجود ہے اور اختلاف تو صرف ذیلی امور (عموماً فروعات) میں ہی ہے۔
جس بات میں مشکل درپیش ہو اس پر اَڑنے کے بجاے اہلِ علم سے رجوع کریں اور اختلاف سے بچیں۔ سورئہ نحل میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْٓ اِلَیْہِمْ فَسْـــئَـلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَo (النحل ۱۶:۴۳)اور ہم نے تم سے پہلے نہ بھیجے مگر مرد جن کی طرف ہم وحی کرتے، تو اے لوگو! علم والوں سے پوچھو اگر تمھیں علم نہیں۔
اس آیت میں بھی علم نہ ہونے کی صورت میں حقیقت اور صحیح بات معلوم کرنے کا ایک قاعدہ بیان کر دیا گیا ہے۔مسائل (جو اکثر فروعات میں ہی ہوتے ہیں) کی صورت میں کھلے ذہن کے ساتھ اہلِ علم سے صحیح صورتِ حال معلوم کر لی جائے اور باہم اختلافات کو ہوا دینے کے بجاے مسلمانوں کے اتحاد اور اتفاق کو قائم رکھنے کے لیے دوسروں کی راے کا احترام کیا جائے۔ اختلافات سے بچنے کا یہ ایک کارگر نسخہ ہے۔ ایسے موقعے پر یہ بات ہمیشہ ذہن نشین رہنی چاہیے کہ مسئلے کی حقیقت جاننے کی بنیاد خلوص ہے نہ کہ خواہش نفس کی تسکین اور کسی دوسرے کو نیچا دکھانے اور کسی بھی طرح اپنی بات کو صحیح ثابت کرنے کی ضد اور کوشش۔
رسولؐ اللہ نے اختلاف کے تدارک کی تلقین کی ہے۔آپؐ نے حضرت معاذؓ اور حضرت ابوموسیٰؓ کو جانبِ یمن روانہ کرتے وقت یہ فرمایا کہ تم دونوں آسانیاں کرنا اور سختی نہ کرنا، خوش خبری سنانا اور لوگوں کو متنفر نہ کردینا، باہم اتحاد و انصاف رکھنا اور اختلاف نہ ہونے دینا۔(بخاری)
قرآن کو سمجھ کر عمل کر نے کے نقطۂ نظر سے پڑھیں۔بدقسمتی سے ہم قرآن کو ثواب کی کتاب سمجھ کر پڑھتے ہیں۔ اور یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ کتاب بنیادی طور ہمیں زندگی گزارنے کے اصول اور طریقے بتانے اور دکھانے کے لیے نازل کی گئی ہے۔ اس کے پڑھنے کا ثواب تو یقینا ہے لیکن صرف اس کو پڑھنا اس کتاب کا بنیادی مقصد نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ اسی کتاب میں فرماتے ہیں:
کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْٓا اٰیٰتِہٖ وَلِیَتَذَکَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِo (صٓ ۳۸:۲۹)۔ یہ ایک بڑی برکت والی کتاب ہے جو (اے محمدؐ) ہم نے تمھاری طرف نازل کی ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں اور عقل و فکر والے اس سے سبق لیں۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے مُبٰرَکٌ کہہ کر بات ختم نہیں کر دی بلکہ متصلاً فرمایا کہ یہ کتاب تمھارے غور و فکر کے لیے ہے۔ اصولاً ہمیں قرآن اس نیت سے پڑھنا چاہیے کہ ہمیں قرآن سے اپنی زندگی کے لیے عملی اقدامات، اصول اور ہدایات ڈھونڈنی ہیں۔ کسی بھی مسئلے کی تشریح کے لیے علما سے رجوع کر کے اپنی مشکل یا شک کا حل ڈھونڈیں۔
قرآن عمل کرنے اور زندگی میں نافذ کرنے کے لیے نازل کیا گیا ہے۔ اس کو عمل کے لیے پڑھنے کی ذیل میں ایک مثال دی جاتی ہے جو اس بات کی بھی وضاحت کرتی ہے کہ اس قرآن نے صحابہ کرامؓ کی زندگی کو تو یکسر بدل دیا لیکن یہی قرآن پڑھ کر ہماری زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔
جب آیت لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ط (اٰل عمرٰن ۳:۹۲) نازل ہوئی تو حضرت عمرؓ نے خیبر میں اپنی بہترین زمین، حضرت طلحہ ؓنے اپنا سب سے نفع بخش اور بہترین باغ، حضرت زیدؓ نے اپنا بہترین اور محبوب گھوڑا اللہ کی راہ میں دے دیے، اور حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے اپنی سب سے محبوب کنیز کو اللہ کی رضا کے لیے آزاد کر دیا۔
قرآن سمجھ کر پڑھنے اور اس پرعمل کرنے کے بارے میں علامہ اقبال فرماتے ہیں ؎
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے ، حقیقت میں ہے قرآن
شیطان ہمیشہ اسی کوشش میں رہتا ہے کہ مسلمان کہیں قرآن کی طرف پلٹ نہ آئیں۔ وہ یہ جانتا ہے کہ اس کتاب کے بغیر مسلمان کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور اس کی ہمیشہ یہ کوشش رہتی ہے کہ مسلمانوں کو قرآن سے دور رکھے۔ اقبال اسی بات کو ابلیس کی زبان سے یوں بیان کرتے ہیں:
جانتا ہوں میں یہ اُمت حاملِ قرآں نہیں
ہے وہی سرمایہ داری بندۂ مومن کا دیں
جانتا ہوں میں کہ مشرق کی اندھیری رات میں
بے یدِ بیضا ہے پیرانِ حرم کی آستیں
ہے یہی بہتر الٰہّیات میں الجھا رہے
یہ کتابُ اللہ کی تاویلات میں الجھا رہے
سنّتِ رسولؐ کا ا تّباع
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ ج فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْ ئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ط ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِیْلًا (النساء ۴:۵۹)اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسولؐ کی اور اُن لوگوں کی جو تم میں سے صاحب ِ امر ہوں ، پھر اگر تمھارے درمیان کسی معاملے میں نزاع ہو جائے تو اسے اللہ اور رسولؐ کی طرف پھیر دواگر تم واقعی اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہو۔یہی ایک صحیح طریقِ کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے۔
سورئہ نساء کی ایک اور آیت میں تو یہ بات واضح کر دی گئی ہے کہ رسولؐ اللہ کی اطاعت کے بغیر اللہ کی اطاعت اور رضامندی کا حصول ممکن ہی نہیں۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:’’ جس نے رسولؐ کی اطاعت کی اس نے دراصل خدا کی اطاعت کی اور جو منہ موڑ گیا، تو بہرحال ہم نے تمھیں اُن لوگوں پر پاسبان بنا کر تو نہیں بھیجا ہے‘‘۔(النساء۴:۸۰)
اللہ کی اطاعت اور رسولؐ اللہ کے اتباع کے بارے میں دو باتوں کی وضاحت ضروری ہے۔ ایک تو وہ نصوص اور احکام ہیں جن پر عمل پوری امت کا فرض ہے۔ دوسرے وہ اُمور ہیں جن کا تعلّق اوّل الذکر احکامات سے نہیں اور ان میں اجتہاد کی گنجایش موجود ہے اور ائمہ اربعہ نے اپنے اپنے علم کی بنیاد پر قرآن اور حدیث کی روشنی میں اپنی راے بیان کی ہے۔ یہ وہ مسائل ہیں جن میں اختلاف کی گنجایش موجود ہے اور اسی لیے اس میں اپنی ہی راے پر تشدد کی حد تک اصرار اختلاف سے بڑھ کر مخالفت کا سبب بن جاتا ہے اور نتیجہ امت میں تفرقہ کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔
اختلافی اُمور میں سلف کا طرز عمل ہمارے لیے روشنی کا مینار ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ کے زمانے میں ابوجعفرمنصور اسلامی دنیا کے خلیفہ تھے۔ انھوں نے امام صاحب کو تجویز دی کہ ان کی کتاب موطا کو تمام مملکت کا قانون بنا دیا جائے جسے امام مالک رحمہ اللہ نے قبول نہ کیا اور کہاکہ: رسولؐ اللہ کے صحابہ پوری دنیا میں پھیل چکے ہیں اور ہر ملک والوں کے پاس اپنا اپنا علم ہے۔ اگر آپ سب کو ایک راے پر مجبور کریں گے تو فتنہ کھڑا ہو جائے گا۔
اُمت مسلمہ باہمی اختلاف و انتشار سے جس کمزوری سے دوچار ہے اُس سے نجات کی راہ قرآن و سنت کو مضبوطی سے تھامنے اور اس سے رہنمائی لینے، نیز اختلافی مسائل میں اعتدال کی راہ اپنانے میں ہے۔ اسی طرزِعمل کے نتیجے میں اُمت میں اختلاف و انتشار کا سدباب ہوسکے گا۔