ڈینی سجرسن


(امریکی فوجی مؤرخ اور مصنّف: Ghostriders of Baghdad: Myth of the Surge ،کنساس، امریکا)

گذشتہ انیس برسوں [۲۰۰۱ء-۲۰۲۰ء] سے امریکی فوج نے دنیاکی ایک انتہائی دُورافتادہ سرزمین پر جنگجو قبائلی مسلمانوں کے خلاف جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ کیا یہ صورت حال کچھ جانی پہچانی نہیں معلوم ہوتی ہے؟
جی ہاں، اس صورت حال کے جانے پہچانے ہونے میںکوئی شک نہیں ہے، کیوں کہ  ایک صدی سے زائد عرصہ پہلے، فلپائن کے انتہائی جنوبی جزائر میں اس جنگ کا آغاز ہوا۔اس وقت امریکی فوجی، افغانستان کے طالبان سے نہیں بلکہ انتہائی خودمختار اور آزاد اسلامی قبائلی،مورو مسلمانوں کے خلاف جنگ لڑ رہے تھے۔ تب غیرملکی حملہ آوروں کے خلاف ان قبائلیوں کی شدید مزاحمت کے قصّے بہت مشہور تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے زمانے میں محض چند افراد نے ہی مورو مسلمانوں کے خلاف امریکی جنگ (۱۸۹۹ء-۱۹۱۳ء) کے متعلق سن رکھاہوگا۔ اس کے بعد افغانستان میں امریکی فوجی مداخلت،امریکا کی دوسری طویل ترین جنگ ثابت ہوئی ہے۔
عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ امریکا نے اس وقت مسلم دنیا میں بامقصد انداز میں  دل چسپی لینا شروع کی، جب واشنگٹن ۱۹۷۹ء میں ایرانی انقلاب میں اُلجھ کر رہ گیا۔ اسی سال کے   آخر میں افغانستان پر سابق کمیونسٹ روسی سلطنت حملہ آور ہوئی۔ یہ واقعات اگرچہ ایک ہی سال میں رُونما ہوئے، لیکن معاملہ اس قدر سادہ نہیں۔ انیسویں صدی میں امریکیوں کے خلاف مورو نسل کے مسلمانوں نے ایک طویل چھاپہ مار جنگ لڑی۔ یہ ’ہسپانوی اور امریکی جنگ‘ کا شاخسانہ تھی۔
یہ مہم نہ صرف تاریخ بلکہ اجتماعی امریکی یادداشت سے محو ہو چکی ہے۔مثال کے طور پر ’مورو مسلمانوں کے خلاف جنگ‘ کے موضوع پر [کتابوں کی فراہمی کے عالمی نیٹ ورک] ’امیزون‘ سے دست یاب بنیادی کتب صرف سات کی تعداد میں سامنے آتی ہیں۔اس کے برعکس امریکی ’جنگ ویت نام‘ کے متعلق بنیادی معلومات فراہم کرنے والی کتب کی تعداد ۱۰ ہزار سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ چیز اپنی جگہ ایک پُراسرار امر ہے۔جنوبی فلپائن کے جزائر میں جنگ،ازاں بعد ویت نام میں روایتی امریکی فوجی کارروائی سے نہ صرف چھے برس طویل تھی بلکہ اس جنگ کے نتیجے میں ۸۸ ’کانگریشنل میڈلزفارآنر‘ عطا کیے گئے، اور مستقبل کے پانچ امریکی آرمی چیف بھی انھی فوجیوں سے ترقی کرکے مقرر ہوئے۔ اگرچہ فلپائن کے شمالی جزائز میں شورش اور سرکشی کے خلاف جنگ ۱۹۰۲ء میںختم ہوگئی تھی، لیکن موروباغی مزید ایک عشرے تک لڑتے رہے۔جیسا کہ لیفٹیننٹ بینی فیولوس ___بعدازاں آرمی ایویشن کے ’بانی‘ نے لکھا:’’فلپائن کی شورش کو بہت کم ان مشکلات سے تقابل کیا جا سکتا ہے، جو ہمیں مورو [مسلمانوں]کے ساتھ جنگ میںپیش آئیں‘‘۔
    مورو مسلمانوں کے خلاف جنگ کے حوالے سے ذیل میں کچھ نکات پیش کیے جارہے ہیں: یہ جنگ حتمی طور پر امریکا کی ایک ناکام جنگ ہے۔ اس جنگ کو کسی ایک عرصے کے خونیں المیے کے طور پر نہیں، بلکہ  ’نسل درنسل جدوجہد‘ کے طور پر دیکھنا چاہیے۔ مورولینڈ سے بظاہر امریکی فوج کے انخلا کے باوجود ایک سوسال بعد، مجاہدینِ اسلام اور دیگر علاقائی شورشیں،بدستور جنوبی فلپائن کو متاثرکرتی رہی ہیں۔

خوش آمدید مورولینڈ

مورو جزائر اور افغان عقبی علاقے کے درمیان کئی صورتوں میں خاصی مشابہت پائی جاتی ہے۔ منڈانوائے کا موروجزیرہ، خود آئرلینڈ سے بڑا ہے۔۳۶۹ سے زائد جنوبی فلپائنی جزائر تقریباً دشوارگزار اور غیرترقی یافتہ علاقے ہیں، جوایک لاکھ ۱۶ہزار ۸سو ۹۵ مربع کلومیٹر جنگلوں اور پہاڑوں پر مشتمل ہیں۔ وہاں امریکیوں کی آمد کے وقت محض ۷۵ کلومیٹر طویل پختہ سڑکیں موجود تھیں۔ یہ سرزمین اس قدر دشوارگزار ہے کہ یہ فوجی دُورافتادہ علا قوںکوbundok (غیرآباد)کہتے تھے، جو تیگالگ زبان کے ایک لفظ’پہاڑی علاقہ‘کی بگڑی ہوئی شکل ہے___اور اب یہ لفظ امریکی ذخیرۂ الفاظ میں داخل ہے۔
۱۴۹۲ء میں سپین سے بے دخل کیے گئے مسلمانوں کے ذریعے یہ مقامی مسلم قبائل منظم ہوئے۔ اسلام عرب سوداگروں اور تاجروں کے ذریعے ۱۲۱۰ء میں یہاں آیا تھا۔ اسلام ہی نے ان جزائر کے درجنوں کثیرالتہذیبی اور لسانی دھڑوں کو ایک قوتِ اتفاق مہیا کی۔ ان کی آمد سے پہلے یہاں قبیلوں کے درمیان جنگیں معمول کا حصہ تھیں۔ فلپائن میں تین صدیوں کی حکومت کے دوران، ہسپانیوں نے مورولینڈ میں محض علامتی موجودگی سے زیادہ کبھی کچھ ظاہر نہیں کیا۔
مورو اور افغان حُریت پسندوں میں اور بھی مشابہتیں ہیں۔دونوں،افغان اور مورو،جنگجو فطرت ومیلان کے حامل ہیں۔ہر بالغ مورو، تلوارزیب ِتن کرتا اور جب بھی ممکن ہوتا، اس کے پاس آتشیں اسلحہ بھی ہوتا۔ اکیسویں صدی کے افغانوں کی طرح انیسویں صدی کے مورو،اکثر اوقات،قابض امریکی فوجیوں کے خلاف طاقت استعمال کرتے۔حتیٰ کہ مورو خودکش بمبار کا ابتدائی رُوپ ’جورامینٹاڈو‘ (Juramentado) بھی تھے۔ جو اپنا سر منڈوا دیتے اور سفید لباس پہن کر امریکی فوجیوں کے خلاف زندگی اورموت کی جنگ کے لیے پیش قدمی کرتے۔یوں مورو مسلمانوں کی طرف سے امریکی قابض فوجیوں کو نشانہ بنانے کی بے مثال صلاحیت توڑنے کے لیے امریکی فوج نے  کلاٹ ۴۵  پستول کااستعمال شروع کردیا۔
خلیج منیلا میں ہسپانوی بیڑے کوشکست دینے اوروہاں موجودہ محافظ فوج کوبلاتاخیرشکست دینے کے بعد،امریکا نے ۱۸۸۹ء کے ’معاہدہ پیرس‘ کے تحت فلپائن کواپنی عمل داری میںشامل کرلیا اور یہ فیصلہ کرتے وقت مورو مسلم قبائل سے مشاورت تک نہ کی گئی۔اسپینی حکومت اپنے زیرانتظام علاقوںمیں ہمیشہ محتاط رویہ اپنایا کرتی تھی، جب کہ موروں نے توپیرس کے متعلق کچھ سنابھی نہیں تھا۔
امریکی جنرل جان بیٹس،جو مرکزی جزائرمیں فلپائنی شورش کوختم کرنے پراپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے تھا،اس نے مورو رہنماؤںکے ساتھ ایک معاہدے پردستخط کیے کہ ’’امریکا ان کے ’حقوق اوروقار‘ یا’مذہبی عقائدورسوم‘ میں مداخلت نہیں کرے گا‘‘۔ تاہم، جنرل جان بیٹس نے جب مناسب جانا،یہ معاہدہ کاغذکامحض ایک ٹکڑاثابت ہوا۔ دراصل واشنگٹن نے ان مورو قبائلی رہنماؤں کے ساتھ تعلقات کوماضی میں ’وحشی‘ مقامی قبائل کی حیثیت ہی سے دیکھا۔
جنرل بیٹس کامعاہدہ اس وقت تک قائم رہا،جب تک امریکی فوج اور سیاسی رہنماؤں کو اس کی ضرورت تھی۔ بلاشبہہ یہ معاہدہ ان جزائرمیںامن کی واحد امید تھی۔مورولینڈ میں ’محدود ابتدائی امریکی مقاصد‘___ ۲۰۰۱ء میں افغانستان پر امریکی سی آئی اے/سپیشل فورسزکے حملے کے ’محدود مقاصد‘ کے مانند تھے۔ پھر یہ دونوں مہنگی جنگیں ثابت ہوئیں۔ افغانستان پر قبضہ جمانے کے بے سود مقاصد یہ تھے کہ ’جمہوریت کا فروغ اور ’دہشت گردی‘ کا خاتمہ۔ امریکی فوجی افسران اور سیاسی انتظامیہ مورو میں بھی یہ موہوم کھیل کھیلنا چاہتے تھے، لیکن ’بیٹس معاہدہ‘ کی منسوخی کا نتیجہ جنگ کی صورت میں برآمد ہوا۔

نقطہ ہاے نظر اورحکمت عملیاں

مورولینڈ میں امریکیوں نے اسی طرح جنگ لڑی، جس طرح۲۰۰۱ء سے ’دہشت گردی کے خلاف افغانستان میں جنگ‘۔ فتح کی حکمت عملی یہ اپنائی گئی کہ زیادہ تر دُورافتادہ علاقوں میں موجود نوجوان افسروں کے ذریعے جنگ کی دھاک بٹھائی جائے۔ اس طرح کچھ کو تو کامیابی نصیب ہوئی، جب کہ کہیں بُری طرح ناکام ہو گئے۔ تاہم، وہ دُورافتادہ ملک کے عوام پر ’جمہوریت‘ اور ’امریکی طرزِزندگی ‘مسلط کرنے میں ہرگز کامیاب نہ ہوسکے۔مورولینڈ میں امریکی راج مسلط کرنے کے لیے عدم ربط،عدم تسلسل اور مسلسل تبدیل ہوتی حکمت عملیاں سامنے آئیں۔
جب مورو قبائل نے امریکی فوجیوں پر وقفے وقفے سے چھاپامار کارروائیاں شروع کیں، تو ان کے خلاف ایک جابرانہ فوجی مہم کا آغاز کر دیا گیا۔اس قسم کے پہلے واقعے میں،جنر ل ادنا شیفے (بعدازاں آرمی چیف آف اسٹاف) نے مقامی موروقبائل کے راہ نماؤں کو دو ہفتے کی مہلت دی کہ حملہ آور چھاپہ ماروں کو ہمارے حوالے کر دیاجائے۔ وہ جنھیں ایک زمانے میں امریکیوں کے ہسپانوی پیش رو بھی فتح نہیں کر سکے تھے،انھوں نے انکار کر دیا۔
کرنل فرینک بالڈون نے فوج کشی کی قیادت کرتے ہوئے مورو قبائل پر فتح حاصل کرنے کے لیے ظالمانہ اور خوں ریز ہتھکنڈے( جو اکیسویں صدی کے افغانستان میں رُوبۂ عمل ہتھکنڈوں سے ملتے جلتے تھے) استعمال کیے۔ تاہم، کچھ نوجوان فوجی افسروں نے کرنل فرینک کے نقطۂ نظر سے اختلاف کیا۔بریگیڈیئر جنرل جان جے پرشنگ نے شکایت کی کہ ’’کرنل بالڈون چاہتا تھا کہ وہ پہلے مورو قبائل کو گولی مار دے اور بعد میں انھیں زیتون کی شاخ پیش کرے‘‘۔
اگلے ۱۳برس کے دوران ایک دوسرے کے بعد آنے والے امریکی کمانڈروں اور افسرشاہی کے درمیان چپقلش جاری رہی کہ کس طرح فتح حاصل کی جائے ___ یہ بالکل ویسی جنگ تھی، جس نے نائن الیون کے بعد امریکی فوج کو نقصان پہنچایا۔ایک طبقے کا خیال تھا کہ ’’محض جارحانہ اور ظالمانہ کارروائیاں ہی جنگجو مورو قبائل کو تسخیر کر سکتی ہیں۔ جس طرح جنرل جارج ڈیوس نے ۱۹۰۲ء میںلکھا کہ ہمیں یہ امر فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ طاقت، واحد حکمت عملی ہے جس کا مورو احترام کرتے ہیں‘‘۔
لیکن پرشنگ جیسی سوچ رکھنے والوں نے اختلاف کیا اور صبروتحمل کے ساتھ مورو رہنماؤں کے ساتھ معاملات طے کیے۔ قدرے مجہول فوجی اثر برقرار رکھا اور مخالفانہ خیالات کو بھی تسلیم کیا۔ فلپائن میں خدمات انجام دیتے ہوئے پرشنگ کے بیانات نے۲۰۱۶ء کی صدارتی انتخابی مہم کے دوران ایک بار توجہ حاصل کرلی، جب صدارتی اُمیدوار ڈونالڈٹرمپ نے دانستہ ایک جھوٹی کہانی دہرائی کہ کس طرح ’’اس وقت کے جان پرشنگ( پہلی جنگ عظیم کے دوران امریکی افواج کے اعلیٰ کمانڈر) جیسے ’ایک ترش اور تنُدخو شخص‘نے ایک بار۵۰مسلمان’دہشت گرد ‘گرفتار کر لیے، ۵۰گولیوں کو سؤر کے خون میں تر کیا،ان میں سے ۴۹ کو گولی مار کر ہلاک کر دیا اور ایک کو محض اس لیے چھوڑ دیا، تاکہ وہ یہ خونیں واقعہ اپنے باغی ساتھیوں کو سنا سکے‘‘۔ ٹرمپ کے مطابق اس کہانی کا نتیجہ یہ تھا کہ ’’آیندہ ۲۵برس تک وہاں کوئی مسئلہ پیدا نہ ہوا ،ٹھیک ہے نا!‘‘ حالانکہ عملی طور پر اس کے باوجود فلپائن کی شورش مزید ایک عشرے تک جاری رہی اور پھر ان جزائر میں مسلم علیحدگی پسند بغاوت آج بھی موجود ہے۔
درحقیقت، پرشنگ عرف’بلیک جیک‘ مورولینڈ میں امریکی کمانڈر تھا۔ ا س نے مقامی بولی سیکھی۔ وہ دُورافتادہ دیہات کا سفر کرتا اور گھنٹوں سپاری چباتا رہتا( جس کے استعمال سے بدن میںچستی اور مستعدی پیدا ہوتی تھی) اور مقامی لوگوں کے مسائل سنتا۔ پرشنگ بظاہر نرم خُو تھا، لیکن  بعض اوقات وہ کہیں زیادہ خباثت کا بھی مظاہرہ کرتا۔دراصل اس کی جبلت یہی تھی کہ سب سے پہلے بات چیت کی جائے اور آخری چارۂ کار کے طور پر لڑائی کا راستہ اپنایا جائے۔
جب پرشنگ کے بعد جنرل لیونرڈ ووڈ، مورولینڈ میں تعینات ہوا توحکمت عملی تبدیل ہوگئی۔ اپاچی جنگوں میں گرنیمو (Geronimo) مہم کے ایک کہنہ مشق افسر اور بعدازاں مستقبل میں ایک اور امریکی چیف آف سٹاف (میسوری میں ایک امریکی فوجی اڈا اس کے نام پر ہے) نے موروں کے خلاف اپنی مہمات میںScorched Earth Tactics (ایسی فوجی کارروائیاں جن کے ذریعے دشمن کے لیے مفید ہر چیز تباہ کر دی جاتی ہے) استعمال کیے اور کہا کہ ’’انھیں اس طرح صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جائے جیسا کہ امریکا کے ریڈ انڈینز کوصفحۂ ہستی سے مٹا دیا گیا‘‘۔اس نے یہ جنگ جیت کر ہزاروں مقامیوں کو ذبح کر دیا، لیکن مورو مزاحمت کو ختم نہ کر سکا۔
اس عمل کے دوران، اس نے بیٹس نامی معاہدہ بھی ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا، اور مغربی طرز کا فوجداری انصاف کا نظام نافذ کر دیا۔ اس نے امریکی طرز کی سڑکوں، اسکولوںکی تعمیر کے علاوہ انفراسٹرکچر کی بہتری پر رقوم خرچ کیں___ موروں پر نئے ٹیکس عائد کر دیے، جن کو قبائلی رہنماؤں نے اپنے سماجی، سیاسی اور مذہبی رسوم ورواج پر حملہ تصور کیا۔
اس کی کارروائیوں کی مثال امریکی اتحادی فوجوں کی زیرسرپرستی اس انجمن کے مانند تھی، جس نے عراق پر ۲۰۰۳ء میںامریکی حملے کے بعد حکومت کی۔ اس غیرمنتخب ادارے میں بذاتِ خود جنرل لیونراڈ ووڈ (جس کا ووٹ دو دفعہ گنا جاتا تھا)، دو امریکی افسران، اور دو امریکی سیاسی حکام شامل تھے۔ وڈ نے نہایت تکبر کے عالم میں فلپائن کے امریکی گورنر،مستقبل کے صدر ولیم ہوارڈٹافٹ کے نام لکھا:’’اس وقت یہی ضروری ہے کہ موروں کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے اور قانون پر سختی سے عمل کیا جائے‘‘۔
لیونراڈووڈ کے ایک ماتحت کمانڈر میجر رابرٹ بلارڈ (پہلی جنگ عظیم میں پہلی انفنٹری ڈویژن کے کمانڈر) نے لکھا کہ ’’یہاں کے عوام کے متعلق ووڈ کی بہت کم معلومات ہیں ___ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے وہ معلومات حاصل کیے بغیر ہر چیز اپنی مرضی کے مطابق کرنا چاہتا ہے‘‘۔
اس کی مرضی اور  ہتھکنڈوں کا نمونہ یہ تھا کہ محصور مورو، دیہات پر توپ خانے سے بمباری کی گئی، بے شمار خواتین اور بچوں کو ہلاک کر دیا اور پھر پیادہ فوج کے ساتھ دھاوا بول دیا۔ اس یلغار کے نتیجے میں تقریباً کوئی بھی قیدی نہیں لے جایا گیا، یعنی سب کو ختم کر دیا گیا۔ یوں بے شمار جانی نقصان ہوا۔ اسی طرح جولو کے جزیرے پر ایک ایسی ہی مہم کے نتیجے میں ۵ہزار مورو (جزیرے کی آبادی کا ۲فی صد) کو ہلاک کر دیا۔ جب کبھی اخبارات کو اس قتل عام کے متعلق بھنک پڑی،  ووڈ نے حقائق کو مسخ کرنے یا جھوٹی کہانیاں سنانے سے کبھی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا، تاکہ    اپنی ظالمانہ کارروائیوں سے بریت حاصل کی جائے۔تاہم،جب اس کے ذاتی محافظ نے منہ کھولا تواسے مجبوراً اپنی ظالمانہ کارروائیوںکا اعتراف کرنا پڑا۔
جنگ ویت نام کے دور میں بدنام زمانہ امریکی بیان کی تمہید میں یہ لکھا ہوا ہے:’’یہ ضروری ہو گیا تھا کہ دیہات کو بچانے کے بجاے انھیں تباہ کر دیا جائے‘‘۔ اس سے قبل جنرل ووڈ نے کہا: ’’اگرچہ یہ اقدامات بہت زیادہ سخت معلوم ہوتے ہیں،لیکن یہ نرم ترین اقدامات ہیں جن پر عمل کیا جاسکتا ہے‘‘۔ اس کی کارروائیاں بھی موروں کو تسخیر نہ کرسکیں۔آخرکار اس نے اپنی کمان جنرل تاسکر بلس کے سپرد کی ، تب بھی بغاوت اُبل رہی تھی۔
اس کا جانشین ،مستقبل کا ایک اور امریکی آرمی چیف بلس (جس کے نام پر ایک امریکی اڈے کا نام رکھا گیا ہے) قدرے معتدل مزاج انسان تھا، لکھتا ہے: ’’حکام یہ فراموش کر چکے ہیں کہ انتہائی مشکل وقت وہ ہوتا ہے، جب قتل عام مکمل کیا جاچکا ہوتا ہے‘‘۔ اس نے وسیع پیمانے پر عقوبتی فوجی مہمات روک دیں اور محتاط رہتے ہوئے یہ امر تسلیم کر لیا کہ ’’مورولینڈ میں فی الواقع تشدد اور غارت گری کا ارتکاب کیا گیا ہے‘‘۔ بہرحال تقریباً اکثر حاضر ملازمت امریکی جرنیلوں کے مانند، جو ’نسلی جنگ‘ اختیار کرنے کی جبلت رکھتے تھے، اس نے بھی کہا کہ ’’امریکی فوجی موجودگی لامحدود عرصے کے لیے لازمی ہوگی‘‘۔ جنرل بلس کی پیش گوئی تھی: ’’حکومت کی طاقت، تمام گمراہ کن بیانیے اور لفاظی کو ختم کر دے گی، جس کا مطلب یہ ہے کہ امریکا کو گلے سے پکڑ کر اکثر آبادی کو اپنا مطیع رکھنا ہو گا، باوجود یہ کہ آبادی کے محض چھوٹے سے حصے پر اس کی حکومت ہو‘‘۔

بڈڈاجو کا قتل عام اور’روشن ضمیر‘افسرشاہی

مورو لینڈ میں سڑکوں کی تعمیر،تعلیم کی فراہمی،شہری ڈھانچے کی بہتری کے بھیس میں امریکی فوجی راج قوت اور ظلم کے بل پر قائم ہو ہی گیا۔ ۱۹۰۵ء کے اواخر میں ،میجرہف سکاٹ، جو اس وقت جولو میں کمانڈر ( مستقبل کا ایک اور امریکی آرمی چیف) تھا، اسے یہ اطلاعات موصول ہوئیں کہ ’’ایک ہزار تک مورو خاندانوں نے ٹیکسوں کے خلاف احتجاج کے لیے جولو جزیرے میں واقع بڈڈاجو کے عظیم الجثہ خوابیدہ آتش فشاں کے دہانے کی طرف پیش قدمی کا فیصلہ کر لیا ہے‘‘۔ میجرہف کو اس احتجاجی مظاہرے پر حملہ کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آئی تو اس نے مذاکرات کو ترجیح دی، جیساکہ اس نے لکھا:’’ یہ واضح تھا کہ بہت سے قبائلی ہماری کارروائی سے پہلے ہی مر جاتے، لیکن  وہ کس مقصد کے لیے مرتے؟کیا اس لیے کہ قبائلیوں سے ایک ہزار سے بھی کم ڈالر محصول اکٹھا کیا جائے؟یاد رہے کہ پہاڑوں کی چوٹیوں پر زندگی بہت ہی مشکل ہے اور زیادہ تر مورو اس وقت نہایت پُرامن طور پرنیچے آ جاتے جب ان کی فصلیں پک جاتیں‘‘۔
پھر ۱۹۰۶ء میں ہف سکاٹ چھٹی پر گھر چلاگیا اور اس کے غصیلے جنگجو اور دوسرے درجے کےکمانڈر کیپٹن جیمز ریوز نے، جسے سبک دوش صوبائی کمانڈر لیونراڈ ووڈ کی بہت زیادہ حمایت حاصل تھی، جولو کے موروں کے ساتھ جنگ جاری رکھنے کا فیصلہ کر لیا۔وہ موروں کی ہلکی سی مزاحمت کو بھی امریکی راج کے لیے خطرہ سمجھتا تھا۔
جیمز ریوز نے خوں ریز حملے کے متعلق خطرناک اطلاعات روانہ کیں۔لیونراڈ ووڈ نے مورولینڈ میں اپنے فرائض منصبی کی مدت میں اضافہ کرتے ہوئے آخرکار یہ فیصلہ کیا کہ ’’اب بڈڈا جو کے موروں کا قلع قمع کر دینا ہو گا‘‘۔پھراس نے حملے کے جواز کے لیے مزید جھوٹی اطلاعات روانہ کیں، جب کہ وزیرجنگ ٹافٹ کے ایک حکم کو نظرانداز کردیا، جس میں تحریری اور واضح طور پر پیشگی منظوری کے بغیر وسیع پیمانے پر فوجی کارروائیوں سے منع کیا گیا تھا۔
بہت سے مورو آتش فشاں کے دہانے سے واپس لوٹ آئے تھے۔۵ مارچ ۱۹۰۶ء کو ووڈ کی ایک بڑی باقاعدہ فوج نے پہاڑ کا محاصرہ کر لیا اور تین اطراف سے فوری طور پر حملہ کرنے کا حکم جاری کردیا۔ موروقبائل نے جو زیادہ تر تلواروں اور پتھروں سے مسلح تھے، شدید مزاحمت کی، لیکن ان کی یہ مزاحمت انھی کے قتل عام پر منتج ہوئی۔ کیونکہ ووڈ نے بڈڈاجوکے دہانے پر مشین گنیں،  توپ خانہ، جب کہ سیکڑوں بندوق بردار تعینات کر دیے اورمو روں پر بلاتفریق گولیوں کی بوچھاڑ کردی، جس کے نتیجے میں غالباً ایک ہزار مورو مسلمان ہلاک ہو گئے۔جب دھواں صاف ہوا،  چھے کے سوا تمام مور،تقریباً۹۹فی صد ہلاک ہو چکے تھے۔لیونراڈ ووڈ موروں کی لاشیں دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ پانچ لاشوں کواسی مقام پر پانچ فٹ گہرے گڑھے میں دبا دیا اور یوں اپنی اس ’فتح‘ پر  فخر محسوس کرتے ہوئے اس نے اطلاع دی: ’’تمام مزاحمت کار ہلاک ہوگئے ہیں‘‘۔ اس کے کچھ فوجیوں نے فخریہ انداز میں سیکڑوں خواتین اور بچوں کی لاشوں پر کھڑے ہوکر تصویریںبنوائیں کہ جیسے وہ جانوروں کے شکار کے بعد بہت بڑی ٹرافی جیت کر لائے ہوں۔ یہ بدنامِ زمانہ تصاویر بیسویں صدی کے اوائل میں تیزی سے دنیا بھر میں پھیل گئیں۔ اس پر سامراج مخالف میڈیا غصّے سے پاگل ہو گیا اور ووڈ کو انتہائی بدنامی کا سامنا تھا۔
اس سے پہلے کہ اس بدنام زمانہ واقعے کا تذکرہ اخبارات میں آتا،امریکی صدر تھیوڈور روزویلٹ نے ووڈ کوایک مبارک باد کا خط بھیجا: ’’ہتھیاروں کی نمایش کا شان دار مظاہرہ کرکے تم اور سپاہیوں نے امریکی جھنڈے کا وقار بلند رکھا ہے، شاباش‘‘۔
دانش وَر،مارک ٹوین نے یہ کہا: ’’قدیم قاتلوں کی روایت کے مطابق ایک دوسرے پر دھری ہڈیوں پر مشتمل ڈھیر پر جھنڈا بلند کر دینا چاہیے‘‘۔ وڈو نے لکھا:’’ہم نے انھیں مکمل طور پرختم کر دیا اور اپنی مُردہ ماں کے لیے روتا ہوا ایک بچہ بھی نہیں زندہ چھوڑا‘‘۔ ڈبلیو ای بی ڈیو بوئس نے پہاڑ کے دہانے کی تصویرکو ’ایک انتہائی روشن علامت قرار دیا، اور لکھا: ’’اسے کمرہ ٔ جماعت کی دیوار پر آویزاں کیا جائے تاکہ طلبہ کو علم ہو سکے کہ جنگیں، خاص طور پر حقیقی فتح کی جنگیں‘کیا ہوتی ہیں؟‘‘
۱۹۰۶ء کے بڈڈا جو قتلِ عام کا حقیقی سانحہ، موروجنگ کا ایک ایسا باب تھا کہ جس طرح افغانستان کے خالی دیہات، جہاں قدم قدم پر بارودی سرنگوں کا بچھایا گیا جال تھا، جس کا ۲۰۱۱ء-۲۰۱۲ء میں میرے اپنے [امریکی] فوجیوں نے افغانستان میں ارتکاب کیا۔ جس کا بدنامِ زمانہ نتیجہ وہ تباہی تھی جب طالبان نے ۲۰۰۹ء میں واقع کیٹنگ نامی متحارب چوکی کو تقریباً روند دیا تھا۔
یہ بدنامِ زمانہ واقعہ ایک ماہ تک امریکی اخباروں کی شہ سرخیوں کی زینت بنا رہا۔ مثال کے طو رپر۱۵مارچ ۱۹۰۶ء کو روزنامہ نیشن کے اداریے میں سوال اُٹھایا گیا: ’’کیا موروں کے متعلق کوئی مخصوص حکمت عملی اختیار کی جا رہی ہے؟___ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک بے مقصد جنگی مشق کی جارہی ہے، جس کے دوران بعض اوقات خوںریز کامیابیاں بھی حاصل ہو جاتی ہیں___ لیکن جنگ مسلسل جاری رہتی ہے اور کوئی یہ معلوم بھی نہیں کر سکتا کہ ہم کوئی کامیابی حاصل کر بھی رہے ہیں؟‘‘یہ اقتباس جنوبی فلپائن میں بے سود اور بے اُمید جمود کو مختصر طور پر بیان کرتا ہے۔تاہم،اس وقت (اور جس طرح حال ہی میں واشنگٹن پوسٹ نے) انکشاف کیا ہے: ’’امریکی جرنیلوں اور سینیر امریکی حکام، جنگوں کے جمود کو کامیابی میں تبدیل کرنے کے قابل نہیں ہیں‘‘۔

مورولینڈمیں ’ترقی‘ کاسراب

جیسا کہ ماضی میں ویت نام اور حال میںافغانستان میں ،وہ امریکی جرنیل، جنھوں نے موروں کے خلاف جنگ لڑی، ہمیشہ سے عوام کویہی سمجھا یا تھا کہ ’’کامیابیاں حاصل ہورہی ہیں اور  یہ کہ فتح اب حاصل ہوا ہی چاہتی ہے‘‘۔ اب مورولینڈ کی طرح افغانستان کی نہ ختم ہونے والی جنگ نے سیاست دانوں اور یکساں طور پر طالع آزما جرنیلوں کی حسرتوں کو نگل لیا ہے۔ جس کی ایک وجہ ماضی کی طرح یہ رہی ہے کہ تنازع بڑی حد تک عوامی نگاہ سے ماورا نمٹانا چاہا۔    
اگر فلپائن کے جزائر میں وسیع پیمانے پر یورش دب جاتی ہے، تو اکثر امریکی، وطن سے ہزاروں کلومیٹر دُور جنگ کے تماشے میں دل چسپی کھو دیں گے۔موروں کے خلاف جنگ میں شامل جرنیلوں (’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ کی طرح) کو زیادہ تر نظرانداز کیا گیا۔ حیرت ناک بات یہ ہے کہ امریکا میں بہت سے لوگوں کو یہ احساس تک نہیں کہ فلپائن میں کوئی جنگ جاری ہے۔
ایک کہنہ مشق جرنیل نے وہاں سے اپنے گھرو اپسی پر استقبالیہ دوستوں کو یوں مخاطب کیا: ’’خوشی بھرے ہاتھوں کے بجاے لوگ خاکی وردی میں ملبوس مجھے یوں گھور رہے ہیں کہ جیسے چڑیاگھر سے بچ کر واپس آیا ہوں‘‘۔جنگ میں نسبتاً کم امریکی جانی نقصان کی وجہ عوام میں بے حسی تھی۔ ۱۹۰۹ء اور۱۹۱۰ء کے برسوںمیں باقاعدہ امریکی فوج کے محض آٹھ فوجی ہلاک ہوئے، جب کہ اسی طرح افغانستان میں۲۰۱۶ء-۲۰۱۷ء کے دوران محض ۳۲فوجی ہلاک ہوئے۔ضرورت اس بات کی تھی کہ مورولینڈکا دورہ کیا جاتا، جس طرح آج افغانستان کا دورہ کر لیا جاتا ہے۔ لیکن مورولینڈ اس قابل نہیں کہ سنجیدہ قومی توجہ یا جنگ کی وسیع پیمانے پر مخالفانہ توجہ حاصل کر سکے۔
حال ہی میں ایسا انکشاف واشنگٹن پوسٹ کے وہائٹ لاک کی طرف سے ہوا کہ جب وہ افغانستان کے زمینی حقائق کا مشاہدہ کرکے واپس آیا۔مستقبل کے پانچ آرمی چیف اپنے سیاسی آقاؤں اور عوام کے ساتھ مسلسل سفید جھوٹ بولتے رہے۔ وہ بدحواسیوں کے مرتکب ہوئے، جب کہ انھوں نے عوام کو ’کامیابی‘ کے سبزباغ دکھائے۔ ادناشیفے،لیونراڈ ووڈ،ہف سکاٹ،تاسکر بلس اور جان پرشنگ جنھیں امریکی فوج میں بہت زیادہ مقبولیت حاصل رہی، قوم کو مسلسل یقین دہانی کراتے رہے کہ ’’موروں کے خلاف جنگ میں فتح اب ہمارے ہاتھوں کی گرفت میں ہے‘‘۔ مگر ایسا کبھی نہیں ہوا اور نہ ہو سکے گا۔موروں کے خلاف امریکی جنگ کے خاتمے کے ۱۰۶ برس بعد بھی، واشنگٹن پوسٹ نے یہ بتایا ہے کہ ’’ہمارے موجودہ دور میں بھی کس طرح ایک کے بعد دوسرے کمانڈروں اور امریکی حکام نے ایک نہایت طویل جنگ میں کامیابی کے حوالے سے شہریوں کے سامنے مسلسل جھوٹ بکا۔ اس لحاظ سے اس دور کے مختلف جرنیلوں، مثلاً ڈیوڈپیٹریاس، سٹینلے میک کرسٹل، مارک ملے وغیرہ نے بھی لیونارڈووڈ، ٹاسکر بلس کی طرح پریشان کن خبریں تخلیق کیں‘‘۔
اکتوبر ۱۹۰۴ءمیں،لیونراڈ ووڈ نے لکھا تھا کہ’’ مورو کا معاملہ بخوبی طے کر دیا گیا ہے‘‘۔ بعدازاں جون ۱۹۰۶ءمیں،ایک باغی رہنما راتوعلی کو گرفتار اور ہلاک کر دیا گیا۔ تب کولیرز نامی جریدے نے’راتو علی کا انجام:موروجنگ کی آخری جنگ‘ کے عنوان سے ایک ہوش ربا مضمون شائع کیا۔
بڈڈاجوکے بعد، ٹاسکربلس نے ووڈ کی فوجی کارروائیوں کی رفتار مدھم کر دی، مورولینڈ کا تفصیلی دورہ کیا اور کہا تھا:’’ ’نسل درنسل جنگ‘ کے مانند ایک ایسی ممکنہ مہم ، جو صوبے کو مکمل طور پرمطیع کرنے کے لیے ضروری تھی‘‘۔۱۹۰۶ء میں اس نے موروں کو ’وحشی‘اور’مسلمانوں‘کے لقب سے پکارتے ہوئے کہا کہ ’’انھیں محض چند برسوں میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا اور امریکی عوام کو فوری نتائج کی توقع نہیں کرنی چاہیے، کہ جس طرح اپنا مقصد حاصل کرنے کی خاطر ایک صدی یا زیادہ مدت درکار ہوتی ہے‘‘۔ بلاشبہہ،مور،آج بھی عرصۂ درازسے منیلا میں مقیم امریکی اور ان کے حلیف فلپائنی فوجیوں کے خلاف، ایک حقیقی’نسل درنسل جنگ‘ لڑرہے ہیں۔

تب اوراب

۱۹۱۳ء میں جولو میں امریکی سربراہی میں لڑی گئی آخری بڑی جنگ،بڈڈاجو کی تکرار ثابت ہوئی،جب سیکڑوں مور، بڈباگسک کے ایک اور دہانے کے اُوپر چڑھ گئے۔ پرشنگ، جس نے ووڈ کے ان ہتھکنڈوں اور حکمت عملیوں پر تنقید کی تھی، ایک دفعہ پھراس نے ایک انتہائی غیرانسانی اور بے رحم فوجی کارروائی انجام دینے کے لیے پہلے بات چیت کا جال بچھایا، اسی دوران ناکہ بندی کا اہتمام کیا۔ پھر آخر میں اس نے پہاڑ کی چوٹی پر فوجی یلغار کر کے تقریباً ۲۰۰ تا ۳۰۰ مرد،خواتین اوربچے ہلاک کر دیے۔ پرشنگ کی فوج کی بھاری اکثریت فلپائنی تھی، جس کی قیادت امریکی افسران کے ہاتھ میں تھی۔ یہی حکمت عملی افغانستان میں مقامی فوجیوں کے ذریعے اپنائی گئی،  جس کے باعث ان ناکام جنگوں میں دونوں جگہ،امریکی فوجیوں کو بہت کم نقصان پہنچا۔
اگرچہ موجودہ فوجی افسران اور بعد کے مؤرخین کا دعویٰ تھا کہ بڈباگسک کی لڑائی نے مورومزاحمت کی کمر توڑ دی، لیکن ایساکم ہی ہوا۔ اس کے بعد فلپائنی فوجیوں ہی کو تقریباً تمام اموات کا سامنا کرنا پڑا،جب کہ امریکی فوجی آہستہ آہستہ میدان جنگ سے غائب ہوکر پس پردہ تماشائی بن گئے۔
مثال کے طورپر جب کل جانی نقصان کااندازہ لگایاگیا، تو۱۹۱۳ءکاسال موروجنگ کا حقیقی طورپرخوں ریزترین برس تھا کہ جس طرح۲۰۱۸ء، جنگ افغانستان کاخوںریزترین برس تھا۔ ۱۹۱۳ء کے اواخرمیں،پرشنگ نے صوبے کے مستقبل کے متعلق غیریقینیت کاخلاصہ یوں پیش کیا: ’’جوچند کامیابیاں حاصل کیں اور بزورِ قوت ایک حکومت بھی قائم کرلی مگر اس کو کیسے چلایا جائے، اس کاابھی تک تعین نہیں کیا جاسکا‘‘۔ اور سچی بات یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ کے تنازعات،مورواور افغانستان کہیں بھی ہماری کامیابی کا تعین نہیںکیاجاسکا۔
منیلامیں فلپائنی حکومت، باغی موروں کے خلاف جنگ جاری رکھے ہوئے ہے۔آج بھی، دوتنظیمیں’اسلامی ابوسیاف‘ اور’علیحدگی پسندمورواسلامک لبریشن فرنٹ‘ ___وہاںمرکزی حکومت کے تسلط کے خلاف مزاحمت کررہی ہیں۔ نائن الیون کے بعد،امریکی فوج نے ایک دفعہ پھر مورولینڈ میںمداخلت کی اور فلپائنی فوجی یونٹس کی مشاورت اورمعاونت کے لیے سپیشل فوجی دستے بھجوائے۔
۲۰۰۳ء میں جب امریکی افواج جولوکے مرکزی ہوائی اڈے پراتریں،تو ان کا استقبال ایک بینرکی اس تحریر سے کیا گیا تھا:’’ہم تاریخ کو دُہرانے کی اجازت نہیں دیں گے!یہاں سے واپس چلے جاؤ‘‘۔جولوکے ریڈیواسٹیشن نے روایتی منظوم قصّے نشرکیے، اورایک گلوکارنے یہ گیت گایا،’’ہم نے سناکہ امریکی یہاں آرہے ہیں اورہم تیارہورہے ہیں۔ہم اپنی تلواریں تیزکررہے ہیں تاکہ جب وہ آئیں،تو ہم انھیںذبح کردیں‘‘۔
مورو مسلمانوں کے خلاف امریکی مہم،خود امریکا کے لیے بدقسمتی کاموجب ثابت ہوئی ہے۔ایک صدی سے زیادہ عرصے بعد ا س کے فوجی وہیں واپس آ گئے، جہاں سے انھوں نے آغاز کیا تھا،اور ایک دفعہ پھر غضب ناک آزاد مقامی افراد کی طرف سے ان کے خلاف ناراضی کا اظہار ہورہا ہے (CounterPunch ، پٹرولیا، کیلے فورنیا، امریکا، ۱۹دسمبر ۲۰۱۹ء، ترجمہ: ادارہ)۔