اسلام پر جہاں بے شمار اعتراضات کیے جاتے ہیں، وہاں یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ: ’’اسلام کے احکامِ وراثت میں انصاف کے تقاضے ملحوظِ خاطر نہیں رکھے گئے ہیں، اور یہ کہ عورت کا حصہ مرد کے مقابلے میں آدھا رکھا گیا ہے‘‘۔ درحقیقت اسلامی نظامِ وراثت میں، وارثین کے حصوں کے درمیان فرق کی وجہ مرد و عورت کا اختلاف نہیں ہے بلکہ تین بنیادی عوامل ہیں:
سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ نظام اللہ کی طرف سے دیا گیا ہے، جو ہر مرد و عورت کا خالق ہے، جو ہماری ضروریات کو ہم سے زیادہ بہتر جانتا ہے، جس کا ایک ایک حکم عدل و انصاف کے اُوپر قائم ہے۔ کسی بات کی حکمت ہماری سمجھ میں نہ آنے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ بات حکمت سے خالی ہے۔
یہاں ایک بات اور واضح ہوئی کہ جن وارثین کا حصہ مقرر کیا گیا ہے، یعنی ’اصحاب الفروض‘ ان میں اکثر عورتیں ہیں، جیسے: ماں، بیٹی، بہن، نانی، دادی ، بیوی۔ مردوں میں صرف باپ یا دادا، اور شوہر ہیں، ان کا حصہ مقرر کر دیا گیا ہے، جو کسی صورت میں ساقط نہیں ہوسکتا۔ گویا اُن کے ضُعف کو دیکھتے ہوئے اُن کے حصے اتنے مضبوط ہیں کہ ان میں کمی تو ہوسکتی ہے، لیکن انھیں بالکل محروم نہیں کیا جاسکتا۔ برخلاف عَصَبات کے (جن میں بیٹے سرفہرست ہیں) تو وہ باقی مال کے وارث ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے وہ خود ’عَصَبہ بالنفس‘ ہیں،اور اگر بیٹے کے ساتھ بیٹیاں اور بھائی کے ساتھ بہنیں بھی ہوں تو وہ ’عَصَبہ بالغیر‘ { FR 600 } ہوکر ان کے ساتھ ترکہ میں شریک ہوجاتی ہیں، اور اگر عورت کے ساتھ دوسری عورت اس طرح حصہ دار ہو کہ اُسے دو تہائی میں سے پہلی عورت کا حصہ دینے کے بعد باقی مل جائے تو اُسے ’عَصَبہ مع الغیر‘ { FR 601 } کہاگیا۔ جیسے ایک بیٹی (جس کا حصہ نصف ہے) اُس کے ساتھ پوتی کو ملایا جائے (یعنی چھٹا حصہ دیا جائے) اور ایسے ہی ایک بیٹی کے ساتھ حقیقی یا علّاتی بہن کو اسی اصول کے مطابق حصہ دیا جائے۔
اب ان چار صورتوں کا تفصیلی ذکر کیا جاتا جن کی طرف ابتدا میں اشارہ کیا گیا ہے۔
۱- میت کے بیٹے اور بیٹیاں ہوں تو ایک بیٹے کو بیٹی کے مقابلے میں دوگناحصہ ملے گا۔
یہاں اس بات کی رعایت رکھی گئی ہے کہ جس شخص پر مالی بوجھ زیادہ ہے، اُس کا حصہ زیادہ ہو، لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو یہاں بھی بیٹی ہی نفع میں رہتی ہے۔ ہم اس بات کو مندرجہ ذیل مثال سے واضح کرتے ہیں:
ایک میت نے اپنے ترکے میں ۳۰ہزار روپے چھوڑے اور اس کا وارث صرف ایک بیٹا اور بیٹی ہے۔ وراثت کے مذکورہ قاعدے کے مطابق بیٹی کو ۱۰ہزار اور بیٹے کو ۲۰ہزار روپے ملیں گے۔ اب فرض کریں کہ دونوں شادی کا ارادہ رکھتے ہیں۔ بیٹی کا مہر ۱۰ہزار روپے رکھا گیا ہے، یعنی شادی کے بعد وہ وراثت کی رقم اور اپنے مہر کو ملا کر ۲۰ہزار روپے کی مالک ہوگی۔ بیٹے نے شادی کے بعد اپنی بیوی کو مہر ادا کرنا ہے جس کی مالیت ۱۰ہزار ہے، یعنی وراثت میں اُسے جو ۲۰ہزار ملے تھے۔ اس میں سے ۱۰ہزار دینے کے بعد اُس کے پاس صرف ۱۰ہزار بچیں گے۔ اب بتایئے کہ کون نفع میں رہا؟ بیٹی کو جس کے پاس ۲۰ہزار ہیں یا بیٹا، جس کے پاس صرف ۱۰ہزار رہ گئے ہیں۔
۲- اسی مثال کا اطلاق حقیقی یا علاتی بھائی بہنوں پر بھی کیا جاسکتا ہے جنھیں کلالہ کی صورت میں مذکورہ اصول کے مطابق وراثت ملتی ہے۔
۳- میت کی اولاد نہ ہونے کی صورت میں ماں کو ایک تہائی ملے گا اور باقی ماندہ مال، یعنی دوتہائی باپ کو ملے گا۔ملاحظہ فرمائیں کہ ماں کو جو حصہ ملا ہے وہ خالصتاً اس کا ہے، لیکن باپ کو اگرچہ زائد رقم ملی ہے، وہ ماں کے نان و نفقہ کا ذمہ دار ہے، یعنی وہ اس مال میں سے بالآخر اپنی بیوی (یعنی میت کی ماں) کے اُوپر خرچ کرتا رہے گا۔
۴- میاں اور بیوی کے حصوں میں بھی نصف کی نسبت پائی جاتی ہے، یعنی اگر شوہر فوت ہو تو بیوی کو بصورت وجود اولاد، آٹھواں حصہ اور اگر اولاد نہ ہو تو چوتھائی حصہ ملے گا۔اور اگر بیوی فوت ہو تو شوہر کو بصورتِ اولاد چوتھائی اور اگر اولاد نہ ہو تو نصف حصہ ملے گا۔
پہلے تو اس بات کو ملاحظہ فرمائیں کہ بصورت موجودگی اولاد بیوی کو آٹھواں حصہ ملتا ہے، یعنی باقی ماندہ مال اولاد کے درمیان تقسیم ہوجاتا ہے۔ بیوی (جو اپنے بچوں کی ماں ہے) یقینا بچوں کے لیے قابلِ احترام ہوگی۔ اگر بچے ناخلف نہیں ہیں تو وہ ضرور اپنی ماں کا خیال رکھیں گے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ باپ ایک گھر چھوڑ جاتا ہے، جہاں ماں اور بچے مل کر رہ رہے ہیں۔ ماں جب تک زندہ ہے بچے اُس سے اپنے حصوں کا مطالبہ نہیں کرتے اور وہ کسی مالی پریشانی کا شکار نہیں ہوتی ہے۔ فرض کیجیے کہ وہ ابھی جوان ہے اور شادی کرسکتی ہے تو اُسے مہر کی شکل میں اپنے دوسرے خاوند سے اتنی رقم مل سکتی ہے جو ترکے میں ملی ہوئی کم رقم کی تلافی کرسکتی ہے۔
اب ملاحظہ ہو: ایک عورت انتقال کرجاتی ہے، بصورت موجودگی اولاد، شوہر کو چوتھائی حصہ ملے گا، وہ خود چوںکہ کمانے والا ہے تو اُسے اپنے بچوں سے کسی معاونت کی توقع نہیں ہے۔ اگر وہ دوسری شادی کرلیتا ہے تو گویا جو رقم اُسے ترکے میں ملی تھی، اُس میں کمی واقعہ ہوجائے گی۔ ہم نے دیکھا کہ وہ عورت جسے آٹھواں حصہ ملا تھا، وہ نہ صرف اپنے بچوں سے مالی مدد حاصل کرتی رہے گی بلکہ دوسری شادی کی صورت میں مہر کی رقم پاکر زیادہ رقم کی مالک ہوگی اور اس کے برعکس شوہر جسے چوتھائی حصہ ملا تھا، دوسری شادی کی صورت میں مہر کی ادایگی کی بنا پر اپنے مال میں کمی کا شکار ہوگا۔
اس مثال میں بھی مرد و عورت کاحصہ بالآخر برابری کی سطح پر آجاتا ہے۔
۱- میت کی اگر اولاد ہو تو ماں باپ دونوں کو چھٹا حصہ ملے گا، یعنی دونوں کا حصہ یکساں ہوگا۔
۲-وہ کلالہ ، جس کے صرف ماں کی طرف سے بھائی بہن ہوں تو اُن کا حصہ یکساں ہے، یعنی اگر ایک بھائی ہے تو اُسے بھی چھٹا حصہ ملے گا اور اگر ایک بہن ہے تو اُسے بھی چھٹا حصہ ملے گا، لیکن اگر بہن بھائی دو یا دو سے زیادہ ہوں تو وہ سب ایک تہائی میں برابر کے شریک ہوں گے۔
۳- میت کا شوہر اور سگا بھائی ہو تو شوہر کو آدھا بحیثیت فرض حصہ اور بھائی کو باقی آدھا حصہ بطورِ عَصَبہ ملے گا۔ اس مثال میں اگر بھائی کی جگہ سگی بہن ہوتی تو اُسے بھی آدھا حصہ بحیثیت فرض حصہ ملتا۔
۴- میت کا شوہر، ایک بیٹی اور ایک سگا بھائی ہو تو شوہر کو رَبع (یعنی چار حصوں میں سے ایک)۔ بیٹی کو آدھا (یعنی دو حصے) اور سگے بھائی کو بطور عَصَبہ باقی (یعنی ایک حصہ) ملے گا۔ اس مثال میں اگر بھائی کی جگہ سگی بہن ہوتی تو اُسے بیٹی کے ساتھ عَصَبہ مع الغیر کی حیثیت سے باقی (یعنی ایک حصہ) ملتا۔
۵- صحابہ کے مابین مندرجہ ذیل مسألہ، مشترکہ کے نام سے مشہور ہوا۔ اس کی صورت یہ تھی کہ میت کے وارثین میں شوہر، ماں، دو اخیافی بھائی اور ایک سگا بھائی تھا۔ اس ترکے کی تقسیم یوں ہونی چاہیے تھی۔ کُل حصص: ۶ ۔ شوہر: ۳ (آدھا حصہ)، ماں: ایک (چھٹا حصہ) ، دو اخیافی بھائی: ۲ (تہائی حصہ)۔ سگا بھائی: عَصَبہ کے اعتبار سے باقی ماندہ حصہ جو صفر تھا۔
اس تقسیم میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ہدایت کا خیال رکھا گیا تھا کہ پہلے اصحاب فروض کے حصے ادا کردو اور پھر جو بچ جائے اس کا مستحق قریب ترین مرد رشتے دار ہے۔اور صحابہ کرامؓ میں سے حضرات عمرؓ، زیدؓ، عثمانؓ، علیؓ، ابن مسعودؓ، اُبیؓ، ابن عباسؓ اور ابوموسیٰ کا یہی فتویٰ تھا۔ لیکن پھر میت کے سگے بھائی حضرت عمرؓ کے پاس آئے اور کہا: ’’کیا عجب ہے کہ سگے بھائیوں کو تو کچھ نہ ملے لیکن اخیافی بھائیوں کو پھر بھی ملے؟ آپ یوں فرض کرلیں کہ ہمارا باپ گدھا تھا، (یعنی اس کا اعتبار نہ کیا جائے) تو ماں کی طرف سے تو ہم سب برابر کے شریک ہیں‘‘۔ حضرت عمرؓ نے یہ سن کر اپنے فتویٰ سے رجوع کیا اور اخیافی بھائیوں کے ساتھ سگے بھائیوں کو بھی ایک تہائی مال میں شریک ٹھیرایا۔ اس میں حضرت عثمانؓ اور حضرت زیدؓ نے بھی موافقت کی۔
۱- پہلی بات تو یہ ملاحظہ ہو کہ وراثت میں سب سے بڑا حصہ دو تہائی مال کا ہے جو صرف عورتوں کے لیے خاص ہے۔ میت کی اگر نرینہ اولاد نہ ہو صرف دو بیٹیاں یا دو سے زائد ہوں تو وہ دوتہائی مال میں شریک ہوں گی، اور بیٹیاں بھی نہ ہوں، پوتیاں ہوں تو وہ بیٹیوں کے قائم مقام ہوکر دو تہائی کی حق دار ہوں گی، اور ایسے ہی نرینہ اولاد، یا بیٹی کے نہ ہونے کی صورت میں دو یا زائد بہنوں کو بھی دو تہائی ملے گا (بشرطیکہ بھائی بھی نہ ہو)۔
یہی صورت علّاتی بہنوں کی بھی ہے، جب کہ میت کی سرے سے کوئی اولاد نہ ہو، نہ سگے بہن بھائی ہوں، نہ اس کا اپنا کوئی علّاتی بھائی ہی ہو۔
۲- اس کے بعد سب سے بڑا حصہ آدھے مال کا ہے کہ جس کی مستحق چار عورتیں ہیں اور صرف ایک مرد lبیٹی، صرف ایک ہو اور میت کا بیٹا نہ ہو۔lپوتی: صرف ایک ہو اور میت کا نہ بیٹا ہو، نہ بیٹی اور نہ پوتا۔lسگی بہن: صرف ایک ہو بشرطیکہ میت کی نہ کوئی اولاد ہو، نہ سگا بھائی نہ باپ نہ دادا۔ lعلّاتی بہن صرف ایک ہو، نہ اس کا اپنا علّاتی بھائی ہو، نہ سگے بہن بھائی، اور نہ میت کی اپنی اولاد ہو، نہ باپ دادا ہوں ۔ lمردوں میں سے شوہر بشرطیکہ میت کی اولاد نہ ہو۔
۳- اس کے بعد تہائی حصہ ہے، جو اولاد کے نہ ہونے کی صورت میں ماں کے لیے خاص ہے۔ اسی طرح میت کے دو یا زائد بھائی نہ ہوں تب بھی ایک تہائی ماں کا حصہ ہے۔ اور اسی طرح اخیافی بھائی بہن بھی میت کی صُلبی اولاد نہ ہونے کی صورت میں ایک ثُلث کے مستحق ہوتے ہیں۔
۵- چوتھائی حصہ (رُبع) شوہر (اگر میت کی اولاد ہو)۔ lبیوی کو اولاد نہ ہونے کی صورت میں رُبع ملے گا۔
۶-آٹھواں حصہ (ثُمن) بیوی کے لیے اگر میت کی اولاد ہو۔
یہاں ملاحظہ ہو کہ خواتین کے لیے ۱۷ حالتوں میں فرض حصے رکھے گئے ہیں، جب کہ مردوں کے لیے صرف چھے حالتوں میں فرض حصے رکھے گئے ہیں اور اس بنا پر بعض دفعہ وہ مردوں سے زیادہ حصہ حاصل کرلیتی ہیں۔
۱- بعض دفعہ بیٹیوں یا بہنوں کے لیے دو تہائی حصہ زیادہ مفید رہتا ہے کہ اگر ان کی جگہ دوبیٹے یا دو بہنیں ہوتیں تو وہ عَصَبہ ہونے کے اعتبار سے باقی مال کے وارث ہوتے جو دو تہائی سے کم ہوتا۔
مثال: ایک عورت کا ترکہ ۶۰؍ایکڑ قطعہ اراضی ہے، اور اس کے وارثین میں شوہر، باپ، ماں اور دو بیٹیاں ہیں۔ اس مثال میں ۱۲ کے عدد سے تقسیم عمل میں لائی جائے گی:
oشوہر: رُبع، یعنی ۳ حصے oماں: سُدس، یعنی ۲ حصے
oدو بیٹیاں: دو تہائی، یعنی ۸ حصے oباپ: سُدس، یعنی ۲ حصے
چوں کہ کُل حصے ۱۵ ہوئے تو ’عول‘ { FR 564 } کے قاعدے کے مطابق جایداد ۱۵ سے تقسیم کی جائے گی، ایک حصہ چار ایکڑ کا بنےگا اور پھر زمین کی تقسیم ایسے ہوگی :
oشوہر : ۴x ۳ = ۱۲ ؍ایکڑ oماں : ۴x ۲ = ۸ ؍ایکڑ
oباپ : ۴x ۲ = ۸؍ ایکڑ oدو بیٹیاں : ۴x ۸ = ۳۲؍ایکڑ
اب اسی مثال میں فرض کر لیجیے کہ دو بیٹیوں کے بجاے دو بیٹے ہوتے۔ بیٹوں کا فرض حصہ نہیں ہے بلکہ عَصَبہ ہونے کے اعتبار سے اصحاب الفروض کو اُن کے حصے دیے جانے کے بعد جو بچے گا وہ انھیں ملے گا۔گویا شوہر (رُبع) ، ماں (سُدس) ، باپ (سُدس) کو ان کا حصہ دینے کے بعد باقی ترکہ انھیں ملے گا: اس طرح شوہر (۳ حصے)، ماں (۲ حصے) ، باپ (۲ حصے) کے بعد باقی پانچ حصص اُن کے لیے ہوں گے۔
چونکہ حصص ۱۲ ہیں، اس لیے ایک حصہ ۵ ؍ایکڑ کے برابر ہوگا اور پھر زمین کی تقسیم ایسے ہوگی:
oشوہر :۵ x ۳ = ۱۵ ؍ایکڑ oماں : ۵ x ۲ = ۱۰ ؍ایکڑ
oباپ :۵ x ۲ = ۱۰ ؍ایکڑ oدو بیٹے : ۵ x ۵ = ۲۵ ؍ایکڑ
(ہر بیٹے کو ساڑھے بارہ ایکڑ ملیں گے)۔گویا دو بہنوں کا دو تہائی فرض حصہ دو بیٹوں کے بطورِ عَصَبہ حصے سے زیادہ بنتا ہے۔
صرف عورت کا وارث ہونا
۱- مثال: ایک عورت ۸۴ ؍ایکڑ قطعہ اراضی چھوڑ کر رخصت ہوئی ہے۔ اس کے وارثین میں سے شوہر، بہن اور ایک علّاتی بہن ہیں۔ یہ مسألہ چھے کے عدد سے حل ہوگا:
oشوہر: نصف= ۳ حصے oحقیقی بہن: نصف= ۳ حصے
oعلّاتی بہن:چھٹا حصہ=ایک حصہ
یہاں ’عول‘ کے قاعدے کے مطابق سات حصے ہوگئے، یعنی ایک حصے کی مقدار ۱۲؍ایکڑ ہوگی: lشوہر:۱۲ x ۳= ۱۳۶؍ایکڑ lحقیقی بہن: ۱۲ x ۳= ۳۶؍ایکڑ lعلّاتی بہن: ۱۲؍ایکڑ۔
اسی مثال میں اگر علّاتی بہن کی جگہ علّاتی بھائی ہوتا تو اُسے بطورِ عَصَبہ باقی مال ملتا۔لیکن چونکہ شوہر اور حقیقی بہن کو آدھا آدھا حصہ (۴۲ایکڑ فی کس) مل چکا ہے۔ اس لیے کچھ باقی نہیں بچا، یعنی علّاتی بھائی کو کچھ نہ ملے گا۔
دوسری مثال: ایک خاتون کا کُل ترکہ ۱۹۵؍ایکڑ زمین ہے، وارثین میں شوہر، ماں، بیٹی اور پوتی شامل ہیں۔ یہ مسألہ ۱۲کے عدد سے حل ہوگا:
oشوہر: ایک چوتھائی= ۳حصے lباپ: چھٹا حصہ= ۲ حصے
oماں: چھٹا حصہ= ۲ حصے lبیٹی: آدھا مال= ۶ حصے
oپوتی: چھٹا حصہ (بیٹی اور پوتی کو دوتہائی دینے کے لیے) = ۲ حصے
یہاں بھی ’عول‘ کے قاعدے سے کُل ۱۵ حصے ہوگئے، ایک حصہ کی مقدار ۱۳؍ایکڑ ہوگی، یعنی:
oشوہر: ۱۳ x ۳ = ۳۹؍ایکڑ oماں: ۱۳ x ۲ = ۲۶؍ایکڑ
oباپ:۱۳ x ۲ = ۲۶؍ایکڑ oبیٹی:۱۳ x ۶ = ۷۸؍ایکڑ
oپوتی:۱۳ x ۲ = ۲۶؍ایکڑ
اب اگر اس مثال میں پوتی کی جگہ پوتا ہوتا تو وہ بطورِ عَصَبہ باقی مال کا حق دار ہوتا۔ لیکن اُسے کچھ ملنے سے قبل ہی حصص پورے ہوچکے ہیں۔ اس کے بغیر ذوی الفروض کے ۱۳ حصص بنے، ہر ایک حصہ کی مقدار ۱۵؍ایکڑ ٹھیری۔ تقسیم اس طرح عمل میں آئے گی:
۵- اگر میت کا صرف ایک ہی وارث ہو تو اُسے سارا مال مل جائے گا چاہے وہ مرد ہو یا عورت، جیسے اگر بیوی وارث ہو تو ایک چوتھائی بحیثیت فرض حصہ ملے گا اور باقی اُس پر لوٹا دیا جائے گا (اصطلاح میں اسے ردّ کہا جاتا ہے)۔
۶- سگی بہن اور سگے بھائی کا اس مثال میں برابر کا حصہ ہے۔ میت کا شوہر اور سگا بھائی ہے۔ کُل دو حصے ہوں گے:lشوہر : ایک حصہ (یعنی نصف) oسگا بھائی: ایک حصہ (یعنی باقی مال)
اس مثال میں بھائی کی جگہ بہن ہوتی تو اُسے بھی ایک حصہ ملتا، کیونکہ اُسے نصف ملنا چاہیے اور اگر کُل مال کے دو حصے ہیں تو اس کے لیے ایک حصہ بنتا ہے جو اس کے بھائی کے حصے کے برابر ہے۔
۷- اخیافی بہن کا حصہ سگے بھائی کے برابر ہے، میت کا شوہر، ماں، ایک اخیافی بہن اور ایک سگا بھائی ہے، کُل حصص چھے ہوں گے اور اس کی تقسیم یوں ہوگی:
۸- اُن فقہا کے نزدیک جو اولوا الارحام کو اصحاب الفروض اور عصبات کی عدم موجودگی میںوارث ٹھیراتے ہیں، مرد و عورت کا حصہ برابر ہے، یعنی نواسا اور نواسی کا حصہ برابر ہوگا اور اسی طرح خالہ اور ماموں کا حصہ برابر ہوگا۔
اُولوالارحام ان دور کے رشتہ داروں کو کہا جاتا ہے کہ جو کسی عورت کے واسطے سے میت سے قرابت رکھتے ہوں جیسے نواسا، نواسی (بیٹی کے توسط سے) خالہ اور ماموں (ماں کے توسط سے)۔ بھانجا اور بھانجی (بہن کے توسط سے)۔ پھوپھی کو بھی ذوی الارحام میں بحیثیت خاتون کے شامل رکھا گیا ہے۔ انھیں وراثت ملتی ہے یا نہیں اور اگر ملتی ہے تو کس قاعدے سے؟ اس میں فقہا یہ چار آرا رکھتے ہیں:
۱- اصحابِ فروض اور عصبات کی عدم موجودگی میں حصہ پائیں گے۔ اس راے کے حامل ہیں حضرات عمرؓ، علیؓ، ابن مسعودؓ، معاذؓ، ابوالدرداؓ۔ تابعین میں سے قاضی شریح، عمر بن عبدالعزیز، مسروق، علقمہ رحمۃ اللہ علیہم اور ائمہ میں سے امام ابوحنیفہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہم۔
۲- ذوی الارحکام کے بجاے باقی مال بیت المال کے حوالے کیا جائے گا۔ اس راے کے حامل ہیں: حضرات زیدؓ، ابن عباسؓ ، امام مالکؒ، شافعیؒ اور امام اَوزاعیؒ۔
۳- وارث ہوں گے اور ان کا وہی حصہ ہوگا ، جس کی جگہ انھوں نے لی ہے، یعنی نواسی کو بیٹی کی جگہ آدھا حصہ ملےگا اور بھانجے کو بہن کی جگہ باقی حصہ ملے گا۔ اس راے کو مذہب اہل التنزیل کہا جاتا ہے، یعنی یُنْزَلُوْنَ مَنْزِلَۃَ اُصُوْلِھِمْ (اپنی اصل کا مقام و رُتبہ دیا جائے گا)۔
۴- قرابت کا لحاظ رکھا جائے گا۔ اگر میت سے قریب ہوگا تو وراثت میں حصہ پائے گا اور دُور ہوگا تو قریب کے ہوتے ہوئے حصہ نہ پائے گا، جیسے اگر میت کا ایک نواسا ہو اور ایک چچازاد بھائی تو نواسا وراثت کا حق دار ہوگا اور چچازاد محروم رہے گا۔
۵- باپ کی موجودگی میں دادی کو کچھ نہیں ملتا، لیکن نانی کو پھر بھی چھٹا حصہ ملے گا، مثال: میت کے وارثین میں باپ، نانی اور بیٹا ہیں۔ کُل چھے حصص ہوں گے:oباپ:ایک (یعنی چھٹا حصہ) lنانی: ایک (یعنی چھٹا حصہ) lبیٹا: باقی (یعنی چار حصے)۔
اگر بیٹے کی جگہ دو بیٹیاں ہوتیں توہ وہ چار حصص (یعنی دو تہائی) کی حق دار ٹھیرتیں۔ اس مثال سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ماں کی طرف سے قرابت کو بہ نسبت باپ کے ترجیح دی گئی ہے۔
عورتوں کے بارے میں اسلام نے جس رعایت، حُسنِ سلوک اور فراخ دلی کا حکم دیا ہے، اُس کے مختصر تذکرے پر ہم اس مضمون کو ختم کرتے ہیں:
۱- اسلام سے قبل جاہلیت میں ایک شخص کے مرنے کے بعد اس کے تندرست اور توانا بیٹوں کو ہی وارث ٹھیرایا جاتا تھا کہ وہی جنگ و جدال میں شریک ہوتے تھے اور مالِ غنیمت جمع کر کے لایا کرتے تھے اور ان کے مقابلے میں بچوں اور عورتوں کو ضعیف سمجھ کر وراثت سے محروم رکھتے تھے۔ اسلام نے پہلی دفعہ عورتوں کو وراثت میں ان کا حق دلایا۔
۲- اولاد کا نان و نفقہ ادا کرنا باپ کی ذمہ داری ہے، لیکن کب تک؟ اکثر فقہا کا اس بات پر اتفاق ہے کہ بیٹا جب تک خود اپنے پیروں پر کھڑا نہ ہوجائے، وہ نان و نفقہ کا مستحق ہے اِلا یہ کہ وہ بیمار رہتا ہو، معذور ہو یا اُس نے طلب ِ علم کے لیے اپنے آپ کو وقف کر رکھا ہو۔ اس کے مقابلے میں باپ بیٹی کے نان و نفقہ کا ہمیشہ ذمہ دار رہے گا، یہاں تک کہ اس کی شادی نہیں ہوجاتی۔ اگر اُسے طلاق ہوجاتی ہے تو پھر وہ دوبارہ اپنے اولیا (باپ، بھائی، چچا وغیرہ) کی کفالت میں آجاتی ہے، اِلا یہ کہ وہ مال و دولت کے اعتبار سے خود مستغنی ہو۔
۳- بیوی کا نان و نفقہ، رہایش ، کپڑے، سب شوہر کی ذمہ داری ہے۔ اگر وہ شوہر کے مشترکہ گھر میں رہایش پذیر ہو لیکن شوہر کے رشتے داروں کی بدسلوکی سے عاجز ہو تو اُس کا حق ہے کہ شوہر اُسے علیحدہ گھر میں رکھے۔ اور اگر اُسے نوکرانی کی ضرورت ہو اور وہ اس کا خرچ برداشت کرسکتا ہو تو اُسے ملازمہ مہیا کرنے کا پابند ہے۔ بیوی کو اگر طلاق بھی دے چکا ہو اور وہ اس کے بچے کو دودھ پلا رہی ہو، تو وہ اس کے دودھ پلانے کا معاوضہ دینے کا پابند ہے۔
۴- والد اور والدہ کے ساتھ حُسنِ سلوک کا قرآن اور احادیث میں تفصیلی ذکر ہے۔ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ باپ کے مقابلے میں ماں کا حق تین گنا ہے اور اسی لیے یہ بات مستحسن ہے کہ اولاد گر ماں باپ کو کچھ دیتے رہتے ہیں تو پھر بھی ماں کو زیادہ دیا کریں۔
۵- ہم اس آیت کی تشریح پر بات کو ختم کرتے ہیں:
وَ لَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللّٰہُ بِہٖ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍ ط لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبُوْا ط وَ لِلنِّسَآئِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبْنَ ط وَسْئَلُوا اللّٰہَ مِنْ فَضْلِہٖ ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُلِّ شَیْ ئٍ عَلِیْمًا o (النساء ۴:۳۲) اور اس چیز کی آرزو نہ کرو کہ جس کے باعث اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت عطا کی ہے۔ مردوں کے لیے ان کی اپنی کمائی میں سے حصہ ہے اور عورتوں کے لیے اُن کی کمائی میں سے حصہ ہے۔ اللہ سے اس کا فضل مانگو، بے شک اللہ ہرچیز کو جانتا ہے۔
قرطبیؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:’’قتادہ کہتے ہیں کہ جاہلیت میں عورتوں اور بچوں کو وراثت میں کچھ نہ ملتا تھا۔ پھر جب وراثت کے احکام نازل ہوئے اور مرد کو عورت کے مقابلے میں دگنا دیا گیا تو عورتوں نے اس بات کی تمنّا کی کہ ان کا حصہ بھی مردوں کے برابر کیوں نہیں رکھا گیا۔ اور مردوں نے یہ کہا کہ جس طرح ہمیں میراث میں عورتوں پر فضیلت ملی ہے، اسی طرح آخرت میں بھی ہمیں اپنی نیکیوں کی بنا پر، عورتوں پر فضیلت حاصل رہے تو یہ آیت نازل ہوئی‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے ایسی آرزوسے منع فرمایا کہ اس میں حسد کا جذبہ پایا جاتاہے، اوراسی لحاظ سے اس نے بعض باتوں میں، مرد اور عورت کے درمیان فرق روا رکھا ہے۔
مقصود یہ ہے کہ دنیا میں صلاحیتوں اور جدوجہد کے اعتبار سے مردوں اور عورتوں میں فرق ہے اور اسی فرق کا لحاظ رکھتے ہوئے مال و متاع میں بھی تفاوت نظر آتا ہے لیکن نیکیوں کا میدان سب کے لیے کھلا ہے اور آخرت میں اصل معیار ایمان اور نیک اعمال ہی کا ہوگا۔ چاہے مرد ہو یا عورت، اپنے اعمال کی بنا پر ہی جنت کے مدارج حاصل کرسکیں گے۔ وباللّٰہ التوفیق!
نوٹ: