رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نبی رحمت ہیں۔ آپؐ کی جملہ تعلیمات ساری انسانیت کے لیے سراسر رحمت ہے۔ آپؐ کی انسانیت نواز تعلیمات میں سے ایک اہم تعلیم یہ ہے کہ حسد سے بچا جائے اور باہم خیرخواہی کی جائے۔آپؐ نے حسد کی سخت مذمت فرمائی۔ فرمایا: حسد کی آگ انسان کی نیکیوں کو جلاکر خاکستر کردیتی ہے اور یہ وہ بیماری ہے جس نے سابقہ اُمتوں کے دین و ایمان کو برباد کردیا ہے۔ جس دل میں حسد کی آگ جلتی ہے وہ کسی بھی حال میں اس کو چین لینے نہیں دیتی۔ حاسد محسود کو نیچا دکھانے، اس کی غِیبت کرنے اور موقع پاکر اس کو نقصان پہنچانے کی کوشش میں لگارہتا ہے۔ شاید اس طرح وہ اپنے دل کو تسکین کا سامان فراہم کرنے کی سعی لاحاصل میں لگا رہتا ہے۔ اسی لیے بعض دانش وروں نے کہا کہ: ’’حسد ایک ایسی آگ ہے، جس میں انسان خود جلتا ہے ، لیکن دوسروں کے جلنے کی تمنا بھی کرتا ہے‘‘۔
اسلام انسان کو سیرت و کردار کی اس پستی سے اُوپر اُٹھاتا ہے اور ان ساری خامیوں اور خرابیوں کو اس کے سینے سے نکال دیتا ہے جو معاشرے کی تباہی و بربادی کا سبب بنتی ہیں اور انسانوں کے دلوں کی کھیتی کو پیار، محبت، ہمدردی، خیرخواہی اور رافت و رحمت کی بارانِ رحمت سے سیراب کرتا ہے۔ اس طرح معاشرے میں اطمینان و سکون اور امن و امان بحال ہوتا ہے۔
امام راغب اصفہانی ؒ فرماتے ہیں: ’’حسدیہ ہے کہ حاسد منعم علیہ سے زوالِ نعمت کی تمنا کرے اور بسااوقات حاسد محسود سے ان نعمتوں کے زوال کے درپے ہوتا ہے‘‘۔ (مفردات القرآن،ص ۲۳۴)
۲- بعض سلف صالحین سے منقول ہے کہ حسد پہلا گناہ ہے جس کے ذریعے آسمان میں اللہ کی نافرمانی کی گئی اور زمین پر بھی یہ پہلا گناہ ہے جس سے اللہ کی نافرمانی ہوئی۔ آسمان میں ابلیس نے اللہ کی نافرمانی کرتے ہوئے آدم علیہ السلام کے سامنے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا تھا، اور زمین پر پہلا خون اسی سے ہوا ہے کہ آدم ؑ کے بیٹے قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو حسد ہی کی بنیاد پر قتل کر دیا تھا۔ (نضرۃ النعیم، ج۱۰، ص ۴۴۲۷)
۳- شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے ۔ اس کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ انسانوں کو آپس میں ایک دوسرے سے ٹکرائے اور ان کے دلوں میں بُغض و حسد کی آگ بھڑکائے۔ برادرانِ یوسفؑ کے دلوں میں بھی اسی نے حضرت یوسف ؑ کے خلاف حسد کی آگ لگائی تھی اور ان کے قتل پر آمادہ کیا تھا۔ جیساکہ قرآن نے برادرانِ یوسف ؑ کا یہ قول نقل کیا ہے:’’جب انھوں نے آپس میں تذکرہ کیا کہ یوسفؑ اور اس کا بھائی ابا کو ہم سے زیادہ پیارے ہیں، حالاں کہ ہم جماعت کی جماعت ہیں۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ ابا صریح غلطی پر ہیں۔ چلو یوسفؑ کو قتل کردو یا اس کو کہیں پھینک دو کہ تمھارے ابا کی توجہ تمھاری ہی طرف ہوجائے‘‘۔ (یوسف۱۲:۹)
۴- یہودی مسلمانوں سے بُغض و حسد رکھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اُمت مسلمہ سے پہلے یہودی امامت ِ عالم کے منصب ِ جلیل پر فائز تھے اور سلسلۂ نبوت ان ہی کے خاندان میں چلاآرہا تھا۔اللہ تعالیٰ نے ان کی اَخلاقی پستی اور نااہلی کی وجہ سے امامت ِ عالم کے عظیم منصب سے ان کو معزول کردیا۔ نبوت اولادِ اسماعیلؑ کی طرف منتقل کر دی گئی تو یہودی چراغ پا ہوکر غم و غصے اور حسد میں مبتلا ہوگئے کہ یہ نبوت تو ہمارے خاندان کی میراث تھی۔ بنی اسماعیل اس کے کیوں کر مستحق ہوسکتے ہیں؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: نبوت انعامِ الٰہی ہے۔ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے اپنے فضلِ خاص سے نواز دیتا ہے۔اس سلسلے میں حیل و حجت کرنے کا تمھیں کوئی اختیار نہیں ہے:
اَمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰی مَآ اٰتٰھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ج فَقَدْ اٰتَیْنَآ اٰلَ اِبْرٰھِیْمَ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ اٰتَیْنٰھُمْ مُّلْکًا عَظِیْمًا O(النساء۴:۵۴) پھر کیا یہ دوسروں سے اس لیے حسد کرتے ہیں کہ اللہ نے انھیں اپنے فضل سے نواز دیا؟ اگر یہ بات ہے تو انھیں معلوم ہو کہ ہم نے تو ابراہیمؑ کی اولاد کو کتاب اور حکمت عطا کی اور ملک ِ عظیم بخش دیا۔
۱- بُغض و عداوت: ایک دشمن کی آرزو ہوتی ہے کہ اس کا دشمن کسی مصیبت میں گرفتار ہوجائے۔ پھر اتفاق سے اگر اس کا دشمن کسی مصیبت سے دوچار ہوجائے تو اس کو دلی خوشی ہوتی ہے اور یہی حسد ہے۔ کافروں کو مسلمانوں سے اسی قسم کا حسد ہوتا ہے: اِنْ تَمْسَسْکُمْ حَسَنَۃٌ تَسُؤْھُمْز وَ اِنْ تُصِبْکُمْ سَیِّئَۃٌ یَّفْرَحُوْا بِھَا ط (اٰلِ عمرٰن ۳:۱۲۰)’’تمھارا بھلا ہوتا ہے تو ان کو بُرا معلوم ہوتا ہے اور تم پر کوئی مصیبت آتی ہے تو یہ خوش ہوتے ہیں‘‘۔
۲- ذاتی فخر کاخیال: یہ عموماً امثال واقران (ہم عمر لوگ) میں ہوتا ہے۔ اگر ان میں سے کوئی ترقی کرجائے تو اس کے دوسرے ساتھیوں کو یہ بات گراں گزرتی ہے۔
۳- ایک شخص کسی کو اپنے حلقۂ ارادت میں باندھے رکھنا چاہتا ہے، مگر وہ کسی امتیاز کی وجہ سے اس کے حلقے سے نکل جائے تو اس کو حسد پیدا ہوتا ہے۔ کفارِ قریش کا کمزور مسلمانوں سے حسد اسی قسم کا تھا۔ وہ کہا کرتے تھے: اَھٰٓؤُلَآئِ مَنَّ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنْم بَیْنِنَا ط (انعام ۶:۵۳) ’’کیا یہ ہیں وہ لوگ جن پر ہمارے درمیان اللہ کا فضل و کرم ہوا ہے؟‘‘
۴- اپنی نظر میں کسی کو معمولی اور حقیر سمجھنا، پھر اگر اس کو کوئی شرف حاصل ہوجائے تو اس سے حسد کرنا۔ سردارانِ قوم، انبیا علیہم السلام سے اسی بنیاد پر حسد کرتے تھے۔
۵- دو آدمیوں میں کوئی وجہِ اشتراک ہو۔ ان میں سے کسی ایک کو کامیابی مل جائے تو دوسرا حسد میں مبتلا ہوتا ہے۔ حضرت یوسفؑ کے بھائیوں کا حسد اسی قسم کا تھا۔ یا ایک شوہر کی متعدد بیویاں ہوں تو ان میں حسد کی وجہ یہی ہوتی ہے۔
۶- جاہ پرستی اور ریاست طلبی: یہودیوں کو مسلمانوں سے اسی بنیاد پر کدوحسد ہے۔
۷- خبث نفس اور بدطینتی: بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی فطرت ہی میں کجی ہوتی ہے۔ وہ کسی کا بھلا نہیں چاہتے۔ (سیرت النبیؐ، ج۶،ص ۴۸۹)
۸- راضی برضا رہنا: اللہ تعالیٰ اس زمین کا خالق و مالک اور مختارِ کُل ہے۔ وہ اس میں جیسا چاہے تصرف کرسکتا ہے۔ اس پر کسی کو اعتراض کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ وہ جس کو چاہتا ہے بادشاہت عطا کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے فقیر بنادیتا ہے۔ جس کو چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ذلیل کردیتا ہے۔ کسی کو صاحب ِ اولاد بناتا ہے اور کسی کو اولاد سے محروم کردیتا ہے۔ کسی کو صحت دیتا ہے اور کسی کو بیماریوں میں مبتلا کردیتا ہے۔ انسان کے لیے ضروری ہے کہ تمام معاملات کو اللہ کے حوالے کردے اور خود اپنے تئیں راضی برضا رہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَ لَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللّٰہُ بِہٖ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍ ط (النساء۴:۳۲) ’’اور جو کچھ اللہ نے تم میں سے کسی کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ دیا ہے اس کی تمنا نہ کرو‘‘۔ اور آگے فرمایا: وَسْئَلُوا اللّٰہَ مِنْ فَضْلِہٖ ’’ہاں! اللہ سے اس کے فضل کی دُعا مانگتے رہو‘‘۔
بعض انسانوں کی ذہنیت ہوتی ہے کہ وہ کسی کو اپنے سے بڑھا ہوا دیکھنا پسند نہیں کرتے، اور یہ ذہنیت اجتماعی زندگی میں فساد کی جڑ ہے۔ اس آیت کریمہ میں اسی غلط فکر کی اصلاح کی گئی ہے اور اس کو بدلنے کی تعلیم دی گئی ہے، تاکہ معاشرہ ہمہ قسم کے فسادات سے پاک ہوسکے۔
دَبَّ اِلَیْکُمْ دَاءُ الْامَمِ قَبْلَکُمْ، اَلْحَسَدُ وَالْبَغْضَاءُ ھِیَ الْحَالِقَۃُ: لَا أَقُوْلُ تَحْلِقُ الشَّعْرَ وَلٰکِنْ تَحْلِقُ الدِّیْنَ (ترمذی)پہلی اُمتوں کی بیماری آہستہ آہستہ تمھاری طرف سرکتی آرہی ہے۔ وہ حسد اور دشمنی ہے۔ وہ (حالقہ) مونڈنے والی ہے۔ مَیں یہ نہیں کہتا کہ وہ بالوں کو مونڈتی ہے بلکہ دین کو مونڈ کر صاف کردیتی ہے۔
اِیَّاکُمْ وَالْحَسَدَ ، فَاِنَّ الْحَسَدَ یَأْکُلُ الْحَسَنَاتِ کَمَا تَأْکُلُ النَّارُ الْحَطَبَ (کتاب الادب: ۴۹۰۳) لوگو! حسد سے بچو، کیوں کہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھاجاتا ہے جس طرح آگ ایندھن کو کھا جاتی ہے۔
ان ہی وجوہات کی بنیاد پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو تعلیم دی ہے کہ اپنے دلوں کو حسدسے بچائے رکھیں اور اس کا تریاق یہ بتایا کہ آپس میں اخوت و محبت کو پروان چڑھائیں۔ حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
وَلَا تَحَاسَدُوْا وَلَا تَبَاغَضُوْا وَکُوْنُوْا عِبَادَ اللہِ اِخْوَاناً (بخاری، کتاب الادب: ۶۰۶۶) اور ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، باہم دشمنی نہ رکھو، اللہ کے بندو! سب بھائی بھائی بن کر رہو۔
وَلَا یَجْتَمِعَانِ فِیْ قَلْبِ عَبْدٍ الْاِیْمَانُ وَالْحَسَدُ (النسائی عن ابی ہریرۃؓ، کتاب الجھاد:۳۱۱۱، حسن) ’’ کسی بندے کے دل میں ایمان اورحسد جمع نہیں ہوسکتے۔
حضرت معاویہ ؓ فرماتے ہیں : ’’میں حاسد کے سواسب آدمیوں کو خوش کرسکتاہوں،کیوں کہ حاسد زوالِ نعمت کے بغیر راضی نہیں ہوتا‘‘۔(نضرۃ النعیم، ج۱۰، ص:۴۴۲۹)
وَدَّ کَثِیْرٌ مِّنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ لَوْ یَرُدُّوْنَکُمْ مِّنْم بَعْدِ اِیْمَانِکُمْ کُفَّاراً حَسَداً مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِہِمْ مِّنْم بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمُ الْحَقُّ فَاعْفُوْا وَاصْفَحُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہِ ط اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ O (البقرہ۲:۱۰۹)اہل کتاب میں سے اکثر لوگ یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح تمھیں ایمان سے پھیر کرپھر کفر کی طرف پلٹالے جائیں۔ اگرچہ حق ان پرظاہر ہوچکاہے ، مگر اپنے نفس کے حسد کی بناپر تمھارے لیے ان کی یہ خواہش ہے۔ تم عفو و درگزر سے کام لو۔ یہاں تک کہ اللہ خود ہی اپنا فیصلہ نافذ کردے۔ مطمئن رہوکہ اللہ ہرچیزپرقدرت رکھتاہے۔
حسد نہایت بُری بلاہے، جس سے اللہ کی پناہ ڈھونڈنی چاہیے۔ ، قرآن مجید میں حاسد کے شر سے اللہ کی پناہ چاہی گئی ہے ، جیساکہ ارشاد ہے: وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ O (الفلق۱۱۳ :۵) ’’(میں اللہ کی پناہ میں آتاہوں)حاسد کے شر سے، جب کہ وہ حسد کرے ‘‘۔
۱- اللہ کی حفاظت طلب کی جائے اوراس کے لیے دعاؤں کااہتمام کیاجائے ۔
۲-حاسد کی باتوں پرصبر کیاجائے ، اس کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جائے ، اوراس کو نقصان پہنچانے کا خیال تک دل میں نہ لایاجائے ۔
۳- ہرحال میں تقویٰ کی روش پرقائم رہاجائے اوراللہ تعالیٰ کو یادکرتارہے ۔ جو متقی ہوتا ہے خود اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت فرماتاہے،جیساکہ ارشاد الٰہی ہے : وَ اِن تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا لَا یَضُرُّکُمْ کَیْدُہُمْ شَیْئًا ط ( اٰل عمرٰن۳:۱۲۰) ’’مگر ان کی کوئی تدبیر تمھارے خلاف کارگر نہیں ہوسکتی، بشر طیکہ تم صبر سے کام لو اوراللہ سے ڈر کرکام کرتے رہو‘‘۔
نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن عباسؓ سے فرمایاتھا : اِحْفَظِ اللہَ یَحْفَظْکَ اِحْفَظِ اللہَ تَجِدْہُ تُجَاھَکَ (ترمذی ، ابواب صفۃ القیامۃ )’’تم اللہ کو یادرکھو، اللہ تمھاری حفاظت کرے گا۔ تم اللہ کو یادرکھو، اللہ کو اپنے سامنے پاؤگے‘‘۔
۴- اللہ پر توکل کرے :یہ دفعِ مظالم کے لیے سب سے طاقت ورذریعہ ہے۔جس کے لیے اللہ کی ذات کافی ہواس کوکسی دشمن کے ضررسے خوف کھانے کی ضرورت نہیں ہے ۔اللہ کا ارشادہے : وَمَن یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَہُوَ حَسْبُہٗ ط (الطلاق۶۵:۳)’’جو اللہ پر بھروسا کرے، اس کے لیے وہ کافی ہے ‘‘۔
۵- حاسد کی فکر سے دل کوفارغ کرلے ،ا وراس کونظر انداز کردے۔ یہ ایک فائدہ مند نسخہ ہے اوراس کے شر سے خود کوبچانے کی ایک بہترین تدبیرہے ۔
۶-اللہ کی طرف متوجہ ہواوراس سے اپنے تعلق کو اخلاص ،انابت اوراس سے محبت اوررضا کی بنیاد پر استوارکرے۔ ایسابندہ اللہ کی حفظ وامان میں ہوتاہے ، جیساکہ ارشادہے :
اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْہِمْ سُلْطَانٌ (الحجر۱۵:۴۲) بے شک جو میرے حقیقی بندے ہیں ان پرتیرابس نہیں چلے گا۔
۷-اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے گناہوں اورنافرمانیوں سے توبہ کرے ، کیوں کہ دشمن کے غلبے اور تسلط کاایک اہم سبب بنی آدم کے گناہ بھی ہیں ، جیساکہ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے :
وَمَآ اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُم(الشورٰی ۴۲:۳۰) تم لوگوں پر جوبھی مصیبت آئی ہے تمھارے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے آئی ہے ۔
۸- صدقہ وخیرات کرتارہے۔ اس کی بھی بڑی عجیب وغریب تاثیرہے ۔ نظرِ بد ، دفعِ بلا اور حاسد کے شر سے بچنے کی یہ ایک کارگرتدبیر ہے ۔
۹- حاسد کے ساتھ بھلائی اوراحسان کامعاملہ کرے۔ اگرچہ نفس پریہ نہایت شاق گزرتا ہے ، مگر حاسد کے شرسے بچنے کی یہ بڑی اچھی تدبیرہے ،جیساکہ اللہ تعالیٰ کاارشادہے :
وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّئَۃُ ط اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہُ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ (حم السجدۃ۴۱:۳۴-۳۶) (اوراے نبی ؐ!) نیکی اوربدی یکساں نہیں ہیں۔ تم بدی کو اس نیکی سے دفع کروجو بہترین ہو۔تم دیکھوگے کہ تمھارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیاہے ۔
۱۰-عقیدئہ توحید پر مضبوطی سے جمارہے اوراپنے معاملات کی باگ ڈوراللہ تعالیٰ کے حوالے کردے، کیوں کہ نفع ونقصان کااکیلا مالک وہی ہے۔اس کی مرضی کے بغیر کوئی کسی کونقصان نہیں پہنچا سکتا اورنہ فائدہ ہی پہنچاسکتاہے ،جیساکہ اللہ تعالیٰ کاارشادہے :
وَ اِنْ یَّمْسَسْکَ اللّٰہُ بِضُرٍّ فَلَا کَاشِفَ لَہٗٓ اِلاَّ ہُوَ ج وَ اِنْ یُّرِدْکَ بِخَیْرٍ فَلَا رَآدَّ لِفَضْلِہٖط (یونس۱۰:۱۰۷)اگر اللہ تجھے کسی مصیبت میں ڈالے تو خود اس کے سوا کوئی نہیں جو اُس مصیبت کو ٹال دے ، اوراگروہ تیرے حق میں کسی بھلائی کاارادہ کرے تو اس کے فضل کوپھیرنے والابھی کوئی نہیں ہے۔
موجودہ دور میں مسلم معاشرہ جن مہلک اخلاقی بیماریوں میں مبتلا ہے، ان میں سرفہرست حسد ہے۔شاید ہی کوئی گھرانا اورخاندان اس سے محفوظ ہو۔یہ مرض اس قدر سرایت کرگیا ہے کہ مسلم ممالک بھی آپس میں اس ناسور کا شکار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نہ خود ترقی کرتے ہیں اورنہ دوسروں کی ترقی ہی کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرتے ہیں۔مسلم ممالک اور عوام کے پاس اللہ کا دیا ہوا بہت کچھ ہے، مگر یہ طاقت وصلاحیت تعمیری کاموں میں کم ہی خرچ ہوپاتی ہے۔ملت کی تعمیر وترقی کے لیے ضروری ہے کہ مسلم معاشرے کا ہر فرد اس مہلک مرض سے محفوظ رہے۔ سچ فرمایا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے : ’’لوگ اس وقت تک خیر وبھلائی پر رہیں گے ، جب تک ایک دوسرے سے حسد کرنے سے محفوظ رہیں گے‘‘۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس ناسور سے محفوظ رکھے۔ آمین!