تمباکو نوشی اسلام کے نزدیک حرام ہے، مکروہ ہے، یا مباح ہے؟ اس کے انسانی زندگی ، انسانی صحت اور مستقبل پر کیا اثرات ہیں؟ مختلف ملکوں میں زمینی حقائق کیا ہیں؟ اس سے بچنے کے لیے کیا طریقے اختیار کیے جاسکتے ہیں؟ اس کے لوگ عادی کیوں ہوتے ہیں؟ حکومتیں کیوں بے بس ہیں؟ عالمی اداروں کی طرف سے اس کو روکنے کے لیے جن جرأت مندانہ اقدامات کی ضرورت ہے وہ کیوں نہیں ہو رہے؟ سگریٹ کے کارخانے داروں کے ہاتھ میں انسان یرغمال کیوں ہے؟ انسان کا اپنا عمل ہلاکت خیز کیوں نہ ہو، عادت بن جانے کے بعد سوبہانے تراشتا ہے کہ جو کچھ کر رہا ہوں بالکل ٹھیک ہے۔ علما کو تو چھوڑیں جن ڈاکٹروں نے تجربات، مشاہدے اور سالہا سال کے واضح ریکارڈ کے بعد سر کی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے کہ یہ کتنی ہلاکت خیز عادت ہے، وہ بھی اس کو خیرباد کہنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔
۱۹۹۶ء میں ملایشیا میں ڈاکٹروں کی کانفرنس سے پروفیسر ڈاکٹر محمد علی بار، رائل کالج آف فزیشنز برطانیہ اس موضوع پر خطاب کر رہے تھے اور سعودی عرب میں اس کے اثرات بیان کرتے ہوئے ایک بچی کا ذکر کیا جس کے والد نے اس کو بچپن سے شیشے (چلم) کا عادی بنایا تھا۔ عین جوانی میں ۱۹سال کی عمر میں سینے کے کینسر سے اس کا انتقال ہوا۔ الم ناک موت کا منظر تصاویر کی شکل میں دکھا بھی رہے تھے۔ اس وقت انھوں نے بتایا کہ ۱۶لاکھ افراد اسی طرح تمباکو نوشی سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔رسالہ الٰی اطبا ء مصر (ص ۲۵) میں لکھتے ہیں کہ: ’’تمباکو نوشی کے نقصان دہ ہونے میں کوئی اختلاف نہیں رہا، بلکہ صحت پر تمباکو نوشی کے بُرے اثرات اب طاعون، ہیضے، چیچک، تپ دق اور جذام، سب کے اکٹھے خطرات سے بھی زیادہ خطرناک سمجھے جاتے ہیں۔ صحت پر تمباکو نوشی کے مضر اثرات بڑے خوف ناک اور مہلک ہوتے ہیں، کیونکہ لاکھوں انسان ہر سال تمباکونوشی کی وجہ سے مر رہے ہیں، جب کہ کروڑوں انسان اس کی وجہ سے کئی خطرناک بیماریوں میں مبتلا ہوکر کرب اور اذیت کی مسلسل زندگی گزارنے پر مجبور ہورہے ہیں۔
تمباکو نوشی سے لاحق ہونے والے مختلف امراض میں (نظامِ تنفس میں) پھیپھڑے کا کینسر، گلے کا کینسر، نمونیا ، ضیق دم۔ (دل و گردشِ خون کے نظام میں) دل کا انجماد، اچانک موت، اعضا میں دورانِ خون کا انجماد۔ (نظامِ ہضم میں) ہونٹ، منہ، گلے، نرخرے، معدے اور آنتوں کا کینسر۔ (نظامِ بول) مثانے کے زخم اور کینسر، گردن کا سرطان۔(حاملہ عورت اور بچے میں) حمل کا کثرت سے ساقط ہونا، بچے کا وزن کم ہونا، موت ہوجانا، نمونیا۔(دیگر امراض میں) آنکھوں کے عضلات میں سوزش، اندھاپن ، دمہ، جِلد کی سوزش، ناک، کان اور گلے کی بیماریاں، بلڈپریشر کے خطرات، شوگر، کولسٹرول کا اضافہ، موٹاپا وغیرہ شامل ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد علی لکھتے ہیں کہ پنڈلیوں کی شریانوں کے بیماروں میں ۹۵ فی صد تمباکونوش ہوتے ہیں۔ امراض میں تمباکو نوشوں کا مبتلا ہونا ۱۰ گنا زیادہ ہے اور اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ ہرتین تمباکو نوشوں میں سے ایک کی موت تمباکو نوشی سے واقع ہوتی ہے۔ (ماخوذ: صحت پر تمباکو نوشی کے اثرات، مؤلفہ ڈاکٹر محمد علی بار)
پروفیسر ڈاکٹر عبدالعزیز سامی پروفیسر امراضِ سینہ اور میڈیکل کالج قاہرہ یونی ورسٹی کے پرنسپل لکھتے ہیں کہ تمباکو نوشوں کے ساتھ رہنے والا ایک گھنٹے میں جتنا تمباکو سونگھتا ہے، وہ ایک سگریٹ پینے کے برابر ہے۔ انھوں نے درج بالا عام امراض کی ہلاکت خیزی کی توثیق کی ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر شریف عمر جراحت ِ سرطان کے شعبے سے وابستہ ہیں، کا کہنا ہے کہ قاہرہ یونی ورسٹی میں تمباکو نوش عورتوں میں بچوں کی قبل از وقت ولادت یا ولادت کے دوران اموات دوسری خواتین کی نسبت ۲۸ فی صد زیادہ ہوتی ہیں۔ ناڑ کے ذریعے مضر اثرات بچوں میں منتقل ہوتے ہیں، اور یہ اثرات ولادت کے بعد ۱۱ سال تک رہتے ہیں۔ دنیابھر کے طب کے ماہرین ان تمام اثرات کی تائید کرتے ہیں۔
پاکستان میں اسلامی نظریاتی کونسل نے سگریٹ نوشی کو ممنوع قرار دینے کے لیے فتویٰ ۲۶مئی ۲۰۰۰ء کو جاری کیا۔ اس کے علاوہ تین آرڈی ننس جاری کیے گئے جو تشہیر اور عوامی جگہوں پر سگریٹ نوشی کی ممانعت سے متعلق ہیں۔ نسوار، پان، حقہ اور سگریٹ وہ مشہور جانے پہچانے طریقے ہیں جن میں تمباکو استعمال کیا جاتا ہے اور اس طرح انسانی صحت کو تباہ کیا جاتا ہے۔
تمباکو نوشی کی شرعی احکام کی پانچ نوعیتیں ہیں: وجوب، حُرمت، کراہت، استحباب اور اباحت۔ ان میں سے کسی حکم کے تحت لانے سے متعلق کوئی صریح نص نہ ہونے کی وجہ سے فقہا میں اختلاف تھا۔ کچھ نے تمباکو نوشی کو حرام، کچھ نے مکروہ اور کچھ نے اس کو مباح کہا ہے۔ ایک موقف یہ بھی ہے کہ حکم کچھ بھی ہو، انسداد ضروری ہے۔
حضرت ابوسعید خدریؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہ خود کو ضرر دو اور نہ دوسرے کو ضرر دو (ابن ماجہ، دارقطنی، مرفوعاً، جب کہ مالک سے مرسل)۔ لاضررا کا عام مفہوم یہ ہے کہ نقصان نہ پہنچائو۔ مریض کے لیے پانی مضر ہو تو وضو معاف، مسافر کے لیے روزہ معاف،احرام کی پابندیاں معاف، حلق (سرمنڈوانا)کے بجاے فدیہ دے دے۔ حضرت عباسؓ سے مرفوع روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ کون سا دین اللہ کو پسند ہے تو آپؐ نے فرمایا: آسان حنفیت۔ ضرر کا شریعت میں وجود نہیں اور ممنوع ہے۔ اس لیے تمباکو نوشی سے جان کو نقصان دینا حرام ہوگا کیونکہ خود کو اور دوسروں کو ضرر دینا ممنوع ہے۔
۲- مال کے ضیاع کا سبب: تمباکو نوشی مال کی تباہی اور ضیاع کا ذریعہ ہے۔ حافظ ابن حجرؒ نے فرمایا کہ اکثر نے مال کے ضیاع سے اسراف مراد لی ہے اور کچھ نے اس اسراف کو حرام چیز پر صرف کرنے تک کا مطلب لیا ہے۔ زیادہ قوی بات یہی ہے کہ جس دینی یا دنیاوی غرض کے لیے مال صرف کرنے کی شرعاً اجازت نہیں دی گئی وہ ممنوع ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مال بندوں کے مصالح کی تکمیل کا ذریعہ بنایا ہے اور فضول خرچی سے یہ مصالح ضائع ہوتے ہیں۔ (فتح الباری فی شرح صحیح بخاری، ج ۱۰، ص ۲۳۰)
مال کا اس سے زیادہ ضیاع اور کیا ہوگا کہ تمباکو خریدا جائے جو دھواں، راکھ اور بیماری کی شکل اختیار کرلے اور انسان کی زندگی کا چراغ گُل کردے۔ سورئہ حدید کی آیت ۱۷ ، جس میں فرمایا گیا کہ تم اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائو اور جو مال تمھیں دیا گیا ہے اس کو خرچ کرو۔ علامہ قرطبی اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں: معلوم ہوا اصل ملکیت اللہ تعالیٰ کی ہے۔ انسان کو اللہ کی پسند کے مطابق خرچ کرنے کا اختیار دیا گیا ہے تاکہ جنت بھی صلے میں ملے۔ (تفسیر قرطبی، ج۱۰،ص ۲۴۷)
تمباکو خریدنا مال کا ضیاع ہے، جب کہ اس فرد کو اور اس کے رشتہ داروں کو رقم کی ضرورت ہو۔ حضرت عمرو بن العاص سے ابوداؤد میں روایت کی گئی ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انسان کا یہ جرم کافی ہے کہ وہ اپنے زیرکفالت لوگوں کو ضائع کرے۔ سورئہ اعراف میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’ان کے لیے پاکیزہ چیزیں وہ حلال کرتا ہے اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے‘‘ (۷:۱۵۷)۔ کسی چیز کے ناپاک اور ناگوار ہونے کی وجہ سے اس کی حُرمت ہوتی ہے۔ گندی بو تو تمباکو کی سب سے ہلکی خرابی ہے ورنہ اس سے پیدا ہونے والی بیماریاں، خرابیاں تو حددرجہ خطرناک اور مہلک ہیں۔یوں تمباکو اپنے کڑوے مزے، شدید بدبو، سنگین نقصان، مہلک نتائج کی بناپر حددرجہ خطرناک اور مہلک ہے، اس لیے یہ حرام ہوگا۔
تمباکو نوشی پر مال کو خرچ کرنا بے موقع بھی ہے اور بلاضرورت بھی۔ اس لیے کہ اسراف حرام ہے۔ اس بنیاد پر تمباکو نوشی حرام ہے اور حددرجہ خطرناک۔
۳- مضر صحت ھونا:صحت کو نقصان پہنچانے کے سبب سے اس کی حُرمت ثابت ہے۔ قرآن کریم، حدیث نبویؐ، شرعی قواعد اور قابلِ اعتماد و شرعی نصوص سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ صحت کے لیے جو چیز نقصان دہ ہے اس کا استعمال مکروہ تحریمی یا حرام ہے۔
جامعہ ازہر کی فتویٰ کمیٹی نے فتویٰ دیا ہے کہ تمباکو نوشی ناپسندیدہ عادت اور حرام ہے۔ یہ فتویٰ الجمہوریہ اخبار میں ۲۲مارچ ۱۹۷۹ء کو شائع ہوا۔ ڈاکٹر زکریا اور ڈاکٹر محمد طیب نجار نے صحت کے لیے اس کے مضر ہونے پر ڈاکٹروں کے اتفاق کی وجہ سے اس کی حُرمت کا فتویٰ دیا ہے (یہ اسلامک ریسرچ اکیڈمی مصر کے رکن ہیں)۔ جدید طبی تحقیقات نے اس کے سخت نقصانات کو ثابت کر دیا ہے اور ان تحقیقات کو بہت سی حکومتوں نے تسلیم کرتے ہوئے عوامی مقامات اور اجتماعات میں اس کے پینے کو ممنوع قرار دیا ہے۔
تمباکو نوشی پر عالمی ادارہ صحت کی کانفرنس جنیوا میں دسمبر ۱۹۷۴ء میں منعقد ہوئی۔ طب کے پروفیسر، سائنسی تحقیق اور حفظانِ صحت کے فروغ کے اداروں کے ماہرین کی بڑی تعداد نے عالمی بنیادوں پر شرکت کی۔ کانفرنس میں متفقہ طور پر طے کیا کہ پھیپھڑوں کے سرطان، نمونیا، ضیقِ دم، دل کے دوران خون کی بندش اور کناروں میں خون کی بندش ،جسم کے بہت سے مقامات کا سرطان، اسقاطِ حمل، مُردہ بچوں کی پیدایش، بچوں کی قبل از وقت اموات، موت کے اہم ترین سبب ہیں،جن کی بڑی وجہ تمباکونوشی ہے۔ سگریٹ سے اُٹھنے والے دھوئیں میں کینسر کا مواد اور اشتعال انگیز مادہ پایا جاتا ہے۔ پتھالوجیکل تحقیقات سے پتا چلتا ہے کہ قیر، نکوٹین اور کاربن مونوآکسائیڈ خلیوں میں کینسر بنانے والی غیرطبعی تبدیلیاں پیدا کرتی ہیں۔ (تمباکو نوشی کا شرعی حکم، عالمی ادارہ صحت،ص ۹۱)
۴- عقل کے لیے نقصان دہ ھونے کی وجہ سے حُرمت(عقل کا تحفظ مقاصد الشریعہ میں سے ہے): ایسے دلائل موجود ہیں کہ دماغ کی خونی نالیوں کے امراض کا سبب تمباکو نوشی ہے۔ امریکا میں وسیع پیمانے پر تحقیقات ثابت کرتی ہیں کہ تمباکو نوشوں کی اموات کا تناسب اس سبب سے بہت زیادہ ہے۔ (تمباکو نوشی کا شرعی حکم، عالمی ادارہ صحت تمباکو،ص ۹۳)
__ جان، مال، صحت اور عقل پر ثابت شدہ حقائق کے روشنی میں علما نے حُرمت کا فتویٰ ، مصر میں فقہا احناف نے تمباکو نوشی کے حرام ہونے کی تصریح یا اشارہ کیا یا اسے مکروہ تحریمی کے دائرے میں رکھا۔ ان میں فقہا احناف ۱۳، شافعیہ ۷، مالکیہ ۶ اور حنابلہ ۵ ہیں۔
__ اکتوبر ۱۹۸۴ء کے مجلہ التصوف نے جامعہ ازہر کی فتویٰ کمیٹی کا فتویٰ شائع کیا کہ ان وجوہ کی بنا پر ہماری راے ہے کہ تمباکو کا پینا، اس کی درآمد و برآمد اور تجارت سب حرام ہے۔
__ منشیات کی انسداد کی عالمی اسلامی کانفرنس جو مدینہ منورہ میں ۲۷ تا ۳۰ جمادی الاول ۱۴۰۲ھ مطابق ۲۲ تا ۲۵ مارچ ۱۹۸۲ء منعقد ہوئی، اس کانفرنس میں شریک علما نے بالاجماع تمباکو کے استعمال، اس کی کاشت اور تجارت کے حرام ہونے کا فتویٰ دیا ہے۔ ( تمباکو کی کاشت میںجو کیڑے مار دوا استعمال ہوتی ہے اور اس سے کسانوں کی ہلاکت کے ا عداد شمار بھیانک ہیں جو ۱۹۹۶ء میںڈاکٹر محمد علی البار نے ملایشیا میں پیش کیے)۔
__سعودی عرب کے سابق مفتی اکبر شیخ محمد ابراہیم آلِ شیخ کے فتوے میں کہا گیا ہے کہ تمباکو کے ناپاک ہونے، بدبودار ہونے اور بعض اوقات نشہ آور اور خواب آور ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔ اس لیے صحیح روایات اور صریح عقل اور ثقہ ڈاکٹروں کی آرا کے مطابق اس کی حُرمت ثابت ہوتی ہے۔ یہ فتویٰ سات قسم کے اسباب کی وجہ سے دیا گیا:
ان علما نے تمباکو نوشی کو حرام قرار دیا ہے۔
۵- مباح قرار دینے والے علما کا موقف:یہ زیادہ تر ان افراد کا موقف رہا جن کے سامنے طبی تحقیقات اور صحت کے جائزے نہیں آئے اور یہ گروہ قدیم علما کا ہے۔ انھوں نے فقہ کے ان اصولوں کو سامنے رکھا کہ اشیا کااصل حکم جواز ہے، اور فائدہ مندچیزوں کا اصل حکم ان کے استعمال کا جواز، اور نقصان دہ چیزوں کا اصل حکم ممانعت اور حرمت ہے۔ ان اصولوں کا تجزیہ کرنے سے پتا چلتا ہے کہ پہلے اصول میں ایک گروہ کا خیال ہے کہ فائدہ مند اور نقصان دہ چیزوں کے اضافے کے الفاظ سے تو پھر نقصان دہ چیزوں کا حکم حُرمت ہونا چاہیے۔ جیسے دوسرے اصول میں ذکر کیا گیا ہے۔ اس وقت ایسا کوئی گروہ ممکن نہیں جو موجودہ حقائق کا مطالعہ کرے تو اس کی اباحت پر قائم رہے۔
۶- تمباکو نوشی مکروہ ھے: اس پر جن علما کا فتویٰ ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اُس وقت تک طب کی تحقیقات اتنی مکمل نہیں تھیں کہ ان پر ایسا کوئی موقف اختیار کیا جاسکتا، مثلاً مولانا کفایت اللہؒ (کفایت المفتی، جلدنہم ، ص۱۲۰، آٹھواں باب، کتاب الخطروالاباحۃ) ۱۹۳۷ء کئی سوالات کے جواب میں علیحدہ علیحدہ فرماتے ہیں: ’’حقہ پینا فی حد ذاتہ (اپنے حدود میں)مباح ہے، مگر بدبو کی وجہ سے کراہت آتی ہے۔ کل دخانٌ حرامؑ حدیث نہیں ہے۔ اگر منہ میں بدبو باقی ہو تو بے شک مسجد میں آنا اور امامت کرانا مکروہ ہے، ورنہ نہیں۔ سوال کرنے والے چونکہ دلائل ایسے دیتے کہ تمباکو نشہ آور نہیں، اور نہ زہریات میں سے ہے۔ صرف بدبو ہوتی ہے۔ اسراف میں بھی اس لیے نہیں آتا کہ پانی اور خوراک پر خرچ تو زندگی کے لیے ضروری ہے مگر گرمیوں میں شربت کا پینا استحفاظ اور استراحت طبع (راحت جا ن )کے لیے ہے۔ اگر حقہ پینا داخلِ اسراف ہو تو پھر تمباکو نوشی کے اور ذرائع بھی اسراف کے زمرے میں آئیں گے اور ایک وجہ علما کا اختلاف بھی ہے۔ اس لیے انھوں نے صرف بدبو کی بنیاد پر مکروہ قرار دیا۔
مولانا گوہر رحمنؒ ایک سوال : کیا نسوار اور سگریٹ سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؟ کے جواب میں رقم طراز ہیں: نسوار اور سگریٹ صحت کے لیے مضر ہیں اور مکروہ ہیں۔ ان کے استعمال سے پرہیز کرنا چاہیے۔ لیکن ان کے استعمال سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ الا یہ کہ بے ہوشی طاری ہوجائے۔(تفہیم المسائل، جلدچہارم ، ص ۳۱۲، ستمبر ۱۹۹۷ء )
جامع المسائل میں شیعہ عالم فاضل لنکرانی ، ص ۳۴۷ سوال نمبر۱۴، منشیات کے باب میں فرماتے ہیں: سگریٹ (دخانیات بھی) اگر منشیات کا زینہ فراہم کرے تو جائز نہیں۔ سوال نمبر۲۰ میں فرماتے ہیں:اگر کسی ایسے ضرر کا باعث ہوا جو تشویش ناک ہو تو جائز نہیں۔ حرام کرنے والے علما کے بالمقابل جو دلائل دیے گئے ہیں وہ تین ہیں:
۱- چار اصل ماخذوں میں سے کوئی دلیل صریح جو نام لے کر اس کی حرمت کا ذکر کرے، قرآن، حدیث، اجماع، اور قیاس سے ثابت نہیں، اس لیے مباح ہے۔
۲- اشیا کا اصل حکم جواز ہے، اس لیے تمباکو نوشی اس میں شامل ہے۔
۴- تمباکو نوشی مفید ہے نہ کہ مضر (ان کی راے ہے)، اور منافع کا اصل حکم ان کے استعمال کا جائز ہونا ہے اور نقصانات کا اصل حکم حُرمت ہے۔
بہرحال ان دلائل کا رد اور جواب جو دیا گیا ہے، یہ گروہ زیادہ سے زیادہ اس کو مکروہ قرار دیتا ہے۔ بعض اوقات ہر فرد کی مالی حالت ، اس کی صحت اور مزاحمت کی طاقت پر راے کا اظہار کیا جاتا ہے۔ شیخ یوسف وجوی اپنی کتاب مقالات و فتاویٰ میں کہتے ہیں: متاخرین کے درمیان اس کے استعمال کے حکم کے بارے میں اختلاف ہوا ہے، کچھ نے اسے حلال اور کچھ نے حرام قرار دیا ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ اسے مطلقاً حلال یا حرام قرار دینا مناسب نہیں ہے کہ ایسا کرنا افراط و تفریط سے خالی نہ ہوگا۔ اس صورت میں پینے والے کی حالت اور اس پر اسے پینے کے نتائج کو مدنظر رکھنا ہوگا۔ اب جس کے لیے تمباکو نوشی مضر ہوگی اور اس کی صحت کے لیے بھی یہی حُرمت کا حکم ہوگا ۔ مالی اور بدنی ضرر کسی میں نہ پایا جائے تو اس کے لیے بدن کا جائزہ ڈاکٹر لے کر بتائے گا کہ اس پر حرام ہے یا نہیں، اور مالی ضرر تو ہر انسان خود سمجھتا ہے۔
ایک چوتھا گروہ اس بحث سے صرفِ نظر کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اتفاق راے سے جو موقف سمجھ میں آتا ہے وہ اس کا انسداد ہے کہ آیندہ کے لیے پورا زور اس کے انسداد پر صرف کیا جائے۔
انسداد دو طریقوں سے ممکن ہے: بچائو (Preventon) اور علاج (Treatment)۔ دانش مندی تو مصیبت آنے سے پہلے اس سے بچنے کا نام ہے، مثل مشہور ہے: ’پرہیز علاج سے بہتر ہے‘۔
اس وقت دنیا بھر میں تمباکو نوشی کے خلاف جو مہم جاری ہے اس میں مکمل تائید کرنا اور تعاون کرنا انسداد کو یقینی بنانے کے مترادف ہے۔ اب تمباکونوشی منع ہے کی بجاے یہ صحت پر حملہ ہے کے نعرے کو اپنایا گیا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لہسن اور پیاز کھاکر مسجد میں آنے والوں کو جنت البقیع بھیج دیا کرتے تھے۔ یہ مدینہ کا مشہور قبرستان ہے۔ یہ بھی ایک انسدادی اقدام تھا۔
ہمیں اللہ تعالیٰ کے حضور جواب دہی کرنی ہے۔ اس لیے ہمیں ہمارا احساس اس فرض کی طرف بلا رہا ہے کہ انسانی زندگی کے تحفظ کے لیے ذات، گھر، محلہ، شہر، صوبہ، مملکت اور بین الاقوامی دائرے تک جہاں تک ہوسکے ہم انسانی جان کو بچانے کے لیے کمربستہ ہوجائیں۔ آج اس زمین پر جو ظلم، زیادتی، قتل و غارت گری ہورہی ہے، جو لوگ زندہ ہیں وہ اس میں شریک ہیں، یا پھر بری الذمہ ہونے کے لیے ان کو کچھ کرنا ضروری ہے۔ حرام، مکروہ اور مباح کی ان ساری بحثوں میں جو اتفاق راے کا نقطۂ نظر ہے وہ یہ ہے کہ انسدادِ تمباکو نوشی جہاد ہے۔ جو لوگ مبتلا ہیں اور جو مبتلا نہیں ہیں، سب کا اس پر ان شاء اللہ اتفاق ہے۔ مَنْ اَحْیَاھَا فَکَاَنَّمَآ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا (المائدہ۵:۳۲) ’’جس نے ایک فرد کی جان بچائی گویا ساری انسانیت کی جان بچائی‘‘۔چونکہ علما اور معاشرے کے لوگوں میں سے بہت سے اس عادت کا شکار ہوچکے ہیں اس لیے شرعی حکم کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ لیکن بچنے کے حوالے سے ہر فرد اس کو بُرا سمجھتاہے۔ نسوار، پانی، حقہ، یہ تمام بھی اسی طرح خطرناک ہیں۔ اس لیے معاشرے کو اس لعنت کے ہر رنگ سے پاک کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ وَ اللّٰہُ غَالِبٌ عَلٰٓی اَمْرِہٖ وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ (یوسف ۱۲:۲۱) ’’اللہ تعالیٰ اپنے احکامات کو غالب کرنے والا ہے۔ اکثر انسان نہیں جانتے‘‘۔ اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو۔
تلخیص کے لیے کچھ حصے حذف کیے گئے ہیں۔ مکمل مضمون: تمباکونوشی، مباح ہے یا حرام؟ منشورات سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ قیمت:۸ روپے۔ زیادہ تعداد میں حاصل کریں اور پھیلا کر جانیں بچانے کے اس فریضے کی ادایگی میں شریک ہوجائیں۔