امام ابن تیمیہؒ


 ترجمہ: عبدالحی

میرے علم کے مطابق ، پیروی کی خواہش رکھنے والے کسی صاحب ِ فہم کے لیے ، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت سے زیادہ مفید کوئی وصیت نہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَ لَقَدْ وَصَّیْنَا الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَ اِیَّاکُمْ اَنِ اتَّقُوا اللّٰہَ ط (النساء۴:۱۳۱) تم سے پہلے جن کو ہم نے کتاب دی تھی، انھیں بھی یہی ہدایت کی تھی اور تم کو بھی ہدایت کرتے ہیں کہ خدا سے ڈرتے ہوئے کام کرو۔

اسی طرح آں حضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذؓ بن جبل کو یمن کی طرف روانہ کرتے وقت فرمایا: ’’اللہ سے ڈرتے رہو جہاں کہیں بھی ہو، اور بُرائی کے بعد نیکی ضرور کرو جو  اس کو مٹادے، اور لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آئو۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک حضرت معاذؓ کی بڑی قدرومنزلت تھی۔ آپؐ نے ان سے اپنے پیچھے سواری پر ہم رکابی کی حالت میں فرمایا: ’’اے معاذ! بخدا مجھے تم سے محبت ہے‘‘۔ انھوں نے اس وصیت کو جامع سمجھا اور بلاشبہہ یہ ہے بھی بہت جامع، ساتھ ہی یہ قرآنی وصیت کی شرح بھی ہے۔

اس کی جامعیت یوں ہے کہ بندے پر دو قسم کے حقوق ہیں: ایک اللہ تعالیٰ کے، اور دوسرے بندوں کے۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا جو حق ہے، اس میں بعض اوقات اس سے لازماً کوتاہی سرزد ہوگی، یا تو کسی حکم کی بجاآوری میں یا ممنوعہ چیز کا ارتکاب کرکے۔ اس لیے آپؐ نے فرمایا: ’’اللہ سے ڈرو جہاں کہیں بھی ہو‘‘۔ ’جہاں کہیں بھی ہو‘ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بندے کے لیے ظاہر اور پوشیدہ دونوں حالتوں میں تقویٰ اختیار کرنا ضروری ہے۔

پھر فرمایا: ’’بُرائی کے بعد نیکی ضرور کرو جو اسے مٹا دے‘‘، اس لیے کہ مریض جب کوئی مضر چیز استعمال کربیٹھے، تو طبیب اسے ایسی چیز کے استعمال کا مشورہ دیتا ہے جو ضرر سے محفوظ رکھے۔ کیونکہ گناہ بندے کے ساتھ لازم و ملزوم ہے ، پس عقل مند وہ ہے جو بُرائیوں کو مٹانے کے لیے ہمیشہ نیکیاں کرتا رہے۔ نیکیاں بدیوں کی جنس میں سے ہوں، تو انھیں مٹانے میں زیادہ مؤثر اور کارآمد ہوںگی۔

گناہوں کے اثرات تین چیزوں سے زائل ہوتے ہیں: ایک توبہ، دوسرے استغفار، اور تیسرے نیک اعمال۔ استغفار، چاہے توبہ کے بغیر بھی ہو تو اللہ تعالیٰ اس کی دُعا کی قبولیت میں اسے بخش دیتا ہے ، لیکن اگر توبہ و استغفار جمع ہوجائیں تو یہ کمال درجہ ہے۔ تیسرے نیک اعمال، جو گناہوں کا کفّارہ یا کفّارہ ظہار، یا حج میں بعض ممنوعہ چیزوں کے ارتکاب کا کفّارہ، مثلاً: ۱- جانور کی قربانی، ۲- غلام آزاد کرنا ، ۳- صدقہ و خیرات کرنا، ۴- روزے رکھنا۔

عام نیک اعمال بھی گناہوں کا کفّارہ بنتے ہیں جیساکہ حضرت عمرؓ سے حضرت حذیفہؓ نے فرمایا: ’’انسان سے اپنے اہل و عیال اور ما ل و دولت کے معاملات میں مشغول رہنے کی وجہ سے ذکرالٰہی سے جو غفلت ہوجاتی ہے، نماز، روزہ، صدقہ و خیرات اور امربالمعروف اور نہی عن المنکر  کے کام انجام دینے سے وہ معاف ہوجاتی ہے۔ قرآن و سنت کے بے شمار شواہد بتاتے ہیں کہ پنجگانہ نماز، صدقات اور دیگر اعمالِ صالحہ گناہوں کا کفّارہ بنتے ہیں۔ ان اعمال کا اہتمام کرنے کی ضرورت ہے ، اس لیے کہ انسان کی نشوونما کتنے ہی علمی و دینی ماحول میں ہوئی ہو، بلوغت سے مرتے دم تک جاہلیت کے بعض اعمال کا مرتکب ہو ہی جاتا ہے۔

ہر خاص و عام کے لیے جو چیز نفع بخش ہے اور اسے پریشانیوں سے نجات دلا سکتی ہے، وہ ہے گناہوں کا ارتکاب ہوجانے کے فوراً بعد نیکیاں کرنا جنھیں اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے انجام دینے کا حکم دیا ہے۔ اس کے علاوہ گناہوں کو جو چیزیں مٹاتی ہیں ان میں سے ایک قسم ان مصیبتوں اور پریشانیوں کی بھی ہے، جو انسان کو رنج و غم اور مالی، جسمانی و معنوی لحاظ سے پہنچنے والی تکالیف سے عبارت ہے، جن میں انسان کا اپنا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے حق کو بیان فرمانے کے بعد فرمایا: ’’لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آئو‘‘۔ لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آنے کا خلاصہ یہ ہے کہ جو قطع تعلق کرے، اس کے ساتھ سلام کلام، عزت و اِکرام، اس کے لیے دُعا و استغفار اور اس کی تعریف کے ذریعے جڑا جائے اور میل جول رکھا جائے۔ جو محروم رکھے، اسے تعلیم و تعلّم سے اور مالی اور غیرمالی ہرطرح سے فائدہ پہنچایا جائے۔ جو جان، مال یا عزت و آبرو کے لحاظ سے ظلم کرے اور نقصان پہنچائے، اس کو معاف کیا جائے۔ ان میں سے کچھ چیزیں تو واجب ہیں اور کچھ مستحب اور مرغوب۔ ’خلق عظیم‘ کی حقیقت یہ ہے کہ انسان وہ چیزیں انجام دے جو اللہ کو پسند ہیں۔

رہی یہ بات کہ یہ تمام چیزیں اللہ کی وصیت کیوں کر ہیں، تو وہ اس لیے کہ اللہ کے خوف اور تقویٰ میں ہر وہ چیز شامل ہے جس کے حتمی طور پر کرنے کا ، یا اس سے رُک جانے کا اللہ نے حکم دیا ہے۔ لیکن چونکہ بسااوقات تقویٰ سے مراد محض اللہ کے عذاب کا ڈر لیا جاتا ہے، اس لیے  حدیث معاذؓ میں لفظ تقویٰ کی شرح بیان ہوئی ہے۔ اسی طرح حضرت ابوہریرہؓ نے تقویٰ کی شرح یوں روایت کی ہے: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ زیادہ تر کون سی چیز لوگوں کے جنّت میں داخلے کا سبب بنے گی؟ آپؐ نے فرمایا: تقویٰ اور بہترین اخلاق۔ پھر پوچھا گیا کہ کون سی چیز زیادہ تر جہنّم میں لے جائے گی؟ فرمایا: ’’منہ اور شرم گاہ‘‘ (ترمذی)۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’مسلمانوں میں سے سب سے کامل مومن وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہیں‘‘۔

خیر اور نیکی کا سرچشمہ اور بنیاد یہ ہے کہ آدمی عبادت اور استعانت (فریاد طلبی) صرف اور صرف اللہ ہی کے لیے مخصوص کردے ۔ چنانچہ بندے کو مخلوق سے اپنا دل اسی طرح پھیر لینا چاہیے کہ نہ ان سے کسی فائدےکی اُمید رکھے، اور نہ ان کی خاطر کوئی عمل کرے، بلکہ تمام توجہ اور رُخ اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف ہو۔ اپنی ہرمشکل ، پریشانی ، تنگ دستی اور خطرہ وغیرہ میں اسی کو پکارتا رہے، اور اس کی پسندیدہ چیزیں تیار کرتا رہے۔ جس نے یہ کام کرلیا تو اس کے انجام کا کیا کہنا!

  •  سب سے اچھا   عمل: نیز آپ نے پوچھا ہے کہ فرائض کے بعد سب سے اچھا عمل کون سا ہے؟ تو مختلف لوگوں اور ان کی مصروفیات اور مشاغل کے لحاظ سے، سب کے لیے ایک ہی لگا بندھا جواب ناممکن ہے، لیکن جس چیز پر سب کا تقریباً اتفاق ہے، وہ یہ ہے کہ ہمیشہ اور ہرحال میں اللہ تعالیٰ کے ذکر کا التزام وہ بہترین مشغلہ ہے جس میں بندہ اپنے آپ کو مصروف رکھے۔ مسلم میں حضرت ابوہریرہؓ کی حدیث اس کی اہمیت واضح کرتی ہے، آپؐ نے فرمایا: ’’اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور عورتیں‘‘۔ حضرت ابوالدرداؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا میں تمھیں وہ عمل بتائوں جو تمھارے سارے اعمال میں بہتر اور تمھارے مالک کی نگاہ میں پاکیزہ تر ہے، اور تمھارے درجات کو تمام اعمال سے زیادہ بلند کرنے والا ہے، اور راہِ خدا میں سونا اور چاندی خرچ کرنے سے بھی زیادہ اس میں تمھارے لیے خیر ہے، اور تمھارے لیے اس میں اس جہاد سے بھی زیادہ خیرہے، جس میں تم اپنے دشمنوں کو موت کے گھاٹ اُتار دو، اور وہ تمھیں ذبح کریں اور شہید کریں؟‘‘ صحابہؓ نے عرض کیا: ’’ہاں، یارسولؐ اللہ! (ایسا قیمتی عمل) ضرور بتایئے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’وہ اللہ کا ذکر ہے‘‘۔(ابوداؤد، احمد، ترمذی، ابن ماجہ)

ذکر کا کم سے کم درجہ یہ ہے کہ بندہ معلمِ انسانیت کے ماثور اذکار کی پابندی کرے، جیسے  صبح و شام کے اذکار، سوتے وقت، بیدار ہونے پر اور فرض نمازوں کے بعد والے اذکار وغیرہ۔ اسی طرح وہ اذکار اور دُعائیں جو مختلف حالات و مواقع کے لیے وارد ہوئی ہیں، جیسے کھانے پینے یا گھر، مسجد اور قضاے حاجت کے لیے داخل ہوتے اور نکلتے وقت کے اذکار۔ اسی طرح بارش ہونے اور بجلی چمکنے اور اسی طرح کے دیگر مواقع پر مسنون دُعائوں کا اہتمام۔ اس سلسلے میں ’شب و روز‘ کے وظائف کے عنوان کے تحت کتابیں موجود ہیں۔ پھر عمومی ذکر کا اہتمام بھی کرے۔ اور اس میں  سب سے بہتر لا الٰہ الا اللہ ہے۔ بعض صورتوں میں سُبْحَانَّ اللہِ ، وَالْحَمْدُلِلہِ وَلَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاللہُ اَکْبَرْ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ اس سے افضل ہے۔

یہ بھی ذہن میں رہنا چاہیے کہ اللہ سے قریب کرنے والی ہر چیز، جیسے علم سیکھنا، سکھانا یا امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینا،چاہے زبان سے ہو، عمل سے ہو، یا قلب میں اس کا خیال پیدا ہو… وہ بھی اللہ کے ذکر میں شامل ہے۔ چنانچہ جو شخص ادایگی فرائض کے بعد، علمِ نافع کی تلاش میں لگ جائے، یا کہیں بیٹھ کر ایسا علم سیکھے اور سکھائے، تو یہ بھی بہترین ذکر میں شامل ہے۔ اس بنا پر اگر آپ غور کریں تو سب سے بہتر عمل کے سلسلے میں سلف کی باتوں میں آپ کو کوئی بڑا اختلاف نظر نہیں آئے گا۔

بندے کو اگر کسی معاملے کے متعلق اشتباہ ہوجائے تو اسے استخارہ کرلینا چاہیے، اس لیے کہ جو استخارہ کرے گا وہ کبھی نادم و پشیمان نہیں ہوگا۔ استخارہ اور دُعا بکثرت کرنی چاہیے۔یہی چیز ہربھلائی کی کنجی ہے۔ اس بارے میں اسے جلدی کرتے ہوئے یہ نہیں کہنا چاہیے کہ میں نے بہت دُعائیں کیں، مگر قبول نہیں ہوئیں۔ دُعا کے سلسلے میں قبولیت کے اوقات پیش نظر رہنے چاہییں، جیسے رات کا آخری حصہ، نماز کے بعد، اذان کے دوران اور بارش ہوتے وقت وغیرہ۔

  •  وسائلِ رزق:جہاں تک کسب ِ حلال کے سب سے زیادہ نفع بخش ذرائع ووسائل کا تعلق ہے، تو وہ ہیں: اللہ پر توکّل، اس کے کافی اور رزق رساں ہونے پر پورا بھروسا، اور اس کے متعلق اچھا گمان۔ چنانچہ رزق کی تلاش کرنے والے کو چاہیے کہ رزق کے معاملے میں اللہ کا سہارا تلاش کرے اور اسی سے مانگے۔ حدیث قدسی ہے: ’’تم سب بھوکے ہو مگر جس کو میں کھلائوں ، اس لیے تم مجھ ہی سے رزق مانگو، میں تمھیں کھلائوں گا‘‘۔ امام ترمذی نے حضرت انسؓ سے روایت نقل کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمھیں اپنی تمام ضرورتیں اور مرادیں اللہ ہی سے مانگنی چاہییں، حتیٰ کہ اگر تمھارے جوتے کا تسمہ بھی ٹوٹ جائے، تو وہ بھی اپنے رب ہی سے مانگو، اس لیے کہ وہ نہ دینا چاہے تو کچھ میسر نہیں آسکتا‘‘۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَسْئَلُوا اللّٰہَ مِنْ فَضْلِہٖ ط (النساء۴:۳۲) ’’اللہ سے اس کا فضل مانگو‘‘۔ مزید ارشاد ہے: فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ (الجمعہ ۶۲:۱۰)’’پھر جب نماز پوری ہوجائے تو زمین پر پھیل جائو اور اللہ کا فضل تلاش کرو‘‘۔   یہ آیت اگرچہ نمازِ جمعہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے مگر اس کا اطلاق تمام نمازوں پر ہوتا ہے۔ شاید اسی لیے آپؐ نے مسجد میں داخل ہوتے وقت اَللّٰھُمَّ افْتَحَ   لِیْ اَبْوَابَ رَحْمَتِکَاور نکلتے وقت اَللّٰھُمَّ  اِنِّیْ  اَسْئَلُکَ  مِنْ فَضْلِکَ وَرَحْمَتِکَ کی دُعائیں پڑھنے کی تعلیم دی ہے۔

حضرت ابراہیمؑ نے فرمایا: فَابْتَغُوْا عِنْدَ اللّٰہِ الرِّزْقَ وَ اعْبُدُوْہُ وَ اشْکُرُوْا لَہٗ ط (العنکبوت ۲۹:۱۷) ’’اللہ سے رزق مانگو اور اس کی بندگی کرو اور اس کا شکر ادا کرو‘‘۔

یہ اَمر (حکم) ہے اور اَمر واجب ہونے کا تقاضا کرتا ہے، لہٰذا اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنا اور رزق کے معاملے میں اسی کا دامن تھامنا، بہت بڑا دینی اصول ہے۔ پھر چاہیے کہ مال کو پورے استثناے نفس کے ساتھ لے، تاکہ اس میں برکت واقع ہو، حرص و ہوس اور دل کی رغبت و شوق سے اسے نہیں لینا چاہیے۔ بندے کے ہاں مال کی حیثیت ایسی ہوجائے کہ اس کی ضرورت تو ہے، مگردل میں اس کی کوئی جگہ نہیں، اور مال و دولت کے لیے دوڑ دھوپ صرف اتنی اور اس حد تک ہونی چاہیے، جیسی قضاے حاجت کے لیے ہوتی ہے۔ ترمذی کی ایک مرفوع حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جس پر اس حال میں صبح آئی کہ دُنیا کا حصول ہی اس کا سب سے بڑا مطمح نظر تھا، تو اللہ اس کے معاملات کو پراگندا کردے گا، اور اس کے وسائل رزق کو منتشر کردے گا، اور دُنیا میں سے اسے صرف اتنا ہی حصہ ملے گا، جو اس کی قسمت میں لکھا ہے ، مگر جس پر صبح اس حال میں آئی کہ آخرت ہی اس کا سب سے بڑا مطمح نظر تھا، تو اللہ اس کے معاملات کو سنوار دے گا، اس کے دل میں استغنا اور بے نیازی پیدا کردے گا، اور دنیا مجبور و رُسوا ہوکر اس کے قدموں میں آگرے گی‘‘۔

ایک بزرگ کا قول ہے کہ تمھیں دُنیا میں سے حصہ پانے کی ضرورت تو ہے، مگر آخرت میں سے حصہ پانے کی تمھیں اس سے کہیں زیادہ ضرورت ہے، لہٰذا اگر تم نے آخرت کے حصے سے آغاز کیا، تو دنیا کا حصہ تمھیں خود بخود مل کر رہے گا۔

جہاں تک صنعت و حرفت، تجارت و زراعت یا عمارت سازی اور رزق کے اس طرح کے دیگر وسائل و ذرائع میں سے کسی ایک کو دوسرے پر فوقیت دینے کا تعلق ہے، تو اس کا دارومدار ہرآدمی کے طبعی میلان پر ہے۔ اس بارے میںکوئی لگابندھا اُصول و قاعدہ میرے علم میں نہیں ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص ان میں سے کسی پیشے کو اختیار کرنا چاہے، تو اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سکھائے ہوئے استخارہ پر عمل کرنا چاہیے۔ اس میں ناقابلِ بیان حد تک برکت ہے۔ اس کے بعد جو چیز اسے میسر ہوجائے، اسے چھوڑ کر خواہ مخواہ بلاضرورت کسی اور پیشے میں ٹانگ نہ اُڑائے، اِلا یہ کہ اس میں کوئی شرعی قباحت ہو۔

  •  علمی کتب: جہاں تک علم کے حصول کے لیے مناسب کتابوں کا تعلق ہے تو یہ نہایت وسیع میدان ہے۔ اس کا دارومدار کسی حد تک ان ممالک و علاقہ جات پر بھی ہے جہاں انسان پروان چڑھا ہے، اس لیے کہ بعض ممالک میں علوم و فنون اور اس کے مسلک و مکتب ِ فکر کی ایسی چیزیں میسر ہوتی ہیں جو دوسرے ممالک میں میسر نہیں ہوتیں۔ لیکن خیرونیکی کی بنیاد یہ ہے کہ بندہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے متوارث علم کے حصول کے لیے اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرے، اس لیے کہ یہی وہ علم ہے جو علم کہلائے جانے کا سزاوار ہے۔

انسان کو سب سے بڑ ھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اَوامر و نواہی اور آپؐ کے کلام کے مقاصد اور حکمتوں کو سمجھنا چاہیے۔ اگر اس کا دل اس بات پر مطمئن ہوجائے کہ کسی بات کے سلسلے میں حضوؐر کا یہی مطلب اور غرض تھی، تو اسے اللہ کے اور بندوں کے ساتھ تعلق میں حتی الوسع، اسے چھوڑ کر کسی اور بات پر عمل نہیں کرنا چاہیے۔ بندے کو کوشش کرنی چاہیے کہ اس کے پاس علم کے تمام ابواب کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول بنیاد موجود ہو۔

اگر اختلاف کی وجہ سے کسی معاملے میں اسے شرح صدر حاصل نہ ہو، تو مسلم میں حضرت عائشہؓ کی روایت میں سکھائی گئی دُعا کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو نماز پڑھنے کے لیے اُٹھا کرتے تو فرماتے: ’’میرے اللہ! جبریلؑ ، میکایلؑ اور اسرافیلؑ کے رب، زمین و آسمان کے پیدا کرنے والے، کھلے چھپے کے جاننے والے، تو ہی اپنے بندوں کے اختلافات کے درمیان صحیح فیصلہ کرسکتا ہے، جس میں اختلاف ہے، تو حق کی طرف میری رہنمائی فرما، تو جسے چاہتا ہے سیدھا راستہ دکھاتا ہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے خود بھی حدیث قدسی میں فرمایا ہے: ’’میرے بندو، تم سب گمراہ کر دہِ راہ ہو، مگر جسے مَیں ہدایت دوں، لہٰذا مجھ ہی سے رہنمائی طلب کرو، میں تمھیں راہ دکھائوں گا‘‘۔

کتابوں میں بخاری سے زیادہ مفید کوئی اور کتاب نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود یہ نہیں کہا جاسکتا کہ علم کے تمام اصول و مبادی اس میں آگئے ہیں۔ علم کے مختلف ابواب اور فروع میں  تبحر کی خواہش رکھنے والا شخص اپنا پورا مقصد صرف اسی کتاب پر انحصار کر کے حاصل نہیں کرسکتا۔ اس لیے کہ دیگر احادیث اور ان معاملات کے بارے میں اہلِ علم و فقہ کے اقوال و آرا کا جاننا بھی ضروری ہے، جن کا علم ان حضرات ہی کے ساتھ مخصوص ہے۔ تاہم، جس شخص کو نُورِ بصیرت سے محروم رکھا گیا ہے، کتب کی بہتات، اس کی سرگردانی اور گمراہی میں اضافہ ہی کرے گی، جیساکہ آں حضوؐر نے حضرت ابوعبیدہ انصاریؓ سے فرمایا تھا: ’’کیا یہود و نصاریٰ کے پاس تورات و انجیل موجود نہیں ہے؟ انھوں (تورات و انجیل) نے انھیں کیا فائدہ پہنچایا؟‘‘۔( وصیّتِ صغریٰ)