حاجی شریعت اللہ ’فرائضی تحریک‘ کے بانی، ممتاز عالم دین ، ہادیِ قوم ، نام وَرسماجی مصلح اور سب سے بڑھ کر ملّی اور قومی بیداری کے پیش رو تھے۔ وہ بنگال کے پہلے آدمی تھے، جنھوں نے ’فرائضی تحریک‘ کی بنیاد ڈال کر بنگالی مسلمانوں کو اپنے بل بوتے پر کھڑے ہونے کی تعلیم دی۔ ان کے خیالات واعتقادات کی خرابیاں دور کرنے کی کوشش کی۔ ان میں پھیلی جاہلانہ ومشرکانہ مراسم کے خلاف آواز بلند کی۔ مروجہ بدعات پر کاری ضرب لگائی۔ مسلم معاشرے کی اقتصادی ومعاشی حیثیت بلند کرنے کی فکر کی۔ انھیں ہندئووں اور انگریزوں کے ظلم واستبداد سے بچانے کی تدبیر سوچی۔
انیسویں صدی عیسوی کے پہلے حصے میںبنگالی مسلمانوں کے حالات برعظیم پاک وہند کے اور علاقوں کے مسلمانوں کی نسبت کہیں زیادہ ابتر تھے۔ یہاں کے مسلمان برعظیم میں سب سے پہلے، یعنی ۱۷۵۷ء ہی میں اپنی آزادی کھو چکے تھے۔ یہی لوگ انگریزوں کی سامراجی حکومت کی چیرہ دستیوں سے کراہ رہے تھے۔ قومی آزادی کھو کر ان کی مالی حالت اور تعلیمی صلاحیت پست سے پست تر ہونے لگی۔ ان پر ادبار، افلاس اورجہالت کی گھٹائیں چھانے لگیں۔ ہندو زمین داروں کے معاشی ظلم وجبر اور انگریزی سامراجی حکومت کی زبر دستیوں سے ان کی زندگی دو بھر ہو گئی تھی۔
بت پرست ہندئووں کے ساتھ طویل مدت کی رہایش واختلاط سے ان میں غلط رسمیں اور گمراہ کن عقائد پیدا ہو گئے تھے۔ وہ مذہب اسلام کے صحیح جذبات واحساسات سے دور ہٹتے جارہے تھے۔ اس نامسعود اور نازک حالت میں حاجی شریعت اللہ صاحب بیداری اور ہدایت کا پیغام لے کر مسلمانوں کی رہنمائی کے لیے میدانِ عمل میں اُترے۔ انھوں نے سر زمین بنگال میں بیداری، آزادی اور بغاوت کا علَم اس وقت بلند کیا ، جب کہ سیّد احمد شہید بریلویؒ [شہادت: ۶مئی ۱۸۳۱ء] اور ان کے مجاہدین آزادی سرحد کے علاقوں میں سکھوں اور انگریزوں کے خلاف لڑرہے تھے۔
حاجی شریعت اللہ صاحب ۱۷۸۰ء میں ضلع فرید پور میں بمقام شمائل ایک معمولی معاشی پس منظر کے حامل مسلم گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ بعد میں حاجی صاحب کے نام پر شمائل ’حاجی پور‘ کے نام سے موسوم ہوگیا۔ کم عمری ہی میں دینی علوم میں مہارت اور تفقہ کی بنیاد پر بنگال کے معروف اور جیّد علما میں شمار کیے جانے لگے۔ ان کے پہلو میں ایک حساس دل تھا اور وہ اسلام کے درد سے بھرا ہو ا تھا، مسلم معاشرے کی اَبتری اور زبوں حالی کو دیکھ کر ان کے دل میں اسے سدھارنے کا جذبہ موجزن ہوا۔ انھوں نے ہدایتِ قوم، اصلاح معاشرت اور تعمیر ملّت کو اپنی زندگی کا مقصد بنایا۔ وہ اٹھارہ سال کی عمر میں ۱۷۹۸ء حج کو مکہ تشریف لے گئے اور ۲۰سال وہاں اکتسابِ علم میں گزارے ۔ انھوں نے وہاں شافعی مذہب کے شیخ طاہر سنبل کی شاگردی اختیار کی۔ قیامِ مکّہ میں حاجی صاحب سلفیوں کے نظریات سے بہت متاثر ہوئے۔ سلفیوں کی طرح وہ بھی حج کے موسم میں وہاں بنگالی حاجیوں کو اصلاح معاشرت اور حصول آزادی پر اُبھارتے رہے۔
۱۸۱۸ء میں حاجی صاحب ایک ماہر عالم دین اور زبر دست مناظربن کر اپنے ملک واپس آئے اور قوم کی اٹھان کی طرف ہمہ تن متوجہ ہو گئے۔ ان کا ایک مطمح نظر تھا ۔ اس لیے اپنی منزلِ مقصود تک پہنچنے کے لیے انھوں نے ’فرائض ‘ کے نام سے ۱۸۱۸ء میں ایک تحریک کی بنیاد ڈالی۔ انھوں نے فرائض کی ادایگی پر زیادہ زور دیا اور اس تحریک کو ’فرائضی‘ کے نام سے موسوم کیا۔
’فرائضی تحریک‘ کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو اسلام کے صحیح جذبات سے سرشار کیا جائے۔ ان میں آزادی کی روح پھونکی جائے ۔ ان کی اخلاقی اور معاشی حیثیت کو بلند کیا جائے ۔ ان کی تعلیمی صلاحیت کو فروغ دیا جائے۔ انھیں انگریز افسروں اور ہندو زمین داروں کے مظالم سے رہائی دلائی جائے۔ ان میں اتفاق واتحاد کا جذبہ پیدا کیا جائے۔ بانیِ تحریک حاجی صاحب نے ببانگِ دہل اعلان کیا: ہمارا ملک ’دارالاسلام‘ نہیں۔ یہ فرنگی حکومت کے تحت آکر ’دارالحرب‘ بن چکا ہے۔ اس لیے یہاں اسلامی نظام اور شرعی احکام پر پورا پورا عمل درآمد نہیں ہوسکتا۔ انھوں نے صاف صاف یہ راے ظاہر کی کہ نمازِ جمعہ اور نمازِ عید کی ادایگی کے لیے ’دارالاسلام‘ کی ضرورت ہے، سازگار ماحول کی ضرورت ہے اور یہ انگریزی حکومت میں ناپید ہے۔ اس لیے یہ نمازیں یہاں ادا نہیں ہوسکتیں ۔ انھوں نے مزید یہ بھی کہا کہ آزاد مسلمان ہی جمعہ کے خطبے میں اپنے سلطان کا نام لے سکتے ہیں۔ آزاد قوم ہی عید کی خوشی منا سکتی ہے۔ غلام قوم کو یہ خوشی منانے کا حق نہیں پہنچتا ۔ اس اعلان سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ حاجی صاحب کے دل میں بدیسی حکومت کے خلاف کسی قدر نفرت تھی۔ انھوں نے اس امر کی طرف مسلمانوں کی توجہ مبذول کرائی کہ مذہبی احکام کی پوری پابندی ہوہی نہیں سکتی، جب تک کہ حکومت کی باگ ڈور انگریزوں کے ہاتھوں میں ہو۔ لہٰذا، دین اسلام کی اصل روح اور وجود کی بازیابی کے لیے انھیں چاہیے کہ وہ اپنے ملک کو ’دارالاسلام‘ بنانے پر کمر بستہ ہو جائیں۔
انگریزی حکومت کے تحت رہ کر ایسے باغیانہ جذبے کا اظہار کرنا اور مسلم عوام کو اس کے خلاف بر سرِ پیکار کر دینا حددرجہ جرأت مندانہ اقدام تھا ۔ حاجی صاحب ایک مرد مجاہد تھے ۔ اسلام اور مسلمانوں کی خاطر ہر قربانی پر تیار تھے۔ انھوں نے مسلم عوام کو دلدل میں پھنسے ہوئے دیکھ کر انھیں ذلّت اور پستی سے نکالنے کا پختہ عزم کر لیا۔
حاجی صاحب کی سعی رائیگاں نہ گئی ۔ ان کی ہدایات اور بیانات سے مسلمانوں میں آزادی کا جذبہ پروان چڑھنے لگا۔ جلد ہزاروںمسلمان جوق در جوق ان کے پیچھے صف آرا ہو کر کھڑے ہو گئے۔ کسانوں اور جولاہوں نے بھاری تعداد میں ان کی دعوت پر لبیک کہا۔ اس لیے کہ یہ لوگ زمین داروں کے شکنجوں میں پھنسے ہوئے تھے۔ شروع شروع میں یہ تحریک ضلع فرید پور میں محدود تھی۔ بعدازاں رفتہ رفتہ باقرگنج ، کوسٹیا ، کھولنا ،ڈھاکہ ، کوملا وغیرہ میں جا پہنچی اور فرائضی سلسلہ کی تعداد روز بروز بڑھتی چلی گئی ۔ مختصر عرصے میں یہ تحریک ایک طاقت بن کر کھڑی ہو گئی ۔
’فرائضی تحریک‘ دراصل ’سلفی تحریک‘ یا ’تحریک ِمجاہدین‘ کی کوئی شاخ نہ تھی مگر ان سے یقینا متاثر تھی۔ ان تحریکوں میں ایک گونہ مماثلت نظر آتی ہے۔ یہ تینوں دینی واصلاحی تحریکیں تھیں۔ تینوں نے شرک وبدعت کے استیصال کی پوری جدوجہد کی۔ خالص توحید کی تبلیغ کی۔ مسلمانوں میں اسلامی روح اجاگر کرنے کی کوشش کی، مگر مقامی حالات وکوائف کے لحاظ سے تینوں جدا گانہ خصوصیات کی حامل ضرور تھیں۔ ’فرائضی تحریک‘ ’محمدی تحریک‘ کے نام سے بھی موسوم ہوئی۔ یہ فی الحقیقت ایک دینی وذہنی انقلاب کی تحریک تھی۔ تحریک مجاہدین‘ دینی وذہنی انقلاب کی تحریک ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی وقومی آزادی کی ایک مسلح طاقت بھی تھی۔ ’فرائضی تحریک‘ بہ یک وقت اصلاح دین کی تحریک بھی تھی اور سماجی واقتصادی آزادی کی تحریک بھی۔ یہ بڑی حد تک کسانوں اور غریبوں کی تحریک تھی۔ گو،یہ تحریک بھی ملک کو دارالاسلام بنانا چاہتی تھی مگر اس کے پیچھے ’تحریک مجاہدین‘ کی سی کوئی مسلح طاقت نہ تھی۔ اتحاد ، یقین اور نظم ونسق ہی میں اس کی طاقت کا راز مخفی تھا۔
شریعت اللہ نے بدیسی حکومت کے خلاف صداے احتجاج بلند کر کے دم نہیں لیا بلکہ انھوں نے اپنے معاشرے کی اصلاح وتعمیر کے لیے بھی قدم اٹھایا ۔ ہندئووں اور دوسرے مذاہب کے لوگوں کے ساتھ مدت دراز تک رہنے سہنے اور ملنے جلنے کی وجہ سے مسلمانوں میں غیر اسلامی مراسم رواج پاگئے تھے۔ ان کے عقائد میں فتور آ گیا تھا۔ حاجی صاحب نے اس کے ازالے کے لیے پُر زور تبلیغ شروع کی۔ انھوں نے پیروں کے مزاروں پر نذریں ماننا ، شرینی بانٹنا ، محرم کا تعزیہ نکالنا ، ہندووانہ تقریبات میں شریک ہونا غیر اسلامی کام قرار دیا۔ پیری اور مریدی کی مروجہ رسم کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پیر اور مرید کے درمیان استاد اور شاگرد کا تعلق ہونا چاہیے۔ پیروں کو روحانیت کے سلسلہ وار رشتوں کے ادعا کرنے یا نسلاً بعد نسل سجادہ نشین ہونے کا حق حاصل نہیں۔ بیاہ شادی کی تقریبوں اور سماج کی دوسری رسموں میں اسراف کرنا بھی حاجی صاحب کو ایک آنکھ نہیں بھایا۔ وہ مسلمانوں کوہندو ساہو کاروں سے قرض لینے اور فضول خرچ کرنے سے باز رکھتے ۔ ان کی کوشش سے بہت سے لوگ مسلمان ہوئے ۔ بہت سے مکتب و مدرسے قائم ہوئے۔ قرآن اور حدیث کے تعلیمی ادارے کھو لے گئے۔
حاجی شریعت اللہ کا مقابلہ صرف مسلمانوں میں جڑ پکڑنے والے ہندوانہ رسوم ورواج کے خلاف نہ تھا، بلکہ ان کی چپقلش ستم کیش ہندو زمین داروں سے بھی تھی ۔ اس لیے کہ یہی لوگ انگریزی حکومت کے ایجنٹ اور اس کے پروردۂ نازو نعمت تھے۔ انیسویں صدی عیسوی کے شروع میں یہ لوگ حکومت کے سایۂ عاطفت میں بہت زیادہ اثرورسوخ رکھتے تھے۔ وہ عام مسلمانوں خاص کر غریب کسانوں کی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر ان پر طرح طرح کے مظالم توڑتے تھے۔ انھیں ہندو تقریبات میں شرکت کرنے پر مجبور کیا جاتا۔ ان کی داڑھی پر ٹیکس لگا یا جاتا۔ حاجی صاحب غیور اور جسور آدمی تھے۔ وہ ان بُری حرکتوں کو کب برداشت کر سکتے تھے۔ انھوں نے خاموش تماشائی کا کردار ادا نہیں کیا، بلکہ ان ملحدانہ دست اندازیوں کے خلاف دور رس مہم شروع کی۔ اگرچہ فرائضیوں کے ہاتھوں میں سید احمد شہید اور ان کے مجاہدین کی سی کوئی مسلح طاقت نہ تھی، تاہم انھوں نے اپنی پُرجوش تقریروں ، مناظروں اور اخلاقی قوت کے بل پر ہندو زمین داروں کو لرزہ براندام کر دیا۔ ان کی تبلیغ واشاعت سے سرزمینِ بنگال کے وسیع علاقے میں بیداری کی لہر دوڑ گئی۔
حاجی صاحب کے اثر ورسوخ اور ان کی اصلاحی تحریک کی کامیابی کے متعلق ان کے ہم عصر انگریز مصنف ڈاکٹر جیمس وائز نے اپنی کتاب Mohammadans of Eastern Bengal میں یوں اظہار خیال کیا: ’’بنگال کے مسلمانوں میں، ہندئووں کے شرک وکفر کی قربت میں طویل عرصہ گزارنے اور رہنے سہنے کی وجہ سے عقائد میں جو بنیادی خرابیاں پیدا ہو گئی تھیں، حاجی شریعت اللہ نے ان کے خلاف پہلے مبلغ کی حیثیت سے آواز بلند کی۔ اس لیے مسلم بنگال کی تاریخ میں ان کی بڑی ہی اہمیت ہے۔ بنگال کے بے شعو ر اور بے حس کسانوں میں سرگرمی اور بیداری کی لہر دوڑانے میں انھیں جو کامیابی ہوئی ہے وہ اور زیادہ حیرت انگیز کامیابی ہے۔ اس غیر معمولی کام کو انجام دینے کے لیے ان جیسے ، ایک مخلص اور ہمدرد مبلغ کی ضرورت تھی۔ لوگوں کے دل ودماغ پر اثر ڈالنے کی طاقت شریعت اللہ سے زیادہ اور کسی شخص میں نظر نہیں آتی۔
’فرائضی تحریک‘ ہندو زمین داروں کے اثر ورسوخ اور مالی مفادات پر کاری ضرب تھی۔ اس لیے وہ اس تحریک کے خلاف تُل گئے۔ انھوں نے فرائضیوں کے خلاف جھوٹے الزامات تراشے، جعلی مقدمات دائر کیے۔ صرف ہندو نہیں بلکہ مفادپرست پیروں ، مریدوں اور رواجی فقیروں کی جانب سے بھی انھیں خطرات وحوادث سے دو چار ہونا پڑا ۔ پیشہ ورانہ پیری مریدی کے خلاف حاجی صاحب نے آواز بلند کی تو خود غرض اور روایت پرست پیرو مرید ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ بہت سے بے شرع رواجی فقیر مختلف علاقوں میں بدعات میں مبتلا تھے۔ ان پر یہ اصلاحی تحریک شاق گزری تو وہ بھی حاجی صاحب اور ان کے رفقا کے خلاف زہر افشانیاں کرنے لگے۔ تاہم، فرائضی تحریک کے پیچھے روحانی برکت کار فرما تھی، جس سے وہ روز افزوں ترقی ہی کرتی گئی ۔
حاجی شریعت اللہ کے زمانے میں مولانا کرامت علی جونپوری کی ’اصلاحی تحریک‘ بھی زوروں پر تھی ۔ دراصل حاجی صاحب اور مولانا جونپوری صاحب میں بھی کوئی پرخاش نہ تھی ۔ دونوں کی تحریکیں مسلم معاشرے سے شرک وبدعت اور غیر اسلامی اثرات کے سدباب کرنے کا ایک ہمہ گیر پروگرام رکھتی تھیں۔ مگر جب حاجی صاحب نے اپنے وطن کے متعلق بیان دیا کہ: ’’یہ سرزمین انگریزی حکومت کے تحت آنے کے بعد ’دارالاسلام‘ نہیں رہی بلکہ اس کی حیثیت ’دارالحرب‘ کی سی ہو گئی ہے، اور یہاں نماز جمعہ اور نماز عید ادا کرنا جائز نہیں تو دونوں میں نااتفاقی پیدا ہو گئی ۔ مولانا جونپوری صاحب نے انگریزی حکومت کی موافقت میں یہ فتویٰ جاری کیا کہ یہ ملک ’دارالاسلام‘ نہ بھی ہو، تو ’دارالحرب‘ یقینا نہیں ہے۔ اس لیے کہ یہاں مسلمانوں کے مذہبی کاموں کی راہ میں حکومت کی جانب سے کوئی رکاوٹ مخل نہیں ہوتی۔ یہ ملک ’دارالامن‘ ہے۔ پھر حاجی صاحب کی جماعت پر ’خارجیوں کی جماعت ‘ ہونے کی تہمت لگائی، جو حددرجہ زیادتی اور ظلم تھا۔
شرک وبدعت کے خلاف جہاد کرنے والے، ظالم حکومت اور خوں خوار زمین داروں کے خلاف صداے احتجاج بلند کرنے والے، بنگالی مسلمانوں کو بیداری اور آزادی کا پیغام سنانے والے، ان کے سماجی واقتصادی حالات کے سدھارنے والے حاجی شریعت اللہ، ۱۸۴۰ء میں اپنے گائوں شمائل میں رحلت فرما گئے اور وہیں سپرد خاک ہوئے، اِنَّـا لِلہِ وَ اِنَّـا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ ۔ زمانے کی ستم ظریفی دیکھیے کہ اس نے ان کے مقبرے کو بھی صحیح سالم رہنے نہیں دیا ۔ عرصے کے بعد مقامی آڑیال خاں ندی اسے بہالے گئی ، جس سے وہ ہمیشہ کے لیے لاپتا ہو گیا ۔ حاجی صاحب مرحوم کا مکان ندی کی زد میں آنے کے بعد ان کے صاحبزادے دو دو میاں نے قریبی گائوں بہادر پور میں اپنا مکان بنا یا جہاں ابھی تک حاجی صاحب کا خاندان مقیم ہے۔ حاجی صاحب کے انتقال کے بعد ان کے لائق وفائق خلفا نے صحیح جانشینی کا ثبوت دیا۔ ان کے خلف الرشید دو دومیاں (انتقال ۱۸۶۰ء) اور ان کے محترم پوتے پیر باد شاہ میاں نے ’فرائضی تحریک‘ کو اور جلا بخشی ۔
آج عظیم شخصیت کے مالک حاجی شریعت اللہ ہم میں نہیں ہیں نہ ان کے نائب جناب دو دو میاں اور پیر باد شاہ میاں بھی ہمارے ساتھ نہیں ہیں، مگر مسلم معاشرے کی اصلاح وتعمیر کا جو آدرش انھوں نے چھوڑا ہے، وہ اس سرزمین پر بسنے والے اہلِ ایمان کے لیے مشعلِ راہ کا کام دے گا۔