ڈاکٹرمحی الدین غازی


شادی سے رشتے داری وجود میں آتی ہے۔ رشتے قائم کرنا، رشتے نباہنا، اور رشتہ نباہ نہ پانے کی صورت میں ختم کردینا، یہ سب زندگی کے بہت نازک مرحلے ہوتے ہیں۔ اگر زندگی گزارنے کے لیے مضبوط بنیادیں میسر نہ ہوں تو زبان پھسل جانے، قدم بہک جانے، بات بگڑجانے، زندگیاں برباد ہوجانے، اور سب سے بری بات یہ کہ پستی میں گرجانے کا ہروقت اندیشہ لگا رہتا ہے۔

اَزدواجی زندگی گزارنے کے لیے قرآن مجید دو بنیادیں عطا کرتا ہے۔ یہ دونوں کسی بھی چٹان سے زیادہ مضبوط بنیادیں ہیں۔ ان بنیادوں پر ازدواجی زندگی کی بنیاد اعتماد کے ساتھ رکھی جاسکتی ہے، اور ازدواجی زندگی کی عمارت کو اطمینان کے ساتھ بہت بلندی تک اٹھایا جاسکتا ہے۔ ایک بنیاد تقویٰ ہے اور دوسری بنیاد احسان ہے۔ یہ دونوں بنیادیں خوش گوار زندگی کی عمارت کے استحکام کی ضمانت ہیں۔ جس نے ان دونوں بنیادوں کو اپنی شخصیت کے لیے حاصل کرلیا، اسے تاحیات خوش رہنے اور خوشیاں بانٹنے کا حق حاصل ہوجاتا ہے۔

تقویٰ کا مطلب ہے، زندگی میں ہر کام کو انجام دیتے ہوئے اللہ کی ناراضی سے بچنے کی فکر کرتے رہنا، اور احسان کا مطلب ہے زندگی کے ہر کام کو اللہ کی مرضی کے شایان شان بہتر سے بہتر طریقے سے انجام دیتے رہنا۔ گویا زندگی عیب سے پاک ہوتی رہے تو تقویٰ ہے، اور زندگی خوبیوں سے مالا مال ہوتی رہے تو احسان ہے۔ تقویٰ زندگی کے پودے کو مرجھانے سے بچاتا ہے، اور احسان سے زندگی کے درخت میں پھول اور پھل آتے ہیں۔

بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ تقویٰ اور دین داری سے ازدواجی زندگی کی رنگینی اور اس کا رس جاتا رہتا ہے، زندگی خشک اور بے رنگ یا کم از کم سادہ رنگ اور بے لطف ہوجاتی ہے، زندگی کے رومان اور تقویٰ کی بندشوں میں کوئی یارانہ نہیں بلکہ پرانی دشمنی ہے۔ یہ سارے تصورات بالکل  غلط ہیں۔ تقویٰ تو محبت اور رومان کی حفاظت کرتا ہے۔ تقویٰ سے زندگی کے حسین رنگوں کی صحیح  دیکھ بھال ہوتی ہے، بلکہ یوں کہیں کہ احسان سے زندگی بے حد حسین اور بے حد خوش گوار ہوجاتی ہے، اور تقویٰ سے اس حسن اور اس خوش گواری کی سدا حفاظت ہوتی ہے۔

تقویٰ دل دکھانے سے روکتا ہے، احسان دل کو مسرور کردینے پر ابھارتا ہے۔ تقویٰ رشتوں کی بے حُرمتی کرنے سے روکتا ہے، احسان رشتوں کو لازوال بنانے کی فکر دیتا ہے۔ تقویٰ بدزبانی سے باز رکھتا ہے، احسان زبان کو شیرینی اور حلاوت کا سرچشمہ بنادیتا ہے۔ تقویٰ ہو تو رشتوں کو کوئی روگ نہیں لگتا، احسان ہو تو رشتے صحت مند اور توانا ہوجاتے ہیں۔

شادی کی تقریب تقویٰ اور احسان کے سایے میں انجام پائے تو تقریب کی خوشیاں دوبالا ہوجاتی ہیں۔ تقویٰ دل کو لالچ سے پاک کرتا ہے۔ جہیز کی طلب ہو یا دوسرے ناجائز مطالبات، تقویٰ ان تمام برائیوں سے بچالیتا ہے جو لالچ کے پیٹ سے جنم لیتی ہیں۔ احسان دل میں سخاوت اور فیاضی جگاتا ہے، اور وہ ساری خوبیاں پیدا کرتا ہے جو سخاوت اور فیاضی کے بطن سے جنم لیتی ہیں۔ بیوی کے گھر والوں سے کچھ نہ لے کر بیوی کے لیے اپنے گھر میں حسب استطاعت شایانِ شان رہنے سہنے کا انتظام کرنا احسان کا ایک حسین مظہر ہے۔ بہترین ازدواجی زندگی وہ ہوتی ہے جس میں خود غرضی کے بجاے جاں نثاری ہو۔ تقویٰ خود غرض نہیں بننے دیتا ہے، اور احسان سب کچھ نثار کرنے کے لیے تیار رکھتا ہے۔

تقویٰ ہر تقریب میں غیر اسلامی رسوم ورواج سے روکتا ہے، اور احسان ہر تقریب کو   اللہ کے رنگ میں رنگتے ہوئے عبادت کا حسن عطا کرتا ہے۔ جہاں تقویٰ اور احسان کی کارفرمائی ہو وہاں تقریبات عبادت کی طرح پاکیزہ ہوتی ہیں، اور جہاں تقویٰ اور احسان نہ ہوں وہاں عبادتیں غیر اسلامی رسومات سے آلودہ ہوجاتی ہیں۔

تقویٰ نمایش پسندی، اسراف اور فضول خرچی سے روکتا ہے، اور احسان غریب رشتے داروں اور ضرورت مند پڑوسیوں پر چپکے چپکے خرچ کرنے کا ظرف عطا کرتا ہے۔

تقویٰ اور احسان دونوں اگر شوہر اور بیوی میں جمع ہوجائیں تو اللہ کی رحمت دونوں پر  سایہ فگن ہوجاتی ہے۔ شوہر اور بیوی دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں کی ٹھنڈک بن جاتے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے پر سب کچھ لٹانے، ایک دوسرے کے لیے ہر تکلیف اور مشقت برداشت کرلینے اور ایک دوسرے سے کچھ نہیں مانگنے میں مقابلہ کرتے ہیں۔ دوسرے کے لطف کے لیے خود تکلیف برداشت کرلینا اور دوسرے کی تکلیف کا خیال کرکے اپنے لطف کو پس پشت ڈال دینا دونوں کا شیوہ ہوتا ہے۔ مفاد پرست معاشرے میں پرورش پانے والے خود غرض جوڑے ایثار وقربانی کے اس مقام کا تصور بھی نہیں کرسکتے جس مقام پر تقویٰ اور احسان شوہر اور بیوی کو پہنچادیتے ہیں۔

بیوی کے دل میں تقویٰ ہو اور شوہر معاشرے کی کسی بے سہارا خاتون سے نکاح کرنا چاہے، تو بیوی اس کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتی ہے اور نہ اس کے لیے مسائل ہی کھڑے کرتی ہے۔ بیوی کے دل میں احسان کا جذبہ موجزن ہو تو بیوی خود پیش قدمی کرتی ہے کہ معاشرے میں زوجیت کے سائبان سے محروم خاتون کو اپنے سائبان میں شریک کرلے۔ یہ بہت بھاری کام ہے لیکن احسان کا جذبہ اسے آسان بنادیتا ہے، اور اسی لیے احسان کا جذبہ رکھنے والے اللہ کو بہت پسند ہیں، کیونکہ وہ ایسے کام کرتے ہیں، جنھیں دیکھ کر زمین اور آسمان بھی حیران رہ جاتے ہیں:

  • تقویٰ شوہر کو دو بیویوں کے درمیان ظلم وناانصافی کرنے سے روکتا ہے، اور احسان شوہر کو دونوں بیویوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا سکون بنادیتا ہے۔
  • تقویٰ سوکنوں کو ایک دوسرے سے بغض وعداوت رکھنے اور ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کرنے سے روکتا ہے، احسان سوکنوں کو ایک دوسرے کا خیر خواہ اور ہمدرد بنادیتا ہے۔
  • تقویٰ سوتیلے بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے سے روکتا ہے، اور احسان سوتیلے بچوں پر سگے بچوں سے زیادہ مہربان ہوجانے والا بنادیتا ہے۔
  • تقویٰ ساس بہو اور نند بھاوج جیسے سارے ہی رشتہ داروں کو آپس میں لڑنے جھگڑنے اور نفرت بانٹنے سے روکتا ہے، احسان رشتے داروں کو ایک دوسرے کا غم خوار اور ایک دوسرے پر جان چھڑکنے والا بنادیتا ہے۔
  •      تقویٰ ان رخنوں کو بند کرتا ہے جہاں سے نفرت اور دشمنی کا گندا پانی گھر کے آنگن میں آنے لگتا ہے، اور احسان گھر کے آنگن میں محبت کی حیات افروز نہریں جاری کرتا ہے اور ایثار وہمدردی کے زندگی بخش پودے لگاتا ہے۔

اسلام میں طلاق کا نظام بھی رکھا گیا، لیکن اس سے پہلے ازدواجی زندگی کو بہت مضبوط اور پایدار بنادیا گیا ہے۔ اسلامی زندگی جس قدر مضبوط اور مستحکم ہوتی ہے، کوئی اور زندگی نہیں ہوسکتی۔ جو اسلام کے مطابق ازدواجی زندگی نہیں گزارتا ہے، وہ اسلامی طریقے سے طلاق دینے کے قابل بھی نہیں رہتا ہے۔

قرآن مجید ازدواجی زندگی کی عمارت تقویٰ اور احسان کی بنیادوں پر اٹھانے کی تعلیم دیتا ہے، پھر اگر اس مضبوط رشتے کو ختم کرنا ہی قرین مصلحت ہو تو ختم کرنے کے لیے بھی تقویٰ اور احسان کا راستہ اختیار کرنے کی تاکید کرتا ہے۔ تقویٰ اور احسان کے سایے میں جو تفریق اور   جدائی عمل میں آتی ہے، وہ بھی اپنے آپ میں حسین وجمیل ہوتی ہے۔ اس میں کسی کے ساتھ حق تلفی  اور زیادتی نہیں ہوتی، کوئی خود غرضی اور تنگ دلی کا مظاہرہ نہیں کرتا ہے، بلکہ اس وقت بھی  سخاوت وشرافت کا دور دورہ ہوتا ہے۔

تقویٰ بلا وجہ طلاق دینے سے روکتا ہے، احسان وجہ ہونے پر بھی جہاں تک ہوسکے ساتھ نباہنے کے لیے آمادہ کرتا ہے۔ تقویٰ روکتا ہے کہ طلاق کے بعد بیوی کو دی ہوئی چیزیں واپس نہ لی جائیں، احسان ابھارتا ہے کہ طلاق شدہ بیوی کو اپنی استطاعت سے بھی بہت آگے بڑھ کر نوازشوں کی بارش کے ساتھ رخصت کیا جائے۔ تقویٰ کی کیفیت ہو تو اس پر جھگڑا نہیں ہوتا کہ بچہ کس کے پاس رہے، اور اس کا خرچ کون اٹھائے؟ احسان کی کیفیت ہوتی ہے تو دونوں فکرمند ہوتے ہیں کہ طلاق کے باوجود بچے کی بہترین نشوونما کا انتظام کیسے کیا جائے؟

تقویٰ اور احسان سے گھریلو زندگی اس قدر خوش حال، خوش گوار، خوش مزاج اور خوش لطف ہوجاتی ہے کہ جیسے اللہ دنیا ہی میں جنت والی زندگی کے تجربے سے گزار رہا ہو۔تقویٰ اور احسان سے زندگی کی عمارت بہت بلند ہوجاتی ہے، اور عمارت حد درجہ حسین ہوجاتی ہے۔بے شک    خوش نصیب ہے وہ جسے تقویٰ اور احسان والی ازدواجی زندگی گزارنے کی توفیق مل جائے۔ بے شک ملامت کے لائق نہیں ہوتا ہے وہ جو ضروری ہوجانے پر تقویٰ اور احسان کے سایے میں رشتہ ختم کرے:

وَ اِنِ امْرَاَۃٌ خَافَتْ مِنْم بَعْلِھَا نُشُوْزًا اَوْ اِعْرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْھِمَآ اَنْ یُّصْلِحَا بَیْنَھُمَا صُلْحًا ط وَ الصُّلْحُ خَیْرٌ ط وَ اُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ الشُّحَّ ط وَ اِنْ تُحْسِنُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًاO (النساء۴:۱۲۸) اور اگر کسی عورت کو لگے کہ اس کا شوہر اس سے منھ موڑ رہا ہے، یا ازدواجی زندگی کو خطرے میں ڈال رہا ہے، تو بہت اچھا ہوگا کہ دونوں صلح کا راستہ اختیار کریں۔ صلح سراپا خیر ہے۔ دیکھو خود غرضی طبیعتوں میں رچی بسی ہوئی ہے، اس سے لا پروا مت ہوجاؤ، اور اگر تم احسان اور تقویٰ کی روش اختیار کرو گے تو یہ بہت بہتر ہوگا۔ تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔