ملک خدا بخش بُچہ


عزیزانِ من !زندگی آپ کا پہلا امتحان معاش کے میدان میں لے گی۔ جب تک انسان کے ساتھ پیٹ لگا ہے، روٹی اس کی زندگی کا ایک بنیادی مسئلہ ہے۔ اگرچہ انسان شکم کی پکار کے ساتھ اس دنیا میں آتا ہے، تا ہم ایک اچھی خاصی مدت تک اسے اس بارے میں ترد د نہیں کرنا پڑتا۔ ہمارا تعلیمی نظام اور اقتصادی ڈھانچا کچھ اس قسم کا ہے کہ تعلیم کے ساتھ ساتھ حصول معاش کے مواقع بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ والدین کی بھی یہی کوشش ہوتی ہے کہ دوران تعلیم اپنی اولاد کو فکر معاش سے دُور ہی رکھیں، تا کہ وہ دلجمعی کے ساتھ اپنی تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھ سکیں۔ لیکن دوران تعلیم نہ سہی تکمیل تعلیم کے بعد سہی، بالآخر تلاشِ معاش کے میدان میں اترنا پڑتا ہے۔

۱- حصول معاش کے ضمن میں پہلا مرحلہ ذریعۂ معاش کا انتخاب ہے۔ جس کے لیے  آپ کو زمانے کے تقاضوں، معاشرتی ضرورتوں، اپنی تعلیم وتربیت اور اپنی ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کو سامنے رکھ کر کسی فیصلے پر پہنچنا ہوگا۔ میں دعا کرتا ہوں کہ کسی صحیح فیصلے پر پہنچنے میں اللہ تعالیٰ   آپ کی رہنمائی کرے اور آپ کا یہ فیصلہ صرف آپ کے لیے ہی نہیں بلکہ ملک وملت کے لیے بھی مفید ثابت ہو۔ بد قسمتی سے میکالے [م: ۱۸۵۹ء] کے جس نظریے کے تحت مغربی تعلیم، ہمارے نظامِ تعلیم میں ایک خالص سیاسی اور معاشی مسئلے کی حیثیت سے داخل ہوئی تھی، اس سے آج تک مکمل طور پر گلو خلاصی نہیں ہوسکی۔ اچھے خاصے کھاتے پیتے گھرانوں میں بھی سرکاری ملازمت ہی کو تعلیم کا مقصود خیال کیا جاتا ہے۔ یہ اندازِ فکر جتنی جلدی ختم ہوا تنا ہی بہتر ہو گا۔

۲- ذریعۂ معاش منتخب کر لینے کے بعد اس راہ میں اپنی صلاحیتوں اور توانائیوں کو کھپا کر روزی کمانے کا مرحلہ آتا ہے۔ روزی کمانے کے بارے میں ہماری معاشی روایات دنیا بھر کی معاشی روایات سے یکسر مختلف ہیں۔ دنیامیں ہر کہیں روزی پیدا کرنے کے معاملے میں چند اخلاقی اقدار کا لحاظ تو رکھا جاتا ہے، لیکن علاوہ ازیں اسے ایک خالص سیکولر کاروبار (secular pursuit) ہی خیال کیا جاتا ہے، جب کہ ہمارے نزدیک رزق حلا ل کے لیے جدوجہد عبادت کا درجہ رکھتی ہے، بلکہ بقول اقبال ورومی اس سے علم وحکمت کا سراغ ملتا ہے :

علم وحکمت زاید از  نانِ حلال

عشق و رِقّت آید از نانِ حلال

اسی معنویت اور مفہوم کا ایک قول بائبل میں بھی ملتا ہے اور وہ یہ ہے کہ: ’’ خوراک وپوشاک حاصل کرو اور تمھیں انعام میں آسمان کی باد شاہت بھی عطا کی جائے گی‘‘۔ لہٰذا، خوراک وپو شاک حاصل کرنے کے لیے ہمیں ایسا ہی طریقہ اپنانا چاہیے، جس کے انعام اور صلے میں آسمان کی بادشاہت بھی مل سکے۔ قرآن حکیم میں بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حالات کے بیان میں یہ ذکر ملتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی ایک ضرورتِ زندگی کو پورا کرنے کے لیے آگ کی تلاش میں نکلے تھے ۔ لیکن سامانِ زندگی کی اس تلاش میں وہ تجلیِ خدا اور نورِ وحی سے فیض یاب ہو کر واپس لوٹے اور انھیں یہ سبق ملا کہ سامانِ زندگی معاش تک محدود نہیں۔ اس لیے عزیز انِ من ! ضروریاتِ زندگی کی تلاش کو بھی اللہ تعالیٰ کی تلاش کا ایک وسیلہ بنا لیجیے۔ ’’جان لا غر وتن فربہ ‘‘ صحت مند زندگی کی علامت نہیں ہے۔ اس لیے معاش کی تلاش میں جسم کی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ روح کی ضرورت پوری کرنے کی بھی فکر کیجیے اور اس دو مقصدی تلاش کی راہ پر پوری ثابت قدمی اور استقامت سے قائم رہیے۔

۳- ’آسان روزی ‘ (easy money)کا فلسفہ چوںکہ آج کل کچھ زیادہ ہی کشش رکھتا ہے اور مقبول ہے، اس لیے میں آپ کو خبر دار کرنا چاہتا ہوں کہ اس میں یقین رکھنے والوں کی بے اعتدالیوں اور بے احتیاطیوں کو دیکھ کر کہیں آپ کے قدم ڈگمگا نہ جائیں۔ یاد رکھیے، جو لطف وکیفیت اپنی ہڈیوں کا گودا پگھلا کر رزق حاصل کرنے میں ہے، وہ دوسروں کے حقوق کا خون کرکے   خوان یغما پانے میں نہیں۔ ایک جنت وہ تھی جو حضرت آدم ؑ کو انعام کے طور پر عطا کی گئی تھی مگر وہ  جلدہی ان سے چھن گئی۔ اور ایک جنت وہ بھی ہے جو انسان کو اعمالِ حسنہ کے بدلے میں عطا کی جائے گی اور اس کے بارے میں خود اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ انسان کے قبضے میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رہے گی۔

۴- یہ سچ ہے کہ اس دو مقصدی تلاش معاش میں آپ کو اپنے کم تر مقصد میں کچھ ناکامیاں بھی ہوں گی۔ یعنی سامان شکم مہیا کرنے کی دوڑ میں بعض اوقات آپ دوسروں سے پیچھے رہ جائیں گے، لیکن اعلیٰ تر مقصد ہمیشہ آپ کی پشت پناہی کرے گا اور آ پ کو کسی محرومی کا احساس نہیں ہونے پائے گا۔ اگر آپ اپنی ’روح کو خوابیدہ‘ اور ’بدن کو بیدار‘ رکھنا چاہتے ہیں تو الگ بات ہے ۔ ورنہ زندگی کے ہزار ہا پہلو ایسے ہیں کہ جن پر توجہ کر کے انسان اپنی محرومیوں کا بڑی حد تک مداوا کرسکتا ہے۔ ہیلن کیلر [م: ۱۹۶۸ء] جیسی اندھی ، بہری اور گونگی عورت بھی اپنے من میں ڈوب کر سراغِ زندگی پا لیتی ہے۔ ایک جگہ اس نے لکھا ہے کہ: ’’یہ مسرت بخش یقین واعتماد کہ میری طبعی رکاوٹیں میرے وجود کا لازمی جزو نہیں ہیں۔ وہ میرے جسم کے روگ سہی لیکن میرے من کا روگ نہیں بن سکتیں اور رنگ وآہنگ کی آواز سے یکسر خالی دنیا میں رہتے ہوئے میرا تجربہ بہت محدود سہی، لیکن میں نے یہ عرفان حاصل کر لیا ہے کہ میرا من مسرت کا ایک ایسا مثبت ذریعہ ہے، جو تاریکیوں اور خاموشیوں کے اتھاہ سمندر میں بھی نوروارتعاش سے لبریز تصورات کی بدولت مسرتیں اور خوشیاں نچوڑ سکتا ہے۔ میں نے زندگی سے یہ سبق سیکھا ہے کہ خواہ ہمیں خارجی دنیا میںکسی بڑی سے بڑی مصیبت کا سامنا ہی کیوں نہ ہو، ہم پھر بھی نور ، آواز اور نظم کو خود اپنے من کی دنیا کے اندر بھی تخلیق کرسکتے ہیں ‘‘ ۔

۵- اکثر نوجوان تلاش معاش کے ضمن میں اپنی ناکامیوں اور محرومیوں سے بہت جلد گھبرا کر دل شکستہ ہو جاتے ہیں اور زندگی کی اعلیٰ قدروں پر ایمان ہی کھو بیٹھتے ہیں۔ وہ اپنے معاشرے، اپنی قوم اور اپنے ملک ہی سے بدگمان اور متنفر ہو جاتے ہیں۔ اس بدگمانی اور تنفُّر[نفرت] کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آدمی خود غرض بن جاتا ہے۔ زندگی کی اعلیٰ قدروں پر ایمان بھی نہ ہو اور ساتھ ہی ساتھ انسان خود غرض بھی ہو تو وہ اپنے معاشرے کے جسم پر ایک ایسا سرطانی پھوڑا بن جاتا ہے جس کی جڑیں معاشرے کے اندر دُور دُور تک پھیلتی ہی چلی جاتی ہیں۔ اس کا علاج یہ ہے کہ    اعلیٰ انسانی قدروں میں یقین پختہ کیا جائے اور مایوسی اور بدگمانی سے بچا جائے۔ لوگوں سے مایوس اور بدگمان ہونے کے بجاے ان کی کمزوریوں اور خرابیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ان سے محبت کرنا سیکھیے ۔ یاد رکھیے کہ شفقت اور محبت میں بڑی طاقت ہے۔ اس سے ہماری مایوسیوں اور بدگمانیوں کا علاج ہی نہیں ہوتا بلکہ زندگی کی بہت سی مشکلات اور دشواریاں خود بخود ختم ہو جاتی ہیں۔

۶- ہم میں سے بہت سے لوگ اپنی جائز حدود سے زیادہ پھیلنے کے خواہشمند رہتے ہیں۔ لیکن روز افزوں آبادی کے اس گنجان ہجوم میں بر گد کے درخت کی مانند دور دور تک اپنے مہیب سایے پھیلا کر اپنے آس پاس کسی اور شجر کو بڑھنے پھولنے سے روکنا کبھی اچھے نتائج پیدا نہیں کرسکتا۔ انسانوں کی اس گنجان آبادی میں برگد کی طرح پھیلنے کے بجاے ہمیشہ سروکی مانند بلندیوں کی طرح بڑھنے کی فکر کرنی چاہیے۔ اور اپنے علاوہ دوسروں کو بھی بڑھنے پھولنے دیجیے ، اور یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے، جب کہ ہم مادی قدروں سے زیادہ ربّانی قدروں سے محبت رکھتے ہوں۔

۷- علامہ محمد اقبال نے ایک جگہ نہر کی ہمکناریِ خاک کے باعث،سست روی کو ناخوب اور ناپسند یدہ قرار دیتے ہوئے فوارے کی طرف توجہ دلائی ہے اور کہا ہے کہ ’بلند زورِ دُروں سے ہوا ہے فوارہ ‘ لیکن اگر کسی سے یہ پوچھا جائے کہ فوارے میں ’زورِ دروں ‘ کہاں سے آ گیا، تو اس کا جواب اس کے سوا کچھ نہیں کہ اس کا منبع آب بلندی پر واقع ہے۔ لہٰذا زندگی میں نصب العین کی بلندی بہت اہمیت رکھتی ہے۔

۸- یاد رکھیے کہ زندگی کے راستے پر چلنے کے لیے بھی ٹریفک کے چند اصول ہیں۔ جادۂ زندگی پر سفر کرتے وقت ٹریفک کے یہ آداب اور یہ اصول ہمیشہ پیش نظر رہنے چاہییں۔ اپنے علاوہ دوسروں کا بھی احترام کرنا سیکھیے۔ ہم عام طور پر اپنی روشِ زندگی میں بالعموم ان آداب کو پیش نظر نہیں رکھتے اور حادثات سے دوچار ہوتے رہتے ہیں۔ حالانکہ اپنا راستہ دوسروں سے ٹکرائے بغیر بھی بنایا جا سکتا ہے۔ میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ جب آپ کسی پُر رونق بازار کی بھیڑ سے گزر رہے ہوتے ہیں، تو کیا کرتے ہیں ؟ یہی نا کہ دوسروں سے بچتے بچاتے اپنا راستہ بناتے چلے جاتے ہیں۔ اس میں آپ کو محض ٹریفک کے چند قوانین کا ہی پا بند نہیں ہونا پڑتا بلکہ دوسرے لوگوں کی غلطیوں اور بے صبر جلدکوشوں سے بچنے کے لیے صبرو تحمل سے کام لے کر اپنی رفتار کو سست بھی کرنا پڑتا ہے۔

۹- صبرکے ذکر سے میرا ذہن ایک اور بات کی طرف پلٹ گیا ہے۔ اگلے وقتوں میں کسی مرنے والے کو خراج تحسین پیش کرتے وقت ایک جملہ جو اکثر زبانوں پر آیا کرتا تھا وہ یہ تھا کہ: ’مرنے والے نے صبر وشکر کے ساتھ زندگی بسر کی‘، مگر آج کل یہ الفاظ ذرا کم ہی سننے میں آتے ہیں اور اگر کہیں سننے کا اتفاق بھی ہوتا ہے تو بہت مختلف معنوں میں۔ اب صبر نام ہے مجبوریِ محض کا،   اور شکر کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کی داد بخشش دینے کا۔ حالانکہ یہ ایک رویۂ زندگی کا نام تھا جس میں  آفات و مشکلات کو خاطر میں لائے بغیر اور اپنی بڑی سے بڑی کامیابی پر اکڑ فوں میں مبتلا ہوئے بغیر اپنے مقامِ عبدیت کو مستحکم بنانے کی کوشش کی جاتی تھی۔ استقامت ومتانت کی یہ منزل صرف انھی خوش نصیبوں کو ملا کرتی ہے جو اپنی زندگی میں اپنے جذباتی اور عقلی رویوں کا صحیح مقام متعین کرکے کسی اعلیٰ نصب العین کے لیے جان کھپانا جانتے ہوں۔ صبر و شکر کا فلسفہ انسان میں قناعت، ہمت، پامردی، قوت، متانت اور استقامت کے اوصاف پیدا کر کے اس کی زندگی پُرمعنی بناتا ہے، لیکن آج ہم نہ صبر کی تاب رکھتے ہیں اور نہ شکر کے آداب جانتے ہیں ۔کچھ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ  ہم نے زندگی کی توانائی کھو د دی ہے۔

۱۰- آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ علم کی ترقی کے ساتھ ساتھ ہم میں زندگی کی توانائی روز بروز کم ہوتی جا رہی ہے۔ علم کے لیے بالعموم مشعل ، شمع یا چراغ کی تمثیل استعمال کی جاتی ہے، جس سے نور اور روشنی کا تصور ملتا ہے۔ لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جس طرح شعلے کی روشنی سے حرارت کو جدا نہیں کیا جا سکتا ، اسی طرح علم بھی اگر زندگی کی حرارت سے محروم ہو جائے، تو اس کا نور بھی تاریکیوں میں تحلیل ہوجاتا ہے۔ علم میں حرارت ،ایمان سے پیدا ہوتی ہے ۔ اور جیسا کہ انگریز شاعر ولیم بلیک [م:۱۸۲۷ء] نے کہا ہے کہ ’اگر کہیں چاند اور سورج بھی شک میں مبتلا ہو کر ایمان کھو بیٹھیں تو فوراً بجھ کر تاریکیوں میں تبدیل ہو جائیں ‘۔ آپ کے لیے آپ کا علم نا کافی ہی نہیں بلکہ سراسر وبالِ جان ہے اگر یہ آپ کے باطن میں ایمان کی حرارت نہیں پیدا کر سکتا ۔ انسان بننے کے لیے علم ضروری ہے ۔ لیکن اس کے ظلمت کدۂ خاک میں علم کی ایسی قندیل روشن کرنے کی ضرورت ہے جو اس کے دماغ کو منور کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے دل کو بھی گرم رکھ سکے۔ علم کی آخری منزل دماغ نہیں بلکہ دل ہے۔ بقول اقبال:

گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نُور

چراغِ راہ ہے ، منزل نہیں ہے

اور یہ بھی کہ:

یا مُردہ ہے یا نزع کی حالت میں گرفتار

جو فلسفہ لکھا نہ گیا خونِ جگر سے

۱۱- علم اور تعلیم کے بارے میں اگرچہ سوچنے اور لکھنے والے حضرات و خواتین نے مختلف طریق سے سوچا اور مختلف پیرایوں میں اسے پیش کیا، لیکن ایک بات پر شاید سبھی لوگ متفق نظر آتے ہیں کہ: ’تعلیم کا مقصد انسان کی مخفی اور خوابیدہ صلاحیتوں اور قوتوں کو بیدار اور اُجاگر کر کے آپ کی شخصیت کو نشوو نما دینا ہے، اور آپ میں سودو زیاں اور خیر وشر کی تمیز کی ایسی اہلیت پیدا کرنا ہے،  جس سے آپ اپنی منزل مقصود کے لیے راہیں متعین کر سکیں‘۔ اسی بات کو بعض لوگ یوں بیان کرتے ہیں کہ: ’تعلیم انسانی صلاحیتوں اور استعدادوں کی اس نشو ونما اور ارتقا کا نام ہے، جس کی بدولت ہمارے اخلاقی رویے اور معاشرتی طرزِ عمل صحت واستدلال کے ساتھ طے پاتے ہیں‘۔ اب بہت سے لوگ انسانی شخصیت کی نشوو نما اورترقی کے لیے ایمان کو بنیادی ضرورت خیال نہیں کرتے اور ’بے ایمان ‘ علم کو ہی کافی سمجھ لیتے ہیں۔ کہا یہ جاتا ہے کہ: ’سائنس اور فلسفے میں بالخصوص اور دوسرے علوم میں بالعموم عقیدہ (dogma ) نہیں چل سکتا ۔ اگر اسے اس میدان میں لایا جائے گا   تو علم کی ساری ترقی رُک جائے گی‘۔

میں یہاں بحث میں نہیں اُلجھنا چاہتا، ور نہ آپ کو بتاتا کہ ہر علم اور ہر سائنس بالآخر کسی نہ کسی عقیدے کا سہارا لینے پر مجبور ہے۔ بہرحال یہ ضرور عرض کروں گاکہ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ لیبارٹری میں داخل ہونے سے پہلے خدا کا عقیدہ کوٹ کی طرح اتار کر کھونٹی پر لٹکا دینا ضروری ہے، وہ درحقیقت ہمارے اندر ایک ایسی داخلی کش مکش کو جنم دینا چاہتے ہیں، جس سے ہماری شخصیت کی ترقی رُک جاتی ہے اور ہم کفرو الحاد کی راہ پر چل نکلتے ہیں۔ سائنس اور ٹکنالوجی کے علوم انسان کو بے پناہ طبعی قوت تو فراہم کر دیتے ہیں، لیکن جب علوم وفنون ایمان کے تابع نہیں رہتے تو سراسر شیطنت کے ساتھ انسان اور انسانیت کو تباہی کے ہولناک ہتھیاروں کا سامان مہیا کرتے ہیں۔  اس سے بڑھ کر نامرادیِ آدم اور کیا ہو سکتی ہے؟ اسی نامرادیِ آدم کا ذکر کرتے ہوئے اقبال نے کہا ہے:

ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزر گاہوں کا

اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا

جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا

زندگی کی شبِ تاریک سحر کر نہ سکا

۱۲- انسان کے لیے وہی علم مفید ثابت ہو سکتا ہے، جو زندگی کے تمام تقاضوں پر پورا اُتر سکے۔ ظاہر ہے کہ ایمان ، اعتقاد اور آئیڈیالوجی کا مسئلہ ہماری زندگی کا بنیادی مسئلہ ہے۔ عقل کی آزادی اچھی چیز سہی لیکن خیالات کا بے ربط وبے لگام ہو جانا یقینا کوئی اچھی بات نہیں ہے ۔  ہم مسلمانوں میں لادینیِ افکار، بے ربطیِ افکار سے پیدا ہوئی ہے، سائنس کی راہ سے نہیں آئی۔ بلکہ فرانسیسی معالج و مفکر رابرٹ ایس بریفالٹ [م: ۱۹۴۸ء] تو یہاں تک کہتا ہے کہ: ’سائنس اپنی ہستی اور وجود کے لیے قرآن کی مرہونِ منت ہے‘۔ وہ نزولِ قرآن سے پہلے کے زمانے کو قبل سائنس کا زمانہ اور قرآن کے بعد کا دور سائنس کا زما نہ قرار دیتا ہے۔ تاریخی واقعات کو بھی آیات الٰہی قرار دیتا ہے اور خود اپنے جملوں اور فقروں کو بھی آیات الٰہی قرار دیتا ہے، تو قرآن اور سائنس میں مغائرت کہاں سے پیدا ہو گئی؟

کیا ابھی اس کا وقت نہیں آیا کہ ہم اپنے فکر ونظر کے پرانے انداز بدل ڈالیں ؟ دنیا کے سب سائنس دان اور علما وفضلا اپنی تمام علمی جستجوئوں اور کاوشوں کا نصب العین اور منتہاے مقصود، حقیقت کی تلاش قرار دیتے ہیں۔ ہمارے نزدیک اوّل وآخر، ظاہر وباطن حقیقت ، اللہ کی ذات ہے، چنانچہ اپنے سائنس دانوں اور عالم وفاضل اساتذہ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا ہم اپنے علوم کو خدایابی کا ذریعہ نہیں بنا سکے ؟ ہمارے طریقۂ تعلیم میں اس خلا کی وجہ سے ہمارے علوم میں ایک بہت بڑی کمی محسوس ہوتی ہے، جسے اقبال کم بصری کا نام دیتا ہے:

وہ علم ، کم بصری جس میں ہم کنار نہیں

تجلّیات کلیم و مشاہداتِ حکیم

ہماری علمی کاوشوں میں مشاہداتِ حکیم تو ملتے ہیں لیکن تجلیاتِ کلیم مفقود ہیں۔

۱۳- یہاں علم کے بارے میں ایک بات کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں اپنی درس گاہوں سے جو علم حاصل ہوتا ہے وہ قرض حسنہ کے طور پر ملتا ہے اور اسے چکانا ہی نیک روی کی دلیل ہے ۔ علم تن کی دولت تو ہے نہیں کہ آپ اسے چھپا چھپا کر تجوریوں میں رکھیں ۔ یہ تو من کی دولت ہے، جسے آپ جتنا بھی لٹائیں اتنا ہی آپ کے لیے اور آپ کے ملک وملت کے لیے مفید ہے۔

۱۴- امریکی صدر وڈرو  ولسن [م: ۱۹۲۴ء] نے ایک بار نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ: ’آپ مجھے اپنی ڈگریاں اور ڈپلومے دکھلا کر اس بات کا قائل نہیں کر سکتے کہ  آپ تعلیم یافتہ ہیں۔ کیوںکہ اس کا ثبوت تو آپ کے ذہنی اُفق کی وسعتوں ہی سے مل سکتا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ جو علوم ہمیں پڑھائے جاتے ہیں ان کی سرحدیں ’خبر ‘ تک ہی محدود رہتی ہیں‘۔ اقبال نے غایت آدم کے بارے میں پیررومی [م: ۱۲۷۳ء] سے پوچھا تھا۔ غایت آدم ، خبر یا نظر؟  جس کے جواب میں پیر رومی نے فرمایا تھا :

آدمی دید است ، باقی پوست است

دید آں باشد کہ دیدِ دوست است

حواس کی فراہم کردہ ’خبر ‘ کی اہمیت سے انکار نہیں لیکن اس ’خبر ‘ پر ہی مطمئن ہو کر بیٹھ رہنا بھی علم کے منافی ہے۔ بصارت کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ اس کی عطا کردہ خبر ہم میں ایسی بصیرت پیدا کر دے جو ہمیں اشیا کی اندرونی حقیقت کا نظارہ کرائے ۔ سماعت کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ اس کی عطا کردہ خبر ہمیں ساز حقیقت سنائے، بقول اقبال   ع

علمِ حق اوّل حواس ، آخر حضور

اگر یہ سارے علوم جنھیں ہم زندگی کے اتنے سال صرف کر کے سیکھتے ہیں، ہمارے اندر بصیرت اور لذتِ حضوری نہیں پیدا کر پاتے تو ہماری شخصیت کا جزو نہیں بن سکتے، بلکہ محض ایک لبادے کی حیثیت رکھتے ہیں مگر اب تو ہم لبادے کو ہی سب کچھ سمجھے بیٹھے ہیں۔ اور جس زمانے سے ہمارا ذوقِ علمی افرنگ کے حواسی علوم کی ’خبریت ‘ سے سیراب ہونا شروع ہوا ہے، ہماری جبینیں سجدوں کی لذت سے نا آشنا ہو گئی ہیں۔ اور ’لباس مجاز ‘ میں ’حقیقتِ منتظر‘ کو دیکھنے کی ہماری روحوں کو آرزو نہیں رہی ہے۔ ہماری زندگیوں پر اب ’رنگ مجاز ‘ اتنا گہرا چڑھ گیا ہے کہ ہمیں علم کی آخری منزل بھی کوٹ اور پتلون نظر آتی ہے۔

عزیزانِ محترم ! قومی آزادی کی کئی منزلیں ہیں۔ آزادی کی سیاسی منزل پر تو ہم پہنچ گئے ہیں۔ اقتصادی جدوجہد کی راہ میں بھی ہم بہت سی مسافتیں طے کر چکے ہیں، مگر ہمارے تہذیب وتمدن پر یہ غیر ملکی چھاپ کب دُور ہو گی ؟ جس دن ہم نے اپنے کھوئے ہوئے تمدنی اور ثقافتی ورثے کو دوبارہ پا لیا، تو سمجھ لیجیے کہ ہم نے تمام مرحلہ ہاے آزادی طے کر لیے، اور مجھے اُمید ہے کہ اسی روز اسلام کی نشاتِ ثانیہ کا وہ دور شروع ہو جائے گا، جس کے لیے پاکستان معرض وجود میں آیا تھا اور جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے پاکستان کی حفاظت کی ہے۔ یہاں ذہن میں بار بار یہ خیال ابھرتا ہے کہ جہاں ہماری بری افواج زمینی سرحدوں کی حفاظت کرتی ہیں ،فضائی افواج ملک کی فضائی سرحد کی حفاظت کرتی ہیں اور بحری افواج بحری سرحدوں کا دفاع کرتی ہیں، کسان زرعی محاذ پر کارنامے انجام دیتے ہیں، لیکن کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ ہمارے تمدن وثقافت کی حفاظت کس کے ذمے ہے ؟ اور کیا اس محاذ پر ہمارے دفاعی انتظامات کافی ہیں ؟

۱۵-  اگلے وقتوں میں ہماری تہذیب وثقافت، خانقاہی نظام کے روحانی سرچشموں سے سیراب ہوا کرتی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ زندگی میں اوقاتِ فرصت میسر آنے کے زیادہ مواقع حاصل تھے، جن کی وجہ سے مطالعہ باطن کے لیے کافی وقت مل جاتا تھا۔ دورِ حاضر میں زندگی کی مصروفیات کچھ اتنی بڑھ گئی ہیں کہ انسان کوشش بھی کرے تو اسے اپنی باطنی واردات پر توجہ دینے اور ان کا مطالعہ کرنے کا وقت کم ہی ملتا ہے۔ البتہ قرآن حکیم کے اس حکیمانہ قول کی روشنی میں کہ اللہ تعالیٰ، انفس و آفاق میں ہر کہیں انسان کو دعوتِ نظارہ دیتا ہے اس کمی کو ایک دوسری طرح یوں پورا کیا جاسکتا ہے کہ ہم اپنے آپ کو مظاہرات آفاق کے مطالعے میں آیاتِ الٰہی کے مشاہدات کا عادی بنائیں، اور یہ ایک ایسی پُرتجسس علمی وسائنسی تحریک کے ذریعے ہی ممکن ہے، جس کا منتہاے مقصود خدا شناسی ہو۔ چنانچہ میں آپ سے اور بالخصوص فاضل اساتذہ سے پوری دلِ سوزی کے ساتھ اپیل کرتا ہوں کہ آپ اس تحریک کا آغاز کریں ، دنیا اس کا پُرجوش خیرمقدم کرے گی :

ہر اک منتظر تیری یلغار کا

تری شوخیِ فکر و کردار کا