مزمل عبد اللہ


شام ڈھلتے ہی مَیں باغ سے جلدی جلدی گھر کی جانب روانہ ہوا۔ مغرب کی نماز ادا کرنے کے بعد جب میں گھر کی طرف مڑا تو گو لی چلنے کی آواز آئی۔ میں گھر کی طرف بھاگا اور سب سے پہلے اپنے گھر کے بیرونی دروازے کو کنڈی لگائی۔ ابھی میں گھر کے اندر داخل ہونے ہی والا تھا کہ ماں نے آواز دی:’’ بیٹا! گیٹ کو کھلا ہی چھوڑ دو کیوںکہ تمھارا چھوٹا بھائی میرے لیے دوائی لینے گیا ہے، وہ ابھی گھر نہیں آیا ہے‘‘۔میں نے واپسی کی راہ لی اور گیٹ کی کنڈی کھول دی۔

اسی دوران میں نے دیکھا کہ میرا ہمسایہ ہمارے گھر کی طرف دوڑتا چلا آرہا تھا اور چلّا کر مجھ سے کہنے لگا کہ: ’’میں نے سنا ہے کہ آپ کا چھوٹا بھائی فائرنگ میں زخمی ہوگیا ہے‘‘۔ یہ سن کر میرے پائوں تلے سے زمین نکل گئی، لیکن میں نے بھاگ کر اپنے ہمسایے کی طرف پہنچ کر کہا کہ: ’’آہستہ بات کرو، کہیں میری ماں سن نہ لے۔ آپ کو تو پتا ہے کہ یہ اپنے ان دو بیٹو ں کو ابھی نہیں بھلا سکی، جو اس سے پہلے شہید ہوچکے ہیں۔ وہ ابھی تک ان کی راہ تکتی رہتی ہے‘‘۔ اُس کا ردِعمل سننے سے پہلے میں نے ہمسایے سے التجا کی: ’’مہربانی کر کے اس بارے میں کسی سے کچھ بھی مت کہنا ‘‘۔

میں اپنے گھر کی طرف پلٹا، تو جذبات پر قابو پاتے ہوئے اپنے سیل فون پر جیسے کہ میں اپنے بھا ئی سے باتیں کر رہا ہوں اور بول رہا تھا کہ: ’’تم کو تو صر ف اپنے دوستوں کے ہاں بیٹھنے میں ہی مزہ آتا ہے۔ چلو کوئی بات نہیں صبح سویرے گھر پہنچ جانا ‘‘۔

جب مَیں باتیں کرتے کرتے گھر کے گیٹ تک آگیا تو میری ماں فون پر ہونے والی میری گفتگو سن رہی تھی۔ ماں نے مجھ سے پوچھا: ’’بیٹا، یہ کس کے ساتھ باتیں کر رہے تھے؟‘‘ میں نے جھوٹی مسکان چہرے پر لاکر کہا: ’’یہ آپ کا لاڈلا بول رہا تھا کہ میں آج گھر نہیں آرہا، آج اپنے دوست کے ہاں ٹھیروں گا‘‘۔ میں نے بات کو کسی طرح ٹالتے ہوئے والدہ سے کہا: ’’مجھے بھوک بھی بہت لگی ہوئی ہے اور نیند بھی ستارہی ہے‘‘۔

جوں ہی کھا نا کھایا تو سب سونے کے لیے اپنے اپنے کمروں اور بستروں میں چلے گئے۔ مجھے کیسے نیند آتی؟ کمرے میں بیٹھتے ہی انٹر نیٹ آن کیا تو خبر آئی کہ: ’’فائرنگ میں دو جنگجو اور   تین عام شہری جاں بحق ہوگئے ہیں‘‘۔ یہ دیکھ کر مَیں نے پریشانی میں اِدھر اُدھر فون لگایا مگر    بھائی کے بارے میں کچھ اَتا پتا نہیں چلا۔ کسی طرح سے کروٹیں بدلتے رات گزاری۔ صبح سویرے پوپھٹتے ہی میں نے اپنے ایک دوست کو فون کر کے بلا لیا تھا۔ وہ دروازے پر کھڑا تھا۔ جوں ہی میں اس کے ہم راہ جاے واردات کی طرف لپکنے والا تھا کہ ماں نے پیچھے سے آواز دی: ’’بیٹا، اب کہاں جارہے ہو؟ اب وہا ں جانے کا کوئی فائدہ نہیں، وہ تو جنت کا مہمان بن چکا ہے‘‘۔ میں اور میرا دوست یہ سن کر ششدر رہ گئے۔

ماں کہنے لگی: ’’بیٹا آخر میں ماں ہوں، میں نے رات کو خواب دیکھا ہے کہ میرے دونوں بیٹے مجھے خواب میں آکر کہنے لگے:ماں او ہماری ماں، آج ہم بہت زیادہ خوش ہیں۔ ماں پتا ہے کیوں؟ اس لیے کہ آج ہمارا چھوٹا بھائی بھی ہمارے ساتھ جنت کا مہمان بن گیا ہے۔ یہ دیکھو سفید کپڑوں میں ملبوس فرشتے اسے ہماری صفوں میں شامل کر رہے ہیں۔ ماں آپ خوش رہنا لیکن کبھی آنسو مت بہانا، ورنہ ان آنسوئوں سے یہ ٹمٹماتے چراغ بجھ جائیں گے۔ اسی دوران میری آنکھ  کھل گئی ۔ اب کہاں جا رہے ہو بیٹا۔اب تو بہت دیر ہو چکی ہے!‘‘

میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو ٹپکنے لگے اور میری ماں اپنےخواب والی نصیحت پر عمل پیرا ہو کر معلوم نہیں کس حوصلے کے ساتھ اپنے آنسوؤں کو پیے جارہی تھی۔میں اور میرا دوست بت کی طرح ماں کی طرف اور ماں ہماری طرف دیکھے جارہی تھی۔

اسی اثنا میں باہر سے نعروں کی آواز یں گونجنے لگیں:

ہم کیا چاہتے، آزادی !

ہے حق ہمارا، آزادی!

’شہیدوں کے خون سے، انقلاب آئے گا‘ ۔

اور دیکھتے ہی دیکھتے ہمارے گھر کا صحن اور گلی کوچے سب انسانی سروں کے سمندر سے کھچا کھچ بھرنے لگے ۔چند لمحے گزرے تھے کہ کچھ اَنجانے لوگ اپنے کندھوں پر میرے بھائی کی میت اُٹھائے ہمارے گھر کے گیٹ تک پہنچ گئے۔ فضا مسلسل پُرعزم نعروں سے گونج رہی تھی:

شہید تیری ماں کو ،مبارک ہو مبارک ہو!

شہید تیری بہنوں کو، مبارک ہو مبارک ہو!

شہید تیرے باپ کو، مبارک ہو مبارک ہو!

مجھے کچھ پتا نہیں کس نے مجھے جنازہ گاہ تک پہنچا یا۔ وہاں میں نے دیکھا کہ میری ماں اپنے شہید بیٹے کی میت کے ساتھ چمٹے بیٹھی مسلسل اس کے چہرے کو دیکھے جارہی تھی۔ دراصل وہ اپنے تیسرے شہید بیٹے کی طرف حسرت بھری نگاہ سے دیکھ رہی تھی اور اپنے آنسوئوں کو پیتے ہوئے لوگوں کو صبر کی تلقین کر رہی تھی۔ یہ سما ں دیکھ کر لوگ جذباتی ہوگئے اور نعرے لگانے لگے۔لوگوں کے چہرے جذبات سے تمتما رہے تھے اور نعرے زلزلہ بپا کیے ہوئے تھے:

 زندہ ہے مجاہد، زندہ ہے… قرآن میں دیکھو زندہ ہے… حدیث گواہ ہے زندہ ہے۔

لوگ آتے گئے اور جنازے ہوتے رہے۔

آنے والے ہمیں دلاسہ اور مبارک باد دیتے گئے۔

ہم جس بستی میں رہتے ہیں، وہاں ہم جواں ہوتے ہیں اور ہمارے والدین ہمارا جنازہ اٹھا تے چلے آرہے ہیں۔ ظالم گولیاں برساتے اور مظلوم گولی کھاتے ہیں۔

ظلم کی اس تاریکی میں، آزادی کی کرنیں کب روزِ روشن بنیں گی؟