ڈاکٹر محمد آفتاب خان / ریاض اختر


اسلام دینِ فطرت ہے کیونکہ اس کے احکام اور اصول انسانی زندگی کے ہر زاویے اور شعبے کا احاطہ کرتے ہیں۔جنسیات بھی ایک ایسا ہی اہم ترین انسانی شعبہ ہے جو لوگوں کی زندگی،    سوچ اور نفسیاتی تغیر و تبدل کو متاثر کرتا ہے اور اس کی وجہ سے ہمارے رویّے بھی اثرات قبول کرتے ہیں۔جنسیات کے بارے میں تعلیم اور تجزیہ کی جانب توجہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں،لیکن اس سے یہ اخذ کرنا بھی مناسب نہیں ہے کہ آج سے چند صدیوں قبل اس کے متعلق سوچ اور خیالات ناپید تھے۔ ہاں یہ ضرور تھا کہ جنس کے بارے میں بات کرنا قدرے معیوب سمجھا جاتا تھا کیونکہ مروجہ اخلاقیات کی رو سے یہ ایک ممنوعہ (taboo ) موضوع تھا جس پر شرفا کی لب کشائی سماجی اور معاشرتی اصولوں کے تحت تقریباً ممنوع تھی۔مذہبی علما تو بالخصوص انتہائی احتیاط سے کام لیتے تھے اور جنس کے بارے میں محض اشاروں کنایوں سے خیالات کو قلم بند کرتے تھے۔ سامی اور غیر سامی مذاہب کے پیرو کار علما نے اپنا زورِ قلم جنس کو معیوب، قابلِ نفرین، اسفل اور شیطان کا ہتھیار سمجھنے اور کہنے میں دکھایا ہے۔

یہ سوچ اسلام سے قبل اپنی جڑیں مضبوط کر چکی تھی۔ان حالات میں جنس کے بارے میں مثبت تعلیم بذات ِ خود ایک انقلابی اقدام تھا۔ قرآن نے اس بارے میں فلسفیانہ موشگافیوں اور مبہم اشارات کا سہارا نہیں لیا۔قرآن کے مطالعے سے ہمیں کہیں بھی یہ تاثر نہیں ملتا کہ اللہ تعالیٰ نے انسانی (بلکہ حیوانی) زندگی کے اس اہم ترین شعبے سے درگزر کیا ہو یا واضح احکامات اور دستور العمل دینے سے گریز کیا ہو۔فرمان الٰہی ہے کہ ’ ’انسان کی پیدایش مٹی سے ہوئی اور پھر اس کی نسل حقیر پانی کے نچوڑ سے پیدا کی‘‘ ( السجدہ ۳۲: ۷-۸)۔مزید یہ کہ ’’ اسی نے جوڑا، یعنی نر اور مادہ، پیدا کیا ہے‘‘ ( النجم ۵۳: ۴۵) اور ’’ پھر اسی جوڑے سے نر اور مادہ بنائے‘‘۔ ( القیامہ ۷۵: ۳۹) سورۂ نساء میں پھر کہا گیا کہ ’’ لوگو! اپنے پرودگار سے ڈروجس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا، اس سے اس کا جوڑا بنایا۔ پھر ان دونوں سے کثرت سے مرد و عورت (پیدا کرکے) پھیلا دیے۔‘‘ ( النساء ۴: ۴)

ہر قسم کے اشتباہ کو رفع کرتے ہوئے اللہ نے انسان سے استفسار کیا کہ ’’ کیا ہم نے تم کو حقیر پانی سے پیدا نہیں کیا؟‘‘ (المرسلت ۷۷: ۲۰)۔واضح رہے کہ اس دور کا انسان جہالت میں رہنے کے باوجود اتنا بھی ناسمجھ اور فہم و فراست سے عاری نہیں تھا کہ عہد ِ قدیم کے انسان کی طرح بچے کی پیدایش کو مافوق الفطرت ہستیوں سے منسوب کرتا اور مرد کی ابویت سے لا تعلقی اختیار کرتا۔ اللہ تعالیٰ کا انسان سے یہ استفسار اس امر کا ثبوت ہے کہ عورت اور مرد ، دونوں تخلیق کے اس بھید سے آگاہ ہوچکے تھے کہ ’’ وہ اُچھلتے ہوئے پانی سے پیدا ہوا ہے‘‘ ( الطارق ۸۶: ۶)۔اور وہ پانی کیا ہے؟ اس کو بھی خالقِ کائنات نے خود ہی بیان کر دیا ہے کہ وہ ’’ جو پیٹھ اور سینے کے درمیان سے نکلتا ہے‘‘ (الطارق ۸۶: ۷)

تخلیق کی اساس کے بعد یہ بھی بتا دیا گیا کہ ’’ ہم نے انسان کو مخلوط نطفہ سے پیدا کیا‘‘ (الدھر ۷۶: ۲) تاکہ کسی کو یہ اشتباہ نہ رہے کہ شاید مرد ہی علت ِ تخلیق ہے۔ اللہ نے واضح کر دیا کہ عورت کا رحم ’قرارِ مکین‘ ہے (المومنون ۳۳: ۱۳) جس میںنطفہ ڈالاگیا( النجم ۵۳: ۴۶)اور پھر وہی نطفہ ’ لہو کا لوتھڑا بنا‘ ( القیامہ ۷۵: ۳۸) یہاں ارسطو کا حوالہ دینا ضروری ہے کیونکہ یونانی فلسفیوں کا اثر اس قدر ہمہ گیر تھا کہ ان کی کسی بات سے اختلاف کرنا ناقابلِ تصور سمجھا جاتا تھا۔ انھوں نے بچے کی پیدایش کے ضمن میں بھی اپنے جن خیالات کااظہار کیا تھا انھیں سند کا درجہ حاصل ہو چکا تھا۔ ارسطو اس راے کاحامل تھا کہ پیدایش کے عمل میں مرد فاعل اور عورت مفعول ہے۔ عورت کی حیثیت ایک برتن کی سی ہے جس میں مرد اپنا بیج ڈالتا ہے۔ بالفاظِ دیگر عورت کا کردار صرف اتنا ہے کہ وہ مرد کے بیج کو اپنے جسم کے اندر حفاظت سے رکھتی ہے۔ پیدایش کے عمل میں اس کا کوئی حصہ نہیں۔قرآن نے اس سوچ کو درست کرتے ہوئے واضح کر دیا کہ بچے کی پیدایش میں عورت اور مرد دونوں کا حصہ ہے ۔عورت ایک خالی برتن (یا ّآج کی زبان میں ’گملہ‘)نہیں کہ جہاں بیج کی آبیاری ہوتی ہے، اس میں ’گملے‘ کا اپنا کوئی کردار نہیں۔دیکھا جائے تو عورت یہاں ’دوہراکردار‘ اداکرتی نظر آتی ہے۔ایک تو وہ مرد کے ’نطفہ‘ (بیج)کواپنے ’قرارِ مکیں‘ (رحم) میں محفوظ رکھتی ہے، اور دوسرے یہ کہ وہ اپنے نطفہ کو بھی اس میں ملا دیتی ہے ۔ پھر وہی مخلوط نطفہ ’ لہو کا لوتھڑا‘ بن کر بتدریج انسانی صورت میں عورت کے جسم کے اندر پرورش پاتا رہتا ہے۔

قطرے کو گوہر ہونے تک کے مراحل بھی قرآنِ مجید میں بیان کر دیے گئے ہیں۔بات یہیں پرختم نہیں ہوئی۔انسان پیدا ہوا تو اس کی تمام ضروریات، خواہشات اور خیالات نے بھی جنم لیا۔شِیر خوری سے بچپن،لڑکپن، پھرجوانی ،کہولت اور بڑھاپا۔گویا انسان ان تمام شعوری اَدوار سے گزرتا ، بدن کی ضروریات اور خواہشات کی تسکین کرتا اور اس کے لیے مختلف ذرائع استعمال کرتا نظر آتا ہے۔انھی میں اس کی جنسی ضرورت کی تسکین بھی ہے۔قرآن نے اس سے بھی صرفِ نظر نہیں کیا۔انسان کے اندر اس جذبے کو ’خود تخلیقی‘ نہیں کہا جا سکتا ، یہ اللہ کی جانب سے ودیعت کیا گیا ہے۔بالفاظ ِ دیگر، اللہ نے انسان کے اندر ایک ایسا طوفان ِ بلا خیز قید کر رکھا ہے جس کی پیدایش میں تو وہ بے بس و لاچار ہے مگر اسے مہمیز دینے یا لگام ڈالنے میں قوت ِ اختیار حاصل ہے۔ 

اللہ کو جنسی قوت اور جذبے کی شدت کا بخوبی علم ہے کیونکہ وہ خود ہی اس کا خالق ہے، لہٰذا اس نے اس کی تندی کے آگے بند باندھنے کا طریقہ بھی خود ہی بتا دیا۔ہم اسے ’جنسی جبر و قدر‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔فرمانِ الٰہی ہے کہ ’’ تم میں سے جو مرد اور عورت بے نکاح ہوںان کا نکاح کردو۔ اور اپنے غلاموں اور لونڈیوں کے بھی جو نیک ہوں ۔۔۔۔۔۔‘‘ ( النور ۲۴: ۳۲)۔لیکن ساتھ ہی یہ بھی نصیحت کر دی کہ ’’ اور جن کو نکاح کرنے کی حیثیت نہ ہو وہ پاک دامنی کو اختیار کیے رہیں یہاں تک کہ اللہ ان کو اپنے فضل سے غنی کر دے‘‘ ( النور ۲۴: ۳۳)۔گویا اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے انھیں تنگ دستی سے نجات دے تو پھر وہ بھی نکاح کر لیں۔اس وقت تک انھیں پاک دامن رہنے،   جنسی لذائذ سے اجتناب کرنے اور حظ ِ جسمانی سے دور رہنے کا حکم ہے۔

سورۂ نور کی ان دونوں آیات میں تفصیل میں جائے بغیر اللہ نے جنس کی تحریک کو دبانے اور اسے منضبط کرنے کے لیے نکاح کا حکم دیا ہے تاکہ انسان ایک اخلاقی، قانونی اور مذہبی دائرے کے اندر رہتے ہوئے تسکین حاصل کرے۔اسلام میں عورت کو بھی اسی طرح کا ایک فرد سمجھا گیا ہے جیسے مرد۔بحیثیت انسان دونوں کے جذبات، احساسات،خواہشات اور جسمانی ضروریات میں کوئی فرق نہیں۔قرآن میں مردوں کو مخاطب کرکے کہا گیا ہے کہ ’ ’تمھاری بیویاں تمھاری کھیتی ہیں، جس طرح چاہو جائو‘‘ ( البقرہ۲ : ۲۲۳)۔انتہائی مختصر الفاظ میں جنسیات کے بارے میں ایسی بات کہہ دی گئی ہے جس کی وضاحت کے لیے مغربی علماے جنسیات نے لاکھوں صفحات بھر دیے ہیں۔ بلاشبہہ کہا جا سکتا ہے کہ ان چند الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے انسانی، اور بالخصوص مردوں کی جنسی روش، سوچ اور رویّے کا اظہار انتہائی جامعیت اور بلاغت سے کیا ہے۔

انسان کے جنسی جذبے کی شدت اور قوت کو قابو میں رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ماہ ِ رمضان کی راتوں میں بھی مطلب برآری کی اجازت دی ہے۔(البقرہ ۲: ۱۸۷)۔لوگوں کی ایک کثیر تعداد نے مروجہ مذہبی اور سماجی رجحانات کے مدِنظر ماہ ِ صیام میں ایک قسم کا تجرد اختیار کیے ہوتا تھا۔ ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ اس پابندی سے بہت سے لوگ (عورت اور مرد دونوں) کبیدہ خاطر بھی ہوتے ہوں گے۔ اللہ نے انھیں اس پابندی سے باہر نکال دیا کہ وہ افطار سے سحر تک لذتِ جسمانی کے لیے آزاد ہیں۔

ان دو چار احکام کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ اسلام نے جہاں بہت سے عقائد ِ باطلہ کا انہدام کیا وہاں جنسیات کے متعلق ایسے اصول وضع کر دیے جو انسانی فطرت کے لیے تسکین دہ ثابت ہوئے۔قرآن تو میاں بیوی کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیتا ہے، ایک کو دوسرے کی راحت کہتا ہے، پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ دونوں کے جنسی جذبے کے آگے دیوار کھڑی کر دی جاتی۔اس نے ایک ایسا ضابطہ متعین کر دیا جس کے تحت دونوں اپنی اپنی جنسی ضرورت پوری کرنے کے اہل ہو گئے۔فرمانِ نبویؐ ہے کہ نکاح میری سنت ہے۔ اس میں ان کی اپنی ذاتِ مبارک بھی دکھائی دیتی ہے اور عام مسلمانوں کے لیے راہ بھی متعین ہوتی ہے کہ میں نے بھی شادیاں کی ہیں، اس لیے تم بھی ایک خاندان کی تشکیل اور جسمانی ضروریات کی تسکین آوری کے لیے شادی کرو تاکہ ایک اخلاقی دائرے میں رہتے ہوئے زندگی بسر کی جائے۔بخاری میں عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ سے روایت ہے کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے خبر ملی ہے کہ تم ہر روز دن کو روزہ رکھتے ہو اور رات کو عبادت میں کھڑے رہتے ہو۔کیا یہ صحیح ہے؟ میں نے کہا ، جی ہاں رسولؐ اللہ۔ آپؐ نے فرمایا:ایسا مت کرو۔روزہ بھی رکھو، افطار بھی کرو، رات کو عبادت بھی کرو، سو یا بھی کرو، کیونکہ تیرے بدن کا تجھ پر حق ہے،تیری آنکھوں کا تجھ پر حق ہے، تیری بیوی کا تجھ پر حق ہے۔

یہ ایک ایسی بلیغ نصیحت ہے جس میں انسان کی تمام ضروریات کا احاطہ کیا گیا ہے۔سونے سے بدن کو آرام ملتا ہے اور انسان بیدار ہونے کے بعد چستی سے کام میں لگ جاتا ہے، اور بیوی کے حق سے آپؐ نے عورت کی جنسی تسکین کا جانب اشارہ کر دیا۔

کتب ِ احادیث میں جنسیات کے بارے میں فرمان نبویؐ کے احکامات او رنصائح پائے جاتے ہیں۔مومنین اکثر اوقات جہاد کے سلسلے میں گھروں اور بیویوں سے دور رہتے تھے۔ چند ایک نے آپؐ سے خصی ہونے کی اجازت چاہی تاکہ وہ جنسی دبائو سے آزاد ہو سکیں، مگر آپؐ نے انھیں منع فرمایا۔ اجازت نہ دینے کے پس پردہ جنسی قوت اور تحریک کا جذبہ کار فرما تھا جومعلمِ انسانیتؐ کی نظر میں انسانی زندگی کو متوازن رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔آپؐ نہیں چاہتے تھے کہ محض جہاد کی خاطر مومنین اپنے آپ کو خصی کریں اور حصول ِ اولاد کے علاوہ اپنی بیویوں کو بھی جنسی لذت کوشی سے محروم کر دیں۔  

حضرت جابر بن عبداللہؓ راوی ہیں کہ غزوہ ٔ تبوک سے واپسی پر میں نے آپؐ کو اپنی شادی کے بارے میں بتایا۔آپؐ  نے استفسار کیا: کنواری سے یا ثیبۃ(بیوہ) سے۔ میں نے کہا: ثیبۃ سے۔آپؐ نے فرمایا : کنواری لڑکی سے شادی کیوں نہیں کی؟ وہ تجھ سے کھیلتی، تو اس سے کھیلتا۔ مقامِ غور ہے کہ آپؐ حضرت جابرؓ سے کتنی حقیقت افروزبات کرتے ہوئے انسانی نفسیات کی عقدہ کشائی فرماتے ہیں کہ شادی کاایک مقصدآپس میں چہلیں کرنا بھی ہے، اور اس کے لیے کنواری لڑکی بہ نسبت ایک بیوہ کے زیادہ موزوں ہے۔اس ارشادِ نبویؐ میں اس امکان کو بھی مد ِ نظر رکھا گیا ہے (اگرچہ اس کا اظہار الفاظ میں نہیں کیا گیا) کہ بیوہ یا مطلقہ ایک مرد کے ساتھ قربت کے دور سے گزر چکی ہوتی ہے، ممکن ہے وہ غیر ارادی طور پر موجودہ شوہر کا موازنہ سابقہ شوہر سے کر بیٹھے۔کنواری لڑکی چونکہ اس تجربہ سے نا آشنا ہوتی ہے اس لیے اس کے ذہن میں کوئی ایسا خیال آہی نہیں سکتا۔ پھر یہ بھی ہے کہ اس کے ذہن کو من چاہے سانچے میں ڈھالنا قدرے آسان ہوتا ہے اور یوں میاں بیوی کے درمیان ذہنی ہم آہنگی کا پیدا ہونا مشکل امر نہیں رہتا۔ ہم نے فرمانِ نبویؐ میں جس امکان کا ذکر کیا ہے اس کی تائید ان احادیث ِ مبارکہ سے ہوتی ہے۔

   ایک صحابی ابو رکانہؓ نے جس خاتون سے شادی کی وہ ایک روز آپؐ کے پاس آ کر شکایت کرنے لگی کہ ابورکانہؓ بس میرا اتنا ہی کام چلا سکتے ہیں جتنا یہ بال (اس خاتون نے اپنے سرکے ایک بال کی طرف اشارہ کیا)۔اسی طرح حضرت عائشہ ؓ روایت کرتی ہیں کہ ایک صحابی رفاعہ ؓ نے ایک عورت ، تمیمہ بنت وہب، سے شادی کی، پھر اس کو طلاق دے دی۔اس نے عبدالرحمن  بن زبیر سے شادی کر لی۔ بعدازاں وہ عورت آپؐ کے پاس آئی اور کہنے لگی: یا رسولؐ اللہ !میرے خاوند کے پاس تو صرف ایک کپڑے کا کنارہ ہے۔آپؐ نے فرمایا: تو پہلے خاوند کے پاس اس وقت تک نہیں جا سکتی جب تک دوسرے خاوند سے مزہ نہ اٹھائے اور وہ تجھ سے مزہ نہ اٹھائے۔

ان دونوں احادیث میں عورتوں نے آپؐ کے سامنے اپنی جنسی تشنگی کا ذکر کیا کہ ان کے خاوند ان کی جنسی پیاس بجھانے کے اہل نہیں۔اس سے ثابت یہ ہوتا ہے کہ اولاً، دوسری شادی کے بعد کچھ عورتوں میں ’دو مردوں‘ کے درمیان موازنے کی سوچ پیدا ہو جاتی ہے، اور ثانیاً یہ کہ عورتیں ایسے معاملات کا ذکر رسولؐ اللہ سے کیا کرتی تھیں اور آپؐ اس کا حل بھی بتا دیا کرتے تھے۔اسی طرح اُمِ المومنین حضرت اُمِ سلمہ ؓ روایت کرتی ہیں کہ حضرت انس ؓ کی والدہ، اُمِ سلیم، نے آپؐ سے پوچھا: یا رسولؐ اللہ! اللہ حق بات کہنے سے شرم نہیں کرتا، اگر عورت کو احتلام ہو جائے تو کیا اس پر غسل واجب ہے ؟آپؐ نے فرمایا: ہاں، جب پانی دیکھے‘‘۔ یہ حدیث بھی ثابت کرتی ہے کہ عورتوں میں جنس سے متعلق مسائل کا حل جاننے کی خواہش پائی جاتی تھی اور وہ آپؐ کے سامنے بلاحجاب ایسی باتیں پوچھ لیا کرتی تھیں۔ گویا آپؐ  منجملہ دیگر اُمور، جنسی معاملات اور مسائل پر بھی گفتگو فرماتے اور سائل کو تسلی بخش جواب دیتے تھے۔

اللہ تعالیٰ نے رحمت ِ عالمؐ کے ذریعے سے جن احکامات ، نصائح اور ضوابط کا نزول کیا وہ دین اور دنیا میں توازن کی شان دار مثال ہیں۔ اسلام کا مقصد صرف ایک اللہ کی عبادت کا پیغام دینا ہی نہ تھا بلکہ ہر دور اور ہر علاقے کے لوگوں کی اخلاقی حالت کو انسانیت کی بلندترین سطح پر لانا بھی تھا۔عامۃ الناس کو برائی سے اجتناب کرنے، فحاشی و بے حیائی سے روکنے،اپنے حیوانی جذبات کو لگام دینے اور اللہ کی متعین کردہ حدود کے اندر رہتے ہوئے زندگی بسر کرنے کی تلقین ،نصیحت اور حکم کامقصدانسان کی ذاتی، خاندانی اور معاشرتی زندگی میں بہتری پیدا کرنا ہے۔حیات ِ انسانی کے مختلف پہلوئوں میں سے زیر ِ مطالعہ مضمون میں جس اہم پہلو کا ذکر کیا جا رہا ہے وہ جنسیت کے بارے میں اسلام کے وضع کردہ احکام اور اصول ہیں ۔ اس مضمون کے ابتدا میں جنسی معاملات سے متعلق قرآن اور احادیث ِ نبویؐ سے حاصل ہونے والی رہنمائی کا ایک اجمالی سا ذکر ہے۔  

جنسی تعلقات کا ایک پہلوزنا بھی ہے۔ قانونی حدود سے باہر، یعنی بلا نکاح عورت مرد کا ایک دوسرے سے جسمانی تعلق زنا کے دائرے میں آتا ہے۔لوگوں کے لیے ایک مضبوط اخلاقی معاشرے کا قیام ہر مذہب کے اہم نصب العین میں شامل رہا ہے۔اگرچہ توریت اور انجیل میں زنا اور بے حیائی کی مذمت بڑے واضح الفاظ میں آ چکی تھی، باایں ہمہ ، معاشرے میں بے راہ روی، بگاڑ اوراخلاقی تنزل بتدریج ایک خطرناک صورت ِ حال اختیار کر تے جا رہے تھے۔ رسول اکرمؐ کی بعثت کے وقت حیا اور اخلاق نام کی اقدار تقریباً نا پید تھیں۔ مے خواری اور عورتوں سے ناجائز مراسم، بشمول زنا کاری، باعث ِ فخر ’کارنامے‘ سمجھے جاتے تھے۔اس دور میں عرب، اور بالخصوص مکہ میں نکاح اور شادی کی متعدد صورتیں رائج تھیں اور ان سب کو معاشرتی سند اور قبولیت حاصل تھی۔ اس حقیقت سے تو کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اخلاقیات کی عدم موجودگی یا کمزوری معاشرے کو تباہی کی جانب لے جاتی ہے۔تاریخ ِ عالم سے بے شمار مثالیں اس کی تائید میں پیش کی جا سکتی ہیں۔ صرف قومِ لوطؑ کی تباہی کا واقعہ مدِ نظر رکھیں تو بے لگام جنسی جذبے کے عواقب و نتائج واضح ہو جاتے ہیں۔

زنا بالجبر ہو یا بالرضا، دونوں کے نتائج ذاتی اور خاندانی تباہی پر منتج ہوتے ہیں اور اگر اس فعل کے آگے بند نہ باندھے جائیں تو اس کے اثرات انتہائی خوفناک حد تک بگاڑ پیدا کرتے ہیں۔ اس کی تفصیل میں جائے بغیر، ہم صرف مغربی ممالک کی طرف اشارہ کر دیتے ہیں کہ جہاں خاندانی اکائی اور نظام بالکل تلپٹ ہو کے رہ گیا ہے، عصمت و عفت کوایک ’بوجھ‘ سمجھا جاتا ہے اور معاشرے میں ایسے بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے جنھیں اپنے باپ کے نام کا بھی علم نہیں۔ایسی صورت ِ حال کی پیش بینی کرتے ہوئے قرآن میں زنا کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے مردوں اور عورتوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے بخشش اور اجر عظیم کی بشارت دی ہے(الاحزاب۳ ۳: ۳۵)۔پھر لوگوں کو سمجھایا گیا ہے کہ ’’ زنا کے پاس بھی نہ جاناکہ وہ بڑی بے حیائی اور بہت ہی بری راہ ہے‘‘ ( بنی اسرائیل ۱۷: ۳۲)۔اس کے باوجود اگر کوئی   اس راہ پر چلنے سے گریزاں نہ ہو تو اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے لیے ۱۰۰ کوڑوں کی سزا مقرر کی ہے، اور یہ سزا چوری چھپے نہیں، بلکہ کھلے بندوں، لوگوں کی موجودگی میں دی جانی چاہیے، اور ایسے بدکاروں پر بالکل ترس نہیں کرنا چاہیے ۔(النور ۲۴: ۲)

 لواطت، ہم جنسیت اور استمنا بالید (خود لذتی)بھی جنسی لذت کشی کے مختلف پہلو ہیں۔ اسلام اس بارے میں بھی لوگوں کو حدود کے اندر رہنے اور اعمالِ بد سے اجتناب کرنے کا حکم دیتا ہے۔’’ کیا تم عورتوں کو چھوڑ کر لڑکوں پر مائل ہوتے ہو؟ اور تمھارے پروردگار نے جو تمھارے لیے تمھاری بیویاں پیدا کی ہیں ان کو چھوڑ دیتے ہو؟ حقیقت یہ ہے کہ تم حد سے نکل جانے والے ہو‘‘ (الشعراء ۲۶: ۱۶۵، ۱۶۶)۔ایک اور جگہ لواطت کی مذمت کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا: ’’ کیا    تم عورتوں کو چھوڑ کر لذت کے لیے مردوں کی طرف مائل ہوتے ہو؟حقیقت یہ ہے کہ تم احمق لوگ ہو‘‘ (النمل ۲۷: ۵۵)۔ایسے لوگوں کو ’’حد سے نکل جانے والے‘‘ اور ’احمق‘ ہی نہیں کہا گیا بلکہ انھیں ایذا دینے کا بھی حکم دیا گیا ہے۔(النساء ۴: ۱۶)

اسلام میں جنسیت کی متعین کردہ حدود اور ان سے تجاوز کر جانے والوں کے بارے میں احکام کا ایک اجمالی سا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ان اوامر و نواہی کے اثرات دور رس ، ہمہ گیر اور بڑے گہرے ہوتے ہیں۔ ان سے صرف ذاتی زندگی ہی نہیں، بلکہ اجتماعی (خاندانی، معاشرتی اور موجودہ و آیندہ نسلوں کی)حیات بھی متاثر ہوتی ہے۔