دل آویز سبزہ زار ، دل فریب گھنے جنگلات، ہرے بھرے درختوں کی لمبی قطاریں ، باغات میں ثمر آور اشجار کسی بھی خطے کو جنت نظیر بنادیتے ہیں کہ جس کی طرف دل خراماں خراماں کھچا چلا جاتا ہے۔بھینی بھینی خوشبو، ٹھنڈی ہوائیں، چڑیوں کی چہچہاہٹ اور بلبل کی نغمہ سرائی کان میں رس گھولتی ہے۔ اس سے جہاں مضطرب دل کو سکون ملتا ہے ، رنجیدگی کو شکست ہوتی ہے وہاں بالآخر انسان ان تمام مظاہرِ قدرت سے متاثر ہوکر برملا گویا ہوتا ہے :
رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلًا ۰ۚ سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (اٰل عمرٰن ۳: ۱۹۱) اور کہتے ہیں اے پروردگار تونے یہ بے فائدہ نہیں بنایا ۔ تو پاک ہے پس ہمیں آگ کے عذاب سے بچالے ــ۔
شجر کاری، باغات کو اور جنگلات کی اہمیت و ضرورت اس وقت اور بھی بڑھ جاتی ہے، جب چاروں طرف آلودگی بسیرا ڈالے ہو ، صاف و شفاف ہوا کے لیے جسم ترستا ہو، اور زہر آلود ہوائیں نسل انسانی کو گھن کی طرح کھارہی ہوں۔ دور جدید کی سائنس و ٹکنالوجی نے جہاں انسان کی سہولت و آسانی کے لیے لامحدود و اَن گنت وسائل مہیا کیے ہیں، زندگی کے مختلف شعبہ جات میں انسان کو بام عروج پر پہنچادیا ہے، وہیں اس کے لیے مختلف بیماریوں اور آفات کے سامان بھی فراہم کردیے ہیں ۔ صنعتی ترقی کے اس دور میں ہر طرف آلودگی چھائی ہوئی ہے۔ ہوا ، پانی اور زمین پر دیگر حیاتیات اپنی خصوصیات کھورہی ہیں ۔ جس کی وجہ سے عالمی حدت (Global Warming) کا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے ۔ فضائی آلودگی، آبی آلودگی، زمینی آلودگی، صوتی آلودگی،سمندری آلودگی، شعاعی آلودگی روز بروز بڑھتی جارہی ہے ۔تیزی سے فیکٹریاں، سڑکو ںپر گاڑیوں کی لمبی قطاریں ، فضائی اور بحری جہازوں کا دھواں، مختلف صنعتوں کے فضلات سے مسئلہ مزید پیچیدہ ہوتا چلاجارہا ہے ۔
اس صورتِ حال میں سرسبز پودے، گھنے باغات اور جنگلات کی اہمیت و ضرورت شدت سے بڑھ جاتی ہے کیوں کہ اللہ نے مخلوقات اور دیگر مظاہرِ کائنات کی تخلیق کو اس طرح مربوط کیا ہے کہ یہ سلسلہ بغیر کسی رکاوٹ کے جاری چلا آرہا ہے ۔ چناں چہ انسان کو زندہ رہنے کے لیے آکسیجن کی ضرورت ہے جس کا منبع نباتات ہیں ، جب کہ نباتات ،انسان اور دیگر مخلوقات سے نکلنے والی کاربن ڈائی آکسائڈ کو اپنی خوراک کے طور پر استعمال کر تی ہیں ۔ اسی طرح اللہ نے انسان کو نباتات کے پھلنے پھولنے کا ذریعہ بنایا ہے ،جس کی وجہ سے فضا میں توازن قائم ہے ۔ لیکن اگر اس میں کسی طرح کی مداخلت کی جائے تو توازن میں خلل پیدا ہوجاتا ہے اور اس کے براہِ راست نقصانات انسانوں اور دیگر مخلوقات کو بھگتنا پڑتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
اِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنٰہُ بِقَدَرٍ(القمر۵۴:۴۹) ہم نے ہر چیز ایک تقدیر کے ساتھ پیدا کی۔
وَاَنْۢبَتْنَا فِيْہَا مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَّوْزُوْنٍ(الحجر۱۵: ۱۹)اس نے ہر نوع کی نباتات ٹھیک ٹھیک نپی تلی مقدار کے ساتھ اُگائی ۔
لیکن افسوس ہے کہ جہاں فضائی آلودگی اپنے پَر پھیلا تی جارہی ہے وہیں اس کے علاج کی دوا، یعنی جنگلات کی کٹائی انسان کی خود غرضی ومفاد پرستی کی تلوارسے بڑی بے دردی سے جاری ہے۔اور صورت حال بھی یہی بتاتی ہے کہ جنگلات کی بے رحمی سے کٹائی ہمیں ۲۰۸۵ء تک سدابہار درختوں سے محروم کردے گی ۔ اقوام متحدہ کے جائزے کے مطابق ہر سال تقریبا تیرہ ملین ہیکٹر رقبے پر پھیلے جنگلات کا صفایا ہورہا ہے،جب کہ سائنس داں حضرات کے نزدیک دورِ حاضر کا سب سے بڑا خطرہ تیزی سے جنگلات کا خاتمہ ہے کیوں کہ ایسی صورت حال میں سیلاب ، آندھی اور طوفان اور دیگر آفات کا آنا لازمی ہے اور انسان مہلک امراض کا شکار ہونے لگے ہیں۔
نباتات کے فوائد صرف یہی نہیں ہیں کہ وہ ہمیں آکسیجن فراہم کرتی ہیں ، بلکہ یہ درجۂ حرارت کو اعتدال و توازن بخشتی ہیں ، فضائی جراثیم کو اپنے اندر جذب کرلیتی ہیں، نیز انسانوں اور حیوانات کی غذائی ضروریات فراہم کرتی ہیں۔ چرندوں، پرندوں اور متعدد حیوانات کا مسکن بھی یہ درخت ہیں۔ ادویات کا مخزن ہیں، دھوپ میں سایہ ،اور سب سے بڑی بات یہ کہ آگ کا وجود بھی ہیں۔خوش آیند بات یہ ہے کہ اب حکومتیں اور عوام آنکھیں کھول رہے ہیں ، شجرکاری اور اس کے تحفظ کے لیے آوازیں بلند ہورہی ہیں ،کمیٹیاں تشکیل دی جارہی ہیں، اور عملی اقدام بھی جاری ہیں۔ یہاں ہم مختصراً سائنس اور قرآن و حدیث کے حوالے سے اس کی اہمیت و افادیت پر چند معروضات پیش ہیں۔
بڑے قصبوں میں ماحول کی آلودگی کے پیچیدہ مسئلے، گاڑیوں اور کارخانوں وغیرہ کے دھوئیں اور زہریلی گیسوں کی فضا میں شمولیت سے انسانی صحت کے لیے سنگین خطرات پیدا ہوچکے ہیں۔اس مسئلے کا بہترین حل یہ ہے کہ ملک بھر میں اور بالخصوص شہروں میں بکثرت درخت لگائے جائیں۔ ان سے شہروں کے درجۂ حرارت میں کمی ہوگی اور فضا بھی صاف رہے گی۔
ماحولیات اور نباتات کے ماہر ڈاکٹر ایس کے جین کے مطابق ایک اوسط سائز کا درخت دوخاندانوں سے خارج شدہ کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کو جذب کرکے ہوا میں کافی آکسیجن پیدا کردیتا ہے ۔ اس کے علاوہ درخت دن میں کافی رطوبت ہوا میں شامل کرتے ہیں، جس سے درجۂ حرارت کم اور ماحول خوش گوار ہوجاتا ہے ۔ بڑے بڑے سر سبز وشاداب علاقے بڑے شہروں اور صنعتی علاقوں کی ہوا میں شامل ۷۰فی صد سلفرڈائی آکسائیڈ اور نائٹرک ایسڈ کو جذب کرلیتے ہیں۔
’ناسا‘ کی تحقیق کے مطابق چھوٹے پودوں کے گلدستے گھر میں رکھنے سے اندرونی فضا صاف ہوتی رہتی ہے۔ تحقیق کے مطابق آلودگی ہمارے گھروں میں مختلف ذررائع سے پھیلتی ہے۔ ان میں سگریٹ، گیس سے چلنے والے آلات ، مصنوعی ریشے سے بنے ہوئے کپڑے ، قالین، پردے ریفریجرٹر وغیرہ بھی کمرے کی ہوا کو آلودہ کرتے ہیں۔ ان سے کمرے کی ہوا میں نائٹروجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ جیسی گیسوں کا تناسب بڑھ جاتا ہے ۔ تجربات سے ثابت ہوا ہے، ایسے کمروں میں اسپائڈر پلانٹ نامی پودوں کے گملے رکھنے سے ۲۴ گھنٹوں کے اندر اندر ہوا میں ان گیسوں کے تناسب میں زبردست کمی آجاتی ہے ۔ ایک اوسط گھر میں آلودگی سے بچاؤ کے لیے ایسے ۸ سے۱۵ پودوں کی موجودگی ضروری ہے اور پودوں کے مقابلے میں اسپائڈر پلانٹ زیادہ مؤثر پودے ثابت ہوئے ہیں ۔
پودے اور نباتات صرف فضا کو صاف نہیں رکھتے بلکہ جسم و ذہن کے لیے بھی نہایت مفید ہیں ۔ ماہرین کے مطابق ایک گھنٹہ باغ بانی کرکے جسم کے ۳۴۵حرارے جلائے جاسکتے ہیں ۔ اس محنت سے ہڈیوں کو مضبوطی ملتی ہے اور ذہن پر بھی اس سے اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ ذہنی دباؤ کم ہوتا ہے اور دیگر ذہنی الجھنوں سے چھٹکارا ملتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کئی مغربی ممالک میں ذہنی و جسمانی مریضوں کے علاج کے لیے باغبانی اور شجر کاری سے بھی مدد لی جاتی ہے۔ کچھ لوگوں نے تو دفتر سے لوٹنے کے بعد باغبانی کو اپنا معمول بنا لیا ہے ۔
موجودہ سائنس شجر کاری کی جس اہمیت و افادیت کی تحقیق کررہی ہے، قرآن و احادیث نے چودہ سو سال قبل ہی آگاہ کردیا تھا۔ قرآن کریم میں مختلف حوالے سے شجر(درخت) کا ذکر آیا ہے ۔ ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت قرار دیتے ہوئے اس کا ذکر اس طرح کیا :
ہُوَالَّذِيْٓ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً لَّكُمْ مِّنْہُ شَرَابٌ وَّمِنْہُ شَجَـرٌ فِيْہِ تُسِيْمُوْنَ۱۰ يُنْۢبِتُ لَكُمْ بِہِ الزَّرْعَ وَالزَّيْتُوْنَ وَالنَّخِيْلَ وَالْاَعْنَابَ وَمِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ۰ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَۃً لِّقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ۱۱ (النحل ۱۶: ۱۰-۱۱)وہی تمھارے فائدے کے لیے آسمان سے پانی برساتا ہے جسے تم پیتے بھی ہو اور اسی سے اُگے ہوئے درختوں کو تم اپنے جانوروں کو چراتے ہو ۔ اسی سے وہ تمھارے لیے کھیتی اور زیتون اور کھجور اور انگور اور ہر قسم کے پھل اُگاتا ہے۔ بے شک ان لوگوں کے لیے تو اس میں بڑی نشانی ہے جو غور و فکر کرتے ہیں ۔
وَاَوْحٰى رَبُّكَ اِلَى النَّحْلِ اَنِ اتَّخِذِيْ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوْتًا وَّمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُوْنَ۶۸ۙ (النحل ۱۶: ۶۸)آپ کے ربّ نے شہد کی مکھی کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ پہاڑوں میں درختوں اور لوگوں کی بنائی ہوئی اونچی اونچی ٹٹیوں میں اپنے گھر (چھتے ) بنا۔
الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمْ مِّنَ الشَّجَرِ الْاَخْضَرِ نَارًا فَاِذَآ اَنْتُمْ مِّنْہُ تُوْقِدُوْنَ۸۰ (یٰس ۳۶: ۸۰) وہی ہے جس نے تمھارے لیے سبز درخت سے آگ پیدا کردی جس سے تم یکایک آگ سلگاتے ہو۔
يُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَۃٍ مُّبٰرَكَۃٍ زَيْتُوْنَۃٍ لَّا شَرْقِيَّۃٍ وَّلَا غَرْبِيَّۃٍ ۰ۙ (النور۲۴:۳۵) وہ چراغ ایک بابرکت درخت زیتون کے تیل سے جلایا جاتا ہو جو درخت نہ مشرقی ہے نہ مغربی۔
اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَي الْاَرْضِ زِيْنَۃً لَّہَا لِنَبْلُوَہُمْ اَيُّہُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا۷ (الکہف۱۸: ۷)روے زمین پر جو کچھ ہے ہم نے اسے زمین کی رونق کا باعث بنایا ہے کہ ہم انھیں آزمالیں کہ ان میں سے کون نیک اعمال والا ہے ۔
وَاِذَا تَوَلّٰى سَعٰى فِي الْاَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيْہَا وَيُہْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ۰ۭ وَاللہُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ۲۰۵ (البقرہ۲ : ۲۰۵)جب وہ لوٹ کرجاتا ہے تو زمین میں فساد پھیلانے کی اورکھیتی اور نسل کی بربادی کی کوشش میں لگا رہتا ہے اور اللہ تعالی فساد کو ناپسند کرتا ہے۔
اس کے علاوہ قرآن کریم میں شجر کا اور حوالوں سے ذکر بھی کیا گیا ہے ۔
مَا مِنْ مُسْلِمٍ یَغْرِسُ غَرْسًا اَوْ یَزْرَعُ زَرْعًا ، فَیَاْکُلْ مِنْہُ طَیْرٌ اَوْ اِنْسَانٌ اَوْ بَھِیْمَۃٌ اِلَّا کَانَ لَہٗ بِہٖ صَدَقَۃٌ(بخاری، کتاب المزارعۃ ، ح:۲۳۲۰)جو مسلمان درخت لگائے یا کھیتی کرے اور اس میں پرندے ، انسان اور جانور کھالیں تو وہ اس کے لیے صدقہ ہے ۔
فَلَا یَغْرِسُ الْمُسْلِمُ غَرْسًا فَیَاْکُلْ مِنْہُ اِنْسَانٌ وَلَا دَابَّۃٌ وَلَا طَیْرٌ اِلَّا کَانَ لَہٗ اَیْ مَا اَکَلَ مِنْہُ صَدَقَۃً اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ (مسلم،کتاب المساقاۃ، ح:۳۹۷۱) جو مسلمان پودا لگاتا ہے اور اس سے انسان ، چوپائے یا پرندے کھالیں تو یہ اس کے لیے قیامت تک کے لیے صدقہ ہے ۔‘‘
اس کی اہمیت کا اندازہ اس حدیث سے ہوتا ہے کہ جس میں آپؐ نے فرمایا قیامت قائم ہورہی ہو اور کسی کو شجر کاری کا موقع ملے تو وہ موقعے کو ہاتھ سے نہ جانے دے:
اِنْ قَامَتِ السَّاعَۃُ وَبِیَدِ اَحَدِکُمْ فَسِیْلَۃٌ فَاِنِ اسْتَطَاعَ اَنْ لَّا یَقُوْمَ حَتّٰی یَغْرِسَھَا فَلْیَفْعَلْ (مسند احمد:۱۲۹۰۲ ) اگر قیامت قائم ہورہی ہو اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں قلم ہو اور وہ اس بات پر قادر ہوکہ قیامت قائم ہونے سے پہلے وہ اسے لگا لے گا تو ضرور لگائے ۔
مَنْ قَطَعَ سِدْرَۃً صَوَّبَ اللہُ رَاْسَہٗ فِی النَّارِ (سنن ابوداؤد،کتاب الادب، ح:۵۲۳۹ ) جو بیری کا درخت کاٹے گا اللہ اسے اوندھے منہ جہنم میں ڈالے گا ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حالت جنگ میں بھی قطع شجر کو ممنوع قرار دیا ہے ۔ آپؐ لشکر کی روانگی کے وقت دیگر ہدایات کے ساتھ ایک ہدایت یہ بھی فرماتے تھے کہ:
وَلَا تَحْرِقُوْا زَرْعًا ، وَلَا تَقْطَعُوْا شَجَرَۃً مُثْمِرَۃً کھیتی کو نہ جلانا اور کسی پھل دار درخت کو نہ کاٹنا ۔
یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنے دورِ اقتدار میں باغبانی اور شجرکاری میں گہری دل چسپی دکھائی ہے ، اسے علوم و فنون کی شکل دی اور دنیا میں فروغ دیا ۔
موسم برسات جاری ہے ، شجرکاری کی اہمیت و ضرورت اور افادیت کے تعلق سے قرآن و حدیث اور سائنس کی تعلیمات ہمارے سامنے ہیں۔ ہمارے لیے اچھا موقع ہے نیکیوں میں اضافے کا ، اپنے ماحول کو خوش گوار بنانے کا۔ آگے بڑھیے ، قومی فریضہ نبھایئے ، خود پودے لگایئے ، دوسروں کو ابھاریئے اور بقدرِ استطاعت اپنا تعاون کیجیے۔