قرآنِ پاک کی سورۃ العلق میں فرمانِ الٰہی ہے:عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ،یعنی ہم نے انسان کو سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے نوعِ انسان کی ہدایت کے لیے اپنے رسول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآنِ پاک کا نزول فرمایا۔ یہ کلامِ الٰہی ہے جس سے بہتر کوئی کلام نہیں۔ جس کے فضائل کے بارے میں لکھنا گویا آفتاب کو چراغ دکھانا ہے۔ اس کے کس کس فضل و شرف کا ذکر کیا جائے؟ کہاں سے ابتدا کی جائے؟ اللہ تعالیٰ نے خود سورۂ لقمان میں فرمایا ہے کہ: ’’اگر دنیا کے تمام درختوں کو کاٹ کر ان کی قلمیں بنالی جائیں اور تمام سمندر سیاہی میں تبدیل ہوجائیں اور پھر ان سے اللہ تعالیٰ کی توصیف و تمجید لکھی جائے تب بھی اس کی اور اس کے کلام کی تعریف و تمجید کا حق ادا نہ ہوگا۔ چودہ پندرہ سو سال گزرنے کے بعد بھی قرآن پاک کی عظمت و شان و شوکت پر لکھنے والے تھکے نہیں کیونکہ یہ اپنی تمام تر شان و شوکت، رفعت و عظمت کے ساتھ ہر نکتہ سنج قاری کے لیے ہرپہلو، ہر زاویہ، ہر گھڑی پیش کرتا ہے اور جس قدر توجہ، دل چسپی، اشتیاق و رغبت کے ساتھ اس کا مطالعہ کیا جائے اسی قدر نیابت و رحمت کے دروازے کھلتے ہیں۔ ہرزمانے، ہر دور میں جستجو و تلاش کے نئے نکات اور فلسفے اُبھرتے رہتے ہیں۔ پھر بھی تشنگی برقرار رہتی ہے جو علمِ قرآن کی لامحدودیت کا بیّن ثبوت ہے۔ قرآنِ پاک کی اساسی سچائیاں ہرزمانے اور اس کے متبدل محرکات سے نمٹنے کی صلاحیتیں عطا کرتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی اس آخری کتاب قرآنِ پاک کی تاکید و تلقین اور تقاضا یہ ہے کہ ہم ہرقسم کے تفرقات سے بالاتر ہوکر صحیح معنوں میں مسلمان بنیں اور اپنی زندگی کے ہرشعبے میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے حضور سرِتسلیم و رضا خم کریں۔ ہماری عبادات، قربانی، زندگی و موت سب اس کے لیے، اسی کے احکام کی متابعت میں ہو۔ ہم اوّل تا آخر مسلمان ہوں۔ سچے مسلمان بن کر زندگی گزاریںاور اسی حیثیت سے مریں۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کا خاص خیال رکھیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں ہمیں جو تعلیمات سکھائی ہیں، ان کا مقصد بھی یہی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآنِ پاک میں فرماتا ہے:
اے ایمان لانے والو، تم پورے کے پورے اسلام میں آجائو اور شیطان کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمھارا کھلا دشمن ہے۔ (البقرہ ۲:۲۰۸)
اے رب، ہم پر صبر کا فیضان کر اور ہمیں دنیا سے اُٹھا تو اس حال میں کہ ہم تیرے فرماں بردار ہوں۔ (الاعراف۷:۱۲۶)
اے پروردگار! مجھے توفیق عطا فرما کہ تو نے جو احسانات مجھ پر اور میرے ماں باپ پر کیے ہیں ان کا شکر ادا کروں اور ایسے نیک کام کروں کہ تو خوش ہوجائے اور اپنی رحمت سے مجھے اپنے نیک بندوں میں داخل فرما۔ (النمل۲۷:۱۹)
اے میرے رب! ہم کو اپنا فرماں بردار بنائے رکھ، اور ہماری اولاد کو بھی اپنا فرماں بردار بنائے رکھ، ہمیں اپنی عبادت کے طریقے بتا اور ہمارے حال پر توجہ فرما۔ بے شک تو توجہ فرمانے مہربان ہے۔ (البقرہ۲:۱۲۸)
ہم نے انسان کو حکم دیا ہے کہ اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرے۔ (ابراھیم۱۴:۳۱)
قرآنِ پاک ہمیں ایسے اعلیٰ اخلاق و اوصاف کی تعلیم دیتا ہے جسے اپنا کر ہم دنیا و آخرت میں سرخ رو ہوسکتے ہیں۔ اور اوراقِ تاریخ شاہد ہیں کہ جب تک ہم قرآن کو مضبوطی سے تھامے رہے، اس کی تعلیمات پر سختی سے کاربند رہے، دنیا میں سربلند رہے، کامیاب و فاتحِ ارض رہے۔ پھر جب ہم نے قرآن سے ناتا توڑ لیا تو ہم دنیابھر میں حقیر وذلیل سمجھے جانے لگے۔ یہ صورت حال آج تک چلی آرہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی ایسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلے۔ اللہ تعالیٰ کی اس سنت میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔
قرآنِ پاک ہمیں اجتماعی عبادات نماز، روزہ، حج کے علاوہ ادایگیِ زکوٰۃ کا بھی حکم دیتا ہے۔ ضرورت سے زائد آمدن کو راہِ خدا میں خرچ کرنے کا حکم دیتا ہے، اور فرماتا ہے: ’’جب تک تم ان چیزوں میں سے جو تمھیں عزیز ہیں راہِ خدا میں خرچ نہ کرو گے، کبھی فلاح نہ پاسکو گے‘‘ (اٰل عمرٰن ۳:۹۲)۔ اگر اس حکمِ قرآنی پر عمل ہو رہا ہوتا تو ملک کی دولت چند ہاتھوں میں سمٹ کر نہ رہ گئی ہوتی۔ آدھی سے زیادہ آبادی خط ِافلاس سے نیچے زندگی نہ گزار رہی ہوتی۔ غربت اور افلاس کے مارے لوگ خودکشیاں نہ کر رہے ہوتے۔ زکوٰۃ، صدقہ و خیرات کی باقاعدگی صالح معاشرے کو جنم دیتی ہیں، جب کہ بے انتہا دولت اور بے انتہا غربت جرائم اور گناہ کی افزایش کرتے ہیں۔ سورۃ التکاثر میں ہمیں تنبیہہ کی گئی ہے کہ اے لوگو! تم کو دولت کی طلب نے غافل کردیا، حتیٰ کہ تم نے قبریں جادیکھیں۔ یعنی تم دولت کمانے، جمع کرنے کے لالچ میں اللہ تعالیٰ کے اور قبر کے خوف کو بھلا بیٹھے ___ یہ وہ سورئہ مبارکہ ہے جسے پڑھ کر معروف یہودی عالم لیوپولڈ وائس مسلمان ہوگئے اور محمداسد کہلانے لگے۔ اسلام کے بلند اصولوں کا یہ اثر تھا کہ ایک مرتبہ محمداسد نے اپنی تقریر میں کہا: ’’جب کوئی شخص مجھ سے پوچھتا ہے کہ میں مسلمان کیوں ہوا تو مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کسی چور، ڈاکو یا قاتل سے پوچھا جائے کہ تو نے اپنے گناہوں سے کیوں کنارہ کرلیا۔ اسلام تمام بُرائیوں اور گناہوں سے روکتا ہے اور نیکی و تقویٰ کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔
قرآنِ پاک کے نزدیک نیکی اور تقویٰ کا معیار یہ ہے: ’’نیکی یہ نہیں کہ تم مشرق اور مغرب کی طرف (قبلہ سمجھ کر) منہ کرلو۔ نیکی یہ ہے کہ لوگ اللہ تعالیٰ پر، فرشتوں پر، کتابِ الٰہی پر ایمان لائیں اور مالِ عزیز رکھنے کے باوجود رشتہ داروں، یتامیٰ، محتاجوں، مسافروں اور مانگنے والوں کو دیں اور گردنوں کے چھڑانے میں خرچ کریں۔ نماز پڑھیں، زکوٰۃ دیں، اور جب عہد کرلیں تو اسے پورا کریں۔ سختی اور تکلیف میں اور جنگ کے وقت ثابت قدم رہیں۔ یہی لوگ ہیں جو ایمان میں سچے ہیں اور یہی ہیں جو اللہ سے ڈرنے والے ہیں‘‘۔ (البقرہ۲:۱۷۷)
یہ ہیں صالح مسلمانوں کی نشانیاں، یہ قربت ِ الٰہی کے لیے ایک منشورِعام ہے۔ سورۂ علق کی آیات ۱۱ تا ۱۳ میں ارشادِ خداوندی ہے کہ کیسے انسان کی تخلیق ایک غلیظ قطرئہ آب اور خون کی پھٹکی سے ہوئی۔ پھر اللہ نے اسے علم سکھایا اور یہ کہ ہمیں احکاماتِ الٰہی کے خلاف نہیں چلنا چاہیے۔ موت یقینی ہے، ایک دن اپنے خالق کے پاس واپس جانا ہے اور اسے دنیا میں کیے ہرکام کا حساب دینا ہے۔
قرآن کے احکامات جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلمانوں کو دیے گئے ہیں، وہ آسان اور قابلِ عمل ہیں۔ قرآنِ پاک میں مسلمانوں سے ناممکنات کا تقاضا نہیں کیا گیا، نہ ایسے قواعد و ضوابط ہی وضع کیے گئے ہیں جن کی پیروی مشکل اور ناممکن ہو، جو زندگی کو کٹھن ، نری مصیبت اور مشکل بناکر رکھ دیں۔ اس نے انسانوں کے لیے ایک مکمل نظامِ حیات کو پیش کرتے ہوئے اعتدال کو اپنا نقطۂ خاص قرار دیا ہے۔ اس نے زندگی کے ہرشعبے کے لیے زریں راہنما اصول پیش کیے ہیں۔ وہ روحانی و دنیوی دونوں پہلوئوں پر محیط ہیں۔
قرآنِ پاک کی تلقین حلال کمائی، پاکیزہ غذا، حرام سے اجتناب، سادگی، طہارت و صفائی، لہوولعب کی زندگی سے پرہیز اور تقویٰ و پرہیزگاری ہے، اور یہ کہ راست بازی اختیار کی جائے۔ عورتوں سے بدسلوکی و بے انصافی نہ کی جائے۔ بیٹوں کو بیٹیوں پر ترجیح دے کر ان کی حق تلفی نہ کی جائے۔ غلاموں، ملازموں سے اپنے جیسا سلوک روا رکھا جائے۔ ذات، نسل، خاندان، قبیلے پر فخر نہ کیا جائے۔ نہ دولت کو چند ہاتھوں میں مرتکز رہنے دیا جائے کہ یہ ملکی اقتصادیات کے لیے تباہ کن ہے۔ چوری، ڈاکے، شراب نوشی، قماربازی، سودخوری، قتلِ ناحق، کمزوروں پر ظلم، فریب دہی و بددیانتی سے بچنا اور لوگوں کے حقوق ادا کرنے چاہییں۔
قبل از اسلام عرب بلکہ پوری دنیا کی تاریخ میں عورتوں کو وہ مقام نہیں دیا گیا جو اسلام نے دیا۔ قرآن کے ذریعے انھیں حقوقِ وراثت اور سماجی مرتبہ عطا کیا گیا۔ انھیں اور مردوں کو مساوی درجے سے نوازتے ہوئے ایک دوسرے کا لباس قرار دیا۔ نیکی کے کاموں میں دونوں کو یکساں اجر کی بشارت دی۔ بُرے کاموں پر دونوں کو وعید سنائی۔ عورتوں کو طلاق اور خلع کا حق دیا ۔ بیوائوں کو عقدِثانی کی اجازت دی۔ یہ حقوق انھیں گذشتہ تمام مذاہب میں حاصل نہیں تھے۔ قرآنِ پاک نے عورت کا مرتبہ یہ ہرگز نہیں رکھا کہ وہ محض مردوں کی جنسی تسکین کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ اسلام نے اس کا مہر کا حق تسلیم کرکے بھی اس کی معاشی و سماجی حیثیت کو بہتر اور آزاد بنانے کے لیے اقدامات کیے۔
غرض یہ کہ قرآنِ پاک نے اس دنیا میں جو فکری و عملی انقلاب پیدا کیا ہے، وہ بے نظیر و بے مثل ہے۔ باقی جو انقلاب فرانس، روس، چین یا دوسرے ملکوں کے ہیں، وہ سب اُدھورے اور خون ریز ہیں جو کبھی اپنے مقاصد کی تکمیل نہیں کرپائے، نہ اپنے لیڈروں کے بلندبانگ دعوئوں میں پورے اُترے ہیں۔ کیونکہ یہ بے روح اور خدائی رہنمائی و ہدایت سے خالی تھے۔
اللہ تعالیٰ نے ہم مسلمانوں کو سرزمینِ پاکستان میں غلبہ اور اقتدار دیا ہے۔ ہم آزاد ہیں کہ اپنے ملک میں قرآنی احکامات اور قوانین نافذ کریں ؎
قرآن میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلماں
اللہ کرے تجھ کو عطا جدتِ کردار
ہم خواہ کسی مسلک سے تعلق رکھتے ہوں ہماری رہنما اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ اور آنحضرتؐ کی پیش کردہ کتاب قرآنِ پاک ہی ہونا چاہیے۔ ہمارا خدا ایک، رسولؐ ایک ،کتاب ایک ہے۔ ہم ایک ہی کعبے کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے ہیں، لہٰذا ہمیں باہم ایک ہوجانا چاہیے، ملت ِ واحدہ بن جانا چاہیے۔ قرآنی تعلیمات اور اصولوں پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔ اسی طرح ہی ہم اپنے دشمنوں کے لیے بنیانِ مرصوص اور دنیا میں سربلند قوم بن سکیں گے۔