ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی


بھارتی کانگریس پارٹی کے صدر راہل گاندھی نے اپنے دورۂ یورپ میں انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسٹرے ٹیجک اسٹڈیز، لندن میں بھارتی ہندو انتہاپسند تنظیم ’راشٹریہ سویم سیوک سنگھ‘ (آرایس ایس) کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا: ’’آر ایس ایس ہندستان کا نیچر بدلنا چاہتی ہے۔ _ وہ ملک پر ایک مخصوص نظریہ تھوپنے کی خواہاں ہے۔ _ وہ نظریہ ایسا ہی ہے جیسا عرب دنیا میں اخوان المسلمون کا نظریہ ہے _‘‘۔

کانگریسی صدر کے اس بیان سے اخوان المسلمون کے بارے میں پیدا ہونے والی غلط فہمی کے ازالے کے لیے درج ذیل نکات قابلِ غور ہیں:

۱-  عصرِحاضر کے ہندستان میں جن لوگوں نے ہندو مذہب اور ہندو تہذیب کے احیا کی کوششیں کی ہیں، ان میں راجا رام موہن رائے ، سوامی دیانند سرسوتی ، ساورکر ، لالہ لاجپت رائے،  سوامی شردھانند اور مدن موہن مالویہ جیسے انتہاپسندانہ اور نسل پرستانہ سوچ کے حاملین خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ _ ان افراد نے مختلف تنظیمیں قائم کیں اور ان کے تحت اپنی سرگرمیاں انجام دیں ۔ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) نامی تنظیم بھی ہندو احیا پرستی کی عَلَم بردار ہے۔ _ اس کی تاسیس ۱۹۲۵ء میں ہیڈگِوار نے کی تھی۔ _ اس کے دوسرے سرچالک گول والکر تھے۔ _ انھوں نے۱۹۴۰ء سے ۱۹۷۳ـء تک اس کی سربراہی کی اور اپنی تحریروں کے ذریعے اس کی فکری بنیادیں استوار کیں۔ ان کی کتب: We or our Nationhood Defined اور Bunch of Thoughts میں وہ افکار تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں، جن پر بعد میں آر ایس ایس کی نظریاتی بنیادیں استوار کی گئیں _۔

۲- آر ایس ایس کا نظریۂ قومیت یہ ہے کہ: ’’کوئی شخص محض ہندستان میں پیدا ہونے سے ہندستانی قومیت کا حصہ نہیں بن سکتا ، بلکہ قومیت کے عناصر ترکیبی میں نسل ، پیدایش ، کلچر ، زبان اور جغرافیے کے ساتھ ساتھ مذہب بھی شامل ہے‘‘۔ اس کے نزدیک: ’’ملک میں ہندوؤں کے مفاد کے لیے کام کرنا فرقہ پرستی نہیں ، بلکہ قومی کام ہے _‘‘۔

۳-آر ایس ایس کے نزدیک: ’’ہندستان کی اکثریت ہندوؤں کی ہے ، اس لیے اسے ہندو راشٹر ہونا چاہیے۔ _ جو لوگ ہندو قومی ریاست کے تصور سے خود کو الگ رکھتے ہیں، وہ ملک دشمن ہیں‘‘۔

۴- آر ایس ایس کا کہنا ہے کہ: ’’بھارت میں رہنے والی اقلیتوں کو اپنی تہذیبی شناخت مکمل طور پر ختم کرلینی چاہیے اور خود کو اکثریتی فرقے کے کلچر میں ضم کردینا چاہیے ‘‘۔

۵-آر ایس ایس، ہندو راشٹر [ہندو قوم]کی تعمیر ’منو سمرتی‘ [منو قوانین]کی بنیاد پر کرنا چاہتی ہے، _ جس کے تحت انسانی معاشرے کو چار طبقات میں تقسیم کیا گیا ہے۔ یہ تصوّر آج خود ہندوئوں کے بڑے طبقے کے نزدیک قابلِ قبول نہیں ہے۔ اس لیے اس سے توجہ ہٹانے کے لیے اس انتہا پسند تنظیم نے اپنی آئیڈیالوجی کی بنیاد مسلم دشمنی پر رکھی ہے ۔ اس کے نزدیک: ’’مسلمان بیرونی حملہ آور ہیں ، جنھوں نے ملک کو لوٹا ہے اور لالچ اور جبر کے ذریعے یہاں کی آبادی کے ایک حصے کو مسلمان بنایا ہے۔ اس لیے ان کی 'شدھی اور 'گھر واپسی کرانی چاہیے‘‘۔ _ وہ کہتی ہے کہ: ’’مسلمانوں کے لیے یہاں دو ہی راستے ہیں کہ یا تو خود کو ہندو تہذیب میں ضم کرلیں ، یا پھر اکثریتی ہندو طبقے کے رحم و کرم پر زندہ رہیں‘‘۔

۶-آر ایس ایس، جرمنی میں ہٹلر کے ہاتھوں یہودیوں کے قتلِ عام کو تحسین کی نظر سے دیکھتی اور کہتی ہے کہ اس جرمن نسل پرستی میں بھارتی ہندوئوں کے لیے بڑی رہ نمائی ہے _۔

۷- اگر کوئی شخص آر ایس ایس کا موازنہ اخوان المسلمون سے کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اخوان کے بارے میں کچھ نہیں جانتا اور اخوان کے افکار و نظریات ، اس کی سرگرمیوں اور تاریخ سے اسے ادنیٰ سی بھی واقفیت نہیں ہے _۔

۸- اخوان المسلمون کی تاسیس ۱۹۲۸ء میں مصر میں ہوئی۔ _ اس زمانے میں عرب قومیت کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا ۔ فرعونی تہذیب کے احیا کی باتیں ہو رہی تھیں ، آزادی نسواں کے نام پر اباحیت و عریانیت کو ہوا دی جا رہی تھی۔ اس فضا میں امام حسن البنا نے اصلاحِ معاشرہ کی جدوجہد کی اور مغربی تہذیب کے بجاے اسلامی تہذیب کی بالادستی کی دعوت دی _۔

۹- اخوان کی تحریک ۱۹۳۹ء تک خاموش اصلاحی جدوجہد تک محدود رہی اور اس کی دعوت کو خوب فروغ ہوا۔ لیکن دوسرے مرحلے میں جب انھوں نے سیاسی میدان میں قدم رکھا اور انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا، تب اس کی بے پناہ مقبولیت کی وجہ سے وہ برطانوی سامراج کی کٹھ پتلی مصری حکومت کی نظر میں کھٹکنے لگی۔ _۱۹۴۸ء میں اخوان نے جنگِ فلسطین میں حصہ لیا اور  خوب دادِ شجاعت دی تو عالمی سطح پر باطل کے ایوانوں میں زلزلہ آگیا۔ _ انگریزوں نے ان کی سرکوبی کے لیے مصری حکومت پر دباؤ ڈالا _۔ تنظیم پر پابندی عائد کردی گئی اور اس کے ارکان کو داخلِ زنداں کردیا گیا ۔ ۱۲فروری ۱۹۴۹ء کو امام حسن البنا کو قاہرہ میں شہید کردیا گیا۔۱۹۵۲ء میں مصر کے فوجی آمر جمال عبدالناصر نے اپنے اُوپر قاتلانہ حملے کا الزام اخوان پر ڈال کر ان کے خلاف داروگیر کی زبردست مہم چھیڑ دی۔ ۱۹۵۴ء میں ان کے چھے رہ نماؤں کو پھانسی دے دی گئی ، جن میں سے ایک جسٹس عبدالقادر عودہ تھے۔ _ پھر ۱۹۶۶ء میں اس کے چار رہ نماؤں کو تختۂ دار پر چڑھایا گیا ، جن میں سے ایک مفسرِقرآن اور عربی کے منفرد ادیب سیّد قطب شہید بھی تھے۔ پھر مختلف مواقع پر اخوان کو خوب مشقِ ستم بنایا گیا۔اب بھی چند سال سے وہ سخت آزمایش میں مبتلا ہیں۔

۱۰- اخوان کو آر ایس ایس جیسی تنگ نظر، خونی فرقہ پرست اور دہشت گرد تنظیم سے تشبیہ دینا بڑی نادانی کی بات ہے۔ _ اخوان نے قومیت کے مروّجہ نظریے کے برعکس عالمی اخوت کا تصور پیش کیا _۔ انھوں نے حکومتوں سے اصلاح کا مطالبہ کیا اور اسلامی نظام قائم کرنے کی بات کی، لیکن ملک کے دیگر مذہبی یا اقلیتی گروہوں کے بارے میں ہرگز منافرت نہیں پھیلائی _۔

۱۱- افسوس کہ اخوان کے بارے میں عالمی سطح پر من گھڑت غلط فہمیاں پھیلائی گئیں، جھوٹے اور بے بنیاد الزامات لگائے گئے اور بے جا طور پر اسے ایک دہشت گرد تنظیم کہا گیا۔ یہ سلسلہ اب بھی برابر جاری ہے۔ _ دشمنوں سے کیا گِلہ ، افسوس کہ بعض مسلم حکومتیں، مسلم جماعتیں اور مسلم شخصیات بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں رہیں۔

۱۲- اخوان نے کبھی طاقت ، جبر اور تشدد کا راستہ نہیں اختیار کیا اور زیرِ زمین سرگرمیاں نہیں انجام دیں ، بلکہ ہمیشہ پُر امن جدوجہد کی اور کھلے عام اپنی سرگرمیاں انجام دیں۔ اس کے باوجود ان پر الزام لگایا جاتا ہے کہ یہ خارجی اور باغی ہیں ۔

کتنی عجیب بات ہے کہ جو تنظیم خود ریاستی اور گروہی دہشت گردی کا شکار ہوئی ہو ، جس کے لاکھوں ارکان و وابستگان کو جیلوں میں ٹھونس کر بدترین مظالم کا نشانہ بنایا گیا ہو، اور وقفوں وقفوں سے جس کی لیڈرشپ کو تختۂ دار پر لٹکادیا گیا ہو ، خود اس پر دہشت گرد ہونے کا لیبل چسپاں کردیا جائے _۔

۱۳- اخوان المسلمون مصر کی تنظیم ہے۔ _ لیکن معلوم نہیں کیوں ، کچھ عرصے سے بعض بھارتی حضرات اخوان کے خلاف مہم چھیڑے ہوئے ہیں۔ _اس کے سربراہوں کو دہشت گرد قرار دیتے اور سوشل میڈیا پر ان کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کرتے ہیں۔

اگر الزام تراشوں کی یہ تمام باتیں درست مان بھی لی جائیں تو یہ سوال پھر بھی باقی ہے کہ :

  •   بھارت میں اخوان المسلمون کو رد کرنے کی کیا ضرورت پیش آگئی؟
  • ایسا تو نہیں ہے کہ عالمی منظر نامے میں 'اخوان المسلمون ' کا رد کمائی کا ذریعہ بن گیا ہے؟
  •  کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ خود عالمِ عرب میں اخوان کے خلاف چند حکومتوں کا معاندانہ رویہ، بھارتی انتہاپسندوں کا راستہ کشادہ کرے گا۔
  •  کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ اخوان کے خلاف جتنی مبالغہ آمیز داستان سرائی اور دھواں دھار تقریریں کی جائیں گی، اس کی بنیاد پر بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لیے فضا کو زہرآلود کرنا آسان ہوگا۔

اسلامی نظامِ خاندان پر جو اعتراضات کیے جاتے ہیں ان میں یہ اعتراض بہت نمایاں ہے کہ اس میں مرد کا غلبہ پایا جاتا ہے اور عورت کو کم تر حیثیت دی گئی ہے۔ عورت رشتۂ نکاح میں بندھنے کے بعد ہر طرح سے اپنے شوہر پر منحصر اور اس کی دست نگر بن جاتی ہے۔ شوہر کو اس پر حاکمانہ اختیارات حاصل ہوجاتے ہیں، وہ جس طرح چاہتا ہے اس پر حکومت کرتا، اسے مشقت کی چکّی میں پیستا اور اس پر ہر طرح کے ظلم و ستم کو روا رکھتا ہے، مگر وہ کسی صورت میں اس پر صداے احتجاج بلند کرسکتی ہے، نہ اس سے گلو خلاصی حاصل کرسکتی ہے۔

اسلام میں عورت کی مظلومیت و محکومیت کی یہ تصویر بہ ظاہر بڑی بھیانک معلوم ہوتی ہے، لیکن حقیقت سے اس کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ یہ اعتراضات خاندان کے بارے میں اسلامی تعلیمات اور ان کی حکمتوں کو صحیح پس منظر میں نہ دیکھنے کا نتیجہ ہیں۔ سطور ذیل میں ان کا جائزہ لینے اور اسلامی نظامِ خاندان میں مرد او رعورت کی صحیح پوزیشن واضح کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

اسلام کا خاندانی نظام: چند امتیازات

اسلام نے مرد اور عورت کے درمیان تمام معاملات میں مساوات برتی ہے اور ان کے درمیان کسی طرح کی تفریق نہیں کی ہے۔ اس نے عورت کو مرد کی طرح تمام معاشرتی و تمدنی حقوق عطا کیے ہیں، مثلاً اسے حصولِ تعلیم، شوہر کے انتخاب، ناپسندیدہ شوہر سے گلو خلاصی، مہر و نفقہ اور  مال و جایداد کی ملکیت اور معاشی جدّو جہد کا حق حاصل ہے۔ اسے معاشرے میں مرد کی طرح ، بلکہ بعض حیثیتوں سے مرد سے بڑھ کر عزت و احترام کا مقام حاصل ہے۔ الغرض اسلام نے عورت کو جن حقوق سے بہرہ ور کیا ہے ، مغربی معاشروں میں وہ حقوق عورت کو صدیوں بعد اور طویل کش مکش اور جدّو جہد کے نتیجے میں حاصل ہوسکے ہیں۔ لیکن مساوات کا مطلب بہرحال دونوں کے کاموں کی یکسانیت نہیں ہے۔ اس نے دونوں کے درمیان کاموں کی منصفانہ تقسیم کی ہے اور دونوں کے  دائرۂ کار الگ الگ رکھے ہیں۔ اس سلسلے میں اس نے دونوں کی فطری صلاحیتوں کی بھرپور رعایت کی ہے۔ عورت کے ذمے فطرت نے بچوں کی پیدایش و پرورش کا عظیم الشان کام سونپا ہے۔ اسی لیے اسلام نے عورت کو گھر کے اندر کے کاموں کی ذمہ داری دی ہے اور اس کی اہم مصروفیات کو دیکھتے ہوئے اسے وسائلِ معاش کی فراہمی سے آزاد رکھا ہے۔ مرد کے ذمے اسلام نے گھر سے باہر کے کام رکھے ہیں اور اسے پابند کیا ہے کہ وہ عورت کی معاشی کفالت کرے اور اسے تحفظ فراہم کرے۔ خاندان کا نظام صحیح ڈھنگ سے چلنے کے لیے کاموں کی تقسیم ضروری تھی۔ اگر ہرشخص ہرکام انجام دینے لگے تو کوئی بھی نظام صحیح طریقے سے نہیں چل سکتا۔ بچوں کی پیدایش و پرورش کا کام صرف عورت ہی انجام دیتی ہے۔ اس کے ساتھ بڑی زیادتی ہوتی کہ یہ کام بھی اس سے متعلق رہتے، مزید گھر سے باہر کے کاموں کا بھی اسے پابند بنادیا جاتا۔ ۱؎

مرد کی اضافی ذمہ داری- خاندان کی سربراھی

مرد اور عورت دونوں کے میدانِ کار کی وضاحت اور ذمہ داریوں کی تعیین کے ساتھ اسلام نے مرد پر ایک اضافی ذمہ داری عائد کی ہے اور وہ ہے خاندان کی سربراہی ۔ کسی بھی ادارے (Institution) کے منظم انداز میں سرگرم عمل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس کا ایک سربراہ ہو، جو اس کے تمام کاموں کی نگرانی کرے، اس کے نظم و ضبط کو درست اور چاق چوبند رکھے، اس سے وابستہ تمام افراد کی سرگرمیوں پر نظر رکھے۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ اس کے ماتحتوں اور اس کے درمیان محبت و خیر خواہی پر مبنی ربطِ باہم پایا جائے۔ وہ ان کے حقوق پہچانے اور ان کو تحفظ فراہم کرے اور وہ لوگ بھی پوری خوش دلی کے ساتھ اس کے احکام بجا لائیں اور ان سے سرتابی نہ کریں۔ یہ ذمہ داری کسی ایک فرد ہی کو دی جاسکتی ہے۔ اگر یکساں حقوق و اختیارات کے ساتھ ایک سے زائد افراد کو کسی ادارے کی سربراہی سونپ دی جائے اور ہر ایک اپنی آزاد مرضی سے اس ادارے کو چلانا چاہے تو اس کے نظم کا درہم برہم ہوجانا یقینی ہے۔ مرد اور عورت نظامِ خاندان کے دو بنیادی ارکان ہیں۔ اس کی سربراہی ان میں سے کسی ایک ہی کو دی جاسکتی ہے۔ اسلام نے یہ ذمہ داری مرد کے حوالے کی ہے (ایضاً)۔ قرآن میں اسی کو ’درجہ‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْْھِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَیْْھِنَّ دَرَجَۃٌ  ط (البقرہ ۲:۲۲۸) عورتوں کے لیے بھی معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں، البتہ مردوں کو ان پر ایک (برتر) درجہ حاصل ہے۔

اسی ذمہ داری کی بنا پر مرد کو قرآن میں ’قوّام‘ (سربراہ) کہا گیا ہے:

اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَبِمَآ اَنفَقُواْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ ط (النسائ۴:۳۴) مرد عورتوں کے سربراہ ہیں، اس سبب سے کہ اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس سبب سے کہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔

لفظ ’قـوّام‘ کی لغوی تشریح

اردو زبان میں بعض مترجمینِ قرآن نے لفظ ’قوّام‘ کو جوں کا توں باقی رکھا ہے۔ بعض نے اس کا ترجمہ ’حاکم‘ ، ’افسر‘ ، ’سرپرست‘ یا ’سربراہ‘ کیا ہے، تاہم اس سے اس کے پورے مفہوم کی وضاحت نہیں ہوپاتی۔ عربی زبان میں قام کا ایک معنٰی نگرانی و خبر گیری ہے۔ قَامَ عَلَی الْاَمْر: کسی کام میں مشغول ہونا، کسی کام کو سنبھالنا، قَامَ عَلٰٓی اَھْلِہٖ: اہل و عیال کی دیکھ بھال کرنا، کفالت کرنا، خرچ اٹھانا۔

مولانا امین احسن اصلاحی فرماتے ہیں: ’’عربی میں ’قام‘ کے بعد ’علی‘ آتا ہے تو اس کے اندر نگرانی ، محافظت، کفالت اور تولیت کا مضمون پیدا ہوجاتا ہے۔ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ میں بالاتری کا مفہوم بھی ہے اور کفالت و تولیت کا بھی۔ اور یہ دونوں باتیں کچھ لازم و ملزوم سی ہیں‘‘۔ ۲؎

ماہرین لغت کے اقوال سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ علامہ فیروز آبادی فرماتے ہیں: اس کا مطلب ہے مرد کا عورت کی کفالت کرنا اور اس کی دیکھ بھال کرنا۔ (مجدالدین الفیروز آبادی، القاموس المحیط، دارالفکر ،بیروت، ۱۹۹۵ئ، ص۴۷۴)

اس کی شرح میں علامہ زبیدیؒ نے لکھا ہے: ’’مرد کا عورت کی کفالت کرتے ہوئے اس کے کام انجام دینا۔ ایسا کرنے والے کو قوّام کہا جاتا ہے‘‘۔ (محمد مرتضٰی الزبیدی، تاج العروس، دارلیبیا للنشر والتوزیع، بنغاری)

لسان العرب میں ہے: ’’مرد نے عورت کی کفالت کی۔ ایسا کرنے والے کو قوّام کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: الرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ، یعنی مرد عورتوں کے امور کے  ذمہ دار ہیں، ان کے معاملات میں دل چسپی لینے والے ہیں‘‘۔(ابن منظور، لسان العرب، دارصادر بیروت، ۱۲/۵۰۳)

’قوّام‘ مبالغے کا صیغہ ہے۔ اس میں کسی کام کو بہتر سے بہتر طریقے سے انجام دینے اور خوب اچھی طرح اس کی نگرانی و محافظت کرنے کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ ابوحیان اندلسی کہتے ہیں: ’’قوّام مبالغے کا صیغہ ہے، اس کے لیے قیّام اور قیّم کے الفاظ بھی مستعمل ہیں۔ اس کا معنٰی ہے وہ شخص جو کسی کام کو انجام دے اور اس کی محافظت کرے‘‘۔۳؎

مفسّرین کرام کی تصریحات

مفسرین کرام نے بھی اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ مردوں کے عورتوں پر قوّام ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ عورتوں کی تعلیم و تربیت پر توجہ دیتے ہیں، ان کے معاملات کی نگرانی کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ اور شوہروں کے جو حقوق عورتوں پر واجب ہیں ان کی ادایگی کی تاکید کرتے ہیں اور اس معاملے میں اگر عورتوں سے کوئی کوتاہی ہوتی ہے تو ان کی گرفت کرتے ہیں، جس طرح کوئی  حکمران اپنی رعایا کی دیکھ بھال کرتا ہے اسی طرح وہ عورتوں کی دیکھ بھال کرتے اور ان کے حقوق اور مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ چند تصریحات ملاحظہ ہوں۔

ابوجعفر طبری (م۳۱۰ھ) فرماتے ہیں: ’’وہ اپنی عورتوں کی تادیب کا کام انجام دیتے ہیں اور اللہ نے ان پر اپنے اور ان کے شوہروں کے جو حقوق عائد کیے ہیں، ان کی ادایگی میں کوتاہی پر ان کی گرفت کرتے ہیں‘‘۔۴؎

یہی تشریح الفاظ کے فرق کے ساتھ ماوردی (م: ۴۵۰ھ) بغوی (م: ۵۱۰ھ) خازن (م:۷۴۱ھ) اور سیوطی (م:۹۱۱ھ) نے بھی کی ہے۔ ۵؎

زمخشری (م:۵۳۸ھ) نے لکھا ہے: ’’وہ انھیں (اچھے کاموں کا) حکم دیتے اور (برے کاموں سے ) روکتے ہیں۔ اور ان کے ساتھ اس طرح معاملہ کرتے ہیں جس طرح حکمران رعایا کے ساتھ کرتے ہیں‘‘۔۶؎

اسی سے ملتی جلتی تشریح بیضاوی (م: ۶۸۵ھ) نسفی (م: ۷۰۱ھ) بقاعی (م:۸۸۵ھ) ابوالسعود (م:۹۴۰ھ) اور آلوسی (م:۱۲۷۰ھ) نے بھی کی ہے۔ ۷؎

امام رازی (م: ۶۰۶ھ) فرماتے ہیں: ’’یعنی انھیں عورتوں کو ادب سکھانے اور کوتاہی کی صورت میں ان کی گرفت کرنے کی ذمہ داری دی گئی ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے مرد کو عورت پر حکمران بنایا ہے، اس پر (یعنی عورت پر) اس کا (یعنی مرد کا ) حکم چلتا ہے‘‘۔۸؎ 

علامہ ابنِ کثیرؒ (م۷۷۴ھ) نے لکھا ہے: ’’عورت پر مرد کے قیّم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس کا سردار، اس کا بڑا ، اس پر حکمران اور کجی کی صورت میں اسے ادب سکھانے والا ہے‘‘۔۹؎

مرد کو قوّام بنائے جانے کے اسباب

قرآن کریم کی مذکورہ بالا آیات میں مردوں کو عورتوں پر قوّام بنائے جانے کے تذکرے کے ساتھ وہ اسباب بھی بیان کردیے گئے ہیں جن کی بنا پر انھیں یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ اس سلسلے میں دو اسباب مذکور ہیں۔ مفسرین کے بیان کے مطابق پہلا سبب وہبی ہے اور دوسرا کسبی۔ ۱۰؎

  • وھبی فضیلت: پہلے سبب کے ضمن میں قرآن نے بہ طریق اجمال بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بعض پہلوؤں سے مردوں کو عورتوں پر فوقیت بخشی ہے۔

بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَھُمْ عَلَی بَعْضٍ (النسائ۴:۳۴) اس سبب سے کہ اللہ نے ان میں سے ایک کو دو سرے پر فضیلت دی ہے۔

آیت کے اس ٹکڑے میں اگرچہ صراحت نہیں ہے کہ کس کو کس پر فضیلت حاصل ہے، لیکن سیاقِ کلام سے واضح ہے کہ یہاں مقصود مردوں کی عورتوں پر فضیلت کا بیان ہے۔ پھر یہ فضیلت ایک جنس کی دوسری جنس پر ہے۔ ورنہ افراد کے اعتبار سے دیکھا جائے تو طبقۂ اناث میں بعض افراد ایسے ہوسکتے ہیں جنھیں بعض مردوں پر فضیلت حاصل ہو (ابوحیان، ۳/۳۳۵)۔ مزید یہ کہ یہاں صرف وہ فضیلت زیرِ بحث ہے جس سے مردوں کے لیے قوّامیت کا استحقاق ثابت ہوتا ہو۔ (اصلاحی،تدبرقرآن، ۲/۲۹۱-۲۹۲)

اس کی وضاحت کرتے ہوئے مولانا مودودیؒ نے لکھا ہے:’’یہاں فضیلت بہ معنی شرف او رکرامت اور عزّت نہیں ہے، جیسا کہ ایک عام اردو خواں آدمی اس لفظ کا مطلب لے گا، بلکہ یہاں یہ لفظ اس معنیٰ میں ہے کہ ان میں سے ایک صنف (یعنی مرد) کو اللہ نے طبعاً بعض ایسی خصوصیات اور قوتیں عطا کی ہیں جو دوسری صنف (یعنی عورت) کو نہیں دیں ، یا اس سے کم دی ہیں۔ اس بنا پر خاندانی نظام میں مرد ہی قوّام ہونے کی اہلیت رکھتا ہے او رعورت فطرتاً ایسی بنائی گئی ہے کہ اسے خاندانی زندگی میں مرد کی حفاظت و خبر گیری کے تحت رہنا چاہیے‘‘۔ (تفھیم القرآن، ۱/۳۴۹)

مفسرین کرام نے عورتوں پر مردوں کی فضیلت کے بہت سے وجوہ بیان کیے ہیں۔ مثلاً ابنِ کثیر نے نبوت، حکمرانی اور قضا کا تذکرہ کیا ہے (ابن کثیر، ۱/۶۴۱)۔ جصاص ، ماوردی،   ابنِ العربی، بقاعی، سیوطی وغیرہ نے صرف عقل و راے یا اس کے ساتھ جسمانی قوت، کمالِ دین اور ولایت کا تذکرہ کیا ہے۔ ۱۱؎

امام رازیؒ فرماتے ہیں:’’عورتوں پر مردوں کو بہت سی وجوہ سے فضیلت حاصل ہے۔ ان میں سے بعض حقیقی اوصاف ہیں اور بعض شرعی احکام۔ جہاں تک حقیقی اوصاف کا تعلق ہے تو ان کی بنیاد دو چیزوں پر ہے: علم اور قدرت ۔ اس میں شک نہیں کہ مردوں کی عقل اور ان کا علم بڑھا ہوا ہوتا ہے اور اس میں بھی شک نہیں کہ انھیں پُرمشقت کاموں کو انجام دینے کی بھرپور قدرت حاصل ہوتی ہے۔ انھی دو اسباب سے مردوں کو عورتوں پر عقل ، دور اندیشی ، قوت، تحقیق و تصنیف، شہ سواری، تیراندازی کے معاملے میں فضیلت حاصل ہے اور یہ کہ ان میں انبیا اور علما ہوئے ہیں، وہ امامتِ کبریٰ اور امامتِ صغریٰ کے مناصب پر فائز ہوتے ہیں۔ جہاد، اذان، خطبہ، اعتکاف اور حدود و قصاص میں شہادت کے معاملے میں بالاتفاق اور امام شافعی کے نزدیک نکاح کے معاملے میں بھی انھیں فضیلت حاصل ہے۔ میراث میں ان کا حصہ زیادہ ہوتا ہے۔ قتلِ عمد اور قتلِ خطا میں وہ دیت       ادا کرتے ہیں۔ نکاح میں انھیں ولایت حاصل ہے۔ طلاق، رجعت اور تعدّد ازدواج کا بھی انھیں حق ہے۔ اولاد ان کی طرف منسوب ہوتی ہے۔ یہ تمام چیزیں عورتوں پر مردوں کی فضیلت پر دلالت کرتی ہیں‘‘۔ (رازی، ۱۰/۸۰)

بہت سے مفسرین نے مذکورہ چیزوں کے ساتھ بعض اور وجوہِ فضیلت بیان کیے ہیں، مثلاً جمعہ و جماعت میں شرکت، تجارت، جنگوں میں حصہ لینا۔ انھوں نے بعض ایسی چیزوں کا بھی تذکرہ کیا ہے جن کا کسی طرح وجوہِ فضیلت میں شمار نہیں ہوسکتا، مثلاً چہرہ کھلا رہنا، عمامہ باندھنا، داڑھی ہونا۔ ۱۲؎

شیخ محمد عبدہٗ  ؒ اور ان کے شاگرد رشید علامہ رشید رضاؒ نے اس موضوع پر بہت اچھی بحث کی ہے۔ یہاں اس کا خلاصہ پیش کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے: شیخ محمد عبدہٗ  ؒ فرماتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اس نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ اس کے بجائے اگر وہ یہ کہتا کہ اس نے مردوں کو عورتوں پر فضیلت دی ہے تو بات مختصر بھی ہوتی اور زیادہ واضح بھی۔ لیکن اس کے بجاے اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ مرد اور عورت کا باہمی تعلق ویسا ہی ہے جیسا ایک شخص کے بدن کے مختلف اعضا کا آپس میں ہوتا ہے۔ مرد بمنزلۂ سر کے ہے اور عورت بمنزلۂ بدن کے ۔ فضیلت کے جو اسباب قرآن نے بیان کیے ہیں ان میں سے ایک فطری ہے اور دوسرا کسبی۔ فطری سبب یہ ہے کہ مرد کا مزاج زیادہ قوی اور مکمل ہوتا ہے۔ ساتھ ہی اس کی عقل زیادہ پختہ ہوتی ہے اور وہ معاملات کے تمام پہلوؤں پر ٹھیک طریقے سے غور و فکر کرسکتا ہے۔ مزید برآں کسبی اعمال میں بھی اسے کمال حاصل ہوتا ہے۔ مردوں کو کمانے، ایجاد و اختراع کرنے اور معاملات میں تصرف کرنے پر زیادہ قدرت ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے انھیں مکلّف قرار دیا گیا ہے کہ وہ عورتوں پر خرچ کریں، انھیں تحفّظ فراہم کریں اور خاندانی معاشرے کی عمومی سربراہی کریں، اس لیے کہ ضروری ہے کہ ہر معاشرے کا ایک سربراہ ہو جس سے عام مصالح کے سلسلے میں رجوع کیا جائے‘‘۔ (رشید رضا، ۵/۶۹-۷۰)

اسی سیاق میں علامہ رشید رضاؒ بعض نکتوں کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’مردوں کی عورتوں پر فضیلت کا تذکرہ صراحت سے کرنے کے بجائے یہ تعبیر اختیار کی گئی ہے کہ اللہ نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ اس سے یہ اشارہ کرنا مقصود ہے کہ مرد اور عورت دونوں ایک بدن کے مختلف اعضا کے مثل ہیں۔ اس لیے نہ مرد کے لیے مناسب ہے کہ وہ اپنی طاقت کے نشے میں عورت پر ظلم کرے اور نہ عورت کو زیب دیتا ہے کہ اس کی فضیلت کو بار سمجھے اور اس چیز کو اپنی ناقدری گردانے، اس لیے کہ جس طرح کسی شخص کے لیے یہ عار کی بات نہیں ہے کہ اس کا سر ہاتھ سے یا دل معدہ سے افضل ہو، اس لیے کہ بعض اعضا کا دیگر اعضا سے افضل ہونا پورے بدن کے مفاد میں ہوتا ہے، جب کہ اس سے کسی عضو کو کوئی ضرر لاحق نہیں ہوتا، اسی طرح کمانے اور تحفظ دینے کی قوت و طاقت رکھنے کے معاملے میں عورت پر مرد کی فضیلت میں حکمت پائی جاتی ہے۔ کیوںکہ اس طرح عورت با آسانی اپنے فطری وظائف: حمل، ولادت اور بچوں کی تربیت وغیرہ انجام دیتی ہے۔ وہ اپنے گوشۂ عافیت میںبے خوف و خطر رہتی ہے اور وسائلِ معاش فراہم کرنے کی فکر سے بھی آزاد رہتی ہے۔ فضیلت کی غیر واضح تعبیر اختیار کرنے میں ایک دوسری حکمت بھی پائی جاتی ہے۔ اس سے یہ اشارہ مقصود ہے کہ یہ فضیلت ایک جنس کی دوسری جنس پر ہے، مردوں کے تمام افراد کی عورتوں کے تمام افراد پر نہیں ہے۔ اس لیے کہ بہت سی عورتیں ایسی ہوسکتی ہیں جو علم، عمل، بلکہ جسمانی قوت اور کمانے کی صلاحیت میں اپنے شوہروں سے افضل ہوں‘‘۔ (ایضاً، ۵/ ۶۸-۶۹)

آگے علامہ رشید رضاؒ نے مفسرین کی بیان کردہ وجوہِ فضیلت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’زیادہ تر مشہور مفسرین نے وجوہِ فضیلت میں نبوت، امامتِ کبریٰ، امامتِ صغریٰ، اذان، اقامت اور خطبۂ جمعہ وغیرہ کا تذکرہ کیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ مردوں کو حاصل یہ امتیازات ان کے کمالِ استعداد پر مبنی ہیں، لیکن یہ وہ اسباب نہیں ہیں جن کی بناپر مردوں کو عورتوں کے معاملات کی سربراہی تفویض کی گئی ہے۔ اس لیے کہ نبوت ایک اختصاص ہے جس پر اس طرح کا حکم مبنی نہیں ہوسکتا اور نہ ہر مرد کے ہر عورت سے افضل ہونے کی یہ دلیل دی جاسکتی ہے کہ تمام انبیا مرد تھے۔ یہی حال امامت و خطابت اور دیگر امور کا ہے ، جن کی صرف مردوں کے لیے مشروعیت کا تذکرہ مفسرین نے کیا ہے۔ اگر شریعت نے عورتوں کو جمعہ اور حج میں خطبہ دینے ، اذان دینے اور نماز کی امامت کرنے کی اجازت دی ہوتی تو بھی یہ امر اس چیز میں مانع نہ ہوتا کہ مرد بہ تقاضائے فطرت عورتوں کے قوّام ہوں۔ لیکن اکثر مفسرین دینِ فطرت کے احکام کی علّتیں بیان کرنے میں قوانینِ فطرت کی طرف رجوع نہیں کرتے اور دوسرے پہلو تلاش کرنے لگتے ہیں‘‘۔ (ایضاً، ۵/۷۰)

  • کسبی فضیلت :عورتوں پرمردوں کی فضیلت کا دوسرا سبب قرآن نے یہ بیان کیا:

وَبِمَا اَنْفَقُوا مِنْ اَمْوَالِھِمْ ط (النسائ۴:۳۴) اور اس سبب سے کہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔

شریعت نے افرادِ خاندان کی کفالت کرنے، ان کی ضروریاتِ زندگی پوری کرنے اور ان کے لیے وسائلِ معاش فراہم کرنے کی ذمہ داری مرد پر عائد کی ہے اور عورت کو اس سے بالکل آزاد رکھا ہے۔ یہ چیز بھی مرد کو خاندان کی سربراہی کے مقام پر فائز کرتی ہے۔ شیخ رشید رضا نے اس پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے:’’عورتیں عقدِ زوجیت کے ذریعے مردوں کی سربراہی میں داخل ہوتی اور ان کی ماتحتی قبول کرتی ہیں۔ مہر کی شکل میں انھیں اس کا عوض اور بدلہ دیا جاتا ہے۔ اس طرح گویا شریعت نے عورت کو ایک اعزاز بخشا ہے کہ اسے ایک ایسے معاملے میں مالی بدلے کا مستحق قرار دیا جس کا فطرت اور نظامِ معیشت تقاضا کرتے ہیں اور وہ یہ کہ اس کا شوہر اس کاسربراہ ہو۔اس معاملے کو عُرف کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے، جسے لوگ باہم رضامندی سے انجام دیتے ہیں۔ گویا عورت نے اپنی مرضی سے مطلق مساوات سے تنزل اختیار کرلی اور مرد کو اپنے اوپر ایک درجہ (سربراہی کا درجہ) فوقیت دینے پر تیار ہوگئی اور اس کا مالی عوض قبول کرلیا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْْھِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَیْْھِنَّ دَرَجَۃٌ (البقرہ ۲:۲۲۸)  اس آیت سے مردوں کو وہ درجہ مل گیا جس کا فطرت تقاضا کرتی ہے۔(ایضاً، ۵/۶۷-۶۸)

فقہاے کرام نے آیت کے اس ٹکڑے سے استنباط کیا ہے کہ مرد پر عورت کا نفقہ واجب ہے (جصاص، ۱/۲۲۹)۔ یہی مضمون قرآن کی دیگر آیات میں بھی مذکور ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَعَلَی الْمَوْلُودِ لَہُ رِزْقُھُنَّ وَکِسْوَتُھُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ط (البقرہ۲: ۲۳۳) بچے کے باپ کو معروف طریقے سے انھیں کھانا کپڑا دینا ہوگا۔۱۳؎

اس آیت کے ذیل میں فقہا نے ایک بحث یہ اٹھائی ہے کہ اگر کبھی شوہر بیوی کا نفقہ برداشت کرنے پر قادر نہ رہے تو اس کی قوّامیت باقی نہیں رہتی اور اس صورت میں بیوی کو نکاح فسخ کروانے کا اختیار حاصل ہوجاتا ہے۔ اس لیے کہ وہ مقصود باقی نہ رہا جس کی بنا پر نکاح کی مشروعیت ہوئی تھی۔ یہ امام مالکؒ اور امام شافعیؒ کا مسلک ہے۔ امام ابوحنیفہؒ فرماتے ہیں کہ عورت کا نفقہ برداشت کرنے پر شوہر قادر نہ ہو تو بھی نکاح فسخ نہ ہوگا۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَإِن کَانَ ذُوْ عُسْــرَۃٍ فَنَظِرَۃٌ اِلَی مَیْْسَرَۃٍ ط (البقرہ ۲:۲۸۰) اور اگر وہ    تنگ دست ہو تو ہاتھ کھلنے تک اسے مہلت دو۔ (قرطبی، ۵/۱۶۹، ابوحیان، ۳/۳۳۶، آلوسی، ۵/۲۴)

ایک علمی مجلس میں ایک خاتون کی جانب سے عہد حاضر کے مشہور عالم دین مولانا      سید جلال الدین عمری سے سوال کیا گیا کہ ’’قرآن مجید میں الرجال قوامون کہا گیا ہے۔ اس کے تحت بیوی کے نان نفقہ کی ذمہ داری مرد پر ڈالی گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک خاوند جو بے روزگار ہے اور بیوی کا معاشی بار نہیں اٹھارہا ہے، یا وہ جسمانی طور پر معذور ہے اور اسے جسمانی تحفظ  نہیں دے سکتا، تو کیا پھر بھی وہ قوّام ہوگا؟‘‘ اس سوال کا انھوں نے یہ جواب دیا: ’’آپ اس سے بھی زیادہ بھیانک مثال پیش کرسکتی ہیں۔ ایک آدمی نابینا ہے یا اپاہج اور معذور ہے۔ خود تعاون اور مدد کا محتاج ہے۔ عورت اس کی خدمت کرتی اور اس کے اخراجات برداشت کرتی ہے تو کیا اس صورت میں مرد کی حیثیت قوّام ہی کی ہوگی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن مجید نے بہ حیثیتِ نوع مرد کو قوّام کہا ہے۔ اس کی دو وجوہ بیان کی ہیں: ایک یہ کہ اللہ نے  مرد کو عورت پر فضیلت اور برتری عطا کی ہے۔ یہ برتری جسمانی، ذہنی او رعملی تینوں پہلوؤں سے یا ان میں سے ایک یا دو پہلو سے ہوسکتی ہے۔ اسی برتری کی وجہ سے اسلام نے عورت کے مقابلے میں مرد پر سیاسی، سماجی اور معاشی ذمے داریاں بھی زیادہ ڈالی ہیں۔ مرد کے قوّام ہونے کی دوسری وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ وہ عورت پر اپنا مال خرچ کرتا ہے ۔ یہ ایک عمومی بات ہے۔ استثنائی مثالیں ہردَور میں رہی ہیں۔ آج بھی موجود ہیں کہ ایک عورت ذہنی اور جسمانی لحاظ سے مرد سے بہتر ہے اور اس کی معاشی حیثیت بھی مستحکم ہے اور وہ شوہر پر خرچ بھی کررہی ہے۔ اس کے باوجود مرد کے قوّام ہونے کی حیثیت ختم نہیں ہوجائے گی۔ ورنہ مرد اگر اپنے مرد ہونے کی وجہ سے اور عورت اپنی معاشی حیثیت کی وجہ سے باہم ٹکرانے لگیں تو گھر کا نظام درہم برہم ہوکر رہ جائے گا‘‘۔ (اسلام کاعائلی نظام)

نگران نہ کہ داروغہ

اس تفصیل سے واضح ہوا کہ شوہر کی حیثیت خاندان میں ایک نگرانِ اعلیٰ کی ہے، جس کے ماتحت بیوی بچے اور دیگر متعلقین پوری آزادی کے ساتھ اپنی سرگرمیاں انجام دیتے ہیں۔ شوہر ان کی کفالت کرتا ہے، انھیں تحفظ فراہم کرتا ہے اور انھیں مکروہاتِ دنیا سے بچاتا ہے۔ اس کی مثال چرواہے کی سی ہے، کہ وہ ریوڑ میں شامل تمام بھیڑ بکریوں پر نظر رکھتا ہے، ان کی دیکھ بھال کرتا ہے اور انھیں بھیڑیوں کے حملوں سے بچاتا ہے۔ ایک حدیث میں یہی تعبیر اختیار کی گئی ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے ارشاد فرمایا:

اَلرَّجُلُ رَاعٍ عَلٰی اَھْلِ بَیْـتِہٖ وَھُوَ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَّعِیَّـتِہٖ (بخاری،کتاب الاحکام، ۷۱۳۷، مسلم، کتاب الامارۃ، ۱۸۲۹) مرد اپنے گھر والوں کا راعی (نگراں) ہے اور اس سے اس کی رعیّت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔

شیخ محمد عبدہٗ ؒ اس پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں:’’اس آیت میں قوّامیت سے مراد وہ سربراہی ہے جس میں ماتحت شخص اپنے پورے ارادہ و اختیار کے ساتھ اپنی سرگرمیاں انجام دیتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس میں ماتحت شخص پوری طرح مجبور محض ہوتا ہے، وہ کسی ارادہ و اختیار کا مالک نہیں ہوتا اور صرف وہی کام انجام دیتا ہے جس کی اس کا سربراہ اسے ہدایت دیتا ہے۔ بلکہ کسی شخص کے دوسرے پر قوّام ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اسے جن کاموں کی رہ نمائی کرتا ہے، ان کے نفاذ کے سلسلے میں اس کی دیکھ ریکھ اور نگرانی رکھتا ہے‘‘۔ (رشید رضا، ۵/ ۶۸)

مردوں کو سربراہی و نگرانی کے اختیارات تفویض کرنے کے ساتھ قرآن و حدیث میں واضح ہدایات دی گئی ہیں کہ مرد اپنے ان اختیارات کا غلط استعمال نہ کریں، بلکہ اپنے زیر دست عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں اور محبت، شائستگی اور ہم دردی کے ساتھ پیش آئیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَعَاشِرُوھُنَّ بِالْمَعْرُوفِ (النساء ۴:۱۹) ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا:

اِسْتَوْصوْا بِالنِّسَآئِ خَیْراً ۱۴؎ عورتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو۔

اُم المومنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا:

خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِأَھْلِہٖ ۱۵؎ تم میں بہتر شخص وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو۔

عورتوں کو اطاعت شعاری کی تاکید

دوسری طرف عورتوں کو تاکید کی گئی ہے کہ وہ مردوں کی اطاعت کریں۔ ان پر واضح کردیا گیا ہے کہ مردوں کو جو قوّامیت کی ذمہ داری دی گئی ہے، اس میں ان (عورتوں) کی حق تلفی نہیں ہے اور اس سے ان کی کوئی سبکی اور توہین نہیں ہوتی، بلکہ ایسا محض نظامِ خاندان کو درست اور چاق چوبند بنانے کے لیے کیا گیا ہے، اس لیے انھیں چاہیے کہ اپنے شوہروں کا کہنا مانیں، انھیں خوش رکھیں اور ان کی ہدایات سے سرتابی نہ کریں۔ چنانچہ زیر بحث آیت کا اگلا ٹکڑا یہ ہے:

فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰہُ ط (النساء ۴:۳۴) پس جو صالح عورتیں ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں اور مردوں کے پیچھے اللہ کی حفاظت و نگرانی میں ان کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں۔

آیت کے اس حصے میں نیک عورتوں کی دو صفات بیان کی گئی ہیں: ایک صفت ہے قانتات، یعنی اطاعت کرنے والی ۔ ’قنوت‘ کے لغوی معنیٰ اطاعت کے ہیں۔ قرآن کے دیگر مقامات پر اس کا استعمال ’اللہ کی اطاعت‘ کے معنیٰ میں ہوا ہے۔۱۶؎ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ یہاں بھی وہ اسی معنیٰ میں ہے، جب کہ بعض دیگر کہتے ہیں کہ ’اطاعت‘ میں اللہ کی اطاعت کے ساتھ شوہر کی اطاعت بھی شامل ہے۔

صالح عورتوں کی دوسری صفت یہ بیان کی گئی ہے: حافظات للغیب، یعنی غیب کی حفاظت کرنے والیاں۔ غیب کا ایک مفہوم شوہر کی غیر موجودگی ہے، یعنی شوہروں کی عدم موجودگی میں وہ اپنے آپ کی ، بچوں کی اور شوہروں کے گھر اور مال و جایداد کی حفاظت کرتی ہیں۔ زمخشریؒ فرماتے ہیں: ’’غیب، موجودگی کی ضد ہے۔ یعنی جب ان کے شوہر ان کے پاس موجود نہیں ہوتے ہیں تو وہ ان کے غائبانہ میں ان کی چیزوں کی حفاظت کرتی ہیں‘‘۔(زمحشری، ۱/۵۲۴)

ابن عطیہؒ نے اس مفہوم کو کچھ اور وسعت دی ہے۔ ان کے نزدیک غیب میں ہر وہ چیز داخل ہے جس کا شوہر کو علم نہ ہو، خواہ وہ اس کی موجودگی میں ہو یا غیر موجودگی میں۔ کہتے ہیں: ’’غیب سے مراد ہر وہ چیز ہے جس کا شوہر کو علم نہ ہو او راس کی نگاہ سے پوشیدہ ہو اس میں دونوں حالتیں شامل ہیں۔ وہ کہیں باہر گیا ہو یا موجود ہو‘‘۔(ابن عطیہ، المحرر الوجیز، ۲/۴۷ بہ حوالہ ابوحیان، ۳/۳۳۷)

غیب کا دوسرا مفہوم ’راز‘ ہے ۔ اس صورت میں حافظات للغیب کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ رازوں کی حفاظت کرنے والی ہیں۔ علامہ آلوسیؒ نے لکھا ہے: ’’اس کا ایک دوسرا معنیٰ یہ بتایا گیا ہے کہ وہ اپنے شوہروں کے رازوں یعنی جو کچھ ان کے شوہروں اور ان کے درمیان خلوت میں ہوتا ہے، اس کی حفاظت کرنے والی ہیں‘‘۔(آلوسی، ۵/۲۴)

شیخ محمد عبدہٗ ؒ فرماتے ہیں:’’غیب سے مراد یہاں وہ بات ہے جس کو ظاہر کرنے میں شرم آئے، یعنی وہ ہر اس چیز کو چھپاتی ہیں جس کا تعلق ازدواجی معاملات سے ہو اور جو ان کے شوہروں اور ان کے درمیان خاص ہو‘‘۔۱۷؎

ابو حیان نے عطا و قتادہ سے منسوب جو قول نقل کیا ہے، اس میں یہ دونوں مفہوم شامل ہیں:  ’’وہ حفاظت کرتی ہیں اس چیز کی جس کا ان کے شوہروں کو علم نہ ہو، وہ اپنے آپ کی حفاظت کرتی ہیں اور جو کچھ ان کے شوہروں اور ان کے درمیان ہوتا ہے اسے اِدھر اُدھر بیان نہیں کرتیں‘‘۔ (ابوحیان، ۳/۳۳۷)

انھی اوصاف کی بنا پر حدیث میں نیک عورت کو دنیا کی سب سے قیمتی متاع قرار دیا گیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے ارشاد فرمایا:

اَلدُّنْیَا مَتَاعٌ وَخَیْرُ مَتَاعِ الدُّنْیَا اَلْمَرْأَۃُ الصَّالِحَۃُ(صحیح مسلم، کتاب الرضاع، ۱۴۶۷) دنیا سامانِ زیست ہے اور دنیا کی سب سے قیمتی متاع نیک عورت ہے۔

عورت کی سرکشی کی صورت میں مرد کی ذمہ داری

عورت اگر مرد کی قوّامیت تسلیم کرلے اور اطاعت شعاری کی روش اپنائے تو گھر جنت نظیر بن جاتا ہے ۔ مردو عورت دونوں حدود اللہ کا پاس و لحاظ کرتے، ایک دوسرے کے حقوق پہنچانتے اور انھیں ادا کرتے ہوئے زندگی گزارتے ہیں۔ ایک دوسرے کی کمزوریوں کو نظر انداز کرتے اور  مل جل کر اپنے بچوں کی پرورش و پرداخت اور تعلیم و تربیت میں لگے رہتے ہیں۔ لیکن اگر عورت مرد کی قوّامیت تسلیم نہ کرے، اپنے آپ کو اس کے ماتحت نہ سمجھے، اور خود سری و سرتابی کا مظاہرہ کرے تو گھر جہنم کا نمونہ بن جاتا ہے۔ اس کا سکون غارت ہوجاتا ہے اور بچوں کی صحیح ڈھنگ سے پرورش نہیں ہوپاتی۔ اس لیے قرآن نے اس صورت میں مرد کی ذمہ داری قرار دی ہے کہ وہ ایسی سرکش و نافرمان عورت کی اصلاح و تربیت کی کوشش کرے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَالّٰتِیْ تَخَافُونَ نُشُوْزَھُنَّ فَعِظُوْھُنَّ وَاھْجُرُوْھُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوْھُنَّ فَاِنْ اَطَعْنَکُمْ فَلاَ تَبْغُواْ عَلَیْْھِنَّ سَبِیْلاً ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیّاً کَبِیْراً (النساء ۴: ۳۴) اور جن عورتوں سے تمھیں سرکشی کا اندیشہ ہو، انھیں سمجھاؤ، خواب گاہوں میں ان سے علیٰحدہ رہو اور مارو۔ پھر اگر وہ تمھاری مطیع ہوجائیں تو خواہ مخواہ ان پر دست درازی کے لیے بہانے تلاش نہ کرو۔ یقین رکھو کہ اُوپر اللہ موجود ہے جو بڑا اور بالاتر ہے۔

اس آیت میں شوہروں کے ان اختیارات کابیان ہے جو انھیں بیویوں کی تادیب کے لیے دیے گئے ہیں۔۱۸؎  اس سلسلے میں چند نکات پیش نظر رکھنا ضروری ہے:

۱-  آیت کے اس ٹکڑے میں عام عورتوں کا بیان نہیں ہے اور یہ حکم عام حالات میں نہیں دیا گیا ہے، بلکہ ناگزیر علاجی تدبیر کے طور پر مخصوص صورت حال میں ان عورتوں کے سلسلے میں ہے جو ’نشوز‘ کا ارتکاب کریں۔ بیوی کانشوز یہ ہے کہ وہ خود کو شوہرسے بالاتر سمجھے ، اس کی مخالفت کرے اور اس سے نفرت کرے۱۹؎ لیکن اگر وہ اطاعت شعار ہو تو اس پر کسی طرح کی زیادتی کرنے سے منع کیا گیا ہے۔

۲- عورتوں کی جانب سے محض اندیشۂ سرکشی کی صورت میں مذکورہ اصلاحی تدابیر کو بروئے کار لانے کا حکم نہیں دیا گیا ہے، بلکہ اس صورت میں ہے جب واقعتا ان کی طرف سے اس کا اظہار ہو۔ اس کا اشارہ آیت کے آخری ٹکڑے فَاِنْ اَطَعْنَکُمْ  (پھر اگر وہ تمھاری مطیع ہوجائیں) سے ملتا ہے۔ (ابوحیان، ۳/۳۳۹، ۳۴۲)

۳-  اس آیت میں رہ نمائی کی گئی ہے کہ سرکش عورتوں کی اصلاح کے لیے ان کے شوہر تین تدابیر اختیار کرسکتے ہیں۔ اول: انھیں سمجھائیں بجھائیں، دوم: ان سے خواب گاہوں میں علیٰحدگی اختیار کرلیں، سوم: انھیں ’ضرب‘ کی سزا دیں۔ قرآن کامنشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ اصلاحی تدابیر میں تدریج ملحوظ رکھی جائے۔ ایسا نہ ہو کہ بہ یک وقت تینوں تدابیر پر عمل کرلیا جائے۔۲۰؎

۴-  مارنے کا حکم نہیں دیا گیا ہے کہ بیویوں کی ضرور پٹائی کی جائے، بلکہ اجازت دی گئی ہے کہ اگر دیگر تدابیر سے کام نہ چلے تو ناگزیر صورت میں یہ تدبیر بھی ممکن ہے۔اس صورت میں حدیث میں غیر معمولی احتیاط برتنے کی تاکید کی گئی ہے۔ آںحضرت ؐکا ارشاد ہے:

۔۔۔ فَاِنْ فَعَلْنَ ذٰلِکَ فَاضْرِبُوْھُنَّ ضَرْباً غَیْرَ مُبَرَّحٍ (مسلم، کتاب الحج، باب حجۃ النبی ؐ، ۱۲۱۸) اگر وہ ایسا کریں تو انھیں ایسی مار مارو کہ اس کا جسم پر کوئی نشان ظاہر نہ ہو۔

’برّح‘ کا معنٰی ہے سختی کرنا، تکلیف پہنچانا۔ ’ضرب مبرّح‘ اس مار کو کہتے ہیں جس میں سخت چوٹ لگے۔ ابوحیان فرماتے ہیں:’’ضرب غیر مبرّح سے مراد وہ مار ہے جس سے نہ کوئی ہڈی ٹوٹے، نہ کوئی عضو تلف ہو اور نہ جسم پر اس کا کوئی نشان باقی رہے‘‘۔ (ابوحیان ، ۳/۲۴۱)

حضرت ابن عباسؓ سے ان کے شاگرد عطاؒ نے ’ضرب غیر مبرّح‘ کا مطلب دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا: ’’جیسے مسواک سے مارنا‘‘۔ (طبری، ۸/۳۱۴)

مارنے کا مقصد عورت کو ذلیل و رسوا کرنا، یا اسے جسمانی اذیت پہنچانا نہیں، بلکہ اس کی اصلاح و تادیب ہے۔ اس لیے ناگزیر صورت میں غیر معمولی احتیاط برتنے کی تاکید کی گئی ہے۔

یہ ملحوظ رہے کہ قرآن و حدیث میں ناگزیر صورت میں تادیب کی اجازت کے باوجود شریعت کاعمومی مزاج یہ معلوم ہوتا ہے کہ حتی الامکان اس سے گریز کیا جائے۔ عہد نبوی میں ایک مرتبہ کچھ لوگوں نے اپنی بیویوں کی پٹائی کردی۔ وہ عورتیں ازواج مطہرات کے گھروں میں آکر اپنے شوہروں کی شکایت کرنے لگیں ۔ رسولؐ اللہ کو صورتِ حال کی اطلاع ملی تو آپؐ نے فرمایا:

لَقَدْ طَاَف بِاٰلِ مُحَمَّدٍ نِسَآئٌ کَـثِیْرٌ یَشْکُوْنَ اَزْوَاجَھُنَّ، لَیْسَ اُوْلٰٓئِکَ بِخِیَارِھِمْ ۲۱؎ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں کے پاس بہت سی عورتوں نے چکّر لگائے ہیں اور اپنے شوہروں کی شکایت کی ہے۔ یہ لوگ ان میںاچھے آدمی نہیں ہیں۔

جن لوگوں کو قرآن کا یہ حکم عورت کی توہین و تذلیل معلوم ہوتا ہے انھیں عورت کے باغیانہ تیور اور خود سری پر مبنی رویے میں مرد کی تحقیر و تذلیل کا پہلو نظر نہیں آتا۔

۵-  آیت کے آخری ٹکڑے میں صفاتِ الٰہی ’علی‘ اور ’کبیر‘ کا انتخاب بڑا معنیٰ خیز ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ سب سے بلند اور سب سے بڑا ہے۔ عورتوں پر اپنی بالادستی کے زعم میں ان پر کسی طرح کی زیادتی نہ کرو اور یہ نہ بھولو کہ اللہ تعالیٰ کی ذات تم سے بڑی اور برتر ہے۔ ان پر ظلم و زیادتی کی صورت میں وہ تم سے انتقام لے سکتا ہے۔ ابن کثیرؒ فرماتے ہیں: ’’اس میں مردوں کو دھمکی دی گئی ہے کہ اگر انھوں نے بلا سبب عورتوں پر زیادتی کی تو اللہ تعالیٰ جو بلند و برتر ہے، ان کا ولی ہے ۔ جو بھی ان پر ظلم و زیادتی کرے گا، اس سے وہ انتقام لے لے گا‘‘۔ ۲۲؎

حاصل بحث: خلاصہ یہ کہ اسلام کے نظامِ خاندان میں مرد اور عورت کو برابر کے حقوق سے بہرہ ور کیا گیا ہے، البتہ انتظامی ضروریات کی بنا پر مرد کو یک گونہ برتری دی گئی ہے۔ اسے خاندان کی سربراہی کی ذمہ داری دے کر اس کے ماتحتوں کو اس کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے۔

جن تہذیبوں اور معاشروں میں خاندانی نظام میں مرد اور عورت کو تمام معاملات میں یکساں حقوق دیے گئے ہیں، حتیٰ کہ قوّامیت کی بنا پر مرد کی یک گونہ برتری کو تسلیم نہیں کیا گیا ہے، ان میں خاندانی انتشار نمایاں ہے، زوجین کے درمیان تلخیاں، دوریاں اور نفرتیں پائی جاتی ہیں، طلاق و تفریق کی کثرت ہے اور گھروں کے اجڑنے اور بکھرنے کا تناسب بڑھا ہوا ہے۔ عالمی سطح پر ہونے والی جائزہ رپورٹوں کے اعداد و شمار اس کے مظہر ہیں۔

بعض مسلم دانش ور اسلام میں حقوقِ نسواں کی پرزور وکالت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مسلمان عورت بھی ان تمام حقوق سے بہرہ ور ہے جو مسلمان مرد کو دیے گئے ہیں، لیکن وہ مساواتِ مرد و زن کا ایسا تصور پیش کرتے ہیں کہ مرد کی قوّامیت عملاً ختم ہوکر رہ جاتی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ اسلام نے مرد اور عورت کے حقوق مساوی رکھے ہیں، لیکن نظامِ خاندان کو چلانے کے لیے اس نے مرد کو ’قوّامیت‘ کی ذمہ داری بھی عطا کی ہے۔ اسے تسلیم کیا جانا چاہیے۔ (مضمون نگار، ادارہ تحقیقاتِ اسلامی، علی گڑھ کے شعبہ تحقیق و تصنیف سے وابستہ ہیں)

حوالہ جات

۱-            ملاحظہ کیجیے: مولانا سید جلال الدین عمری کی کتابیں: عورت اسلامی معاشرے میں، عورت اور اسلام، اسلام کا عائلی نظام، مسلمان عورت کے حقوق اور ان پر اعتراضات کاجائزہ۔

۲-            مولانا امین احسن اصلاحی، تدبر قرآن، دہلی، ۱۹۸۹ئ، ۲/۲۹۱، مزید ملاحظہ کیجیے مولانا سید ابوالاعلی مودودی، تفہیم القرآن، ۱/۳۴۹، مولانا عبدالماجد دریابادی، تفسیر ماجدی،لکھنؤ، ۱/۷۳۰

۳-            ابوحیان الاندلسی، البحر المحیط، تحقیق: د۔ عبدالرزاق المہدی، بیروت، ۲۰۰۲ئ، ۳/۲۳۵، مزید ملاحظہ کیجیے  ابوعبداللہ القرطبی، الجامع لاحکام القرآن، ۱۹۸۷ئ، ۵/۱۶۹۔

۴-            ابوجعفر محمد بن جریر الطبری، جامع البیان عن تاویل آی القرآن المعروف بتفسیر الطبری، تحقیق محمود محمد شاکر، احمد محمد شاکر، مصر، ۸/۲۹۰

۵-            ابوالحسن علی بن حبیب الماوردی، النکت والعیون المعروف بتفسیر الماوردی، ۱/۳۸۵، بغوی، ۱/۴۳۲، علاؤ الدین علی بن محمد الخازن، لباب التاویل فی معانی التنزیل المعروف بتفسیر الخازن، مصر، ۱/۴۳۲، جلال الدین السیوطی و جلال الدین المحلی، تفسیر الجلالین ، ص۱۰۶

۶-            ابوالقاسم جار اللہ محمود بن عمر الزمخشری، الکشاف عن حقائق التنزیل وعیون الاقاویل فی وجوہ التاویل، شرکۃ مکتبۃ و مطبعۃ مصطفی البابی الحلبی واولادہ مصر، ۱/۵۲۳

۷-            ملاحظہ کیجیے ناصر الدین عبداللہ بن عمر البیضاوی، انوار التنزیل و اسرار التاویل المعروف بتفسیر البیضاوی، دہلی، ۱۲۶۸ھ، ۱/۱۸۲، ابوالسعود محمد بن محمد بن مصطفی العمادی، ارشاد العقل السلیم الیٰ مزایا الکتاب الکریم، بیروت، ۱/۱۷۳، شہاب الدین السید محمود الآلوسی البغدادی، روح المعانی فی تفسیر القرآن والسبع المثانی، مصر، ۵/۲۳

۸-            فخرالدین الرازی، مفاتح الغیب المعروف بالتفسیر الکبیر، تحقیق: عماد زکی البارودی، مصر، ۱۰/۸۰

۹-            عماد الدین اسماعیل بن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، دارالاشاعت دیوبند، ۲۰۰۲ء

۱۰-         بیضاوی، ۱/۲۸۲، بقاعی، ۵/۲۷۰، ابوالسعود، ۱۷۳، آلوسی، ۵/۲۳، محمد رشید رضا، تفسیر المنار، مطبعۃ المنار، مصر، ۵/۶۹، قاضی محمد ثناء اللہ العثمانی پانی پتی، التفسیر المظہری، ندوۃ المصنفین ، دہلی

۱۱-         ملاحظہ کیجیے جصاص ، ۱/۲۲۹، ماوردی، ۱/۳۸۵، ابن العربی، ۱/۱۷۴، بقاعی، ۵/۲۶۹، سیوطی، ص۱۰۶

۱۲-         بغوی، ۱/۴۳۲، زمخشری، ۱/۵۲۳، بیضاوی، ۱/۱۸۲، نسفی، ۳/۱۲۸، خازن، ۱/۴۳۲، آلوسی، ۵/۲۳، پانی پتی، ۲/۲۹۴، تھانوی، ۱/۱۱۵، عثمانی، ۱۰۸، ۲/۲۹۴، سید محمد نعیم الدین مراد آبادی، حاشیہ پر ترجمہ کنزالایمان ، از مولانا احمد رضا خان، مکتبہ جام نور جامع مسجد دہلی، ص۱۳۳

۱۳-         مزید ملاحظہ کیجیے سورۂ طلاق کی آیت نمبر ۷ اور مسلم، کتاب الحج، باب حجۃ النبی ؐ، حدیث نمبر ۱۲۱۸

۱۴-         بخاری، کتاب النکاح، اور دیگرمقامات ، مسلم، کتاب الرضاع، باب الوصیۃ بالنسائ، ۱۴۶۸

۱۵-         جامع الترمذی، کتاب المناقب، باب فضل ازواج النبی، ۳۸۹۵ ورواہ ابن ماجہ فی کتاب النکاح، باب حسن معاشرۃ النساء عن ابن عباس

۱۶-         البقرہ۲: ۱۱۶، ۲۳۸، آل عمران ۳: ۱۷، ۴۳، النحل ۱۶: ۲۰، الاحزاب ۳۳:۳۱، ۳۵، الروم:  ۳۰ ۲۶، الزمر۳۹: ۹، التحریم ۶۶:۱۲

۱۷-         رشید رضا، ۵/۷۱، مزید ملاحظہ کیجیے اسی سیاق میں شیخ رشید رضا کی تشریح ، نیز اصلاحی، ۲/۲۹۲

۱۸-         سید جلال الدین عمری ،مسلمان عورت کے حقوق اوران پر اعتراضات کاجائزہ۔

۱۹-         نشوز المرأۃ ھو بغضہا لزوجھا ورفع نفسھا عن طاعتہ والتکبّر علیہ۔خازن، ۱/۴۳۳۔ ایسی ہی تشریح دیگر مفسرین او رماہرین لغت نے بھی کی ہے۔ ملاحظہ کیجیے: ابوحیان، ۳/۳۴۰، ابن کثیر ، ۱/۶۴۲، قرطبی، ۵/۱۷۰- ۱۷۱، راغب اصفہانی ، ص ۴۹۵، اصلاحی ، ۲/۲۹۲-۲۹۳، رشید رضا، ۵/۷۷، جوہری، ۱/۴۳۸، ابن منظور، ۵/۴۱۸۔

۲۰-         زمخشری، ۱/۵۲۴، نسفی، ۱/۱۲۹، مودودی، ۱/۳۵۰، عثمانی، ص۱۰۹، اصلاحی، ۲/۲۹۳

۲۱-         سنن ابی داؤد، کتاب النکاح ، ۲۱۴۶، سنن ابن ماجہ، ۱۹۸۵، سنن دارمی، ۲۲۱۹

۲۲-         ابن کثیر، ۱/۶۴۳، رازی، ۱۰/۸۳، قرطبی، ۵/۱۷۳، ابوحیان، ۳/۳۴۳، رشید رضا، ۵/۷۷