ذکی الرحمان غازی


استفتا یا اہلِ علم سے زندگی کی پیچیدگیوں کے بارے میں شرعی رہنمائی طلب کرنا اسلامی معاشرتی زندگی کا لازمہ ہے۔اسی اہمیت کے پیشِ نظر متعدد عظیم المرتبت اَئمہ کرام کی استفتا کے موضوع پر مستقل تصنیفات ملتی ہیں، جن سے فتوے کی اہمیت، ضابطے اور آداب کی وضاحت ہوتی ہے،    نیز سائل اور مفتی، ہردو کے فرائضِ منصبی اورذمہ داریوں اور ان سے متعلقہ احکامات کو بھی پوری  شرح و بسط کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ۔آج اگراس موضوع کے حوالے سے مسلم معاشرے کے رویے کا تجزیہ کیا جائے ،تو یہ بات واضح طور پر ہمارے سامنے آتی ہے کہ افتا واستفتا کے بارے میں ہمارا طرزِ عمل بڑی حد تک شریعت ِ حنیفہ کی تعلیمات سے منحرف اور اَئمہ عظام کے مقرر کردہ اصولوں سے دُور ہو گیا ہے۔

آج افتا کے متعلق ہمارے اندر احساسِ ذمہ داری کا فقدان، جلدبازی،بلااثبات و مراجعہ ناپختہ راے کا اظہار ،باوجود نااہلی اور غیرمستند ہونے کے فتویٰ دینے کی جسارت، اس میں سہولت کوشی اور مستفتی [سائل] کی خواہشِ نفس کی مطابقت کا اہتمام کرنے جیسی کوتاہیاں پائی جاتی ہیں۔ مذکورہ بالا جملہ اُمور میں سے ہر ایک کے کچھ اسباب ہوتے ہیںجن کی تفصیل بیان کرنے کا یہاں موقع نہیں۔ ان تمام امور میں سب سے زیادہ پُر خطر اور پُرفتن مسئلہ فتوے میں سہولت کوشی و تن آسانی کو مدنظر رکھنا ہے۔ فتوے میںحدِ اعتدال سے بڑھتا ہواسہولت پسندی کا یہ رجحان ایک طرح سے فقہی رخصتوں پر عمل کا قوی محرک بنتا ہے، جو ایک بے حد خطرناک رجحان ہے۔ہمارے زمانے میں اس بیماری نے ایک قسم کے فیشن کی صورت اختیار کر لی ہے، جس کے نتیجے میں عالمِ اسلام میں خودساختہ آرا و فتاویٰ کا ایک خودرو جنگل وجود میں آگیا ہے اور صنعتی اشیاے خورونوش کی طرح ہر نیا دن کچھ سرپھرے افکار کو جنم دیتا جاتا ہے۔ اس مضمون میں اسی حسّاس مسئلے کے کچھ پہلوؤں کے متعلق بحث کی گئی ہے۔ وباللّٰہ التوفیق

شرعی رخصت کا مفھوم

عربی زبان میں رخصت کے لغوی معنیٰ تسہیل،تخفیف ،تیسیراور عدمِ تشدید کے آتے ہیں۔ (مقاییس اللغۃ، ابن فارس، ج۲، ص ۵۰۰۔ لسان العرب،ابن منظور، ج۷، ص۴۰)۔ شرعی رخصت کے اصطلاحی معنیٰ ہیں: ’’وہ حکمِ شرعی جو صعوبت سے سہولت کی طرف منتقل ہوا ہواور جس میں کسی عذر کے باعث آسانی پیدا کر دی گئی ہو۔ اگرچہ اصلی حکم کا سبب جوں کا توں اپنی جگہ قائم ہو‘‘۔ (رفع الحاجب عن مختصر ابن الحاجب، تاج الدین سبکی، ج۲، ص ۲۶۔ مذکرۃ فی اصول الفقہ، محمدالامین شنقیطی،ص۶۰)

شرعی رخصت کے عام مفہوم میں یہ بات شامل ہے کہ ان گنجایشوں کی مشروعیت سے شارعِ حکیم کے پیشِ نظر یہ ہے کہ مکلفین پر تخفیف ہو اور احکامِ شریعت میں سہولت کا پہلو نمایاں رکھا جائے تاکہ ان پر عمل کا داعیہ باقی رہے اور بندگانِ خدا کی زندگی مشقت سے محفوظ رہ سکے۔ مثال کے طور پر جو شخص کسی وجہ سے پانی کے استعمال پر قادرنہ ہو ،یاپانی ناپید ہو گیا ہو، تو ایسی صورت میں تیمم کرنا جائز ہے۔ارشادِ باری ہے:

وَ اِنْ کُنْتُمْ مَّرْضٰٓی اَوْ عَلٰی سَفَرٍ اَوْجَآئَ اَحَدٌ مِّنْکُمْ مِّنَ الْغَآئِطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآئَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآئً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْھِکُمْ وَاَیْدِیْکُمْ ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَفُوًّا غَفُوْرًا o (النسائ۴: ۴۳) اور اگر کبھی ایسا ہو کہ تم بیمار ہو، یا سفر میں ہو ،یا تم میں سے کوئی شخص رفعِ حاجت کر کے آئے،یا تم نے عورتوں سے لمس کیا ہو، اور پھر پانی نہ ملے تو پاک مٹّی سے کام لو اور اس سے اپنے چہروں اور ہاتھوں پر مسح کر لو،بے شک اللہ نرمی سے کام لینے والا اور بخشش فرمانے والا ہے۔

اسی طرح قرآن کریم میں نصِ جلی کے ساتھ مردارکھانے کی حرمت وارد ہوئی ہے ،لیکن آگے چل کرحالت ِ اضطرار میں اس کے استعمال کی رخصت بھی دی گئی ہے۔ حق تعالیٰ فرماتا ہے:

حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃُ وَ الدَّمُ وَ لَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَ مَآ اُھِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ وَالْمُنْخَنِقَۃُ وَ الْمَوْقُوْذَۃُ وَ الْمُتَرَدِّیَۃُ وَ النَّطِیْحَۃُ وَ مَآ اَکَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَکَّیْتُمْ قف وَمَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ وَ اَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ ط ذٰلِکُمْ فِسْقٌ ط اَلْیَوْمَ یَئِسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ دِیْنِکُمْ فَلَا تَخْشَوْھُمْ وَ اخْشَوْنِ ط اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ط فَمَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْمَصَۃٍ غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِاّ.ِثْمٍ فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ o (المائدہ ۵:۳) تم پر حرام کیا گیا ہے مردار،خون،سُور کا گوشت،وہ جانور جو خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو،وہ جو گلا گھُٹ کر،یا چوٹ کھا کر،یا بلندی سے گرکر، یا ٹکر کھا کرمرا ہو،یا جسے کسی درندے نے پھاڑا ہو، سواے اس کے جسے تم نے زندہ پاکر ذبح کر لیا اور وہ جو کسی آستانے پر ذبح کیا گیا ہو۔نیز یہ بھی تمھارے لیے ناجائز ہے کہ پانسوں کے ذریعے سے اپنی قسمت معلوم کرو۔یہ سب افعال فسق ہیں۔ آج کافروں کو تمھارے دین کی طرف سے پوری مایوسی ہو چکی ہے، لہٰذا تم اُن سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو۔آج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمھارے لیے اسلام کو تمھارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے(لہٰذا حرام وحلال کی جو قیود تم پر عائد کی گئی ہیں اُن کی پابندی کرو)۔ البتہ جو شخص بھوک سے مجبور ہوکر اُن میں سے کوئی چیز کھالے ،بغیر اس کے کہ گناہ کی طرف اس کا میلان ہو تو بے شک اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔

مذکورہ بالا دونوںمثالوں جیسی بے شمار مثالیں ہیں جو اسلامی شریعت میں رخصتوں کے ضمن میں آتی ہیں۔بندگانِ خدا کے لیے سہولتوں کی فراہمی کا اہتمام اور رخصتوں کی مشروعیت ایک ایسا اسلامی اصول ہے جس کی تائیدقرآن وسنت کی لا تعداد نصوص کی واضح دلالت سے ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر حق تعالیٰ کا ارشاد ہے: یُرِیْدُ اللّہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلاَ یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ(البقرہ ۲:۱۸۵)’’ اللہ تمھارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے ،سختی کرنا نہیں چاہتا‘‘۔ ہُوَ اجْتَبَاکُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَیْْکُمْ فِیْ الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ ط (الحج۲۲:۷۸) ’’اس نے تمھیں اپنے کام کے لیے چُن لیا ہے،اور دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی‘‘۔ اللہ کے سچے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:’’تم لوگ اللہ کی عطا کردہ رخصتوں پر عمل پیرا ہونے کولازم پکڑو‘‘۔ [علیکم برخصۃ اللّٰہ الّذی رخص لکم] (مسلم،حدیث ۱۱۱۵،سنن نسائی، حدیث۲۲۵۸،مع تصحیحِ البانی)

قرآن و سنت میں وارد اس قسم کی آیات واحادیث کی روشنی میں علماے دین نے ایسے متعدد شرعی قواعد کا استنباط کیا ہے جو اسلام کی کشادگی اور عدل پروری کی جیتی جاگتی دلیل ہیں۔ متعدد اہلِ علم نے ان شرعی قاعدوں کومختلف تاریخی ادوار میں مستقل تصانیف کا موضوع بنایا ہے۔ زیربحث موضوع سے تعلق رکھنے والے چند شرعی قواعد یہ ہیں:

  • المشقۃ تجلب التیسیر ،مشقت کا وجود آسانی لاتا ہے۔
  • الحرج مرفوع ، حرج کا ازالہ ضروری ہے۔
  • لا ضرر ولا ضرار ، نہ نقصان اٹھایا جائے نہ کسی کو پہنچایا جائے۔
  • الضرر یُزال ،متعدی ضرر کا ازالہ کیا جائے گا۔
  • اذا ضاق الأمر اتّسع، جب معاملہ تنگ ہو جائے تو اس میں وسعت آجاتی ہے۔

مذکورہ بالا آیات،احادیث اور معتبر شرعی قواعد سے ایک طرف جہاں اسلامی شریعت کے عمومی مزاج کا پتا چلتا ہے ،وہیں ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ معاملاتِ زندگی میں مشقتوں پر سہولتوں کی ترجیح اور رخصتوں کی فراہمی کاپہلوکسی بھی انسانی نظامِ حیات کے لیے ناگزیر ہوتاہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ دین فطرت اسلام نے اس پہلو کی کما حقہ رعایت کی ہے۔(رفع الحرج فی الشریعۃ الاسلامیۃ،ضوابطہ وتطبیقاتہ، ڈاکٹر صالح بن حمید، ص۹۳، الدُرر البھیّۃ فی الرخص الشرعیّۃ،ڈاکٹر اسامۃ الصلابی، ص ۶۰)

یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ ان شرعی رخصتوں سے مستلزم کچھ احکام ،شرائط اور ضابطے بھی ہوتے ہیں، جن پر علماے اصولِ فقہ نے اپنی کتابوں میں مستقل ابواب کے تحت سیرحاصل گفتگو فرمائی ہے۔یہاں شرعی رخصتوں کے مفہوم اور ان کی وضاحت کے لیے مثالیں اس لیے بیان کی گئی ہیں تاکہ قارئین کی نظر میں زیرِ نظر مضمون کے موضوع سے ان کا کسی قسم کا التباس باقی نہ رہے۔ہمارا موضوع فقہاے دین کی رخصتوں کا اتباع اور اس کی شرعی حیثیت ہے، اس پر تفصیلی کلام آگے آئے گا۔اس کے برعکس شرعی رخصتوں پر عمل کرنے میں کسی قسم کی قباحت نہیںہوتی ،بشرطیکہ تمام لوازمات پائے جائیں اور کوئی شرعی عذر مانع نہ ہو۔اس مضمون کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ اختلافی مسائل میں فقہاے اسلام کے مختلف اقوال میںتلاشِ بسیار کے بعد آسان ترین قول کو اختیار کرنا ،بذاتِ خود کس حد تک جائز ہے؟

اتباع کی تعریف

رخصت ہاے فقہیہ کی پیروی یا اتباع کی اہلِ علم نے متعدد تعریفیں کی ہیں۔ اگرچہ ان تعریفوں کا منشا ومفہوم ایک ہے لیکن ان میں سے بعض تعریفیں بڑی دقیق ہیں۔ علامہ بدر الدین زرکشی ؒ کے نزدیک اتباع کی تعریف یہ ہے کہ انسان ہر فقہی مسلک سے اپنے لیے آسان جزیہ کو اختیار کرے (البحرالمحیط، ج ۶، ص ۳۲۵)۔جلال محلیٰ ؒ کے نزدیک تتبع یہ ہے کہ انسان اپنے پیش آمدہ مسائل میں ہر مسلک سے وہ لے جو اس کے لیے آسان ہو۔(شرح المحلی علی جمع الجوامع، ج۲،ص ۴۰۰) عصرِ حاضر میں بین الاقوامی اسلامی فقہی فورم (جدہ، سعودی عرب) نے اس کی جو تعریف اختیار کی ہے وہ یہ ہے کہ:انسان جان بوجھ کر ان مسلکی اجتہادات کو اختیار کرے جو کسی امر کو جائز قرار دیں، حالانکہ ان کے مقابلے میں اس امر کی ممانعت کے اجتہادات بھی پائے جاتے ہوں (قرارات و توصیات مجمع الفقہ الاسلامی الدولی، ۱۵۹-۱۶۰، قرار رقم:۷۰)۔ گذشتہ جملہ تعریفوں کا خلاصہ یہ ہے کہ اتباع کا مطلب ہے کہ انسان دینی مسائل میں علماے کرام کا وہ قول اختیار کرے جو اس کے لیے سہولت کا حامل ہو،بایں طور کہ اس کا یہ بین المسلکی اتباع کسی دلیل کی قوت وفہم کی وجہ سے نہ ہو،بلکہ اس کا محرک خواہشاتِ نفس کی پیروی، شہوت پرستی یا شریعت سے ناواقفیت یا اعراض ہو۔

تلفیق کا مسئلہ

اتباع سے ملتا جلتا لیکن اس سے بے حد مختلف ایک مسئلہ تلفیق کا ہے۔تلفیق کا مطلب ہے کہ کسی ایک دینی مسئلے میں دو یا دو سے زیادہ فقہی اقوال کو اس طرح جوڑ کر دیکھا جائے کہ اس سے ایک ایسا تیسرا قول پیدا ہو جائے جس کو کسی مجتہد نے کبھی اختیارنہ کیا ہو۔(عمدۃ التحقیق فی التقلید والتلفیق،محمد سعید البانی، ص۹۱) بیش تر علماے کرام کے نزدیک تلفیق سرے سے ممنوع ہے، جب کہ بعض دیگر فقہا نے اس کو مشروط جائز رکھا ہے۔ جائز رکھنے والے فقہا میں نمایاں نام علامہ شہاب الدینؒ مالکی قرافی،علامہ ابن تیمیہؒ، علامہ ابن القیمؒ اور عبد الرحمن معلمیؒ کے آتے ہیں۔(التلفیق فی الاجتھاد والتقلید، ڈاکٹر ناصر المیمان، ص۱۸۱)۔ موجودہ زمانے میں بین الاقوامی اسلامی فقہی فورم(جدہ، سعودی عرب) نے بھی اسی موقف کو اختیار کیا ہے۔ذیل میں ان کی تجویز کردہ شرائط کا خلاصہ نقل کیا جاتا ہے:

۱-تلفیق کے نتیجے میں کسی ممنوع وحرام چیز کاجواز برآمد نہ ہوتا ہو۔

۲- تلفیق کی رو سے مسلمان حاکمِ وقت کا کوئی فیصلہ مسترد نہ ہوتا ہو۔

۳- تلفیق سے کسی معمول بہ تقلیدی حکم کا ابطال نہ ہوتا ہو۔

۴- اجماع یا اس کے لوازمات متأثر نہ ہوتے ہوں۔

۵- کوئی ایسا حکم یا حالت ترکیب نہ پاتی ہو جس پرکبھی کسی مجتہد کا عمل نہیں رہا ۔

ان شرائط میں سے ہر شرط کے ضمن میں چند مثالیں بھی دی جاسکتی ہیں ،لیکن سرِ دست یہاں ہم صرف تلفیق اور تتبع کے مابین فرق بتانے پر اکتفا کریں گے:

۱-تتبع کے ذریعے سے اختلافی مسائل میں اسہل وخفیف قول پر عمل درآمد ہوتا ہے،جب کہ تلفیق کے ذریعے کسی ایک مسئلے میں دو یا دو سے زیادہ اقوال کو جمع کرکے ان سے کسی شرعی حکم کا استنباط کیا جاتا ہے۔

۲-تلفیق کے ذریعے فقہا کے اقوال میں تصرف کر کے ایسا حکم نکالا جا سکتا ہے جو کسی مجتہد نے کبھی مستنبط نہ کیا ہو، جب کہ تتبع میں صرف موجودہ اقوال کے دائرے میں رہتے ہوئے ہی اپنا مطلوب حاصل کیا جاتا ہے۔

۳-تلفیق کا عمل بسا اوقات اجماع کی مخالفت کا سبب بن جاتا ہے ،جب کہ تتبع میں  نقضِ اجماع کا امکان نہیں ہوتا۔

اخذِ رخصت کا حکم

اس عنوان کے تحت دو مسئلے آتے ہیں، شرعی رخصت کے اخذکا حکم اور اتباع کا حکم۔ ہم سلسلہ وار ان پر گفتگو کریں گے:

  • شرعی رخصت کے اخذکا حکم: جمہور اہلِ علم کے نزدیک شرعی رخصتوں سے استفادے میں کوئی حرج نہیں،بشرطیکہ ان کے اسباب و دواعی کو مدِ نظر رکھا جائے۔شرعی رخصت کی کئی اقسام ہیں:

۱- واجب رخصت،مثلاً حالتِ اضطرار میں مردار کا کھانا۔چونکہ انسانی جان بچانا واجب ہے اس لیے یہ رخصت بھی واجب ہوگی۔

۲- مستحب رخصت،مثلاً حالتِ سفر میں نمازیں قصر کرنا، جب کہ تمام شرطیں پائی جائیں اور کوئی مانع بھی نہ ہو۔

۳-مباح رخصت،مثلاً شدید اکراہ کی حالت میں قلبی ایمان رکھتے ہوئے کلمۂ کفر بول دینا۔

۴- خلافِ اولیٰ رخصت،مثلاً ماہِ رمضان میں کوئی ایسا مسافر روزہ نہ رکھے جس کے بارے میں یقین ہو کہ حالتِ سفرمیں روزہ رکھنے سے وہ تکلیف میں مبتلا نہیں ہوگا۔(تفصیل کے لیے دیکھیں: شرح الکوکب المنیر، ابن النجار، الدرر البھیۃ فی الرخص الشرعیۃ، ڈاکٹر اسامہ صلابی)

رخصت پر عمل کا حکم

فقہاے اسلام کی رخصتوں اور غلطیوں کو دلیل بنا کر آسانیاں تلاش کرنا ایک مذموم عمل ہے۔ علماے کرام نے سختی کے ساتھ اس عمل کی ممانعت کی ہے۔بعض فقہا جیسے علامہ ابن حزمؒ ظاہری، ابن عبد البرؒمالکی،ابوالولیدؒ باجی،ابن صلاحؒ شافعی اور ابن نجارؒحنبلی وغیرہ نے اس کی حرمت پر اجماع نقل کیا ہے۔(مراتب الاجماع،ص۵۸۔ جامع بیان العلم وفضلہ، ج۲، ص۹۱۔ حاشیۃ الموافقات، ج۵،ص ۸۲۔ أدب المفتی والمستفتی،ص۱۲۵۔ شرح الکوکب المنیر، ج۴، ص۵۷۸)

  • فقھا کی آرا: یہاں اہلِ علم کے چند اقوال کا ذکر نامناسب ہوگا:

۱- خلیفہ راشد ثانی حضرت عمرؓ ابن الخطاب فرماتے ہیں:’’دین کو تین چیزیں مسمار کر سکتی ہیں:کسی عالم کی لغزش،منافق کا قیل وقال اوراَئمۃ المسلمین کی گمراہی‘‘۔ (سنن دارمی،ج۱، ص۷۱۔ جامع بیان العلم وفضلہ،ج۲،ص ۱۳۵)

۲- امام اوزاعیؒ فرماتے ہیں:’’جوشخص علما کے نادر اقوال اختیار کرے گا وہ اسلام سے خارج ہو جائے گا‘‘۔(سیر أعلام النبلائ،ج۷،ص ۱۲۶)

۳- عز بن عبد السلامؒ کہتے ہیں:’’اَئمہ میں سے کسی کی بھی تقلیدکرنا جائز ہے لیکن رخصتوں کا تتبع جائز نہیں‘‘۔(فتاویٰ العز بن عبد السلامؒ،ص۱۲۲)

۴- امام ذہبی ؒکہتے ہیں:’’جو مسالک کی رخصتوں اور مجتہدین کی غلطیوں کی تلاش بسیار کرتا ہے، اس کی ایمانی حالت کمزور ہوجاتی ہے‘‘۔(سیر أعلام النبلائ،ج ۸،ص ۸۱)

۵- حضرت ابراہیم ابن علیہؒ کہتے ہیں:جو شخص بھی علمی شذوذ [منفرد راے] کی پیروی کرتا ہے ،ضلالت اس کا مقدر ہوتی ہے‘‘۔ (ذیل مذکرۃ الحفاظ،ص۱۸۷)

ویسے تو اس مسئلے میں کبار علماے اسلام نے بڑی تاکید کے ساتھ اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے لیکن اختصار کے پیشِ نظر ہم نے صرف چند اقوال ہی کو نقل کیا ہے۔ یہاں یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ مذکورہ بالا تمام اقوال کا حکم اس شخص کے لیے مخصوص ہے جو اتباعِ نفس، تساہل پرستی، شریعت سے اعراض یا تجاہل کے باعث ایسا کرتا ہے۔البتہ اگر محرک یہ سب چیزیں نہیں ہیں تو درج ذیل شرائط کی رعایت کرتے ہوئے فقہی رخصتوں کو اختیار کیا جا سکتا ہے:

۱- رخصتوں کی اجازت دینے والے فقہا کے اقوال کو شرعی اعتبار حاصل ہو،یعنی ان کا شمار شذوذ میں نہ کیا جاتا ہو۔

۲- ان رخصتوں کے اختیار کرنے کی کوئی ضروری وجہ پائی جائے ،مثلاً انفرادی یا معاشرتی سطح پر کسی واقعی مشقت کا ازالہ مقصود ہو۔

۳- رخصت اختیار کرنے والے کی علمی صلاحیت اتنی ہو کہ وہ بذاتِ خود فقہی مسائل میں بحث وتمحیص کر سکتا ہو، یا وہ کسی باصلاحیت خداترس عالم کے اعتمادپر ایسا کرے۔

۴- ان رخصتوں کا اختیار کرنا تلفیق کا سبب نہ بنتا ہو۔

۵- ان رخصتوں کو اختیار کرنے کا سبب کسی غیر شرعی مقصد کا حصول نہ ہو۔

۶- رخصت کے اختیار کرنے پر مکلف کا دل آمادہ و مطمئن ہو۔(قرارات وتوصیات مجمع الفقہ الاسلامی الدولی، ص۱۵۹-۱۶۰)

اتباع رخصت کے مضر اثرات ونتائج

فقہی رخصتوں کا اتباع کرنے سے کچھ سلبی اثرات مرتب ہوتے ہیں ،جو بسا اوقات بے حد سنگین منفی نتائج کا پیش خیمہ بن جاتے ہیں۔متعدد اہلِ علم حضرات خصوصاًامام شاطبیؒ،امام نوویؒ، علامہ ابن صلاح ؒاورعلامہ ابن القیمؒ وغیرہ نے اس بارے میں تفصیل سے کلام کیا ہے ۔یہاں اس کی تلخیص مرتب انداز میں پیش کی جاتی ہے:

۱- رخصتوں کا اتباع کرنے سے اسلامی شریعت کے اصول ومقاصد کی مخالفت لازم آتی ہے۔شریعت اسی لیے نازل ہوئی ہے کہ انسان اپنی خواہشاتِ نفس کی غلامی سے آزاد ہوجائے۔ جب کہ رخصتوں کا اتباع کرنے والا شخص ہمیشہ اپنی خواہشاتِ نفس کا اسیر بنا رہتا ہے۔

۲- رخصتوں کا اتباع تکالیفِ شرعیہ کے خلاف بلکہ عین تکلیفِ بشر کی ضد ہے،کیونکہ تتبع کی رو سے ہر شرعی حکم میں مکلف کو جو چاہے کرنے کی آزادی مل جاتی ہے اور یہ بالآخر اسقاطِ تکلیف کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔

۳- دلیل کی اتباع چھوڑ کر اختلاف کی اتباع کرنا، اسلام کے عمومی مزاج کے خلاف ہے۔ ارشادِ باری ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ط ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا o (النسائ۴:۵۹)’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسولؐ کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحبِ امر ہوں،پھر اگر تمھارے درمیان کسی معاملے میں نزاع ہوجائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو،اگر تم واقعی اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہو۔یہی ایک صحیح طریقِ کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہترہے۔

۴- رخصتوں کا اتباع کرنے سے دین اور احکامِ شرع کے لیے اہانت واستخفاف کا رویہ پیدا ہوجاتا ہے۔کیونکہ ایک مرتبہ جب یہ سیلاب بہ نکلتا ہے، تو کوئی اخلاقی ودینی بند بھی اس کے آگے کام نہیں دیتا۔

۵- رخصتوں کا اتباع کرنے میں انسان معلوم ومبرہن چیز کو چھوڑ کر مجہول وغیر ثابت چیز کو اختیار کرنے کا عادی ہوجاتا ہے۔

۶- رخصتوں کا اتباع کرنے کے نتیجے میں شریعت کا سیاسی وحکومتی نظام پارہ پارہ ہو جاتا ہے، کیونکہ اس کی بدولت اجتماعی قوانین کا نفاذ ناممکن ہوجاتا ہے جو عام انارکی وبدامنی پر منتج ہوتاہے۔

۷- رخصتوں کا اتباع دیر سویر انسان کو تلفیق اور اجماع کی خلاف ورزی پر آمادہ کردیتا ہے۔

اتباعِ رخصت دورِ حاضر میں

اس عنوان کے تحت ہم اختصار کے ساتھ مفتیان ومستفتین [سائلین] ہر دوحضرات کے موجودہ حالات کا مختصراًتجزیہ کریں گے۔

  • اھلِ افتا کی صورت حال: عصرِ حاضر کے بعض مفتیان حضرات کے افتائی منہج کو دیکھ کر ڈر لگتا ہے کہ کہیں وہ مذمت وتوبیخ جو علماے سوء کے بارے میں وارد ہوئی ہے ، ان حضرات پر صادق نہ آتی ہو۔آج بہت سارے نام نہاداہلِ علم حضرات نے تیسیر اور تسہیل کو ایک علمی منہج کی حیثیت سے اپنایا ہوا ہے اور اس منہج کی تائید میں عام اور غیر منضبط دلائل کا طومار بھی کھڑا کیا جاتا ہے۔لیکن ذرا غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے جملہ دلائل اس مقولے کی قبیل سے ہیں جس کو تاریخ نے کلمۃ حقٍ ارید بھا الباطل کا نام دیا تھا ، یعنی ایسا کلمۂ حق جس کا نتیجہ باطل ہو۔ ان حضرات کے تمام دلائل کامجموعی خلاصہ یہ ہے کہ چونکہ دین اپنے آپ میں آسان ہے اور اسلامی شریعت کا طرۂ امتیاز ہے کہ اس کی بنیاد سہولت وسماحت اور رفعِ حرج جیسے اصولوں پر رکھی گئی ہے۔ لہٰذا اگرچند مسائل کے اندران اصولوں کی روشنی میں اپنے فقہی سرماے سے سہولت پر مبنی اقوال کو ترجیح دے دی جائے، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے۔ بہت سے کوتاہ بیں حضرات ان صحیح ابتدائی مقدمات سے دھوکا کھاجاتے ہیں، حالانکہ ان مقدمات سے جن نتائج کو برآمد کیا جاتا ہے، وہ اپنے فاسد وغلط ہونے میں کسی دلیل کے محتاج نہیں ہوتے۔ اگر شریعت اسلامی نے اپنی تکالیف میں یسر وسہولت کی رعایت کی ہے تو اس کا یہ لازمی نتیجہ کیسے برآمد کر لیا جائے کہ اب فقہی اقوال میں سے جس کو دل چاہے اختیار کیا جاسکتا ہے۔ نفس پرستوں کے لیے رخصتیں چھانٹ چھانٹ کر فراہم کرنے اور اسلامی شریعت کی سادگی وآسانی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔اور پھر شارع کی نافذکردہ شرعی تکالیف کی مشقت کو کیسے کسی عالم یا فقیہ کے شذوذ کی بنیادپررفع کیاجاسکتا ہے۔یہ ایک بنیادی غلطی اور مغالطہ آمیزی ہوگی کہ ہم کسی صحیح اصل پر فاسد جزیے کی بنا رکھیں۔مسئلے کی اس سنگینی کی وجہ سے ہی قدیم علماے اسلام نے بڑی شد ومد کے ساتھ اس کی ممانعت کی ہے(رفع الملام عن الأئمۃ الأعلام،ابن تیمیہؒ۔ اعلام الموقعین، ابن القیمؒ،ج ۱،ص۸۷۔ المبدع،ابن مفلح،ج۱۰، ص۲۵۔ کشاف القناع، منصور بن یونس البھوتی،ج۶،ص ۳۰۰)

طرفہ تماشا یہ ہے کہ بعض نام نہاد اہلِ علم حضرات ،فقہا کے ان اقوال وآرا تک سے  صرفِ نظر کرجاتے ہیں، جو واضح طور پر نصِ شرعی سے متصادم ہوتے ہیں۔ایسے حضرات کی بھی کمی نہیں ہے جو عصری تغیرات کا حوالہ دے کر اسلامی فقہ کی ازسرِ نو تدوین کا دم بھرتے نہیں تھکتے، حالانکہ اس طرزِ فکر کے جومسموم اثرات ونتائج سامنے آئے ہیں اور بعض حضرات نے جس طرح قرآن وسنت کے خلاف بے سروپا افکار وخیالات اختیار کیے ہیں، وہ دیدۂ بینا کے لیے قابلِ عبرت وموعظت ہے۔کہیں عورت کی امامت کو جواز بخشا جاتا ہے تو کہیں ارتداد اور دیگر جرائم کی شرعی حدود کے بطلان کی بات کی جاتی ہے۔کہیں غنا وسرودکو مباح بتایا جاتا ہے تو کہیںہرمسئلے میں مرد وعورت کی کامل مساوات کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔کہیں اجنبی عورت سے مصافحے اور تعارفی بوس وکنار کی وکالت ہوتی ہے توکہیں قصاص کی ازسرِ نو تشریح وتعبیر کو لازمی قرار دیا جاتا ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ  ملک کی قانون ساز کمیٹی کو تسلی دی جاتی ہے کہ وہ اپنے حساب سے جو بھی قانون بنانا چاہے بنائے، اس کو شرعی وفقہی استناد دیناہماراکام ہے۔(ان اقوال کے لیے دیکھیے: التعالم وأثرہ علی الفکر والکتاب،بکر ابو زید، ص۱۲۲۔ ارسال الشواظ علی من تتبع الشواذ، صالح شمرانی)

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا کسی عالم یا مفتی کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنے اختیار وخواہش کے مطابق فتاویٰ کا انتخاب کرے؟اور کیا کوئی مفتی اپنی یا مستفتی کی خواہش کی موافقت میں کسی فقہی قول پر فتویٰ دے سکتا ہے؟امام ابن القیمؒ اس سوال کے جواب میں فرماتے ہیں: ’’ایسا کرنا بہت بُرا فسق اور بہت بڑا گناہ ہے،واللہ المستعان‘‘(اعلام الموقعین، ج۴،ص ۱۸۵)۔  امام شاطبیؒ نے اس سوال کے جواب میں علامہ ابو الولید باجیؒ کا یہ قول نقل کر دیا ہے: ’’کسی کے لیے بھی جائز ،مناسب اور حلال نہیں ہے کہ وہ اللہ کے دین میں ایسا فتویٰ دے جس کے حق ہونے کاوہ اعتقاد نہیں رکھتا،قطعِ نظر اس سے کہ اس کے فتوے سے کون راضی ہوتا ہے اور کون ناراض۔مفتی کا وظیفہ یہ ہے کہ وہ لوگوں کو اللہ کا حکم بتاتا ہے ،پھر بھلا کیسے وہ اللہ کی طرف سے ایسا حکم بیان کرسکتا ہے جس کے حکمِ الٰہی ہونے کا وہ خود بھی معتقد نہیں۔اللہ نے ایسے مواقع کے لیے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا تھا:

وَ اَنِ احْکُمْ بَیْنَھُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ وَ لَا تَتَّبِعْ اَھْوَآئَ ھُمْ وَ احْذَرْھُمْ اَنْ یَّفْتِنُوْکَ عَنْم بَعْضِ مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ اِلَیْکَ ط (مائدہ ۵:۴۹)’’ پس اے محمدؐ!تم اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق ان لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرواوران کی خواہشات کی پیروی نہ کرو۔ہوشیار رہو کہ یہ لوگ تم کو فتنے میں ڈال کر اس ہدایت سے ذرہ برابر منحرف نہ کرنے پائیںجو خدا نے تمھاری طرف نازل کی ہے‘‘۔ (الموافقات،ج ۵، ص۹۱)

مسئلے کی سنگینی کے پیشِ نظر متعدد اہلِ علم نے مفتی ہونے کی شرائط میں سے ایک شرط   عدم تساہل اور عدم ترخیص پسندی [رخصت نہ دینا]کو بھی شامل کیا ہے۔متساہل کی دو قسمیں ہوتی ہیں:

۱- دلائل اور طریقِ احکام کی طلب میں سہولت کوشی کرنا اس طرح کہ ناپختہ افکار وخیالات کو معتبر قرار دیتا ہو۔ایسا شخص اجتہاد کا حق ادا نہیں کرتا اور اس کا فتویٰ دینا یا اس سے فتویٰ پوچھنا دونوں جائز نہیں۔

۲- رخصتوں کی طلب اور مشتبہ امور کی تاویل وتوجیہ میں تساہل سے کام لیتا ہو۔ایسا شخص اپنے دین میں کوتاہ اور مذکورہ بالا پہلی قسم کے متساہل سے کہیں زیادہ گناہ گار ہے۔(قواطع الأدلۃ فی اصول الفقہ،ابو المظفر سمعانی،ج۳،ص ۴۳۸۔ البحر المحیط،بدر الدین زرکشی، ج۶، ص ۳۰۵)

حضرت قاضی اسماعیلؒ کہتے ہیں:’’میں عباسی خلیفہ معتضد باللہ کے یہاں حاضر ہوا تو اس نے ایک کتاب میرے ہاتھ میں دی۔میں نے کتاب کے مشمولات کو دیکھا تو معلوم ہوا کہ کسی چاپلوس درباری نے فقہا کی غلطیوں اور رخصتوں کو مع دلائل جمع کرکے خلیفہ کو خوش کرنے کی کوشش کی ہے۔میں نے کہا کہ اس کتاب کا مصنف ملحد وزندیق ہے۔خلیفہ نے کہا:کیا اس کتاب میں مذکورہ احادیث صحیح نہیں ہیں؟میں نے کہا:احادیث تو درست ہیں لیکن جس فقیہ نے نبیذ کو حلال   کہا ہے اس نے متعہ کو حرام مانا ہے، اور جس نے متعہ کو مباح کہا ہے اس نے نبیذ کو حرام مانا ہے۔ دیکھیے ہر فقیہِ دین کا کوئی نہ کوئی موقف غلط ہوتا ہے،لہٰذا جو شخص ان کی غلطیوں کو جمع کر کے اسے اسلام بتائے تو اس کا دین باقی نہیں رہتا۔یہ سن کر خلیفہ نے اس کتاب کے تمام نسخوں کو جلانے کا حکم صادر کردیا‘‘۔ (السنن الکبریٰ، بیہقیؒ،ج ۱۰،ص ۳۵۶)

صحیح بات یہ ہے کہ شریعت کے اختلافی مسائل میں ،بقول شاطبیؒ، قرآن کے وضع کردہ ضابطے کی پیروی کی جانی چاہیے۔ خواہشاتِ نفس کی پیروی کے بجاے ہمیں قرآن جو ضابطہ دیتا ہے وہ یہ کہ ہر متنازع معاملے میں اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف رجوع کیا جائے۔

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ط ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْـلًا o (النسائ۴:۵۹)’ے لوگو جو ایمان لائے ہو! اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسولؐ کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحبِ امر ہوں،پھر اگر تمھارے درمیان کسی معاملے میں نزاع ہوجائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو،اگر تم واقعی اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہو۔یہی ایک صحیح طریقِ کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہترہے۔

لہٰذا اگر کسی مسئلے میں دو مجتہدین میں اختلاف پایا جاتا ہے تو اس کا فیصلہ شرعی دلائل کی روشنی میں کیا جانا چاہیے۔ اور دو مسلکوں میں سے کسی ایک کو محض سہولت کوشی اور اتباعِ نفس کی خاطر راجح ماننا رجوع الی اللہ والرسول کے منافی ہے۔(الموافقات، الشاطبیؒ، ج۵، ص ۸۱-۸۲)

فتویٰ لینے والوں کی صورت حال

فتوے کے تعلق سے ہمارے دینی بھائیوں میںجو عام رجحان پیدا ہو چلاہے اس کے نمایاں خدوخال یہ ہیں:

(ا)تساہل پرستی وسہولت کوشی۔

(ب) قربِ الٰہی کے احساس کی کمی۔

(ج) مختلف المسالک علما حضرات کے اقوال کو آپس میں موضوعِ بحث بنانا۔

(د) شریعت پر عمل کرنے میںاپنی سہولت سے ترک وانتخاب کرنا۔

(ہ)ایک سے زیادہ علماے کرام سے فتویٰ پوچھنا اور آسان ترین ودل پسند فتوے پر عمل کرنا۔

مذکوربالا اوصاف آج ہمارے بیش تر دینی بھائیوں کے طرزِ عمل پر صادق آتے ہیں۔ علماے ربانیّین نے ہمیشہ اس قسم کے غیر شرعی تصرفات پر شدت کے ساتھ نکیر فرمائی ہے،اوراس منحرف منہج کے پیروکاروں کو مختلف برے خطابات سے یاد کیا ہے۔حضرت معمرؒ نے انھیں اللہ کے بدترین بندے کہا ہے(معرفۃ علوم الحدیث،حاکم، ص۵۶۔ تلخیص الحبیر،ابن حجر، ج۳، ص ۱۸۷)۔ علامہ ابن نجارؒ نے انھیں فسق سے موسوم کیا ہے (مختصر التحریر، ابن نجار، ص۲۵۲)۔ امام غزالیؒ فرماتے ہیں: ’’عام آدمی کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ مختلف مسالک     سے انتخاب کر کے ہر مسئلے میں آسان قول کو اختیار کرے‘‘(المستصفیٰ،ج ۲، ص ۴۶۹)۔   علامہ ابن عبد البرؒ نے اس عمل کی حرمت پر اجماع نقل کیا ہے (جامع بیان العلم وفضلہ،ج۲، ص۹۱۔ شرح الکوکب المنیر، ابن نجار، ج۴، ص۵۷۸)۔امام شاطبیؒ اور امام نوویؒ نے اس عمل کے منفی اثرات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’اگر مستفتی ہر ہر مسئلے میں مختلف مسالک کی موجودہ گنجایشوں کا تتبّع کرتاہے ،تواس کایہ عمل للہیت سے دُوری،خواہشاتِ نفس کی پیروی اور شارع کی نافذ کردہ تمام حدود وقیود کو مسمار کرنے کے مترادف قرار پائے گا‘‘۔ (الموافقات، ج،ص۱۲۳۔ المجموع، ج۱،ص ۵۵)

اہلِ علم نے فتویٰ حاصل کرنے کے لیے چار شرطیں تجویز کی ہیں:

۱- سائل کے استفتا کا مقصد حق سے آگہی اور اس پر عمل کا جذبہ ہو،نہ کہ گنجایشوں کی تلاش یا خواہشِ نفس کی پیروی۔

۲- فتویٰ ان لوگوں سے طلب کیا جائے جن کا علمی تبحر اور خداترسی وتقویٰ معلوم ومعروف ہو۔ مناسب ہوگا کہ اپنی دانست میں معتمد ترین اہلِ افتا کا انتخاب کیا جائے۔

۳- مسئولہ حالت اور سوال کو من وعن، درست اور تفصیل سے بیان کیا جائے۔

۴- مفتی صاحب کے جواب کو پوری توجہ اور بیدار مغزی سے سمجھنے کی کوشش کی جائے،  اگر کوئی نکتہ سمجھ میں نہ آئے تو استفسار کیا جائے۔خود سے اس کے معنیٰ ومفہوم کا تعین نہ کرے،اور نہ فتوے کے کچھ اجزا ہی کو لے کر باقی کو نظر انداز کرے۔

موجودہ المیہ اور حل

ہمارے زمانے کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ اس میں رخصتوں کو تلاش کرنا ایک رائج الوقت چلن بن گیا ہے۔اس بیماری کے عام ہونے میں بڑا ہاتھ بعض ٹی وی چینلوں اور انٹرنیٹ کی سائٹوں پر فتویٰ دینے والے نااہل مفتیان کرام کا بھی ہے، جب کہ دوسرابڑا ہاتھ اس مغرب زدہ مسلم طبقے کا ہے جس کی ساری تگ ودو کا مقصدومحور یہی بنا ہوا ہے کہ کسی بھی طرح ہر مغربی چیز کو اسلامی چوکھٹا فراہم کرکے مسلم معاشرے میں پھیلادیا جائے۔ اب یہ اقامتِ دین کے لیے اٹھنے والی دینی تحریکوں اور جماعتوں کے وابستگان اور علما کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس دینِ حنیف پر مسلط اہلِ غلو کی     غلط تحریفات، باطل پرستوں کے غلط انتسابات ودعوے اور جاہلوں کی دور ازکار تاویلات کا پردہ چاک کریں۔اس سلسلے میں چند تجاویز درج ذیل ہیں:

۱- اللہ کی کتاب اور اس کے رسولؐ کی سنت کوآخری مرجع وحاکم کی حیثیت دی جانی چاہیے اور کسی بھی حالت میں کسی بھی دینی مسئلے میں ان سے رُوگردانی کی روش نہ اختیار کی جائے۔ ارشادِ باری ہے:

فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَاشَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَایَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا o (النسائ۴:۶۵) نہیں اے محمدؐ،تمھارے رب کی قسم، یہ کبھی مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کوفیصلہ کرنے والا نہ مان لیں،پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میںکوئی تنگی نہ محسوس کریں بلکہ سر بسر تسلیم کرلیں۔

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِط ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا o (النسائ۴:۵۹) اے لوگو جو ایمان لائے ہو!اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسولؐ کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحبِ امر ہوں،پھر اگر تمھارے درمیان کسی معاملے میں نزاع ہوجائے تو اسے اللہ اور رسولؐ کی طرف پھیر دو،اگر تم واقعی اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہو۔یہی ایک صحیح طریقِ کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہترہے۔

قرآن وسنت کا وہی فہم معتبر ومعتمد علیہ ہونا چاہیے جو صحابہ کرامؓ نے سمجھا تھا۔کیونکہ وہ حضرات قرآن وسنت کی عملی تطبیق وتنفیذ کے چشم دید گواہ رہے ہیں اور اللہ کے رسولؐ نے ان کا تزکیہ فرمایا ہے، نیز ان کے نہج سے تمسک کا حکم دیتے ہوئے اس کے خلاف امور کو بدعتِ محدثہ قرار دیا ہے۔ارشادِ نبوی ہے:’’تمھارے بہترین لوگ میرے زمانے کے ہیں، پھر اس کے بعد والے پھر اس کے بعد والے۔۔۔‘‘۔ [خیر کم قرنی ثمّ الذین یلونھم ثمّ الذین یلونھم۔۔۔] (بخاری، حدیث۲۶۵۱۔مسلم،حدیث ۶۶۳۸)۔ ’’تم پر لازم ہے کہ میری اور ہدایت یافتہ خلفاے راشدین کی سنت کو مضبوطی سے تھام لو،اور کس کر دانتوں سے دبا لو۔اور خبردار، دین میں پیدا ہونے والے امور سے بچنا،کیونکہ دین میںہر نیا معاملہ بدعت ہے اور ہر بدعت ایک گمراہی ہے‘‘۔ [علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء المھدیین الراشدین تمسکوا بھا وعضّوا علیھا بالنواجذ، وایّاکم ومحدثات الأمور فانّ کلّ محدثۃٍ بدعۃ وکلّ بدعۃٍ ضلالۃ] (سنن ابوداؤد، حدیث ۴۶۰۷۔ سنن ترمذی، حدیث ۲۶۷۶۔ سنن ابن ماجہ، حدیث۶۲)

۲- اجماع کی حجیت کو تسلیم کیا جائے اور اس کو توڑنے یااس کی اہمیت کو کم کرنے کی کوششوں پر سخت موقف اختیار کیا جائے۔ارشادِ باری ہے:

وَمَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْم بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْھُدٰی وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَ نُصْلِہٖ جَھَنَّمَ ط وَ سَآئَ ت مَصِیْرًاo (النساء ۴:۱۱۵)،مگر جو شخص رسول کی مخالفت پر کمربستہ ہو اور اہلِ ایمان کی روش کے سوا کسی اور روش پر چلے،درآں حالیکہ اس پر راہِ راست واضح ہو چکی ہو،تو اس کو ہم اسی طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا اور اسے جہنم میں جھونکیں گے جو بدترین جاے قرار ہے۔

۳- مختلف فیہ مسائل میں ایسے علماے کرام کی طرف رجوع کیا جائے جن کا صلاح وتقویٰ اور علمی تبحر مسلّم ہو۔ ارشادِ ربانی ہے:

وَ اِذَا جَآئَ ھُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِہٖ ط وَ لَوْ رَدُّوْہُ اِلَی الرَّسُوْلِ وَ اِلٰٓی اُوْلِی الْاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِیْنَ یَسْتَنْبِطُوْنَہٗ مِنْھُمْ ط وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَتُہٗ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّیْطٰنَ اِلَّا قَلِیْلًاo (النساء ۴:۸۳) یہ لوگ جہاں کوئی اطمینان بخش یا خوف ناک خبر سن پاتے ہیں،اسے لے کر پھیلا دیتے ہیں،حالانکہ اگر یہ اسے رسول اور اپنی جماعت کے ذمہ دار اصحاب تک پہنچائیں تو وہ ایسے لوگوں کے علم میں آجائے جو اِن کے درمیان اس بات کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ اس سے صحیح نتیجہ اخذ کر سکیں،تم لوگوں پر اللہ کی مہربانی اور رحمت نہ ہوتی تو (تمھاری کمزوریاں ایسی تھیںکہ) معدودے چند کے سوا تم سب شیطان کے پیچھے  لگ گئے ہوتے۔

فَاسْئََلُوْا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ (النحل ۱۶:۴۳)’’اہلِ ذکر سے پوچھ لو اگر تم لوگ خود نہیں جانتے‘‘۔

(۴)عوام الناس کو تتبع کے مہلک راستے اور اس کی مضرتوںسے آگاہ کیا جائے اور اس سلسلے میں تقاریر،خطبے،کتابیں،کیسٹس، رسالے، لیکچر اور انفرادی نصیحتوںوغیرہ جیسے وسائل سے کام لیا جائے۔

(۵)اس خطرے کے اسباب ومحرکات پر غور وخوض کرنے، نیز ان کا ازالہ کرنے کے لیے مختلف سطحوں پر علمی مذاکرے اور ورک شاپوں کا انعقاد کیا جائے۔

(۶) ٹی وی چینلوں اور انٹرنیٹ سائٹوں پر فتویٰ دینے کے لیے ایسے حضرات کا تقرر یقینی بنایا جائے جو علمی تبحر،فہمِ سلیم،حسنِ پیش کش اور اعترافِ خطا جیسی اعلیٰ صفات سے متصف ہوں۔

(۷)اس قسم کی کسی بھی راے یا موقف کا فوری محاسبہ کیا جائے اور اس عادت کے    خوگر افراد پر مختلف اخلاقی طریقوں سے دبائو ڈال کراس عادتِ قبیحہ کے ترک پر آمادہ کیا جائے۔

 

  • مقالہ نگار ، اسلامی یونی ورسٹی ، مدینہ منورہ سے وابستہ ہیں