چودھری نیاز علی خاں (م:۱۹۷۶ء) محکمۂ انہار پٹھان کوٹ، ضلع گورداس پور، پنجاب میں ملازم تھے۔ وہ ۱۹۳۵ء میں علامہ محمد اقبال سے ملے اور اس خیال کا اظہار کیا کہ وہ اپنی باقی ماندہ زندگی اسلام کے لیے وقف کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے جواب میں علامہ اقبال نے ان سے اسلامی قانون کی تشکیل جدید اور مسلمان دانش وروں کو موجودہ مسائل کا اسلامی قانون کی بنیاد پر جائزہ لینے کی ضرورت پر زور دیا (ہفت روزہ ایشیا، ۱۷؍اپریل ۱۹۶۹ء)، اور ان سے کہا کہ وہ ایک اسلامی تحقیقی ادارے کے قیام کے لیے تعاون کریں۔ مارچ ۱۹۳۶ء میں چودھری نیاز علی نے پٹھان کوٹ کے نزدیک اپنی ۶۰؍ایکڑ زمین اس مقصد کے لیے وقف کردی اور ضروری تعمیرات بھی کروا دیں۔
علامہ اقبال نے اس تحقیقی ادارے کے لیے اسلامی اسکالروں کی تلاش میں نیاز علی خاں سے تعاون شروع کیا۔ اس ضمن میں انھوں نے سب سے پہلے الازہر یونی ورسٹی قاہرہ کے وائس چانسلر علامہ مصطفی المراغی کو۵؍اگست ۱۹۳۷ء کو ایک خط لکھا: جس میں ان سے درخواست کی کہ ’’ہمارے مقاصد اور ضروریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے مصر کے اسکالر ہمارے پاس بھیجیں، جس کی مالی معاونت جامعہ ازہر کرے، نیز یہ عالم انگریزی زبان پر بھی قدرت رکھتا ہو‘‘۔ اس کے جواب میں مصطفی المراغی نے علامہ اقبال کی اس تجویز کی تحسین کی لیکن مطلوبہ ضروریات کے مطابق کسی اسکالر کو بھیجنے سے افسوس کے ساتھ اس لیے معذرت کرلی کہ: ہمارے ہاں علماے ازہر میں کوئی ایسا شخص موجود نہیں جو انگریزی زبان پر قدرت رکھتا ہو۔ (خطوطِ اقبال، مرتبہ: رفیع الدین ہاشمی، ص ۲۸۸)
اس کے بعد نیاز علی خاں نے ہندستان کے معروف اہلِ علم اور علماے دین سے مشورہ کیا، جن میں مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا عبیداللہ سندھی، عبداللہ یوسف علی اور محمداسد (سابق لیوپولڈ وائس) شامل تھے۔اگرچہ ان تمام اہلِ علم اور علماے دین نے ایک تحقیقی ادارے کے لیے اس منصوبے کی تائید کی، لیکن اپنی موجودہ مصروفیات کی بناپر اس میں شرکت سے معذرت کرلی۔ اس طرح ادارے کے لیے متعلقہ شخصیات کا حصول مشکل ہوگیا۔
آخرکار علامہ اقبال کی مردم شناس نگاہ سیدمودودی پر پڑی۔ انھوں نے نیاز علی خاں سے کہا: ’’حیدرآباد سے ترجمان القرآن کے نام سے ایک بڑا اچھا رسالہ نکل رہا ہے۔ مودودی صاحب اس کے ایڈیٹر ہیں۔ میں نے ان کے مضامین پڑھے ہیں۔ دین کے ساتھ وہ مسائل حاضرہ پر بھی نظر رکھتے ہیں۔ ان کی کتاب الجہاد فی الاسلام مجھے بہت پسند آئی ہے۔ آپ کیوں نہ انھیں دارالاسلام آنے کی دعوت دیں۔ میرا خیال ہے وہ دعوت قبول کرلیں گے‘‘۔ (ہفت روزہ ایشیا، ۱۷؍اپریل، ۱۹۶۹ء)
اس زمانے میں مولانا مودودی حیدرآباد دکن میں مصروفِ عمل تھے اور اپنے مقاصد کے حصول کے لیے انھوں نے زمین بھی حاصل کرلی تھی (ماہ نامہ سیارہ، مئی ۱۹۶۳ء، ص۳۵)۔ ماضی کے اس دور پر نظر دوڑاتے ہوئے انھوں نے لکھا:’’میں پنجاب سے کوئی دل چسپی نہ رکھتا تھا، بلکہ یہاں کی صحافت اور سیاست اور مناظرہ بازیوں کا رنگ دیکھ کر دُور ہی سے اتنا بدگمان تھا کہ پنجاب آنا پسند بھی نہ کرتا تھا، مگر ۱۹۳۶ء کے اواخر میں پہلی مرتبہ ڈاکٹر [محمد اقبال] صاحب نے مجھے توجہ دلائی کہ دکن کو چھوڑ کر پنجاب میں قیام کروں۔ پہلی نگاہ میں تو مجھے اس تجویز نے کچھ زیادہ متاثر نہ کیا، مگر جب ۱۹۳۷ء کے اواخر میں، مَیں نے دکن چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا، اور کسی دوسرے مستقر کی تلاش میں حیدرآباد سے نکلا تو مرحوم سے مشورہ کرنے کے لیے لاہور حاضر ہوا اور یہاں ان سے بالمشافہہ گفتگو کرنے کے بعد مجھے اطمینان ہوگیا کہ آیندہ میرے لیے پنجاب ہی میں قیام کرنا زیادہ مناسب ہے۔ (ماہ نامہ چراغِ راہ، کراچی، سال نامہ ۱۹۶۰ء ، ص ۷۳،ایضاً ص ۲۲) ۱۱؎
وہ اسباب جن کی بناپر مولانا مودودی نے حیدرآباد چھوڑنے کا فیصلہ کیا، ان کا مختصراً ذکر انھوں نے ان الفاظ کیا ہے کہ: ’’جنوبی ہندستان میں سرگرمی کے ساتھ کام کرنے کے امکانات روز بروز معدوم ہوتے جارہے تھے، اور میں نے محسوس کیا کہ مسلمانوں کے مستقبل کے تعین میں شمالی ہندستان زیادہ مناسب ہوگا‘‘۔ ۱۲؎ (ماہنامہ سیارہ، اقبال نمبر، مئی ۱۹۶۳ء، ص۳۵)
اس زمانے میں برعظیم پاک و ہند میں پنجاب میں مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی تھی اور وہ اپنی سیاسی اور سماجی سرگرمیوں کی وجہ سے توجہ کا مرکز تھی۔ اسی زمانے میں ترجمان القرآن کی اشاعت میں اضافے اور اشاعتی اخراجات کو پورا کرنے کے لیے مولانا مودودی وسائل فراہم کرنے کے لیے جدوجہد بھی کر رہے تھے۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے یونانی ادویات کی فروخت کی آمدنی سے اشاعتی اخراجات کو پورا کرنے کی کوشش کی۔ (خطوطِ مودودی، دوم، ۱۹۹۵ء، ص۴۹)
نومبر ۱۹۳۷ء کے ترجمان القرآن کے شمارے میں مولانا مودودی نے اعلان کیا کہ رسالے کا دفتر حیدرآباد سے پٹھان کوٹ منتقل ہو رہا ہے۔ انھوں نے اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ اس مقصد کے پیش نظر مرکز بناکر ان باصلاحیت نوجوانوں کو جمع کریں گے، جو جدید اور قدیم علوم پر دسترس رکھتے ہوں۔ (جماعت اسلامی کے ۲۹ سال، سیّد مودودی، ۱۹۷۶ء، ص ۲۴)
ادارہ دارالاسلام دسمبر ۱۹۳۷ء میں قائم ہوا، اس کا پورا نام ’دارالاسلام ٹرسٹ‘ تھا اور یہ نام مولانا مودودی کا تجویز کردہ تھا۔ یہ جمال پور، ضلع گورداس پور میں واقع تھا۔ ادارے کے عزائم اور پروگرام کے بارے میں یہ اعلان کیا گیا تھا کہ:lتمام جائز ذرائع سے اسلام، تہذیب اور تاریخ کی تشریح اور نشرواشاعت کی جائے گی۔ lچودھری نیاز علی خان نے بذریعہ رجسٹری ۴مارچ ۱۹۳۶ء جو جایداد وقف کی ہے، اس کی تمام جایداد، سرمایہ اور آمدنی وغیرہ کو جو ادارہ دارالاسلام کو بصورت وقف یا کسی دوسری صورت میں حاصل ہو، اس مقصد کے لیے خرچ کیا جائے گا۔
دارالاسلام کے انتظامات کے لیے اس کے معاونین کی طرف سے زمین اور جایداد وقف کی گئی تھی جن میں نمایاں نام چودھری نیاز علی خان کا تھا۔
دارالاسلام کے قیام کے بعد مارچ ۱۹۳۸ء میں مولانا مودودی یہاں آئے۔ مولانا مودودی کے مطابق علامہ اقبال نے وعدہ کیا تھا کہ اگر مولانا مودودی دارالاسلام آئے تو وہ نصف سال لاہور میں رہیں گے اور نصف سال دارالاسلام میں قیام کریں گے (ماہنامہ سیارہ، مئی۱۹۶۳ء)۔ لیکن مولانا مودودی کی آمد کے ایک ماہ بعد ہی ۲۱؍اپریل ۱۹۳۸ء کو علامہ اقبال کا انتقال ہوگیا۔
علامہ اقبال کے انتقال کی خبر سننے کے بعد مولانا مودودی نے ان کی یاد میں ترجمان القرآن میں یہ مضمون لکھا: ’’پچھلے سال کے آغاز میں جو دعا مَیں نے اپنے مالک سے مانگی تھی، اس وقت ذہن میں اس امر کا تصور بھی نہ تھا کہ سال پورا ہونے سے پہلے ہی ایک ٹوٹی ہوئی کشتی کو سمندر کی طوفانی موجوں کے مقابلے میں لے جانے کا حوصلہ فرسا کام میرے سپرد کردیا جائے گا۔ اس وقت محض ایک دھندلا سا خیال تھا کہ شاید مستقبل قریب میں ایسی کوئی صورت پیش آجائے، اس لیے میں نے تمنا کی تھی کہ اگر میرا آقا ایسا کوئی بوجھ میرے کندھوں پر رکھنے والا ہے تو اس کو سنبھالنے کی طاقت بھی عطا کرے۔ مجاہد کا سا ایمان دے۔ ایسی روح دے جو شکست کھانے اور سپر رکھ دینے کا تصور ہی نہ کرسکتی ہو۔ ایسی عزیمت دے جو مادی سہاروں سے قطعاً مستغنی ہو اور تمام سہاروں کے چھوٹ جانے پر بھی نہ ٹوٹے۔ ایسا ارادہ دے جسے کوئی طاقت اپنے مقصد کے راستے سے نہ ہٹاسکے۔(ماہ نامہ ترجمان القرآن، [مارچ]، ۱۹۳۸ء، ص۲)
مولانا مودودی، علامہ اقبال کی دعوت پر پنجاب منتقل ہوگئے، اور دارالاسلام میں پوری سرگرمی کے ساتھ اس کی تنظیم سازی میں مصروف ہوگئے اور اس کے ساتھ اپنی تحریری سرگرمیاں بھی جاری رکھیں۔ اکتوبر ۱۹۳۸ء میں ایک مجلس مشاورت (شوریٰ) قائم کی، مولانا مودودی اس کے صدر منتخب ہوئے۔ یہ ڈھانچا مستقبل میں جماعت اسلامی کی بنیاد بنا۔ (Maududi and the Making of Islamic Revivalism، ولی رضا نصر، ۱۹۹۶ء، ص ۳۸)
ماہ نامہ ترجمان القرآن بھی پٹھان کوٹ سے شائع ہونے لگا، اور مولانا مودودی کے بہت سے مضامین ترجمان میں اشاعت کے بعد کتابی شکل میں شائع ہوئے۔ ان مقالات کے مجموعوں میں تنقیحات، مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش (۱۹۳۹ء)، مسئلۂ قومیت (۱۹۳۹ء) ، پردہ (۱۹۴۰ء) اور تفہیمات ،اول (۱۹۴۰ء) بھی شامل ہیں۔
اسی دوران میں کُل ہند مسلم لیگ کے حوالے سے ہندستانی مسلمانوں میں کچھ مزید پیش رفت ہوئی۔ مسلم لیگ کے ۲۷ویں اجلاس کے موقع پر جو لاہور میں ۲۳مارچ ۱۹۴۰ء میں منعقد ہوا، مسلم لیگ کے صدر محمدعلی جناح نے اپنی تقریر میں دو قومی نظریے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہندستان میں دو قومیں آباد ہیں: ہندو اور مسلمان___ جن کی تہذیب اور تاریخی اقدار و روایات اپنے مذہبی اختلافات کی بنا پر مکمل طور پر جدا ہیں، اور انھوں نے مسلمانوں کے لیے ایک الگ، خودمختار ریاست کا مطالبہ کیا۔ اس وقت محمدعلی جناح کے پیش نظر صرف یہ بات تھی کہ مسلمانانِ ہند کی نمایندگی کا حق کسی طرح حاصل کیا جائے، اور ان کے لیے یہ بات ثانوی حیثیت رکھتی تھی کہ ان کے حمایتی امرا کے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں یا عوام میں سے ہیں۔ اس طرح سے انھوں نے ان کی نمایندگی کا حق حاصل کیا۔۱۳؎ (The Contemporary History of South Asia، جلددوم، ازکاگایا اور ہاماگوچی، ٹوکیو،۱۹۷۷ء، ص ۱۳۵-۱۳۸)
اسی زمانے میں مولانا مودودی کی کتب میں قوم پرستی کے مسئلے پر بہت سے مضامین ملتے ہیں، بالخصوص مسئلۂ قومیت جو ۱۹۳۹ء میں شائع ہوئی۔ جس میں وہ تمام مضامین شامل ہیں جو ۱۹۳۳ء سے ۱۹۳۹ء کے درمیان ترجمان القرآن میں شائع ہوئے۔اس میں ان عنوانات کے تحت مضامین شامل ہیں، جیسے: ’قومیت اسلام‘، ’متحدہ قومیت اور اسلام‘، ’کیا ہندستان کی نجات نیشنلزم میں ہے؟‘، ’اسلامی قومیت کا حقیقی مفہوم‘ اور ’نسلی مسلمانوں کے لیے دو راستے‘۔
ان تمام مضامین میں مولانا مودودی کا یہ نقطۂ نظر مشترکہ طور پر پایا جاتا ہے کہ قرآنِ مجید میں مسلمانوں کے لیے عموماً جو اصطلاحیں استعمال کی گئی ہیں وہ ’حزب‘، ’جماعت‘ اور ’حزب اللہ‘ (اللہ کی جماعت) اور ’اُمت‘ ہیں نہ کہ ’قوم‘: ’’لفظ ’قوم‘ اور اس کا ہم معنی انگریزی لفظ Nation یہ دونوں دراصل جاہلیت کی اصطلاحیں ہیں۔ اہلِ جاہلیت نے ’قومیت‘ (Nationality) کو کبھی خالص تہذیبی بنیاد (cultural basis) پر قائم نہیں کیا، نہ قدیم جاہلیت کے دور میں اور نہ جدید جاہلیت کے دور میں۔ جس طرح قدیم عرب میں قوم کا لفظ عموماً ایک نسل یا ایک قبیلے کے لوگوں پر بولا جاتا تھا، اسی طرح آج بھی لفظ ’نیشن‘ کے مفہوم میں مشترک جنسیت (common descent) کا تصور لازمی طور پر شامل ہے، اور یہ چیز چونکہ بنیادی طور پر اسلامی تصورِ اجتماع کے خلاف ہے، اس وجہ سے قرآن میں لفظ قوم اور اس کے ہم معنی دوسرے عربی الفاظ، مثلاً ’شعب‘ وغیرہ کو مسلمانوں کی جماعت کے لیے اصطلاح کے طور پر استعمال نہیں کیا گیا۔ ظاہر ہے کہ ایسی اصطلاح اس جماعت کے لیے کیونکر استعمال کی جاسکتی تھی جس کے اجتماع کی اساس میں خون اور خاک اور رنگ اور اس نوع کی دوسری چیزوں کا قطعاً کوئی دخل نہ تھا، جس کی تالیف و ترکیب محض اصول اور مسلک کی بنیاد پر کی گئی تھی اور جس کا آغاز ہی ہجرت اور قطع نسب اور ترک علائق مادی سے ہوا تھا۔ (مسئلۂ قومیت،سیّد مودودی، ص ۱۶۸)۱۴؎
الجہاد فی الاسلام میں مولانا مودودی نے اس بات کو واضح کیا تھا کہ ’قوموں‘ کی بقا کا ذکر قرآنِ مجید میں آیا ہے۔۱۵؎ جس نکتے پران کا اصرار تھا وہ یہ تھا کہ ’قوم‘ کا تصور ’مسلمان‘ کی تعریف پر پورا نہیں اُترتا۔ وہ کہتے ہیں کہ: ’’مسلمان کا لفظ خود ظاہر کر رہا ہے کہ یہ ’اسم ذات‘ نہیں بلکہ ’اسم صفت‘ ہی ہوسکتا ہے اور ’پیرو اسلام‘ کے سوا اس کا کوئی دوسرا مفہوم سرے سے ہے ہی نہیں۔ یہ انسان کی اس خاص ذہنی، اخلاقی اور عملی صفت کو ظاہر کرتا ہے جس کا نام ’اسلام‘ ہے۔ لہٰذا، اس لفظ کو شخصی مسلمان کے لیے اس طرح استعمال نہیں کرسکتے جس طرح آپ ہندو یا جاپانی یا چینی کے الفاظ شخصی ہندو، یا شخصی جاپانی یا شخصی چینی کے لیے استعمال کرتے ہیں‘‘۔ (مسئلۂ قومیت، ص۱۸۲)
مولانا مودودی نے اس بات پر زور دیا کہ: ’’مسلمان کی بقا صرف اس صورت میں ہے کہ اس کا تعلق صرف اللہ سے ہو، اور مسلمان صرف اسی وقت تک مسلمان ہے جب تک وہ اسلام پر ایمان رکھتا ہے اور اسلام پر عمل کرتا ہے‘‘ (مسئلۂ قومیت، ص ۱۷۴)۔ اگر مسلمان آپس میں کئی نسلوں تک شادی کرتے رہیں، اور مسلمانوں کا ایک نسلی گروہ بن جائے، اسے بظاہر مسلم قوم کہا جاسکتا ہے، لیکن مولانا مودودی کے نزدیک ایسے گروہ کو مسلمان کہنا غلط ہوگا اگر اس کے ارکان بطور مسلمان اپنے فرائض ادا نہیں کرتے۔ اسی طرح وہ اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ ماضی کے مسلمان حکمرانوں کی بادشاہتوں کو ’اسلامی حکومتیں‘ قرار دینا درست نہیں۔ وہ اس بات کو بھی واضح کرتے ہیں کہ بادشاہتوں کی تاریخ سیاسی تاریخ ہے نہ کہ اسلام کی تاریخ۔
یوں مسلمان کی ایک واضح تعریف کا تعین کرنے کے بعد مولانا مودودی نے ہندستان کے بہت سے مسلم دانش وروں کے مسلم قوم پرستانہ نقطۂ نظر کا محاکمہ کرتے ہوئے لکھا:’’جس چیز کو آپ اسلامی اخوت کہہ رہے ہیں یہ دراصل جاہلی قومیت کا رشتہ ہے، جو آپ نے غیرمسلموں سے لے لیا ہے۔ اسی جاہلیت کا ایک کرشمہ یہ ہے کہ آپ کے اندر ’قومی مفاد‘ کا ایک عجیب تصور پیدا ہوگیا ہے اور آپ اس کو بے تکلف ’اسلامی مفاد‘ بھی کہہ دیا کرتے ہیں۔ یہ نام نہاد اسلامی مفاد کیا چیز ہے؟ یہ کہ جو لوگ ’مسلمان‘ کہلاتے ہیں ان کا بھلا ہو، ان کے پاس دولت آئے، ان کی عزت بڑھے، ان کو اقتدار نصیب ہو، اور کسی نہ کسی طرح اُن کی دُنیا بن جائے، بلااس لحاظ کے کہ یہ سب فائدے اسلامی نظریے اور اسلامی اصول کی پیروی کرتے ہوئے حاصل ہوں یا خلاف ورزی کرتے ہوئے۔ پیدایشی مسلمان یا خاندانی مسلمان کو آپ ’مسلمان‘ کہتے ہیں، چاہے اس کے خیالات اور اس کے طرزِعمل میں اسلام کی صفت کہیں ڈھونڈے نہ ملتی ہو۔ گویا آپ کے نزدیک مسلمان روح کا نہیں بلکہ جسم کا نام ہے اور صفت ِ اسلام سے قطع نظر کر کے بھی ایک شخص کو مسلمان کہا جاسکتا ہے۔ اس غلط تصور کے ساتھ جن جسموں کا اسمِ ذات آپ نے مسلمان رکھ چھوڑا ہے، ان کی حکومت کو آپ اسلامی حکومت، ان کی ترقی کو آپ اسلامی ترقی، ان کے فائدے کو آپ اسلامی مفاد قرار دیتے ہیں، خواہ یہ حکومت اور یہ ترقی اور یہ مفاد سراسر اصولِ اسلام کے منافی ہو....آپ کے مسلمان قوم پرست محض اپنی قوم کی سربلندی چاہتے ہیں، خواہ یہ سربلندی اصولاً اور عملاً اسلام کے بالکل برعکس طریقوں کی پیروی کا نتیجہ ہو۔ کیا یہ ’جاہلیت‘ نہیں ہے؟ کیا درحقیقت آپ اس بات کو بھول نہیں گئے ہیں کہ مسلمان صرف اس بین الاقوامی پارٹی کا نام تھا جو دنیا میں انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے ایک خاص نظریے اور ایک عملی پروگرام لے کر اُٹھی تھی؟ (مسئلۂ قومیت، ص۱۸۲-۱۸۳)
اس اقتباس میں یہ پہلو قابلِ غور ہے کہ مولانا مودودی نے اُن مسلمانوں کے نقطۂ نظر کو ’جاہلیت‘ کے لفظ سے منسوب کیا ہے، جو مغربی نظریات سے مرعوب ہیں۔ مولانا مودودی کی جانب سے ’عصرِجدید‘ کے ایسے فکری پہلوئوں کو ’جاہلیت‘ کے ہم پلّہ قرار دینا، درحقیقت اسلام کے انقلابی فکر کو پیش کرنے کا پیش خیمہ تھا۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے ۱۹۳۹ء میں شروع کر دیا تھا۔ پھر الاخوان المسلمون مصر کے رہنما سید قطب، سید مودودی کے انھی نظریات سے متاثر تھے، تحقیق کار چوایری (Choueiri) اور لی زوکا (Lizuka) لکھتے ہیں کہ : جیسے مولانا مودودی نے مغربی سیاسی تصورات پر جو جدید ذہن پر غالب ہیں، تنقید کرنے کے لیے ’جاہلیت‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے، اسی طرح سید قطب نے بھی مصری معاشرے کے چند درچند پہلوئوں اور مظاہر کو ’جاہلیت‘ کی اصطلاح سے موسوم کیا ہے۔ (The Development of Islamic State Theory، ۱۹۹۱ء، ص ۲۷۴)
مولانا مودودی اور نیاز علی خاں کے درمیان اس وقت اختلاف پیدا ہوا جب مولانا مودودی نے کُل ہند مسلم لیگ کے مسلم قوم پرستانہ نقطۂ نظر کا تجزیہ کیا۔ چودھری نیاز علی خاں، دارالاسلام کو ایک تحقیقی ادارے تک محدود رکھنا، اور سیاسی اُمور پر راے زنی سے بچنا چاہتے تھے، لیکن مولانا مودودی نے کہا: یہ ناممکن ہے کہ اسلام کو سیاست سے الگ رکھا جائے۔ اس اختلاف کے نتیجے میں مولانا مودودی دارالاسلام چھوڑ کر جنوری ۱۹۳۹ء میں لاہور چلے آئے۔کچھ عرصے کے لیے دارالاسلام نے بھی اپنا مرکزی دفتر لاہور منتقل کیا، لیکن بعدازاں اس کی سرگرمیاں منجمد ہوگئیں۔
پنجاب میں تحقیقی ادارے دارالاسلام کے قیام اور ترجمان القرآن میں اپنی تحریروں کے ذریعے مولانا مودودی علمی حلقوں میں خاصے معروف ہوچکے تھے۔ ایسے میں، ۱۹۴۱ء میں انھوں نے موزوں وقت پر جماعت اسلامی کے قیام کا فیصلہ کیا۔ دارالاسلام میں قیام کے دوران انھوں نے تحریک احیاے اسلام پر ایک کتاب تجدید و احیاے دین کے نام سے شائع کی۔ اس کتاب میں انھوں نے اسلامی احیا کے لیے کی جانے والی کوششوں کا جائزہ لیا تھا۔
۱۹۴۱ء میں، مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش کی تیسری جلد میں مولانا مودودی نے اسلامی تحریک کے مفہوم پر بحث کی اور ایک سیاسی جماعت کے قیام پر زور دیا۔ اس طرح ان لوگوں سے جو اس نقطۂ نظر سے اتفاق رکھتے تھے، اس جماعت کے قیام کے لیے اپنی رضامندی کے اظہار کے لیے ترجمان القرآن کے دفتر میں رابطے کے لیے کہا۔جماعت اسلامی ۲۶؍اگست ۱۹۴۱ء کو اسلامیہ پارک، لاہور کے ایک گھر میں قائم ہوئی، اور اس موقع پر ۷۵؍افراد جمع ہوئے۔
دارالاسلام کے پس منظر میں جماعت اسلامی کی تشکیل کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ نظریاتی فکر کی اصلاح کی اسی مہم کے دوران ’دارالاسلام‘ اسلامی تحریک کے قیام کی طرف پہلا قدم تھا۔ اگرچہ اسے نظرانداز کردیا گیا، لیکن اس کے نتیجے میں حامیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا، اور ایک ایسے وقت میں جب پورے ہندستان میں ہم خیال لوگوں کے مختلف چھوٹے چھوٹے گروہ بن گئے، تو تحریک اسلامی کو ایک منظم انداز میں آگے بڑھانے کے لیے جماعت اسلامی کے قیام کا دوسرا مرحلہ آن پہنچا (The Contemporary History of South Asia، دوم، ٹوکیو، ۱۹۷۷ء،ص ۷۰)۔اگرچہ دارالاسلام کا تجربہ تو کامیاب نہ ہوسکا، لیکن جب مولانا مودودی نے جماعت اسلامی قائم کی تو یہ تجربہ بہت معاون ثابت ہوا۔
مولانا مودودی نے اس امر کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ:’’مسلمانوں کا اصل نصب العین اسلامی نظامِ زندگی کا قیام ہے.... جس کی ہر چیز دنیا کے سامنے اسلام کا نمونہ پیش کرنے والی ہو۔ اسی چیز کو ہم نے جماعت اسلامی کا نصب العین قرار دیا ہے۔ اسلام کی اصطلاح میں اس کا نام اقامت ِدین ہے‘‘(جماعت اسلامی کے ۲۹سال، ستمبر۱۹۷۰ء،ص ۳۰،۳۱)۔ مزیدبرآں ’’صرف باکردار مسلمانوں کو جماعت میں شمولیت کی اجازت دی گئی‘‘، اور ماضی کی دیگر جماعتوں کی طرح ’’جنھوں نے مختلف سیکولر معاشروں اور جماعتوں کی طرح کے طور طریقے اختیار کیے‘‘، ان کے مقابلے میں جماعت اسلامی نے ’’وہی اصول اپنائے جو کہ نبی کریمؐ کی قائم کردہ اوّلین جماعت نے اپنائے تھے‘‘۔ نتیجتاً شوریٰ کے اراکین کا براہِ راست انتخاب اراکین جماعت کرتے تھے اور ان کا سربراہ بھی منتخب کیا جاتا تھا (ایضاً، ص ۴۰-۴۳)۔ انھوں نے اسلام کی بنیاد پر سماجی اصلاح کے لیے لوگوں کو پکارا کہ: ’’[جماعت اسلامی کے] کارکنوں کو پوری دنیا کے نظام زندگی کو لازماً تبدیل کرنا ہے۔ انھیںہرچیز کو بدلنا ہے، یعنی دنیا کی اخلاقیات، سیاست، تہذیب و تمدن، معاشرہ اور اقتصادیات۔ انھیں لازماً اُس نظامِ زندگی کو بدلنا ہے جو اللہ کے احکامات کے برعکس ہے اور جو دنیا میں نافذ ہے اور اسے بدل کر اللہ کے احکامات کے تابع کرنا ہے‘‘۔
مولانا مودودی نے اس بات کا بھی خیال رکھا کہ جماعت اسلامی میں جو لوگ شمولیت اختیار کریں وہ قدیم اور جدید علوم پر نظر رکھتے ہوں، جیساکہ ان کی سرگذشت سے اندازہ ہوتا ہے: ’’ایک اور چیز جس کو ہم نے جماعت کی تشکیل میں پیش نظر رکھا، وہ یہ تھی کہ جدید اور قدیم تعلیم یافتہ، دونوں قسم کے عناصر کو ملاکر ایک تنظیم میں شامل کیا جائے اور یہ دونوں مل کر اسلامی نظام قائم کرنے کے لیے تحریک چلائیں۔ اپنے سابقہ تجربات کی بنا پر میری یہ راے تھی کہ خالص جدید تعلیم یافتہ لوگوں کی جماعت چاہے اپنی جگہ اسلام کے معاملے میں کتنی ہی مخلص ہو، لیکن چونکہ وہ دین کو نہیں جانتی، اس لیے تنہا وہ ایک دینی نظام قائم نہیں کرسکتی۔ اسی طرح محض دینی تعلیم پائے ہوئے لوگ اگرچہ وہ دین کو بخوبی جانتے ہیں مگر چونکہ انھوں نے وہ تعلیم حاصل نہیں کی جس سے وہ ایک جدید دور میں ایک جدید ریاست کا نظام چلا سکیں، اس لیے صرف ان پر مشتمل کوئی خالص مذہبی جماعت بھی نہ دینی نظام قائم کرسکتی ہے، نہ اسلام کی بنیاد پر جدید دور میں ایک اسلامی ریاست کا انتظام کرسکتی ہے۔ ان وجوہ سے میرے نزدیک یہ ناگزیر تھا کہ ان دونوں گروہوں کو ملایا جائے‘‘۔ (ایضاً،ص ۳۵)۱۷؎
مولانا مودودی کا یہ اندازِ بیان اشارہ کر رہا ہے کہ ’اسلامی نظامِ حکومت کا نفاذ‘ کسی ردعمل کا نتیجہ نہیں بلکہ اس کا مقصد عصر جدید میں اسلام کا احیا ہے۔
جماعت اسلامی کے تاسیسی اجلاس کے شرکا نے بالاتفاق مولانا مودودی کو امیر جماعت کی ذمہ داری سونپ دی۔ جون ۱۹۴۲ء میں چودھری نیاز علی خاں نے مولانا مودودی کو دوبارہ دارالاسلام پٹھانکوٹ واپس آنے کی دعوت دی۔ قیامِ پاکستان کے تقریباً دو ہفتے بعد، ۲۹؍اگست ۱۹۴۷ء کو مولانا مودودی نے پاکستان ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان کی طرف ہجرت کے فیصلے کے حوالے سے ایک اشارہ مولانا مودودی کی اس تحریر سے ملتا ہے، جو سہ روزہ اخبار کوثر ،لاہور کی ۵جولائی ۱۹۴۷ء کی اشاعت میں، قیامِ پاکستان سے تھوڑا عرصہ قبل ہی شائع ہوئی تھی۔ اس وقت تک یہ معاملہ زیربحث تھا کہ افغانستان کی سرحد کے ساتھ شمال مغربی سرحدی صوبے [موجودہ: خیبرپختون خوا] کے لوگ ایک ریفرنڈم میں اپنا ووٹ ڈال کر اپنی اس راے کا اظہار کریں گے کہ آیا انھیں پاکستان میں شامل ہونا ہے یا ہندستان میں؟ سرحدکے مقامی لوگوں کی طرف سے اس سلسلے میں مولانا مودودی سے سوال کیا گیا تو مولانا مودودی نے جواب لکھا تھا:’’ اس معاملے میں جماعت کی طرف سے کوئی پابندی عائد نہیں کی جاسکتی، کیونکہ جماعت اپنے ارکان کو صرف اُن اُمور میں پابند کرتی ہے جو تحریکِ اسلامی کے اصول اور مقصد سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس لیے ارکانِ جماعت کو اختیار ہے کہ وہ اپنی صواب دید کے مطابق جو راے چاہیں دے دیں۔ البتہ شخصی حیثیت سے مَیں کہہ سکتا ہوں کہ اگر مَیں خود صوبہ سرحد کا رہنے والا ہوتا تو استصواب راے میں میرا ووٹ پاکستان کے حق میں پڑتا۔ اس لیے کہ جب ہندستان کی تقسیم، ہندو اور مسلم قومیت کی بنیاد پر ہورہی ہے، تو لامحالہ ہر اُس علاقے کو جہاں مسلمان قوم کی اکثریت ہو، اِس تقسیم میں مسلم قومیت ہی کے علاقے کے ساتھ شامل ہونا چاہیے.... پاکستان کے حق میں ووٹ دینا لازماً اُس نظامِ حکومت کے حق میں ووٹ دینے کا ہم معنی نہیں ہے، جو آیندہ یہاں قائم ہونے والا ہے۔ وہ نظام اگر فی الواقع اسلامی ہوا جیساکہ وعدہ کیا جاتا رہا ہے تو ہم دل و جان سے اس کے حامی ہوں گے۔ اور اگر وہ غیراسلامی نظام ہوا تو ہم اُسے تبدیل کر کے اسلامی اصولوں پر ڈھالنے کی جدوجہد اُسی طرح کرتے رہیں گے، جس طرح موجودہ نظام میں کر رہے ہیں‘‘۔ (سہ روزہ کوثر، ۵جولائی ۱۹۴۷ء اور تحریکِ آزادی ہند اور مسلمان، دوم، ص ۲۸۷-۲۸۸)
اس طرح انھوں نے عبوری طور پر پاکستان کو مسلمانوں کے لیے مسلمانوں کی ریاست کے طور پر قبول کرلیا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنے ارادے کی طرف بھی اشارہ کردیا کہ وہ اسلامی ریاست کے قیام کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھیںگے۔ اسی طرح مولانا مودودی نے پاکستان منتقلی کو ہجرت قرار دیا (ماہ نامہ سیارہ، مارچ ۱۹۷۸ء)۔ وہ پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانے کے لیے سوچ سمجھ کر ہجرت کرکے آئے تھے۔
اس طرح سے مولانا مودودی پاکستان منتقل ہوگئے، اور اسلامی نظامِ حکومت کے نفاذ کے لیے سرگرم عمل ہوگئے، اور پاکستان کی دستورساز اسمبلی کے ذریعے قراردادِ مقاصد کے آغاز میں یہ عبارت شامل کروانے میں کامیاب ہوگئے کہ ’حاکمیت صرف اللہ کی ہے‘۔ ۱۹۵۳ء میں مولانا مودودی نے [مرزا غلام احمد قادیانی کے ہم مذہب]احمدیوں پر تنقید [قادیانی مسئلہ، نامی مقالے کی صورت میں] کی۔ جس [مذہب]کی بنیاد انیسویں صدی کے اواخر میں شمالی ہند میں رکھی گئی کہ: ’’یہ غیرمسلم ہیں‘‘۔ اس پر انھیں گرفتار کرلیا گیا اور بعد میں انھیں [مئی ۱۹۵۳ء میں]سزاے موت سنا دی گئی۔ [قادیانی مسئلہ لکھنے پر ہی یہ سزا سنائی گئی تھی، جو بعد میں عالمی دبائو کی بناپر عمرقید میں تبدیل کردی گئی]۔ بعدازاں انھیں رہا کردیا گیا۔ انھوں نے اپنی تحریری سرگرمیوں کو جاری رکھا۔
اس سے قبل ہم اس بات کا جائزہ لے چکے ہیں کہ علامہ محمد اقبال اور مولانا مودودی نے اپنے اپنے دائرئہ فکروعمل میں اسلام کے احیا کے لیے تجربات کے ذریعے انتہائی جدوجہد کی۔ ان تجربات میں دارالاسلام کا قیام، شعری اور نثری کاوشیں، اور سیاسی سرگرمیاں شامل ہیں۔
اقبال کے شاعرانہ جذبات اور سید مودودی کے فکری استدلال نے نہ صرف ہم عصر پاکستانیوں پر اثرات مرتب کیے، بلکہ دوسرے خطوں کو بھی متاثر کیا۔ مولانا مودودی کی فکر کا نمایاں ترین پہلو ان کے افکار و نظریات کے ساتھ ساتھ ان کا منفرد اسلوب ہے۔ مراد یہ کہ وہ نہ صرف اسلام کے لیے مثبت انداز رکھتے ہیں اور عصرحاضر کو اسلام کے تناظر میں سمجھتے ہیں، بلکہ جدید افکار اور علوم کے بارے میں بھی مثبت رویہ رکھتے ہیں۔ اسلامی قوانین کی تدوین جدید کا مسئلہ مولانا مودودی سے قبل بھی جنوبی ایشیا میں زیربحث آچکا تھا۔
امریکی دانش ور پروفیسر جان لویس ایسپوزیٹو، اقبال کو ایک معروف جدید اسلامی شاعر اور فلسفی قرار دیتے ہیں، جنھوں نے بہت سے مسلمانوں کے تصور کو ۱۹۳۰ء میں مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن کے مطالبے سے جِلابخشی۔ یہ اس بات کا ثبوت بھی ہے اور ایک حقیقت بھی کہ انھوں نے نہ صرف ریاست کی تعمیر کے تصورات کی اہمیت کو اُجاگر کیا، بلکہ اپنی شاعری کے ذریعے ان تصورات کی بھرپور عکاسی بھی کی۔ اس طرح جہاں علامہ محمداقبال نے حاکمیت اور قومیت کے تصورات کو اپنی شاعری کے ذریعے اُجاگر کیا، وہاں مولانا مودودی نے بطور صحافی، مفکر اور عالمِ دین ان تصورات کو جامع اور مؤثر نثری اسلوب میں مدلل انداز میں قرآن و سنت کے استدلال کے ساتھ ٹھوس بنیادوں پر پیش کیا۔
مستقبل میں ایک علمی و تحقیقی کام ہندستان کے مسلم دانش وروں بشمول علامہ اقبال اور مولانا مودودی کے افکار کا جائزہ اور ان کے اثرات کا انطباق ہے (اس ضمن میں ایک تحقیقی کام شیخ محمد اکرام کی تصانیف آبِ کوثر، موجِ کوثر اور رودِ کوثر کی صورت میں سامنے آچکا ہے)۔ اس علمی و تحقیقی جائزے کے لیے ضروری ہے کہ نہ صرف تحریکِ احیاے اسلام کا مطالعہ کیا جائے، بلکہ صوفی ازم اور اسلام کے دیگر مختلف پہلوئوں کا بھی مطالعہ کیا جائے۔
مولانا مودودی اگرچہ علامہ ا قبال کے اس نقطۂ نظر کے حامی تھے کہ اسلام کی جدید خطوط پر تشکیلِ نو کی جائے، جو مغرب کے جدید تقاضوں کے مطابق ہو،۱۸؎ تاہم جس بات کی انھوں نے بھرپور تائید کی وہ اسلام کی ایسی تعبیر اور تشکیل جدید ہے، جو اسلام کے دورِ اوّل سے ہم آہنگ ہو۔ ان کا یہ منفرد اسلوب جدیدیت ِ اسلام کا تصوراس طرح سے پیش کرتا ہے کہ مغربی تہذیب کے تضادات، اسلامی افکار کی روشنی میں نمایاں ہوکر سامنے آجاتے ہیں۔
اس کے علاوہ جس طرح سے جماعت اسلامی کی جدید علوم کے حامل افراد اور دینی علوم کے حاملین کے درمیان تبادلۂ خیال کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے تنظیم سازی کی گئی، وہ اسے اُن ردعمل کی حامل تنظیموں سے مختلف بنادیتی ہے جنھوں نے مغربی اقدار کو مکمل طور پر مسترد کردیا تھا۔ یہ اس وجہ سے تھا کہ مولانا مودودی نے جدید مغربی علوم کی اہمیت کو جانتے تھے ، اور وہ اس کے اہل تھے کہ مغرب کے تصورات جنگ، قوم پرستی، حاکمیت وغیرہ کو جان سکیں اور ان پر تنقیدکرسکیں۔ ان کا مغرب سے مرعوب ہوئے بغیر برابری کی سطح پر تنقید اور حقائق کو کھول کر بیان کرنا، جو علاقائیت اور قومیت کی قید سے آزاد تھا، بہت سے حامیوں میں اضافے کا باعث بنا۔ ۱۹۴۰ء اور ۱۹۵۰ء کے عشرے میں مولانا مسعود عالم ندوی۱۹؎ (م:۱۹۵۴ء) نے ان کی تحریروں کا عربی میں ترجمہ کیا اور ان تراجم سے دنیابھر میں پائی جانے والی احیاے اسلام کی تحریکوں پر ان کی فکر کے اثرات مرتب ہوئے۔
۲۰۰۷ء میں، مجھے مولانا مودودی کا انگریزی ترجمہ قرآن اور تفسیر تفہیم القرآن کا انگریزی ترجمہ، اور ان کی دیگر کتب کے ترجمے لندن سے دُور مسلمانوں کی ایک رہایشی بستی کے بک سٹور میں دیکھنے کو ملے۔ اسی طرح مجھے ملایشیا کے ایک بک سٹور میں کوالالمپور کی شائع کردہ ان کی ایک کتاب کا انگریزی ترجمہ بھی نظر آیا۔ جس طرح سے دنیا بھر کے مسلمان، ان کی تحریروں سے متعارف ہورہے ہیں، یہ اس بات کی علامت ہے کہ جنوبی ایشیا سے اسلام کے احیا کا عمل پھیل رہا ہے۔ یہ بات بھی دل چسپی کا باعث ہے کہ ملایشیا میں بہت سی کتابیں جو اسلام پر شائع ہوئی ہیں، وہ ان کتابوں کے شائع شدہ ایڈیشن ہیں جو بنیادی طور پر جماعت اسلامی پاکستان اور ندوۃ العلما لکھنؤ ،ہندستان سے شائع ہوئے تھے۔ مولانا مودودی کے ایک ہم عصر عبداللہ یوسف علی کا انگریزی ترجمہ قرآن اور تفسیر قرآن بھی جنوبی ایشیا میں بہ کثرت پڑھا جاتا ہے۔
دوسری طرف علامہ اقبال،جو پاکستان کے قومی شاعر کے طور پر معروف ہیں، اور ان کا کلام بکثرت ذرائع ابلاغ سے نشر کیا جاتا ہے، اقبال پر مطالعہ و تحقیق کے لیے ’اقبالیات‘ کے نام سے میدانِ تحقیق موجود ہے، اور ان کے افکار پر تحقیق کے لیے پاکستان میں بہت سے ادارے، مثلاً پاکستان کے تہذیبی شہر لاہور میں اقبال اکادمی پاکستان اور بزمِ اقبال موجود ہیں۔ ہمسایہ ملک ایران، جہاں وہ ’اقبال لاہوری‘ کے نام سے معروف ہیں، ان کا فارسی کلام شائع ہوچکا ہے اور وسیع پیمانے پر پڑھا جاتا ہے ۔ ایرانی شاعر ملک الشعرا محمد تقی بہار (۱۸۸۶ء-۱۹۵۱ء) جو کہ بیسویں صدی کے ابتدائی نصف میں مقبول تھا، اپنی ایک نظم میں اقبال کو مسلمانوں کا ’سربرآوردہ رہنما‘ قرار دیتا ہے:’’جب شاعروں نے شکست کھا کر ہتھیار ڈال دیے اس شاہ سوار نے ایک صد گھڑسواروں سے بڑھ کر کام کیا‘‘۔
جیسے جیسے مغربی لادینیت آگے بڑھی، اسلام کی جدیدیت نے، جیساکہ اقبال نے اس کی ترجمانی کی، مرتضیٰ مطہری (۱۹۲۰ء-۱۹۷۹ء) کو جو انقلابِ ایران کے فکری رہنمائوں میں سے تھے ، متاثر کیا۔ اپنی کتاب نہضہ اسلامی (اسلامی تحریکیں) میں مرتضیٰ مطہری عالمِ عرب سے باہر اقبال کو احیاے اسلام کے نمایاں مفکروں میں سے سمجھتے ہیں، اور مغربی علوم اور فلسفے پر گہری نظر رکھنے کی بنا پر انھیں خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔ ڈاکٹر علی شریعتی (۱۹۳۳ء-۱۹۷۷ء) جو ایرانی انقلاب پر اپنے فلسفیانہ اثرات رکھتے ہیں، وہ بھی اقبال کو ایک عظیم مفکر قرار دیتے ہیں۔
احیاے اسلام کے حوالے سے انقلابِ ایران کے بعد ایک اور پیش رفت یہ ہوئی کہ اشتراکی روس کے خلاف جنگ کو جہاد قرار دیا گیا اور دنیا بھر سے مسلمانوں نے اس میں رضاکارانہ طور پر حصہ لیا۔ یہ بات بھی دل چسپی کا باعث ہے کہ ۱۹۷۷ء میں جب اشتراکی روس کے اثرات افغانستان میں بڑھ رہے تھے، علامہ اقبال پر پانچ تحقیقی مقالات بشمول ان کی نظمیں کابل میں شائع ہوئے۔ مزیدبرآں جن دنوں اشتراکی روس کے خلاف جنگ زوروں پر تھی تو ایک افغان شاعر خلیل اللہ خلیلی کی کتاب، کلامِ اقبال کے ساتھ جمعیت اسلامی، مجاہدین کی ایک تنظیم کی طرف سے شائع کی گئی۔ یہ ایک اور مثال ہے کہ احیاے اسلام کی فکر کو فروغ دینے میں اقبال کا کیا کردار ہے۔۲۰؎
مزید یہ کہ علاوہ علامہ اقبال کے سات انگریزی خطبات پر مبنی کتاب Reconstruction of Relegious Thought in Islam فارسی، روسی، ترکی، جرمنی، اسپینی،عربی، فرانسیسی اور پنجابی زبان میں ترجمہ ہوچکی ہے، اور نہ صرف ان کے مختلف افکار نظم و نثر محض ان زبانوں میں سامنے آچکے ہیں بلکہ فرانسیسی، چینی، ازبک، ترکمانی، اطالوی اور جاپانی میں بھی ترجمہ ہوچکے ہیں۔۲۱؎ فارسی، تاجک اور ازبک زبانوں میں تراجم اور تحقیقی کام احیاے اسلام کے تناظر میں کیا گیا ہے اور احیاے اسلام کی فکر پر گہرے اثرات رکھتا ہے۔ وہ تراجم اور تحقیقی کام جو مختلف زبانوں میں شائع ہوا ہے، اس میں علمی و تحقیقی کام پر زور دیا گیا ہے اور اس کا مرکزی نکتہ اقبال کی قیامِ پاکستان کی تحریک کے تناظر میں فکر اور فلسفۂ خودی ہے۔
علامہ اقبال کی فکر کا بیش تر حصہ ان کی شاعری پر مبنی ہے، جس کا پوری طرح سے ترجمہ کرنا مشکل کام ہے، جب کہ مولانا مودودی نے اپنے افکار کو اختصار اور جامعیت کے ساتھ نثر میں پیش کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریروں کے تراجم کی اشاعت عالمِ اسلام میں زیادہ وسیع پیمانے پر ہوئی ہے۔ ان کی فکر کو دنیا بھر میں اپنایا جارہا ہے، مثلاً مصر اور ایران میں ان کی فکر کو عملاً اپنایا گیا۔ ان دونوں کے تراجم کی اشاعت میں اگرچہ فرق ہے، تاہم علامہ اقبال کی فکر اور تحریکِ احیاے اسلام کے لیے مولانا مودودی کے افکارونظریات اور حکمت عملی جنوبی ایشیا سے ماورا پورے عالمِ اسلام میں انگریزی کے علاوہ اُردو، عربی اور فارسی زبانوں میں بڑے پیمانے پر متعارف ہوچکے ہیں۔ اس طرح سے احیاے اسلام کی بین الاقوامی جدوجہد پر مبنی ایک عالمی نظام مغربی دنیا سے ہٹ کر موجود ہے اور ارتقا پذیر ہے۔
۱۱- مولانا مودودی نے تذکرہ کیا ہے : ’’علامہ اقبال نے بس یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ میں پنجاب چلا آئوں۔ زیادہ تفصیل نہیں لکھی تھی۔ اس وقت تو میں نہیں سمجھ سکا تھا کہ اس کی مصلحت کیا ہے، البتہ ۱۹۳۷ء کے وسط تک پہنچ کر مجھے یہ خود محسوس ہونے لگا تھا کہ جنوبی ہند چھوڑ کر مجھے شمالی ہند کی طرف رُخ کرنا چاہیے۔ اسی زمانے میں چودھری نیاز علی صاحب نے اصرار کیا کہ میں پنجاب کا سفر کروں اور کم از کم اُن کے اس مقام کو دیکھ لوں، جو انھوں نے ایک ادارہ قائم کرنے کے لیے وقف کیا تھا۔ میں خود بھی ضرورت محسوس کر رہا تھا کہ شمالی ہند کا سفر کرکے کسی ایسی جگہ کا انتخاب کروں، جہاں اپنے عزائم کے مطابق مجھے کام کرنے کا موقع ملے۔ اسی خیال سے شاید اگست کا آخر تھا، ۱۹۳۷ء میں، مَیں نے پنجاب کا سفر کیا اور جالندھر اور لاہور سے ہوتا ہوا پٹھان کوٹ پہنچا۔ اسی سفر میں علامہ اقبال سے تفصیلی گفتگو ہوئی‘‘۔ (سیارہ، مئی ۱۹۶۳ء، ص ۳۵)
مولانا مودودی نے ایک انٹرویو میں بتایا:’’علامہ اقبال سے ملاقات کے موقع پر اسلامی تحریک کی تشکیل پیش نظر نہیں تھی۔ اس وقت دو چیزیں پیش نظر تھیں: ایک یہ کہ علمی حیثیت سے ان گوشوں کو پُر کیا جائے جن کے خالی ہونے کی وجہ سے اسلامی نظامِ زندگی موجودہ زمانے کے لوگوں کو ناکافی اور ناقابلِ عمل نظر آ رہا ہے۔ دوسرے یہ کہ ایسے لوگ تیار کیے جائیں جو مسلمانوں کی فکری اور عملی رہنمائی کرنے کے قابل ہوں۔ ایک خالص اور جامع اسلامی تحریک کا تخیل اس وقت واضح طور پر میرے سامنے نہیں تھا۔ اقبال کے پیش نظر اسلامی قانون اور فلسفے کی تدوین تھی۔ اُس وقت حقیقت میں ایک ایسے انسان کی ضرورت تھی، جو مغربی تعلیم پر فخر کرنے والے عام لوگوں سے زیادہ تعلیم پائے ہوئے ہو، اور ان سے بڑھ کر ہی مغربی علوم پر نگاہ رکھتا ہو، اور پھر وہ اُس پُرزور طریقے سے اسلامی نظریات کی تائید کرے کہ مغرب زدہ لوگ اس کے سامنے بولنے کی ہمت نہ کرسکیں۔(ماہ نامہ سیارہ ، لاہور، مئی ۱۹۶۳ء، ص ۳۶)
۱۲- مولانا مودودی نے بتایا :علامہ اقبال نے مجھ سے فرمایا کہ چودھری نیاز علی صاحب نے جو جگہ وقف کی ہے مَیں اسی کا انتخاب کروں۔ (ماہ نامہ سیارہ ، لاہور، مئی ۱۹۶۳ء، ص ۳۵)
۱۳- جاپانی محقق کاگایا اور ہاماگوچی کو یہاں مغالطہ ہوا ہے ، اور یامانے سو بھی چوک گئے ہیں۔ قائداعظم کی یہ تقریر حق نمایندگی کے لیے نہیں تھی، کہ یہ حق تو اس ے پہلے مسلمانوں کو مل چکا تھا۔ یہاں تو وہ الگ مسلم ریاست کے حصول کا مطالبہ کر رہے تھے۔(سلیم منصورخالد)
۱۴- اس مقالے کا جاپانی ترجمہ ناکاگاوا یاسوشی (Nakagawa Yasushi) نے کیا۔
۱۵- مولانا مودودی کے نزدیک اس کا یہ مطلب نکالنا صحیح نہیں ہے کہ اسلام، قومی حکومت کا دشمن ہے۔ وہ ہرقوم کے اس حق کو تسلیم کرتا ہے کہ وہ اپنے احوال کی اصلاح خود کرے۔ مگر جب کسی قوم کے اعمال بگڑجائیں، اس کی اخلاقی حالت خراب ہوجائے اور وہ اپنے شریر اور مفسد لوگوں کی پیروی و اطاعت اختیار کرکے ذلت و مسکنت کی پستیوں میں گر جائے، تو اسلام کے نزدیک اس قوم کا حکومت ِ خوداختیاری کا حق باقی نہیں رہتا اور دوسرے لوگوں کو جو اس کے مقابلے میں اصلح ہوں، اس پر حکومت کرنے کا حق حاصل ہوجاتا ہے۔ قرآنِ حکیم میں نافرمان اور بدکار قوموں کو جگہ جگہ یہ دھمکی دی گئی ہے کہ: ’’اگر تم حق سے منہ پھیرو گے تو اللہ تمھارے بدلے دوسری قوم کو کھڑا کرے گا اور وہ لوگ تم جیسے نہیں ہوں گے‘‘ (محمد ۴۷:۳۸)۔’’اگر تم راہِ الٰہی میں جہاد کے لیے نہ نکلو گے تو اللہ تمھیں دردناک مصائب میں مبتلا کرے گا اور تمھارے بدلے دوسری قوم کو کھڑا کردے گا اور تم اس کا کچھ نہ بگاڑ سکو گے‘‘ (التوبہ ۹:۳۹)۔(الجہاد فی الاسلام، سیّد مودودی،ص ۱۴۶)
۱۶- ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، مولانا مودودی کی کتاب مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش، حصہ سوم کو جماعت اسلامی کے قیام کی بنیاد قرار دیتے ہیں۔ تذکرہ سید مودودی، سوم، ۱۹۹۸ء،ص ۳۳۳۔
۱۷- ۱۹۷۰ء میں جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ پانچ علما، تین بی اے، دو ایم اے، اور ایک انجینیرمشرقی پاکستان سے،اور ۱۷علما، پانچ بی اے، دو ایل ایل بی، ۱۲؍ایم اے، ایک ایم بی اے، اور ایک ایم ایس سی، مغربی پاکستان پر مشتمل تھی۔
۱۸- ہمارے خیال میں ڈاکٹر یامانے سو نے یہاں علامہ محمد اقبال اور مولانا مودودی کے نقطۂ نظر کو سمجھنے میں کچھ غلطی کی ہے۔ اقبال اور مولانا مودودی ’اسلام کی جدید خطوط پر تشکیلِ نو‘ کے قائل اور علَم بردار نہیں تھے۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ آج اہلِ مغرب، ہنود، یہود اور سیکولر قوتوں کی آنکھ کا تارا ہوتے۔ پھر یہ جملہ اور بھی نامناسب ہے کہ ’’یہ تشکیل نو ہو بھی تو: مغرب کے جدید تقاضوں کے مطابق‘‘۔شعرِاقبال، فکرِاقبال اور مولانا مودودی کی فکری و عملی کاوشیں اس الزام سے کُلی برأت کا اعلان کرتی ہیں۔ یہ دونوں فرزندانِ اسلام صرف یہ چاہتے تھے کہ عصرِحاضر میں جو فکری اور تہذیبی چیلنج درپیش ہیں ان کا اسلامی فکر کی روشنی میں جواب دیا جائے، نہ کہ اسلام کو ان کے مطابق ڈھالا جائے۔ہم یہاں یہ بھی وضاحت کرتے ہیں کہ اگلے ہی جملے میں یامانے سو نے اس کاوش کو ’’اسلام کے دورِ اول سے ہم آہنگ‘‘ کرنے کی بات کی ہے، جو مثبت چیز ہے۔ یہ امر ذہن نشین رہے کہ مغرب یا مغرب کے زیراثر بعض ماہرین دانستہ یا نادانستہ طور پر کچھ جملے بڑے مثبت لکھتے ہیں، لیکن چند جملے نہایت منفی لکھ کر اپنا فیصلہ سنادیتے ہیں، [یامانے ان میں سے نہیں ہیں]اور اصل نقطۂ نظر یہی منفی جملے ہوتے ہیں۔(سلیم منصورخالد)
۱۹- مولانا مسعود عالم ندوی سے مولانا مودودی کی مراسلت کے ۵۰ خطوط بھی شائع ہوچکے ہیں (خطوطِ مودودی، اوّل، ۱۹۸۳ء، ۲۰۱۱ء)۔تحریکِ احیاے اسلام کے رہنمائوں، جیسے مصر کے سیدقطب [م: ۲۹؍اگست ۱۹۶۶ء]نے ندوۃ العلما کی شائع کردہ کتب کے ابتدایئے لکھے۔ مجھے مولانا مودودی کی کتب کے عربی تراجم کویت میں تحقیق کرنے پر ملے، جب کہ الجہاد فی الاسلام کی عربی تلخیص بھی دیکھنے کو ملی، جو کہ ایران سے شائع ہوئی تھی لیکن مصنف کا نام نہیں لکھا تھا۔ (الجہاد فی الاسلام، تہران، الجماعت التالیف ۱۹۸۹ء)
۲۰- وہ پانچ کتب جو کابل میں شائع ہوئی تھیں ان میں اقبال کے دورئہ افغانستان پر مشتمل کتاب بھی شامل تھی جس میں انھوں نے افغانستان کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار کیا تھا اور اس کتاب میں ان کی اُردو نظموں کا ترجمہ بھی شامل تھا۔ افغان شاعر خلیل اللہ خلیلی جن کی اقبال سے وابستگی تھی، جن کا بیٹا مسعود خلیلی مجاہدین افغانستان کی تنظیم جمعیت اسلامی کا ایک سربرآوردہ ممبر ہے، جو ۱۹۹۰ء سے پاکستان میں افغان سفارتی نمایندہ رہا اور پھر بھارت میں افغانستان کا سفیر مقرر ہوا۔
۲۱- مجھے علامہ اقبال پر دنیا بھر میں پھیلے ہوئے تحقیقی کام سے شناسائی کا اس وقت موقع ملا، جب میں نے انٹرنیشنل اقبال کانفرنس ( ۲۱-۲۴؍اپریل ۲۰۰۳ء،لاہور) میں تحقیقی مقالہ پیش کیا۔