حسین احمد


رُوے زمین پر بسنے والے تمام مسلمان بلاامتیاز رنگ و نسل، زبان اور زمان و مکان، ایک خدا، ایک رسولؐ اور ایک قرآن کے ماننے والے صاحب ِ شریعت اور صاحب ِ مشن قوم ہیں۔ آج عالمِ اسلام ۵۷سے زائد ممالک پر مشتمل ہے جن کی مجموعی آبادی ایک ارب۵۰کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ گویا دنیا کا ہر پانچواں شخص مسلمان ہے، جب کہ سی آئی اے کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں مسلمانوں کی آبادی ایک ارب ۹۰کروڑ ۲۰لاکھ ۹۵ہزار ہے۔ مسلمانوں کے لیے یہ باعثِ فخر ہے کہ انھوں نے تیرھویں صدی تک یورپ میں علم کی روشنی پھیلا کر اہلِ مغرب کو بھی جہالت کی تاریکی سے نکالا جس کا اعتراف ۳۱مارچ ۲۰۰۶ء کو جامعہ الازہر میں خطاب کے دوران برطانیہ کے پرنس چارلس نے ان الفاظ میں کیا: ’’ہم اہلِ مغرب پر مسلمان علما اور محققین کا یہ احسان ہے کہ جب یورپ تاریکی کے دور سے گزر رہا تھا، تو انھوں نے علم کی روشنی پھیلائی‘‘۔ آسٹریلیا کے چانسلر کا کہنا ہے: ’’ہم حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت سے راہ نمائی لے کر دن رات ترقی کر رہے ہیں‘‘۔

سابق امریکی صدر رچرڈ نکسن نے اپنی کتاب سیزدے مومنٹ میں لکھا ہے: ’’اگرچہ عالمِ اسلام سیاسی ترقی میں اہلِ مغرب سے بہت پیچھے رہ گیا ہے لیکن ہماری تہذیب پیدایشی طور پر اعلیٰ و ارفع نہیں۔ یہ بات مسلمانوں کے کریڈٹ میں جاتی ہے کہ وہ  نہ صرف مادیت سے نفرت کرتے ہیں بلکہ مغرب کی بے لگام آزادی کو بھی یکسر مسترد کرتے ہیں‘‘۔ صدر نکسن نے آگے لکھا ہے: ’’۷۰۰ء سے ۱۲۰۰ء تک مسلم دنیا نے معیاری سائنسی علوم کی ترویج، قانون سازی، مذہبی رواداری، بہتر معیارِ زندگی اور دنیا پر حکمرانی کے حوالے سے عیسائی دنیا کی قیادت کی ہے‘‘۔ یاد رہے یہ وہ زمانہ تھا جب بغداد اسلامی جدید علوم کا مرکز تھا۔ افسوس کہ جہالت اور زوال مسلمانوں کا مقدر بن گیا اور آج مسلمان اپنی بے عملی و بنیادی اخلاقیات کے فقدان اور شہادتِ حق سے پہلوتہی کی وجہ سے ربانی وعدہ وَ لَا تَھِنُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَo (اٰل عمرٰن ۳:۱۳۹) کی صداقت اور ہمہ گیر سچائی ثابت کرنے میں ناکامی سے دوچار ہیں۔

آج عالمِ اسلام اپنی بڑی افرادی قوت، وسائل کی فراوانی اور جغرافیائی اہمیت کے باوجود عالمی برادری میں نہ صرف اپنا مقام بلکہ احساسِ سود وزیاں بھی کھو بیٹھا ہے۔ اسلامی ممالک کی تنظیم (اوآئی سی) کی حیثیت بھی مُردہ گھوڑے سے زیادہ نہیں۔ اس کے باوجود مسلمان تاریخ کے آئینے میں اپنی تصویر دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ سب سے زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ مسلمان اپنی زبوں حالی، بے وقعتی، بے توقیری، غربت، مفلسی، جہالت، فرقہ بندی، نااتفاقی اور پس ماندگی کا ذمہ دار قسمت اور تقدیر کو ٹھیرا کر اپنی خستہ حالی پر صبروشکر کرتے نہیں تھکتے، حالانکہ اُن کی پس ماندگی کا سبب قسمت یا تقدیر نہیں، بلکہ اُن کی جہالت اور بے عملی ہے۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ جس طرح مشرق سے آنے والی روشنی مغرب کے احیا کا باعث بنی، اب مشرق کے مسلمان دنیاے مغرب کی ترقی کو اسلامی افکار کے تناظر میں اپنائیں اور اُمت مسلمہ کی نشاَتِ ثانیہ کی کوشش کریں۔ بے عملی کی دنیا میں محض جذباتی دعویٰ کہ ’’اسلام میں سارے مسائل کا حل موجود ہے‘‘ کی خوش فہمی میں مبتلا رہنے کے بجاے اسلامی و جدید سائنسی علوم کے امتزاج اور سیاسی، اقتصادی، فنی اور عسکری میدان میں حقیقی ترقی کے ذریعے اپنے ناتواں جسم میں جان ڈال کر اپنی بقا کی فکر کریں۔ آخرت کی فلاح کا راستہ بھی دُنیاوی فلاح سے کترا کر نہیں بلکہ اُس کے اندر سے ہوکر گزرتا ہے۔

درحقیقت عالمِ اسلام کے سیاسی، معاشی، معاشرتی اور نفسیاتی زوال کے پیچھے مسلمانوں میں بدترین قسم کی فرقہ بندی، باہمی دشمنی، یہود و نصاریٰ کی دوستی اور تہذیبی غلامی، قرآنی احکامات سے دُوری، دینی قیادت کی سیاسی قیادت سے جدائی، شیطان کے پیروکاروں کی بیداری و ہوشیاری مگر اللہ کے شیروں کی رُوباہی و گراں خوابی جیسی کمزوریاں کارفرما ہیں۔ خلفاے راشدین کے بعد بیمار اُمت کی ڈوبتی کشتی کو بچانے کی خاطر حضرت امام حسینؓ نے جان کی قربانی دی۔ اسی طرح حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے بھی اُمت مسلمہ کو پھر سے پٹڑی پر چڑھانے کی کوشش کی لیکن دولت اور اقتدار کے پُجاری اسے کہاں برداشت کرسکتے تھے۔ گو، مسلمانوں کے دورِانحطاط میں بھی فقہاے عظام، علماے کرام اور بزرگانِ دین نے اسلام اور اسلامی تہذیب کے ڈھانچے کو بچانے اور افراد کی روحانی اصلاح کی خاطر گراں قدر خدمات انجام دیں، لیکن اُن کی تمام تر قابلِ قدر علمی و فکری کاوشیں عالمِ کفر اور ان کے آلۂ کار جدت پسند مسلمانوں کی منظم ریاستی سازشوں کے سامنے مؤثر ثابت نہ ہوسکیں۔ آخرکار اسلام کا اجتماعی نظام روز بروز متاثر اور کمزور ہوتا گیا، کیونکہ  یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ غیرمنظم بھلائی، منظم برائی کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ اس وقت مسلمانوں کے لیے لمحۂ فکریہ یہ ہے کہ آیا اُنھیں ایک بار پھر اپنی عظمت ِ رفتہ کی بازیابی کے لیے منظم کوشش کرنی چاہیے، یا رضا بہ قضا ہوکر دنیا میں اپنی بے حیثیتی، رسوائی اور بے بسی پر کبوتر کی طرح بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کرتے رہیں اور لمبی لمبی تسبیحیں لے کر محض اذکار کے عوض جنت کی خریداری ہی کو اصل دین سمجھ کر قناعت اور عافیت کی زندگی گزارنے پر اکتفا کیا جائے؟ اس مناسبت سے علامہ اقبالؒ نے      بالِ جبریل کی ایک رباعی میں بڑا حکیمانہ اور سبق آموز موازنہ کیا ہے:

یاوُسعتِ افلاک میں تکبیرِ مسلسل

یاخاک کی آغوش میں تسبیح و مُناجات

وہ مذہب مردانِ خود آگاہ و خدامست

یہ مذہب مُلّا و جمادات و نباتات

حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے عادلانہ نظام کے قیام کے لیے زندگی کے میدان میں منظم انداز میں اُترنا ہی عین سنتِ نبویؐ ہے۔ اگر محض اذکار، دعائوں، دموں اور پھونکوں ہی سے کام ہوسکتا تھا تو    حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو غارِحرا سے نکل کر بدر، اُحد اور خندق کے غزوات میں اپنے صحابہؓ کو آزمایش میں ڈالنے کی ضرورت نہیں تھی۔

خدا کے فضل سے اس وقت عالمِ اسلام میں بے شمار دینی ادارے اور تحریکیں نیک نیتی سے دین اسلام کی تبلیغ اور دعوت کے کام میں مصروف ہیں۔ لیکن دنیاے اسلام میں عالمِ کفر کے ذہنوں کو سمجھنے اور اُن کی علمی سطح پر عقلی دلائل کے ساتھ بات کرنے، اُن کے باطل افکار و نظریات پر  ضرب لگانے، اہلِ مغرب کی سازشوں اور خواب آور گولیوں سے اُمت مسلمہ کو آگاہ کرنے کے لیے عملاً بہت تھوڑے لوگ ہیں۔ جدت پسند مسلمانوں اور اسلام کے نادان دوستوں کی سوچ بدلنے اور دشمنانِ دین کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مقابلہ کرنے والی صرف دو ہی منظم، فعال، متحرک اور جان دار اسلامی تحریکیں ہیں، یعنی: دنیاے عرب میں اخوان المسلمین اور جنوبی ایشیا میں جماعت اسلامی۔ عالمِ اسلام اور پوری دنیا میں اسلام کے عادلانہ نظام کے عملاً نفاذ کے لیے یہ تحریکیں بھرپور جدوجہد کر رہی ہیں جو کہ اس وقت کہیں بھی نافذ نہیں ہے۔ دین اسلام کی تبلیغ، احیا اور بقا کی محنت کے حوالے سے یہ دونوں تحریکیں بُرائی کے گھنے درختوں کا جُھنڈ کاٹے بغیر ،اُن کی چھائوں میں بیج بوکر فصل کاٹنے کی اُمید نہیں رکھتیں۔ ان کے برعکس دوسری تمام تحریکیں ہمہ وقت پُرامید رہتی ہیں۔ گویا تصورِ دین کی کم فہمی کی وجہ سے مسلمان اقامت دین کی بھاری ذمہ داری اُٹھانے کے بجاے محض چند مخصوص عقائد کی پاس داری، رسومات اور عبادات کی تبلیغ کر کے زمینی حقائق کے برعکس تصوراتی خوش عقیدگی کی فضا میں باطل کو شکست دینے کا تصور کیے بیٹھے ہیں۔ اسی لیے دورِحاضر میں تصورِ دین کی اصلاح کی اشد ضرورت ہے تاکہ اُمت مسلمہ کو ایک ہی کشادہ شاہراہ پر لایا جاسکے، ورنہ اگر مسلمانوں میں فرقہ بندی، جہادگریزی، غفلت اور بے عملی اسی طرح جاری و ساری رہی تو دنیا سے اسلامی تہذیب کی مزید شکست و ریخت کا خدشہ ہے۔

مسلمانوں کو ’دہشت گرد‘ اور رہزنِ انسانیت کا طعنہ دینے والا مغرب اپنی تہذیب کے فروغ کے لیے تمام تر وسائل بروے کار لا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قدیم یورپی معاشرے میں عورت کو چڑیل سمجھ کر جلایا جاتا تھا۔ مغرب میں عورتوں کو جایداد کا حق ۱۸۷۰ء میں ملا، جب کہ مسلمان عورتوں کو ساتویں صدی میں یہ حق حاصل تھا۔ مزید یہ کہ اس مہذب قوم کے ہاتھوں جنگ ِ عظیم میں ۱۵ کروڑ انسان ہلاک ہوچکے ہیں، اور آج بھی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر لاکھوں معصوم انسانوں کے خون سے ہاتھ رنگے جاچکے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ مغرب کے  اس ثقافتی اور تہذیبی حملے کے ردعمل میں جہاں اُمت مسلمہ کا ایک طبقہ اپنی اسلامی ثقافت سے   بے گانگی اور بے زاری کو وقت کا تقاضا خیال کر رہا ہے وہاں ایک بڑی تعداد اسلامی تہذیب کی بقا کے لیے کٹ مرنے کو تیار ہے۔ زیادہ پریشانی کی بات یہ ہے کہ اُمت ِمسلمہ کے اندر فرقہ واریت اور قوم پرستی کے فروغ کا رُجحان بڑھ رہا ہے، اور اُس کی قوتِ برداشت ختم کر رہا ہے۔ اس طرح مسلم معاشرے اپنی تنظیم اور ڈسپلن کھو رہے ہیں۔ گویا اُمت مسلمہ کو داخلی انتشار کے ساتھ بیرونی عسکری، اقتصادی، نظریاتی اور ثقافتی یلغار کا مقابلہ بھی درپیش ہے۔ ان حالات میں تحریک اسلامی کی خواہش ہے کہ گھر کی چھت اور دیواروں کو مضبوط کر کے اُمت مسلمہ کو باہر کے طوفان سے بچایا جائے۔

جماعت اسلامی عہدِحاضر میں اقامت دین ، رجوع الی القران، تصورِ دین کی اصلاح اور عالمِ اسلام خصوصاً کشمیر، فلسطین، افغانستان اور عراق کے مظلوم مسلمانوں کی ترجمان ایک منظم اسلامی تحریک ہے۔ اس کا مقصد اور نصب العین تحریک تجدید و احیاے دین کے ذریعے مسلمانوں کی روحانی اصلاح کے ساتھ اُمت مسلمہ میں فرقہ بندی اور بے عملی ختم کرنا ہے، تاکہ پھر سے مسلمانوں کے وجود میں سیاسی قوت اور وزن، بازو میں طاقت، دماغ میں فکروتدبر، دل میں حوصلہ و عزم،   قلم میں جان اور آنکھوں میں اجتماعی بصیرت پیدا ہو۔

آج کل دنیاے اسلام میں کئی ایک مذہبی تحریکیں دین کی حقیقی خدمت کا دعویٰ کر رہی ہیں۔ ان حالات میں ایک عام آدمی عجیب مخمصے میں ہے کہ وہ کس کے پیچھے چلے اور کس کی بات پر اعتبار کرے، اور یہ کیسے جانے کہ کون سی جماعت حق کی مؤثر نمایندگی کر رہی ہے۔ لہٰذا حق کی مؤثر نمایندہ جماعت کو سمجھنے کے لیے یہ قول یاد رکھنا ہی کافی ہے: ’’اگر تم حق کو نہیں پہچان سکتے تو باطل کے تیروں پر نظر رکھو، جہاں پر لگیں وہی حق ہے‘‘۔ اسلام اور کفر کی اس کش مکش میں دشمنانِ دین نہ صرف اپنے بلکہ مسلمانوں کی صفوں میں موجود اپنے جدت پسند حلیفوں اور اسلام کے نادان دوستوں کے تیر بھی تحریک ِاسلامی پر برسا رہے ہیں۔

جماعت اسلامی محض لوگوں کا ہجوم نہیں بلکہ یہ دینی فہم و شعور سے آراستہ جدید تعلیم یافتہ طبقہ بشمول سیاست دانوں، سائنس دانوں، جرنیلوں ، ڈاکٹروں، پروفیسروں، انجینیروں، علما، دینی اسکالروں، صحافیوں، ماہرین قانون، ماہرین تعلیم، اساتذہ، بیوروکریٹس، وکلا، اطبا، سرکاری ملازمین، کاروباری حضرات، طلبہ الغرض زندگی کے ہرشعبے سے تعلق رکھنے والے بیدار مغز افراد کی ایک منظم اور مضبوط ٹیم ہے۔ جس کے پاس دینی و دنیاوی مسائل خصوصاً اسلام اور اُمت مسلمہ کے خلاف ہونے والی سازشوں کو سمجھنے اور مستشرقین کے اعتراضات و الزامات کا منطقی، مدلل اور تفصیلی جواب دینے کی خداداد صلاحیت موجود ہے، اور قافلۂ علم و دانش کے اس سیلِ رواں میں آج بھی قیمتی اضافے ہورہے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ دورِحاضر کے بگڑے ہوئے معاشرے میں اگر کوئی شخص تحریکِ اسلامی کے پیغام ’قصۂ زمین برسرِ زمین‘ کو نہیں سمجھتا یا سمجھنے کے بعد حیلہ و بہانہ بناکر ساتھ دینے میں بے حوصلگی دکھاتا ہے وہ یقینا کیچڑ میں پڑے موتی کی قدروقیمت سے انکاری ہے۔

خدا کے فضل سے تعلیم یافتہ طبقہ اسلام کو سمجھ رہا ہے وہ یہ بھی جانتا ہے کہ توحید کیا ہے اور توحید کے تقاضے اور مطالبات کیا ہیں؟ اس کے اندر اگر کوئی کوتاہی ہے تو یہ ہے کہ وہ اس کے لیے جان لڑانے، مالی قربانی دینے، خطرات مول لینے اور اپنا وقت کھپانے کی ہمت نہیں دکھا رہا ہے جو اسے دکھانی چاہیے۔ جہاں تک ناخواندہ اور سادہ لوح عوام کا تعلق ہے وہ اسلام کو چند ایک مذہبی عقائد و رسومات اور عبادات کی حد تک جانتے ہیں مگر اسلام کے تقاضوں اور مطالبات کا اُنھیں علم تک نہیں۔ اقامت دین کی بات انھیں اجنبی لگتی ہے، لہٰذا یہ تعلیم یافتہ طبقے ہی کی ذمہ داری ہے کہ وہ انھیں سمجھائیں اور تصورِ دین کے بارے میں ان کی سوچ بدل دیں۔ یاد رہے کہ اسلام کی ابتدائی تعلیم و تبلیغ بھی کتابوں اور رسالوں سے نہیں زبانی تلقین سے ہوئی تھی۔

جماعت اسلامی اپنے مقصد اور نصب العین کے حصول کے لیے قوت، جذبات اور  دہشت گردی کا شارٹ کٹ راستہ اختیار کرنے کے بجاے اعتدال اور میانہ روی کا راستہ اپنا کر معروف جمہوری طریقے سے اسلامی اور تعمیری انقلاب لانے پر یقین رکھتی ہے۔ جماعت اسلامی کی سیاست مخالفت براے مخالفت کی نہیں بلکہ مخالفت براے تعمیروتحفظ ِانسانیت ہے، جس کے نتیجے میں معاشرے میں مثبت رجحانات کی حوصلہ افزائی اور منفی رجحانات کی حوصلہ شکنی ہوئی اور ہوتی ہے۔ یاد رہے کہ سیاست براے تعمیر معاشرہ کی شمع زبانی جمع خرچ سے  نہیں بلکہ خونِ جگر جلانے سے روشن ہوتی ہے۔ گویا صالح نظام کے قیام کے لیے فاسد قیادت کے خلاف فکری، سیاسی اور حربی میدانوں میں معرکہ آرائی سے گزرنا ہی پڑتا ہے۔ تاہم، اعلاے کلمۃ اللہ اور اقامت دین کی یہ بھاری ذمہ داری صرف اللہ کے وہ سپاہی ہی اُٹھا سکتے ہیں جو راتوں کے تہجدگزار، دن کے شہسوار اور مسلمانوں کی لُغت اور یادداشت سے محوشدہ جہاد کے علَم بردار بنیں۔ یہ کام مذہب کے محدود تصور کے دائرے میں رہ کر بغیر سیاسی کش مکش کے محض وعظ و تبلیغ اور انفرادی اصلاح کی کوششوں سے نہیں ہوسکتا۔

تعجب کا مقام ہے کہ بیسویں صدی کی اسلامی تحریکات کو ’سیاسی اسلام‘ کا طعنہ دینے کے باوجود اکثر مذہبی قائدین اور روحانی پیشوا خود حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں لڑی جانے والی جنگوں، دعوتی خطوط، معاہدوں، وفود، عدالتی فیصلوں، قیدیوں کی رہائی و تبادلہ، بیت المال کے انتظام و انصرام، مالِ غنیمت کی تقسیم، دیت اور شرعی سزائوں، نظامِ زکوٰۃ و دیگر تمدنی معاملات کے متعلق احکامات اور واقعات کا ذکر بڑے فخر سے کرتے تھکتے نہیں۔ یہ لوگ اسلام کو سیاست سے دُور رکھنے والے قبیلہ بنوعامرکے سردار بحیرہ بن فراس کی وہ پیش کش یاد کیوں نہیں کرتے جس نے دین اسلام کی دعوت کا روشن مستقبل تاڑتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے تعاون کا سودا کچھ اس طرح سے کرنا چاہا کہ مخالفین پر فتح حاصل کرنے کے بعد اقتدار پر اس کا حق تسلیم کیا جائے مگر حضوؐر نے انکار کردیا۔ اسی طرح انسانیت کی کشتی کو طوفانی موجوں سے نکالنے کے لیے جو پاکیزہ کردار لوگ آپؐ کے اردگرد جمع ہوگئے تھے، حضوؐر نے انھیں تمدن سے منقطع ہوکر لمبی لمبی تسبیحیں لے کر مساجد، خانقاہوں، جنگلوں اور غاروں میں بیٹھ کر فقیر، درویش، حضرت جی اور صوفی بننے کی نصیحت نہیں کی، بلکہ انھیں لے کر انسانیت کی ہچکولے کھاتی کشتی کو بدی اور ظلم و زیادتی کے خوف ناک بھنور سے نکال کر ساحل مراد تک پہنچایا۔ آپؐ کے رفقا بدی کی طاقت سے بھاگ کر آرام و سکون اور عافیت کی زندگی گزارنے والے بھولے بھالے صوفی اور روحانی پیشوا نہ تھے بلکہ وہ مُصلح ، باعمل، بیدار، بے داغ، متحد، بہادر، بے باک، باشعور، خوددار، غیور، معاملہ فہم، فعال، متحرک اور انقلابی ہونے کے ساتھ ساتھ حکمرانی کی صفات اور خصوصیات سے بھی آراستہ تھے۔

جماعت اسلامی محض چند ایک مذہبی عقائد و رسومات کی تبلیغ کرنے والی فرقہ وارانہ اور خاندانی جماعت نہیں، بلکہ یہ دین میں فروعی اختلافات کو غیرضروری اہمیت اور فرقہ وارانہ تعصب کی ہَوا دینے کے بجاے دورِحاضر میں دین اسلام کا پیغمبرانہ ماڈل عملاً نافذ کرنے کی خواہش مند ہے۔ تحریک اسلامی اسلام کو کمزوری، غلامی اور خالص روحانی وظیفہ سمجھنے کے بجاے طاقت اور عزت کا منبع اور انقلاب انگیز تحریک سمجھتی ہے اور دنیا کی امامت سے مفسدین کو ہٹانے پر یقین رکھتی ہے۔

اُمت مسلمہ کی ذہنی پراگندگی اور انتشار کے تناظر میں جید علما اور دیارِغیر کے نام وَر اسکالروں کی آرا کی روشنی میں علمی ذہانت اور دیانت سے سنجیدہ فیصلہ کرنا ہی مناسب ہوگا۔ نام وَر عالم دین مولانا سید سلیمان ندویؒ کے مطابق: ’’اللہ تعالیٰ نے اس پُرفتن دور میں جماعت اسلامی کے بانی مولانا مودودیؒ کی شکل میں ہمیں ایسا دماغ فراہم کردیا ہے جس نے ہمیں اسلام پر مغرب کے حملوں کے جواب سے مستغنی کردیا ہے‘‘۔ مولانا سیدابوالحسن علی ندویؒ کی راے میں جدید تعلیم یافتہ نسل پر ذہنی و عملی طور پر جماعت اسلامی کے بانی مولانا مودودیؒ نے گہرا اور وسیع اثر ڈالا۔ اُنھوں نے   اس نسل کی سیکڑوں بے چین روحوں، ذہین اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کو اسلام کے قریب لانے اور  اس کا گرویدہ بنانے اور اُن کے دل و دماغ میں اسلام کا اعتماد و وقار بحال کرنے کی قابلِ قدر خدمت انجام دی ہے۔ دورِ جدید میں مطالعۂ مذاہب کے مشہور اسکالر پروفیسر جان ایل ایسپوزیٹو  (John L. Esposito) رقم طراز ہیں: ’’عالمِ اسلام میں وہ تصورات کارفرما ہیں جو حسن البنا، سید مودودی اور سید قطب نے اپنی تحریروں میں پیش کیے تھے‘‘۔ ایک اور مغربی اسکالر مارشل جی ایس ہوڈگسن (Marshall G.S. Hodgson) لکھتے ہیں: ’’دورِ جدید میں شریعت کے اطلاق کا نظریہ انتہائی ترقی یافتہ شکل میں جس نے پیش کیا وہ بھارت اور پاکستان کی جماعت اسلامی کی تحریک ہے‘‘۔ ایک فرانسیسی دانش ور گیلس کپل (Gilles Kepel) لکھتے ہیں: ’’فکرمودودیؒ نے طلبہ، مزدوروں اور اُردو صحافت و ادب کی دنیا میں مارکسزم کو زبردست شکست دی ہے‘‘۔ اسی طرح امریکا کی مینی سوٹا یونی ورسٹی کے ڈاکٹر قیصر فرح کے مطابق: ’’پاکستان میں اسلامی بنیاد پر ریاست کی تشکیل کی آواز اگر کسی نے اُٹھائی ہے تو وہ صرف اور صرف مولانا مودودیؒ اور ان کی برپا کردہ  تحریک جماعت اسلامی ہے‘‘۔

آیئے! عظمت ِ رفتہ کی بحالی، غلبۂ دین،اُمت ِ مسلمہ کے فرضِ منصبی اور مشن کی تکمیل کے لیے اپنا کردار ادا کیجیے، اور اس جدوجہد میں جماعت اسلامی کا ساتھ دے کر اپنا فرض ادا کیجیے۔  اس کے نتیجے میں ہی خدا سے پھرے ہوئے لوگوں کو دنیا کی رہنمائی اور فرماں روائی کے منصب سے ہٹایا جاسکے گا اور زمامِ کار مومنین و صالحین کے ہاتھ میں آسکے گی۔ نظامِ زندگی بھی ٹھیک ٹھیک اللہ کی بندگی کے راستے پر چلے گا اور اسلامی انقلاب کی منزل سر ہوگی، ان شاء اللہ!

 

مضمون نگار سابق ڈی سی او ہیں اور چترال میں مقیم ہیں