سام پیزیگیٹی


تجزیہ نگار، انسٹی ٹیوٹ فار پالیسی اسٹڈیز ، واشنگٹن۔ مصنف: The Rich Don't Always Win۔بعض خیالات میں ابہام کے باوجود، تجزیہ نگار نے بڑی جامعیت سے دولت کے ارتکاز، ریاستوں کی بے بسی، سیاست کاری کی فسطائیت اور انسانیت کی تذلیل کا کھیل بے نقاب کیا ہے، ترجمہ: س م خ

امریکا میں پائی جانے والی روایتی سیاسی سوچ___ معاشی عدل و مساوات کے ہر آئیڈیل تصور کو دیوانے کا خواب،جاہلانہ اصلاح کاری اوربائیں بازو کی انقلابی تحریکیت کا نام دیتی رہی ہے۔ ان کے خیال میں ’’ان لوگوں کو اس بات کا کوئی علم ہی نہیں کہ حقیقی دنیا کے معاملات کیسے چلتے ہیں؟‘‘۔ لیکن آج کے دور میں ایسے خیالوں اور خوابوں کی دُنیا میں رہنے والوں کا تعلق صرف بائیں بازو سے نہیں، بلکہ دائیں بازو کی سیاسی و معاشی ماہر ایبی انیس (Abby Innes) کے خیالات بھی جھنجوڑتے ہیں۔ جن کے نزدیک ’’منڈی کی معیشت ہی انسانیت کی حقیقی آزادی کا واحد دائرہ ہے، جب کہ معیشت میں حکومت کا عمل دخل اس آزادی کی راہ میں سب سے بڑا خطرہ ہے‘‘۔ اس نقطۂ نظر کو '’نیو لبرل ازم‘ (Neoliberalism) کے نام سے جانا جاتا ہے۔

’نیولبرل‘ کا یہ لیبل امریکیوں کے لیے سمجھنا کچھ زیادہ مشکل نہیں ہے۔اس لبرل ازم کا بیسویں صدی کے وسط کے ’نیو ڈیل‘ (New Deal) اور ’عظیم سوسائٹی‘ (Great Society) کے علَم برداروں کی سوچ سے کوئی واسطہ نہیں ہے، جو یہ سمجھتے تھے کہ ’’معیشت میں حکومت کا ایک لازمی کردار ہوتا ہے۔ محنت کی اجرت، اوقات کار کے تعین سے لے کر کاروباری اشتہارات اور کاروباری اداروں کے انضمام تک ہر معاملے میں عوامی مفادات کی نگرانی اور تحفظ کی ذمہ داری حکومت پر ہی عائد ہوتی ہے‘‘۔ مگر یہاں پر ہم دیکھتے ہیں کہ نیولبرلز کے خیالات ان حدود کے بالکل برعکس ہیں۔  ان کی نظر صرف اپنی صنعتی اور کاروباری کارپوریشنوں کی وسعت، بڑے پیمانے پر گاہکوں کی تلاش اور ہرجگہ پر رسائی تک ہوتی ہے۔ یہ نیولبرلز ’لندن اسکول آف اکنامکس کی تجزیہ کار ڈاکٹرایبی انیس کو قومی دولت بنانے والی ایک معزز دانش ور سمجھتے ہیں، جن کا ’آزادانہ ضابطہ بندی کا تصور‘ ہمیشہ ریاستی عمل سے برتر مانا جا رہا ہے۔

نیولبرلز کا دعویٰ ہے کہ’ ’معاشی کشاکش میں ریاستی عمل کو کم سے کم کرنے کے نتیجے میں  معاشرے، بغیر کسی رکاوٹ (frictionless) کے طلب و رسد میں کامل ہم آہنگی حاصل کر تے ہوئے اعلیٰ کارکردگی کے معیارات حاصل کر سکتے ہیں‘‘۔ ’بغیر کسی رکاوٹ کی دُنیا‘ اور اس کامل ہم آہنگی کے ماحول میں سرمایہ دار اور شیئر ہولڈرز (حصہ دار/ساجھی)اپنے منافع کو خودکار طریقے سے سرمایہ کاری اور منافع پانے کے لیے باربار دُہراتے چلے جائیں گے، جس سے عوام الناس کو بہت فائدہ ہوگا‘‘۔

مادر پدر آزاد ’منڈی کی معیشت‘ (Market Economy) کے اس خوش کن نعرے کی جڑیں انیسویں صدی کے اوائل تک پھیلی ہوئی ہیں، جو بیسویں صدی کے وسط تک کافی حد تک کمزور ہوگئی تھیں۔ ۱۹۴۴ء میں ایک معروف ہنگری نژاد معاشی مؤرخ کارل پولانی (Karl Polanyi، م:۱۹۶۴ء) نے مارکیٹ کے دیوتا کی اس پوجا کو ’کھلی فریب کاری‘ قرار دیا تھا۔ لیکن بیسویں صدی کے آخر میں کھلی معاشی فریب کاری کا یہ نظریہ ایک بار پھر بحرِ اوقیانوس کے دونوں جانب زیادہ قوت، زیادہ وسعت اور زیادہ مضبوطی کے ساتھ واپس آگیا۔

۱۹۷۹ء میں برطانیہ میں مارگریٹ تھیچر کی بطوروزیراعظم کامیابی اور ۱۹۸۰ء کے امریکا میں رونلڈ ریگن کی بطورِ صدر کامیابی کے ساتھ ہی نیولبرل ازم کے بنیادی اصول ایک ’معیاری گیم پلان‘ [یعنی سوچی سمجھی حکمت عملی اور ہدف حاصل کرنے کا لائحہ عمل] کا حصہ بن گئے۔ اس کے بعد امریکا کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے یکے بعد صدور نے اسی ’گیم پلان‘ کی اشاعت میں حصہ ادا کیا اور اس پر عمل درآمد جاری رکھا ۔آج چار عشرے گزرنے کے بعد ہم سب اس کے دردناک نتائج اور تکلیف دہ اثرات کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔

آج کا امریکا وہ سب کچھ بن چکا ہے، جسے ڈاکٹر ایبی انیس ’’مادیت پسند یوٹوپیا کا آخری مرحلہ‘‘ قرار دیتی ہیں۔ یہ مرحلہ، بگٹٹ کاروباری اشرافیہ کے لیے ایسی ’چراگاہ‘ کا منظر پیش کرتا ہے، جو دنیابھر کی معیشت کو کنٹرول کرتے ہیں۔ یہ لوگ قومی سیاست کو بدعنوانی کے ذریعے قابو کرتے ہیں۔ انھوں نے غیرمنصفانہ ہتھکنڈوں، استحصالی چالوں اور غیر مساوی معیشت کے ذریعے کروڑوں گھرانوں کو بے معنی مسابقت کی ایک ایسی جہنم میں دھکیل دیا ہے، جہاں وہ نام نہاد مڈل کلاس جیسا معیارِ زندگی پانے اور کھوکھلی نمود و نمائش برقرار رکھنے کے لیے دن رات جدوجہد کر رہے ہیں۔

’سرمایہ پرستوں کی جنّت‘ [یوٹوپیا] کے اس آخری مرحلے میں دنیا بھر کی معیشت پر صرف چند امیروں اور بڑی کارپوریشنوں کا قبضہ ہے۔ انھیں حکومتی اور ریاستی کردار کو ختم کرنے یا محدود کرنے کی بھی ضرورت نہیں رہی ہے۔ انھوں نے حکومتی کردار کو کم کرنے کے بجائے خود حکومتی فیصلہ سازی کے ان اداروں پر قبضہ کرکے اپنے اختیار کو مزید وسعت دے دی ہے۔ ان لوگوں کا قبضہ اب صرف حکومتوں پر ہی نہیں بلکہ سیاسی جماعتوں پر بھی ہے۔ یہ اپنے ذاتی اہداف اورفائدے کے لیے خود براہِ راست انتخابی سیاست میں حصہ بھی لیتے ہیں۔ جب یہ مادیت پسند اور مفاد پرست عناصر ان پارٹیوں کی سربراہی حاصل کر لیتی ہیں، تو سیاسی جماعتوں کی حیثیت کاروباری دلالوں (Corporate brokers) سے زیادہ نہیں رہ جاتی۔ پھر ان جماعتوں کا کام صرف عوامی محصولات کی بندربانٹ اورپوری معیشت کی نجی ہاتھوں کے ذریعے نگرانی کروانا رہ جاتا ہے۔ ڈاکٹر ایبی انیس کے مطابق: ’’یہ مقبولِ عام آمرانہ سیاست (populist authoritarian politics) کا ایسامرحلہ ہے، جو پوری کاروباری دُنیا کو گھیرنے کا ایک مؤثر نظام بن جاتا ہے‘‘۔

دولت مندوں اور سرمایہ پرستوں کی اس ’جنت‘ میں پبلک سیکٹر (سرکاری شعبہ) پہلے سے زیادہ بدعنوان اور پرائیویٹ سیکٹر (نجی شعبہ)پہلے سے زیادہ بدمعاش بن جاتا ہے ۔ معاشی اعتبار سے کچلے، سسکتے، پسے ہوئوں اور معمولی آمدنی رکھنے والوں کو ہرموقعے پر خوب نچوڑا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والے منافع کو ’سرمایہ کاری‘ یا ’ری انوسٹمنٹ‘ کے نام پر شیئر ہولڈروں کی چاندی اور ایگزیکٹو نشستوں پر اُٹھلانے والوں کو بھاری ادائیگیوں کی صورت میں خرچ کیا جاتا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’’کیا ہم آج اس سفاک اور رنج و کرب سے بھری ’مادیت پسندانہ جنّت‘ کی تباہ کاری سے بچ سکتے ہیں؟‘‘ اس کا جواب یہ ہے کہ ’’یقینی طورپر ایسا ممکن ہے، لیکن یہ صرف اس صورت میں کہ جب ہم اپنی سیاسی توانائیوں اور جدوجہد کو دولت اور طاقت کا ارتکاز  کم کرنے پر مرکوز کریں۔ وہ سیاست کاری اور حکومتی و انتظامی کھیل، جو ہمارے مفلوج عصری سیاسی نظام، سرطان زدہ معیشت اور نفرت انگیز ثقافتی تماشے کو دبوچے ہوئے ہے ۔

دولت کے ارتکاز اور سیاسی طاقت کے اس اژدھا کو ہم گذشتہ چار عشروں سے بھگت رہے ہیں۔ ’بلومبرگ بلینیئرز انڈیکس‘ (Bloomberg Billionaires Index)کے مطابق ۲۰۲۱ء کے سال کا اختتام دس امریکی ’گہری تجوریوں‘ (deep pockets)، کے ۱۰۰؍ارب ڈالر سے زائد ذاتی اثاثوں پر ہوا،جب کہ ۱۹۸۲ء میں فوربز کے بقول: امریکا کے ۴۰۰؍ امیر ترین افراد کی سالانہ فہرست میں ان کے پاس محض ۲؍ارب ڈالر کی دولت تھی۔ اس فہرست میں صرف ۱۳؍امریکی ارب پتی شامل تھے، جن میں سے زیادہ تر پٹرولیم کے کاروبار سے منسلک تھے۔ پچھلے سال امریکا نے ۷۴۵؍ارب پتیوں کی فہرست بڑے فخر سے شائع کی، جن کے مجموعی اثاثے ۵ ٹریلین ڈالر سے زائد تھے۔[دُنیا کے پہلے ۱۰ کھرب پتیوں کے پاس ایک ہزار ۴ سو ۲۸ ؍ارب اعشاریہ ۵ لاکھ ڈالر ہیں۔ ان دس میں صرف ایک فرانسیسی اور باقی ۹؍امریکی ہیں۔حوالہ بالا، ۲۰ جنوری ۲۰۲۲ء]

اس طرح دل دہلا دینے والا یہ سوال آج انسانیت کے سامنے کھڑا ہے کہ ’’کیا یہ فانی انسان، دولت کے اس بے پناہ ارتکاز کو کبھی چیلنج کر سکے گا؟‘‘ اس کا جواب ہے: ’’جی ہاں ضرور‘‘۔

 معمولی ذرائع آمدن رکھنے والے عام امریکیوں نے ایسے نظام کو پہلے بھی چیلنج کیا اور نمایاں کامیابی حاصل کی تھی۔ امریکی تاریخ پر اگر نظر ڈالیں تو انیسویں صدی کے اختتام تک یہاں کے انتہائی امیر لوگ بالکل اسی طرح پوری قوم پر چھائے ہوئے تھے، جس طرح آج کے دور کے امیرکبیر پوری دنیا پر مسلط۔ مگر پھر عوامی جدوجہد کے سنہری دور میں انھیں شکست ہوئی اور ۱۹۵۰ء کے عشرے میں امریکا نے ایک ایسے عجیب معاشرے کو جنم دیا، جو اس سے پہلے دنیا میں کہیں نہیں دیکھا گیا اور یہ تھا بہت بڑے پیمانے پر مڈل کلاس کا معاشرہ۔ اگر آج بھی مالیاتی ارتکاز کے جال کو توڑنے کے لیے ہم اُٹھ کھڑے ہوں تو ہوسکتا ہے کہ ۲۰۲۱ء آج کے امیر ترین لوگوں کے عروج کا آخری سال ثابت ہو، اور مستقبل کے مؤرخین یہ لکھیں کہ ’’ ۲۰۲۲ء سے ان کے زوال کا دورشروع ہوا اور عوامی جدوجہد نے متوسط طبقے کو دوبارہ وسعت دی‘‘۔(کاؤنٹر پنچ، ۱۰جنوری ۲۰۲۲ء)