ارشادِ الٰہی ہے: ’’لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے، اور جو کوئی اس حکم کی پیروی سے انکار کرے تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تمام دنیاوالوں سے بے نیاز ہے‘‘ (اٰلِ عمرٰن ۳:۹۷)۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے لوگو، اللہ نے تم پر حج فرض کیا ہے، لہٰذا حج کرو‘‘(مسلم)۔ جب ایک مسلمان حج کے سلسلے میں اس حکمِ ربانی اور ارشاد نبویؐ کی تعمیل کا تہیہ کرلیتا ہے تو وہ دل کی گہرائیوں سے چاہتا ہے کہ کاش دن اور رات سمٹ جائیں تاکہ وہ حرم میں جاپہنچے اور ان سعادت مندوں میں شامل ہوجائے جنھیں اللہ رحمن نظررحمت سے دیکھتا ہے اور انھیں آتشِ جہنم سے آزاد کردیتا ہے۔
موقف ِ عرفہ یومِ حشر یاد دلاتا ہے۔ جب اللہ اگلوں پچھلوں کو یک جا کرے گا۔ اس دن جن و انس، فرشتے، انسان اور اس کے اعمال، انبیا اور اُن کی اُمتیں، نیکوکاروں کا ثواب اور بدکاروں کی سزا سب یک جا ہوں گے۔اس دن کی ہولناکی بچوں کو بوڑھا کردے گی۔ اس روز ہرکسی کو حاضر ہونا ہوگا، نہ کوئی پیچھے رہ سکے گا اور نہ کوئی آنے سے انکار کرپائے گا۔ اس دن کسی کے لیے اختیار و ارادہ نہ ہوگا، ہر کوئی نفسی نفسی پکار رہا ہوگا اور نجات کا متمنی ہوگا۔ عرفات میں دنیا کے ہرعلاقے کے مسلمان آتے ہیں، جب کہ روزِ حشر آدم ؑ سے لے کر قیامت کے قائم ہونے تک کے انسان اکٹھے ہوںگے۔ میدانِ عرفات میں جہنم کی آگ سے آزادی کے لیے دعائیں ہوتی ہیں تو حاجیوں کو مغفرت سے نوازا جاتا ہے۔ ایسے ہی میدانِ حشر میں گنہگاراہلِ ایمان کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے جہنم کی آگ سے نجات ملے گی۔’’اس دن نہ مال کوئی فائدہ دے گا نہ اولاد، بجز اس کے کہ کوئی شخص قلب ِ سلیم لیے ہوئے اللہ کے حضور حاضر ہو‘‘۔ (الشعراء ۲۶:۸۸-۸۹)
قلب ِ سلیم وہ ہے جو شرک و گناہ کی آلودگیوں سے پاک ہو، جو بدعت سے محفوظ اور سنت پر مطمئن ہو، جو لا الٰہ الا اللہ کی گواہی دیتا ہو۔ ایسے لوگ روزِ قیامت خوف سے امن میں ہوں گے۔ جیساکہ ارشاد نبویؐ ہے: ’’لا الٰہ الا اللہ والوں پر نہ ان کی قبروں میں کوئی وحشت ہوگی، نہ حشرمیں۔ مَیں گویا لا الٰہ الا اللہ والوں کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ اپنے سروں سے مٹی جھاڑ رہے ہیں، اور کہہ رہے ہیں کہ اللہ کا شکر ہے اس نے ہم سے پریشانی دُور کردی‘‘۔ (طبرانی)
آپؐ نے فرمایا: ’’شیطان یومِ عرفہ سے زیادہ کسی بھی دن ذلیل و حقیر اور افسردہ و غضب ناک نہیں ہوتا، جب وہ اللہ کی رحمت کو اُترتے اور بڑے بڑے گناہوں کو معاف کرتے دیکھتا ہے‘‘ (موطا)۔ حضوؐر نے عرفہ کے دن کی شام اپنی اُمت کی خاطر مغفرت و رحمت کی بہ کثرت دعا کی تو اللہ کی طرف سے فرمایا گیا: میں نے تمھاری اُمت کو معاف فرما دیا سواے ان کے جنھوں نے ایک دوسرے پر ظلم و زیادتی کی۔ آپؐ نے عرض کیا: اے پروردگار! تو ظالم کو بخشنے اور مظلوم کو (اس پر ہونے والے ظلم کی وجہ سے) زیادہ اجروثواب دینے پر قادر ہے۔ اگلے روز صبح آپؐ مزدلفہ کے مقام پر اُمت کی خاطر دعا کرتے رہے۔ پھر آپؐ کچھ دیر بعد مسکرائے۔کسی صحابیؓ نے کہا: آپؐ ایسے وقت مسکرائے جب کہ آپؐ اس موقع پر مسکرایا نہیں کرتے تھے۔ فرمایا: میں دشمنِ خدا ابلیس پر مسکرایا ہوں، جب اسے معلوم ہوا کہ اللہ نے میری اُمت کے حق میں، میری دعا قبول فرمالی ہے اور ظالم کو بخش دیا ہے، تو وہ تباہی و بربادی مانگنے لگا اور اپنے سر پر خاک ڈالنے لگا۔ میں اس کی گھبراہٹ دیکھ کر مسکرایا ہوں۔(مسنداحمد)
قیامت کے دن شیطان کی حالت ِ زار کی منظرکشی رسالت مآب نے یوں فرمائی ہے: سب سے پہلے ابلیس کو جہنمی لباس پہنایا جائے گا۔ ابلیس کی ذُریت اس کے پیچھے ہوگی، وہ سب ہلاکت کو بلا رہے ہوں گے اور موت کو پکار رہے ہوں گے۔ اس وقت ان سے کہا جائے گا: آج ایک موت کو نہیں، بہت سی موتوں کو پکارو۔(مسند احمد)
علامہ ابن القیمؒ نے فرمایا: ہر عقل مندجانتا ہے کہ انسان پر شیطان تین جہتوں سے حملہ کرتا ہے:
حجاج کرام، صرف اللہ کی عبادت کی خاطر، مقدس سرزمین میں آتے ہیں۔ ان کا مقصد ِ وحید طلب ِ رضاے الٰہی ہوتا ہے۔ وہاں جانے میں، ان کی کسی نفسانی خواہش کا ہرگز دخل نہیں ہوتا۔ وہ زبانِ حال سے شیطان کو مخاطب کرکے کہتے ہیں: اے ملعون، اگر تو نے اپنے خالق و پروردگار کی عبادت سے تکبر کیا تو دیکھ، ہم سب اس کے سامنے سرنگوں ہیں۔ اگر تو نے اس کی نافرمانی کی تو ہم سب اس کے فرماں بردار اور عبادت گزار ہیں۔ حج کے موقع پر ان کے احساسات یہ ہیں کہ حاکم و محکوم، چھوٹے بڑے، مال دار و مفلس، سیاہ و سفید اور عربی و عجمی کے مابین کوئی فرق نہیں۔ گھر تیرا ہے، اقتدار تیرا ہے کسی کو کسی پر کوئی برتری نہیں، تقویٰ ہی واحد معیارِ فضیلت ہے۔ حجاج کرام میں یہ احساس پیدا ہونا، حج کا سب سے بڑا فائدہ ہے۔ ان پر عملی طور پر واضح ہوجاتا ہے کہ اسلام نے تمام انسانوں کو کنگھی کے دندانوں کی مانند برابر ٹھیرایا ہے۔ مختلف شکلوں، رنگوں، قومیتوں اور علاقوں کے اختلاف کے باوجود، کسی کے لیے کوئی امتیاز نہیں۔ رب کی نظر میں سب یکساں ہیں۔
حج مسلمانوں کے اتحاد کا مظہر اور ان کی سالانہ کانفرنس ہے۔ حج مسلمانوں کے سیاست کاروں کے اتحاد اور علما کے اتفاق کا موقع، علم اور تعلیم دین کے فروغ کا ذریعہ، بھلائیوں کا موسم اور دنیا و آخرت کے منافع ملنے کا مقام ہے۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبۂ حج میں نئی اسلامی ریاست کا عادلانہ دستور پیش فرمایا، جب کہ آپؐ کے خلفاے راشدینؓ حج کو اپنے صوبوں اور شہروں کے حالات سے باخبر رہنے کا ایک سنہری موقع سمجھتے تھے۔ مظلوموں کی دادرسی کی جاتی۔ غلط کار سرکاری افسروں___ خواہ وہ گورنر ہوں یا عام کارندے___ کی سرزنش کی جاتی۔
اسی سرزمین میں علم و تعلّم کا حکم نازل ہوا۔ اسی میں علما کی اہمیت و برتری بیان ہوئی۔ چنانچہ حج کے موقع پر حاجیوں میں قرآن کریم کے نسخے اور مفید شرعی کتب تقسیم کی جاتی ہیں، نیز حُرمین شریفین کے مختلف کتب خانے کتابیں فروخت کرکے علم کو عام کرتے ہیں۔ حج دنیا بھر سے آنے والے اہلِ علم کے ملنے کا سنگم ہے جہاں وہ باہم استفادہ کرسکتے ہیں، نئے پیش آمدہ حالات کے بارے میں اپنی راے ظاہر کرسکتے ہیں اور دوسروں کی آرا سے واقف ہوسکتے ہیں۔ نیز حجاج علماے کرام سے سوالات کر کے اپنی علمی پیاس بجھاسکتے ہیں۔ اہلِ علم اس موقع پر باہم متعارف ہوکر بعد میں رابطوں کے جدید ذرائع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے مستقل بنیادوں پر ایک دوسرے سے علمی استفادہ کرسکتے ہیں اور یوں اپنے علم میں مسلسل اضافہ کرسکتے ہیں۔
اپنے اپنے علاقائی و مقامی لباس ترک کر کے احرام جیسے ایک ہی لباس میں ملبوس، ایک مقام پر ایک جیسی عبادت کرنے والے اور اپنی اپنی زبانوں میں عہدوپیمان باندھنے کے بجاے عربی زبان میں لبیک اللھم لبیک… بآواز بلند پکارنے والے دنیا کے مختلف ملکوں کے مسلمان، اپنے آپ میں حج کی بدولت یک جہتی و یک رنگی کا احساس پاتے ہیں۔ اس سے وحدتِ اسلامی میں استحکام اور پختگی آتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سب ہی حاجی اپنے آپ کو ایک ہی بدن کے اعضا کی مانند سمجھتے ہیں۔ کاش کہ یہی احساسِ وحدت مسلمانوں کی اقتصادی، تعلیمی، عسکری اور سیاسی وحدت میں بدل جائے اور مسلمانانِ عالم اس وحدت کے ثمرات سے بہرہ ور ہوں۔
حج ایک لحاظ سے ایک سیاسی سالانہ کانفرنس بھی ہے کہ اس کی بدولت دنیا کے تمام مسلم زعما و قائدین کو مل بیٹھنے، باہم متعارف ہونے اور اپنی اپنی قوموں کے مسائل کا تذکرہ کرنے، ان کا حل پیش کرنے اور مسلم ممالک کے حالات جاننے کا موقع مل سکتا ہے۔
حج نفوسِ انسانی کی تہذیب و تربیت کا ایک عالمی مدرسہ ہے، اس لیے کہ عزمِ حج کرنے کے ساتھ ہی حاجی کی تربیت شروع ہوجاتی ہے۔ اسے اپنے نفس کو مؤدب و مہذب بنانے کا زریں وقت ملتا ہے۔ وہ اپنی خواہشات کو تقویٰ کے راستے پر ڈال سکتا ہے۔ حاجی اپنے آپ کو بخل و کنجوسی کی مذموم صفت اور مال کی حرص سے پاک کرلیتا ہے، کیونکہ وہ حج کے سلسلے میں کافی بڑی رقم بطیب ِ خاطر خرچ کرتا ہے۔اپنے گھربار، عزیز و اقارب اور وطن عزیز سے دُور رہنے اور سفر کی مشقت اُٹھانے میں حاجی کی قوتِ ارادہ اور صبروبرداشت کی تربیت ہے۔ اپنے حاجی بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ مل کر حج کرنے میں ایثار و قربانی، مساوات و برابری اور ’انانیت‘ کی نفی کی تربیت ہے۔ اس سے تکبر و غرور کا خاتمہ اور صرف اللہ کے لیے عبودیت کی تربیت ہوتی ہے۔ اس احساس کو تقویت ملتی ہے کہ وہ دنیا کی ایک بہت بڑی قوم کا ایک فرد اور عظیم الشان برادری کا رکن ہے۔ سب حاجیوں کو وحدت و یک جہتی کا احساس اور ایک ایسی بہترین اُمت سے نسبت کا شرف حاصل ہوتا ہے جو انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے برپا کی گئی ہے۔(ہفت روزہ الجمتمع، کویت، شمارہ نمبر ۱۷۷۹، ۱۷۸۰)