ایاز افسر


زیر نظر تحقیقی کتاب تاریخی اور عہد حاضر دونوں اعتبار سے مسلم دشمن تعصبات پر ایک اچھی عالمانہ اور معلوماتی کاوش ہے۔ اس کے مصنفین نے صلیبی جنگوں کے زمانے (پانچویں سے گیارھویں صدی عیسوی ) سے آج تک مغرب میں مسلمانوں سے نفرت کی مختلف شکلوں کا تفصیلی جائزہ لیاہے۔ اس تحقیق میں مسلم مخالف جذبات کا مختلف جہتوں سے جائزہ لیا گیا ہے جس میں سیاسی، تعلقات عامہ، فلسفہ، تاریخ، قانون، سماجیات، ثقافت اور ادب شامل ہیں۔ یہ آج کے دور کے سیاسی مسائل اور تنازعات کا بھی گہرا ادراک فراہم کرتی ہے جن میں مسلم معاشرے میں عورت کا مقام، ’’حجاب‘‘کا تنازعہ، نام نہاد غیرت کے نام پر قتل، جبری شادیاں اوراسلام اور مسلمانوں کی نمایندگی میں میڈیا کا کردار؛ اس کے علاوہ آج کے دور کے خصوصی مسائل جن میں کثیر الثقافتی معاشرے اور ان میں مسلمانوں کا انضمام اورمغرب کی انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کی منظم اسلام مخالف مہمات شامل ہیں۔

یہ کتاب ۱۰؍ ابواب پر مشتمل ہے، جب کہ اشاریہ (ص ۲۱۶تا۲۲۲)بھی شاملِ اشاعت ہے۔ کتاب کا ہر باب ایک تحقیقی مقالے پر مبنی ہے اور مصنفین مغربی دنیا کی نامور یونی ورسٹیوںسے وابستہ افراد ہیں۔ ابواب کے عنوانات حسب ذیل ہیں: ’’برطانوی اور مسلمان، دور جدید کے ابتدائی عرصے میں : تعصب سے رواداری (کے نظریے) تک‘‘ (ص ۷-۲۵)، ’’ترک مخالف جنون اور بلقانی مسلمانوں کا خروج‘‘(ص ۲۶-۴۲)، ’’کیا دیواریں سن سکتی ہیں؟‘‘(ص ۴۳-۶۰)، ’’خواتین کی لاشوں پر صلیبی جنگ‘‘(ص ۶۱-۷۸)، ’’فرانس میں مسلمانوں کا حجاب اور اسرائیل میں فوجی وردی: شہریت بطور نقاب، ایک تقابلی جائزہ‘‘(ص ۷۹-۱۰۳)، ’’لی پانتوثانی: مغربی یورپ میں اسلام کے خلاف عصر حاضر کا سیاسی تحرک‘‘ (ص ۱۰۴-۱۲۵)، ردّ نسل پرستی  (مسلمانوں کے تناظر میں)(ص ۱۲۶-۱۴۵)۔ ’’ ان کی اکثریت سے نجات پائیں‘‘: برطانوی اخبارات میں مسلمانوں کے حوالے سے انتخابی رپورٹنگ‘‘ (ص ۱۴۶-۱۶۸)، ’’برطانیہ اور فرانس میں مسلمان نسلی اور گروہی درجہ بندی میں کہاں کھڑے ہیں؟: (۱۹۸۸ء تا ۲۰۰۸ ء) عوامی راے پر مبنی سروے سے حاصل کیے گئے حقائق‘‘(ص ۱۶۹-۱۹۰)، ریاست ہاے متحدہ امریکا میں اسلاموفوبیا سے مقابلہ: مشرق وسطیٰ سے تعلق رکھنے والے امریکی شہریوں میں شہری حقوق کے حوالے سے سوچ کی بیداری‘‘ (ص ۱۹۱-۲۱۵)

تعارفی باب ’’مغرب میں مسلم مخالف تعصب، ماضی اور حال ‘‘ میں مدیرہ ملیحہ ملک اس تحقیق کے مقاصد بیان کرتی ہیں: ’’آج کے مغرب میں مسلمانوں کو سمجھنا ناممکن ہے جب تک کہ ہمیں اس بات کا بہتر ادارک نہ ہو کہ ماضی میں ان کے ساتھ کیسا سلوک روا رکھا گیا ہے(ص ۱ )۔‘‘ وہ اس بات پر بحث کرتی ہیں کہ مغرب میں مسلمانوں سے تعصب کی موجودہ شکلوں کو سمجھنے کے لیے اسے تاریخی تناظر میں دیکھا جاناضروری ہے ، خصوصاً قرون وسطیٰ میںکہ جب اس نفرت کا بیج بویا گیا۔

پہلے مقالے میں نبیل مطار نے سولھویں سے اٹھارھویں صدی عیسوی کے انگریزی ادب، تھیٹر، مصوری، سفارت کاری، کلچر اور سفریات میں مسلمانوں کے بیان کا تجزیہ کیا ہے۔ اس دور میں مغرب میں مسلمانوں کے بارے میں دو مختلف نظریات پروان چڑھے۔ پہلا نظریہ عموماً جانب دارانہ اور دقیانوسی تھا اور اس کے خالق اس دور کے مذہبی اور ادبی مصنفین تھے۔ تاہم دوسرا نظریہ کچھ   کم معاندانہ اور بظاہر مثبت دکھائی دیتا تھا۔ یہ نظریہ مسلمانوں کے ساتھ براہ راست میل جول کے نتیجے میں پروان چڑھا اور اس کے خالق عموماً تاجر اور سفارت کار تھے جن کا  ان مسلمانوں سے براہِ راست واسطہ پڑا جو تجارت کی غرض سے بحیرئہ روم میں سفر کرتے تھے یا سفارتی دوروں کے دوران لندن اور استنبول جیسے طاقت کے مراکز میں جاتے تھے۔ مصنف اس صورت حال کا تذکرہ یوں کرتا ہے: ’’منبر پر بیٹھا مبلغ چاہے محمد]صلی اللہ علیہ وسلم[ کی ذات پر کیچڑ اچھالے اور اسلام کا مذاق اڑائے، لیکن اس کے بعد پریوی کونسل کو (سفارتی )خطوط ملتے جن میں محمد[صلی اللہ علیہ وسلم] کے ماننے والوں سے تجارت کے وسیع امکانات، اسلامی دنیا میں موجود لامحدود وسائل اور بنیادی صنعتی ضروریات کا ذکر ہوتا۔ اس کے باوجود تخیل کی زرخیز دنیا میں تعصب زوروں پر رہا: اور اس سے بھی بڑھ کر طاقت کے ایوانوں میں۔۔۔‘‘(ص ۱۰)

دوسرے مقالے میں سلوبودان دراکولک نے سلاوی عیسائیوں کی مسلمانوں سے نفرت کی تاریخی اور سماجی وجوہ جاننے کی کوشش کی ہے جو ۹۰ کی دہائی میں بلقان سے مسلمانوں کے مکمل خاتمے کی کوشش کی وجہ بنی۔ان کا کہنا ہے کہ سلاوی عیسائی بلقانی مسلمانوں کوعثمانی ترک قرار دیتے تھے جو درحقیقت ان کے ہم نسل اور ہم زبان تھے۔ ’’ترک بیسویں صدی میںا یسے داخل ہوئے کہ انھیں عیسائیت کا قابل نفرت مذہبی اور نسلی دشمن قرار دے کر ان سے خوف کھایاجاتا تھا۔ ان احساسات نے ترک اور غیر ترک مسلمانوں کو تسلیم نہ کرنے کو رواج دیا اور ان لوگوں کے خاتمے کی سوچ نے جنم لیا جو ’ترک‘بن گئے اورعیسائیت، یورپ اور اپنے نسلی رشتے داروں کے ساتھ دھوکا کیا‘‘(ص ۴۰)۔ اس دعوے میں سیمیول ہن ٹنگٹن کے تہذیبوں کے تصادم (The Clash of Civilizations)کے نظریے کی بازگشت بھی سنائی دیتی ہے ،یعنی مذہب پر مبنی مختلف نظریات رکھنے والے افراد کے درمیان محاذآرائی لازم ہے۔

تیسرے مقالے میں گِل انیدجر دنیا کے بارے میں مغربی مسیحیت کے نظریے کی ساخت کا تجزیہ کرتے ہیں کہ مسیحیت ایک خصوصی کردارہے جو خود اور دوسروں (غیروں) کے درمیان دیوار کھڑی کرتا ہے اور اچھے اغیار اور بُرے اغیار کے درمیان بھی۔ ان دیواروں کے درمیان بھی اندرونی اور بیرونی دونوں اقسام کی نظریاتی کش مکش موجود ہے۔ ’’یہ دیواریں نام ور ہستیاں بھی ہوسکتی ہیں اور بسا اوقات محض افسانوی بھی۔ اس کے باوجود یہ عجیب قسم کے مخصوص اثرات رکھتی ہیں اورایسی عادات کو رواج دیتی ہیں جنھیں سمجھنے کے لیے تخیل کی مدد درکار ہو تی ہے، لیکن ان کے سماجی اور معاشرتی نتائج حقیقی ہوتے ہیں جہاں ’غیر‘محض خیالی وجود رکھتے ہیں‘‘(ص ۴۴)۔ اس تقسیم کی بنیاد دُہری مخالفت پر ہے اور مذہب، سیاست، یہود دشمنی اور اسلاموفوبیاکی بنیاد پر تقسیم عمل میں لائی گئی ہے۔

اگلے دو مقالوں میں سونیا فرنانڈس اور لورا بلسکی نے مسلمان کمیونٹی کو توجہ کا مرکز بنایا ہے اور لبرل ازم، سیکولرازم اور عمومی مساوات جیسے بنیادی مغربی نظریات پر سوالات اٹھائے ہیں۔ فرنانڈس نے مسلم مخالف تعصب کی تاریخ کا صلیبی جنگوں (۴۸۸ء-۶۹۰ء/۱۰۹۵ء-۱۲۹۱ء) سے سراغ لگانے کی کوشش کی ہے، جب اسلام اور اس کے ماننے والوں کو پردیسی اور اجنبی قرار دیا جاتا تھا، جب کہ اس کے مقابلے میں مغرب کو دانش اور تہذیب کا مرکز گردانا جاتا تھا۔ یہ رویے سیون سیون اور نائن الیون کے واقعات کے بعد معیار قرار پائے اور ’’دہشت گردی کی جنگ‘‘ مسلمانوں کو پس منظر سے نکال کر پیش منظر میں لے آئی۔ ان کاکہنا ہے کہ عورتوں کے حقوق کے حوالے سے تشویش کے ظاہری پردے کے پیچھے مسلم مخالف تعصب چھپا ہوا ہے(ص ۶۱)۔ ان کی گفتگو کا محور صنف کی بنیاد پر پیدا ہونے والے مسائل ہیں جن میں حجاب، نام نہاد جبری شادیاں اور غیرت کے نام پر قتل شامل ہیں،تاکہ وہ طور طریقے سامنے لائے جا سکیں جنھوں نے اسلامو فوبیا کو رواج دیا اور اسے بظاہر بالکل عمومی چیز بنا دیا۔ وہ کہتی ہیں: ’’عورتوں کے برابری کے حقوق جیسے معاملات کو اسلام مخالف صلیبی جنگوں کے لیے جواز بنانے جیسی اسلاموفوبیا پر مبنی روایات کے مسلسل استعمال کا نتیجہ غالب ’گورے‘ مغربی لبرل کلچر کے یہاں تشدد اور عدم مساوات جیسی روایات کی پردہ پوشی کی صورت میں نکلا۔‘‘ (ص ۷۶)۔ لورا بلسکی نے علامتی لباس پہننے کے حوالے سے دو متنازع کیس لیے۔ پہلے کیس میں فرانس میں سکول جانے والی مسلمان بچیوں پر اسکارف لینے پر پابندی عائد کردی گئی اور دوسرے کیس میں اسرائیل میں ایک فلسطینی پروفیسر نے یہودی طلبہ کو کلاس میں فوجی یونی فارم پہننے سے روک دیا۔ ان دونوں کیسوں کے نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے لورا اس رویے پر بحث کرتی ہیں جو شہریت کے لبادے میں چھپایا گیا ہے اور مطالبہ کرتی ہیں کہ شہریت کے اصول وضوابط دوبارہ طے کیے جائیں تاکہ جمہوری اور کثیر تمدنی معاشروں میں مساوات کو فروغ دیا جا سکے (ص ۱۰۳)۔

چھٹے مقالے میں ہینز جارج بٹزاور سوسی مرٹ کہتے ہیں کہ دائیں بازو کے وطن پرست انتہائی سیکولر یورپی معاشرے میں عیسائیت کی ان مستند اقداراور اصولوں کے فروغ اور دفاع کے لیے کوشاں ہیںجسے ان ممالک کا ورثہ اور تاریخ سمجھا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہی پارٹیاں نسلی اقلیتوں کے ہاں صنفی برابری اور عورتوں کے حقوق جیسی لبرل اقدار کے فروغ اور دفاع کا دعویٰ کرتی بھی نظر آتی ہیں(ص ۱۲۴)۔ دوسری جانب، ’’وہ اظہار راے کی آزادی، وسعت نظر، رواداری اوریک جہتی وغیرہ کو مرکزی اقدار قرار دے کر ان کی پاسداری اور فروغ کی بات کرتے ہیں،۔۔۔ان اقدار کی بنیاد پر یہ وطن پرست کچھ پابندیاں عائد کرنا چاہتے ہیں تاکہ نسلی اقلیتوں، خصوصاً مسلمانوں کو تمام شہری اور سماجی حقوق حاصل کرنے سے روکا جا سکے‘‘ (ص ۱۲۴)۔ مصنفین کے مطابق ان وطن پرست اور انتہائی دائیں بازو کے علَم برداروں نے بہت سارے ایسے نظریات، سفارشات اور مطالبات پیش کیے ہیں جو ’’بعد میں مسلمانوں کے مغربی اور یورپی معاشرے میں انضمام کے عمل میں رکاوٹ ڈالنے یا اس کو مکمل طور پر ختم کرنے پر منتج ہوئے‘‘ (ص ۱۱۵)۔

ساتویں مقالے میں ناصر میر اور طارق مودودبرطانوی لبرل سیاسی ایجنڈے کا مطالعہ کرتے ہیں جو مسلمانوں کو ان بنیادوں پر ایک ’نسلی گروہ‘ کے طور پر قبول نہیں کرتاجن بنیادوں پر یہودیوں اور سکھوںکو تسلیم کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے معاملے میں: ’’عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ کسی صنفی، نسلی یا جنسی شناخت کسی نسلی گروہ سے منسوب ہوتی ہے یا وہ پیدایشی ہوتی ہے، جب کہ مسلمان ہونا منتخب کردہ مذہبی عقائد پر منحصر ہے، اس لیے مسلمانوں کو ان دوسری قسموں کی شناخت رکھنے والوں کی نسبت کم قانونی تحفظ کی ضرورت ہوتی ہے‘‘ (ص ۱۳۶)۔ مصنفین کے مطابق برطانوی لبرل اظہار راے کی آزادی کو، جسے عموماً مسلمانوں کا مذاق اڑانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، لبرل جمہوریتوں میں دانش ورانہ مباحث کی صحت کی ایک علامت قرار دیا جاتا ہے۔

آٹھویں مقالے میں جان ای رچرڈسن برطانیہ میں انتخابات کی رپورٹنگ کا جائزہ لیتے ہیں۔ اخباری خبریں مسلمانوں کو ایسے گروہ کے طور پر الگ کردیتی ہیںجس کا امکان ہے کہ وہ اپنے عقیدے اور نسلی وابستگی کی بنیاد پر ووٹ ڈالیں گے، نہ کہ سیاسی اور اخلاقی اقدار کی بنیاد پر۔ ڈیلی میل میں لکھا گیا: ’’نوجوان مسلمانوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ اپنی پیدایش کے ملک میں اپنی انفرادی ذمہ داری پر اپنے عقیدے سے وفادار ی کو فوقیت دیں۔ ان کی برین واشنگ کی جاتی ہے کہ وہ دنیا میں مسلمانوں پر کسی بھی وجہ سے آنے والی اُفتاد کو اپنی ذاتی تذلیل سمجھیں‘‘ (ص ۱۵۸)۔

نویں مقالے میں ایرک بیلیچ برطانیہ اور فرانس میں مسلم مخالف تعصب کی سطح کو ناپنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انھوں نے ۱۹۸۸ء سے ۲۰۰۸ء تک ہونے والے عوامی راے پر مبنی اہم جائزوں کی مدد سے مسلمانوں سے سلوک کا جائزہ لیا اور اس کا دوسرے مذاہب اور نسلی گروہوں سے تقابل بھی کیا۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ دونوں ممالک میں مسلمانوں کے ساتھ منفی رویوں میں گذشتہ ۲۰برس کے دوران اضافہ ہوا ہے۔ وہ کہتے ہیں: ’’ایک گروہ کے حوالے سے پریشان کن مضبوط دلیل موجود ہے۔۔۔جو قومی مراتب میں تیزی سے نیچے کو جا رہا ہے۔۔۔اگر یہ رجحان مزید تحقیق سے ثابت ہوجاتا ہے تو یہ ’اسلاموفوبیا‘ کے نظریے کے لیے بہترین جواز ہو گا تاکہ سول سوسائٹی اور ریاستوں کو برطانیہ، فرانس اور دوسرے ممالک میں مسلم مخالف تعصب کے خلاف متحرک کیا جائے‘‘۔ (ص ۱۸۹، ۱۹۰)

آخری مقالے میں ایرک لوّ تجزیاتی انداز میں امریکا میں اسلاموفوبیا کو نسلی تناظر میں دیکھتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اسلاموفوبیا نہ صرف نسلی تعصب میں اضافے کا سبب ہے بلکہ یہی اس کی بنیاد بھی بنتا ہے۔۔۔کہ افراد کی ظاہری وضع قطع کیسی ہے‘‘ (ص ۱۹۲)۔ اس کا کہنا ہے کہ امریکا میں ’اسلاموفوبیا کے عروج‘کاتعلق ’’مشرق وسطیٰ میں رونما ہونے والے کئی واقعات سے ہے۔۔۔خصوصاً امریکا کی نام نہاد ’بدمعاش ریاستوں‘ کی پالیسی۔۔ فلسطین کے ساتھ تنازعے میں اسرائیل کے ساتھ مستقل و غیر مشروط تعاون اور مشرق وسطیٰ کے حوالے سے ’سٹراسی‘ اور نوقدامت پسندانہ سوچ اور نظریات‘‘ (ص ۲۰۳)۔

اس کتاب میں شامل مقالات کے مطالعے سے بہت کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے، اور اسی قدر اہم معلومات فٹ نوٹ، گرافس، جدول، تصاویر اورشماریاتی معلومات میں بھی موجود ہیں۔ یہ کتاب آج کے مسلمان کو درپیش انتہائی اہم مسائل پر علمی تحقیق کا ایک شاہکار ہے۔اسے مسلم مخالف تعصبات کے خلاف کی جانے والی کاوشوں کے سلسلے کی اولین کوشش قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ کتاب مغربی کلچر کے علَم برداروں کے لیے ایک آئینہ ہے جو ان کی جانب سے اسلام کو بدنام کرنے اور مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے مذموم مقاصد کو عیاں کرتا ہے۔ یہ مجموعہ نہ صرف اسلام کے بارے میں عام غلط فہمیوں کے ازالے کا مقصد پورا کرتا ہے، بلکہ یہ مسلمان پالیسی سازوں، محققین، مدرسین، دانش وروں، ماہرین ادب اور طلبہ کے لیے مفید ذریعہ بھی ہے۔یہ کتاب ان افراد کے لیے بھی یکساں مفید ہے جو اسلام اور اسلامی اقدار کو عام کرنے کے لیے کوشاںہیں، جوبین المذاہب ہم آہنگی کے علَم بردار ہیں یا جومسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں۔ (ترجمہ: اویس احمد)۔ (بہ شکریہ سہ ماہی Insights، جلد۳، شمارہ۱، ۲۰۱۰ء، دعوہ اکیڈمی، اسلام آباد)