ڈاکٹر محمد آفتاب خان


ایک وقت وہ آئے گا جب کمیونزم خود ماسکو میں اپنے بچائو کے لیے پریشان ہوگا۔ سرمایہ دارانہ ڈیموکریسی خود واشنگٹن اور نیویارک میں اپنے تحفظ کے لیے لرزہ براندام ہوگی۔ مادہ پرستانہ الحاد، خود لندن اور پیرس کی یونی ورسٹیوں میں جگہ پانے سے عاجز ہوگا۔(سیدمودودی)

کون جانتا تھا کہ ۱۹۴۶ء میں جب یہ الفاظ ایک چھوٹے سے قصبے میں منعقدہ ایک اجلاس میں کہے جارہے تھے، صرف۴۵سال بعد انسانیت کو وہ دن بھی دیکھنا نصیب ہوگا کہ روس کی طاقت پارہ پارہ ہوکر رہ جائے گی اور کمیونزم تاریخ کا محض ایک باب بن کر رہ جائے گا___ اور اس امر سے بھی آج کون آگاہ ہوسکتا ہے کہ تہذیب الحاد کا ایک دوسرا سرخیل، امریکا جس کا ڈنکا روس کے پارہ پارہ ہوجانے کے بعد تمام دنیا میں بج رہا ہے، اس کا انجام بھی روس کی تباہی کی طرح کتنے فاصلے پر ہے؟

امریکا کی اقتصادی حالت کے بارے میں آج یہ امر بچے بچے کی زبان پر ہے کہ وہ فی الوقت دنیا کے مقروض ترین ممالک میں سرفہرست ہے۔ اسی طرح امریکا نے اپنی فوجی اور سائنسی برتری کے بل پر جنگوں کا جو لامتناہی سلسلہ دنیا کے مختلف خطوں میں جاری کیا ہوا ہے، اس سے وہ کب روس کی طرح شکست سے دوچار ہوگا؟___ اسی طرح کے چند دیگر اہم ترین عوامل سے قطع نظر امریکی قوم کی جو اخلاقی حالت آج ہے اور امریکی نوجوان نسل جنسی انحطاط کی جس ڈگر پر بگٹٹ  چلی جارہی ہے، اس کی تباہی کے بارے میں اب وقت بہت قریب آگیا ہے۔

زیرنظر مضمون میں ہم تہذیب مغرب کے اخلاقی پہلو کی اس اہم ترین کمزوری کا جائزہ لیں گے جس کو اپنانے کے بعد دنیا کی کوئی قوم بہت دیر تک زندہ نہیں رہی___ ہماری مراد اس    جنسی انحطاط اور اس کے نتیجے میں ہونے والے مضمرات سے ہے جس میں اقوامِ مغرب بالعموم اور امریکی عوام کی ایک بڑی اکثریت بالخصوص فی زمانہ دوچار ہے۔ جنسی آزادی کے اس غیرفطری رویے کی بناپر امریکا ایک گہری دلدل کے کنارے کھڑا نظر آرہا ہے۔ موجودہ دور میں مغرب کا انسان اپنے بے محابا جنسی جذبے کی تسکین کے تمام غیرفطری طریقوں کی وجہ سے اپنی تمام تر خرابیوں، مصیبتوں اور مسائل کا خود ذمہ دار ہے۔ اس کی وجہ سے نوعمر (teens) لڑکیوں میں ناجائز حمل کی بڑھتی ہوئی شرح، طلاق کی بھرمار اور خاندانی نظام کی تباہی کسی بھی صاحب ِ نظر سے پوشیدہ نہیں۔ تاہم، مغرب کی نوجوان نسل میں جنسی امراض کا بڑھتا ہوا رجحان اور ایڈز کے پھیلنے کی سب سے بڑی وجہ ان کا جنسی بے راہ روی اور جنسی آزادی (free sex) کے ایسے طریقوں پر عمل پیرا ہونا ہے جس سے اگرچہ انسان قدیم ترین زمانے میں بھی آگاہ تھا لیکن موجودہ زمانے میں اس کی قہرمانیوں میں حیرت انگیز اضافہ ہوا ہے۔

موجودہ زمانے میں فحاشی اور جنسی بے راہ روی کے جس طوفان نے نہ صرف مغربی دنیا کو اپنی لپیٹ میں جکڑ رکھا ہے بلکہ اس کے اثرات بہت تیزی کے ساتھ اسلامی ممالک بالخصوص پاکستان کو بھی اپنی گرفت میں لے رہے ہیں۔ ٹی وی، ڈش،انٹرنیٹ اور موبائل فون، نیز دیگر  مخرب اخلاق میڈیا کے ذریعے ہماری نوجوان نسل جس انداز میں اس کا اثر قبول کر رہی ہے اس کے پیش نظر شاید یہ کہنا غلط نہ ہو کہ ہم بھی یورپ اور امریکا کے نقشِ قدم پر نہایت تیزی کے ساتھ چلے جارہے ہیں۔ ایسے میں ایک سوال ہردردمند مسلمان کے دل سے اُٹھتا ہے کہ کیا ہم بھی اس انجام سے دوچار ہونا چاہتے ہیں؟

ذیل میں ہم ایڈز (Aids) نامی بیماری، نیز چند دیگر جنسی امراض (venereal diseases) کے بارے میں نہایت مستند اعداد وشمار کی روشنی میں ان نقصانات سے اپنی نوجوان نسل کو آگاہ کرنا چاہتے ہیں جس میں امریکا اور یورپ کے لوگ بالخصوص نوجوان نسل مبتلا ہے۔ نیز پاکستان کے پڑھے لکھے طبقے بالخصوص دینی رہنمائوں اور انسانی بھلائی کے بارے میں سوچنے سمجھنے والے تمام لوگوں کو بھی آگاہ کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارا روے سخن بالخصوص مذہبی رہنمائوں اور پیرانِ عظام سے ہے کہ وہ اُمت محمدیہؐ کو بالعموم اور نوجوان نسل کو بالخصوص انسانی زندگی میں جنسی جذبے اور جبلّت کی اہمیت اور اس کے جائز استفادے، نیز خاندانی اور معاشرتی نظام کی بحالی کے لیے اپنی تمام تر کوششیں وقف فرمائیں۔ کیونکہ ماضی قریب میں اس موضوع سے جس قدر اغماض اور بے اعتنائی  برتی گئی ہے، وہ مجرمانہ تساہل کے زمرے میں آتی ہے۔ اور اس کے بارے میں بروزِ قیامت ہرشخص سے سوال ہوسکتا ہے     ؎

حرم کے والیو! تم تو مراقبوں میں رہو
بتانِ دیر یہاں چھا گئے تو کیا ہوگا؟

ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوان نسل کو مدلل اور منطقی انداز میں اس موضوع سے متعلقہ دینی احکامات اور اس کی حکمتوں سے آگاہ کیا جائے تاکہ وہ اپنی انفرادی اور سماجی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے خود اس امر پر غور کرسکیں کہ جنسیت کا وہ تصور جسے مغرب کے لوگ ’محض دو افراد کے درمیان وقتی لذت کوشی اور فطری جذبے کی تسکین‘ کا نام دیتے ہیں، حقیقت میں اس کے نقصانات کس قدر ضرررساں اور خوف ناک ہیں۔ جنسی ہیجان اور انارکی کی وجہ سے مسلم معاشروں میں سخت خلفشار برپا ہے، جو ہر آنے والے لمحے بڑھتا ہی جارہا ہے۔ اس کے تدارک اور انسداد کے لیے قرآن و سنت میں رہنمائی تو موجود ہے مگر ہمارے معاشرے میں اس موضوع کو ’شجرِممنوعہ‘ بنادیا گیا ہے۔ اسلامی تعلیمات کی عدم موجودگی یا کم دستیابی یا دینی رہنمائوں کا اس موضوع پر نوجوانوں سمیت معاشرے کے تمام طبقات کی مناسب رہنمائی نہ کرنے کے نتیجے میں نوجوان طبقہ مجبوراً یہ معلومات ٹی وی، ڈش اور انٹرنیٹ سے حاصل کرنے پر مجبور ہے۔ اور چونکہ ان ذرائع سے جو معلومات حاصل ہوتی ہیں، ان میں لذتیت کا پہلو بہت نمایاں ہوتا ہے اس کی وجہ سے نوجوان اسی ایک پہلو پر عمل کرتے ہیں اور یوں معاشرے میں بہت سے اخلاقی اور معاشرتی مسائل پیدا ہورہے ہیں۔

ایڈز پر ایک طائرانہ نظر

ایڈز ایک ایسی مہلک بیماری ہے جس کا نہ صرف یہ کہ ابھی تک کوئی شافی علاج دریافت نہیں ہوسکا اور نہ کوئی ایسا طریقہ ہی دریافت ہوا ہے جس کے ذریعے اس کے خلاف انسانی جسم میں قوتِ مدافعت (immunity) پیدا کی جاسکے۔ یہ ایک وائرس کے ذریعے جنسی افعال کی ہمہ اقسام  (طبعی و غیرطبعی) کے ذریعے پھیلتی ہے۔ اس طریق پر یہ بیماری نہ صرف دوسرے انسانوں کو    لاحق ہوجاتی ہے بلکہ اس کی وجہ سے اس بیماری میں مبتلا شخص دیگر ہرقسم کی بیماریوں کے حملے کے خلاف مؤثر دفاعی نظام کی صلاحیت بھی کھو بیٹھتا ہے،اور آئے دن مختلف بیماریوںکا ہمہ وقت   شکار رہتا ہے اور بالآخر سسک سسک کر مرجاتا ہے۔

یہ مرض ایک وائرس کی بنا پر پھیلتا ہے جو صرف الیکٹرانک خوردبین کے ذریعے سے ہی دیکھا جاسکتا ہے جسے ایڈز کا وائرس (Human Immunity Virus-HIV) کہتے ہیں۔ یاد رہے کہ ایڈز کا مرض ۱۹۸۰ء میں پہلی مرتبہ امریکا میں دریافت ہوا۔ اس بیماری کے نہایت سنجیدہ ممکنہ خطرات کا علم لوگوں کو اکتوبر ۱۹۸۶ء میں امریکن سرجن جنرل (C. Evert Koops) کی رپورٹ سے ہوا۔ انسانوں میں یہ وائرس مرد و عورت کے جنسی اعضا کی رطوبتوں اور خون کی وجہ سے منتقل ہوتا ہے جو مرد و زن کے درمیان زنا یا ہم جنسیت (sodomy)، یا کسی مریض کو انتقالِ خون کے ذریعے متاثرہ فرد کا خون لگنے، یا نشہ کرنے والے افراد کا ایک دوسرے کو ٹیکہ لگانے والی سرنج/سوئی یا حجام کے بلیڈ، استرے اور قینچی کے ذریعے پھیلتا ہے۔ اگر وہ اوزار کسی ایڈز زدہ فرد کے استعمال میں رہے ہوں اور ان پر مریض کا خون لگ گیا ہو۔

ماں کے رحم میں بچوں کو اس مرض کی چھوت صرف ۱۰ فی صد تک لگتی ہے لیکن کسی عورت کے اس مرض میں مبتلا ہونے کی صورت میں ولادت کے دوران تولیدی اعضا کی رطوبتوں/خون وغیرہ کے ذریعے ۳۰ فی صد تک بچے اس مرض میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔ میڈیکل سائنس کی تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ کیڑے مکوڑوں، مکھیوں، مچھروںکے کاٹنے سے یہ مرض نہیں پھیلتا۔ اسی طرح کھانے پینے کی اشیا، ٹائلٹ کے کموڈ، تیراکی کے تالاب، یا مشترکہ استعمال کی اشیا از قسم برتن یا کپڑوں سے اس مرض کی چھوت نہیں لگتی۔ تاہم بچوں کا ماں کی چھاتی سے براہِ راست دودھ پینے کی وجہ سے اگر نپل (بٹنی) پر زخم ہوں یا وہ کٹے پھٹے ہوں اور ان سے خون بھی رستا ہو تو ایسی حالت میں دودھ پینے سے بچوں کو اس کی چھوت منتقل ہوسکتی ہے۔

مغربی ممالک میں ایڈز پہیلنے کے محرکات

ذیل میں اُن عوامل کا مختصراً ذکر کیا جا رہا ہے جو ایڈز کے پھیلنے میں معاون ہیں:

  •  جلد بالغ ھونا (Early Maturity): عالمی سطح پر کی گئی تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ صنعتی ممالک کے بچوں میں بلوغت کی عمر میں کمی واقع ہوتی ہے، یعنی وہ جلد بالغ ہوجاتے ہیں۔ بلوغت کی عمر کا تعلق نوجوانوں (لڑکے اور لڑکیوں) میں بچوں کی پیدایش کی صلاحیت (fertility) سے ہوتا ہے۔ فی زمانہ لڑکیوں میں بلوغت کی اوسط عمر ۲ء۱۲سے ۸ء۱۲ سال اور لڑکوں میں ۵ء۱۳سے ۱۴سال ہے، جب کہ بیسویں صدی کے آغاز پر لڑکیوں میں یہ عمر ۱۵سے ۱۶سال اور لڑکوں میں ۱۵سے ۱۷سال تھی۔ نوجوان نسل کے جلد بالغ ہونے کی وجہ ان ممالک کے عوام کے غذائی معیار کا بہتر ہونا ہے۔ بالخصوص ان کی غذا میں لحمیات (proteins) اور روغنی اجزا (fats) کا زیادہ استعمال ہے۔
  •  شادی کی عمر میں تاخیر (Late Marriages): نوجوان نسل کے جلد بالغ ہونے کے برعکس ان کی پہلی مرتبہ شادی کی اوسط عمر میں تاخیر ہوتی ہے۔ امریکا میں ۱۹۲۰ء میں پہلی مرتبہ شادی کی اوسط عمر ۷ء۲۲سال تھی، جب کہ ۱۹۹۷ء میں اس کا اندازہ ۷ء۲۵ سال لگایا گیا ہے۔

درج بالا ہردو اُمور کا منطقی نتیجہ شادی سے قبل ناجائز جنسی تعلقات (زنا و دیگر ہمہ اقسام جنسی افعال) کی شکل میں نمودار ہوا۔ ایک جائزے کے مطابق امریکا اور یورپ کے تین ممالک (نیدرلینڈ، جرمنی، فرانس) کے نوعمر بچوں (teens) میں پہلی مرتبہ زنا کی عمر ۱۵ سے ۱۷سال کے درمیان ہے۔اس جائزے سے پتا چلتا ہے کہ امریکی نوعمرنسل کے افراد یورپی ممالک کے بچوں کی نسبت ایک تا دو سال جلد جنسی افعال (زنا) میں ملوث ہوجاتے ہیں۔ اس ملک میں پہلی مرتبہ جنسی اختلاط دراصل نتیجہ ہے اس ’تلقین‘ کا جس کی وجہ سے وہاں ’’جنسی اختلاط کو دو نوجوان افراد کے درمیان وقتی لذت کوشی (time passing) اور فطری جذبات کی تسکین‘‘ کا نام دے کر جائز قرار دیا گیا ہے جس پر معاشرے کے تعلیمی اُمور کے نگران اور مذہبی لیڈروں (پوپ/پادری/ربی) کسی کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہوتا، بلکہ وہ اسے ’نوجوانوں کی معصوم خواہشات کی تکمیل‘ کے نام پر گوارا کرتے ہیں۔

مغربی ممالک میں زنا کی بڑھتی ہوئی شرح اور اس کے نتیجے میں ایڈز وغیرہ جنسی امراض کے تدارک کے لیے ایک ’بہت آسان اور سستا نسخہ‘ تجویز کیا جاتا ہے کہ اسکولوں، کالجوں، نیز پبلک مقامات پر ’مانع حمل گولیوں اور کنڈوم‘ کی فراہمی اس قدر عام کردی جائے کہ ’بوقت ِ ضرورت‘ کسی کو بھی ان کے حصول کے لیے کوئی تردّد یا بھاگ دوڑ نہ کرنی پڑے، اور اب تو یہ حال ہے کہ نوعمر نسل کے افراد یہ اشیا اپنے پرس/جیب میں رکھتے ہیں۔

مغربی دانش وروں کے اس اچھوتے نسخے کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ نوجوانوں میں ان اشیا کا استعمال یکساں طور پر مقبول ہو رہا ہے اور یہی نسخہ مغربی دانش ور اسلامی ممالک کے نوجوانوں کے لیے تجویز کرنے اور اسے عام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں (ظاہر ہے کہ اس کا نتیجہ بھی زنا کے عام ہونے کی شکل میں ظاہر ہوگا)۔ یاد رہے کہ نیدرلینڈ میں ۸۵ فی صد ڈچ نوجوان نوبالغ (adolescents) پہلی مرتبہ زنا کے وقت مانع حمل اشیا کا استعمال کرتے ہیں، جب کہ جرمنی میں ۵۶فی صد بالغ لڑکے زنا کے وقت کنڈوم استعمال کرتے ہیں، اور امریکا میں صرف ۲۵فی صد نوجوان لڑکے بہ عمر ۱۴ تا ۲۲سال دونوں طریقے کنڈوم نیز صنف ِ مخالف کے لیے گولیاں استعمال کرتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ امریکا میں ایڈز میں مبتلا افراد کی شرح سب سے زیادہ ہے (تفصیل آیندہ صفحات میں آرہی ہے)۔

جنسی اعمال میں بہت زیادہ اور جلد ملوث ہونے کا ایک بدیہی نتیجہ ناجائز بچوں کی پیدایش یا اسقاطِ حمل (abortion) کی شکل میں برآمد ہوتا ہے۔ ایک جائزے میں مختلف یورپی ممالک اور امریکا میں ان ہر دو اُمور کا تقابلی جائزہ تعداد فی ہزار عورتیں بہ عمر ۱۵ تا ۱۹سال پیش کیا گیا ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ امریکا میں ناجائز بچوں کی پیدایش کی شرح ۴ء۵۴ فی صد اور اسقاطِ حمل کی شرح ۱۷ فی صد نمایاں طور پر یورپ کے تین ممالک کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ جرمنی کی نسبت یہ چارگنا ہے، جب کہ اسقاطِ حمل کی شرح بھی دیگر ممالک کی نسبت دوگنی ہے۔

نیدرلینڈ میں اس عمر کی لڑکیوں میں ناجائز بچوں کی شرح پیدایش دنیا میں سب سے کم ۹ء۶فی صد ہے، حالانکہ وہ ملک دنیا بھر میں اپنی جنسی قوت کے اظہار (libido) میں بدنامی کی حد تک مشہور ہے۔

مغربی صنعتی ممالک میں ایڈز کا جائزہ

امریکا، دنیا کے تمام ممالک میں ایک ایسی حیثیت کا حامل ہے جس کی سیادت تمام ممالک (خواہی، ناخواہی) ماننے پر مجبور ہیں، تاہم اس ملک کی اخلاقی حالت کا اندازہ درج بالا جائزے ، نیز جنسی امراض بالخصوص ایڈز میں مبتلا افراد کی زیادتی سے بآسانی لگایا جاسکتا ہے۔ امریکا میں ایڈز میں مبتلا ہونے والے افراد کی شرح ۳۳ء۲ فی صد ہے جو دیگر یورپی ممالک سے زیادہ ہے۔

اس ضمن میں امریکی ادارہ براے کنٹرول و انسداد امراض (U.S Centers for Disease Control and Protection) کے مطابق: 

  • امریکا میں ہر سال ۳۰ لاکھ نوعمر بچے جن کی عمر ۲۰سال سے کم ہے سالانہ ایڈز میں مبتلا ہوتے ہیں۔
  • اسی طرح ۸لاکھ نوعمر لڑکیاں سالانہ ناجائز حاملہ ہوتی ہیں۔ 
  • ۸۲ فی صد گورے (امریکن)، ۳۸ فی صد سیاہ فام، ۱۸ فی صد ہسپانوی نسل کے لوگ، جب کہ ایک فی صد سے کم ایشین پیسفک جزائر اور امریکن انڈین، نیز الاسکا کے باشندے تھے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ ایشین پیسفک جزائر اور امریکن انڈین/الاسکا کے باشندوں میں آزادانہ جنسی اختلاط نہ ہونے کے برابر ہے۔ اور یوں ان اقوام کے لوگ ایڈز میں مبتلا ہونے سے بچے رہتے ہیں۔

درج بالا ۸۲ فی صد امریکن مرد جو ایڈز کا شکار ہوئے، ان میں ایڈز پھیلانے والے عوامل کا تجزیہ کچھ یوں ہے:

  • ۴۶ فی صد مرد ہم جنس پرستی(gayism) کی وجہ سے ایڈز میں مبتلا ہوئے۔ 
  • ۲۵فی صد مرد ایسے تھے جو نشہ آور اشیا کے ایک دوسرے کی سرنج استعمال کرنے سے اس مرض کا شکار ہوئے، یعنی ۷۱فی صد افراد ایسے تھے جو ہردو غلط افعال کی بناپر ایڈز میں مبتلا ہوئے۔ اس سے امریکی عوام کی اخلاقی، ذہنی، تعلیمی اور صحت ِ عامہ کے اصولوں سے عدم آگاہی کا اندازہ لگانا اور اس رجحان کے جاری رہنے سے امریکن قوم کے مستقبل قریب میں تباہ و برباد ہونے کے بارے میں قیاس کیا جاسکتا ہے۔
  • ۱۱فی صد مریض زنا کرنے کی وجہ سے اس مرض میں مبتلا ہوئے، جب کہ ایک فی صد ایسے بھی تھے جو کسی متاثرہ فرد کا خون لگنے کی وجہ سے بیمار ہوئے۔

نوجوان نسل کا بلحاظِ عمر ایڈز میں مبتلا ہونے کا اندازہ ایک جائزے سے بآسانی لگایا جاسکتا ہے۔اس جائزے سے پتا چلتا ہے کہ:

  • ایڈز میں مبتلا افراد کی سب سے زیادہ تعداد ۲۵ سے ۲۹ تا ۳۵سے ۳۹سال کی عمر کے لوگوں پر مشتمل ہے جو ۵۷ فی صد بنتی ہے۔ چونکہ ایڈز کا وائرس انسانی جسم میں داخل ہونے کے بعد سالہا سال تک حالت ِ خاموشی (dormant stage)میں زندہ رہتا ہے، اس لیے بآسانی یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ایسے تمام افراد میں یہ مرض اوائل عمر میں جنسی افعال میں ملوث ہونے کی وجہ سے لاحق ہوا ہوگا۔

جیساکہ گذشتہ صفحات میں بتایا گیا ہے کہ امریکا اور دیگر یورپی ممالک میں بلوغت کی عمر جلدی واقع ہوجاتی ہے، جب کہ شادی کی عمر میں تاخیر ہوتی ہے۔ اس لیے ان ممالک کے ایسے ماحول میں جہاں لڑکے اور لڑکیوں کا آزادانہ اختلاط اسکول، کالج، بازار، گھر اور دیگر تمام پبلک مقامات پر ہوتا ہے، وہاں نوجوان نسل کا شادی سے قبل جنسی افعال (زنا، ہم جنس پرستی) وغیرہ میں ملوث ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں۔ یوں وہ اوائل عمر میں ہی اس مرض کا شکار ہوجاتے ہیں۔

  •  ایڈز کی وجہ سے اموات: ایڈز میں مبتلا ہونے کی وجہ سے بلحاظِ عمر اموات کی شرح کا جائزہ بھی لیا گیا ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ مردوں میں ایڈز کی وجہ سے مرنے والوں کی تعداد میں عمر کے دو گروپس (۲۵ تا ۳۴) اور (۳۵ تا ۴۴) سال کی عمر میں حیرت انگیز اضافہ ہوا ہے جو ہزاروں سے بڑھ کر لاکھوں تک پہنچ چکا ہے۔

یورپ کے دیگر ممالک میں ایڈز

امریکا میں ایڈز کے بارے میں معلومات کا مطالعہ کرنے کے بعد اب یہ ضروری محسوس ہوتا ہے کہ ہم مغربی دنیا کے چند دیگر ممالک میں ایڈز کے وقوع کا بھی مطالعہ کریں۔

  • (اlبرطانیہ: برطانیہ میں ایڈز کی چھوت لگنے کے طریقوں کے لحاظ سے مریضوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔ان اعداد و شمار سے ذیل کے ہوش ربا حقائق کا علم ہوتا ہے۔ برطانیہ میں ایڈز کا مرض لاحق ہونے کی سب سے بڑی وجہ ہم جنسیت ہے جس میں ۶۶فی صد مرد مبتلا ہوتے ہیں۔ جس سے اس قوم میں غیرفطری ذرائع سے جنسی تسکین حاصل کرنے کے رجحان کی غمازی ہوتی ہے۔ چونکہ یہ عمل بالخصوص سکول/ کالج کے نوعمر لڑکوں میں عام ہوتا ہے جس کی وجہ سے ۲۰ تا ۳۴سال کی عمر کو پہنچنے پر ان میں اس مرض کی شرح ۴ سے ۲۵فی صد ہے۔
  • (ب) کینیڈا:کینیڈا میں ایڈز کی پہلی مرتبہ دریافت ۱۹۸۰ء میں ہوئی اور اب تک ۱۷ہزار۵سو۹۴ افراد اس مرض سے متاثر ہوئے۔ کینیڈا کے مشہور ترین شہروں برٹش کولمبیا، البرٹا، اونٹیرو اور کیوبک میں کینیڈا کی کُل آبادی کا ۸۵ فی صد رہتا ہے، جب کہ وہاں ۹۵ فی صد لوگ اس مرض کا شکار ہیں۔

بلحاظ عمر ۳۰ سے ۳۹سال کی عمر کے لوگ اس مرض کا شکار ہوتے ہیں جس کے یہ معنی ہیں کہ یہ لوگ بھی اوائل عمر میں جنسی افعال میں ملوث ہوئے تھے۔ ۲۰۰۰ء میں اس عمر کے ۴۱فی صد لوگ اس مرض کا شکار تھے۔

  • کینیڈا میں چند دیگر جنسی امراض: ایڈز کے علاوہ کینیڈا میں بہت سے افراد مختلف دیگر جنسی امراض (venereal diseases) میں مبتلا ہوتے ہیں جن میں Chlamydia، سوزاک (Syphilus)، آتشک (Gonnorhea) اور Herpes Simplex Virus Infection بہت اہم ہیں۔ مؤخرالذکر وائرس کے ذریعے پھیلنے والی بیماری سب سے زیادہ وقوع پذیر ہونے والا عارضہ ہے جو بین الاقوامی سطح پر ترقی یافتہ ممالک کے لوگوں میں پایا جاتا ہے۔ اس بیماری کے تین اہم ترین بُرے اثرات ہیں۔اولاً: اس مرض کے غیرتشخیص شدہ افراد دیگر صحت مند لوگوں میں اس بیماری کو پھیلانے کا سبب بنتے ہیں۔ثانیاً: مریض عورتوں کے رحم میں بچے کو اس مرض کی چھوت لگ جاتی ہے جس کی وجہ سے بچے کی دماغی /اعصابی صلاحیت بُری طرح سے متاثر ہوتی ہے اور شرحِ اموات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ثالثاً: اس بیماری کی وجہ سے جنسی اعضا پر زخموں کی وجہ سے HIV کے پھیلنے کے امکانات بہت زیادہ ہوجاتے ہیں۔

ایڈز کی روک تہام

مغربی ممالک میں ایڈز اور دیگر جنسی امراض کی حالت ِ زار کا مطالعہ کرنے کے بعد، جس میں کروڑوں انسان نہ صرف اموات کا شکار ہورہے ہیں بلکہ ان کی وجہ سے ان کی زندگی بھی اجیرن ہوکر رہ گئی ہے، اب یہ ضروری محسوس ہوتا ہے کہ ہم اس رہنمائی کا بھی مجملاً مطالعہ کریں جو اسلام نے انسان کو ایک پاکیزہ زندگی بسر کرنے کے لیے دی ہے جس میں اس قسم کے امراض کا وجود بھی نہیں پایا جاتا۔

ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’جب کبھی بھی ایسا ہوا کہ کسی قوم میں گناہوں کی بھرمار ہوجائے اور اس قوم کے لوگ ان گناہوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگیں، تو اللہ تعالیٰ اس قوم میں ایسی بیماری پیدا کردیتا ہے جو ان کے آبا واجداد میں نہ تھی (ابن ماجہ)۔ چونکہ فی الوقت ایڈز کا کوئی شافی علاج دریافت نہیں ہوسکا اور نہ اس کے خلاف قوتِ مدافعت ہی پیدا کی جاسکتی ہے۔ اس لیے موجودہ زمانے میں مغربی ممالک کے لیے اس کے سوا کوئی ذریعہ نہیں کہ وہ فوری طور پر اپنے عوام بالخصوص نوجوان نسل (لڑکے اور لڑکیوں) کے ذہن میں اخلاقی تعلیم اور تربیت کے ذریعے اس امر کو پختہ کریں کہ نوجوانی میں جنسی جذبات کا ہونا اگرچہ فطری امر ہے، تاہم یہ ضروری نہیں کہ اس فطری جبلت کی تسکین کے لیے شادی سے قبل وہ کسی قسم کے بھی جنسی فعل میں مبتلا ہوں۔ مغربی دانش وروں کی یہ راے کسی صورت بھی اطمینان بخش نتائج نہیں دے سکتی اور نہ وہ اپنے باشندوں ہی کو ان مہلک بیماریوں سے نجات دلا سکتے ہیں کہ ’وہ جنسی آوارگی، زنا، ہم جنسیت اور شراب نوشی، نیز اسی قسم کے دیگر اعمال میں ملوث بھی رہیں لیکن چند احتیاطی تدابیر از قسم کنڈوم یا مانع حمل گولیوں کا استعمال کریں تو وہ ان امراض کے بُرے نتائج سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ ان ممالک نے گذشتہ ایک صدی میں مانع حمل طریقوں کے علاوہ لاکھوں ڈالر تعلیمی نظام کے ذریعے جنسی انارکی سے بچنے کے لیے خرچ کیے ہیں لیکن ان تمام تر اخراجات اور کوششوں کا جو نتیجہ نکلا ہے اس کا بھرم گذشتہ صفحات میں مندرج اعداد وشمار اور حقائق نے کھول دیا ہے۔ کیونکہ یہ تمام تر معلومات خود امریکی اور یورپین سرکاری ذرائع سے اخذ کی گئی ہیں۔ اس لیے ان کی صحت کے بارے میں کسی قسم کا شبہہ بھی نہیں کیا جاسکتا۔

یہاں اس امر کی صراحت بھی ضروری ہے کہ حکمت و دانائی کا تقاضا یہ ہے کہ انسانی زندگی میں اس بے راہ روی کا حل صحیح الہامی ہدایات، نفسیات اور سائنسی معلومات کی روشنی میں کیا جائے، تاکہ اسے ایسی صحیح بنیادوں پر استوار کیا جاسکے کہ وہ مقصد جس کی خاطر خالق کائنات نے اس جبلت کو انسان میں ودیعت فرمایا ہے، باحسن پورا ہوسکے۔ یہ وہ نازک مقام ہے جہاں ایک الہامی دین کی ضرورت محسوس ہوتی ہے جو انسانوں (عورت اور مرد) کی زندگی کو ایک ضابطے کا پابند بنائے تاکہ وہ معاشرے اور انسانی تہذیب کی ترقی کا ذریعہ بن سکے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام الہامی مذاہب میں شادی کے ادارے کے قیام کے ذریعے عورت اور مرد کے جنسی تعلقات کو ایک قانونی شکل دی گئی ہے تاکہ اس طرح خاندانی نظام کی بنیاد پڑے اور نسلِ انسانی کو فروغ حاصل ہو۔ اسی بناپر تمام مذاہب ِ سماوی نے شادی کے علاوہ لذتِ شہوانی کے حصول کے تمام غیرفطری طریقوں کو حرام قرار دیا ہے۔

یہاں کچھ لوگ سوال کرسکتے ہیں کہ مذہب کو انسانی زندگی کے جنسی معاملات کے ساتھ نتھی کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ بظاہر یہ ایک بہت وزنی اعتراض نظر آتا ہے لیکن بنظر غائر دیکھنے سے پتا چلتا ہے کہ یہ مذہب اور جنسی معاملات کو نتھی کرنا نہیں کیونکہ اگر نفسیات، انسانی زندگی کے رویوں اور معاملات کی سائنس کا نام ہے تو دین (مذہب)۔ بلاشبہہ اس دنیا میں انسانی رویوں اور اعمال کی تہذیب کا مؤثر ترین ذریعہ ہے۔ انسانی زندگی کی تمام تر بے راہ روی اور غلط اعمال کو ٹھیک سمت پر ڈالنے کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ ان جبلی اور فطری داعیات کو الہامی تعلیمات کے تحت کردیا جائے، کیونکہ انسانیت کے تمام تر دکھوں کا مداوا اور مستقل علاج دینی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے سے ہی ممکن ہے    ؎

چارہ این است کہ از عشق کشادے طلبیم
پیش او سجدہ گذاریم و مرادے طلبیم

(علاج یہ ہے کہ عشق سے مدد لیں، اس کے سامنے سجدہ کریں اور اس سے مراد مانگیں۔)

شاید یہ امر باعث ِ دل چسپی ہو کہ امریکا میں چند چرچ اور یہودی عبادت گاہیں اپنے مذہبی عقائد پر مبنی جنسی تعلیم اپنے پیروکاروں کو دیتے ہیں جن کا اصل الاصول یہ ہے کہ ’’جنسیت ایک عطیہ ربانی ہے جو انسان کی زندگی کا ایک لازمی حصہ ہے‘‘، بجاے اس کے کہ نوجوان نسل کو یہ بتایا جائے کہ وہ ’’کوئی کام کریں یا نہ کریں کہ مذہب اس کی اجازت دیتا ہے یا نہیں‘‘۔ اس امر کی ضرورت ہے کہ انھیں بتایا جائے کہ وہ جنسی زندگی کو روحانی انداز میں دیکھیں۔ جب نوجوان اپنی زندگی کو خدا کا انعام سمجھتے ہوئے اس حقیقت کا ادراک کریں گے کہ شادی سے باہر جنسی افعال ایک بُرا عمل ہے تو اس امر کی توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنی اس قوت کا غلط استعمال نہیں کریں گے۔ کیونکہ جنسیت کو روحانیت کے درجے میں لاکر اس امر کے قوی امکانات ہیں کہ نوجوان اس کے بارے میں زیادہ محتاط رویہ اختیار کریں گے۔