ہماری موجودہ حالت ہمارے ماضی کی وجہ سے ہے۔ ہمارا مستقبل وہ ہوگا جس کے لیے ہم آج کوشش کریں گے۔ماضی جاچکا، مستقبل نامعلوم ہے اور صرف حال ہمارے ہاتھ میں ہے۔ ناکامی کی کچھ عمومی تاویلیں اس طرح ہیں جنھیں ہم حقیقت جان کر اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈال دیتے ہیں اور خود کو بری الذمّہ قرار دیتے ہیں:
غلطی کے خوف سے کام نہ کرنا بہت بڑی غلطی ہے۔ناکامی کے خوف سے ابتدا ہی نہ کرنا، سب سے بڑی ناکامی ہے۔ یہ سوچنا کہ سائیکل سے گرجائوں گا یا تیرنے سے ڈوب جائوں گا، اس لیے آپ وہ کام ہی نہ کریں___ یہ سب سے بڑی غلطی ہوگی۔ کامیابی کا ایک فارمولا یہ بھی ہے: ۲۵ فی صد منصوبہ بندی + ۷۵فی صد سخت محنت =کامیابی۔ کوئی بھی کام ابتدا میں پہلی بار ہی ہوگا۔ اس کے بعد ہی آپ کمال کی جانب بڑھیں گے۔ اگر آپ کام ہی نہ کریں تو وہ لمحہ زندگی میں کبھی نہیں آئے گا جب آپ کوئی کام اچھی طرح انجام دیں گے۔مشق اور تجربے سے ہی کمال کی طرف سفر ہوگا اور منزل ہاتھ آئے گی۔مشق، مہارت میں اضافہ کرتی ہے۔
تبدیلی یک لخت نہیں ہوگی۔اس کے لیے وقت درکار ہوگا۔ مایوسی کی کوئی گنجایش نہیں۔ اگر آپ نے درخت جڑ سمیت دوسری جگہ لگادیا تب بھی کچھ بنیادی خصوصیات تبدیل نہیں ہوں گی۔ اس حقیقت کا ادراک کریں۔ ابھی، اسی وقت، میرے سامنے میں جیسا چاہتا ہوں ویسا___ اس طرح کی انتہا پسندانہ سوچ سے تبدیلی نہیں آئے گی۔جہاں تک ممکن ہو اپنے اندر تبدیلی لائیے۔ کچھ باتیں چھوڑ دیجیے جو آپ کے دائرہ اختیار میں نہیں ہیں، مثلاً رنگ، قد، وزن وغیرہ نہیں بدل سکتا۔ وہاں تبدیلی لائیے جو آپ کے بس میں ہے، مثلاً اندازِ گفتگو، اخلاق، کردار وغیرہ۔ ’ضد‘ اور انتہا پسندی کو حکمت سے دُور کریں۔ آپ اپنے دائرہ اختیار کے اندر باہر کے معاملات کا بے لاگ جائزہ لیجیے۔اپنی ذات اور جذبات اور احساسات و خیالات کی نفی مت کیجیے۔ انھیں بھی احترام اور عزت دیجیے۔ذاتی فیصلوں کے اچھّے بُرے یا مثبت و منفی اثرات کا تعیّن کیجیے۔
صد فی صد کامیابی یا مکمّل کامیابی ناممکن ہے۔ کمال کا حصول کبھی نہ ختم ہونے والا سفر ہے، لہٰذا ترقی کے لیے محنت کیجیے نہ کہ کمال کے حصول کے لیے۔ واقعہ یہ ہے کہ اس دنیا میںکوئی چیز کامل نہیں ہے۔ہم ترقی کی منزل کے راہی ہوسکتے ہیں مگر منزل ہر بار دور ہوتی جاتی ہے۔اس لیے اس کی فکر میں دبلا ہونا فضول ہے۔ترقی پر نظر رکھیے۔ شاہ راہِ ترقی پر گامزن رہنا ہی کامیابی ہے۔
ایک دوسری تصویر دیکھیں: پر عزم، روشن آنکھیں، چال میں وقار، گفتگو میں جان اور بحیثیت مجموعی ایک فاتح ہونے کا احساس___ وجہ صاف ظاہر ہے۔ ایسے اشخاص زبانِ حال، یعنی ’اپنے ظاہر‘ سے آدھا مقابلہ پہلے ہی جیت چکے ہوتے ہیں۔ان کے ظاہر سے ان کی قابلیت اور صلاحیت گویا چھلکتی ہے، ہاں میں یہ کرسکتا ہوں، میں یہ ضرور کروں گا، میں جیت سکتا ہوں، میں ضرور فتح پائوں گا،میں قابل ہوں، مزید قابل بن سکتا ہوں___ اللہ بھی ایسے ہی بندوں کی مدد کرتا ہے۔
تقدیر پر ایمان کا مطلب یہ نہیں کہ آپ ہاتھ پائوں نہ ہلائیں اور تقدیر پر تکیہ کیے رہیں، بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ آپ اپنی پوری توانائی اور قابلیت لگادیں اور نتیجہ اللہ پر چھوڑ دیں۔ ہتھیلی کی لکیریں آپ کے مستقبل کا تعیّن نہیں کریں گی، بلکہ آپ کی منزل کا تعیّن آپ کے مضبوط بازوئوں سے ہوگا۔تقدیر کو اپنی کم عملی یا بے عملی کے لیے جواز مت بنائیے۔ اللہ بھی ان کی حالت بدلتا ہے جو خود اپنی حالت بدلنا چاہتے ہیں۔
گرتے ہیں شہسوار ہی میدانِ جنگ میں
وہ طفل کیا گرے جو گھٹنوں کے بل چلے
جو شخص چیلنج کا سامنا کرتا ہے، حالات و واقعات سے دو ، دو ہاتھ کرتا ہے اور تجربات سے گزرتا ہے وہی کامیاب ہوتا ہے۔میدان کار زار میں اترنے سے گریز ہی سب سے بڑی کمزوری اور ناکامی ہے۔ فاتح یا کامیاب شخص کسی بھی حالت میں میدان سے بھاگتا نہیں۔ حالات کتنے ہی کٹھن ہوں، کتنی ہی مصیبتیں آئیں وہ میدان عمل میں ڈٹا رہتا ہے۔یہ تاریخ کی بہت بڑی سچائی ہے۔ ایک وقت آتا ہے جب آزمایشیں، حالات اور مشکلات اس مرد آہن سے ٹکراکر پاش پاش ہوجاتی ہیں۔
آئیے مقابلہ کیجیے! کامیابی نظرنہ بھی آئے تب بھی میدان سے پیٹھ پھیر کر مت بھاگیے۔ ہوسکتا ہے کہ مقابلے میں آپ تھک کر چور ہوجائیں، لہولہان ہوجائیںمگر اسی جدوجہد میں آپ کی کامیابی پوشیدہ ہے۔ کامیابی ضرور آپ کے قدم چومے گی۔ عزم راسخ ہو ، ارادہ مضبوط ہو اور ساتھ میں عملی کوششیں ہوں تو اللہ کی رحمت بھی دست گیری کرتی ہے اور بالآخر منزلِ مراد ہاتھ آتی ہے۔
(ڈاکٹر بدر الاسلام، اقرا اُردو بوائز ہائی اسکول، اورنگ آباد، بھارت میں صدر مدرس اور کئی کتب کے مصنف ہیں)
ماحولیات سے متعلق مسائل گو کہ جدید دور کی پیداوار ہے(بالخصوص ۲۰ویں صدی) ۔اس وقت انسان کے اپنے ہاتھوں کی کمائی کے نتیجے میں ماحول کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا ہے، لہٰذا اب ماحولی مسائل اور ان کاحل عالم انسانی کا سب سے اہم مسئلہ بن چکا ہے۔ فطری ماحول کی خرابی نے اب انسانی وجود کی بقا پر ہی سوالیہ نشان لگادیا ہے۔
خالق کائنات جو کہ عالم الغیب بھی ہے، بھلا اس سے کیسے بے خبر رہتا؟ اسی لیے اس نے اپنے دین ’اسلام‘ کی تکمیل کے ساتھ نبی آخر الزماں کے توسط سے انسانوں کو ’ماحولیات‘ سے متعلق جامع رہنمائی دی۔ اگر ان ہدایات پر عمل ہوتا تو ہم ماحولیاتی مسائل سے ناآشنا رہتے۔ بعد از خرابیِ بسیار، اب بھی وقت ہے کہ ہم اس دینِ فطرت کی رہنمائی سے فائدہ اٹھائیں اور عالم انسانی کو اس خدائی ہدایت سے روشناس کرائیں۔ ذیل کے مقالے میں ماحولیات سے متعلق اسلامی تعلیمات کا جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے۔
اسلام ماحول اور اس سے متعلق مسائل پر ایک ہمہ جہتی نقطۂ نظر رکھتا ہے۔ اسلام انسان کے دیگر جان داروں (نباتات و حیوانات) ، طبعی ماحول اور سماجی ماحول سے متعلق واضح ہدایات رکھتا ہے۔ انسان اور ماحول کے درمیان تعاملات کے سلسلے میں اسلامی تعلیمات جامع اور کافی ہیں۔
فطری ماحول کی اہمیت و افادیت قرآن اور احادیث میں جابجا آئی ہے۔ قرآن میں احکامات والی آیات کی نسبت ان آیات کی تعداد زیادہ ہے جن میں فطرت اور فطری مظاہر کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ اس لیے فطرت کا مطالعہ اہلِ ایمان پر ضروری قرار پاتا ہے(محمد کلیم الرحمن، اسلام اینڈ انوائرونمنٹ، دہلی ۱۹۹۷ئ، ص ۱۴۶)۔ اس طرح کی کچھ آیات اپنے مقام پر زیر بحث آئیں گی۔ اسی طرح اسلام کا دوسرا ماخذ سیرتِ رسولؐ سے بھی ہمیں ماحولیات کے گوناگوں پہلوئوں پر رہنمائی ملتی ہے۔ بالخصوص قدرتی وسائل کا استعمال اور ان کا تحفظ، وسائل کا مناسب استعمال، ان میں اسراف سے پرہیز وغیرہ۔ انھی تعلیمات کے بدولت اسلامی تمدّن میں آلودگی سے پاک ماحول کو پروان چڑھایا گیا ہے۔
ایک حدیث میں آپؐ سے روایت کیا گیا کہ کوئی مومن ایسا نہیں ہے جو کوئی درخت لگائے یا کھیتی کرے، اور اس سے انسان اور پرندے فائدہ اٹھائیں اور اس کا اسے ثواب نہ ملے۔ جو کوئی مردہ زمین کو پیداوار کے قابل بنائے، اس کے لیے اس میں ثواب ہے۔(عبداللہ المامون، Saying of Muhammad، لاہور، ۱۹۰۵ئ، ص ۷۴-۷۶)
اللہ کے رسول حضرت محمدؐ کی تعلیمات میں درختوں کو کاٹنے کی واضح ممانعت آئی ہے۔ حتیٰ کہ حالت جنگ میں بھی درخت کاٹنے سے منع کیا گیا ہے تاآنکہ وہ دشمن کے لیے فائدہ مند نہ ہو جائیں۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمان فوجوں کو اس بات کی ہدایت تھی کہ وہ شہروں اور فصلوں کو برباد نہ کریں۔(سید ابوالاعلیٰ مودودی ، الجہاد فی الاسلام، دہلی ۱۹۷۴ئ، ص ۲۲۷- ۲۳۱)
’زندگی‘ قدرتی ماحول کا ایک اہم ترین جز ہے۔ اللہ کی نظر میں زندگی خواہ انسانی ہو یا حیوانی دونوں کی قدرو منزلت ہے۔ایک اور حدیث کے ذریعے یہ بات ہمارے سامنے آتی ہے کہ ہمیں چوپایوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا ، ثواب کا مستحق بناتا ہے۔ اسی کے ساتھ ہر تر جگر، رکھنے والے جان دار کی فلاح پر ثواب کی بشارت دی گئی ہے(حوالہ سابق عبداللہ المامون، ص ۷۵)۔ حیوانی زندگی کی بقا کا اندازہ اسلام کی اس تعلیم سے لگایا جاسکتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’’شکاری صرف کھیل کے لیے کسی جانور کا شکار نہ کرے‘‘۔ امام ابویوسف کے نزدیک: ’’وہ شخص جو قدرتی ماحول کو ٹھیک طرح سے نہیں سمجھتا، اسلامی شریعت کے نفاذ کے مناسب طریقۂ کار کو بھی نہیں سمجھ سکتا۔ (احسان اللہ خان ،سائنس، اسلام اینڈ ماڈرن ایج، دہلی ۱۹۸۰ئ،ص ۵۴)
اسلام اپنے ماننے والوں سے صرف فطرت کی تعریف کے گن گانے کی توقع نہیں رکھتا، بلکہ اس کا مطالبہ تو یہ ہے کہ وہ خدا کی دیگر مخلوقات کے ساتھ اللہ واحد کی تسبیح بجا لائے۔ اسلام کے نزدیک ہر نوع کے جان دار ایک طرح کا گروہ ہیں، اور وہ سب آپس میں خیر خواہانہ تعلقات کے مستحق ہیں۔مسلمانوں کو اس بات کی تاکید کی گئی کہ وہ درختوں کے پھل ضرور کھائیں مگر اس کی شاخوں کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچائیں۔ انھیں جمے ہوئے پانی میں گندگی کے ذریعے کسی بھی قسم کی آلودگی پیدا کرنے سے منع کیا گیا۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو تعلیم دیتا ہے کہ اگر وہ قیامت کو واقع ہوتا دیکھیں اور ان کے ہاتھ میں پودا ہو تو وہ اسے ضرور زمین میں لگادیں۔ قرآن آبی چکّر، فضا، نباتات، سمندر، پہاڑ وغیرہ کو انسان کے خدمت گار کی حیثیت سے پیش کرتا ہے۔ اس طرح اہلِ ایمان کے دل میں فطرت سے یک گونہ محبت پیدا ہوتی ہے، اور وہ فطرت کے ساتھ اچھا برتائو اختیار کرتے ہیں۔ (اے-آر-اگوان، اسلام اینڈ انوائرون منٹ، دہلی، ۱۹۹۷ئ، ص ۹-۱۰)
ماحول اور فطری قوانین سے متعلق نقطۂ نظر اپنی جڑیں قرآن میں رکھتے ہیں۔ قرآن صرف انسانوں ہی کو مخاطب نہیں کرتا بلکہ پوری کائنات اس کے خطاب میں سموئی ہوئی ہے۔ وحی الٰہی فطرت کے مظاہر کو جا بجا پیش کرتی نظر آتی ہے۔ قرآنی آیات جہاں نفس انسانی کی پُرپیچ تہوں کو آشکارا کرتی ہیں، وہیں وہ فطرت کے رازوں پر سے بھی پردہ ہٹاتی ہیں۔ بعض اوقات قرآن غیرانسانی تخلیقات، مثلاً سورج، تارے، چاند، جانور اور نباتات وغیرہ کو بطور دلیل پیش کرتا ہے۔ قرآن نے کبھی بھی انسان اور اس کے ماحول کے درمیان کوئی جدائی نہیں ڈالی۔ قرآن ہمیں یہ تصور دیتا ہے کہ قدرتی ماحول (کائنات) انسان کا دشمن نہیں ہے کہ جس پر اسے بزور فتح پانا ہے، بلکہ یہ کائنات اس کی خدمت کے لیے بنائی گئی ہے ۔ یہ نباتات و جمادات نہ صرف انسان کے اس دنیا کے ساتھی ہیں بلکہ وہ آخرت میں بھی انعام کی حیثیت میں ان کا ذکر کرتاہے۔(سید حسین نصر، اسلام اینڈ انوائرونمنٹ، دہلی، ۱۹۹۷ئ،ص۱۷)
اہلِ ایمان اس بات سے بھی اچھی طرح آگاہ ہوتے ہیں کہ قرآن مظاہر فطرت کو اللہ کی نشانی قرار دیتا ہے، جس طرح اس کا اپنا نفس بھی اللہ کی نشانی ہے۔ وہ کتابِ کائنات کا قاری بن جاتا ہے، اور اس کے اسباق (مظاہر فطرت) میں اللہ کی نشانیوں(آیات) کا مشاہدہ کرتا ہے۔ اس طرح وہ اس کتابِ کائنات کے مصنف (خالق کائنات) کا عرفان حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ قرآن اس کائنات کو خالق کی پہچان کا ذریعہ بناتا ہے۔جس کے ذریعے ہمیں اس کی بے شمار صفات کا علم حاصل ہوتا ہے۔ اس کی حکمت اور اس کائنات کی مقصدیت کے ساتھ ساتھ انسان اپنی زندگی اور مقصد وجود کو پاسکتاہے۔ سید حسین نصر نے بجا طور پر کہا ہے کہ ’’یہ فطرت کے مظاہر، لاتعداد مساجد ہیں، جن میں اللہ تعالی کی بے شمار صفات پنہاں ہیں۔ یہ صفات ان لوگوں پر ظاہر ہوتی ہیں جن کی باطن کی آنکھ خود غرضانہ نفسیاتی خواہشات سے اندھی نہ ہوگئی ہوں‘‘(ایضاً، ص۱۷)۔ قرآن و سنّت کی اس طرح کی ان گنت تعلیمات کا نتیجہ ہے کہ اہلِ ایمان فطرت کے تئیں اپنے دل میں محبت و الفت کے جذبات موج زن پاتے ہیں۔
اسلام کے مطابق ہر انسان فطرت کا امین ہے۔ اس لیے اسے دیگر مخلوقات کے ساتھ ہم آہنگی بنائے رکھنی چاہیے۔ انسان زمین پر اللہ کا خلیفہ (نائب) ہے، لہٰذا اسے خدائی احکامات کی پابندی کرنی چاہیے۔ اللہ اس کائنات کا رب ہے، بطور نائب انسان کی یہ ذمّہ داری ہے کہ وہ حتی المقدور قدرتی ماحول کی بقا اور نمو کے لیے کوشاں رہے۔اگر انسان فطری ماحول کے تحفظ و بقا کی جانب سے بے پروا ہوجاتا ہے تو وہ، اپنی اس امانت میں خیانت کا مرتکب ہوگا، جو اسے اللہ کی جانب سے حاصل ہوتی ہے(ایضاً، ص ۲۱-۲۲)۔ قرآن کہتا ہے :’’کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اس نے وہ سب کچھ، تمھارے لیے مسخّر کر رکھا ہے جو زمین میں ہے، اور اسی نے کشتی کو قاعدے کا پابند بنایا ہے کہ وہ اسی کے حکم سے سمندر میں چلتی ہے‘‘ (الطلاق ۶۵:۲۲)۔ یہاں لفظ ’مسخّر‘ سے مراد صرف فطرت پر فتح پانا نہیں ہے، جیسا کہ کچھ مسلم افراد نے دعویٰ کیا ہے، بلکہ اس کے معانی فطرت پر تسلّط کے ہیں، اور تسلّط بھی بے قید نہیں بلکہ خدائی ہدایات کے تابع ہونا چاہیے۔ کیونکہ انسان اس زمین پر خدا کا خلیفہ ہے اور اسے حاصل اختیار، دراصل خدائی عطیہ ہے۔
ماحول کی تباہی اور بربادی کے لیے اس سے زیادہ اور کوئی بات خطرناک نہیں ہوسکتی کہ انسان ، فطرت پر اپنے تصرّف کو خدائی ہدایات سے بے نیاز ہوکر استعمال کرے۔ انسان کو بذات خود کوئی اختیار حاصل نہیں ہے۔ اسے جو کچھ اختیارات ملے ہیں، وہ سب اللہ کے عطا کردہ ہیں۔ خواہ یہ اختیار اسے اپنے نفس پر ہو یا اس کائنات پر ، کیونکہ وہ ان میں سے کسی کا خالق نہیں ہے۔ اس لیے اس کو خلیفۃ اللہ کی حیثیت سے ہی ان اختیارات کاذمّہ دارانہ استعمال کرنا چاہیے۔ (حوالۂ سابق سید حسین نصر، اسلام اینڈ انوائرونمنٹ، ص۲۲-۲۳)
سید حسین نصر نے بجا طور پر کہا ہے کہ اسلامی تمدّن نے آج تک علم کو فطرت سے محبت ، اور ماحول کی حقیقت ، کو اللہ کی نشانیوں کے ساتھ مربوط کیا ہے۔ اسلام اپنے اخلاقی نظام میں ( جس کی جڑیں وحیِ الٰہی میں پیوست ہیں اور جو خدائی احکامات کے تحت ہے) انسان کے غیرانسانی مخلوقات کے ساتھ رویّے کو طے کرتا ہے، اور ان کے تئیں انسان کو اس کے فرائض اور ذمّہ داریاں یاد دلاتا ہے (ایضاً، ص ۳۴)۔ماحول سے متعلق انسانی رویّے کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اسلام کے چند بنیادی تصورات کا فہم حاصل کریں۔
قرآن کا تصورِ امانت ماحول کے متعلق انسانی رویّوں کو طے کرنے میں بہت مدد گار ہوتا ہے۔قرآن کہتا ہے: ’’ہم نے اس امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو وہ اسے اٹھانے کے لیے تیار نہ ہوئے، اور اس سے ڈر گئے مگر انسان نے اسے اٹھا لیا، بے شک وہ بڑا ظالم اور جاہل ہے‘‘ (الجن ۷۲:۳۳)۔ یہاں امانت سے مراد وہ اختیار ہے جو کسی شے پر کسی شخص کو دیا جائے۔ یہاں پر اس شخص سے اس بات کی توقع ہوتی ہے کہ وہ اسے اختیار دینے والے کی مرضی کے مطابق استعمال کرے، حالانکہ اسے اس کے خلاف بھی عمل کرنے کی آزادی حاصل رہتی ہے۔
انسان اس زمین پر خدا کا نائب ہے، اور اس نے اپنی آزاد مرضی سے اللہ کی امانت کو قبول کیا ہے، ساتھ ہی اس نے ارادہ و عمل کی آزادی کو بھی خالق کائنات سے اپنے حق میں منظور کیا ہے۔ اس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنے ہر عمل کے لیے خالق کے سامنے جواب دہ قرار پائے اور خالق کائنات اس سے اپنی عطا کردہ آزادی و اختیار اور عمل کے بارے میں باز پُرس کرے۔ قرآن اس بات پر گواہ ہے کہ وہ قومیں جو امانت میں خیانت کی مرتکب ہوئیں اور اپنی آزادی کا بے قید استعمال کیا، آخر کار وہ تباہ و برباد ہوگئیں۔ (ھود ۱۱: ۸۴-۸۵)
انسان اس دنیا کا مالک نہیں ہے۔ زمین اور آسمان اور ان کے درمیان تمام چیزوں کا مالک حقیقی اللہ رب العالمین ہے (الانعام ۶:۲۰)۔ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات ،بشمول انسان کو اپنی بندگی اور تسبیح کے لیے پیدا کیا ہے (بنی اسرائیل ۱۷:۴۴، الحج ۲۲:۱۸، النحل ۱۶: ۴۹-۵۰)۔ اس طرح کی آیات انسان سے مطالبہ کرتی ہیں کہ اسے قوانین فطرت کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنا چاہیے جیسا کہ خالقِ کائنات کی مرضی ہے۔ مزید برآں ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ خدا نے ہر شے ایک مقصد کے تحت پیدا کی، اور وہ اشیا اپنی مقصد براری میں لگی ہوئی ہیں۔ اس لیے انسان کے لیے لازم ہوجاتا ہے کہ وہ ان کی دیکھ بھال اور ان کا تحفظ کرے، تاکہ فطرت میں کوئی خلل واقع نہ ہو۔ اللہ نے کائنات اور اس دنیا کی بہترین انداز پر تخلیق کی، زندگی کی بقا کے لیے متوازن نظام بنائے، اور ہر شے کو توازن و اعتدال کے ساتھ پیدا کیا اور ان کے درمیان میزان قائم کیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ہم نے ہرچیز ایک تقدیر کے ساتھ پیدا کی‘‘ (الدخان ۴۴: ۵۴)، یعنی دنیا کی کوئی شے مستقل نہیں ہے۔ ایک منصوبہ بند طریقے پر اس کی پیدایش ، نشوونما اور خاتمہ ہوتا ہے۔
قرآن نے جس توازن اور میزان کا ذکر اپنی آیات میں کیا، اس سے تمام اشیا کے درمیان ایک دوسرے پر انحصار اور تعلق پر روشنی پڑتی ہے۔ اس کی ساتھ ہی ہمیں کل کے ساتھ جز کے تعلق کا عرفان حاصل ہوتا ہے۔ اس طرح گویا تمام مخلوقات آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ مضبوط بندھنوں میں وابستہ ہونے کے ساتھ ایک عالمی نظام سے جڑے ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے اس میں انسان بھی شامل ہے۔ اسی لیے انسان سے اس بات کا مطالبہ کیا گیا کہ وہ کائنات کے اس توازن و میزان کو برقرار رکھے کیونکہ یہ اسی کے حق میں ہے۔ عزالدین عبدالسلام نے صحیح ترجمانی کی کہ جب انھوں نے کہا کہ: معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ نے اپنی مخلوقات کو ایک دوسرے پر انحصار کرنے والا بنا دیا، تاکہ ہر گروہ دوسرے گروہ کی فلاح و بہبود میں تعاون کرے۔ (عبدالحمید، اسلام اینڈ انوائرونمنٹ، دہلی، ص۴۶)
اشیا کی تخلیق کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ انھیں انسان کی خدمت کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’کیا تم لوگ نہیں دیکھتے کہ اللہ نے زمین اور آسمان کی ساری چیزیں تمھارے لیے مسخرکر رکھی ہیں‘‘۔ (طٰہٰ ۲۰:۳۱)
یہ اللہ کی انسان کے حق میں ایک بہت بڑی نعمت ہے کہ کائنات کی اشیا اس کے لیے مسخر کردی گئی ہیں، جنھیں وہ اپنے تصرّف میں لاسکتا ہے۔اسی لیے اسے خالق کائنات کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ اپنی دیگر آیات میں خدا نباتات اور حیوانات کا ذکر کرتا ہے جو انسان کے لیے فائدہ مند ہیں۔ انسان کو اس بات پر قدرت حاصل ہے کہ وہ ان اشیا سے اپنی فوری ضروریات کے علی الرغم ان سے سماجی اور اجتماعی فوائد حاصل کرے(عبدالحمید، اسلام اینڈ انوائرونمنٹ، دہلی، ص۴۶)۔ قرآن انسان کو مختلف جانوروں سے حاصل ہونے والے فائدے گنواتا ہے (یٰسٓ ۳۶:۷۱، المومن ۴۰:۷۹)۔ ساتھ ہی ان جانوروں کے کچھ حقوق عائد کرتا ہے۔ واضح رہے کہ اسلامی تعلیمات جانوروں سے متعلق قوانین میں اپنی مثال آپ ہے۔(عبدالحمید، اسلام اینڈ انوائرونمنٹ، دہلی ص۶۵)
اس کائنات کے تمام اجزا، روشنی، ہوا، پانی، مٹی، چٹانیں، عناصر، نباتات و حیوانات وغیرہ بحیثیت مجموعی تمام مخلوقات اپنے اندر کچھ مقصد اور اقدار رکھتی ہیں جو ذیل میں دی جا رہی ہیں: اشیا کی اپنی ذاتی قدر، چونکہ وہ خالق کی تخلیق ہیں، اور اس کی اطاعت و فرماںبرداری اور تسبیح و تحمید کرتی ہیں، اور بحیثیت مجموعی ماحولی نظام میں ان کی قدروقیمت، نیز انسان کے لیے روحانی بقا اور مادی وسائل کے لحاظ سے ان کی افادی حیثیت۔(ایضاً ، ص ۴۹)
دراصل ماحولیاتی مسائل کی جڑ، ماحولی تباہی اور روحانی قدروں کی پامالی کی قیمت پر قدرتی وسائل کا استعمال ہے۔ کسی ملک یا قوم کے ذریعے قدرتی وسائل کے مصرفانہ استعمال کی کوئی گنجایش اسلام میں نہیں ہے، جیسا کہ آج کل ہورہا ہے۔ چند ممالک یا اقوام قدرتی وسائل کا تنہا مسرفانہ استعمال کرکے دیگر اقوام کو ان سے استفادے سے محروم کررہی ہیں۔ اسلام قدرتی وسائل پر نہ صرف انسانوں کا بلکہ دنیا کی تمام مخلوقات کا مساوی حق تسلیم کرتا ہے۔ اسی طرح مستقبل کی نسلوں کا بھی ان خدائی نعمتوں میں حق محفوظ رہنا چاہیے۔(ایضاً ، ص ۴۹)
ان تعلیمات کی روشنی میں ہم قدرتی وسائل کے استعمال کے سلسلے میں مبنی بر حق نقطۂ نظر اپنا سکتے ہیں lقدرتی وسائل کا استعمال انسان کی مادّی اور روحانی ضرورتوں کے تحت ہو lقدرتی وسائل کے استعمال کے سلسلے میں دیگر انسانوں (موجود) اور آنے والی نسلوں کے حق میں دست درازی نہ ہونے پائے lقدرتی وسائل کا استعمال کسی بھی طرح سے (مثبت یا منفی) دیگر مخلوقات کے لیے نقصان دہ نہ ہو lانسان چونکہ خلیفۃ اللّٰہ فی الارض ہے اس لیے یہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اِس مسئلے کا مبنی بر عدل، حل تلاش کرے، تاکہ دنیا کی مجموعی ضروریات اور موجود قدرتی وسائل کے استعمال کے درمیان توازن و اعتدال باقی رہ سکے l قدرتی وسائل کا کسی ملک قوم کے ذریعے مصرفانہ استعمال یا ایسا استعمال جو دیگر انسانوں اور مخلوقات کے حق کے لیے نقصان دہ ہو، برداشت نہ کیا جائے l قدرتی ماحول کے تحفظ اور بقا کے لیے اسلامی اصولوں پر عمل کیا جائے۔ (ایضاً ، ص ۶۶)
قرآن، فساد فی الارض کی مرتکب دنیا کی قوموں کے انجام بد سے آگاہی دیتا ہے۔ یہ اپنے وقت کی متمدن، دولت مند اور طاقت وراقوام تھیں، لیکن ان کے اپنے بگاڑ کے نتیجے میں تباہ و برباد ہوگئیں۔ قوم عاد، قومِ ثمود،آلِ فرعون وغیرہ ان قوموں کی تباہی کی وجہ ان کا ’مفسدین فی الارض‘ بتایا گیا۔ یہاں لفظ ’فساد‘ سے برائی، رشوت خوری، بے ایمانی، نیکیوں سے عاری حالت، سماجی عدم اطمینان اور معاشرتی بگاڑ ، ظلم وجور ، تباہی و بربادی مراد ہے۔ اس لفظ کی مزید وضاحت وقار احمد حسینی اس طرح کرتے ہیں: ’’یہ قرآن کی ایک جامع اصطلاح ہے، جو ہر غیر اسلامی کام سے روکتی ہے۔ قرآن میں تقریباً ۵۰ مقامات پر اس کا استعمال کیا گیا ہے۔ اسے ہم تمام بڑی اخلاقی برائیوں و جرائم کے ساتھ بُرے اور نقصان دہ خیالات، سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں۔ اس میں انسانوں کے لیے نقصان دہ سائنسی، تکنیکی، سماجی، معاشی اور سیاسی پالیسیاں بھی شامل ہیں۔ اس لفظ کے ذریعے قرآن انسان کو اس کے برے اعمال کے بھیانک انجام سے آگاہ کرتا ہے‘‘۔ اس طرح مسلمانوں میں سائنس اور ٹکنالوجی کے غلط اور بے قید منصوبوں کے خلاف ایک مضبوط بیداری پیدا ہوتی ہے۔(ایس، وقار احمد حسینی، اسلامک تھاٹ، گڈورڈ بکس، نئی دہلی، ۲۰۰۲ئ، ص ۲۰۵)
اس ضمن میں ذیل کی آیت ملاحظہ ہو: خشکی اور تری میں فساد برپا ہوگیا ہے لوگوں کو اپنے ہاتھوں کی کمائی سے، تاکہ مزا چکھائے ان کو ان کے بعض اعمال کا شاید کہ وہ باز آئیں۔ (حم السجدہ ۴۱:۳۰)
خدا کی تخلیق، خالص اور بہترین ساخت پر ہے۔ جہالت اور خود غرضی کی وجہ سے اس میں بگاڑ کو راہ ملتی ہے۔ ظاہر ہے برے اعمال کا انجام بھی برا ہوگا۔ یہ اس سے بھی واضح ہورہا ہے کہ خدا نے فرمایا: ’’لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے‘‘۔ اس سے ہمیں مستقبل کے لیے ایک طرح کی تنبیہہ (وارننگ) حاصل ہوتی ہے۔ اور ساتھ ہی یہ توبہ اور انابت کی دعوت بھی ہے(عبداللہ یوسف علی، انگریزی ترجمہ و مختصرتفسیر قرآن، مدینہ ۱۴۱۰ھ، ص ۱۱۹۰)۔ اس سے متصل آیت میں قرآن کا کہنا ہے: ان سے کہو کہ زمین میں چل پھر کر دیکھو پہلے گزرے ہوئے لوگوں کا کیا انجام ہوچکا ہے، ان میں اکثر مشرک ہی تھے۔(الشورٰی ۴۲:۳۰)
تاریخ کا گہرائی سے مطالعہ اس حقیقت کو واشگاف کرتا ہے کہ سابقہ قومیں اپنی برائی اور بددیانتی کے علاوہ ان کے مشرکانہ عقائد، زندگی کے غلط معیارات، اور نفسانی خواہشات نے انھیں تباہی اور بربادی سے دوچار کیا(حوالہ بالا، عبداللہ یوسف علی،ترجمہ مختصر تفسیر قرآن،ص ۱۱۰۱)۔ لفظ ’فساد‘ کی تشریح خود قرآن اس طرح کرتا ہے: ’’جب اسے اقتدار حاصل ہوجاتا ہے تو زمین میں اس کی ساری دوڑ دھوپ اس لیے ہوتی ہے کہ فساد پھیلائے، کھیتو ں کو غارت کرے، اور نسل انسانی کو تباہ کرے۔ حالانکہ اللہ فساد کو ہرگز پسند نہیں کرتا‘‘(البقرہ ۲:۲۰۵)۔ یہاں یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ فساد کامطلب حرث و نسل کی تباہی ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ انسان خود ہی قدرتی وسائل کی تباہی اور بربادی کا ذمّہ دار ہے اور فطری ماحول کا یہ نقصان انسان سے اپنا خراج وصول کرتا ہے۔
قدرتی ماحول میں بگاڑ کی اہم وجہ انسان کی حریص طبیعت اور ضائع کرنے والی فطرت ہے۔ قرآن اسے ’اسراف‘ سے تعبیر کرتا ہے۔ اس کے بالمقابل قرآن انسان کو اعتدال، توازن اور تحفظ کی تعلیم دیتا ہے۔ نبی آخر الزماںؐ کی تعلیمات بھی ہمیں اعتدال پسندی کی تلقین کرتی ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ اعتدال اختیار کرو، اگر تم مکمل طور پر اسے اختیار نہ کرسکو، تو جہاں تک ممکن ہو اعتدال پر قائم رہو۔ گویا انسانوں سے مطالبہ ہے کہ وہ اپنے تمام اعمال مثلاً کھانے، پینے ، کمانے ، خرچ کرنے، صنعتی پیداوار اور اس کے استعمال، وغیرہ سب میں جس کا تعلق قدرتی وسائل سے آتا ہو اور آخر کار جو ماحول پر اثر انداز ہوتے ہوں، ان سب میں حد درجہ اعتدال سے کام لیں، کسی قسم کے اسراف کو راہ نہ دیں۔(عبدالحمید، اسلام اینڈ انوائرونمنٹ، دہلی ص۵۷-۵۸)
اسلامی تعلیمات انسان کو آسانی سے حاصل ہونے والے بیشتر قدرتی وسائل مثلاً ہوا، پانی، زمین اور جنگلات وغیرہ میں بھی مسرفانہ خرچ کو پسند نہیں کرتی ہیں۔ اس لیے آپ اندازہ لگاسکتے کہ اسلام کا مزاج نایاب اور کم یاب قدرتی وسائل (دھاتیںاور جان دار وغیرہ) کے استعمال کے بارے میں کیا ہوگا۔ ان کمیاب قدرتی وسائل کے استحصال کی کسی بھی قیمت پر اجازت نہیں ہوگی (ایضاً، ۵۸)۔ انسان کو قدرتی وسائل کے استعمال کی مشروط اجازت ہے۔ شرائط یہ ہیں: معتدل استعمال، توازن قائم رکھنا اور ان قدرتی وسائل کے تحفظ اور بقا کا سامان کرنا۔ موجودہ نسلوں کے علاوہ، قدرتی وسائل میں آنے والی نسلوں کا بھی ’حق‘ ہے۔ اسے کسی طرح سے متاثر نہ کیا جائے۔ قدرتی وسائل کا بھی یہ حق ہے کہ انسان ان کے بے جا استعمال کے خلاف حفاظت کرے ، انھیں برباد ہونے سے بچائے اور ان کے ساتھ کسی قسم کا مسرفانہ رویہ اختیار نہ کرے۔(بدر الاسلام، ایجوکیشنل فاؤنڈیشن آف اسلام، آدم پبلشرز، دہلی ۲۰۰۷ئ، ص۲۱۳)
اللہ نے اپنی اسکیم کے تحت تمام مخلوقات کو پیدا کیا اور انھیں ایک دوسرے کے تعاون پر منحصر رکھا۔ ا س طرح اس دنیا میں ایک توازن قائم کیا۔ اس کائنات کی ہر شے اپنے مقصدوجود کو پورا کرنے میں مصروف ہے۔ اس طرح یہ تمام مخلوقات (جان دار اور بے جان) ایک قیمتی اثاثہ قرار پاتی ہیں۔ ان کے وجود سے اس دنیا میں ایک حرکی اعتدال و توازن پیدا ہوتا ہے جو تمام مخلوقات کے لیے مفید اور ضروری ہوتاہے۔ اگر انسان اس میزان اور توازن میں خلل ڈالے، ان قدرتی وسائل کا استحصال کرے، غلط استعمال کرے، یا انھیں برباد کرے، انھیں آلودہ کرے ، تو وہ خدائی ارادے کے خلاف کام کرے گا۔ انسان کی سطحی نظر ، لالچی فطرت اور خود غرضانہ مفادات نے ہمیشہ اس کائناتی توازن و عدل کو بار بار متاثر کیا ہے۔ اس کے بدلے میں فطرت نے انسانوں سے مختلف طریقوں سے انتقام لیا۔ اس لیے انسان پر فرض ہوجاتا ہے کہ وہ ان قدرتی وسائل کے تحفظ و بقا کے لیے کوشش کرے(ابوبکر احمد،ص ۷۵)، ورنہ انتہائی بھیانک حالات اس کا انتظار کر رہے ہیں۔ فطرت سے جنگ میں شکست لازماً انسان ہی کی ہوگی۔
ابوبکر احمد نے اس سلسلے میں بڑے پتے کی بات کہی ہے کہ’ ’زندگی کے وظائف کی ادایگی میں جو شے ناگزیر ہوگی، وہ مطلوب ہوگی۔ ہر وہ عمل جو اس شے کے حیاتی اور سماجی کاموں میں رکاوٹ ڈالے، یا اسے ناقابلِ استعمال بنائے، مثلاً اس کو برباد کرے یا آلودہ کرے، اس طرح اس شے کو اپنے فرائض ادا کرنے میں مزاحم ہو، ایسے تمام اعمال حیات (زندگی) کو تباہ کرنے والے تصور کیے جائیں گے۔ فقہ کا یہ مشہور قاعدہ ہے کہ ’حرام کی طرف لے جانے والے ذرائع بھی حرام ہوتے ہیں‘‘۔(ابوبکر احمد ،ص ۷۸)
مسلمان فقہا نے قرآن اور سنّت رسولؐ سے استدلال کرتے ہوئے مختلف حالات میں پانی کے استعمال کے تفصیلی قواعد وضوابط ترتیب دیے ہیں۔ ان کا مطالعہ یہ واضح کرتا ہے کہ کس طرح سے ایک قیمتی قدرتی وسیلے کا دیرپا استعمال کیا جاسکتاہے۔
ہوا چونکہ حیات کی بقا کا انتہائی اہم فریضہ انجام دیتی ہے، لہٰذا اس کی حفاظت آپ سے آپ لازم ہوجاتی ہے۔ یہ اسلامی قوانین کی اہم غرض ہے۔ اس طرح سے وہ تمام افعال جو ہوا کو آلودہ کریں اور آخر کار جان داروں پر اثر انداز ہوں، ممنوع قرار پاتے ہیں۔
ابوبکر احمد کے مطابق اگر ہم واقعتا اللہ کے شکر گزار بننا چاہتے ہیں تو ہم پر لازم ہوگا کہ ہم زمین کی زرخیزی کو برقرار رکھیں اور اس کو ہر طرح کے نقصان سے بچائیں۔ ہمیں اپنی ضروریات، مثلاً مکان، زراعت، جنگلات اور کان کنی کے ایسے طریقے اپنانے چاہییں جونہ صرف حال بلکہ مستقبل میں بھی کسی نقصان کا باعث نہ بنیں۔ اس طرح کے مفید ترین وسیلے کو تباہ کرنا یا اسے خراب کرنا یقینا حرام ہوگا۔(ابوبکر احمد، ص۸۰)
حیوانات نہ صرف انسانوں بلکہ نباتات کے لیے بھی کئی طریقوں سے کار آمد ثابت ہوتے ہیں۔ ان سے زمین کی زرخیزی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ انسان حیوانات سے غذا، اون، چمڑا اور دودھ حاصل کرتا ہے۔ یہ دوائوں کے کام بھی آتے ہیں۔ علاوہ ازیں جان داروں سے انسان باربرداری کا کام بھی لیتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی فوائد کی طرف قرآن اشارہ کرتا ہے (الحج ۲۲:۱۸، بنی اسرائیل ۱۷:۴۴)۔اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ جانوروں کی فلاح و بہبود کے لیے اسلام قانون سازی کرتا ہے۔ ہر دور کے بارے میں عمومی اصول یہ ہے کہ ’’تم اہل زمین پر رحم کرو تم پر رحم کیا جائے گا‘‘۔ (ابوبکر احمد ص ۱۰۶)
تعلیمات نبوی ؐ میں بھی ہمیں اپنے زیر استعمال جانوروں کی خوراک، آرام اور تحفّظ کے بارے میں واضح ہدایات ملتی ہیں، بلکہ یہاں تک کہا گیا کہ اگر کوئی شخص کسی جانور کو بھوکا، پیاسا مرنے کے لیے چھوڑ دے تو اسے آخرت میں جہنم کا عذاب بھگتنا ہوگا۔ مزید فرمایا کہ ہر زندہ جان دار کی فلاح و بہبود میں اجر ہے(ایضاً)۔ اس طرح کی اَن گنت تعلیمات احادیث کی کتابوں میں محفوظ ہیں۔ اسلام کا ایک بڑا امتیاز یہ بھی ہے کہ وہ جانوروں کے حقوق کو قانونی تحفظ فراہم کرتاہے۔ اس پر باقاعدہ کتابیں موجود ہیں۔ مثلاً عزالدین عبدالسلام کی کتاب قواعد الاحکام فی مصالح الانعام۔ قدرتی وسائل کے تحفظ و بقا کے لیے اسلامی تعلیمات کا خلاصہ یوں ہوگا: اسلامی قوانین تمام مخلوقات کی فلاح و بہبود اور ان کے درمیان مشترکہ مفادات کا خیال رکھتے ہیں تاکہ خدائی منصوبے کے مطابق ان سے استفادہ کیا جاسکے۔
قدرتی وسائل کا تحفظ اخلاقی اور قانونی فریضہ ہے۔ انسان کی خلیفۃ اللّٰہ فی الارض کی حیثیت بھی قدرتی وسائل کے تحفظ کو لازمی بناتی ہے۔ اسلام کی اخلاقی تعلیمات اپنی پشت پر مضبوط قانون اور قوت نافذہ رکھتی ہیں، اس لیے ان سے صرف نظر ممکن نہیں ہے۔انسانی ترقیات کو ماحول دوست ہونا چاہیے۔
انسان کو سماج کے مشترک وسائل کے استعمال کے سلسلے میں جوابدہ بنایا جائے۔ سائنسی اور تکنیکی طریقے میں ایسے ذرائع اپنانے چاہیے جو قدرتی وسائل کے تحفظ کے ضامن ہوں۔ ہر ترقیاتی منصوبے کو روبہ عمل لانے سے پہلے اس کے ماحولی اثرات کا ہمہ جہت اور جامع جائزہ لیا جائے۔
فوجی کاروائیوں یا دشمن پر حملے کی صورت میں ہر قیمت پر قدرتی وسائل اور ماحولیاتی توازن کا تحفظ کیا جانا چاہیے۔(حوالہ بالا،ص ۱۰۲-۱۰۳)
اسلامی عبادات میں بھی اس کا خیال رکھا گیا ہے کہ آواز بہت زیادہ بلند نہ ہونے پائے، مثلاً نمازیں، دن کی نمازیں سّری ہوتی ہیں جب کہ بالعموم دیگر ذرائع سے شور پیدا ہوتا ہے۔ فجر اور عشاء جب کہ شور کم ہوتا ہے اس وقت جہری نماز ہوتی ہے۔ اس کی آواز بھی معتدل رکھی جاتی ہے۔ اسی طرح سے دعا اور ذکر کا بھی معاملہ ہے۔
ماحولیات اور اس کے تحفظ سے متعلق اسلام کی تعلیمات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسلام ایک جامع نظامِ حیات ہونے کے ناتے ماحول کے تحفظ کے لیے بھی رہنمائی دیتا ہے۔ اگر اسلام کی ان تعلیمات کو سامنے رکھا جائے تو دنیا کو ماحولیاتی مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے اور نظامِ کائنات کا توازن بگڑنے نہ پائے۔ آج جس طرح سے کائنات کا ماحولیاتی توازن بگڑ رہا ہے فضائی اور زمینی آلودگی بڑھ رہی ہے، زمین کا درجۂ حرات بڑھ رہا ہے جس سے گلیشیر پگھل رہے ہیں اور زمین کی زیرین منجمد سطح متاثر ہو رہی ہے، کیمیائی کھادوں کے مسائل روزافزوں ہیں، اس نے گلوبل وارمنگ کی تشویش ناک صورت حال پیدا کردی ہے۔ جنگلات کی کمی واقع ہونے، پٹرول، بجلی اور ایٹمی توانائی کے بے جا استعمال سے کاربن ڈائی آکسائیڈ، نائٹروجن اور آکسیجن کا توازن بگڑ کر رہ گیا ہے۔ گرین ہائوس ایفکٹ سے قطبین پر جمی برف پگھلنے لگی ہے جس سے سطح سمندر بلند ہورہی ہے۔ اس کے نتیجے میں کئی ساحلی شہر، ملک اور آبادیوں کا وجود خطرے میں پڑ گیا ہے۔ بلاشبہہ یہ انسانوں کی اپنے ہاتھوں کی کمائی اور وبال ہے جو خدا اور اس کے بندوں سے بے نیاز ہوکر محض اپنے مفادات اور خواہشات کی تسکین کا نتیجہ ہے جس سے دنیا کو فساد کا سامنا ہے۔
اس تشویش ناک صورت حال کے پیش نظر ماحولیاتی تحفظ کے لیے کئی عالمی معاہدے کیے جارہے ہیں لیکن مغربی ممالک، امریکا، آسٹریلیا وغیرہ جو کہ ۸۰ فی صد کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج اور ماحول کے بگاڑ کے بڑے ذمہ دار ہیں، ان معاہدوں پر عمل درآمد سے اجتناب کر رہے ہیں۔ ان حالات میں مسلمان جو دنیا کی آبادی کا ایک بڑا حصہ ہیں، اور اللہ تعالیٰ کے نائب ہونے کی حیثیت سے ان کا فرض ہے کہ ماحول اور قدرتی وسائل کے تحفظ کے لیے نہ صرف یہ کہ اپنا کردار ادا کریں بلکہ ماحولیات سے متعلق اسلام کی تعلیمات کو بڑے پیمانے پر عام کریں۔ اس سے ایک طرف جہاں یہ تاثر دُور ہوگا کہ اسلام جدید مسائل کے لیے رہنمائی نہیں دیتا اور پرانے وقتوں کا نظام ہے، وہاں مادیت، خودغرضی اور نیشنلزم سے بالاتر ہوکر انسانیت کی فلاح کے پیش نظر درپیش جدید مسائل کے حل کے لیے بھی اسلام کے نظامِ فطرت کی طرف ہی رجوع کرنا ہوگا جو بلاامتیاز خطہ و نسل بنی نوع انسان کی فلاح چاہتا ہے۔
(مقالہ نگار اورنگ آباد، مہاراشٹر، بھارت کے مقامی اسکول میں صدر مدرس ہیں اور تحقیق و تصنیف سے وابستہ ہیں۔ کئی کتب کے مصنف ہیں)