لورین بوتھ نے جو ایک معروف تجزیہ نگار اور سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیر کی خواہرنسبتی ہیں، حال ہی میں اسلام قبول کیا ہے۔ اس حوالے سے ان کا ایک انٹرویو قدرے اختصار سے پیش ہے جو انھوں نے پریس ٹی وی کے پروگرام ’فیس ٹو فیس‘ میں محمد سعید بھامن کو دیا۔ ترجمہ اویس احمد نے کیا۔ (ادارہ)
قبولِ اسلام کا سفر کیسا رہا۔۔۔آپ کا وہ روحانی سفر کب شروع ہوا تھا جو آج سے چھے ہفتے قبل اسلام کی قبولیت پر منتج ہوا؟
- یہ سفربہت دل چسپ رہا۔ عام طور پر جب آپ سفر پر نکلتے ہیں تو آپ کے علم میں ہوتا ہے کہ آپ سفر میں ہیں اور آپ کہاں جا رہے ہیں۔ مجھے تو یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ میں اسلام کی طرف محوِسفر ہوں، پھر اچانک چھے ہفتے قبل منزل مقصود پر پہنچ بھی گئی۔ اس لیے مجھے اندازہ لگاناہو گا کہ میرے سفر کی ابتدا کہاں سے ہوئی تھی کیوں کہ اس کے بارے میں شروع میں بالکل لا علم تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ جب میں نے پہلی بار فلسطین میں قدم رکھا تھا تو وہ علاقہ مجھے اپنا اپنا سالگاتھا، میں نے اس علاقے میں کوئی خاص بات محسوس کی تھی۔ آپ کو کسی علاقے سے انسیت محسوس ہو اور وہاں کے لوگ بھی اپنے لگیں تو یہ بلا وجہ نہیں۔۔۔اس لیے میں سمجھتی ہوں کہ وہی میرے سفر کی ابتدا تھی۔
کسی دوسرے علاقے میں رہتے ہوئے آپ کے لیے یہ محسوس کرنا بہت مشکل ہوتا ہے کہ مسلمانوں کا رہن سہن کیسا ہے، حالانکہ اس مقدس سرزمین میں عیسائی بھی رہتے ہیں اور ہمیشہ سے رہتے آئے ہیں۔ وہ بھی آپ کو اسی طرح خوش آمدید کہتے ہیں جو اپنے آپ میں ایک مضبوط تعلق ہے۔ میں نے فلسطین آنا جانا شروع کیا اور خصوصاً مسلمانوں کے گھروں میں گئی وہاںجوکچھ دیکھااسے اُس تصور سے بالکل مختلف پایا، جو مسلمانوں کے بارے میں مغربی نقطۂ نظر سے لکھا اور بیان کیا جاتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ پہلی بار جب میں فلسطین گئی تو سوچ رہی تھی کہ انگریز نسل سے تعلق کی بنا پر مجھے نفرت اور تذلیل کا سامنا کرنا پڑے گا اور مغرب سے ہونے کے باعث مجھے شک کی نگاہ سے دیکھا جائے گا، لیکن میرے شکوک یکسر غلط ثابت ہوئے بلکہ جو کچھ ہوا وہ اس کے بالکل برعکس تھا۔ میں پہلی بار فلسطین گئی تو مجھے وہاں کے بارے میں کتنا کم علم تھا اس کا اندازہ اس بات سے کریں کہ میں جنوری میں وہاں گرم موسم کے لباس میں چلی گئی۔ اس لیے کہ یہ تک نہیں جانتی تھی کہ اس موسم میں وہاںسخت سردی پڑتی ہے۔ میں وہاں پہنچی تو اسرائیلیوںنے میراسامان قبضے میںلے لیا، چوں کہ میں فلسطینی علاقے میںجا رہی تھی۔ اسرائیلوں کو اگر پتا چل جائے کہ آپ ویسٹ بینک یا غزہ جا رہے ہیںتو یہ ایک عمومی کارروائی ہوتی ہے۔ غزہ پہنچی توبارش ہو رہی تھی۔ میں ایک پینٹ شرٹ میں کھڑی کانپ رہی تھی اور ارد گرد بہت سارے عرب مسلمان آجا رہے تھے۔ ایک عرب خاتون میرے پاس آئی اور مجھے اپنے گھرجانے کی دعوت دی۔ اس نے کپڑے بدلنے کے لیے اپنی بیٹی کے کپڑوں سے بھرا ایک سوٹ کیس مجھے پیش کر دیا۔ اسے لوگ کچھ بھی سمجھیں، لیکن یہ واقعہ میرے لیے مسلمانوں کی اس سخاوت کا ایک خوب صورت تعارف تھا، جس کا اس کے بعد مجھے اکثر مسلمان علاقوں میں تجربہ ہوتا رہا۔
آپ کو مسلمانوں کے اچھے برتاؤ نے اسلام کی طرف مائل کیا یا اس کا محرک کچھ اور بھی تھا؟
- مجھے علم نہیں تھا کہ میں اسلام کی طرف کھچی چلی جا رہی ہوں۔ میں صرف یہ سوچ رہی تھی کہ فلسطینی بہت اچھے لوگ ہیں۔ ان کا دوستانہ انداز اور ان کی وسعت قلبی میرے لیے ایک نیا تجربہ تھا۔ پھر میری اس سوچ کا دائرہ وسیع تر ہوتا گیا۔ میں دوسرے مسلمان علاقوں میں بھی گئی اور خود برطانیہ میں بھی۔ جب میں غزہ کے بارے کسی تقریر کے دوران اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکتی تھی اور خاموش ہو جاتی تھی (تواکثر صحافی اسے پیشہ ورانہ روایات کے خلاف سمجھتے تھے) لیکن یہ میرے اختیار میں نہیں تھا۔ ایسا ہی جب مسلمان سامعین کے سامنے ہوا تو میں نے عجیب منظر دیکھا۔ میں نے دیکھا کہ مردبغیر شرمائے اپنے آنسو پونچھ رہے ہیں اور خواتین گرم جوشی سے مجھے گلے لگا لیتی ہیں۔ ان کی یہ گرم جوشی اس سے پہلے میرے لیے وجود ہی نہیں رکھتی تھی اور مجھے ان کا یہ انداز بہت ہی پیارا لگا۔
ہمیں کچھ اس روحانی لمحے کے بارے میںبتائیں جب آپ نے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کیا؟
- اسلام قبول کرنے کا فیصلہ میں نے نہیں کیا۔ ہوا کچھ یوں کہ میں ستمبر ۲۰۱۰ء میں القدس ریلی کی رپورٹنگ کے لیے ایران گئی اور وہاں آٹھ دن تک رکی۔ اپنی صحافتی ذمہ داریوں کے بعد آخری دن مجھے تاریخی شہر اصفہان کی سیر کا موقع ملا۔ میری ایک مقامی ساتھی نے کہا : ہم کچھ دیر گھر پر رک جاتے ہیں اور شام کو شہر کی سیر کے لیے نکلیں گے جب شہر کا نظارہ زیادہ خوب صورت ہو گا۔ شام کے وقت میں ایک خانقاہ کو دیکھنے گئی، وہاں میں نے دیکھا کہ بہت ساری خواتین دیوار کی جالیوں کو پکڑے رو رہی ہیں۔ انھیں یوں دیکھ کر مجھے لگا شاید ان کے گھر میں کوئی بیمار ہے یا پھر انھیں کوئی اور مسئلہ درپیش ہے۔ پھر میںنے چند ادھیڑ عمر خواتین کو دیکھا، ان کے آنسو گالوں پر بہہ رہے تھے، مگران کے چہرے دمک رہے تھے، امن و سکون ان کے چہروں سے عیاں تھا۔ میں بھی ان جالیوں کے ساتھ کھڑی ہو گئی اور آنکھیں بند کر کے میں نے سوچا تیرا شکر ہے اللہ تو نے مجھے اس سفر کا موقع عطا کیا۔ میں تو اس کی توقع نہیں رکھتی تھی۔ میں وہا ں مسجد میںبیٹھ گئی۔ سوچا تھاکچھ دیر رُک کر چلی جائوں گی، لیکن جب میں بیٹھ گئی تو مجھے خوشی، امن اور سکون کے ایسے جذبے نے گھیر لیا کہ اب میں وہاں سے ہلنا بھی نہیں چاہ رہی تھی۔ میں ساکت بیٹھی فرش پر نگاہیں گاڑے سوچ رہی تھی کہ درد بھی کوئی چیز ہے؟ کیوں کہ مجھے کبھی زندگی میں اس قدر خوشی اور سکون محسوس نہیں ہوا تھا۔
اسی دوران ایک نوجوان ایرانی لڑکی میری ساتھی کے پاس آئی اور اس سے پوچھنے لگی کہ مجھ سے پوچھے کہ کیا میں اس وقت سکون کی حالت میں ہوں؟ مجھے یاد ہے کہ میں نے سوچا کہ کتنا عجیب سوال ہے، میں سکون کی حالت میں ہی تو ہوں۔ سکون کے علاوہ بھی دنیا میں کچھ ہے؟ اس نے کہا: ہاں، میں جانتی ہوں۔ میں نے تمھیں مسجد میں دیکھا تھا اور مجھے تمھاری کیفیت محسوس ہورہی تھی۔ اس نے پوچھا: کیا میں تمھارے ساتھ بیٹھ سکتی ہوں؟ میں نے کہا: ہاں، کیوں نہیں۔ وہ میرے سامنے بیٹھ گئی۔ کچھ دیر میں اس کی دیگر ساتھی لڑکیاں بھی میرے گرد دائرے میں بیٹھ گئیں۔ ہم وہاں کافی دیر بیٹھے رہے۔۔۔خاموش۔ مجھے نہیں پتا کتنی دیر گزری ہو گی۔ ہم نے مزید کوئی بات نہیں کی، بس بیٹھے رہے۔ پھر اس نے میرے ساتھ تصویر بنوائی کہ وہ اپنے خاوند کو دکھائے گی کہ مسجد میں میرے ساتھ کیا کیفیت گزری۔ کافی دیر بعد میری ساتھی نے کہا کہ اب ہمیں کھانا کھانے جانا ہو گا۔ میں کھڑی ہو گئی اور سوچ رہی تھی کہ اب وہ کیفیت ختم ہو جائے گی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا، میری کیفیت برقرار رہی۔ کچھ کم ضرور ہوئی جب ہم ادھر ادھر چلے پھرے، لیکن خوشی کا وہ احساس اور ہلکا پھلکا پن ساتھ رہا۔ ہم نے کھانا کھایا اورمسجد کے دوسرے حصے دیکھے لیکن میں اس دوران واپس اسی جگہ جانے کے بارے میں سوچتی اور اپنی ساتھی سے پوچھتی رہی کہ ہم وہیں واپس جا رہے ہیں نا۔ میری ساتھی نے بتایاکہ ہمیں واپس اصفہان ہوٹل میں جانا ہے۔ تم کیا کرنا چاہتی ہو؟ میں نے کہا: میں اسی جگہ فرش پر سونا چاہتی ہوں، کیا ایسا ممکن ہے؟ اس نے کہا: ہاں، بالکل ممکن ہے۔ ہم واپس گئے، قرآن پاک پڑھتے رہے اور وہیں اسی فرش پر باقی تمام رات سوتے جاگتے گزار دی۔
کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ کوئی چیز آپ کو اندر سے کھینچ رہی تھی امن اور سکون کی طرف، جسے بعد میں آپ نے سمجھا کہ آپ کو ایک نئے دین کی طرف جانا ہے؟
- اگلے دن جب ہم اٹھے تو میں نے اسی مسجد میں فجر کی نماز ادا کی اور وہ میرے لیے واقعی ایک عجیب تجربہ تھا۔ مجھے نماز ادا کرنے کا طریقہ آتا تھا۔ میں نے پہلے سے نماز کا طریقہ سیکھ رکھا تھا کیوں کہ میں برسوں سے مسجدوں میں جاتی رہی تھی اور میں نے جذبۂ احترام کی نیت سے نماز کا طریقہ سیکھ لیا تھا، لیکن اس دن نماز کی ادایگی نے مجھے حیران کر دیا کیوں کہ میں نے کبھی بھی نہیں سوچا تھا کہ میں اسلام قبول کروں گی۔ نماز کے بعد جب ہم مسجد سے نکلے تو میں ایک ہی چیز کے بارے میں سوچ رہی تھی کہ مجھے اس کیفیت سے نجات حاصل کرنی ہے، کیوں کہ میں جانتی تھی کہ اسلام قبول کرنا بہت مشکل کام ہے اور اگر میری یہ کیفیت جاری رہی تو میرے پاس کوئی اور راستہ نہیں ہو گا۔ میرے اندر سے ایک اور آواز نے کہا کہ تم اس کیفیت سے نجات کیوں حاصل کرنا چاہتی ہو؟ کیا تم عام دنیا والی اس بھاگ دوڑ والی کیفیت میں واپس جانا چاہتی ہو؟ نہیں۔۔۔میں نے فیصلہ کر لیا کہ نہیں، میں اسی کیفیت میں رہنا چاہتی ہوں۔
گویا اس کیفیت نے آپ کی روح کو جکڑ لیا تھا۔۔۔ لیکن کیا وہ کیفیت اب بھی باقی ہے؟
- ہاں۔۔۔کچھ نہ کچھ تو ہر وقت رہتی ہے اورکبھی بڑھ بھی جاتی ہے۔ ایران سے واپس جانے کے تقریباً ایک ہفتے بعد تک میں خوف زدہ تھی۔ میں اپنے اندر کی آواز کو دبا رہی تھی اور کلمہ شہادت پڑھنے سے اپنے آپ کو روک رہی تھی۔ میں خوف کا شکار تھی، میں بہت پریشان تھی کیوں کہ میں نہیں جانتی تھی کہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ پھر ایک دن میں نے غزہ میں مقیم الکفانہ نامی عرب خاندان سے’ سکائیپ‘ پر (بذریعہ کمپیوٹر) رابطہ کیا۔ میں جب غزہ میں تھی تو میں اس خاندان کے ساتھ مقیم رہی تھی۔ وہاں میری ایک بہت پیار کرنے والی ماں ہے، ایک بھائی یاسر اور بھابی ہیں۔ میں نے یاسر سے کہا کہ میرے ساتھ یہ کیفیت ہو رہی ہے اور میں اسلام قبول کرنے کا سوچ رہی ہوں۔ میں ویب کیم پر دیکھ رہی تھی کہ وہ اور اس کی بیوی خوشی سے اچھل پڑے۔ اس نے کہا: جو بھی کرنا ہے سکون سے کرو کیوں کہ تم پرکوئی زبردستی نہیں کر رہا۔
کیا آپ نے اپنے قبولِ اسلام کے ردعمل کے بارے میں سوچا تھا جو یہاں برطانیہ میں ہو گا۔ لورین بوتھ صحافتی دنیا میں ایک بڑا نام ہے۔ وہ اسلام قبول کرلے گی تو میڈیا کا کیا ردعمل ہوگا؟
- ایران میں ہونے والی اس خصوصی کیفیت کو دبانے کی کوشش میں اس خوف کا حصہ بھی تھا، لیکن ساتھ ساتھ میرے اندر کی آواز دبتی بھی نہیں تھی۔ مجھے نماز کے درست الفاظ نہیں آتے تھے لیکن میں تین چار مرتبہ نماز پڑھتی تھی۔ صرف سبحان اللہ اور اللہ اکبر کہتی تھی اور رکوع و سجود کرتی جاتی تھی، کیوں کہ مجھے اس کی طلب ہوتی تھی، ہر روز رات کو بھی۔ جہاں تک ردعمل کا تعلق ہے اُس وقت تک میں میڈیا کے بارے میں پریشان نہیں تھی لیکن میں سوچتی تھی کہ اگر میں مذہب تبدیل کرتی ہوں تو مجھے کس حد تک تبدیل ہونا پڑے گا۔ مغربی معاشرے سے اسلامی معاشرت تک کا سفر بہت بڑی تبدیلی کا متقاضی ہو گا۔ میں جانتی تھی کہ اسلام قبول کرنے کے بعد مجھے کس حد تک اندرونی اور بیرونی طور پر تبدیل ہونا ہو گا۔ مجھے اسی کا خوف تھاکہ لوگ کیا کہیں گے، میرے دوست کیا کہیں گے اور اسی وجہ سے میں اپنے آپ کو روک رہی تھی۔ جہاں تک میڈیا کا تعلق ہے وہ بعد کی بات تھی کیوں کہ جب آپ اتنے بڑے مقصد کے لیے جاتے ہیں تو پھر آپ کے پاس زیادہ راستے نہیں ہوتے۔
قبولِ اسلام پر آپ کو اپنے گھر والوں، دوستوں اور رشتے داروں کی طرف سے کس قسم کے ردعمل کا سامنا کرنا پڑا؟
- سب سے اہم تو میرا خاندان تھا۔ اس لیے میں نے قبولِ اسلام سے پہلے اپنی ماں اور بہن سے بات کر لی تھی۔ میں نے اپنی والدہ کو اس رات مسجد میں اپنے اوپر طاری ہونے والی کیفیت کے بارے میں بتایا تو وہ انتہائی جذباتی ہو گئیں جیسے کہ وہ میری اس کیفیت کو سمجھ رہی ہوں۔ میری بہن نے اس پر یہ کہا کہ تمھارے دل میں مسلمانوں کے لیے جو عزت اور احترام ہے یہ کیفیت اسی وجہ سے ہے۔ لیکن اگلے ہفتے جب میں واپس گھر میں داخل ہوئی، تومیں نے سر پر اسکارف لیا ہوا تھا۔ ماں نے حیرانی سے پوچھا، تو میں نے کہا: میں نے آپ کو بتایا تھا ناںکہ میں مذہب تبدیل کرنے کا سوچ رہی ہوں، تو میں نے اسلام قبول کر لیا ہے۔ ان کا ردعمل شدید تھا۔ ان کے لہجے میں حیرت اور غصے کا امتزاج تھا۔۔۔’’اسلام؟ ارے میں تو سمجھی تم بدھ مت کی بات کر رہی ہو‘‘۔ وہ بہت غصے میں تھیں۔ پھر میں نے اپنی والدہ کو بڑی نرمی سے اسلام کے بارے میں بتایا اور مسلمانوں کے اپنے ساتھ رویے کے بارے میں بھی بات کی۔ اس کے بعدوہ کافی حد تک پر سکون ہو گئیں، لیکن میں سمجھتی ہوں کہ وہ اب بھی میرے نئے مذہب کے بارے میں تذبذب اورشک میں مبتلا ہیں۔
کیا اسکارف پہننے کے حوالے سے آپ پر آپ کے ساتھی مسلمانوں نے کوئی دباؤ ڈالا تھا یا پھر یہ آپ کا اپنا فیصلہ تھا؟
- نہیں۔۔۔بالکل نہیں۔۔۔ کسی نے دبائو نہیںڈالا۔ میری زندگی میں اسلام کے حوالے سے آنے والی کسی بھی تبدیلی میں کسی قسم کے دبائو کا ہر گز کوئی دخل نہیں۔ قبولِ اسلام کے فیصلے اور اس پر عمل کے دوران جو کچھ مجھے بتایا گیا وہ صرف اتنا تھا کہ تم اپنے اللہ کے ساتھ ایک معاہدہ کر نے جارہی ہو اور وہی تمھاری سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرے گا۔ تمھیںکسی سے خوف زدہ ہونے، دبائو محسوس کرنے یا پریشان ہونے کی بالکل بھی ضرورت نہیںاور تمھاری بہترین رہنمائی اللہ کی کتاب کرے گی جو اللہ کا کلام ہے۔
چند سال پہلے آپ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں ایک تصور رکھتی تھیں، اب جب کہ آپ خود دائرۂ اسلام میں داخل ہو چکی ہیں، تو وہ نظریہ اور تصورکس حد تک تبدیل ہوا؟
- میں نے اس سے پہلے اس موضوع پر بات نہیں کی، لیکن یہی وہ بات تھی جس نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا کہ اسلام کس قدر روحانی خوب صورتی کا حامل دین ہے۔ باہر سے دیکھنے والے کے لیے دن میں پانچ وقت نماز ادا کرنا جنونیت، پاگل پن، مشکل اور خوف ناک نظر آتا ہے۔ نماز کے بارے میں میرا نظریہ بھی کچھ اسی قسم کا تھا۔ میں سوچتی تھی اسلام اور مغرب کے درمیان رابطے کے لیے ایک ڈکشنری ہونی چاہیے۔ اس لیے کہ جب مسلمان اللہ اکبر کہتے ہیں، تو سننے والے غیرمسلم اس کا فوری مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ ہم تمھیں قتل کر دیں گے، ہم تم سے نفرت کرتے ہیں،کیوں کہ تم لادین ہو۔ حالانکہ جب مسلمان اللہ اکبر کہتا ہے تو وہ دراصل کہہ رہا ہوتا ہے کہ اللہ سب سے بڑا ہے۔ یہ اپنے اندر ایک انتہائی خوب صورت بات ہے کہ ایک اللہ ہی ہے جس کے سوا کوئی خدا نہیں۔ یہ احساس اور ایمان ہمیں اتنا پر سکون کر دیتا ہے کہ دنیا ایک بہت پرسکون جگہ معلوم ہونے لگتی ہے۔ نہ جانے مغرب میں بیٹھے ہوئے ہمیں یہ کیوں سنائی نہیں دیتا؟ اسی نے اسلام کے بارے میں میرا تصور مکمل طور پر تبدیل کر دیاہے۔
کیا آپ سجھتی ہیں کہ آپ اسلام کا پیغام دوسروں تک پہنچا سکتی ہیں، جو اسلام کے بارے میںغلط تصور رکھتے ہیں لیکن وہ اس پیغام کی سچائی کو سمجھنے والا دل رکھتے ہیں؟
- میرے خیال میں اُن بہت سارے لوگوں تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے جو کھلا دل رکھتے ہیں اور بات سننا اور اسلام کے بارے میں اس غلط فہمی کو دور کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن میں سمجھتی ہوں بہت سارے لوگ ایسے بھی ہیں جو اس دنیا میں اس قدر مگن ہیں اور ان کے دل نفرت سے اس قدر بھرے ہوئے ہیں کہ میں ان کے بارے میں کچھ زیادہ پرامیدنہیں۔ وہ کبھی یقین نہیں کریں گے کہ ہم مسلمان اس طرح خوش و خرم زندگی بھی گزار سکتے ہیں۔ میں یہاں کہنا چاہتی ہوں کہ گذشتہ ۴۸ گھنٹوں میں مجھے میرے فیس بک، موبائل اور فون پر ۶۰۰ کے لگ بھگ پیغامات موصول ہوئے۔ تقریباً سب کے سب کا آغاز ایک خوب صورت فقرے سے ہوتا ہے:’’ السلام علیکم۔۔۔۔۔اسلام میں خوش آمدید۔۔۔۔ہم سب تم سے بہت محبت کرتے ہیں۔۔۔۔تمھارے قبولِ اسلام سے ہمیں بہت خوشی ہوئی ہے‘‘۔ یہ وہ زبان ہے جو ہم نے کبھی بھی استعمال نہیں کی۔۔۔ اپنے گھر کے افراد میں بھی نہیں اور ہمیں۔۔۔۔برطانیہ اور امریکہ میں رہنے والوں کو اس کا استعمال کس قدر مشکل لگتا ہے۔ میں اسے بچوں کی جیسی معصوم شفقت کہوں گی، کیوں کہ یہ بچوں جیسا معصوم، نازک اور خوب صورت اظہار ہے۔
قبولِ اسلام کے بعد آپ کا اپنی ذات کا تجربہ کیا رہا، کیاروحانی محسوسات رہے؟
- میں ایران سے واپس آئی، تو شروع کے دنوں میں جب میں سو کر اٹھتی تھی تو میرے ذہن میں بہت سارے سوالات سر اٹھاتے تھے، مثلاًمیں مسلمان ہوں اس لیے آج کے دن کے لیے میری زندگی کا مقصد کیا ہو؟ میں کیا پہنوں؟ ایک ماں ہونے کے ناتے میرا عمل کیسا ہونا چاہیے؟ یہ سوال خاص طور پر اس وقت ابھرتے جب میں نیند سے جاگتی تھی، لیکن جلد ہی مجھے احساس ہونے لگا کہ میری زندگی کی ڈگر خود بخود درست ہو چلی ہے، مجھے اپنا آپ ہلکا پھلکا لگنے لگا۔ خود بخود میرا رجحان زیادہ حیادار لباس کی طرف ہو گیا۔ میںساری زندگی شراب پیتی رہی ہوں، اسے یکسر چھوڑدیا، اور اس وقت میں زندگی کے اس موڑ پر پہنچ چکی ہوں کہ میں شراب اپنے ہونٹوں سے چھونے کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔ ایک رات میں دوستوں کے ساتھ تھی۔ ان کے ساتھ میں نے بھی شراب کی ایک بوتل خرید لی لیکن جب میں نے پہلا گھونٹ لیا تو میں برداشت نہیں کر سکی اور اسے تھوک دیا۔ صرف اس لیے نہیں کہ وہ حرام تھی بلکہ اب میں اسے پینا ہی نہیں چاہتی تھی۔ میرے خیال میں میرے اندریہ ایک بڑی تبدیلی تھی۔۔۔۔اور یہ تبدیلی ایسے آئی جیسے سرے سے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
آپ کے بچوں کا مذہب کی تبدیلی پر کیا ردعمل تھا؟
- میری دو پیاری بچیاں ہیں۔ وہ مجھ سے فلسطین کے بارے میں بہت کچھ سنتی رہتی تھیں۔ ہم تینوں آپس میں بات چیت کرتے تھے کہ غزہ میں کیا ہو رہا ہے؟ فلسطینیوں کے ساتھ کیا مظالم ہورہے ہیں؟ اس لیے وہ میری ملازمت کی زندگی کے حوالے سے کافی حد تک پہلے سے آگاہ تھیں۔ اب جب گذشتہ دنوں میں ایران سے واپس آئی اور اپنے تجربے کے بارے میں ان کو بتایا تو انھیں بھی بہت خوشی ہوئی۔ لیکن جب میں نے ان سے پوچھا: ’’ اگر میں مسلمان ہو جائوں تو؟‘‘ اس پرانھوں نے کہا: ٹھیک ہے لیکن ہمارے کچھ سوالات ہیں۔ انھوں نے بہت سنجیدگی سے میرا انٹرویو لیا ۔ انٹرویو کا ماحصل یہ تھا کہ مسلمان ہونے کے ناتے میں کیسی ماں ثابت ہوں گی۔ پہلا سوال یہ تھا: کیاآپ شراب پیئیں گی؟ میں نے کہا: نہیں۔ اس پر انھوں نے بہت خوشی کا اظہار کیا۔ دوسرا سوال۔۔۔سگرٹ پیئیں گی؟ میں نے جواب دیا: میں یہ بری عادت ترک کرنے کی بھی پوری کوشش کروں گی، اس پر ان کی خوشی دیدنی تھی۔ تیسرا سوال یہ تھا کہ آیا میںتنگ مغربی لباس پہناکروں گی؟ میں نے پوچھا ،کیا مسلمان ایسا لباس پہنتے ہیں؟ تو میری بیٹیوں نے کہا: نہیں، لیکن آپ پہنتی رہی ہیں اور ہمیں یہ بالکل اچھا نہیں لگتا۔ میں نے کہا کہ ایک مسلمان کی حیثیت سے میں ہمیشہ باحیا لباس پہنوں گی اور یہ میرا تم سے وعدہ ہے۔ اس پردونوں نے مل کرنعرہ لگایا: We Love Islam (ہمیں اسلام سے پیار ہے)۔ اب میری سات سالہ بیٹی فجر کی نماز کے لیے صبح چھے بجے اٹھتی ہے۔ ویسے ان کے لیے اسلام کوئی بالکل نئی چیز نہیں تھا۔ ان کی ماں بہت عرصے سے مسلمان علاقوں میں جا کر کام کرتی تھی اور انھیں پتا تھا کہ وہاں کوئی خطرے کی بات نہیں، بلکہ ان کی ماں وہاں جانے کے باعث ایک بہتر ماں بن گئی ہے اور اس سے بڑھ کر انھیں کیا چاہیے تھا۔
قبولِ اسلام کے بعد آپ مختلف علما سے ملی ہوں گی ، تو انھوں نے آپ کو کیا بنیادی نصیحت کی؟
- مجھے جو سب سے اہم اور بنیادی نصیحت کی گئی وہ یہ ہے کہ آہستہ آہستہ آگے بڑھنا ہے۔ ہر گز یہ امید نہ رکھو کہ تم ایک رات میں ہی اسلام کے بارے میں سب کچھ جان لو گی اور نہ کوئی اور تم سے یہ امید رکھے۔ مجھے جوکچھ ابتدا میں سمجھ نہیں آیا وہ یہ تھا کہ در اصل اسلام کا ۹۰ فیصد حصہ ہائی جین اور صفائی پر مشتمل ہے۔ جہاں تک میری سمجھ میں آیا ہے اگر اسلام کو یک دم سمجھ لینے کی کوشش کی جائے تو انسان گھبر ا سا جاتا ہے۔ جس عالم کے ہاتھ پر میں نے لندن کی ایک مسجد میں اسلام قبول کیا، انھوں نے مجھ سے کہا: لورین!جلد بازی مت کرنااور آہستہ آہستہ آگے بڑھنا،اللہ تمھارا انتظار کر رہا ہے۔ ان لوگوں کی ہر گز پروا نہ کرو جو تمھیں کہیں کہ تمھیں ہر حال میں یہ کرنا پڑے گا، یہ پہننا پڑے گا، بال ایسے رکھنے ہوں گے،اس کے بجاے اپنے دل کی آواز کی پیروی کرنا۔قرآن کی پیروی کرو اور اللہ سے ہدایت طلب کرتی رہنا۔
میں نماز ادا کر رہی ہوتی ہوں تو نماز میں میرا سب سے پسندیدہ عمل سجدہ کرنا ہوتا ہے۔ میں سجدے میں جاتی ہوں اور دنیا سے رابطہ کٹ کر اللہ سے تعلق استوار ہو جاتا ہے تو میں ایک عجیب سا سکون محسوس کرتی ہوں۔اسلامی دنیا سے باہر کوئی بھی سکون کے اس تجربے کامشاہدہ نہیں کرسکتا۔ (مسکراتے ہوئے) آپ مسلمانوں نے ایک بہت بڑاراز چھپا کے رکھا ہوا ہے ۔ کسی نے مجھ سے پوچھا،تم نے مستقبل کے بارے میں کیا سوچ رکھا ہے، تو میں نے جواب دیا: جب میں نماز پڑھ رہی ہوتی ہوں تو مجھے احساس ہوتا ہے ،کوئی اور میرے مستقبل کے بارے میں منصوبہ بندی کررہا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں خود کچھ نہیں کرتی۔ میں روزمرہ کے سارے کام کرتی ہوں۔ میں بیک وقت ایک ماں، ایک صحافی اور ایک اچھی ساتھی کے طور پر بہترین خدمات سر انجام دینے کی کوشش کرتی ہوں، لیکن جہاں تک مستقبل کی منصوبہ بندی کا سوال ہے، تو میں کوئی منصوبے نہیں بناتی۔ میں صرف یہ کہتی ہوں کہ اے اللہ! میرے بارے میں تیرے جو بھی فیصلے ہیں وہ مجھے منظور ہیں اور یہی میری زندگی میں آنے والی سب سے بڑی تبدیلی ہے۔ اب میں جس حقیقت میںرہ رہی ہوںوہ فلموں میں دکھائی جانے والی مغربی حقیقت سے بالکل مختلف ہے۔ میں نے اس عظیم جھوٹ کا مشاہدہ بھی کر لیا جو ہماری جدید مغربی زندگیوںکاظاہری چہرا ہے؛ جہاں مادہ پرستی، جنسی اختلاط اور نشے میں ابدی سکون حاصل کیا جاتا ہے۔
ایک عیسائی کے طور پر بھی انسانیت کے لیے آپ کی خدمات قابل قدر ہیں۔ اب، جب کہ آپ مسلمان ہو چکی ہیں تو آپ کے ذہن میں کیا نقشہ ہے کہ ایک مسلمان کے طور پر آپ کیا کرنا چاہیں گی؟
- میں سوچتی ہوں اللہ مجھے ہمت دے کہ میں فلسطین کی وہ کہانی دنیا کے سامنے لائوں جو ۱۹۴۸ء سے اب تک دنیا سے پوشیدہ ہے، کیوں کہ فلسطینیوں کی کہانی تب سے اب تک کسی نے نہیں سنی، کسی نے نہیں چھاپی اور نہ دنیا ہی اسے ہضم کرنے کو تیار ہے۔
برطانیہ میں بہت سارے اہم اور اچھے مسلمان رہنما موجود ہیں جو بہت اہم کام کر بھی رہے ہیں ۔ ہمارے پاس بہت سے اچھے مسلمان ماہرین تعلیم ، علما، سیاست دان اور پارلیمنٹ کے اراکین موجود ہیں۔ برطانیہ میں مسلمانوں کے بارے میں معلومات کی کمی ہے۔ میری کوشش ہوگی کہ میں برطانوی عوام کو یہ باور کرا سکوں کہ مسلمان کوئی عجیب قبیلے کے لوگ نہیں نہ ان کے ہاں کوئی خوف ناک قسم کی چیزیں ہی ہو رہی ہیں۔ وہ تو ایک اچھے خاندان کی مانند ہیں اور اسلام ایک قدرتی دین ہے جو ساری دنیا کو خوش رکھ سکتا ہے۔ بس یہی وہ چیز ہے جو مجھے کرنی چاہیے۔
کیا آپ پہلے سے مذہبی رجحان رکھتی تھیں؟ کیا آپ اللّٰہ پر ایمان رکھتی تھیں یا یہ سب اچانک ہو گیا؟
- میں نے جس گھرانے میں پرورش پائی ہے وہ کچھ زیادہ مذہبی گھرانہ نہیں تھا۔ میرا باپ کیتھولک عیسائیت چھوڑ چکا تھا اور میری ماں کسی حد تک خدا کے وجود پر یقین رکھتی تھی۔ جہاں تک مجھے یاد ہے میں بہت زور و شور سے دعائیں مانگا کرتی تھی۔ جب میں سونے کے لیے لیٹتی تھی تو میں اہتمام سے دعائیں مانگتی تھی اور مجھے ہمیشہ سے یقین تھا کہ خدا کہیں موجود ضرور ہے۔ مجھے ایک واقعہ یاد ہے کہ میں نے ’برائونیز‘ نامی ایک عیسائی کلب میں شمولیت اختیار کی تھی۔ ایک دن میں چرچ میں صلیب کے نشان کے پاس گئی اور پھر ایک دم ایسے پیچھے ہٹ گئی جیسے میں کسی عظیم ہستی کے سامنے موجود ہوں، جیسے سب عیسائی کرتے ہیں۔اس نظریے کا اسلام میں کوئی وجود نہیں۔ یہ عیسائیت کا حصہ ہے، لیکن میں سمجھتی ہوںکہ میرے اندر ابتدا ہی سے ایک عظیم ہستی کے وجود کا احساس تھا۔
کیا آپ سمجھتی ہیںآپ کا وہ احساس اور یقین کسی بہتر نظریے میں تبدیل ہو گیا ہے؟
- ہاں، یہ ایک بہت خوب صورت احساس اور ایمان میں تبدیل ہو گیا ہے۔ ایک اور اہم بات یہ ہوئی کہ مجھے حضرت عیسٰی ؑ کو بھی نہیں چھوڑنا پڑا۔ میں سمجھتی ہوںحضرت عیسیٰ ؑکو سب سے زیادہ جاننے والے لوگ مسلمان ہیں، کیوں کہ جن نام نہاد عیسائیوں کو میں جانتی ہوں مسلمان اس عظیم پیغمبر کے بارے ان سے زیادہ جانتے ہیں۔ یہ میرے لیے بہت حیران کن تھا کہ میں نے حضرت مریم ؑ ،حضرت عیسٰی ؑ اور دنیا میں گزرے ان کے وقت کے بارے میں جو کچھ اب جانا ہے ، عیسائی ہوتے ہوئے نہیں جانتی تھی۔
کیا آپ کو اپنائیت کا احساس ہوتا ہے کہ آپ مسلم امہ کا حصہ بن گئی ہیں، کیوں کہ آپ نے کہا ہے قبولِ اسلام سے پہلے آپ کا مسلم معاشرے کے بارے میں نظریہ کچھ اور تھا؟
- میرے خیال میں تو یہی حقیقت میں اصل امت اوراصلی معاشرہ ہے۔جب میں ایران کی مسجد میں تھی اور مجھ پر سکون کی کیفیت طاری تھی اور ایک نوجوان لڑکی جس نے میری کیفیت کو بھانپ لیا اور مجھ سے ملی، جانے سے قبل مجھ سے گلے ملی اور مجھے کہا :I love you (میں تم سے محبت کرتی ہوں)۔ میں اس سے پہلے کبھی اسے نہیں ملی تھی اور جب میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھا تو مجھے لگا کہ وہ میری بیٹی ہے، میرے لیے سب کچھ ہے اور ہم ایک ہیں۔ میں کہوں گی کہ ہم ایک اُمت کا حصہ تھے۔۔۔۔۔ایک اصل امت کا۔ ہمارے درمیان جس محبت کا اظہار ہو رہا تھا اس نے میرے اندر احساس پیدا کیا کہ میں سیر کرنے آئی ہوئی، بیرونی دنیا کی انسان نہیں، اسی امت کا حصہ ہوں۔
آپ کی یہ کیفیت قبولِ اسلام سے قبل ہوئی تھی؟
- یہ میرے قبولِ اسلام سے قبل ہوا۔ اس وقت میں نے کلمۂ شہادت نہیں پڑھا تھا ، لیکن شایدوہی میرا قبولِ اسلام تھا یا پھر اس عمل کا ایک حصہ تھا۔ اب میں کہہ سکتی ہوں کہ میرا دل اسی وقت مسلمان ہو گیا تھا، لیکن میں نے اس کا فیصلہ نہیں کیا تھا۔ مجھے اتنا احساس ضرور تھا کہ کوئی بہت اہم بات ہو گئی ہے اور اس سے جدا ہونا بہت مشکل ہو گا۔ ایسا ہی ہوا جب میں واپس لندن چلی گئی اور مجھے بار بار نماز ادا کرنے کی طلب ہوتی تھی ، میں نے سوچا مجھے کیا ہو رہا ہے۔ میں نے کچھ علما سے مشورے کے لیے رابطہ کیا تو انھوں نے پوچھا کیا تم نماز ادا کر رہی ہو؟میں نے کہا: ہاں۔ پوچھا کتنی بار؟ میں نے کہا: دن میں پانچ بار۔ انھوں نے پوچھا کیا تم اللہ کی عبادت کر رہی ہو ؟میں نے کہا: ہاں۔ تو جواب ملا پھر ہمارے پاس کیا کرنے آئی ہو،تم اللہ کی عبادت کرتی ہو اور قبولِ اسلام کے بارے میں سوال کر رہی ہو، تم توپہلے ہی سے مسلمان ہو۔
مغرب میں اسلام فوبیا، اسلام کے خلاف نفرت کے رویے کو کم کرنے یا اسے ختم کرنے کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے؟
- میرے خیال میں مغرب میں جس اتحاد کا مظاہرہ بہت سارے جلسوں جلوسوں میں کیا گیا ہے، جیسے عراق جنگ کے خلاف مارچ جس میں لگ بھگ ۱۰ لاکھ لوگوں نے شرکت کی تھی اور وہ مختلف مذاہب، رنگوں اور نسلوں سے تعلق رکھنے والے لوگ تھے، میرے خیال میں اسی قسم کا اتحاد تبدیلی لائے گا۔ اس کے علاوہ ان سیاست دانوں کے خلاف حمایت حاصل کی جائے جو مسلمانوں کو نشانہ بنانے میں زیادہ تیزی دکھاتے ہیں، جیسے اس نظریے کے تحت کہ مسلمان نوجوان دہشت گرد ہوسکتا ہے’روکو اور تلاشی لو‘ جیسے قوانین میں مسلمانوں کو نشانہ بنانا وغیرہ۔ اگر ہم ایسے لابی گروپ بنالیں یا ان میں شمولیت اختیار کریں اور متحد ہو کر کہیں کہ پارلیمنٹ کو صرف شہری حقوق پرزور دینا چاہیے، صرف انسانیت کو فوقیت دی جائے، آئیں! اس غیر انسانی رویے کو روکیں، یہاں صرف انسانی حقوق کی بات ہونی چاہے؛ تو ہم کافی تبدیلی لا سکتے ہیں۔
ترقی پسند اور کامیاب برطانوی خواتین کیوں اسلام قبول کررہی ہیں؟ آپ اس پر کیا تبصرہ کریں گی؟
- میرے خیال میں یہ اُس مغربی سوچ سے بغاوت اور تردید ہے جو عورت کی آزادی کا مطلب یہ لیتی ہے کہ اسے حق ہے کہ وہ ہر ممکن حد تک ، ہر ممکن موقعے پر ممکن حد تک مختصر لباس پہنے۔ ہم نے اپنے آپ کو ایسا ہی بنا لیا ہے۔ یہ رجحان ۵۰ کی دہائی میں پھیلنا شروع ہوا جب عورتوں نے کارکن طبقے میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔ پھر اگلے دو عشروں میں گلیمر آ گیا۔ اس کے بعد جنسی انقلاب آ گیا۔اس عمل میں خاندان کا ادارہ بہت حد تک پسِ منظر میں چلا گیا اور اس سارے عمل نے ماں کے کردار کو بُری طرح متاثر کیا۔ کیوں کہ اگر ہم اپنے ایک معاشرتی ستون کے کردار کو چھوڑیں گے تو اس کا مطلب ہے ہم دراصل کسی اور کردار کو اپنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مغرب میں جو دوسرا کردار ہم نے اختیار کیا، بلکہ مکمل طور پر اپنا لیا اس کا تقاضا یہ ہے کہ ہم جب اور جہاں تک ممکن ہو مردوں کے لیے جاذب نظر دکھائی دیںاور جب تک ممکن ہو اپنی ملازمتوں میں کامیابیاں حاصل کرتے رہیں۔یہ سب کچھ حاصل کرتے کرتے ہم نے اپنے خاندان کے ادارے، اپنی ذاتی زندگیوں اور اپنے معاشرے کو غیر اہم بنا دیا ہے۔ اس لیے ہم دیکھ رہے ہیں کہ آج کل بہت ساری خواتین اس مصنوعی زندگی کے دائرے سے نکل کر اپنے اصلی کردار کی طرف آرہی ہیں۔
مغرب میں حجاب کسی حد تک خواتین کے لیے تعلیم کے حصول یا زندگی میں آگے بڑھنے اور ترقی میں رکاوٹ ہے ، آپ کی رائے کیا ہے؟
- یہ بہت اہم سوال ہے۔ ہمارے ملک میں موجود قوانین ، خصوصاً وہ جو مختلف مذاہب اور کلچر کے لوگوں کو مغربی معاشرے میں ضم کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں ، باحجاب خواتین کے لیے مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔ میں اگر اپنا تجربہ بیان کروں تو اپنے ۱۳ سالہ صحافتی تجربے کے باوجود میں پچھلے ایک ہفتے میں دو ملازمتیں صرف اس وجہ سے کھو چکی ہوں کہ میں حجاب لیتی ہوں۔میں اس پر مزید تبصرہ نہیں کروں گی کیوں کہ مجھے ابھی اسے ثابت کرنے میں وقت لگے گا،لیکن مجھے ان دواداروں نے ملازمت سے فارغ کردیا ہے جن کے ساتھ میں لمبے عرصے سے کام کر رہی تھی، کیوں کہ میں نے حجاب لینا شروع کردیا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ معاشرہ حجاب قبول کرنے سے انکاری ہے؟
- ہمارے معاشرے میں باپردہ خواتین کے بارے میں دو نظریات ہیں: ایک تو یہ کہ مسلمان خواتین اپنے گھروں میں دبائو والے ماحول کی وجہ سے دبی ہوئی اور شرمیلی ہوتی ہیں۔ دوسرا یہ کہ اپنے اسلامی پس منظر کی وجہ سے دہشت گرد اور خطرہ سمجھی جاتی ہیں۔ تاہم مجھے نوکری سے نکالنے کے لیے بہانہ یہ بنایا گیا کہ معلوم نہیںتمھیں دیکھ کر ہمارے قارئین کس ردعمل کا اظہار کریں۔مجھ سے کہا گیا کہ وہ ’پیغام‘ جو تم دے رہی تھیں اب بدل گیا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ یہ دراصل مذہبی نفرت اور مذہبی تعصب کا اظہار ہے۔ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ رکاوٹ اس وجہ سے ہے کہ اللہ نہیں چاہتا کہ ہم یہ کام کریں اور جونئے دروازے ہمارے لیے کھلیں گے وہی اس کے پسندیدہ ہوں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ میں کہوں گی کہ اس ملک میں یہ تعصب موجود ہے اور میں اس کی گواہ ہوں۔
آپ باحجاب خواتین کو کیا مشورہ دیں گی کہ وہ اس صورت حال سے کیسے نمٹیں؟
- میرا پہلا مشورہ تو یہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ حجاب لینے والی خواتین سے لوگ سوال کرتے ہیں کہ وہ حجاب کیوں پہنتی ہیں؟ خواتین جواب نہیں دیتیں یا ایسے لوگوں سے کتراتی ہیں کہ یہ ایسے فضول سوال کیوں کر رہے ہیں، کیوں کہ آپ خود جانتی ہیں کہ آپ ایسا کیوں کر ہی ہیں۔ دراصل یہ لوگ ہمیں اور ہمارے حق کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں،تاہم یہ چاہتے ہیں کہ انھیں اصل بات پتا چلے ۔ میرے خیال میں انھیں مطمئن کیا جانا چاہیے ۔ مسکرا کر پورے اعتماد سے انھیں جواب دینا چاہیے۔ یہ ایک بات چیت سارا ماحول تبدیل کر سکتی ہے۔ وہ آپ سے پوچھیں گے کہ آپ کیا کرتی ہیں، تو انھیں بتایا جائے کہ آپ یونی ورسٹی جاتی ہیں اور اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی ہیں وغیرہ۔ پھر وہ آپ سے مزید سوال کریں گے اوریوں معاشرے میں وہ تبدیلی آئے گی جو اس وقت رابطے کی کمی کی وجہ سے ممکن نہیں ہے اور میڈیا کی غلط سلط معلومات کی وجہ سے ایک غلط تاثرعام ہوچکا ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ وہ بے چارے برطانوی لوگ جو مسلمانوں کے بارے میں شدید رویہ رکھتے ہیں سارے شدت پسند نہیں، بلکہ کنفیوزہیںاور ان کی کنفیوژن دُور کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم جب یہ کہتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں تعصب ہے، تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم کوشش ہی نہ کریں۔ ہمیں ملازمتوں کے لیے کوشش کرنی چاہیے، ہو سکتا ہے کہ اس طرح ہم مغرب کا مسلمانوں کے بارے میں غلط تاثر ختم یا کم کرنے میں مددگار بن سکیں۔ یقیناآپ اپنی صلاحیت اور دانش مندی سے کسی نہ کسی کو تو مطمئن کر پائیں گے ۔ اس لیے اپنا اعتماد بحال رکھیں، تعلیم حاصل کریں ، لوگوں سے کھلے ذہن سے ملیں، آپ یقینا مجھ جیسے لوگوں تک پہنچ جائیں گے۔
آپ کے قبولِ اسلام پر مغربی میڈیا نے تنقید کی- کیا آپ سمجھتی ہیں کہ آپ جیسی کامیاب خواتین کے قبولِ اسلام سے کوئی مثبت تبدیلی رونماہو سکے گی؟
- ہاں، میرے قبولِ اسلام پر بہت سارے تبصرے سننے کو ملے۔ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ میری زندگی میں کوئی مسائل تھے اس لیے میں نے اسلام قبول کیاہے، جیسے کہ شاید صرف وہی لوگ اسلام قبول کرتے ہیں جن کی زندگی مسائل کا شکار ہو جاتی ہے۔ بعض کا تبصرہ اس سے بھی زیادہ شدید تھا کہ یہ تو ہمیشہ سے ہی شدت پسند تھی، اسی لیے مشرق وسطیٰ کے دورے کرتی تھی اور فلسطین کے مسلمانوں کی کہانیاں لکھتی تھی۔ لیکن میں سمجھتی ہوں ایک بار جب ردعمل تھمے گا ، گرد بیٹھ جائے گی اور اصل بحث کا آغاز ہو گا، تو عورتوں کا ہمارے غیر مسلم معاشرے میں مقام متعین ہوگا۔ تب میں کہوں گی کہ اپنے معاشرے پر نظر ڈالواوردیکھو کہ تم عورتوں کے ساتھ کیسا سلوک کررہے ہو۔ صرف برطانیہ میں اوسطاً ہر ہفتے دو خواتین شوہروں اور ساتھیوں کے ہاتھوں قتل ہو جاتی ہیں۔ یہ مسلمان تو نہیں کر رہے، یہ تو ہم ہیں بلکہ مغربی معاشرہ ہے جس نے اس کی اجازت دے رکھی ہے۔ ساری دنیا میں عورتوں کے ساتھ زیادتی کے مقدمات میں سب سے کم سزائیں یورپ دے رہا ہے۔ کیا ہم اس بارے میں غور کر سکتے ہیں؟ کیا ہمیں عورتوں کے ساتھ اس زیادتی پر بھی غصہ آتا ہے؟ (بہ شکریہ جہاد کشمیر، راولپنڈی، دسمبر ۲۰۱۰ء، جنوری ۲۰۱۱ء)