اسلام کی عمارت جن بنیادی ارکان پر قائم ہے ان میں حجِ بیت اللہ بھی ایک اہم رکن ہے۔ صاحب ِ استطاعت ہونے کی صورت میں ہر مسلمان عاقل وبالغ مرد اور عورت پر زندگی میں ایک بار حج کرنا فرض ہے۔حج میں مالی وبدنی دونوں طرح کی عبادات پائی جاتی ہیں،چنانچہ اس کی فرضیت کے لیے مالی اور بدنی، دونوں قدرتیں ضروری ہیں۔ ارشادِ باری ہے: وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْْہِ سَبِیْــلًا (اٰل عمرٰن۳:۹۷)’’لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے‘‘۔ حج اپنے اندر عالم گیر اخوت ومحبت اور انسانی مساوات کاعملی پیغام رکھتا ہے۔ تمام حجاج کاایک وقت میں ایک جگہ جمع ہوکر ایک ہی طرح کے اعمال وشعائر انجام دینا، جہاں ایک طرف: اِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ اِخْوَۃٌ (الحجرات۴۹:۱۰) ’’مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں‘‘ کے احساس کوپختگی دیتا ہے، وہیں دوسری طرف ربِ واحد کے حضور انسانی مساوات کا نادر نمونہ پیش کرتا ہے۔
اس عبادت کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ زندگی میں صرف ایک بار فرض ہے۔ نبی کریمؐ نے بھی صرف ایک بار حج کیا اور فرما یا: ’’مجھ سے حج کے مناسک سیکھ لو، اس لیے کہ مجھے نہیں معلوم، شاید کہ میں اس حج کے بعد دوبارہ حج نہ کرسکوں‘‘ (مسلم، ۳۱۹۷) ۔ ہر اسلامی عبادت میں دوشرائط کا پایا جانا ضروری ہے: اخلاص اورپیرویِ شریعت۔ چونکہ یہ عبادت عموماً انسان زندگی میں صرف ایک بار ادا کرتا ہے، اس لیے اس میں خطاؤں اور لغزشوں کے ارتکاب کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ حج کی تمام جزئیات کا کتابی مطالعہ اور نظری علم الگ چیز ہے، اور عملی حج کرنا الگ۔ اسی لیے کثیر مطالعہ کے باوجود حجاجِ کرام سے لغزشیں سرزد ہوجاتی ہیں۔لغزشیں تو خیر بشریت کا خاصہ ہیں، تاہم اس بات کی کوشش کرنا کہ ہمارا حج خطاؤں سے پاک صاف ہو، ہر مومن کے لیے ضروری ہے ۔ اس مضمون میںچند خطاؤں پر متنبہ کیا گیا ہے جو عموماً حجاجِ کرام سے سرزد ہو جاتی ہیں۔ اِن خطاؤں کا سبب ناواقفیت ہے یا اندھی تقلید۔ مومنانہ کردار یہ ہے کہ جب صحیح علم حاصل ہوجائے تو اس پر عمل کیا جا ئے۔ اسی لیے یہ کوشش کی گئی ہے کہ دلائل کی روشنی میں صحیح بات سامنے لائی جائے۔
اس سلسلے میں سب سے زیادہ اہمیت ادایگیِ حج کے وقت کے تعیین کو حاصل ہے۔ فقہاے کرامؒ کے درمیان اس امر میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ آیا فرضیت ِ حج کے بعد فوراً حج کرنا ضروری ہے یا اس میں تاخیر کی گنجایش ہے۔ احناف کے نزدیک فوراً حج کرنا ضروری نہیں ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں یہ رخصت ایک وبا کی طرح پھیل گئی ہے، اور حج کے لیے عملاً بڑھاپے کا وقت مخصوص مان لیاگیا ہے۔ حالانکہ شرعی لحاظ سے بھی اور موجودہ حالات کے لحاظ سے بھی جوانی میں حج کرلینا ہی بہتر ہوتاہے، کیونکہ زندگی کا کوئی بھروسا نہیں۔
اگر کسی شخص پر حج فرض ہوجائے اور وہ اسے بڑھاپے پر اٹھا رکھے اور پھر حج کیے بغیر ہی مر جائے تو سخت گناہ گار ہوگا۔ نیز حج ایک پُرمشقت عبادت ہے۔ اسی لیے اللہ کے رسولؐ نے خواتین کا جہاد حج اور عمرہ کو قرار دیا۔ موجودہ دور میں کثرتِ حجاج کی وجہ سے اس میں مزید مشقتیں پیدا ہوگئی ہیں۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ بوڑھے حجاج خواتین وحضرات ارکانِ حج کیسے اور کس قدر ادا کرپاتے ہیں۔ بڑھاپے میں حج کا وطیرہ برعظیم پاک و ہند کے ساتھ خاص نظر آتا ہے، ورنہ دنیابھرکے بیش تر ممالک سے آنے والے حجاجِ کرام کی اکثریت جوانوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ ہمارے علماے کرام کو اس مسئلے پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ لوگوں کے سامنے حج کی اہمیت اجاگر کرنا اور انھیں جوانی میں حج کرنے پر اُبھارنا چاہیے۔
۱- میقات سے حج اور عمرہ کی نیت کرنا لازم ہے۔ میقاتیں اللہ کے رسولؐکی جانب سے متعین کردہ ہیں۔ حاجی ومعتمر کے لیے بغیر احرام کے میقات سے گزرنا جائز نہیں ہے، خواہ وہ زمین کے راستے سفر کررہا ہو یا بحری یا ہوائی راستے سے۔ بعض حجاج ہوائی سفر میں بغیر احرام کے میقات سے گزر جاتے ہیں اور جدہ ایئر پورٹ پہنچ کر احرام باندھتے ہیں۔ یہ عمل سنت کے خلاف ہے۔ ان کو چاہیے کہ جہاز میں سوار ہونے سے قبل احرام باندھ لیں اور میقات سے پہلے جہاز ہی میں نیت کرلیں۔ اگر بغیر احرام کے وہ جدہ پہنچ جاتے ہیں تو واپس میقات تک جائیں اور وہاں سے احرام باندھیں۔ اگر ایسا نہیں کرتے ہیںاور جدہ ہی سے احرام باندھتے ہیں تو اکثر علما کے نزدیک اُن پر ایک جانور کے ذبح کرنے کا فدیہ واجب ہے، جو مکہ میں ذبح کیا جائے گا اور فقرا میں تقسیم ہوگا۔
۲- احرام کی حالت میں حاجی ومعتمر دو چادریں استعمال کرتا ہے۔ ایک تہبند کی طرح باندھ لیتا ہے اور دوسری کندھے پر ڈال لیتا ہے۔ بعض حجاج کرام کی چادرناف سے نیچے سرک جاتی ہے اور وہ اس پر کوئی توجہ نہیں دیتے، حالانکہ ناف ستر میں داخل ہے۔ اس کو ڈھکنے کا خصوصی التزام ہونا چاہیے۔
۱- احتیاطاً حجرِ اسود اور رکن یمانی کے درمیان سے طواف شروع کرنا، غلو فی الدین ہے جس سے نبی کریمؐ نے منع کیا ہے۔
۲- زیادہ بھیڑ کی صورت میں حجرِ اسماعیل ؑ (حطیم)کے اندر سے طواف کرنا۔ ایسی صورت میں طواف درست نہیں ہوگا، کیونکہ حطیم خانہ کعبہ کاحصہ ہے۔
۳- ساتوں چکر میں رمل کرنا( دلکی چال چلنا)۔ رمل صرف ابتدائی تین چکروں میں ہے۔
۴- حجرِ اسود کے بوسے کے لیے شدید دھکا مکی کرنا۔ کبھی کبھی نوبت گالم گلوچ اور لڑائی جھگڑے تک پہنچ جاتی ہے، حالانکہ یہ چیز حج میں خصوصیت کے ساتھ ممنوع ہے۔ ارشادِ باری ہے: اَلْحَجُّ اَشْہُرٌ مَّعْلُومَاتٌ فَمَن فَرَضَ فِیْہِنَّ الْحَجَّ فَلاَ رَفَثَ وَلاَ فُسُوقَ وَلاَ جِدَالَ فِیْ الْحَجِّ (البقرہ۲:۱۹۷) ’’حج کے مہینے سب کو معلوم ہیں۔ جو شخص ان مقرر مہینوں میں حج کی نیت کرے، اسے خبردار رہنا چاہیے کہ حج کے دوران اس سے کوئی شہوانی فعل، کوئی بدعملی، کوئی لڑائی جھگڑے کی بات سرزد نہ ہو‘‘۔
۵- حجرِ اسود کے بارے میں یہ خیال کرنا کہ یہ بذاتِ خود نفع ونقصان پہنچاسکتا ہے۔ اسی وجہ سے بعض حضرات اس کا استلام کرکے اپنے پورے بدن پر اور بچوں کے بدن پر ہاتھ پھیرتے ہیں، یہ سراسر جہالت اورناسمجھی کی بات ہے۔ نفع ونقصان کی قدرت صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ حضرت عمرؓ کا واقعہ ہے: ’’آپؓ نے حجرِ اسود کو بوسہ دیا اور فرمایا: مجھے علم ہے کہ تو صرف ایک پتھر ہے، تو نہ نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ نفع، اور اگر میں نے اللہ کے رسولؐ کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے بوسہ نہ دیتا‘‘۔(بخاری، ۱۵۹۷، مسلم، ۳۱۲۶-۳۱۲۸)
۶- پورے خانہ کعبہ کا استلام کرنا۔ ایسا کرنا درست نہیں ہے، کیونکہ استلام ایک عبادت ہے، اور ہر عبادت میں اللہ کے رسولؐ کی پیروی ضروری ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے صرف حجرِاسود اور رکنِ یمانی کا استلام کیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ: ’’حضرت عبداللہ بن عباسؓ اورحضرت معاویہؓ طواف کررہے تھے۔ حضرت معاویہؓ تمام ارکانِ کعبہ کا استلام کرنے لگے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے پوچھا کہ آپؓ ان دونوں ارکان کا استلام کیوں کررہے ہیں، جب کہ اللہ کے رسولؐ نے ان کا استلام نہیں کیا ہے؟ حضرت معاویہؓ نے فرمایا: خانہ کعبہ کا کوئی حصہ متروک نہیں ہے۔ اس پر حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے فرمایا: اللہ کے رسولؐ کا عمل ہی تمھارے لیے اسوۂ حسنہ ہے، تو حضرت معاویہؓ نے فرمایا: آپؓ نے درست فرمایا‘‘۔(مسند احمد، ۱۸۷۷)
۷-ہر طواف کے لیے مخصوص دعا کا التزام کرنا: بایں طور کہ اس کے علاوہ کوئی دعا نہ کرنا، بلکہ بسا اوقات اگر دعا پوری ہونے سے قبل طواف مکمل ہوجاتا ہے تو دعا بیچ ہی میں منقطع کرکے اگلے طواف میں پڑھی جانے والی دوسری دعا شروع کردی جاتی ہے، اور اگر طواف مکمل ہونے سے قبل دعا پوری ہوجاتی ہے تو بقیہ طواف میں خاموش رہا جاتا ہے۔ یہ طرزِ عمل اللہ کے رسولؐ سے ثابت نہیں۔
۸- کچھ لکھی ہوئی دعاؤں کو ان کا معنی ومطلب سمجھے بغیر پڑھتے رہنا۔حالانکہ طواف کرنے والے کو معنی ومطلب سمجھ کر دعا کرنی چاہیے خواہ اپنی مادری زبان میں ہی دعا کرے۔
۹- بعض حجاج کا ایک گروپ کی شکل میں طواف کرنا بایں صورت کہ ان میں سے ایک شخص بلند آواز سے دعا پڑھے اور بقیہ بلند آواز میں اسے دہرائیں۔ یہ چیز دیگر افراد کے خشوع وخضوع میں مخل اور ان کے لیے تکلیف کا باعث بنتی ہے ۔حدیث میں ہے کہ: ’’ایک بار اللہ کے رسولؐ نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ نماز میں بلند آواز سے تلاوت کررہے ہیں تو آپؐ نے فرمایا:نمازی اپنے رب سے ہم کلام ہوتا ہے، تو وہ دیکھے کہ اپنے رب سے کیا کہہ رہا ہے، اورقرآن کی تلاوت میں ایک دوسرے سے آوازیں بلند کرنے کا مقابلہ نہ کرو‘‘۔(موطا امام مالک، ۱۷۷)
۱۰- بعض حجاج یہ سمجھتے ہیں کہ طواف کے بعد کی دو رکعتیں لازماً مقامِ ابراہیمؑ کے پاس پڑھنی چاہییں، چنانچہ اس کے لیے دھکا مکی کرتے اور طواف کرنے والوں کے لیے تکلیف کا باعث بنتے ہیں،حالانکہ یہ خیال صحیح نہیں ۔ یہ دو رکعتیں بیت اللہ میں کسی بھی مقام پر پڑھی جاسکتی ہیں۔
۱۱- بعض حضرات مقامِ ابراہیم ؑ کے پاس بلاسبب کئی کئی رکعات پڑھتے ہیں، جب کہ دیگر حضرات طواف سے فراغت کے بعد وہاں نماز کے منتظر ہوتے ہیں۔
۱۲- بسا اوقات نماز سے فراغت کے بعد گروپ کا رہنما پوری جماعت کے ساتھ بلند آواز سے دعا کرتا ہے اور دیگر نمازیوں کی نماز میں مخل ہوتا ہے۔
سعی کے دوران سرزد ھونے والی خطائیں
۱- بعض حجاج صفا اور مروہ پر چڑھ کر خانہ کعبہ کی جانب رخ کرکے تین بار تکبیرِ تحریمہ کی طرح تکبیر کہتے ہوئے ہاتھ اٹھاتے ہیں۔ یہ عمل سنت کے خلاف ہے۔
آپؐ کے حج کے طریقے میں مروی ہے کہ: ’’جب آپؐ صفا کے قریب پہنچے تو یہ آیتِ کریمہ تلاوت فرمائی: اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِن شَعَآئِرِ اللّٰہِ (البقرہ۲:۱۵۸) ’’یقینا صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں‘‘۔ اور فرمایا: میں اس سے شروع کرتا ہوں جس سے اللہ تعالیٰ نے شروع کیا ہے، چنانچہ آپؐ نے صفا سے سعی کا آغاز کیا اور اس پر چڑھے یہاں تک کہ خانہ کعبہ نظر آگیا، پھر آپؐ نے قبلہ رو ہوکر اللہ تعالیٰ کی تسبیح کی اور اس کی کبریائی بیان کی اور یہ دعا پڑھی: لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَـہٗ، لَـہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ، لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ، اَنْجَزَ وَعْدَہٗ، وَنَصَرَ عَبْدَہٗ، وَھَزَمَ الْاَحْزَابَ وَحْدَہٗ ،’’اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، بادشاہت اسی کی ہے، اور سارے شکریہ کا مستحق بھی وہی ہے، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے، وہ اکیلا ہے، اس نے اپنا وعدہ پورا کیا، اور اپنے بندے کی مدد کی، اور تن تنہا تمام گروہوں کو شکست دی‘‘۔ پھر اس کے درمیان دعا کی۔ اسی طرح تین بار کیا۔ پھر اُتر کر مروہ کی جانب چلے، یہاں تک کہ جب وادی کے بیچ میں پہنچے تو تیزرفتاری سے چلے، اور جب اوپر چڑھ گئے تو عام رفتار سے چلے، یہاں تک کہ مروہ پر پہنچ گئے اور وہاں بھی ویسے ہی کیا جیسے صفا پر کیا تھا‘‘۔(مسلم، ۳۰۰۹)
۲- پوری سعی کے دوران تیزرفتاری سے چلنا سنت کے خلاف ہے۔ تیزرفتاری سے صرف دونوں سبز لائٹوں کے درمیان چلنا ہے، بقیہ سعی میں عام چال چلنا ہے۔
۳- بعض خواتین دونوں سبز لائٹوں کے درمیان مردوں کی طرح تیزرفتاری سے چلتی ہیں، حالانکہ عورتوں کو تیزی سے نہیں، بلکہ عام رفتار سے چلنا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کا ارشاد ہے: ’’طواف میں رمل اور سعی میں تیزرفتاری عورتوں کے لیے نہیں ہے‘‘۔(سنن دارقطنی، ۲۷۶۶، سنن کبری للبیہقی، ۹۳۲۱)
۴- بعض حجاج جب صفا یا مروہ کے قریب پہنچتے ہیں تو یہ آیت پڑھتے ہیں: اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِن شَعَآئِرِ اللّٰہِ ، حالانکہ سنت یہ ہے کہ صرف پہلی سعی میں جب صفا کے قریب پہنچے تو یہ آیت پڑھے۔
۵- بعض حجاج ہر چکر میں مخصوص دعا پڑھتے ہیں۔ اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
۶- بعض حجاج سعی کے دوران اضطباع کرتے ہیں، یعنی دایاں کندھا کھلا رکھتے ہیں۔ یہ درست نہیں ہے۔ اضطباع صرف طوافِ قدوم میں مسنون ہے۔
۱- بعض حجاج حدودِ عرفہ سے پہلے ہی قیام کرلیتے ہیں، اور سورج غروب ہونے تک وہیں رہتے ہیں، پھر وہیں سے مزدلفہ چلے جاتے ہیں، اور عرفہ میں قیام ہی نہیں کرتے۔ یہ بہت بڑی غلطی ہے اور اس کی وجہ سے حج فوت ہوجاتا ہے، کیونکہ وقوفِ عرفہ حج کا بنیادی رکن ہے۔ اس کے بغیر حج درست نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ جو وقوف کے وقت میں یہاں وقوف نہ کرے اس کا حج نہیں ہوا۔ ارشادِ نبویؐ ہے: ’’حج وقوفِ عرفہ کا نام ہے، چنانچہ جو شخص مزدلفہ کی رات فجر طلوع ہونے سے قبل بھی عرفہ آگیا تو اس نے حج پالیا‘‘(سنن ترمذی، ۸۸۹، سنن نسائی، ۳۰۴۴، سنن ابن ماجہ، ۳۰۱۵)۔ یہ غلطی اس وجہ سے ہوتی ہے کہ بعض حضرات عرفہ سے قبل ہی قیام کرلیتے ہیں اور دوسرے انھیں دیکھ کر دھوکاکھا جاتے ہیں۔ اس لیے حجاجِ کرام کو چاہیے کہ وہ حدودِ عرفہ کی اچھی طرح تحقیق کرکے ہی قیام کریں۔ حدود کا تعیین کرنے والے بورڈوں اور وہاں کام کرنے والے افراد سے رہنمائی لینا مناسب ہوگا۔
۲- بعض حجاج غروبِ آفتاب سے قبل ہی عرفہ سے نکل جاتے ہیں۔ یہ عمل سنت کے خلاف ہے۔ آپؐ غروب کے بعد عرفہ سے نکلے تھے۔
۳- دعا کے دوران قبلہ کے بجاے جبل رحمت کی جانب رخ کرنا۔ یہ سنت کے خلاف ہے۔ آپؐ نے قبلہ رو ہوکر دعا کی۔
۴- بعض حجاج عرفہ میں ظہر اور عصر کی نمازیں اپنے اپنے وقت پر مکمل ادا کرتے ہیں۔ یہ سنت کے خلاف ہے۔ یہاں ظہر اور عصر کی نماز ایک ساتھ ظہر کے وقت میں ادا کرنی چاہیے، جیسا کہ نبیؐ نے کیا۔ حضرت جابرؓ نبی کریمؐ کے حج کے تذکرے میں عرفہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’پھر اذان کہی گئی، پھر اقامت کہی گئی اور آپؐ نے ظہر پڑھی، پھر اقامت کہی گئی اور آپؐ نے عصر پڑھی، اور ان دونوں کے درمیان کچھ نہیں پڑھا‘‘۔(مسلم، ۳۰۰۹)
۵- منیٰ، عرفہ اور مزدلفہ میں نماز قصر کے ساتھ پڑھنے کا حکم حج کا ایک خاص حکم ہے۔ اس میں اہلِ مکہ اور غیر اہلِ مکہ سب شامل ہیں۔ اس لیے کہ نبی کریمؐ نے حجۃالوداع کے موقع پر ان مقامات پر جب جب نمازیں پڑھائیں تو آپؐ کے ساتھ اہلِ مکہ بھی ہوتے تھے، لیکن آپؐ نے انھیں نماز پوری کرنے کا حکم نہیں دیا۔ اگر نماز پوری کرنا ضروری ہوتا تو آپؐ انھیں اس کا حکم دیتے، جیسا کہ فتحِ مکہ کے موقع پر آپؐ نے کیا۔ حضرت عمران بن حصینؓ فرماتے ہیں: ’’میں فتحِ مکہ میں رسولؐ اللہ کے ساتھ تھا۔ آپؐ نے وہاں ۱۸ دن قیام کیا۔ آپؐ دو رکعتیں پڑھتے تھے اور کہتے: ’’اے اہلِ مکہ، چار رکعتیں پڑھو، کیونکہ ہم مسافر ہیں‘‘ (سنن ابوداؤد، ۱۲۳۱) ۔ البتہ اگر کچھ لوگ منیٰ یا عرفہ میں مستقل سکونت اختیار کرلیں تو قصر نہیں کریں گے۔ (موطا امام مالک، باب صلاۃ منیٰ، ۹۰۴)
۶- عرفہ میں ۹ ذی الحجہ کی ظہر اور عصر، نیز مزدلفہ میں مغرب اور عشاء ایک ساتھ جمع کرکے پڑھیں گے، جب کہ منیٰ میں تمام نمازیں اپنے اپنے وقت پر پڑھیں گے۔
۱- مزدلفہ کی رات کو سب سے افضل رات بتایا جاتا ہے اور اس میں عبادت کی بڑی فضیلت بیان کی جاتی ہے۔ حالانکہ اللہ کے رسولؐ نے اس رات مغرب اور عشاء کی نمازیں پڑھ کر طلوع فجر تک آرام کیا۔ حضرت جابرؓ فرماتے ہیں: ’’پھر آپؐ مزدلفہ آئے، اور یہاں مغرب اور عشاء کی نمازیں ایک اذان اور دو اقامت سے ادا کیں، اور ان دونوں کے درمیان کوئی نفل نماز نہیں پڑھی۔ پھر آپؐ لیٹ گئے یہاں تک کہ فجر طلوع ہوگئی‘‘۔ (مسلم،۳۰۰۹)
۲- بعض حجاج غروب آفتاب کے فوراً بعد مغرب پڑھ لیتے ہیں خواہ عرفہ ہی میں ہوں۔ بہتر یہ ہے کہ غروب کے فوراً بعد عرفہ سے نکل جائیں اور مزدلفہ پہنچ کر مغرب اور عشاء ایک ساتھ پڑھیں۔
۱- یہ اعتقاد رکھنا کہ مزدلفہ سے کنکریاں چننا ضروری ہے، چنانچہ رات میں بڑی مشقتوں کے ساتھ کنکریاں چنتے ہیں اور پھر منیٰ میں ان کو بڑا سنبھال کر رکھتے ہیں۔ اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں: ’’عقبہ کی صبح اللہ کے رسولؐ نے اپنی سواری پر بیٹھے ہوئے مجھ سے فرمایا کہ میرے لیے کنکریاں چنو، تو میں نے آپؐ کے لیے کنکریاں چنیں، جو چنے کے دانے کے برابر تھیں۔ جب میں نے انھیں آپؐ کے ہاتھ میں رکھا تو آپؐ نے فرمایا : ان جیسی کنکریوں سے رمی کرو، اور دین میں غلو سے بچو، کیونکہ تم سے پہلے کے لوگوں کو دین میں غلو نے ہلاک کردیا‘‘ (سنن نسائی، ۳۰۵۷، سنن ابن ماجہ، ۳۰۲۹)۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ نے جمرہ کے پاس کھڑے ہو کر کنکریاں چننے کا حکم دیا۔
۲- رمی کرتے ہوئے یہ اعتقاد رکھنا کہ ہم شیطان کو مار رہے ہیں، چنانچہ جمار کو شیطان کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ نیز انتہائی غصے اور غیظ وغضب کے ساتھ شیطان کو صلواتیں سناتے ہوئے کنکری مارتے ہیں۔ بسا اوقات بعضے اشخاص غصے کی شدت کی وجہ سے اوپر چڑھ کر جمار کو جوتوں اور بڑے پتھروں سے مارنے لگتے ہیں۔ یہ سب کچھ بے بنیاد ہے۔ اللہ کے رسولؐ کا ارشاد ہے: ’’خانہ کعبہ کا طواف، صفا مروہ کی سعی اور رمی جمار اللہ تعالیٰ کا ذکر قائم کرنے کے لیے ہے‘‘۔(سنن ابوداؤد، ۱۸۹۰)
۳- بڑی بڑی کنکریوں، جوتے، چپلوں اور لکڑیوں سے رمی کرنا۔ یہ سراسر شریعت کے خلاف ہے۔ آپؐ نے چنے کے برابر کنکریوں سے رمی کی اور بصراحت فرمایا کہ: ’’اور دین میں غلو سے بچو، کیونکہ تم سے پہلے کے لوگوں کو دین میں غلو نے ہلاک کردیا‘‘۔
۴- جمرات کی طرف انتہائی شدت کے ساتھ بڑھنا، بایں طور کہ نہ دل میں اللہ کا خوف ہو اور نہ بندوں پر رحم کا جذبہ۔ چنانچہ لوگوں کے لیے تکلیف کا باعث بنتے ہیں۔ اور کبھی کبھی بات گالم گلوچ اور مار پیٹ تک پہنچ جاتی ہے۔ اس طرح کے طرزِ عمل سے بچنا چاہیے اور اطمینان وسکون کے ساتھ رمی کرنی چاہیے۔
۵- ایامِ تشریق (۱۱،۱۲،۱۳ ذی الحجہ) میں پہلے اور دوسرے جمرہ کی رمی کے بعد دعا نہ کرنا، جب کہ اللہ کے رسولؐ کے طریقۂ حج میں یہ دعا ثابت ہے۔ ’’اللہ کے رسولؐ جب مسجد منیٰ کے قریب والے جمرہ کو کنکریاں مارتے تو سات کنکریاں مارتے، ہر کنکری کے ساتھ تکبیر کہتے، پھر آگے بڑھ کر کھڑے ہوجاتے اور قبلہ رو ہوکر ہاتھ اٹھا کر دیر تک دعا کرتے۔ پھر دوسرے جمرہ کے پاس آتے اور اسے بھی سات کنکریاں مارتے، ہر کنکری کے ساتھ تکبیر کہتے، پھر بائیں جانب وادی سے قریب اُتر کر کھڑے ہوجاتے اور ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے۔ پھر عقبہ کے قریب والے جمرہ کے پاس آتے اور اسے سات کنکریاں مارتے، ہر کنکری کے ساتھ تکبیر کہتے، پھر واپس چلے جاتے اور اس کے بعد کھڑے نہیں ہوتے‘‘۔(بخاری، ۱۷۵۳)
۶- ساری کنکریاں ایک بار میں مار دینا۔ یہ بہت بڑی غلطی ہے، اور ایسی صورت میں یہ صرف ایک کنکری شمار ہوگی۔ ہر کنکری الگ الگ مارنی ضروری ہے۔
۷- رمی کرتے وقت غیر منقول دعائیں پڑھنا، جیسے اَللّٰھُمَّ اجْعَلْھَا رِضًا لِلرَّحْمٰنِ، وَغَضَبًا لِلشَّیْطَانِ۔ بسااوقات اس دعا کو پڑھنے کے چکر میں نبیؐ سے منقول تکبیر تک چھوڑ دی جاتی ہے۔ بہتر یہ ہے کہ آپؐ سے جتنا ثابت ہے بلا کمی بیشی کے اس پر عمل کیا جائے۔ آپؐ صرف تکبیر کہتے ہوئے ہر کنکری مارتے تھے۔
۸- رمی جمار میں سستی کرنا اور بلاعذر، قدرت کے باوجود دوسروں کو رمی کے لیے وکیل بناکر بھیجنا۔ ارشادِ باری ہے: وَاَتِمُّواْ الْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ لِلّٰہِ (البقرہ۲:۱۹۶) ’’اللہ کی خوشنودی کے لیے جب حج اور عمرہ کی نیت کرو تو اسے پورا کرو‘‘۔ اس لیے جو شخص رمی کرنے کی طاقت رکھتا ہو اسے خود رمی کرنی چاہیے اور اس راہ میں آنے والی مشقتوں اور پریشانیوں پر صبر کرنا چاہیے، کیونکہ حج ایک قسم کا جہاد ہے اور اس میں پریشانیوں کا وجود لازم ہے۔
۹- رمی جمرات کے وقت کے تعیین کے سلسلے میں علماے کرام کی دو رائیں ہیں۔ ایک راے یہ ہے کہ ۱۰ ذی الحجہ کی رمی کا وقت طلوعِ آفتاب کے بعد شروع ہوتا ہے اور ۱۱،۱۲،۱۳ ذی الحجہ کو اس کا وقت زوال کے بعد شروع ہوتا ہے، اس سے قبل رمی کرنا جائز نہیں ہے۔ بعض دیگر علماے کرام نے حالات کے لحاظ سے یہ فتویٰ دیا کہ طلوعِ فجر کے بعد بھی رمی کی جاسکتی ہے۔ اس مسئلے میں ایک معتدل راے یہ نظر آتی ہے کہ وقت کے تعیین کا امر حاجی کی صواب دید پر چھوڑ دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے: فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ (التغابن۶۴:۱۶) ’’جہاں تک تمھارے بس میں ہو اللہ سے ڈرتے رہو‘‘۔ نیز آپؐ نے فرمایا: میں نے جس سے تمھیں منع کیا ہے اس سے باز رہو اور جس کا حکم دیتا ہوں اسے حسب ِ استطاعت بجا لائو‘‘۔(بخاری:۷۲۸۸، مسلم: ۶۲۵۹)
آیتِ کریمہ اور حدیث نبویؐ کو سامنے رکھتے ہوئے ہر حاجی خود یہ فیصلہ کرے کہ حالات کے مطابق اس کے لیے کس طریقے پر عمل کرنا زیادہ بہتر ہے، مثلاً جن حجاج کرام کو منیٰ میں خیمے میسر ہوں انھیں اس بات کی کوشش کرنی چاہیے کہ وہ زوال کے بعد رمی کریں۔ البتہ جن حجاج کو منیٰ میں خیمے میسر نہیں ہوتے اور انتظامیہ کے افراد انھیں ہمہ وقت شارع پیمائی پر مجبور رکھتے ہیں، ان کے لیے رخصت پر عمل کرتے ہوئے طلوعِ فجر کے بعد سے ہی رمی کی اجازت ہونی چاہیے۔
۱- ۱۲ یا ۱۳ ذی الحجہ کو رمی جمرات سے پہلے منیٰ سے مکہ آکر طوافِ وداع کرلینا، پھر منیٰ واپس جاکر رمی کرنا، پھر وہیں سے وطن لوٹ جانا۔ یہ جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ سنت کے خلاف ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں: ’’لوگوں کو یہ حکم دیا گیا کہ ان کا آخری وقت بیت اللہ کے ساتھ ہو(یعنی طوافِ وداع کریں)، البتہ حائضہ سے یہ معاف کردیا گیا‘‘ (بخاری، ۱۷۵۵، مسلم، ۳۲۸۴)۔ نیز حضرت عمرؓ کا اس باب میں صراحتاً یہ حکم ہے کہ جس نے طوافِ وداع کے بعد رمی کی تو اس کا طواف وداع نہیں ہوگا، اور اس پر یہ واجب ہوگا کہ وہ رمی کے بعد دوبارہ طواف کرے۔ اگر وہ دوبارہ طواف نہیں کرتا تو اس کا حکم اس شخص کے حکم کی طرح ہے جس نے طوافِ وداع کیا ہی نہیں۔
۲- طوافِ وداع کے بعد بلا عذر مکہ میں رکے رہنا، البتہ اگر طواف کے بعد نماز کا وقت ہوجائے تو نماز پڑھ سکتا ہے۔ اسی طرح سفر کی ضروریات کی وجہ سے اگر دیر ہوجائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔
۳- طوافِ وداع کے بعد خانہ کعبہ کی جانب منہ کرکے مسجد ِ حرام سے نکلنا، بایں طور کہ خانہ کعبہ کی جانب پیٹھ نہ ہو، اور یہ سمجھنا کہ اس میں خانہ کعبہ کی تعظیم واحترام کا پہلو مد ِ نظر ہے۔ یہ سراسر بدعت ہے۔ اللہ کے رسولؐ، خلفاے راشدینؓ اور صحابہ کرامؓ میں سے کسی کا یہ عمل نہیں تھا۔
۴- طواف مکمل کرنے کے بعد خانہ کعبہ کی جانب رخ کرکے الوداعی دعاوسلام کرنا۔ یہ چیز بھی بدعت ہے۔ اس لیے کہ جس طرح نبیؐ کی اتباع میں ان افعال کو کرنا واجب ہے جو آپؐ نے کیے ہیں، اسی طرح ان افعال کو ترک کرنا بھی ضروری ہے جو آپؐ نے نہیں کیے تھے۔
حدودِ حرم کے اندر مقیم اہلِ مکہ اگر عمرہ کرنا چاہیں تو ان کے لیے ضروری ہے کہ حدودِ حرم سے باہر جاکر احرام باندھیں۔ اسی لیے حجۃالوداع کے موقع پر جب حضرت عائشہؓ ماہواری کی وجہ سے عمرہ نہ کرسکی تھیں تو طہارت کے بعد اللہ کے رسولؐ نے ان کو ان کے بھائی حضرت عبدالرحمن بن ابی بکرؓ کے ساتھ حدودِ حرم سے باہر تنعیم نامی مقام پر عمرہ کا احرام باندھنے کے لیے بھیجا تھا۔ یہ رخصت مخصوص حالت کی وجہ سے تھی۔ اسی لیے صحابہ کرامؓ نے کبھی بھی اس رخصت کو ہر شخص کے لیے عام نہیں سمجھا، بلکہ خود حضرت عائشہؓ اس کو عام تصور نہیں کرتی تھیں۔ لیکن آج اس رخصت پر اس عموم کے ساتھ عمل ہورہا ہے کہ عقل حیران ہے۔ آپؐ نے حج وعمرہ کی خاطر مکہ آنے والوں کے لیے میقاتیں مقرر کی ہیں اور فرمایا:’’یہ حددو مذکورہ ممالک کے لوگوں کے لیے اور اہل میقات کے علاوہ یہاں سے گزرنے والے ان تمام لوگوں کے لیے بھی ہیں جو حج یا عمرہ کرنا چاہتے ہیں‘‘۔ نیز جو حضرات میقات اور حد ِ حرم کے درمیان رہایش پذیر ہیں وہ حج اور عمرہ کا احرام اپنے گھروں سے باندھیں گے۔ اور جو حضرات حدودِ حرم کے اندر رہتے ہیں وہ حج کا احرام اپنے گھروں سے، اور عمرہ کا احرام حدودِ حرم سے باہر نکل کر باندھیں گے۔
اب صورت حال یہ ہوگئی ہے کہ حجاج کی ایک بڑی اکثریت بغیر کسی عذر کے تنعیم (یا حدودِ حرم سے باہر کسی بھی مقام) سے عمرہ کا احرام باندھ کر کثرت سے عمرہ کرتی ہے۔ بغیر کسی عذر کے ایسا کرنا مناسب نہیں۔ البتہ اس امر میں تشدد برتتے ہوئے اس کو مطلق ناجائز قرار دینا بھی غلط ہے۔ ایک معتدل نقطۂ نظر یہ ہے کہ اس سلسلے میں حجاج کے درمیان فرق کیا جائے اور ہر ایک پر یکساں حکم لگانے سے گریز کیا جائے۔ لہٰذا یہ کہا جائے کہ جو حضرات دُور دراز ممالک سے آئے ہیں، اور غالب گمان یہ ہے کہ یہ ان کا پہلا اور آخری سفرِ حرمین ہے، تو ایسے لوگوں کے لیے یہ گنجایش نکالی جاسکتی ہے کہ وہ بلا عذر بھی اس رخصت پر عمل کریں۔ البتہ جو لوگ سعودی عرب اور آس پاس ممالک میں مقیم ہیں اور جن کا کثرت سے مکہ آنا ہوتا ہے وہ بلاعذر اس رخصت پر عمل نہ کریں، بلکہ متعینہ میقات سے ہی احرام باندھیں۔ واللّٰہ اعلم، وھو الموفق للصواب۔
مقالہ نگار اسلامی یونی ورسٹی، مدینہ منورہ میں استاد ہیں۔