سعدیہ گلزار


اللہ تعالیٰ نے انسان کو دنیا میں بھیجنے کے بعد نعمتوں سے نوازا اور ساتھ ہی چند حدود کو بھی مقرر کر دیا تاکہ انسان ان حدود کو توڑ کر دوسروں کا استحصال نہ کرے۔ ان حدود ’حلال و حرام‘ کے ساتھ عمدہ اخلاق کے بھی احکام دیے۔ اخلاق لفظ ’خلق‘ کی جمع ہے۔ ’خلق‘ کا لفظ عام طور پر عادت، خصلت اور خُو کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ راغب اصفہانی کے نزدیک: ’’خلق کا لفظ عادت اور خصلت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جن کا تعلق بصیرت سے ہوتا ہے‘‘ (المفردات فی غریب القرآن، ص ۱۵۸)۔ جیساکہ قرآن مجید میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ارشاد ہے: وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍo (القلم ۶۸:۴) ’’اور بے شک آپؐ اخلاق کے بلند ترین مرتبے پر ہیں‘‘۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد ہی اخلاق کی تکمیل بیان کیا گیا ہے: ’’مجھے حُسنِ اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث کیا گیا ہے‘‘(موطا)۔ اسوئہ حسنہ سے تزکیہ اخلاق کی واضح ترغیب ملتی ہے۔  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’نیکی اچھے اخلاق کا نام ہے‘‘(مسلم)۔ نبی کریمؐ نے کامل مومن اس شخص کو قرار دیا جس کا اخلاق بہترین ہو: ’’مومنوں میں سب سے زیادہ کامل ایمان اس کا ہے جس کے اخلاق سب سے بہتر ہیں‘‘۔ (سنن ابوداؤد)

اسلام کا نظامِ اخلاق ہماری زندگی کے ہرشعبے پر محیط ہے۔ رائج الوقت معاشی نظاموں میں بداخلاقیاں اس طرح سرایت کرچکی ہیں کہ ان میں حلال و حرام کی تمیز ہی مٹ کر رہ گئی ہے۔ انسانوں کو اپنے معاشرے میں ساتھ رہتے ہوئے بھی لوگوں کے معاشی حقوق کا احساس نہیں۔ اسلام اخلاقیات کو ایمانیات کے ساتھ مربوط کرتا ہے تاکہ انسان اخلاقی ترغیبات سے دوسروں کے حقوق ادا کرے اور کسی کے حق پر دست درازی نہ کرے۔ انسان کی زندگی میں لاتعداد خواہشات ہوتی ہیں، لیکن ان کو پورا کرنے کے وسائل محدود ہیں۔ نتیجتاً انسان اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے دوسروں کے حقوق پر دست درازی شروع کردیتا ہے۔ اگر انسان اخلاقی اصولوں کو اپنائے تو مختلف خواہشات کو ایک اصولِ واحد کے تحت منظم کر کے پُرسکون زندگی بسر کرسکتا ہے۔

اسلام کی اخلاقی تعلیمات معیشت، سیاست اور نظامِ عبادت میں اسی طرح جاری و ساری ہیں جس طرح جسم میں گردش کرتا ہوا خون۔ عصری نظامِ تجارت میں معاشی بداخلاقیاں رائج ہیں۔ احتکار (ذخیرہ اندوزی) ہی کو لے لیں کہ اشیا فروخت کرنے کے لیے بازار میں نہیں لائی جارہی ہیں۔ غذائی اجناس کو ضائع کیا جا رہا ہے، ناپ تول میں کمی، بدعہدی، سود، رشوت اور ملاوٹ وغیرہ___ ان کی وجہ سے صارفین کا استحصال ہوتا ہے۔ ارتکاز دولت کو تقویت ملتی ہے اور طبقاتی کش مکش پروان چڑھتی ہے۔ اسلام معاشی استحصال کے خاتمے کے لیے معاشی اخلاقیات کی تعلیم دیتا ہے۔ ذیل میں چند اہم نکات پیش ہیں:

  •  ناجائز ذرائع آمدن کی ممانعت: اسلام میں ناجائز ذرائع دولت کی ممانعت ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّآ اَنْ تَکُوْنَ تِجَارَۃً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْکُمْ(النساء ۴:۲۹) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقوں سے نہ کھائو، ماسواے تجارت جو کہ تمھاری باہمی رضامندی سے ہو۔

حافظ ابن کثیر (م: ۷۷۴ھ) اس آیت کے ضمن میں لکھتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ نے باطل طریقوں سے مال کھانے کی ممانعت فرمائی ہے، جیسے سودخوری، قمار بازی، اور ایسے ہی ہر طرح کے ناجائز ذرائع جن سے شریعت نے منع فرمایا ہے‘‘(تفسیر ابن کثیر)۔ حرام مال سے مراد صرف کھانا نہیں بلکہ مال کا ناجائز استعمال اور اپنے تصرف میں لے آنا ہے۔ باطل سے مراد ہے ہر ناجائز طریقہ جو عدل و انصاف، قانون اور سچائی کے خلاف ہو۔ اس کے تحت جھوٹ، خیانت، غضب، رشوت، سود، سٹہ، جوا، چوری اور معاملات کی وہ ساری قسمیں آتی ہیں جن کو اسلام نے ناجائز قرار دیا ہے۔

امام شافعیؒ (م: ۳۰۴ھ) لکھتے ہیں: تم تجارت میں باہمی رضامندی کی خریدوفروخت یا کرایہ داری کے ساتھ مال کھائو، لیکن ہر رضامندی تجارت میں معتبر نہیں ہوتی۔ رضامندی     شرعی حدود کے اندر ہونی چاہیے۔ تجارت میں سود کا مال اور قرض حلال نہیں ہے اور نہ ایسا مال لینے اور دینے والے کے درمیان سٹہ بازی اور گروی جائز قرار پاتی ہے۔ یہاں تک کہ اگر دونوں طرف سے رضامندی بھی ہو، کیونکہ ان کی رضامندی شریعت الٰہی کے برعکس ہے‘‘۔(الام،ج ۳،ص ۳)

نبی اکرمؐ نے افضل عمل حلال کمائی کے لیے جدوجہد کو قرار دیا ہے: ’’اعمال میں افضل حلال ذرائع سے کمانا ہے‘‘(کنزالعمال، ج ۷، ص ۷)۔ اسی طرح آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’افضل ترین کمائی وہ تجارت ہے جو خیانت اور جھوٹ سے پاک ہو، اور انسان کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا ہے‘‘۔(ایضاً)

عصری نظامِ تجارت کو اسلامی اصولوں سے ہم کنار کرنا ضروری ہے جس میں حلال و حرام کو واضح کیا جائے اور اخلاقی اقدار کو روشناس کروایا جائے تاکہ معیشت خوش حالی سے ہم کنار ہوسکے۔ احتکار اور اتلافِ مال کے بجاے اشیا کو مناسب قیمتوں پر فروخت کیا جائے۔ ایفاے عہد، سچائی، شرکت، مضاربت، اخوت اور عدل و احسان کو متعارف کروایا جائے، جیساکہ ناپ تول کے بارے میں آتا ہے: ’’اے تولنے والے تولو اور جھکتا ہوا تولو‘‘ (ابن ماجہ)۔ ان اخلاقی اقدار ہی کے ذریعے نظامِ تجارت ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے۔

  •  اسراف اور تبذیر: اسراف سے مراد لغو امور پر خرچ کرنا، احتیاجات (ضروریات) سے زیادہ خرچ کرنا، انسان کو جو چیز پسند آئے اس کو خرید لینا، جو جی چاہے کھا لینا ہے، اور مال کو حق کے علاوہ خرچ کرنا، گناہ کے کاموں پر خرچ کرنا چاہے وہ ایک درہم ہی کیوں نہ ہو۔ اگر جائز اور بھلائی کے کاموں پر خرچ کیا جائے تو وہ تبذیر کے زمرے میں نہیں آئے گا۔ گویا اسراف سے مراد جائز اشیا پر خرچ کرنے میں حد سے تجاوز کرنا ہے، جب کہ تبذیر سے مراد ناجائز امور پر خرچ کرنا ہے۔ شادی بیاہ کی رسموں اور غمی کے موقع پر کئی غیرضروری رسم و رواج پر خرچ بھی اسراف میں آتا ہے، جب کہ دوسری طرف غریب طبقے میں احساسِ کمتری اور مصائب میں اضافہ ہوتا ہے۔ بخیل شخص اپنی بنیادی ضروریات، اہل و عیال ، رشتہ داروں، ضرورت مندوں اور سائلین پر خرچ کرنے سے اجتناب کرتا ہے۔ عادتِ بخل کے سبب دولت چند ہاتھوں میں مرتکز ہوکر رہ جاتی ہے۔ معیشت میں اشیا کے لیے صارفین کی طلب میں کمی واقع ہوجاتی ہے اور حسد و نفرت کے جذبات پروان چڑھتے ہیں۔ اسی لیے اسلام میں اسراف و تبذیر سے منع کیا گیا ہے:

وَّ کُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَo (اعراف ۷:۳۱) کھائو پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو، اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْٓا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ ط وَ کَانَ الشَّیْطٰنُ لِرَبِّہٖ کَفُوْرًا o  (بنی اسرائیل ۱۷:۲۷) فضول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے۔

شاہ ولی ؒ اللہ فرماتے ہیں: ’’عیاشی اور عیش پسندی میں امکان و توفیق جس شکل میں بھی ہو شرع کی نظر میں سخت ناپسندیدہ ہے، کیونکہ اس کی وجہ سے انسان اسفل السافلین میں جاگرتا ہے اور انسان کے قواے فکریہ پر تاریکی کے بادل چھا جاتے ہیں‘‘۔ (حجۃ اللّٰہ البالغۃ)

  •  خرچ میں اعتدال: اسلام صَرف میں ’اصولِ اعتدال‘ کو متعارف کرواتا ہے:

وَالَّذِیْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَلَمْ یَقْتُرُوْا وَکَانَ بَیْنَ ذٰلِکَ قَوَامًاo (الفرقان ۲۵: ۶۷) جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بخل، بلکہ اُن کا خرچ دونوں انتہائوں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے۔

ایک دوسرے موقع پر فرمایا:

وَلَا تَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُوْلَۃً اِلٰی عُنُقِکَ وَ لَا تَبْسُطْھَا کُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًاo (بنی اسرائیل ۱۷:۲۹) نہ تو اپنا ہاتھ گردن سے باندھ رکھو اور نہ اسے بالکل ہی کھلا چھوڑ دو کہ ملامت زدہ اور عاجز بن کر رہ جائو۔

ایک شخص کی دانائی میں یہ بات بھی شامل ہے کہ وہ اپنی معیشت میں اعتدال کی راہ اختیار کرے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’کھائو پیو اور پہنو اور صدقہ کرو، اسراف و تکبر کے بغیر‘‘ (بخاری)۔ حضرت حذیفہؓ فرماتے ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں چاندی کے برتنوں میں کھانے پینے سے منع فرمایا ہے، نیز ریشم اور دیباج کے کپڑے پہننے اور بچھانے سے بھی۔ (بخاری)

اسلام یہ بھی ہدایت کرتا ہے کہ صارف خرچ کرنے میں ’عدل‘ سے کام لے، یعنی جہاں روکنا ضروری ہو وہاں روکا جائے اور جب خرچ کرنا ضروری ہو وہاں خرچ کیا جائے۔ پس خرچ کی ضرورت کی جگہ پر روک رکھنا بخل ہے اور روک رکھنے کی ضرورت کی جگہ خرچ کرنا اسراف ہے اور ان دونوں کے بین بین خرچ کرنا اچھا ہے۔

اسلام ہمیں خرچ کرنے میں قناعت کا حکم دیتا ہے۔ قناعت سے مراد یہ ہے کہ حلال ذرائع سے انسان کو جو کچھ ملے،اس پر وہ راضی اور مطمئن ہوجائے۔ زیادہ حرص و لالچ نہ کرے کیونکہ   حرص و طمع انسان کو حرام ذرائع کو اپنانے پر مجبور کردیتی ہے۔ وہ انسان جس کو ایمان کی دولت نصیب ہو، گزربسر کا سامان میسر ہو، اور اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ اسے قناعت جیسی نعمت عطا فرما دے، تو اس سے بڑھ کر خوش نصیب انسان دنیا میں اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ نبی کریمؐ کا ارشاد ہے: ’’امیر ہونا سامان بہت ہونے سے نہیں بلکہ دل سے ہے‘‘ (مسلم،ترمذی)۔ آپؐ نے مزید ارشاد فرمایا: ’’اس شخص نے فلاح پائی جو اسلام لایا اور اسے ضرورت کے مطابق رزق دیا گیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی روزی پر قناعت دی‘‘ (مسلم،ترمذی)۔ فلاح سے مراد قلبی سکون اور آخرت کے عذاب سے چھٹکارا ہے۔

  •  سود کی ممانعت: ملکی سطح پر اگر نظامِ مالیات کا جائزہ لیا جائے تو یہ سود پر مبنی ہے۔ سودی نظام نہ صرف قوموں کی معاشی بدحالی کا سبب ہے بلکہ معاشرے سے محبت و اخلاص کے جذبات کو بھی ناپید کر رہا ہے۔ سودخور انسانی ہمدردی سے عاری اور دوسروں کی مجبوریوں سے فائدہ اُٹھانے کے درپے ہوتا ہے۔ سودی نظام میں ایثار و احسان جیسی اخلاقی قدروںکا تصور بھی محال ہے۔ عالمی اقتصادی نظام سودی سامراجیت کو پروان چڑھاتا ہے۔ قوموں میں بُغض و عداوت کا بیج بوتا ہے جو بالآخر جنگ کا پیش خیمہ بھی بن جاتا ہے۔ اسلام میں سود کی قطعی حُرمت کا حکم ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰٓوا اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ o فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖج (البقرہ ۲:۲۷۸-۲۷۹) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، خدا سے ڈرو اور جو کچھ تمھارا سود لوگوں پر باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو، اگر واقعی تم ایمان لائے ہو۔ لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا، تو آگاہ ہوجائو کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف سے تمھارے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔

سود کی ممانعت حدیث نبویؐ سے بھی ثابت ہے: ’’سود ۷۰ گناہوں کے برابر ہے، جیسا کوئی اپنی ماں سے نکاح کرے‘‘(ابن ماجہ)۔ نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا: ’’معراج کی رات مجھے کچھ لوگوں پر گزارا گیا جن کے پیٹ مکانوں کے مانند تھے۔ ان میں سانپ باہر سے نظر آتے تھے۔ میں نے جبرئیل ؑ سے کہا: یہ کون لوگ ہیں؟ انھوں نے کہا: یہ سودخور ہیں‘‘۔(ابن ماجہ)

نظامِ مالیات کی دوسری بڑی بداخلاقی غیرضروری ٹیکسوں کا نظام ہے۔ ان ٹیکسوں کی بھرمار نے صارفین کو مشکلات کا شکار کر دیا ہے۔ اسلام زکوٰۃ اور صدقات کے نظام کو رائج کرتا ہے۔ زکوٰۃ کو فرض قرار دینے کے ساتھ غریبوں کا حق قرار دیا۔ وَفِیْٓ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ (الذاریات ۵۱:۱۹)’’اور ان کے مالوں میں سوال کرنے والے اور محروم لوگوں کا حق ہے!‘‘، تاکہ غریبوں کی عزتِ نفس برقرار رہے، اور آج زکوٰۃ لینے والا کل دینے والا بن جائے۔ دنیا آج اس نہج پر سوچتی ہے کہ سودی قرضوں کے بغیر ترقی ممکن ہی نہیں۔ اگر وہ صرف ایک نظر تاریخ پر ڈالیں تو ان کو راہِ عمل مل سکتی ہے۔ حضرت عمرفاروقؓ کے عہد میں زکوٰۃ دینے والے تو ملتے تھے   مگر لینے والا نہیں ملتا تھا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قرآن و سنت کی اعلیٰ اخلاقی اقدار جو کہ حرام ذرائع دولت کا خاتمہ اور گردش دولت کے عمدہ اصولوں سے متعارف کرواتی ہیں، کو اپنایا جائے،    نیز مادہ پرستانہ رویوں کو چھوڑ کر احسان و ایثار جیسے اوصاف کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنایا جائے۔  اسلام خیرخواہی، ایثار، تعاون اور احسان کا دین ہے۔

آج بھی اگر اسلامی نظامِ اخلاق کو معیشت کے اندر نافذ کیا جائے تو غربت کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ عوام الناس کی مادی و روحانی خوش حالی ممکن ہے۔ معیشت ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ نظامِ معیشت میں اخلاق کی بنیاد نفع اندوزی اور ملّی فوائد پر رکھی جاتی ہے۔ انھیں ہر وقت شکست و ریخت اور تبدیلی کا خطرہ رہتا ہے، اور ایسا نظامِ پایدار نہیں ہوتا۔ مسلمانوں کی معاشی پس ماندگی کا ایک سبب اخلاقی گراوٹ، مذموم صفات اور ناپسندیدہ خصائص میں آلودہ ہونا ہے۔ لہٰذا ہر ذی ہوش مسلمان کا فرض ہے کہ اصلاح اخلاق کی جانب توجہ دے، اور جیسے بھی ممکن ہو اخلاق کو انفرادی و اجتماعی سطح پر سنوارا جائے تاکہ مستقبل میں ہم دنیا کی قوموں میں ایک معزز قوم بن کر اُبھر سکیں۔ (لیکچرار لاہور کالج براے خواتین یونی ورسٹی، لاہور)